Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نوائے پریشاں

ریحان علوی

نوائے پریشاں

ریحان علوی

MORE BYریحان علوی

    نئے زخم ہم کو دیے جا رہے ہو

    دعائیں ہماری لیے جا رہے ہو

    یہی وہ غزل تھی جسے آج کل میں دن رات سن رہا تھا کیونکہ ٹیلیفون پر اس کھنکتی ہوئی آواز میں کئی دفعہ یہی غزل سن چکا تھا اور اب غزل کا ایک ایک مصرع میرے لیے ہزار ہزار معنی رکھتا تھا۔

    دوستوں، ساتھیوں اور گھر والوں کو چھوڑ کر میں ملازمت کی تلاش میں گاؤں سے کراچی آ گیا تھا۔ موبائل نہ دینے پر قتل تک کے واقعات جیسی خبریں سن سن کر چلتے وقت ابا نے نصیحت کرتے ہوئے کہا تھاکہ ایک گاؤں سے جانے والے نووارد کو موبائل کے جھنجھٹ میں پڑنا ہی نہیں چاہیے اورمیں نے بھی ایک فرمانبردار پینڈو کی طرح ان کی بات کو گرہ سے باندھ لیا تھا۔ مگر اس گھر سب سے بڑی سہولت لینڈ لائين کے فون کی تھی۔

    ’’ویسے شہر کی کڑیاں گاؤں کے کڑیل مگر ہونق اور گاؤدی لڑکوں پربھی مرمٹتی ہیں اور تُوتو ویسے بھی لمبا چوڑا، گورا چٹا، سرخ سفید، گبھرو جوان ہے۔‘‘ گاؤں سے چلتے وقت میرے یاروں نے یہی سب دماغ میں ٹھونس دیا تھا۔ دوستوں کے معاشقے اور محبت کی داستانیں سُن سُن کر مجھ پر بھی ہزاروں بار عشق کے بھوت نے سوار ہونے کی کوشش کی۔ مگرکئی کئی گھنٹے آئینے کے سامنے آڑی ترچھی اور درمیانی مانگ نکالنے، تیل، جیل (GEL)اور کریمیں تھوپنے، کلف لگے کالر سیدھے کرنے، دانتوں پر دنداسا، مسواک اور ٹوتھ پاؤڈر کے ساتھ طرح طرح کے منجن ملنے کی تمام مشقوں کے باوجود اب تک کسی لڑکی نے مجھے گھاس تک نہ ڈالی تھی۔ کئی قریبی دوستوں کی مشاورت کے بعد میرے’’گیٹ اَپ‘‘ میں بھی کافی تبدیلی آ چکی تھی۔ ایک مخلص دوست نے میرے سر کے بیچوں بیچ نکلی بالوں کی مانگ کو ’’تلوار سے نکالی گئی‘‘ مانگ قرار دیا، تو میری مانگ ترچھی ہوگئی۔ دوسرے دیرینہ ساتھی نے میری بادامی آنکھوں کے کونوں سے نکلتی سرمہ کی دھاروں پر اعتراض کیا تو بچپن کی یہ سوغات بھی متروک ہوئی۔ ایک اور رازدان نے دراز مونچھوں کے دائیں بائیں آدھے دائرے بناتے گول گول کونوں کو جلیبی سے تشبیہ دی تو میں’’کلین شیو‘‘ ہوکر ’’پالش شدہ گڈا‘‘ بن گیا۔ ان تمام تبدیلیوں کے باوجود ابھی تک میرا نصیب سویا پڑا تھا۔ میرے گھر سے تین گھر چھوڑ کر مرزا صاحب کا گھرتھا جن کا تیرہ چودہ سالہ لڑکا گُلو میرے گھر گرنے والی کٹی پتنگ لوٹنے گیٹ پھلانگ کر آجاتا۔ شروع میں تو میں نے گُلو کو بالکل لفٹ نہیں کرائی، مگر جب کئی بارآتے جاتے اس نے اپنی باجی کی تعریفوں کے پل باندھے تو مجبوراً مجھے گلُو پر مہربان ہونا ہی پڑا، کیونکہ اگر بات بن جاتی تو میں بھی دوستوں میں بیٹھ کر اپنے شہری معاشقے کے قصے سنانے کے قابل ہو سکتا تھا۔ بقول گلُو، اس کی باجی اکثر میرے متعلق پوچھتی رہتی تھیں۔ میں بات آگے بڑھانے کی جستجومیں گُلو پر مہربان ہونے کی کوششیں کر ہی رہا تھا مگر اسی دوران میں فون پر غزل سرا ہونے والی ایک نئی قیامت میرے ہوش و حواس پر سوار ہو گئی۔اس کی ابتدا بھی رانگ نمبر سے ہوئی۔

