Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نیلی روشنی

ویکوم محمد بشیر

نیلی روشنی

ویکوم محمد بشیر

MORE BYویکوم محمد بشیر

    میری زندگی میں ہونے والے عجیب و غریب واقعات میں سے ایک واقعہ یہ بھی ہے۔ نہیں، یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ اسے تو عام واقعات سے ہٹ کر کوئی غیرمعمولی واقعہ کہنا چاہیے۔۔۔ ایک مافوق الفطرت واقعہ۔ میں نے اسے سائنسی منطق کے ذریعے سمجھنا چاہا مگر مجھے کامیابی نہیں ہوئی۔ شاید آپ سمجھ سکیں، اس کا تجزیہ کر سکیں۔ میں اسے ایک حیرت انگیز واقعہ کہتاہوں۔ میں اور کہہ بھی کیا سکتا ہوں؟

    واقعہ یہ ہوا!

    دن مہینہ اور سال کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ میں ایک گھرکی تلاش میں تھا۔ یہ بھی کوئی انوکھی یانئی بات نہیں ہے۔ میں ہمیشہ ہی گھرکی تلاش میں رہتا ہوں۔ مجھے کبھی کوئی گھر یا کوئی کمرہ ایسا نہیں ملتا جو مجھے پسند آئے۔ جس جگہ میں رہا وہاں مجھے سیکڑوں خرابیاں نظر آئیں مگراس کی شکایت میں کس سے کر سکتا ہوں؟ اگر مجھے گھر پسند نہیں آیا تو مجھے آزادی ہے، میں کہیں اور جا سکتا ہوں۔ مگر جاؤں تو کہاں جاؤں؟ چنانچہ میں وہیں جھنجھلاہٹ اور کسی قدر آزردگی کے ساتھ رہتا رہا۔ کتنے گھر ہوں گے اور نہ جانے کتنے کمرے ہوں گے جن سے میں غیرمطمئن رہا۔ یہ کسی دوسرے کا قصور نہیں تھا۔ مجھے یہ پسند نہیں آئے، اس لیے میں نے انہیں چھوڑ دیا۔ ان جگہوں پر میرے بجائے کوئی اور آ جائےگا، جس کو یہ پسند بھی ہوں گی۔ کرائے کے مکانوں کے ساتھ یہی تو ہوتا ہے۔

    وہ زمانہ ایسا تھا جب کرایے کے مکانوں کی بڑی قلت تھی۔ پہلے جو جگہ دس روپے میں مل سکتی تھی، اس کے لیے اب پچاس روپے دینے ہوتے تھے۔ اسی لیے میں مکان کی تلاش میں حیران و پریشان چکر لگاتا رہا۔ پھر مجھے ایک مکان مل گیا۔ یہ ایک چھوٹا سا ایک منزلہ مکان تھا۔ شہر کے شوروشر سے دور، میونسپلٹی کی حدود کے قریب۔ اس پر ایک پرانا بورڈ لگا ہوا تھا، ’’کرایے کے لیے خالی۔‘‘

    بحیثیت مجموعی یہ مجھے پسند آیا۔ زمینی منزل پر چار کمرے اور غسل خانہ اور زینے سے چڑھ کر دو کمرے تھے اور ایک بالکونی۔ ایک باورچی خانہ بھی تھا اور اس میں پانی کا نل بھی۔ صرف بجلی نہیں تھی۔ باورچی خانے کے سامنے ایک کنواں تھا۔ قریب ہی صحن کے ایک کونے میں پاخانہ بنا ہوا تھا۔ کنواں کافی پرانا تھا۔ اس کے اوپر چاروں طرف پتھر کی ایک منڈیر تھی۔ چہار دیواری سے گھرے صحن میں بہت سارے درخت لگے ہوئے تھے۔ ایک بڑا فائدہ یہ تھا کہ پڑوسی نہیں تھے۔ گھر سڑک کے کنارے تھا۔

    مجھے حیرت بھی تھی اور ساتھ ہی مسرت بھی۔ اس گھر کو آخر کسی نے لیا کیوں نہیں؟ بس یوں سمجھیے کہ قسمت سے میرے ہاتھ ایک خوبصورت عورت آ گئی تھی اور وہ بھی ایسے زمانے میں جب خوبصورت عورتیں بہت کمیاب تھیں۔ میں اسے برقعے میں چھپاکر رکھوں گا۔ اس گھرنے میرے اندر کچھ اس قسم کے جذبات ابھارے۔ مجھے بڑا جوش و خروش تھا۔ میری مصروفیت بڑھ گئی۔ میں نے روپیہ ادھار لیا اور دومہینے کا کرایہ پیشگی ادا کرکے مکان کی کنجی لے لی۔ مختصراً یہ کہ میں گھر میں آ گیا۔ اسی دن میں نے مٹی کے تیل کی ایک لالٹین خرید لی۔

    میں نے تما م کمروں میں جھاڑو دی، باورچی خانے میں جھاڑ پونچھ کی اور پاخانے کو صاف کیا۔ کوڑا کباڑ ہر طرف بہت تھا۔ گرد بہت تھی۔ میں نے کمروں کو ایک بار پھر دھویا اور صاف کیا۔ پھر میں نے خود غسل کیا۔ پھر اطمینان کی سانس لی۔ نہانے کے بعد جاکر کنویں کی منڈیر پر بیٹھ گیا۔ مجھے اتنا سکون تھا کہ میں بیٹھ سکتا تھا، خواب دیکھ سکتا تھا، صحن میں چکر لگا سکتا تھا۔ مجھے سامنے صحن میں باغ لگانے کا پروگرام بنانا تھا۔ باغ میں زیادہ تر گلاب ہوگا اور چنبیلی کی کچھ بیلیں بھی۔ میں فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ کھانا پکانے کے لیے کسی کو رکھوں یا نہیں۔ نہیں، اس سے پریشانی بڑھ ہی جائےگی۔

