شروع شروع میں مجھے شبہ تھا کہ اس کی موت حادثاتی نہیں سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ تھی اور اس سازش میں پرائے ہی نہیں اس کے اپنے بھی شامل تھے۔ اگرچہ وہ کوشش بسیار کے باوجود میرے بارے میں پتہ نہ چلا سکے مگر انہیں کسی طرح یہ ضرور معلوم ہو گیا تھا کہ وہ ان کی خواہش اور فیصلے کے برعکس اپنی پسند کی کورٹ میرج کرنے والی تھی مگر جب گذشتہ برس میں اس کی چھوٹی بہن رحیلہ سے، جواس کی راز دار بھی تھی، رابطہ کرنے میں کامیاب ہو گیا تو اس نے میرے شک کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے یقین دلایا کہ زیبا کی دردناک موت کسی سازش کا نتیجہ نہیں ایک اتفاقی حادثہ ہی تھی جس میں اس کے علاوہ دوسرے بہت سے مسافر بھی جل کر راکھ ہو گئے تھے۔ مجھے اس کی بات پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نظر نہ آئی کہ اس کی روتی ہوئی معصوم آنکھیں جھوٹ، تصنع اور چالاکی سے یکسر نا آشنا تھیں۔
وہ مری تھی یا مار دی گئی تھی بہرحال اب اس دنیا میں نہیں تھی لیکن میں نے اسے دل کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ پربھی زندہ رکھا ہوا تھا۔میرے بس میں ہوتا تو میں اس کی یاد میں تاج محل تعمیر کروا دیتا مگر مجھ میں تو اس کی قبر پر جانے کا بھی حوصلہ تھانہ اس کی اجازت۔ اسے اپنے خاندانی قبرستان میں دفن کیا گیا تھا جہاں ہمہ وقت گورکن اور چوکیدار موجود رہتے اور کسی غیر کا گذر ممکن نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مجھے انٹرنیٹ پر اس کا مزار تعمیر کرنا پڑا تا کہ اس پر یادوں کے چراغ روشن کئے رکھوں۔
دنیا اگر توہّم کا کارخانہ ہے تو انٹرنیٹ جھوٹ اور جعلسازیوں کی فیکٹری۔کہتے ہیں جہاں لالچ وہاں ٹھگ۔ انعامات، تحائف اور لاٹریاں۔ چند ڈالروں کے عوض کروڑ پتی بننے کے نسخے۔ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا۔ ٹھگوں کو ٹھگنے والے ٹھگ۔ ویب کے سمندر میں ہر طرف مچھلیاں پکڑنے کی کنڈیاں،جن میں پر فریب اشتہارات کے ذریعے طمع کا چارہ لگا ہوتا۔ چٹکیوں میں ذہنی، جسمانی اور اقتصادی مسائل حل کر دینے کے دعوے، خلوص سے تہی دوستیاں اور وفا سے خالی محبتیں۔ بوڑھے نوجوان بن کر اور لڑکے لڑکیاں جنس بدل کر اور جعلی کوائف بتا کر ایک دوسرے کو دھوکہ دیتے۔چیٹنگ کرنے والوں کے زیادہ تر بلکہ تقریباً سبھی نام اور نک نیم فرضی، جعلی اور عجیب و غریب ہوتے مگر میں نے ویب پر اس کی ادبی حیثیت اور شان قائم رکھی تھی۔ میں نے علی بابا اور چالیس چوروں کی کہانی والے پاس ورڈ ’’کھل جا سم سم‘‘ سے اس کا ای میل اکاؤنٹ کھولا اور اس کی نظموں کو اپ لوڈ کرنے سے پہلے ایک استاد قسم کے شاعر دوست سے ان کی اصلاح کروا لی اور اگرچہ مجھے سچ بولنے یا کہنے کا کوئی دعویٰ تھانہ شوق پھر بھی میں نے ای میل اور ویب میں اس کا اصلی نام دیا۔ درحقیقت یہ ان پابندیوں کے خلاف ایک رد عمل تھا جو اس کے قدامت پسند خاندان میں زندہ اور مردہ خواتین پر لگائی جاتی تھیں۔ وہ زندہ ہوتی تو شائد میں کبھی اس کی ویب سائٹ بناتا نہ اس کی تصویر اس میں شامل کرتا اور اس کی نظمیں تو صرف میرے لئے ہوتیں مگر اب میں چاہتا تھا جیسے وہ میرے دل میں زندہ تھی نیٹ پربھی ایک زندہ وجود اور جیتی جاگتی شخصیت کے طور پر آباد رہے اور میں جب چاہوں اسے دیکھ اور اس کے نام ا ی میل بھیج سکوں۔ اسے یاد کرنے اور یاد رکھنے کا اس سے بہتر طریقہ میرے پاس نہیں تھا۔
انٹر نیٹ پر اس کی ویب سائٹ وسیع و عریض جنگل میں ایک چھوٹے سے گوشے کی طرح تھی۔ عام ڈگر سے ہٹ کر ایک گمنام سا مقام، جہاں میرے خیال میں کم ہی لوگوں کا گذر ہو سکتا تھا۔ میں نے بھی کسی سے اس کا ذکر کیا تھا نہ اس کا پتہ بتایا تھا۔ رحیلہ کو بھی نہیں۔ یہ اگرچہ خود کو دھوکہ دینے والی بات تھی مگر میرا کسی دوسرے کو دھوکہ دینے کا ارادہ ہر گز نہیں تھا مگر وہاں ہر کوئی دھوکہ دینے اور کھانے پر کمر بستہ نظر آتا۔ پتہ نہیں لوگوں کو کیسے اس کی سائٹ اور ای میل ایڈریس کاپتہ چل جاتا تھا۔ میں جب بھی اس کا میل باکس کھولتا وہ ڈاک سے اٹا پڑا ہوتا۔ میں مزار پر صبح و شام جھاڑو دینے والے کسی مج اور کی طرح اس کے میل باکس سے اشتہارات اور فضول قسم کی ای میلز ڈیلیٹ کرتا۔ کبھی کبھی بعض ای میلز پڑھ کر مجھے لگتا جیسے میں نے اسے بازار میں لا بٹھایا ہو میں فوراً ایسے پتے بلاک کر دیتا مگر پھر آہستہ آہستہ برداشت کرنے کی عادت پڑتی گئی اور کچھ عرصہ بعد یہ سلسلہ دلچسپ لگنے لگا اور میں نہ صرف بعض منتخب خطوط دلچسپی سے پڑھنے بلکہ ان کے جواب بھی دینے لگ گیا۔
کہتے ہیں اللہ اچھی اور خوبصورت چیزوں کو جلدی واپس لے لیتا ہے شاید وہ انہیں زیادہ آلودگی سے بچانا چاہتا ہے کیونکہ ہر خالق اپنی خوبصورت تخلیق سے زیادہ پیار کرتا ہے۔ اسے زندگی کے میلے پر بھیجتے وقت اسے تو علم ہی تھا اس نے کچھ خریدنا خرچنا نہیں،سارا بچا کر لے آنا ہے اس نے اسے میلہ دیکھنے کی فرصت دینے میں جتنی بخیلی برتی تھی اتنی ہی فیاضی سے بنا سنوار اور جیبیں بھرکر بھیجا تھا۔ کاش انسانی کلوننگ اس کے جل جانے سے پچیس تیس برس پہلے شروع ہو چکی ہوتی اور کسی شخص کے سیل سے اس کی ہو بہو کلونڈ کاپی بنانا ممکن ہو چکا ہوتا۔