    شروع میں تو کئی دفعہ ایسا ہوا کہ ادھر میں نے ریسیور اٹھایا اور اُدھردوسری طرف سے فون بند۔۔۔ مگر اب دو چار دن سے رسیور اٹھاتے ہی دوسری جانب سے ایک جلترنگ سی آواز میں غزل چھیڑ دی جاتی اور میرے دل کے تاروں کو جھنجھنا کر کھٹ سے فون بند کر دیا جاتا۔ پہلے پہلے تو میں یہ سمجھا کہ کوئی نفسیاتی مریضہ ہے جسے گانے کا بہت شوق ہے مگر اس کے راگ سننے والا کوئی نہیں، اس لیے وہ احساسِ کمتری کی وجہ سے ایسا کرتی ہے اگرچہ وہ آواز کچھ ایسی اچھی بھی نہ تھی مگر مجھ جیسے بزدل پر بلاجھجک ایک نسوانی آواز کا مائل ہو جانا ہی کچھ کم قیامت نہ تھا۔ چند روز بعد دونوں طرف سے کچھ پیش رفت ہوئی اورغزل کے علاوہ کچھ باتیں بھی ہونے لگیں مگر یک طرفہ۔میں ہونقوں کی طرح گنگ ہوجاتا اور بعد میں خود کو کوستا۔میں نہ چاہتے ہوئے بھی روز فون کی گھنٹی کا منتظر رہتا۔ یہ بات بھی میرے لیے کچھ کم خوشی کی نہیں تھی کہ میں بیک وقت دو عشق شروع کرنے کی پوزیشن میں تھا۔ گلُو کی باجی سے بھی اور فون والی نٹ کھٹ حسینہ سے بھی۔ میں گھنٹوں خیالوں میں دونو ں کے چہروں کے نقوش اور خدوخال بناتا رہتا۔کبھی میرے دماغ میں لمبی زلفوں اور تیکھے نقوش والی دو شیزہ فون پر راگ الاپ رہی ہوتی تو کبھی برقعے میں لپٹی لپٹائی گلُوکی باجی ذہن کے جھرو کے میں آ کر جھٹ سے نقاب الٹ دیتیں اور اُن کے پھیکے نقوش دیکھ کر مجھے افسوس سا ہوتا مگر یہ سب میرا وہم تھا۔ مجھے کچھ معلوم نہ تھا کہ وہ دونوں کیسی تھیں، رنگ کی گوری یا آنکھ سے بھینگی۔ البتہ گلو کی باجی میرے ذہن کے دریچے کھولتے وقت بھی برقعہ اوڑھ کر آتیں کیونکہ میں نے کئی دفعہ ایک برقعہ پوش لڑکی کو گلو کے گھر میں آتے جاتے دیکھا تھا۔ گلو کی اماں کا تو انتقال ہو چکا تھا اس لیے مجھے پکا یقین تھا کہ وہی برقعے والی گُلّو کی باجی ہیں۔اس دن بھی میں ان ہی دو مورتیوں کے متعلق نئے نئے خیالات کے تانے بانے بن رہا تھا جن سے بیک وقت میرے عشق کا آغاز ہونے والا تھا کہ اتنے میں گُلّو آدھمکا۔ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد میں نے جی کڑا کر کے گُلّو سے اس کی باجی کا ذکر چھیڑ دیا۔