    صبح کو نہانے کے بعد میں تھرماس لے کر چائے کی دکان پر جا سکتا تھا اور وہاں سے چائے پینے کے بعد تھرماس میں چائے بھرواکر لا سکتا تھا۔ کسی ہوٹل میں دوپہر کے کھانے کا انتظام ہو سکتا تھا اور رات کے کھانے کے لیے بھی ہوٹل والے سے کہا جا سکتا تھا کہ وہ گھر پر بھیج دے۔ پھر مجھے ڈاکیے سے مل کر اسے بتا دینا چاہیے کہ میں اب یہاں رہنے آیا ہوں۔ اس سے یہ بھی ہوگا کہ وہ کسی کو بتائےگا نہیں کہ گھر خالی ہے۔ حسین تنہائی کی راتیں، حسین تنہائی کے دن۔۔۔ میں کچھ بھی پہن سکوں گا۔۔۔ یہی سب سوچتے ہوئے میں نے کنویں کے اندر جھانکا۔ میں اندازہ نہیں لگا سکا کہ اس میں پانی ہے یا نہیں۔ سطح پر گھاس پھوس اور جھاڑ جھنکاڑ بہت تھا۔ میں نے ایک پتھر اٹھاکر کنویں میں پھینکا۔ چھپ کی آواز آئی۔ ساتھ ہی اس کی بازگشت۔ کنویں میں پانی تھا۔

    اس وقت دن کے گیارہ بجے تھے۔

    پچھلی رات میری پلک تک نہیں جھپکی تھی۔ میں نے شام کو ہوٹل والے کا حساب صاف کیا تھا۔ اس کے بعد مالک مکان سے ملا تھا۔ پھرمیں نے اپنا بستر باندھا تھا، گراموفون اور ریکارڈ ایک بڑے ڈبے میں بند کیے تھے، کپڑے وغیرہ بکس میں رکھے تھے۔ اس کے علاوہ کاغذات، کتابیں، آرام کرسی، بک شیلف، غرض سارا سامان باندھا تھا۔ علی الصباح دو گاڑیوں پر اپنا سامان رکھ کر میں نکل کھڑا ہوا تھا۔

    میں نے اپنے نئے گھر کے دروازے بند کیے، باہر کے دروازے میں تالا لگاکر سڑک پر آ گیا او رپھاٹک بند کر دیا۔ کنجی میں نے جیب میں ڈالی اور کسی قدر فخر کے ساتھ چل کھڑا ہوا۔ اپنے دل میں سوچتا رہا کہ میں آج رات گھر گرمانے کی تقریب کس فنکار کے گانے سے شروع کروں؟ میرے پاس سو سے زیادہ گرامو فون ریکارڈ ہیں۔ ان میں انگریزی، عربی، ہندی، اردو، تامل اوربنگالی گانے ہیں۔ ملیالم کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ ملیالم میں اچھے گانے والے ہیں، ان کے گانوں کے ریکارڈ خریدے جا سکتے ہیں، مگر ان کی موسیقی خراب ہوتی ہے۔ معلوم نہیں ملیالم میں کوئی اچھا میوزک ڈائریکٹر کب پیدا ہوگا۔۔۔ پنکج ملک، دلیپ کمار رائے جیسا۔

    میں نے خود اپنے آپ سے سوال کیا، آج رات میں سب سے پہلا گانا کون سا بجاؤں؟ پنکج ملک، دلیپ رائے، سہگل، بنگ کراسی، پال رابسن، عبدالکریم خاں، کانن دیوی، خورشید، جو تھکا رائے، ایم ایس سبھ لکشمی۔۔۔ میں نے دس یا بیس ناموں پر غور کیا، آخر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ’’دور دیس کا رہنے والا آیا‘‘ ٹھیک رہےگا۔ کس نے گایا تھا اسے؟ کسی مرد نے یا عورت نے؟ میں یاد نہ کر سکا۔ میں نے سوچا ریکارڈ کو دیکھ لوں۔ میں چلتا رہا۔

    سب سے پہلے میں ڈاکیے سے ملا۔ میں نے اسے اس گھر کے بارے میں بتایا جسے میں نے کرایے پر لیا تھا۔ میری بات سن کر اس نے کسی قدر حیرانی اور پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’اچھا۔۔۔ وہ گھر۔۔۔ اس میں تو ایک غیر فطری اور خوفناک موت ہوئی تھی۔ وہاں تو کوئی بھی بہت دن نہیں رہتا اور اسی وجہ سے وہ گھر اتنے دن سے خالی پڑا رہا ہے۔‘‘

    ’’غیرفطری اور بھیانک موت ہوئی تھی؟‘‘ میں نے بدحواس ہوکر پوچھا، ’’کس طرح کی غیرفطری موت؟‘‘

    ’’گھر میں ایک کنواں ہے نا؟ کوئی اس میں کود گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد اس گھر میں سکون اور اطمینان کبھی نہیں ہوا۔ بہت سے لوگ آکر اس گھر میں رہے۔ رات کو دروازے زور زور سے بند ہوں گے۔ پانی کے نل سے خود بخود پانی نکلنے لگےگا۔۔۔‘‘