کیمرے کا لینز حساس تو ہوتا ہی ہے میرا خیال ہے اس میں زندگی کی رمق اور حسِّ جمال بھی ہوتی ہو گی کیوں کہ اس کی ہر تصویر شاندار آتی تھی مگر یہ تصویر جو اس نے مجھے خود گفٹ کی تھی اور اب و یب سائٹ میں شامل تھی شائد کسی نہایت ہی با ذوق کیمرے نے اتاری تھی۔ تھوڑے ہی دنوں میں اس کی سائٹ وزٹ کرنے والوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہو گیا اور خطوط کا تانتا بندھ گیا۔ یہ سلسلہ بڑا دلچسپ اور مضحکہ خیز تھا۔ ایک مر چکی لڑکی سے دوستی کی خواہشمند اصلی یا نقلی لڑکیاں اور فلرٹ کرتے ان گنت لڑکے جو اس سے چیٹنگ اور ملاقات کرنا چاہتے بہت ہی احمق معلوم ہوتے۔ چونکہ وہ شاعرہ تھی اور اس نے ایم اے اردو کیا ہوا تھا اس لئے ہر کوئی شاعرانہ مزاج کا حامل، ادب و آرٹ کا شیدائی اور تنہائی کا ستایا ہوا۔ اس کی نظموں کی تعریف میں زمین اور آسمان کے قلابے ملائے جاتے اور ان کے جواب میں اور اس کی تصویر پر نظمیں گھڑی جاتیں۔ انٹرنیٹ اشتہارات اور بھی مضحکہ خیز معلوم ہوتے
مبارک ہو تمہارا نام اول انعام کے لئے چن لیا گیا
مژدہ کہ تم یورپ یا امریکہ کا ٹکٹ جیت سکتی ہو
اگر تم شاعرہ ہو تو انعامی مقابلے کے لئے اپنا کلام اس پتے پر بھیجو
فلاں یونیورسٹی کی ڈگری یا ڈپلوما حاصل کرنے کا سنہری موقع
خوش خبری، اب تم گھر بیٹھی ہر ماہ ہزاروں ڈالر کما سکتی ہو
نوید ہو کہ تمہاری اتنے کروڑ کی لاٹری نکل سکتی ہے وغیرہ
لاہور کا ایک نوجوان جو کمپیوٹر پروگرامنگ یا شاید سافٹ ویئر میں ایم ایس سی کر رہا تھا اور جس کانک نیم ’’کوئی تنہائی سی تنہائی ہے‘‘ تھا تو اس پر بری طرح فریفتہ ہو گیا۔ بار بار منع کرنے کے باوجود اس نے ڈاک سے کچھ قیمتی تحائف بھی بھجوا دئیے۔ جو ظاہر ہے ڈاکئے، چوکیداریا گورکن کے کام آئے ہوں گے۔ یہاں تک تو خیریت گزری مگر وہ ایک روز اسے ملنے اسلام آباد چلا آیا اور ڈھونڈتا ہوا اس کی قبر تک پہنچ گیا۔ میرا اندازہ ہے بعض اور عاشق مزاج نوجوانوں نے بھی اس کے ابدی گھر کا چکر لگایا اور سخت پریشان اور مایوس ہو کر لوٹے ہوں گے۔
یہ سلسلہ کچھ عرصہ یونہی چلتا رہا لیکن پھر اچانک ایک عجیب بات ہو گئی۔ایک روز مجھے اپنے ذاتی ای میل ایڈریس پر پیغام ملا۔ بوجھو تو کون تم سے ملنا چاہتا ہے؟ مجھے کالج کے دنوں کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ ہماری کلاس پکنک پر نتھیاگلی گئی تھی مگر وہ ساتھ نہیں آئی تھی۔ سبھی کا خیال تھا اسے گھر سے اجازت نہیں مل سکی ہو گی۔ میں ایک ڈھلوان پر بور اور اداس بیٹھا تھا کہ ایک دوست کی آواز سنائی دی ’’دیکھو تو کون تم سے ملنے آیا ہے‘‘
میں نے پلٹ کر دیکھا تو پل اوور پہنے زیبا کھڑی مسکرا رہی تھی۔بعد میں پتہ چلا کہ اسے گھر سے اجازت تو مل گئی تھی مگر وہ لیٹ ہو گئی اور اس کے ماموں اسے اپنی گاڑی میں چھوڑنے آئے تھے۔ اس کی آمد سے اچانک نتھیاگلی کا موسم خوبصورت ہو گیا۔ ڈھلوان پر ہری ہری گھاس اگ آئی۔ پھو ل مہکنے، مترنم جھرنے بہنے، آسمان میں بادل رقص کرنے اور برف پوش چوٹیوں پر پڑی برف مسکرانے لگی۔