    ’’تمھاری باجی کا نام کیا ہے؟‘‘

    ’’بِلّو۔ ‘‘

    اس نے لٹو پر ڈوری لپیٹتے ہوئے کہا۔

    ’’بِلّو ؟‘‘

    بڑا غیررومانی سا نام ہے۔ میں نے دل میں سوچا، مگر نام میں کیا رکھا ہے۔میں نے خود کو حوصلہ دیا۔

    ’’وہ گھر میں کیا کرتی رہتی ہیں؟‘‘ میں نے جی کڑا کے بات آگے بڑھائی۔

    اس نے مجھے یوں دیکھا جیسے اپنی باجی کا مجھ سے ذکر کر کے پچھتا رہا ہو۔

    ’’آپ میرے لیے پتنگیں کیوں نہیں لائے۔‘‘ اب وہ منہ پھاڑ کر فرمائشیں کرنے لگا تھا۔ عجیب بد تمیز لڑکا ہے، لٹو، پتنگ، مانجھا، ڈور۔۔۔ا کیسے بے ہودہ قسم کے شوق ہیں اس کے۔یہ نہیں کہ مہذب اور شریف بچوں کی طرح بیٹھ کر اپنی باجی کے بارے میں تفصیل سے کچھ بتائے۔

    ’’لاد وں گا بھئی۔‘‘

    کتنا جی کڑا کر کے تو سوال کیا تھا مگر اس کم بخت نے فرمائشیں شروع کر دیں۔ اب میرے منہ سے بھلا خاک دوبارہ کوئی سوال نکلے گا؟

    ’’گُلو تم کوئی چھوٹے بچے تو نہیں، تیرہ چودہ سال کے تو ہو گے، کھیل کود چھوڑو اور پڑھائی پر دھیان دو۔‘‘

    میں نے اُسے نصیحت کرنا چاہی مگر آپ جانیں، محبوبہ اور بچے دونوں نصیحت سے چڑتے ہیں اور گُلّو نے تو مجھے ایسے دیکھا جیسے میں نے کوئی احمقانہ بات کہہ دی ہو۔ پھر لمبی سی ھنکار بھرتے ہوئے کچھ اس طرح مقرر کے انداز میں بولا، ’’آپ کو معلوم ہے مانجھا ڈور بیچنے والا صدّو ماما بی اے پاس ہے۔نہ صرف وہ بلکہ محلے کا مانا ہوا کنکوے باز شَیدُو نے آن لائین ڈپلومہ کر رکھا ہے اور تو اور، گلی کے ماہر ترین لٹو باز شیکی بھائی اور ایک ہزار پتنگیں لوٹنے کا ریکارڈ بنانے والا مجو ٹنڈا، دونوں ڈبل میٹرک ہیں۔۔۔ یعنی دو بار میٹرک کیا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ پاس نہ ہو سکے، مگر پان والا اسلم کہتا ہے کہ پھر بھی ان دونوں کی ہمت کی داد دینی چاہیے کیونکہ گاؤں والے تو ایک بار کے میٹرک میں ہی ہانپنے کانپنے لگتے ہیں۔اس نے مجھ پراُچٹتی سی نظر ڈالتے ہوئے کہا۔۔۔‘‘