    ’’دروازے زور زور سے بند ہوں گے؟ نل خود اپنے آپ چلنے لگےگا؟ تعجب کی بات ہے۔‘‘ دونوں نلوں میں ٹونٹی لگی ہوئی تھی جسے بند کیا جا سکتا تھا اور تالا بھی لگا ہوا تھا۔ مالک مکان نے مجھے بتایا تھا کہ لوگ دیوار پھاندکر نہانے آ جایا کرتے تھے، اس لیے نلوں کو تالا لگاکر رکھا جاتا تھا۔ مجھے اس سے پوچھنا چاہیے تھا کہ بند غسل خانے کے نل کو مقفل رکھنے کی کیا ضرورت۔۔۔ اس سوال کا مجھے اس وقت خیال نہیں آیا۔

    ’’بھوت آپ کی گردن دبوچےگا، آپ کا گلاگھونٹ دےگا۔ آپ سے یہ سب کچھ کسی نے بتایا نہیں حضور؟‘‘

    بہت دلچسپ! میں نے دل میں سوچا اور میں دو مہینے کا کرایہ پیشگی دے چکا ہوں؟ کوئی کر بھی کیا سکتا ہے! میں نے اس سے کہا، ’’ارے یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ ایک دفعہ کی جھاڑ پھونک اس سب کا قلع قمع کر دےگی۔ بہرحال تم یہ خیال رکھنا کہ میرے خطوط اور میری دوسری ڈاک مجھے مل جایا کرے۔‘‘

    یہ سب میں نے بڑی دلیری کے ساتھ کہا۔ ویسے میں نہ تو بہادر ہوں اورنہ ہی ڈرپوک۔ مجھے بھی ان چیزوں سے ڈر لگتاہے جن سے دوسرے عام لوگوں کو ڈر لگتا ہے۔ اس لیے شاید میرا شمار بھی ڈرپوکوں میں کیا جانا چاہیے۔ ایسے حالات میں آپ نے کیا کیا ہوتا؟

    میں چلتا رہا۔ میری رفتار دھیمی ہو گئی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔ میں محض تجربے کی خاطر حالات پیدا نہیں کرتا لیکن اگر بغیر بلائے ہی کوئی موقع آ جائے تو اس وقت کیا کیا جائے؟

    میں ایک ہوٹل میں چلا گیا۔ وہاں میں نے چائے پی۔ کھانے کی مجھے کوئی خواہش نہیں تھی۔ میرے پیٹ میں آگ سی لگی ہوئی تھی۔ میں نے ہوٹل والے سے کھانا گھر بھجوانے کے لیے کہا۔ جب اس نے گھر کا نام سنا تو اس نے بھی کہا، ’’میں آپ کا کھانا دن میں بھیج سکتا ہوں مگر رات کو۔۔۔ لڑکے وہاں جائیں گے نہیں۔ وہاں ایک عورت کنویں میں کود کر مر گئی تھی۔ وہ اب بھی وہیں کہیں آس پاس ہوگی۔ حضور، آٖپ کو بھوتوں سے ڈر نہیں لگتا کیا؟‘‘

    میرا آدھا ڈر ختم ہو چکا تھا۔ کنویں میں کودنے والی عورت تھی۔۔۔ عورت نا؟ میں نے کہا، ’’ارے یہ کوئی ایسی تشویش کی بات نہیں ہے اور پھر میرے پاس اس کے توڑ کا منتر ہے۔‘‘

    مجھے کوئی منتریا جادو ٹونا نہیں معلوم تھا، لیکن یہ قصہ ایک عورت کا تھا اور جیساکہ میں نے کہا، میرا آدھا ڈرختم ہو چکا تھا۔ وہاں سے میں قریب کے ایک بینک میں گیا۔ میرے دو تین دوست وہاں کلرک تھے۔ یہ خبر میں نے انہیں سنائی۔ وہ مجھ پر خفاہوئے۔ ’’تم نے حماقت کی ہے۔ اس گھر میں بھوت ہے۔ یہ بھوت مردوں کو خاص طور پر نقصان پہنچاتا ہے۔‘‘

    اچھا تو بھوت مردوں سے نفرت کرتا ہے! یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ ان میں سے ایک نے کہا، ’’مکان کرایے پر لینے سے پہلے تم ہم میں سے کسی سے مشورہ نہیں کر سکتے تھے؟‘‘ میں نے کہا، ’’اس وقت کسی کو کیا معلوم تھا؟ میں تم سے ایک بات پوچھوں۔ اس عورت نے کنویں میں کود کر اپنی جان کیوں دے دی؟‘‘

    ’’عشق!‘‘ دوسرے دوست نے جواب دیا۔ ’’اس کا نام بھارگوی تھا، عمر اکیس سال۔ اس نے بی اے پاس کیا تھا۔ بی اے پاس کرنے سے پہلے ہی وہ ایک لڑکے سے محبت کرنے لگی تھی، شدید عشق۔ مگر اس لڑکے نے کسی دوسری لڑکی سے شادی کر لی۔ شادی کی رات بھارگوی نے کنویں میں کود کر اپنی جان دے دی۔‘‘

