نصاب
دلچسپ معلومات
حکومت پاکستان تعلیمی نظام کو تبدیل کرنا چاہتی اورسچ پرمبنی تعلیم نظام کے فروغ کے لئے ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے۔۔۔
جب ایک بہت ہی اہم سرکاری وزیر کی والدہ ایک سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹر کی مبینہ غفلت سے جان بحق ہوگئیں تو انہوں نے جنازے سے پہلے ڈاکٹر صاحب کو زدو کوب کرواکے تھانے میں اپنے ماتحتوں سمیت بند کروادیا ۔ ان کا غصہ اس بات سے بھی ٹھنڈا نہ ہوا اور شام تک نرسوں اور ان ماتحتوں کو بھی حوالات میں بند کروا دیا جو ان کی والدہ کی علالت کے دوران چھٹی پر تھے۔
اب یہ بات بہت عرصہ پہلے کی ہے، میری ریٹائرمنٹ سے بھی کئی سال پہلے کی، اس لئے میں سال اور مہینہ وثوق سے نہیں بتا سکتا۔ اب آپ بھی سوچیں گے کہ میں جو محکمہ تعلیم سندھ میں عہدہ داررہا ہوں میرا بھلا کسی مریض کی علالت یا مرنے سے کیا تعلق اور مجھے بھلا یہ سب کچھ بتانے کی کیا ضرورت ہے ؟ ۔ اگر آپ تھوڑا صبر کریں تو اس کی وجہ میں آپ سے بیان کرنے سے نہیں ہچکچاوں گا لیکن میں نے مناسب یہ سمجھا کہ اس واقعے کا پس منظر آپ کو پہلے بتا دوں۔
ہوا یوں کہ کسی نے وزیر اعلی صاحب کے کان میں یہ پھونک دیا کہ ہمارا سارا تعلیمی نظام چونکہ رٹے کا مرہون منت ہے اس لئے جب تک نصاب میں بنیادی تبدیلیاں نہیں لائیں جائیں گی لوگوں میں علم کا صحیح رجحان نہیں پیدا ہوگا اور ظاہر ہے جب تک صحیح رجحان پیدا نہیں ہوگا ان کے علم اور عمل میں تضاد ہوگا۔۔ جب یوں ہوگا تو لائق ڈاکٹر نہیں پیدا ہونگیں اورنتیجتا عوام کی زندگیاں خطرے میں ہونگیں۔۔ اس طرح کی بے تکی باتیں۔
اچھا یہ وہ زمانہ تھا کہ ایسے لوگ بھی وزیر ہوا کرتے تھے جن کو اپنے محکمے کی الف بے کا سرے سے پتا نہیں ہوتا تھا اور جہاں تک مجھے یاد ہے طب حتی سائنس سے نابلدکچھ وزرا دویات کی افادیت ، سورج
کے گردش ، اس کے صحیح مقام طلوع کے متعلق اخباروں میں مضحکہ خیز قسم بیانات دیتے تھے۔
یہ بات ضمنی طور پر اس لئے بتائی کہ اسی طرح تعلیم سے نابلد اور ایک غیر متعلقہ محکمے کے ایک وزیر نے ہم سب کو اپنےاورنگی ٹاون والے بنگلے پر بلایا اور نصاب کے متعلق بنیادی باتوں پر بحث کی اور سندھ میں پورے تعلیمی ڈھانچے کو فی الفور تبدیل کرنے کا حکم دیا۔یہ ان وزیر صاحب، جن کی والدہ فوت ہوچکی تھیں، کےقریبی دوست تھے اور اس وقت کے وزیر اعظم کے کمیٹی برائے اصلاح تعلیم کے سرپرست تھے اگرچہ یہ بات مبرہن رہے کہ وہ صوبائی وزیر تعلیم نہیں تھے۔
میں اس میٹنگ میں ہر گز نہ جاتا لیکن میرے باس بخاری صاحب اپنی تعیناتی اسلام آباد کروانا چاہتے تھے اور انہوں نے مجھ سے التجائیں کی کہ میں وہاں چلا جاوں اور یوں ان کے کہنے پر میں وہاں چلا آیا۔
وزیر نے رعونت بھرے لہجے میں نصاب کے متلعق دوایک باتیں پوچھیں ، اسے ناقابل عمل قرار دیا اور اس کو از سر نو لکھنے پر زور دیا۔
جب ان کا خطبہ اختتام کو پہنچا تو میں چپ نہ رہ سکا
سر میرا خیال ہے جو چل رہاہے ٹھیک ہی چل رہا ہے، اس میں رٹا ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ جو بھی سکولوں اور کالجوں میں پڑھنے جاتا ہے رٹو طوطا بن کر نکلتا ہے۔۔ ہمارے صوبے کے ڈاکٹر خصوصا ڈاو اور ایس ایم سی کے ڈاکٹر دنیا بھر میں مشہور ہیں اور انگلستان کی این ایچ ایس کے تو تقریبا پندرہ فی صد ڈاکٹر پاکستانی ہیں
بھاڑ میں جائے انگلستان اوران کا ایس این ایچ یا جو بھی بلا ہے۔ مجھے وزیر اعلی کو یہ دکھانا ہے کہ ہم تعلیم کو بالکل مغرب کے معیار پر لانا سکتے ہیں۔۔ آپ براہ کرم مجھے کچھ اس کے بارے میں بتائیں
وزیر کی موجودہ نظام سے بیزاری اورتبدیلی کا اشتیاق دیکھ کر میں نے انہیں پہلے سے تیار کی گئی
پریزنٹیشن پیش کی۔
ہمارے ہاں رائج تعلیمی نظام میں معلومات تک رسائی کو اولین فرض سمجھا جاتا ہے اور یہ فی نفسہ کوئی بری بات نہیں لیکن مسئلہ اس کے بعد شروع ہوتا ہے
ان کی دلچسپی بڑھتی گئی اور آنکھوں ہی آنکھوں میں سوال کر ڈالا کہ بھلا یہ کونسا مسئلہ ہوگا جو معلومات کے حصول کے بعد شروع ہوتا ہے کہ علم تو معلومات کے مترادف ہے۔
میں نے اپنی بات جاری رکھی۔
معلومات کے ذخیرے تک پہنچنے کے بعد اصل مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ہمارے اساتذہ شاگردوں کی قابلیت جانچنے کے لئے ان کا امتحان کیسے لیتے ہیں ۔ مروجہ طریقہ یہ ہے کہ جس جس شاگرد کو ان معلومات کی سمجھ ہوتی ہے اس سے مختلف سوال کئے جاتے ہیں۔
یہ سوال جب شروع میں بنائے گئے تھے تو ان میں افادیت رہی ہوگی کہ درست طریقے پر علم کے معیار کو جانچیں لیکن اب یہ سوال اور ان کے بہترین تیار شدہ جواب بازار میں دستیاب ہیں۔
میں نے پانی کے ایک دو گھونٹ پئے اور گفتگو کا سلسلہ جاری رکھا
اب چونکہ امتحان میں کامیابی کا دارومدار ان جوابات پر منحصر ہے تو ہمارے طلبا ان جوابات کو ، جن کی نوک پلک بازار میں بیٹھے گائیڈ لکھنے والوں نے ایسی تیار کی ہےاور جن سے بہتر جواب ممکن ہی نہیں ، رٹ کر امتحان میں اگل دیتے ہیں اور اچھے نمبر لے لتے ہیں۔
اب ظاہر ہے جب یہ سارے جوابات گائڈ ز کی صورت میں بازار میں دستیاب ہیں تو کوئی بیوقوف ہی
ہوگا جو اپنی عقل سے نئے جوابات کشید کر امتحان میں لکھے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس جس کو گائڈ یاد ہے اور اگر اتفاق سے یہ بھی پتہ ہو کہ کونسے سوال اہم ہیں تو ان کا جواب رٹ کر آسانی سے نہ صرف پاس ہو سکتا ہے بلکہ تقریبا سو فی صد نمبر بھی لے سکتا ہے
وزیر صاحب نے پہلو بدلا
وہ سب ٹھیک ہے ۔۔ ہمیں نمبر وں والے طالب علم نہیں چا ہییں ۔۔ رٹے سے اٹے اس سسٹم کی اصلاح کا حل کیا ہے؟
اس کا حل یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام میں صرف معلومات تک رسائی ہی اصل ہدف نہ ہو بلکہ طلبا میں ان معلومات کو جانچنے اور پرکھنے کی صلاحیت بھی ہونی چاہیئے۔۔ا ن سے سوال کم پوچھیں جائیں بلکہ انہیں سوال کرنا سکھایا جائے۔
جب میں نے یہ بات کی تو بخاری صاحب نے مجھے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا کہ میں اس نکتے پر ذیادہ زور نہ دوں اور سرسری طور پر گزر جاوں لیکن چونکہ میرے نزدیک یہی نکتہ سب سے ذیادہ اہم تھا اس لئے میں نے انہیں مثال سے سمجھانے کی کوشش کی۔
دیکھیں سر میں ان عوامل کو بالکل نہیں چھیڑوں گا کہ ہمارے تمام امتحانات کے پرچے آوٹ ہو جاتے ہیں، اور باقائدہ خرید و فروخت کے عمل سے گرزتے ہیں۔۔ وٹس ایپ پر سرکیولیٹ ہوتے ہیں ۔۔ میں محض آسانی کے لئے یہاں یہ فرض کر رہا ہوں کہ ہمارا سسٹم بالکل شفاف ہے اور اس میں کوئی پرچہ آوٹ نہیں ہوتا بلکہ سرے سے کوئی بے ایمانی نہیں ہے۔
اب اس خوش فہمی سے بھرے مفروضے کو بھی سامنے رکھیں پھر بھی ہمارے نظام میں ایک بنیادی کجی
ہے۔ جیسے دیکھیں ہمارے میٹرک کے بیالوجی کے نصاب میں پھول پڑھایا جاتا ہے اور اب مجھے یاد نہیں یہ شاید سرسوں کا پھول ہے یا چمبیلی کا لیکن اس کے بنیادی ڈھانچے سے جڑے سوال کا جواب ایسی خوبصورت ترتیب سے بازار میں دستیاب ہے کہ اگر اس کے متعلق سوال کیا جائے ، جو عموما کیا بھی جاتا ہے، تو اس کا جواب چاہے آپ سر توڑ کوشش کریں بازار کے اس جواب سے بہتر نہیں دےسکتے۔
انہوں نے میری بات کاٹی
کوئی بہت اچھا بھی تو ہوسکتا ہے جو بازار سے بہتر لکھ سکے
صرف خال خال سر اور ویسے بھی اگر بازار سے دستیاب جواب سے اچھے بلکہ بہت ہی اچھے مارکس آ سکتے ہیں تو کسی کو کیا پڑی ہے کہ اپنے جوابات تراشے جس میں اس بات کا احتمال رہتا ہے کہ ممتحن ، جو یہ جوابات چیک کرتا ہے، اور گائیڈ کا عادی ہو، ان جوابات کو بازار میں دستیاب جواب کا بہتر نعم البدل نہ سمجھے ۔ اب چونکہ ہمارے میٹرک اور ایف ایس سی پر تمام پیشاورانہ کالجوں میں داخلے کا انحصار ہوتا ہے اس لئے یہ رسک کوئی نہیں لیتا اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمارے طلبا رٹا لگاتے ہیں۔
وزیر صاحب نے کروٹ بدلی اور کہا
اور اس طرح ڈاکٹر بن کر ہمیں جان سے مارتے ہیں۔ خیر لیکن آپ یہ بھی دیکھیں ہمارے امتحانات میں معروضی طرز کے سوال بھی تو ہیں جن کا امتیازی معیار لمبے سوالوں سے بہت بہتر ہوتاہے اور اس میں تو بلکہ ایک طرح سے رٹہ لگانے کے رجحان کی حوصلہ شکنی بھی ہوتی ہے۔
آپ کی وہ بات درست ہے سر لیکن ان معروضی سوالوں کا فائدہ صرف شروع کے چند سال ہی ہوا ۔
اس کے بعد نئے سوال تو نہیں بنے البتہ ان تمام معروضی سوالوں کےذخیرے وجود میں آگئے جو رفتہ رفتہ امتحانات میں طلبا کے سامنے آتے گئے اور اب صورتحال یہ ہے کہ طلبا کے پاس متوازی بینک موجود ہیں اور وہ ان کے جوابات رٹ کر امتحان میں ان پر نشان لگا دیتے ہیں اور آسانی سے علم کے کسی بھی جہت کے بنیادی تصور کو آشنا ہوئےبغیر اچھے نمبر لے لیتے ہیں۔
اس وزیر کے پہلو میں دلشاد خان صاحب بھی تھے جو وزیر اعلی کے تبدیلی نصاب کمیٹی کے روح رواں تھے۔ انہوں نے وزیر صاحب سے اجازت لی اور کہا
پروفیشنل کالج این ایم ڈی کیٹ خود لیتے ہیں تو اس میں بھلا۔۔
میں نے ان کی بات کاٹی
قطع کلامی معاف سر لیکن یہ ملحوظ خاطر رہے کہ بے شک امتحان میٹرک کا ہو، ایف ایس سی کا ہو، این ایم ڈی کیٹ ہو یا میڈیکل کی اعلی تعلیم یعنی ایف سی پی ایس کا ۔۔ سب معروضی سوالوں کے پہلے سے طے شدہ بینک جوابات سمیت آسانی سے بازاروں میں دستیاب ہیں اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا کہ اس مساوات میں میں نے ابھی تک امتحانات کے پرچوں کے آوٹ ہونے کا احتمال قطعا خارج از امکان قرار دیا ہے اور اگر وہ بھی ملحوط خاطر رہے تو یہ ایک کچھڑی سی بن جاتی ہے۔
میں نے دیکھا کہ یہ سن کر ہر جگہ خاموشی چھا گئی ۔ وزیر اعلی کے تبدیلی نصاب کا ایجنڈہ جیسے شکست و ریخت کاشکار ہوگیا اور اس سے جڑی نوکریاں بھی۔ دلشاد خان صاحب زیادہ دیر چپ نہ رہ سکے
کیا اس کا حل یہ نہیں کہ وہ اساتذہ کا جو ممتحن ہو ں ہر سال ایسا پرچہ بنائیں جو کسی کے وہم گمان میں بھی نہ ہو۔۔ ہر بار نئی بات پوچھی جائے۔۔ اس کے بارے میں کیا خیال ہے
یہ ایک اچھا آئڈیا ہے لیکن آپ یہ بات بھی سامنے رکھیں کہ کسی بھی موضوع پر سوالات، چاہے آپ کتنے ہی مختلف کیوں نہ بنائیں محدود ہوتے ہیں اور جلد یا بدیر سوالات کا طریقہ اور اس کے بہترین جوابات ایک توازن میں آجاتے ہیں اور پھر اس کے گائڈر بازار میں نموردار ہوجاتے ہیں۔
دوسری اہم بات یہ کہ ان تمام سوالات کی تیاری کے لئے موجودہ بورڈز کا نظام کافی نہیں اس کے لئے ایک خودمختار محکمہ چاہئے لیکن ہر تین سال بعد ہمارے کسی بھی محکمے کی کارکردگی ایک خاص حد تک بڑھ کر رک جاتی ہے چاہے اس کے بنانے میں کتنی ہی نیک نیتی نہ ہو جیسے اینٹی کرپشن، نیب، نادرہ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ سر دست میرا مقصد ان سیاسی عوامل کا احاطہ نہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے لیکن بتانا یہ چاہتا ہوں کہ یہ ایک دیر پا حل نہیں
یہ سن کر وہ جز بز ہوئے اور قدرے طنزیہ انداز میں پوچھا
اس پورے مسئلے کا حل کیا ہے، آپ کی نظر میں ؟۔
میں نے جواب میں انہیں وہی بات بتائی جو میں محکمہ تعلیم کی طرف سے اپنے پیشہ ورانہ زندگی میں گزشتہ چار حکومتوں کو بتا چکا تھا اور انہوں نے تقریبا ایک ہی قسم کے اسد لال سے اس رد کیا۔
تعلیم کا مقصد صرف معلومات تک رسائی ہی نہیں ان کا درست تجزیہ، ان کا ماخذ، ان میں موجود خامیوں کا علم اور سب سے اہم بات جہاں علم میں کمی ہے اس خلیج کو پر کرنا یا اس کو پر کرنے کی کوشش کے درست طریقہ کار کی کھوج ہے۔
میں نے یہ گاڑھا جملہ کہہ تو دیا لیکن اس سے پہلے کہ وہ کوئی سوال کرتے میں نے اپنی بات جاری رکھی
اس پورے عمل کے چھ درجے ہیں اور اس کا سب سے بنیادی درجہ طالب علموں کو اصطلاحات سے
روشناس کروانا ہے۔ اس ضمن میں دیکھیں تو یہ درجہ ہم طے کر چکے ہیں کہ ہمارے طلبا ء کسی حد تک اصطلاحات سے واقف ہیں۔
جب میں نے دیکھا کہ یہ بات ان کے سامنے مبرہن ہوچکی تو میں نے اگلی بات سامنے رکھی
اگلا درجہ فہم کا ہے جس میں ان تمام کانسپٹ کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ جیسے آپ کسی کو نماز کے متعلق بتانا چاہتے ہو تو رکوع، قیام، قائدہ تو نمازکی ا صطلاحات ہوئیں لیکن نماز کی درجہ بندی جیسے فرض نفل ان کے مقرر کردہ اوقات اور ان کے بہت ہی موٹے اور غیر متنازعہ فقی مسائل کا علم طلبا کو ایسے دینا کہ انہیں رٹنا نہ پڑے بلکہ نماز خود ادا کرکے یا کسی کو دیکھ کر انہیں مقرر کردہ ترتیب سے دہرا سکیں، بتا سکیں۔
اب اگر اس حصے کا امتحان لیا جائے چاہے معروضی ہو یا غیر معروضی اور اسے کلاس میں انٹرنل اسسمنٹ قرار دیا جائے جس کا اخر میں مجموعی وزن تیس فی صد سے ذیادہ نہ ہو تو یہ طالب علم کی بہترین اسسمنٹ کا ایک حصہ ہے۔ ۔
جب یہ بات بھی کہی جا چکی اور میں نے دیکھا کہ ان کئ طرف سے کوئی سوال نہیں آ رہا تو میں نے مشکل بات کا آغاز کیا
اگلا درجہ اطلاق کا ہے جس میں پہلے سے حاصل کرہ علم کو اس کی درجہ بندی سمیت زندگی کے کسی بھی مرحلے میں ایک مسئلے کے تناظر میں دیکھا جائے اور اس بات کا خیال کیا جائے کہ آیا حاصل کردہ علم قابل اطلاق ہے یا نہیں اور اگر نہیں تو کیوں؟
میں نے بات روک کر ان کا جائزہ لیا
اس کیوں کا جواب بہت اہم ہے اور یہ پڑھایا نہیں جاتا بلکہ طالب علم کو خود تحقیق کرکے اس کا جواب ڈھونڈنا پڑتا ہے اور یہیں سے ان کا امتحان شروع ہوتا ہے۔ اس عمل کو تجزیہ کہتے ہیں جس میں طالب علم اپنی وسعت اور قابتیے کےبل بوتے پر اس سوال کا جواب ڈھونڈھتا ہے اور یہ وہ مقام ہے کہ ہر طالب علم کا جواب اس کی تحقیق پر منحصر ہوگا
دلشاد صاحب نے نفی میں سر ہلایا
آپ کے بازار والے مفروضے کو سامنے رکھیں تو اس کا جواب تو بازار میں دستیاب ہوسکتا ہے تو پھر نتیجہ تو وہی ڈھاک کے تین پات۔۔
سر قطع کلامی معاف لیکن آپ نے یہ نہیں دیکھا کہ یہاں ایسے سوال نہیں جس کا جواب بازار میں دستیاب ہو۔۔ یہاں لامتناہی سوال ہیں اور طلبا پر یہ پابندی ہے کہ پہلے سے جواب شدہ امور کو نہ چھیڑیں ۔۔ یہ ان کی انشا پردازی کا امتحان نہیں ان کی تحقیقی صلاحیتوں کی آزمائش ہے۔
اگر کوئی طالب علم پہلے سے دیا گیا جواب نقل کرے گا تو ایک ایسا سافٹ وئیر ہے جو اسے پکڑ لے گا اور وہ تعلیمی سرقے کے زمرے میں آئے گا۔ اس لئے ان کو ہر دفعہ پیرا فریز یعنی دوسرے الفاظ میں لکھنا پڑے گا اور یہیں گائیڈز والوں کی دکان نہیں چمکتی۔
خیر اس کے بعد ہم اگلے درجے میں چلے جاتے ہیں اور وہ ہے اسلوب ترکیبی اور یہیں جو سوال حل نہیں ہوئے وہ اس کی کھوج کرے اور اپنا حل بتائے اور اگر وہ حل ممکن نہ ہو تو اس کی وجوہات پر روشنی ڈالے۔۔ یہ معاملہ ہر سال بتدریج بڑھتا جائے۔۔ یوں ہمارے طلبا اپنا پراجیکٹ خود کر سکیں گے چاہے وہ بیالوجی ہو، فزکس ہو یا مطالعہ پاکستان
سب نے واہ واہ کی اور ان میں محترمہ سکینہ نقوی صاحبہ جو ہسٹری کی پروفیسر تھیں اور اس پوری تقریر کو بڑے غور سے سن رہی تھیں پوچھا ۔
میں طلبا کو مطالعہ پاکستان ڈگری لیول پر پڑھاتی ہوں۔ آپ نے فرمایا اپ اسی طریقے پر ہسٹری بھی پڑھا سکتے ہیں تو کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ اس کا اطلاق میرے مضمون پر کیسے ہوگا
میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور بتایا
ہسٹری میں جیسے آپ پڑھاتے ہیں کہ سن سینتالیس میں ہندوستان کا بٹوارہ ہوا اور پھر ا کہتر میں ملک کی تقسیم کا سانحہ پیش آیا۔ یہ دونوں تاریخی حقیقتیں ہیں اور اس یونٹ میں کسی ملک کا وجود اور اس کی تقسیم ایک آسان کانسپٹ ہے ۔ یہ ، جیسے میں نے عرض کیا تھا، علم کے پہلے درجےمیں آتا ہے۔ اب اسے پاکستان کے تناظر میں دیکھیں تو اس میں باڈر کی تقسیم، عوام کا رجحان اور اس قسم کے سوالات اطلاق کے درجے میں آتے ہیں۔
اگلی بات ااب اگر ان دونوں تقسیموں کا موازنہ کیا جائے تو یہ بات تو سمجھ آتی ہے کہ وہاں ہندو ہمارئ حق تلفی کر رہا تھا سو ہم نے ان سے چھٹکارہ حاصل کیا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا بنگلہ دیش کا قیام بھی ایسے کسی عمل کا نتیجہ تھا ؟ یہ پراجیکٹ کسی ذہین طالب علم کو دیا جاسکتا ہے۔۔۔
وزیر صاحب نے بے چینی سے کروٹ بدلی
اور وہ طالب علم بھلے سے جا کر حکومت کے آرکائیو ڈیپارٹمنٹ سے یہ پوچھے کہ حمود رحمان کمیشن کی رپورٹ کہاں ہے۔۔ یہ تو بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے والی بات ہوئی
مولوی کریم الدین نے نفی میں سر ہلایا
آپ نے جو نماز کی بات کی ہے تو اس سے تو یہ بھی کھلے گا کہ مختلف فرقوں کی نماز الگ کیوں ہے۔۔ نہیں صاحب اس سے تو مذہبی فسادات بھڑک سکتے ہیں
ایک اور صاحب سکینہ نقوی صاحبہ کی طرف منہ کر کے بولے
اور جیسے کوئی طالب علم اس بات کی کھوج میں لگ جائے کہ پاکستان میں حکومتوں پر شب خون کیوں مارا جاتا ہے یا ججوں کا پاکستان کی تاریخ میں حکومتوں کی تبدیلی کا قانونی جواز فراہم کرنے کی کیا وجوہات ہیں۔۔یا یہ کہ کروڑوں کا غبن کرنے والے ایک پائی بھی نہیں دیتے لیکن دس روپے کی چوری کرنے والے کی چمڑی ادھیڑ دی جاتی ہے۔۔اور پھر یہ سکالر قسم کے والس کرنے والے طالب علم درست تجزیہ کریں اور اپنے سفارشات پیش کرے۔۔ بھئی یہ تو حکومتی رٹ کو چیلنج کرنے والی بات ہوئی۔۔ اس کی تو ہر گز اجازت نہیں دی جاسکتی
وزیر صاحب نے کچھ سوچ کر کہا
میرا خیال ہے اس قسم کے طریقہ تملا سے مطالعہ پاکستان اور دینیات کو استثنا دے دی جائے تو پھر ممکن ہے باقی مضامین اسی روش پر پڑھائے جا سکتے ہیں
اس دن باتیں ہوتی رہیں اور آہستہ آہستہ ہر مضمون میں کچھ ایسے سوال نکل آئے جن کے بارے میں سوال نہیں کیا جا سکتا تھا جیسے حساب میں سود کے متعلق سوال کو اس لئے استثنا دی گئی کیونکہ پورا بینکنگ کا نظام سود پر مبنی ہے۔ بیالوجی میں ارتقا کے مسئلے کو اسلام سے متصادم قرار دے کر مضک اس کا نام لینا بھی گورا نہیں کیا گیا اور اردو ادب میں کچھ ادیبوں کا نام بھی لینا مناسب نہیں سمجھا گیا کیونکہ وہ یا تو اپنے افسانوں میں جنسی جذبات برانگیختہ کرتے ہیں یا وہ سیاسی طور پر ناپسندیدہ تھے۔ ہوتے ہوتے شام تک تمام مضامین بشمول فیزیک ٹریننگ نکل گئے۔
اس دن ایک طرح سے یہ طے ہوا کہ کوئی بھی ایسا تعلیمی نظام جس میں کھوج اور کرید کا عنصر ہو، جو مروجہ علم کے ایوانوں میں ہلچل پیدا کرے یا جو کسی ایسے سوال کی جرائت کرے جس کا سچا جواب دینا مشکل ہو اس طریقہ تعلیم کی سندھ اور پاکستان میں کوئی ضرورت نہیں۔
کسی نے وزیر کو مشورہ دیا
سر آپ کو بھی کیا پڑی ہے ہسپتالوں کا نظام درست کرنے کی یا نظام تعلیم کو آورہال کرنے کی۔۔ آپ کی والدہ تو نہیں فوت نہیں ہوئیں۔۔ آپ پہلی فرصت میں ان کو آغا خان یا باہر بھیجیں اور لعنت بھیجیں اس ملک کے سرکاری ڈاکٹروں اور ان کی بہبود پر۔۔ یہ رٹو طوطے بنیں یا مینے ہمیں کیا؟
دلشاد صاحب نے پوچھا کہ میں وزیر اعلی صاحب کو کیا بتاوں۔
وزیر نے ان کو سرگوشی میں بتایا
آپ ان کو بتا دیں کہ ہم ایک اور میٹنگ ارینج کر رہے ہیں۔۔ ویسے ان کے دن بھی پورے ہونے والے ہیں۔۔میں نے سنا ہے کہ ان کی اسٹیبلشمنٹ سے مسائل شروع ہوچکے ہیں۔۔ ہم فارورڈ بلاک بنا رہے ہیں اور انشاء اللہ نئے انتخابات میں میں ایک اور پارٹی سے ٹکٹ لینے کی بات چیت شروع کرچکا ہوں آپ سمجھ رہے ہیں میرا شارہ کس پارٹی کی طرف ہے
ایک پولیس اہلکار نے پوچھا
سر حوالات میں بند ڈاکٹر وں کا کیا کروں؟
طاہر صاحب انہوں نے میری والدہ تو نہیں ماری اس لئے آپ ان سے معافی نامہ وغیرہ لکھو اکے کل حوالات سے آزاد کریں اور وہ پرسوں سے ڈیوٹی پر دوبارہ جوائن کریں۔۔یہ خیال رکھیں کہ ان سے لکھ کے لے لیں کہ وہ شکایت نہیں کریں گے۔ ۔ بلکہ ایسا کریں سارا معاملہ کاغذوں میں دبا دیں۔۔ لوگ تو مرتے ہی رہتے ہیں خوامخوا ایسی باتوں کو اچھالنے کا کیا فائدہ
میٹنگ اختتام کو پہنچی اور میں نے کمپیوٹر سے اپنی پریزینٹیشن ڈیلیٹ کی۔ مجھے ایک با رپرو یہ اندازہ ہوگیا کہ مسئلہ سکولوں اور کالجوں کے نصاب میں نہیں کہیں اور ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.