میں نے اردو اٹیچمنٹ کھولی اور حیران ہوا میں دوسروں کو بیوقوف بناتا تھا اس کا کسی نے مجھ سے خوب بدلا لیا تھا۔ ای میل میں لکھا تھا
’’نوید میں زیبا ہوں۔ تمہاری اپنی زیبا۔ میں زندہ ہوں‘‘
ظاہر ہے کہ یہ مذاق تھا۔ میں کیوں اور کیا جواب دیتا لیکن اگلے روز پھر ای میل آ گئی۔
’’معلوم ہوتا ہے تمہیں میرے زندہ ہونے کا یقین نہیں آیا ورنہ تم جواب ضرور دیتے۔ اور ہاں ابھی میرے بارے میں کسی سے کچھ مت کہنا۔ رحیلہ سے بھی نہیں ورنہ میں مزید مصیبت میں پھنس جاؤں گی‘‘
مجھے اس کی موت کا پہلے ہی مشکل سے یقین آیا تھا۔ یہ پیغام اور اس میں رحیلہ کا حوالہ دیکھ کر میں تذبذب میں پڑ گیا۔ کہیں یہ سچ ہی نہ ہو۔کئی طرح کے قصے اور امکانات ذہن میں آئے کیا پتہ اسے کسی نے اغوا کیا اور یرغمال بنایا ہوا ہو۔ ان دنوں بعض لوگوں کو ملکی یا غیرملکی تفتیشی ادارے اچانک گھروں سے پکڑ کر لے جاتے تھے کہیں کوئی ایسی ایجنسی یا ادارہ؟ مگر اس کا سیاست اور سیکیورٹی سے کیا واسطہ۔ کیا معلوم ٹریفک حادثے میں ملنے والی مسخ شدہ نعش کسی اور لڑکی کی ہو۔ خدا کرے ایسا ہی ہو اور وہ زندہ اور سلامت ہو مگر پتہ نہیں وہ کس قسم کی مصیبت میں گرفتار تھی اور میں اس کی کیسے مدد کر سکتا تھا۔ تاہم میں نے فی الحال اس سے اتنا ہی پوچھنا مناسب سمجھا’’ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ تم زیبا ہی ہو؟‘‘
میرا خیال تھا کہ اب یا تو اس کا جواب نہیں آئے گا یا وہ گول مول سا جواب دے گی اور ٹالنے کی کوشش کرے گی مگر اگلے روز نہ صرف اس کا جواب آ گیا بلکہ اس نے اپنی تازہ نظم کے ساتھ ساتھ ایک ایسی بات کا حوالہ دیا تھا جو میرے اور زیبا کے سوا کسی کے علم میں نہیں تھی۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ تو کیا وہ سچ مچ زندہ تھی۔ مگر اس کے مصیبت میں گرفتار ہونے کے خیال نے مجھے اداس کر دیا۔ میں نے بےتاب ہو کر پوچھا
’’تم کہاں اور کس حال میں ہو ؟ اب تک خاموش کیوں تھیں۔ واپس اپنے گھر کیوں نہیں آئیں۔ مجھے فوراً بتاؤ میں تمہاری کیا مدد کر سکتاہ وں‘‘
وہ فوراً جواب نہیں دیتی تھی۔ شاید دے نہیں سکتی تھی۔ اس نے میرے اس خط کا بھی ایک دن کے وقفے سے جواب دیا۔
’’نوید میری جان، میں کچھ عرصہ کے لئے واقعی مر گئی تھی، سب کچھ بھول گئی تھی پھر ایک مہربان دوست کی وجہ سے مجھے نئی زندگی حاصل ہوئی مگر میں اپنے گھر اور لوگوں میں نہیں آ سکتی۔ فی الحال میں تم سے ای میل کے ذریعے بھی محدود سا رابطہ رکھ سکتی ہوں۔ اور نہیں جانتی یہ سہولت بھی کب چھن جائے۔کاش میں تمہیں مزید کچھ بتا سکتی۔ اپنا خیال رکھنا۔۔۔تمہاری زیب ‘‘
شک کی اب کوئی گنجائش نہیں رہ گئی تھی میں عجیب مخمصے میں پڑ گیا وہ کس قسم کی مصیبت میں گرفتار تھی کہ ای میل تو کر سکتی تھی مگر مدد کے لئے اپنا ایڈریس نہیں بتا سکتی تھی۔ میں نے اگلی ای میل میں اس سے بہت سے سوالات کر ڈالے اور آخر میں یہ بھی لکھا کہ اگر وہ والدین سے ناراض ہے تو میرا گھر بھی تو اس کا اپنا گھر ہے وہ میرے پاس کیوں نہیں آ جاتی۔ ہم فوراً شادی کر لیں گے۔ وہ مجھے بلا تاخیر اپنا پتہ بتائے اور اطمینان رکھے میں اس کے لئے جان تک کی بازی لگا سکتا ہوں۔
اس ای میل کا جواب بھی حسب معمول ایک دن کے وقفے کے بعد آیا اور نہایت مختصر۔
’’سنڈے،، صبح دس سے شام چار بجے،مقبرہ جہانگیر لاہور‘‘
میں اس کے لئے کچھ بھی کرنے اور ہر خطرہ مول لینے کو تیار تھا۔ اتوار کو لاہور پہنچ گیا اور اس کے بتائے ہوئے وقت اور مقام پر اس کا انتظار کرنے لگا۔ ایک ایک لمحہ گزارنا دوبھر ہو رہا تھا۔ ہر آہٹ پر دل دھڑکنے لگتا مگر شام ہو گئی اور اس کا کہیں دور دور تک نشان نہ تھا۔میں نے ہوٹل آ کر اپنا ای میل باکس چیک کیا اس میں پیغام موجود تھا
’’سوری نوید، مجھے بتائی ہوئی جگہ پر پہنچنے کی کا موقع نہیں مل سکا۔ اب مجھے کراچی لے جایا جا رہا ہے۔ ہو سکے تو تھرسڈے کو کلفٹن پر اکیلے ملو‘‘
کلفٹن پر بھی میں صبح سے شام تک گھومتا، سمندر کی لہریں دیکھ دیکھ کر اداس ہوتا اور اسے تلاش کرتا رہا مگر وہ کہیں دکھائی نہ دی۔بار بار خیال آتا کہ کہیں کوئی مجھے بیوقوف تو نہیں بنا رہا تھا مگر اس کے مخاطب کرنے کا ایک خاص انداز تھا جو کسی دوسرے کو کیسے معلوم ہو سکتا تھا۔ میں اگلے اور اس سے اگلے روز بھی کلفٹن کی خاک چھانتا رہا مگر وہ تو کجا اس کی ای میل تک نہیں آئی تھی۔ مگر جس رو ز مجھے واپس لوٹنا تھا اس کا پیغام مل گیا۔ اس نے بہت دل گرفتگی کے ساتھ معافی مانگی اور اپنی مجبوریوں کے بارے میں بہت سی گول مول باتیں لکھ کر ایک پریشان کن اطلاع دی تھی۔
’’میں شائد کچھ دنوں کے لئے جواب نہ دے سکوں۔ تم پریشان نہ ہونا اور مجھے اپنی خیریت برابر لکھتے رہنا‘‘
میں پریشان کیسے نہ ہوتا۔ مگر اس کے سوا کر ہی کیا سکتا تھا۔اس کے بعد سچ مچ اس سے رابطہ منقطع ہو گیا۔
میں کچھ روز اسے ای میل پیغامات بھیجتا اور اپنی خیریت کی اطلاع دیتا رہا لیکن یہ یک طرفہ رابطہ بڑا بے معنی،صبر آزما اور اکتا دینے والا تھا اس میں آہستہ آہستہ لمبے وقفے آنے لگے۔ دریں اثنا میرے دل میں اس شک نے پھر ایک بار سر اٹھا لیا کہ وہ زیبا ہی تھی یا انٹرنیٹ کی کوئی شریر لڑکی یا لڑکا مجھے بیوقوف بنا رہا تھا۔ ممکن ہے یہ ’’کوئی تنہائی سی تنہائی ہے‘‘ والا لاہوری نوجوان ہو جو مجھ سے اپنی پریشانی اور بیوقوف بنائے جانے کا بدلہ لے رہا ہو۔ وہ بھی تو کمپیوٹر پروگرامنگ میں ماسٹر کر رہا تھا۔
میں نے نئے سرے سے سارے معاملے کی تحقیق کرنے کا فیصلہ کر لیا اور سب سے پہلے رحیلہ کو فون کیا۔ اس کے والدین لڑکیوں کو ٹیلیفون پر بات کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے اس لئے اس نے مجھے اپنی ایک دوست کے گھر کا فون نمبر دیا ہوا تھا۔ میرے فون کے جواب میں تیسرے روز اس کا فون آ گیا۔ اس سے براہِ راست زیبا کے زندہ ہونے کی بات کرنا مناسب نہیں تھا یہ اس کے معصوم جذبات سے کھیلنے کے مترادف ہوتا یوں بھی وہ گذشتہ ملاقات میں میرے شبہات کی تردید کر چکی تھی۔ اس لئے میں نے بہانہ کیا۔
’’میں نے زیب کو خواب میں دیکھا ہے۔ کہہ رہی تھی وہ زندہ ہے‘‘
میری بات سن کروہ دکھی ہو گئی اور گلوگیر لہجے میں بولی
’’ہاں باجی مجھے بھی خواب میں ملی تھیں۔ اور یہی کہا کہ میں مری نہیں زندہ ہوں۔ میں نے امی اور ابو سے ذکر کیا تو وہ کہنے لگے۔ بےشک جن لوگوں کی موت ایسی بیچارگی اور مظلومیت کے عالم میں ہوتی ہے وہ شہید کہلاتے اور زندہ رہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ایسے لوگوں کو مرا ہوا مت کہو‘‘
میں اس کی بات سن کر حیران رہ گیا۔ یہ اتفاق تھا یا کوئی اسرار؟میں مزید کنفیوژن کا شکار ہو گیا۔
کچھ روز زیبا کی ای میل کا انتظار کرنے کے بعدمیں نے اپنی الجھن کا ایک دوست احمد علی سے ذکر کیا جو کمپیوٹر کے بارے میں زیادہ معلومات رکھتا تھا۔ مجھے شک تھا کہ یہ کوئی وائرس یا انٹرنیٹ بوٹ نہ ہو۔ میں نے مائیکرو سافٹ آفس پروگراموں میں بوٹس کو اسسٹنٹ کے طور پر مدد دیتے اور سرچ کے دوران میں ایک پلے کی صورت میں فائلیں سونگھتے اور دم ہلاتے دیکھا تھا مگر زیادہ تفصیل نہ جانتا تھا۔ احمد علی کہنے لگا۔
’’حالیہ برسوں میں انٹرنیٹ پر مصنوعی ذہانت کی حامل مخلوق کے سلسلے میں بڑی پیش رفت ہوئی ہے۔ یہ زندگی کی ایک نئی قسم کا ظہور ہے۔ یہ ایجنٹس اور بوٹس حیرت انگیز صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں۔بالکل جیتے جاگتے اجسام کی طرح کام کرتے اور بعض ہو بہو زندہ انسان معلوم ہوتے ہیں۔ اس حقیقی نظر آنے والی مخلوق کی بےشمار قسمیں اور گروپس ہیں۔ چیٹنگ کرنے،آن لائن اسٹورز سے خریداری میں مدد دینے، سرچ اور انٹرنیٹ کے جملہ امور میں معاونت کرنے، تکنیکی اور نفسیاتی معاملات میں مشورہ دینے، گیمز میں رہنمائی کرنے اور آپ کے پرسنل سیکرٹری یا اسسٹنٹ کے فرائض سر انجام دینے والے ایجنٹس ا ور بوٹس۔ ایسی ورچوئل لیڈی سکرٹریز جو آپ کی مصروفیات کا شیڈول مرتب کرتی، آپ کو ای میل کا متن پڑھ کر سناتی اور آپ کی غیر موجودگی میں آپ کی ٹیلیفون کال سنتی اور جواب دیتی ہیں۔ اس کا خیال تھا کہ مجھے زیبا کی نہیں کسی ایسی ہی اصلی یا ورچوئل شخصیت کی ای میلز وصول ہو رہی تھیں۔ لیکن مجھے اس کی بات سے اتفاق نہیں تھا۔ میں نے کہا
’’میں نہیں مانتا۔زیبا نے بعض ایسی پرائیویٹ باتوں کا بھی حوالہ دیا ہے جو صرف میرے اور اس کے علم میں تھیں۔ مشین جتنی بھی ذہین ہو جائے وہ انسانی ذہن میں چھپے ہوئے خیالات اور تنہائی میں ہونے والی باتیں کیسے جان سکتی ہے؟‘‘
احمد علی میری بات سن کر خود بھی شش و پنج میں پڑ گیا پھر اس نے اپنے کسی پروفیسر کو فون کر کے ساری بات بتائی اور ان کی ہدایت کے مطابق مجھ سے کوائف اور پاس ورڈز لے کر نئے سرے سے اس مسئلے کی تحقیق شروع کر دی۔ کوئی دو گھنٹے بعد اس نے مایوسی سے میری طرف دیکھا اور کہنے لگا
’’مجھے افسوس ہے نوید،میں تمہیں کوئی اچھی خبر نہیں سنا سکتا۔ میں اب بھی اسی نتیجے پر پہنچا ہوں کہ انٹرنیٹ پر زیبا کے نام سے تمہاری جو دوست بنی ہے وہ ایک مصنوعی شخصیت ہے اس نے تمہارے کمپیوٹر سے معلومات چرائیں اور ان کی بدولت تمہاری مر چکی محبوبہ کا روپ دھار لیا۔ حقیقی دنیا میں اس کا کوئی وجود نہیں ‘‘
مجھے لگا جیسے زیبا دوسری مرتبہ مری ہو۔ میں دہرے غم میں مبتلا ہو گیا اور میں نے آئندہ سے اس کی میل ہینڈل کرنے سے کنارہ کشی کا فیصلہ کر لیا۔ مگر ابھی چند روز ہی گزرے تھے کہ اس کا پیغام آ گیا ’’فرائیڈے، گیارہ بجے دن، دامن کوہ ویو پوائنٹ‘‘
اگر یہ بلاوا حسب معمول کسی دوسرے شہر کے لئے ہوتا تو میں ہرگز اس پر اعتبار اور عمل نہ کرتا مگر یہ محض چند کلومیٹرز کا فاصلہ ہی تو تھا۔ میں جمعہ کو مقررہ وقت سے کچھ دیر پہلے ہی دامن کوہ پہنچ گیا اور اس کا انتظار کرنے لگا۔ یہ عام لوگوں کی سیر کا وقت نہیں تھا اس لئے وہاں کوئی خاص رش نہ تھا۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد ہی کوئی گاڑی آتی تھی۔ میں نے اسے ہر جگہ تلاش کیا مگر وہ حسب معمول کہیں دکھائی نہ دی۔میں مایوس ہو کر لوٹ جانا چاہتا تھا کہ اچانک میری نظر رحیلہ پر پڑی۔ میں سمجھ گیا اس نے اسے بھی ملاقات کے لئے بلایا ہو گا۔ میرے دل میں امید کا دیا روشن ہو گیا۔ یقیناً وہ زندہ تھی اور آج اس سے ملاقات ہو جائےگی۔
رحیلہ مجھے دیکھ کر قریب آ گئی۔ سلام دعا کے بعد میں نے اس سے پوچھا
’’یہاں کیا کر رہی ہو رحیل؟‘‘
’’وہی جو آپ کر رہے ہیں ‘‘اس نے مسکرا کر میری طرف دیکھا۔ وہ مجھے پہلے سے بڑی نظر آئی اور لمحہ بھر کے لئے اس پر زیبا کا گمان ہوا
’’اس کا مطلب ہے اس نے تمہیں بھی بلایا ہے؟‘‘
’’ہاں ‘‘وہ بولی ’’لیکن مجھے معلوم ہے وہ آئیں گی نہیں ‘‘
’’کیوں ؟‘‘
’’آپ بھی کمال کرتے ہیں ‘‘وہ شوخی سے بولی ’’کبھی کوئی مر کر بھی واپس آتا ہے؟‘‘
میں حیرت سے اس کا منہ دیکھنے لگا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.