    میرا سارا ڈر ختم ہو چکا تھا۔ اچھا تومردوں سے اس کی دشمنی کے پیچھے یہ سبب ہے؟‘‘

    میں نے کہا، ’’بھارگوی مجھے پریشان نہیں کرےگی۔‘‘

    ’’کیوں نہیں کرےگی؟‘‘

    ’’میں ایک عمل جانتا ہوں۔‘‘

    ’’ہم بھی دیکھیں گے۔۔۔ رات کوتم چلاؤگے، آہ وزاری کروگے۔‘‘

    میں نے ان باتو ں کا کوئی جواب نہیں دیا۔ میں اپنے گھر واپس آ گیا۔ دروازے اور کھڑکیاں کھول دیں۔ پھر نیچے گیا اور دیوار کے قریب کھڑا ہو گیا۔

    ’’بھارگوی کٹی!‘‘ میں نے آہستہ سے پکارا، ’’ہم ملے نہیں ہیں، ایک دوسرے کو جانتے نہیں ہیں۔ میں یہاں رہنے آیا ہوں۔ اپنے خیال میں میں اچھا آدمی ہوں، کنوارا ہوں۔ بھارگوی، میں نے تمہارے بارے میں بہت سی شکایتیں سنی ہیں۔ میں نے سنا ہے کہ تم یہاں کسی کو رہنے نہیں دیتی ہو۔ رات کے وقت تم پانی کانل کھول دیتی ہو، زورزور سے دروازے کھڑکیاں بند کرتی ہو۔ تم مردوں کی گردن دبوچ لیتی ہو، ان کا گلا دبا دیتی ہو۔ کچھ ایسی باتیں ہیں جو میں نے سنی ہیں۔۔۔ اب میں کروں تو کیا کروں؟ میں دومہینے کا کرایہ پیشگی دے چکا ہوں۔۔۔ اور پھریہ جگہ مجھے پسند بھی بہت ہے۔‘‘

    میں یہاں بیٹھ کر سکون سے کام کرنا چاہتا ہوں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہاں بیٹھ کر میں کچھ کہانیاں، کچھ افسانے لکھنا چاہتا ہوں۔ ایک سوال تم سے پوچھوں بھارگوی کٹی؟ تم کو کہانیاں اچھی لگتی ہیں؟ اگر تمہیں اچھی لگتی ہوں تو بھارگوی کٹی، تمہیں اپنی ساری کہانیاں پڑھ کر سنا سکتا ہوں۔ سنوگی؟ دیکھو میری تم سے کوئی لڑائی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم دونوں کے بیچ کوئی بات ہوئی ہی نہیں ہے۔ کنویں میں پتھر میں نے بالکل انجانے میں ڈال دیا۔ ایسی کوئی حرکت اب آئندہ نہیں ہوگی۔ مجھے معاف کر دو۔ بھارگوی کٹی، میری آواز سن رہی ہو؟ میرے ساتھ ایک بہت اچھا گراموفون ہے اور تقریبا دو سو بڑے اچھے گانوں کی ریکارڈ۔۔۔ کیا تم موسیقی کی شوقین ہو؟‘‘

    یہ سب کہنے کے بعدمیں خاموش ہو گیا۔ میں کس سے بات کر رہا تھا؟ ایک کھلے ہوئے کنویں سے جوہر چیز کو نگلنے کے لیے تیار تھا؟ درختوں سے؟ گھر سے؟ ہوا سے؟ زمین سے؟ آسمان سے؟ آخر کس سے؟ میں اپنے پریشان دماغ سے توبات نہیں کر رہا تھا؟ میں نے اپنے آپ سے کہا، یہ میرے اپنے دماغ کا کیڑاہے جس سے میں بات کر رہا ہوں۔ بھارگوی، میں نے تمہیں دیکھا نہیں ہے۔ ایک نوجوان عورت، صرف اکیس سال کی، اس نے ایک مردسے ٹوٹ کر محبت کی۔ یہ اس آدمی کی بیوی، اس کی جیون ساتھی بن کر زندگی گذارنا چاہتی تھی۔ اس نے اس کے ساتھ اپنی زندگی کے خواب دیکھے تھے۔ مگر یہ خواب۔۔۔ ہاں یہ خواب محض خواب رہ گئے۔ وہ مایوس ہو گئی۔ اس ایسا لگا جیسے وہ کوئی فالتو اور بےکار چیز ہے۔

    ’’بھارگوی کٹی!‘‘ میں نے کہا، ’’تم کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ یہ نہ سمجھنا کہ میں تمہیں الزام دے رہا ہوں۔ جس آدمی کو تم نے اتنا چاہا اس نے تم سے اتنی محبت نہیں کی۔ اسے کسی دوسری عورت سے محبت تھی، اس نے اس سے شادی کر لی اور تمہاری زندگی تمہارے لیے تلخ ہو گئی۔ جو گذر گیا اسے جانے دو۔ جہاں تک تمہارا معاملہ ہے، تاریخ اپنے کو دوہرائے گی نہیں۔

    بھارگوی کٹی! یہ مت سمجھو کہ میں تمہیں الزام دے رہا ہوں۔ کیا تم نے واقعی محبت کی خاطر جان دے دی؟ محبت تو ایک ابدی زندگی کی صبح ہوتی ہے۔ بےوقوف لڑکی ہو تم! تمہیں۔۔۔ تمہیں زندگی کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ مردوں سے تمہاری یہ نفرت اس بات کا ثبوت ہے۔ تم نے صرف ایک مرد کو جانا۔ چلوہم مان لیتے ہیں کہ اس آدمی نے تمہیں تکلیف پہنچائی۔ مگر کیا یہ صحیح ہے کہ تم تمام مردوں کو اسی رنگین عینک سے دیکھنے لگو؟ اگر تم نے خودکشی نہ کی ہوتی، زندہ رہی ہوتیں، تب تم کو اندازہ ہو جاتا کہ تمہارا یہ رویہ غلط تھا۔ تمہیں ایسے لوگ ملتے جو تمہیں دیوی کہتے، تمہاری پوجا کرتے۔ مگر جیسا کہ میں نے کہا، تمہارے معاملے میں تاریخ اپنے آپ کو دوہرائے گی نہیں۔

    بہرحال تمہیں مجھے پریشان نہیں کرنا چاہیے۔ یہ کوئی چیلنج یا حکم نہیں ہے۔ یہ صرف ایک درخواست ہے۔ آج رات اگرتم میرا گلا دباکر مجھے مار ڈالو تو پھر تم سے یہ پوچھنے والا کوئی بھی نہ ہوگا کہ کیا وہ تم سے بدلہ نہیں لے سکتا۔ ایسا کرنے والا کوئی نہ ہوگا، کیونکہ میرا کوئی ہے ہی نہیں۔

    بھارگوی کٹی، تم میرے حالات سمجھ رہی ہو؟ ہم دونوں یہاں رہ رہے ہیں۔ کہنے کامطلب یہ ہے کہ میرا یہاں رہنے کا ارادہ ہے۔ کنویں اور گھرپر اب میرا حق ہے۔ تم نیچے کے چار کمرے اور کنواں استعمال کر سکتی ہو۔ کچن اور باتھ روم ہم دونوں استعمال کر لیں گے۔ یہ فیصلہ تمہیں ٹھیک لگتا ہے؟‘‘

    میں مطمئن تھا۔ کچھ ہوا نہیں۔

    یہ رات کا وقت تھا۔ میں نے باہر جاکر کھانا کھایا اور تھرماس میں چائے بھرواکر واپس آ گیا۔ میں نے ٹارچ جلائی، پھر مٹی کے تیل کی لالٹین جلائی۔ کمرہ پیلی روشنی میں ڈوب گیا۔

    میں ٹارچ لے کر نیچے گیا۔ اندھیرے میں کچھ دیر کھڑا رہا۔ وہاں جانے کا میرا مقصد نل میں تالا لگانے کا تھا۔ میں نے ساری کھڑکیاں کھول دیں۔ پھرمیں کنویں اور باورچی خانے کے قریب گیا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ نل میں تالا نہیں لگےگا۔ میں نے گھر کے دروازے بند کیے اور تالے لگاکر اوپر آ گیا۔ تھوڑی سی چائے پی، پھر بیڑی سلگاکر تھوڑی دیر کے لیے کرسی پر بیٹھ گیا۔ میں لکھنا شروع ہی کرنے والا تھا کہ مجھے ایسا لگا کہ میری کرسی کے پیچھے کوئی کھڑا ہے۔۔۔ بھارگوی!

    ’’لکھتے وقت اگر کوئی پیچھے سے جھانکتا رہے تو مجھے اچھا نہیں لگتا۔‘‘ میں نے کہا۔

    میں نے مڑکر دیکھا۔۔۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ میرا دل لکھنے سے اچاٹ ہو گیا۔ میں اٹھ کر کھڑا ہو گیا اوردونوں کمروں میں ادھرسے ادھر ٹہلنے لگا۔ ہوا بالکل بند تھی۔ باہردرختوں کی پتیاں تک نہیں ہل رہی تھیں۔ میں نے کھڑکی سے باہر دیکھا۔۔۔ باہر ایک روشنی تھی۔ میں یہ اندازہ نہیں لگا سکا کہ روشنی نیلی تھی، یالال، یا پیلی۔۔۔ مجھے یہ بس لمحے ہی بھرکے لیے نظر آئی تھی۔

    ’’ارے یہ محض واہمہ ہے!‘‘ میں نے اپنے آپ سے کہا۔ میں وثوق سے یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ میں نے روشنی دیکھی یا نہیں۔ لیکن پھریہ سوچتا ہوں کہ اگر دیکھی نہیں تو مجھے اس کا خیال کیوں آیا؟

    میں بہت دیر تک ٹہلتا رہا۔ تھوڑی دیر کھڑکی کے قریب کھڑا ہوا۔ مجھے کہیں بھی کوئی مختلف چیزیا کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی۔ میں نے پڑھنے کی کوشش کی مگر توجہ کو مرکوز نہیں رکھ سکا۔ میں نے سوچا کہ مجھے سونا چاہیے۔ میں نے اپنا بستر ٹھیک کیا۔ لالٹین بجھا دی۔ اچانک مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میرے کانوں میں گانوں کی آواز آ رہی ہے۔

    میں نے لالٹین پھر جلا دی۔ گرامو فون کھولا، ایک نئی سوئی لگائی، چابی بھری۔ کس کا گانا سنوں؟ ساری دنیا خاموش تھی مگر فضا میں ایک بھنبھناہٹ محسوس ہوتی تھی۔ یہی بھنبھناہٹ میرے کانوں میں بھی گونج رہی تھی۔ مجھے ڈرنہیں لگا مگر ایک سنسناہٹ، ایک تھرتھری سی سارے جسم میں دوڑ رہی تھی۔ ماحول پر ایک خوفناک سکوت محیط تھا جسے میں ریزہ ریزہ کرنا چاہتا تھا۔ کون سا گانا اس کام میں میری مدد کر سکتا ہے؟ میں نے ریکارڈوں کو دیکھنا شروع کیا اور بالآخر کالے امریکی پال رابسن کے ریکارڈ کو نکالا۔ گراموفون سے اس کی آواز آئی۔ شیریں، گونجتی ہوئی مردانہ آواز میں وہ گا رہا تھا، ’’جوشوانے جنگ لڑی جیریکوکی۔۔۔‘‘