    کیا۔۔۔ کیا مطلب ہے تمھارا۔۔۔؟ میں نے ہکلاتے ہوئے پوچھا۔

    ’’میں پتنگوں کے لیے یہ نوٹ لے لوں؟‘‘ اس نے میری بوکھلاہٹ نظرانداز کرتے ہوئے میری دراز میں پڑا پچاس کا نوٹ میری آنکھوں کے سامنے لہرایا اور میرے ہر دو جواب سے پہلے ہی نوٹ کو موڑ تروڑ کر اپنی جرسی کی جیب میں ٹھونس اور مجھے ہکا بکا چھوڑ چھلاوے کی طرح غائب ہو گیا۔ اس بے ہودہ لڑکے نے کتنی آسانی سے چند منٹوں میں سارے پڑھے لکھوں کی عزت خاک میں ملادی۔ یعنی دو بالشت کا چھوکرا اخلاقی اور مالی دونوں ہی طور پر زک پہنچا کر رفوچکر ہو گیا اور میں اس کم بخت کی باتوں پر پیچ و تاب کھانے کے علاوہ کچھ بھی نہ کر سکا۔ دو تین دن ایسے ہی گزر گئے، مجھے اب اچانک یہ خلجان ستانے لگا کہ گُلّو کی باجی اور فون والی حسینہ دوالگ الگ لڑکیاں ہیں یا ایک ہی لڑکی کے دو روپ ہیں جو مجھے الو بنا رہی ہے مگر مجھے اس سے کیا۔ مجھے تو اپنے لیے ایک حقیقی اسکینڈل چاہیے تھا۔ایک ایسا اسکینڈل جو میں اپنے دوستوں کو سینہ پھلا کر سنا ؤں اور پھر ان کی شکلوں پر برسنے والی حسرت اور احساسِ محرومی سے لطف اندوز ہو سکوں۔ میں نے پھر و ہی سی۔ ڈی لگا دی۔میں نے یہ غزل کئی بار گلو کے سامنے گنگنائی تھی مگر اس کے تاثرات سے کچھ ظاہر نہ ہو سکا تھا کہ اس نے یہ غزل گھر میں بھی کسی کو گاتے سنی ہے یا نہیں۔ شاید وہ پہلی بار سن رہا تھا مگر نہیں وہ تو حسب معمول اپنے بے ہودہ مشغلے یعنی پتنگ کے کنّے باندھنے میں ہی مصروف تھا، میں نے سی۔ ڈی بند کردی۔

    ’’آپ نے گانا بند کیوں کر دیا؟‘‘

    گُلّو کا یہ پوچھنا مجھے ایسا لگا جیسے میں نے اسے اس کی پسندیدہ چیز سے محروم کر دیا ہو، میرا سراغرسانی کا جذبہ جاگ اٹھا۔

    ’’کیوں کیا تمھیں پسند ہے یہ غزل؟‘‘ میں نے اندھیرے میں تیر چلایا۔

    ’’بس ایسی ہی تھی، جب اس سانگ کی میوزک میں ٹن ٹن ٹن کی آواز آتی ہے تو باجی۔۔۔ وہ بات نا مکمل چھوڑ کر بے نیازی سے چرخی پر مانجھا لپیٹنے لگا۔‘‘

    ’’با۔۔۔ باجی کیا۔۔۔ توکیا۔‘‘ میں نے بے تابی سے پوچھا

    اس کے گول مول ادھورے جوابات سن کر میرا دل ہی دل میں اسے کچا چبا جانے کا دل چاہنے لگا۔

    ’’بالکل ایسا لگتا ہے جیسے۔۔۔‘‘

    کم بخت صاف صاف کیوں نہیں کہتا کہ گھر میں باجی کو گنگناتے سنا ہے۔ میں دل ہی دل میں پیچ و تاب کھارہا تھا۔

    ’’ہاں ہاں بولو کیسا لگتا ہے، کیا یہ میوزک سنی ہوئی لگتی ہے۔‘‘

    میں نے اپنی بے چینی چھپاتے ہوئے نرمی سے پوچھا۔

    ’’ہاں‘‘

    آخر کار اس نے اپنا نو من کا کدّو نما کھوپڑا ہلایا۔

    پھرمیری باچھیں کِھلی دیکھ کر بولا، ’’وہ جو گرمیوں میں قلفی والا آتا ہے بالکل اس کی گھنٹی کی آواز لگتی ہے۔‘‘

    یہ بے ہودہ جواب دے کر اُس نے میری طرف دیکھے بغیر اپنا لٹو پر ڈوری لپیٹنے کا کام مکمل کیا اور بے نیازی سے چرخی اٹھا کر باہر نکل گیا۔

    اس کے اس غیر متوقع اور نا قابلِ برداشت جواب پر میں تلملا کر ہی رہ گیا۔ دل چاہا اس نا معقول اور بے ہودہ لڑکے کو اس کے لٹو، ڈوری، چرخی، مانجھے اور دم لگی پتنگ سمیت بھسم کر ڈالوں۔ سارے رومانس کا بیڑاغرق کر دیا کم بخت نے۔ میں نے دل برداشتہ ہو کر سگریٹ سے دل بہلا نا چاہا مگر حسبِ معمول سگریٹ کی ڈبیا پھر غائب تھی۔نجانے یہ گُلّو میری سگریٹوں کو بیچ کر کتنی پتنگیں اور قلفیاں خریدتا ہوگا؟میں نے دوسری ڈبیہ اٹھاتے ہوئے سوچا۔

    دوسرے دن میں دفتر سے واپسی پر یونہی آوارہ گردی کے لیے بازار کی طرف نکل گیا۔ میں سگریٹ کے کش لگاتا ہوا باہر آ ہی رہا تھا کہ اچانک ٹھٹھک کر رہ گیا، سامنے وہی گلو کی باجی برقعے میں لپٹی لپٹائی کچھ خرید رہی تھیں۔ میں بھی دکان کے سامنے کھڑے ہو کر شوکیس میں رکھی ہوئی چیزیں دیکھنے لگا، کوشش کے باوجود میں اُن کی آواز نہ سن سکا۔

    ’’کتنے پیسے ہوئے؟‘‘

    اچانک نقاب کے پیچھے سے دو لب ہلے۔ یہ موٹی سی نسوانی آواز تھی۔ میں نے لاکھ ذہن پر زور ڈالا مگر اندازہ نہ کر سکا کہ ٹیلی فون والی آواز اور اس آواز میں کتنی مماثلت تھی۔ شاید یہ وہ آواز نہ تھی مگر ٹیلیفون پر اکثر آواز بدل بھی تو جاتی ہے میں کوئی حتمی رائے قائم نہ کر سکا۔ گُلّو کی باجی واپس جا چکی تھیں۔ شاید وہ ٹیلیفون والی ہی گُلّو کی باجی ہوں؟ میرے دماغ نے پھر نقشے بنانے بگاڑنے شروع کر دیے۔

    اب ہربے پردہ لڑکی پر مجھے فون والی پری وش کا گمان گزرتا اورہر برقع پوش پر گلو کی باجی کا واہمہ ہوتا۔ ایک دن میں گھر میں بیٹھا تھا کہ ٹیلیفون کی گھنٹی بجی اور دوسرے ہی لمحے ریسیور میرے ہاتھ میں تھا۔

    ’’جی دیکھیے آپ اپنا خیال رکھا کریں۔‘‘

    ’’جی جی۔۔۔‘‘ میرے حلق میں جیسے آواز پھنس رہی تھی۔

    ’’آپ سگریٹ تو نہیں پیتے‘‘

    ’’جی۔۔۔ جی۔۔۔ نہیں۔ ہاں نہیں تو۔۔۔‘‘

    میں نے ہاتھ میں دبی سگریٹ کی نئی ڈبیا کو تقریبا اچھال کر دور پھینکتے ہوئے جواب دیا۔

    ’’مگر سنیے آپ۔۔۔سے۔ ملاقات؟‘‘

    مگر فون کب کا بند ہو چکا تھا۔

    میں نے فوراً مرزا صاحب کا نمبر گھما یا اگر یہ گلو کی باجی تھیں تو یقیناًوہی ٹیلیفون اُٹھائیں گی، اتنے میں کسی نے ریسیور اُٹھایا، ’’ہیلو۔ کون بول رہا ہے؟‘‘

    وہی موٹی سی نسوانی آواز، جیسی میں نے گُلّو کی باجی کی شاپنگ کرتے وقت سُنی تھی۔ میں نے بے دلی سے فون بند کر دیا، یعنی فون والی لڑکی اور گُلّوکی باجی دو الگ الگ لڑکیاں ہیں۔ مگر آواز سے کیا ہوتا ہے؟ ممکن ہے گُلّو کی باجی ’’قیامت‘‘ ہوں، میں نے جلد بازی میں سوچے سمجھے بغیر بات کرنے کا سنہری موقع گنوادیا تھا، میں نے خود کو کوسا، دفتر میں بھی میرے کان فون کی گھنٹی پر چونک سے جاتے۔ گھر میں گھنٹی بجتے ہی میرا دل دھڑک اٹھتا، کان گھنٹی پر اور نظر گُلّو کے گھر پر لگی رہتی، عجب بے کلی کا عالم تھا۔ دونوں میں سے کسی کو بھی دیکھا نہ تھا مگر دونوں کی خیالی صورتیں میرے دل و دماغ پرخوبرو دلربا بن کر چھا گئی تھیں۔ مگر شاید یہ میری خوش فہمی ہی ہو ورنہ حقیقت میں وہ دونوں ہی بد شکل ہوں۔

    اب بے تابی کی یہ حالت تھی کہ کبھی گلو کی باجی بمع برقع ذہن پر سوار ہو جاتیں، کبھی ٹیلیفون کی گھنٹیاں غزل کی دھن بن کر ذہن پر رقصاں رہتیں، توکبھی تیکھے نقوش، سیاہ زلفیں سریلی اور موٹی آوازکے ساتھ کالا برقع سب آپس میں گڈ مڈ ہو جاتے

    اس دن میں کوشش کے باوجود سگریٹ کی طلب پر قابو نہ رکھ سکا اور سڑک پر ٹہلتے ہوئے سگریٹ پینے لگا۔ سامنے سے مرزا صاحب آ رہے تھے۔ مجبوراً مجھے پوری سگریٹ جوتے سے مسلنا پڑی۔

    ’’میں تو گھر پر رہتا نہیں ہوں کسی چیز کی ضرورت ہوا کرے تو بلا جھجک گُلّو میاں سے کہہ دیا کرو!ویسے گُلّو تمھیں تنگ تو نہیں کرتا؟‘‘ مرزا صاحب نے باتوں باتوں میں پوچھا۔

    ’’جی نہیں، گُلّو مجھے بالکل نہیں ستاتا، بس ذرا شریر ہے۔‘‘

    میں چاہنے کے باوجود سچ نہ بول سکا۔

    ’’بس میاں ذرا بگڑ گیا ہے۔ دراصل ماں کے انتقال کے بعد اس کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ تھا اور پھر اکلوتا ہونے کی وجہ سے میں نے بھی اس کے بے جا لاڈ اُٹھائے۔‘‘

    ’’اکلوتا؟‘‘

    میں نے ہکلاتے ہوئے پوچھا۔

    ’’مگر وہ تو کہہ رہا تھا کہ اُس کی باجی۔۔۔ میرا مطلب ہے پھر وہ برقعے والی خاتون جو اکثر آپ کے گھر آتی ہیں؟‘‘

    ’’ارے وہ، وہ تو عبداللہ صاحب کی بیگم ہیں۔ اکثر ٹیلیفون کرنے میرے یہاں آ جاتی ہیں۔ بیچاری جگر کی مریضہ ہیں اور سارے ڈاکٹروں سے فون پر ہی رابطہ رکھتی ہیں۔۔۔ مگرگُلّو کا بڑا خیال کرتی ہیں۔‘‘

    میرے کانوں میں سیٹیاں سی بج رہی تھیں۔ میں اس سے آگے کچھ نہ سن سکا اور الٹے قدموں گھر لوٹ آیا۔ میں گُلّو کو اپنے گھر کی چھت پر پتنگ اڑاتا ہوا چھوڑ آیا تھا اور اب تو اس کی خبر لینا بھی ضروری ہو گیا تھا۔ چلو خیر! اچھا ہی ہوا ایک عشق سے تو جان چھوٹی۔ وہ ٹیلیفون والی ہی ٹھیک رہے گی۔ میں اسی فون والی پری وش کے خیالوں میں کھویا ہوا گھر میں داخل ہوا مگر فون والے کمرے کا منظر دیکھ کر میرے ہوش و حواس گم ہو گئے۔۔۔

    مگر ٹہرٗیے۔۔۔ گائوں سے آنے والے ہمارے اس سادہ لوح بھولے بھالے نوجوان ہیرو نے کمرے میں داخل ہونے پر کیا ہوش ربا منظر دیکھا یہ جاننے کے لئیے ٓاپ کو کتاب، ایک غزل ایک کہانی پڑھنا ہوگی۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے