نوشتۂ پسِ دیوار و در
(انسان کی بے اختیاری)
جوں ہی فیصل نے کہا ’اے خدا! میں ٹھیک دس بجے خود کشی کرنے والا ہوں، اگر تو مجھے رو ک سکتا ہے تو روک لے، واقعات کا ایک دراز سلسلہ شروع ہوگیا۔
یکایک دروازے کی گھنٹی بج اٹھی۔ اس نے پر یقین لہجے میں خود سے کہا۔
’’دروازہ نہیں کھولوں گا‘‘۔
اورپھر رسی کا پھندا بنانے لگاجو اس نے دو روز پہلے جوڑیا بازار سے خریدی تھی۔ سوتی دھاگے کی سخت گھتُی ہوئی سفید رسی اسے پسند آئی تھی۔ جب وہ اس کی مضبوطی کا اندازہ لگانے کے لیے مٹھیوں میں دبا کر جان لگا رہا تھا، تو دکاندار نے ہنستے ہوے کہا۔
’’چار بندے لٹکادو، مگر ٹوٹے گی نہیں‘‘۔
اس نے چونکتے ہوے دکاندار کو دیکھا اور بولا۔
’’کیا مطلب؟‘‘
’’میرا مطلب ہے کہ آپ تو صرف کپڑے سکھانے کے لیے جانچ رہے ہوں گے، لیکن اگر ان کپڑوں میں بندے بھی ہوں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا‘‘۔
’’اوہ‘‘۔ دکان دار کی بات سن کر اس نے ٹھنڈی سانس لی تھی۔
پھندا بنانے کے لیے رسی کے ایک سرے پر گول چھلّا سا بنایا۔ اس اثنامیں دروازے کی گھنٹی دوبارہ بج اٹھی، اور ایک آواز بھی سنائی دی۔
’’کچرا دے دو‘‘۔
وہ سمجھ گیا۔ اپارمنٹ کا جمعدار تھا جو معمول کے مطابق کچرا لینے آیا تھا ۔ اس نے پہلے ہی فیصلہ کرلیا تھا کہ دروازہ نہیں کھولے گا۔ جب تیسری بار جمعدار نے آواز کے ساتھ ساتھ دروازہ بھی پیٹ ڈالا تو وہ چیخ اٹھا۔
’’کچرا نہیں ہے۔۔۔ جاؤ۔۔۔‘‘
’’تو صاحب میری تنخواہ تو دے دو‘‘۔ جمعدار کی آواز سنائی دی۔ ابھی وہ کہنا ہی چاہ رہا تھا کہ تنخواہ کل آکر لے جانا، تو اسے خیال آیا کہ وہ تو کل ہوگا ہی نہیں۔ یہ سوچ کر وہ الجھن میں پڑگیا۔ اسے جمعدار کو تنخواہ دینا چاہیے۔ کل جب میری لاش یہاں سے ملے گی تو وہ لوگوں سے یہی کہے گا کہ میری صاحب سے بات ہوئی تھی، تب تک وہ یقیناًزندہ تھے۔ انہوں نے میری تنخواہ دینے سے کیوں گریز کیا۔ لوگ تو مرنے سے پہلے سارا حساب کتاب، لین دین کرکے جاتے ہیں۔ صاحب کو پہلے سے معلوم تھا کہ وہ مرنے جارہے ہیں۔۔۔ نہیں! یہ میرے بارے میں اچھی رائے قائم نہیں ہوگی۔ مگر دوسرے ہی لمحے اس نے خود ہی سوال کیا کہ کہیں میرا خدا مجھے روکنے کی کوشش تو نہیں کررہا؟ جس طرح جو زفین کے خدا نے موڑ کاٹتی ہوئی موت سے آگاہ نہیں ہونے دیا تھا۔ اگر ایسا ہے تو میں دروازہ نہیں کھولوں گا، چاہے میں مقروض ہی کہلاؤں۔ مگر ضمیر اس کی طرح ابھی زندہ تھا جواسے اکسارہا تھا کہ وہ تھوڑا سا دروازہ کھول کر جمعدار کی ادائیگی کرے اور فوراً دروازہ بند کردے۔
اس نے یہ سوچتے ہوے ادھورے چھلے والی رسی ایک طرف رکھ دی اور والٹ سے دو سو روپے نکال لیے۔ تمام فلیٹ والوں کی طرح وہ بھی جمعدار کو سو روپے ماہانہ دیا کرتا تھا ۔ مگر نہ جانے کیا سوچ کر اس نے دو سو روپے دینے کا فیصلہ کیا۔ پیسے مٹھی میں دبا کو وہ دروازے کی طرف بڑھا اور ہینڈل گھمایا اور دروازے میں معمولی سی جھری پیدا کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہلا نے فون کان سے لگایا۔ فون اس کے بیٹے کے اسکول سے تھا۔ اس نے ساری بات توجہ سے سنی تھی، مگر یہ سن کر کہ خسرو نے فیس نہیں جمع کروائی ہے، لہذا اس کا امتحانی فارم نہیں بھیجا جاسکے گا، وہ پریشان ہوگئی اور بولی۔
’’میں ابھی چیک کرتی ہوں۔ اگر جمع نہیں ہوئی تو ابھی جمع کروا کر فوٹو کاپی لے کر آتی ہوں‘‘۔
یہ کہتے ہوے شہلا نے درازیں کھنگالیں تو وہاں واؤچر پڑا ہوا مل گیا۔ اس نے جلدی سے اپنے بالوں کو ایک کلپ میں پھنساتے ہوے واوچر کو دستی پرس میں رکھا، رقم چیک کی، گھڑی کی طرف دیکھا، لائٹس بند کیں اور نیم تاریکی میں شیلف سے چپلیں نکالیں اور پیروں میں ڈالتے ہوے دروازے کی طرف بڑھ گئی۔ باہر نکل کر دروازہ بند کردیا۔ آگے بڑھ کر اس نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو خیال آیا کہ اس نے اونچی ہیل کی سینڈل پہل لی ہے۔ وہ چونکی۔ اسے یاد آیا کہ ہفتہ بھر پہلے جب آرتھو پیڈک سرجن کو اپنی رپورٹیں دکھائیں تو اس نے تاکید کی تھی کہ اونچی ہیل کے سینڈل پہننے سے گریز کریں، آسٹروفروسس نے پیروں کی ہڈیاں بہت کمزور کردی ہیں۔ وہ جلدی سے واپس پلٹی اور پرس میں سے چابی نکالنے لگی، مگر پرس میں دروازے کی چابی نہیں تھی۔ وہ بے دھیانی میں ڈریسنگ ٹیبل سے چابیاں اٹھانا بھول گئی تھی۔
اب دروازہ کیسے کھلے گا؟ پریشان ہو کر سوچتے ہوے اس نے خود کو تسلی دی۔ جیسے بھی ہوگا بعد میں کھل جائے گا۔ ابھی تو مجھے بینک پہنچنا ہے۔ فیصلہ کرتے ہوے وہ تیزی سے پلٹی اور زینہ اترنے لگی۔ مگر دو سیڑھیاں ہی اتر پائی تھی کہ اس کا پیر اچانک مڑا، ہلکی سی چٹخ کی آواز آئی، جیسے کسی بچے نے پنسل کی نوک توڑدی ہو اور وہ ہائے کہتی ہوئی لہرا گئی۔ شہلا نے جلدی سے زینے کی ریلنگ کا سہارا لیا مگر سنبھل نہ سکی اور نیچے لڑھکتی چلی گئی۔
یہ وہی لمحہ تھا جب زینے کی آخری سیڑھی کے سامنے والے دروازے سے فیصل نے جھری پیدا کرکے جمعدار کو پیسے دینے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ چاروں گہری نیلی وردیاں پہنے کار میں بیٹھے تیز رفتاری سے نئے تعمیر کردہ انڈر پاس سے گزررہے تھے ۔ ان کی منزل دو کلومیٹر آگے پرائیویٹ بینک تھا۔ ان کا پانچواں ساتھی بینک میں سیکورٹی گارڈ کی نوکری کررہا تھا اور ان کی راہ نمائی کے لیے پہلے سے بینک میں موجود تھا۔ سارا منصوبہ اسی کا بنایا ہوا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ مہینے کی کن تاریخوں میں بینک میں کیش بہت آتا ہے۔
انڈر پاس اور فلائی اوور بننے کے باوجود شہر میں ٹریفک کا دباؤ بدستور موجود تھا۔ اس وقت بھی یہی صورتحال تھی۔ ان کی کار رینگ رینگ کر گزررہی تھی۔
ڈرائیور کے برابر والی سیٹ پر بیٹھا گھنی داڑھی والا نوجوان بولا۔
’’جتنی ر قم شمشیر نے ہمیں بتائی ہے، اگر اتنی ہاتھ لگ جائے تو ففٹی ففٹی میں بھی سودا برا نہیں ہے‘‘۔
’’چار چھ مہینے چھپنے کی قیمت تو ہمیں دینا ہی پڑے گی‘‘۔
پیچھے بیٹھے ہوے دو میں سے ایک بولا۔
’’مسلسل جنگ لڑنے کے لیے ان کو بھی تو پیسہ چاہیے‘‘۔ یہ دوسرے کی آواز تھی۔
’’ابے جنگ بول کر ان کی توہین مت کرو‘‘۔ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ہوا شخص بولا۔ ’’یاد نہیں ہے کہ میرے منہ سے جنگ نکل گیا تو انہوں نے کیسے غصے میں مجھے ڈانتے ہوے کہا تھا کہ جنگ تو کافر لڑتے ہیں، ہم جہاد کرتے ہیںیار کبھی کبھی تو انہیں دیکھ کر ڈر لگتا ہے کہ نہ جانے کس بات پر غصے ہوکر وہ گردن اڑادینے کا حکم دے دیں۔ شمشیر تو پیدا ہی ان پہاڑوں میں ہوا ہے۔ وہ بتارہا تھا کہ ہم جیسے نہ جانے کتنے لوگ وہاں قیمت ادا کرکے پناہ حاصل کرتے ہیں‘‘۔
باتیں کرتے ہوے وہ مطلوبہ جگہ پہنچ گئے۔ ڈرائیور نے گاڑی ایک مناسب جگہ پار کردی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی فیصل نے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ یکایک سامنے سیڑھیوں سے کوئی لڑھک کر نیچے کی طرف آتا دکھائی دیا۔ وہ چونکا یہ اوپری منزل پر رہنے والی مسز شہلا تھیں ۔ وہ تیزی سے دروازہ کھول کر ان کی مدد کے لیے لپکا۔ وہ شش و پنج میں تھا کہ کس طرح غیر عورت کو سہارا دے۔ مسز شہلا کے چہرے پر درد کی کیفیت سے صاف عیاں تھا کہ انہیں شدید چوٹ آئی ہے۔
’’ہائے میرا پیر‘‘۔ مسز شہلا درد سے چیخ رہی تھیں۔
’’صاحب! لگتا ہے میڈم کے پیر میں فریکچر ہوگیا ہے‘‘۔
جمعدار نے رائے دی۔
فیصل نے غصے سے اس کی طرف دیکھا، مٹھی میں دبائی رقم اس کی ہتھیلی پر رکھی اور پھر مسزا شہلا سے مخاطب ہوا۔
’’مس ! کیا میں آپ کو سہارا دوں؟‘‘
’’میں نہیں اُٹھ سکتی۔ میرے پیر میں کچھ ہوگیا ہے‘‘۔
مسز شہلا درد سے کراہتے ہوے بولیں۔
’’میں آپ کو ہسپتال لیے چلتا ہوں‘‘۔ فیصل بولا۔ وہ جانتاتھا کہ مسز شہلا اپنے بیٹے خسرو کے ساتھ اکیلی رہتی ہیں۔ اس نے جھجھکتے ہوے پوچھا۔ ’’آپ مائنڈ نہ کریں تو میں آپ کو گود میں اٹھالوں‘‘۔
’’پلیز!‘‘ مسز شہلا نے اس کے مہذب لہجے کو محسوس کرتے ہوے التجا بھری نظروں سے دیکھا۔
کچھ ہی دیر میں وہ انہیں اپنی کار میں قریبی ہسپتال لے کر پہنچ گیا۔ اس دوران وہ بھول گیا کہ وہ اپنے خدا کو چیلنج کرچکا ہے۔ جس لمحہ وہ انہیں اس وہئیل چیئر پر ایکسرے لیب کی طرف لے جارہا تھا تو مسز شہلا نے درد سے کراہتے ہوے کہا۔
’’فیصل صاحب! میرا ایک بہت ضروری کام اور کردیں تو میں آپ کی احسان مند رہوں گی‘‘
’’جی فرمائیں، میں حاضر ہوں؟ ‘‘وہ بولا۔
مسز شہلا نے اپنے پرس کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا۔ ’اس میں میرے بیٹے کے اسکول کا واؤچر ہے جو ابھی جمع کروانا بہت ضروری ہے۔ اگر رہ گیا تو میرا بیٹا بورڈ کے امتحان میں نہیں بیٹھ سکے گا۔ اگر آپ گلشن والی برانچ میں جمع کروا کر اس کی کاپی وہیں پیچھے دوسری گلی میں میرے بیٹے کے اسکول میں پرنسپل کو پہنچا دیں تو یہ مجھ پر آپ کا ایک اور احسان ہوگا۔ تب تک میرا پلاسٹر بھی ہوچکا ہوگا‘‘۔
فیصل نے واؤچر اور پیسے لیے اور بینک کی طرف روانہ ہوگیا۔ راستے میں اسے یاد آیا کہ وہ تو خودکشی کرنے جارہا تھا، یہ کس الجھن میں پھنس گیا۔ مگر پھر خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ وہ تو میرا اٹل فیصلہ ہے۔ اگر تھوڑی دیر ہو بھی گئی تو کیا فرق پڑے گا۔ جو میرے ساتھ ہوچکا ہے اس کا ازالہ تو ہو نہیں سکتا۔ نہ میری خوشیاں واپس آسکتی ہیں، نہ میرا ہونے والا بیٹا اور نہ ہی جوزفین۔۔۔ سب کچھ ایسا ہی رہے گا۔۔۔ تقدیر کے ہاتھوں بے بسی کا کھیل، جس میں ہمیشہ شکست انسان کا ہی حصہ بنتی ہے۔ اگر کوئی تقدیر کے دائرے کو توڑ کر باہر نکلنے کی کوشش کرے تو وہ انسان کے ساتھ بھیانک کھیل کھیلنے لگتی ہے۔ جیسے جوزفین کے ساتھ کھیلی تھی۔
گاڑی چلاتے ہوے خیالات کار کی رفتار سے زیادہ تیز تھے۔
کیسی چھوٹی چھوٹی آرزوؤں ، خواہشوں اور تمناؤں کے ساتھ وہ جیتی تھی۔ حادثے سے چند لمحہ پہلے تک وہ کتنا خوش تھی۔ الٹرا ساؤنڈ کرتے ہوے ڈاکٹر نے اسے بتادیا تھا کہ بیٹا ہوگا۔ باہر آتے ہی اس نے مجھے منہ چڑاتے ہوے کہا تھا کہ تم ساری زندگی مجھ سے ہارتے ہی رہو گے ۔ آج بھی ہار گئے۔ میں اسے کیسے بتاتا کہ میں ہمیشہ اسے جتوانے کے لیے جان بوجھ کر ہارتا رہتا ہوں۔ میں تو بس اسے خوش دیکھنا چاہتا ہوں جس نے میری محبت میں اپنے ماں باپ کو چھوڑ دیا تھا جنہیں اپنی بیٹی کی ایک مسلمان سے دوستی پر اعتراض نہیں تھا مگرشادی پر بہت سارے تحفظات تھے۔ تب ہم نے کورٹ میرج کرتے ہوے طے کیا تھا کہ ہم دونوں اپنے اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوے زندگی گزاریں گے۔ مگر کیا پتا تھا کہ کچھ ماہ کی مسرتوں کو اچانک نظر لگ جائے گی اور کلینک کے دروازے پر کار میں بیٹھے ہوے غلط سمت سے موڑ کاٹتا ہوا ٹرالر اسے روندتا ہوا گزر جائے گا۔ تقدیر نے ٹرالر کے بھیانک روپ میں جوزفین کو نہیں مجھے روندا تھا۔ مگر اب میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔ اگر تمام تر خواہشوں، آرزوؤں کے باوجود بھی جوزفین زندگی کے کچھ اور رسیلے گھونٹ نہیں پی سکتی تو پھر میں بھی کیوں زندہ ہوں۔ تقدیر نے میری زندگی کے اگلے لمحوں کے لیے کیا طے کیا ہے یہ میں نہیں جانتا اور نہ ہی جاننا چاہتا ہوں۔۔۔ بس اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرنا چاہتا ہوں، اور یہ میرا فیصلہ ہے کہ آج میں دس بجے اپنی زندگی کا اپنے ہاتھوں سے خاتمہ کرلوں گا۔ حرام موت کی صورت میں ۔۔۔
یہ سوچتے ہوے اس نے گھڑی دیکھی۔ ابھی ساڑھے نو بج رہے تھے۔ اسے لگا کہ ان سارے کاموں کو نبٹانے میں اسے کچھ دیر ہوسکتی ہے۔ اس نے خود ہی طے کیا کہ وہ واؤچر جمع کروا کر سیدھا فلیٹ چلا جائے گا ۔ مسز شہلا خود بھی اپنے گھر واپس آسکتی ہیں۔ حادثات کی صورت میں انسانی ہمدردی کا یہی تقاضا کافی ہوتا ہے کہ مضروب شخص ہسپتال پہنچادیا جائے۔ اس کے بعد تو روٹین کی زندگی ہوتی ہے۔ اور کبھی کبھی تو مضروب شخص ہسپتال پہنچائے جانے سے پہلے ہی زندگی سے ناطہ توڑ لیتا ہے۔ جیسے جوزفین۔۔۔
فیصل یہ سب سوچتے ہوے بینک پہنچ چکا تھا۔ یکایک اس کا ارادہ ڈانوا ڈول ہونے لگا۔ خسرو کا واؤچر جمع نہ ہونا حادثہ تو نہیں؟ اس نے خود سے سوال کیا۔ اسے جواب نفی میں ملا۔ یہ انسانی ہمدردی کی نچلی سطح ہے۔ اگر کوئی کسی کے لیے اتنا وقت نکال سکتا ہے تو نکال دے ورنہ لیٹ فیس سے بھی تو پے منٹ ہوسکتی ہے۔
’’تو کیا میں لوٹ جاؤں؟‘‘
اس نے خود سے پوچھا۔ یہ فیصلہ تو تمہیں ہسپتال میں مسز شہلا کے سامنے ہی کرنا تھا۔ ان سے وہیں معذرت کرلینا تھی۔ اب بینک کے دروازے کے سامنے کھڑے ہو کر لوٹ جانا حماقت ہوگی۔ اس نے خود کو جواب دیا۔ چند منٹ کی بات ہے۔ میں یہاں سے اسکول نہیں جاؤں گا۔ اصل کام تو بینک میں فیس جمع ہونا ہے وہ جمع ہوجائے ،کافی ہے۔
اپنے الجھے سوالوں کے خود ہی جواب دے کر وہ مطمئن ہوگیا اور بینک میں چلا گیا۔
بینک میں داخل ہونے والا وہ آخری آدمی تھا کیوں کہ اس کے پیچھے دھماکے سے مرکزی دروازہ بند ہونے کی آواز آئی تھی۔ سیکیورٹی گارڈ کی وردی میں ملبوس ڈاکوؤں نے پلک جھپکتے ہی ایک اجنبی عورت اور فیصل کو جکڑ کر دونوں کی گردن پر ٹی ٹی رکھ دی۔ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ بینک کے عملے اور دیگر لوگوں کے چہروں کی اڑی ہوئی رنگت بتارہی تھی کہ وہ سب جانتے ہیں کہ اب کیا ہوگا۔
فیصل کو داڑھی والے شخص نے سختی سے جکڑ کر ٹی ٹی کی ٹھنڈی نال اس کی گردن سے لگارکھی تھی۔ اچانک فیصل کے اندر کوئی ہنستے ہوے بولا۔
’’کیا تم اپنی مرضی سے مرسکتے ہو؟‘‘
بدن کو دریدہ دریدہ کردینے والی برفیلی ہنسی نے اس کے وجود میں کسی گلشیر پر دھری گیلی لکڑیوں کی طرح سلگا کر رکھ دیا تھا۔ وہ خدا سے ،خود سے ،اور تقدیر سے بغاوت پر آمادہ تھا۔ وہ انتہائی سرعت سے کسی ٹھنڈے یخ دریا میں زندہ ٹراؤٹ کی طرح مچل کر داڑھی والے کی گرفت سے نکلا اور دروازے کی طرف لپکا۔ مگر تقدیر تو خود ٹھنڈے یخ دریا میں زندہ ٹراؤٹ کی طرح مضطرب اور بے چین تھی، جو کسی کی مرضی سے حرکت نہیں کرتی۔ داڑھی والے نے جوں ہی فیصل اور صورتحال دونوں کو بے قابو ہوتے دیکھا تو اس نے ایک ماہر نشانہ باز کی طرح انگلی کو جنبش دیتے ہوے ٹریگر دبادیا۔ سخت طاقتور اسپرنگ اپنے چھلے سے شدید جھٹکے سے باہر لپکا، گولی سے ٹکرایا، گولی اندھے ٹرالر سے زیادہ تیز رفتاری سے برآمد ہوئی اور اپنے ہدف کی طرف بڑھی۔
تقدیر نے دکھ کا سیاہ غلاف اوڑھتے ہوے مگر ٹھنڈی یخ مسکراہٹ کے ساتھ اپنی آنکھیں بند کرلیں۔
افسانہ نگار کو نہیں معلوم کہ گولی نے فیصل کی گردن کو چھوا ،یا نہیں۔ البتہ اتنا ضرور معلوم ہے کہ اس وقت ٹھیک دس بج رہے تھے۔
۲۰۰۸ء
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.