    اس کے بعد پنکج ملک کا گانا تھا :’’تو ڈر نہ سر ابھی۔۔۔‘‘

    اس گیت کے ختم ہونے کے بعد، ریشم کی طرح نرم، گنگناتی ہوئی نسوانی آواز تھی ایم ایس سبھ لکشمی کی، ’’کنتی وروم گیتم۔۔۔‘‘ (گیت نرم ہوا میں تیر رہا تھا۔۔۔)

    ان سبھ لکشمی کا گانا ختم ہوا۔

    ان تین گانوں کے بعدمیں نے کچھ سکون محسوس کیا۔ کچھ دیر میں بالکل خاموش اور ساکت بیٹھا رہا۔ کچھ وقفے کے بعد میں نے عظیم فنکار سہگل کا ریکارڈ نکالا۔ اس کی آوازمیں مٹھاس تھی اور درد۔ ’’سوجاراج کماری۔۔۔‘‘

    یہ گانا بھی ختم ہوا۔

    ’’یہ کافی ہے۔ اب کل۔۔۔‘‘ میں نے کہا اور گراموفون بند کر دیا۔ لالٹین بجھا دی۔ ایک بیڑی جلائی اور لیٹ کر بیڑی پیتا رہا۔ میرے قریب ہی میری ٹارچ اور گھڑی رکھی ہوئی تھی۔

    لیٹنے سے پہلے میں نے بالکونی میں کھلنے والے دروازے کو بند کیا۔ اس وقت دس بج رہے ہوں گے۔ میں لیٹ کر سننے کی کوشش کرتا رہا۔ میں کچھ بھی نہ سن سکا سوائے خود اپنی گھڑی کی ٹک ٹک کے۔ منٹ اور گھنٹے گذرتے رہے۔ کوئی خوف نہیں تھا۔ میرے ذہن میں اگر کوئی احساس تھا تو وہ پرسکون چوکنے پن کا احساس تھا۔ یہ کیفیت میرے لیے کوئی نئی نہیں تھی۔ اپنی بیس سالہ تنہائی کی زندگی میں مجھے بہت سے ایسے تجربات ہوئے تھے جن کے معنی اور مطلب میں سمجھ نہیں پایا تھا۔ اس لیے میری توجہ حال اور ماضی کے بیچ میں بھٹکتی رہی۔ اس سارے عرصے میں دروازے پر دستک یا پانی بہنے کی آواز سننے کے لیے میں کان لگائے رہا۔ کیا میں گلا گھونٹے جانے کی تکلیف محسوس کروں گا؟ میں تین بجے تک یوں ہی کان لگائے رہا۔

    میں نے کچھ نہیں سنا، مجھے کوئی بات محسوس بھی نہیں ہوئی۔۔۔ مکمل خاموشی۔ میں سو گیا۔ میں نے کوئی خواب نہیں دیکھا۔ دوسرے دن صبح کے نوبجے اٹھا۔

    کچھ بھی تونہیں ہوا۔

    ’’بھارگوی کٹی! بہت بہت شکریہ۔۔۔ اب میری سمجھ میں آیا ہے۔ لوگ تم میں عیب لگاتے ہیں، بھارگوی کٹی اوربغیر کسی سبب کے۔ وہ جو چاہیں انہیں بکنے دو۔ کیا تم یوں نہیں سوچتی ہو؟‘‘

    شب وروز یوں ہی گذرتے رہے۔ اکثر راتوں میں جب لکھتے لکھتے میں تھک جاتا تو گانے سنتا۔ ہر گانے سے پہلے میں گانے والے یاگانے والی کے نام کا اعلان کرتا اور ساتھ ہی گانے کے معنی بھی بتا دیتا۔ میں کہتا، ’’اگلا گانا بنگالی گلوکار پنکج ملک نے گایا ہے۔ یہ ایک درد بھرا گیت ہے جسے سن کر گذرے ہوئے دنوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے، گذر گئے وہ زمانے کیسے۔۔۔ کیسے۔۔۔‘‘ یا پھریہ کہتا، ’’یہ گانا بنگ کراسبی کا گایا ہوا ہے، ان دی مون لائٹ۔ جس کا مطلب ہے۔۔۔ مگر تم تو گریجویٹ ہو۔۔۔ معاف کرنا۔‘‘

    یہ سب باتیں میں خوداپنے آپ سے کہتا۔ اسی طرح ڈھائی مہینے گذر گئے۔ یہاں کے قیام کے اس زمانے میں میں نے ایک چھوٹا سا باغیچہ لگایا اور اس کی دیکھ بھال کرکے ایک اچھا خاصا باغ بنا لیا۔ اس باغ میں جب کبھی بھی پھول کھلے، میں نے اعلان کیا کہ یہ پھول بھارگوی کٹی کے لیے ہیں۔ اس دوران میں نے ایک چھوٹا سا ناول لکھا۔ بہت سے دوست وقتاً فوقتاً مجھ سے ملنے آتے رہے۔ ان میں سے بہت سے دوستوں نے میرے ساتھ رات بھی یہیں گذاری۔ اس سے پہلے وہ سونے جائیں، میں خاموشی سے نیچے جاتا اور دھیمے لہجے میں تاریکی کے اندر کہتا، ’’دیکھو بھارگوی کٹی! آج کی رات میرے کچھ دوست یہاں رہ رہے ہیں۔ برائے مہربانی ان کے گلے دباکر انہیں مارنہ دینا۔ اگر اس طرح کی کوئی بات ہوئی تو پولیس والے مجھے پکڑیں گے۔۔۔ خیال رکھنا۔ شب بخیر!‘‘

    عموماً گھر سے باہر نکلنے سے پہلے میں کہتا تھا، ’’بھارگوی کٹی! گھر کا خیال رکھنا۔ اگر کوئی چورآئے توتم اس کا گلا دباکر اسے مار سکتی ہو۔ مگر اس کی لاش یہاں نہ چھوڑنا، بلکہ اسے یہاں سے تین میل دور لے جاکر ڈال دینا۔ نہیں تو ہم لو گ مصیبت میں پھنس جائیں گے۔‘‘

    سنیما کا دیر رات کا شو دیکھ کر جب واپس آتا تو میں زور سے پکار کر کہتا، ’’یہ میں ہوں۔‘‘

    یہ سب کچھ میرے وہاں کے قیام کے پہلے چند مہینوں میں تھا۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ میں بھارگوی کو بھولنے لگا۔ مطلب یہ کہ میں اس سے اب بہت باتیں نہیں کرتا تھا۔ کبھی کبھی اسے یاد کر لیتا اور بس۔

    روئے زمین پر اس دنیا میں آدم کے آنے کے وقت سے اب تک، لاتعداد، سیکڑوں ہزاروں مردوزن مرے ہیں۔ وہ سب کے سب مٹی میں مل گئے، دھول بن گئے۔ یہ بات ہم سب ہی جانتے ہیں۔ بھارگوی ان سب کی یاد کی شکل میں باقی رہ گئی۔ میں اس کے بارے میں اسی طرح سوچتا تھا۔

    پھرایک رات ایک واقعہ ہوا۔

    رات کے دس بجے ہوں گے۔ میں نوبجے سے بیٹھا ہوا ایک کہانی لکھ رہا تھا۔ کہانی کا یہ حصہ بڑا جذباتی تھا۔ میں بھی بڑی بےقراری سے لکھ رہا تھا کہ میں نے محسوس کیا روشنی آہستہ آہستہ ہلکی ہوتی جا رہی ہے۔ میں نے لالٹین اٹھائی اور اسے ہلایا۔ اس میں تیل بالکل ختم ہو چکا تھا۔ اس کے باوجود میں نے سوچا کہ میں ایک اور صفحہ تو لکھ ہی سکتا ہوں۔ یہ کوئی بہت سوچی سمجھی نیت نہیں تھی۔ میری تمام توجہ اس کہانی پر تھی جو میں لکھ رہا تھا۔ روشنی اگر کم ہو جائے تو آدمی کا فطری ردعمل کیا ہوگا؟ یہی ناکہ وہ معلوم کرے کہ آیا تیل کافی ہے یا نہیں۔۔۔ جیسا کہ میں نے کیا تھا۔ میں نے بتی اونچی کی اور لکھتا رہا۔ روشنی پھر کم ہو گئی۔ میں نے بتی پھر اونچی کر دی۔ یہ سلسلہ چلتا رہا، یہاں تک کہ لالٹین کی بتی چار انچ لمبی اور آدھی انچ چوڑی چمکتی ہوئی شے بن گئی۔

    میں نے ٹارچ جلائی اور لالٹین کی بتی کو بالکل نیچے کر دیا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ لالٹین بجھ گئی۔

    ’روشنی کے لیے عموماً کیا انتظام کرنا ہوتا ہے؟‘ میں نے اپنے آپ سے سوال کیا۔ مجھے یاد آیا کہ میں بینک جا سکتا ہوں۔ میرے دوست کلرک بینک کی عمارت کے ایک حصے میں رہتے تھے۔ میں ان کے اسٹوو سے کچھ تیل ادھار مانگ سکتا ہوں۔ میں نے ٹارچ لی اور مٹی کے تیل کی بوتل اٹھائی۔ کمرے کے دروازے کو تالا لگایا، نیچے اترا اور سامنے کے دروازے میں تالا لگاکر باہر نکلا۔ گیٹ کو بند کیا اور سڑک پر آ گیا۔ چاندنی دھندلی تھی۔ آسمان پر بادل تھے۔

    میں تیز تیز چلنے لگا۔

    میں بینک کے سامنے پہنچا، ایک نظر اوپر ڈالی، پھر ایک کلرک دوست کا نام لے کر پکارا۔ میرے دو تین بار آواز لگانے کے بعد ان میں سے ایک نیچے آیا۔ اس نے گیٹ میں بنی ہوئی کھڑکی کھول دی۔ ہم عمارت کے ساتھ ساتھ چل کر پیچھے بنے ہوئے زینے پر چڑھے۔ یہاں میں نے دیکھا کہ باقی تین دوست تاش کھیلنے میں مصروف ہیں۔ جب میں نے ان لوگوں سے مٹی کے تیل کی فرمائش کی تو ان میں سے ایک ہنس کر بولا، ’’بھارگوی سے تیل لانے کے لیے نہیں کہہ سکتے تھے؟‘‘ یہ سن کر میں بھی ہنس دیا مگر میں نے کہا کچھ نہیں۔ ایک دوست چولہے سے تیل نکال ہی رہا تھا کہ بارش شروع ہو گئی۔

    ’’تم لوگ مجھے ایک چھتری بھی دو۔‘‘ میں نے کہا۔

    انہوں نے کہا، ’’چھتری کی فکر چھوڑو، ہمارے پاس یہاں کوئی چھڑی تک نہیں ہے جس سے چھتری بنائی جا سکے۔۔۔ آؤ تاش کھیلتے ہیں۔ تم بارش رکنے کے بعد چلے جانا۔‘‘

    چنانچہ میں تاش کھیلنے بیٹھ گیا۔ میں اور میرا ساتھی تین بار ہارے۔ وجہ صرف یہ تھی کہ میں کھیل میں پورے طور پر دلچسپی نہ لے سکا۔ میرا دماغ تو اس کہانی میں لگا ہوا تھا جو میں لکھ رہا تھا۔ کوئی ایک بجے کے قریب بارش رکی۔ میں نے ٹارچ اور تیل کی بوتل اٹھائی۔ دوست سونے کی تیاری کرنے لگے۔ جب میں نیچے اتر کر سڑک پر آ گیا تو ان لوگوں نے روشنی بجھا دی۔

    سڑک سنسان تھی، نہ کوئی آمدورفت تھی اورنہ کوئی روشنی۔ میں چلتا رہا۔ روشنی کہیں بھی نہیں تھی۔ ایک موڑ مڑکر گھر کی طرف چلا۔ ہلکی چاندنی میں ساری دنیا پر ایک کہر آلود سحر سا طاری تھا۔ مجھے نہیں معلوم کیا کیا خیالات میرے ذہن سے گذرے۔ شاید میں نے کسی خاص چیز کے بارے میں خاص طور پر سوچا بھی نہیں۔

    میں ٹارچ کی روشنی میں سنسان اور خاموش سڑک پر چلتا رہا۔

    گھر پہنچ گیا۔ گیٹ کھول کر اندر آیا۔ سامنے کا دروازہ کھولا، اندرداخل ہوا اور دروازہ بند کر دیا۔ یہ سوچنے کی کوئی وجہ نہیں تھی کہ اوپر کوئی غیرمعمولی بات ہوئی ہوگی۔ مگر مجھے یہاں پر ایک بات کا تذکرہ ضرور کر دینا چاہیے اور وہ یہ کہ میرے ذہن پر بغیر کسی معلوم سبب کے ایک اداسی اور غم سا طاری تھا۔ میرا رونے کو جی چاہتا تھا۔ میں ہنس تو بڑی آسانی سے سکتا ہوں مگر رونا مجھے بہت دشوار معلوم ہوتا ہے۔ آنسو کی ایک بوند بھی میری آنکھ میں بمشکل ہی آتا ہے۔ جب کبھی میں رونا چاہتا ہوں تو مجھے ایک عجیب الوپن کا احساس ہوتا ہے۔ اس وقت میں نے کچھ ایسا ہی محسوس کیا۔

    اپنی اس ذہنی کیفیت کے ساتھ میں زینے پر چڑھا اور پھر۔۔۔ میری نظروں نے ایک عجیب وغریب غیرمعمولی منظر دیکھا۔ میرے تحت الشعور پر یہ منظر نقش ہو گیا۔ واقعہ یہ ہوا۔ جب میں نے دروازہ بند کیا تھا اور وہاں سے چلا تھا، اس وقت تیل کے ختم ہو جانے کی وجہ سے لالٹین پورے طورپر بجھ چکی تھی۔ کمرہ بالکل تاریک تھا۔ اس کے بعد کچھ دیر بارش ہوئی تھی۔ تقریباً تین گھنٹے گذر چکے تھے۔ مگراب کمرے میں روشنی تھی۔ وہ دروازے کی درزوں میں سے دکھائی دے رہی تھی۔۔۔ یہ وہی روشنی تھی جو میری آنکھوں نے دیکھی تھی اور جو میرے تحت الشعور میں نقش تھی۔ لیکن اس راز کو میرے شعور نے نہیں پہچانا تھا۔

    حسب معمول میں نے اپنی کنجی نکالی، پھر ٹارچ کی روشنی تالے پر ڈالی۔ تالا چاندنی کی طرح چمکا۔ یایہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ تالا روشنی میں مسکرا دیا۔

    میں دروازہ کھول کر اندر گیا۔ تب میں نے وہ شے دیکھی۔ مطلب یہ کہ میرے سارے وجود پر اچانک یہ منکشف ہوا کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے۔ میں ڈر کر لڑکھڑایا نہیں، اپنی جگہ مبہوت کھڑا رہا۔ مجھے گرمی سی محسوس ہوئی اور پسینہ بہنے لگا۔

    سارا کمرہ اور اس کی سفید دیواریں ایک نیلی روشنی میں نہائی ہوئی تھیں۔ روشنی لالٹین سے آ رہی تھی۔۔۔ دو انچ لمبی روشنی کی نیلی لو۔ میں حیرت و استعجاب میں ڈوبا وہیں پر جم سا گیا۔

    اس لالٹین کو کس نے جلایا جس میں تیل بالکل ختم ہو چکا تھا۔ یہ نیلی روشنی کہاں سے آ رہی ہے؟

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے