نور علی شاہ کو اداس ہونے کے لئے کچھ چاہئے
جو سچ تھا، وہ تواریخ کے پنوں میں چھپ گیا نہیں، چھپا دیا گیا۔ تواریخ کے گدلے نالے میں۔۔۔ اور نالے سے اٹھتی ہوئی بدبو سونگھنے والے بھلا کیسے سوچ پائیں گے کہ کبھی سلطنت اور شہنشاہیت کے گذرے قصوں میں ان کی بھی ساجھے داری رہی ہوگی۔ نہیں نور علی شاہ۔ اس جھانسے سے کام نہیں چلےگا۔ جو کبھی تھا، وہ گزر چکا ہے، اور جوہے وہ اس گندے نالے سے بھی بدتر ہے، جس کے ارد گرد جانے سے بھی لوگ کتراتے ہیں، دور بھاگتے ہیں۔
چار کھمبے والی گلی۔ گلی کے اندر ایک چھوٹا سا مکان۔ کبھی اپنا بھی مکان ہوتا۔ یہ آرزو دل کی دل میں رہ گئی۔ زندگی کٹ گئی تو اسی کرائے کے اصطبل میں۔ باہر دروازے پر ٹاٹ کا جھولتا ہوا پردہ۔ بہت تھک جاتے تو آلتی پالتی مار کر دروازے پر ہی بیٹھ جاتے۔ دروازے کے سامنے زیادہ تر کنجڑے، قصابوں کے گھر تھے۔ جن کے آوارہ بچے دن بھر ادھم مچاتے ہوئے گلی کا ستیا ناش کئے رہتے۔ بچوں کے چیخنے، ہنگامے کرنے کی آواز انہیں زیادہ پریشان کرتی تو وہ گلیوں سے بارہا سنی گالیوں کی تھال لئے غصّے میں بچوں کو مارنے دوڑ پرتے۔۔۔ مادر۔۔۔ حرامیوں۔۔۔ ماں باپ نے سکھایا نہیں کہ گلیوں میں کیسے کھیلتے ہیں۔ تمیز و تہذیب سے دور کا بھی واسطہ نہیں اور واسطہ رہے بھی کیسے یہ سب چیزیں تو خاندانی ہوتی ہیں۔ خون میں تہذیب دوڑ رہی ہوتی تو جانتے کہ اچھے گھرانوں کے بچے زندگی کس طرح گزارتے ہیں۔‘‘
بہت زیادہ غصے میں آ جاتے تو فراٹے دار گالیاں بکتے ہوئے ہاتھ میں اینٹے یا پتھر اٹھا لیتے اور گلی کے کسی مقام پر کھڑے ہو کر بچوں کے ماں باپ کی ساتھ پشتوں کی فضیحت کر بیٹھتے۔ اس بیچ بچوں میں سے کسی کی جان پہچان والا آ جاتا تو سمجھئے مہابھارت شروع ہو گئی۔ اگر کوئی نہیں آتا تو بچے خود ہی ہلے رے۔۔۔ رے۔۔۔ کرتے ہوئے نور علی شاہ کو دوڑا دیت۔ بچوں میں سے کوئی دبی آواز میں منہ بنا کر بولتا۔ بیٹا۔۔۔ اور نور علی شاہ سرپٹ بھاگ رہے بچوں کو مغلظات گالیاں بکتے ہوئے ’’رگید‘‘ دیتے۔ کمبخت، کمینے۔۔۔ آ گئے نا اپنی اوقات پر۔۔۔ نور علی شاہ کو بیٹا کہنے کی جرات کرتے ہو۔۔۔ جس کا خاندان نواب امجد علی شاہ کے گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔ کم بختو، میرا مذاق اڑاتے ہو، ہے ہے۔ افسوس اب ہمارا زمانہ نہیں ہے۔ ورنہ مصاحبوں سے کہہ کر خانہ بدوشوں کی طرح یہاں سے نہ اٹھوا دیا ہوتا تو پھر میرا نام بھی بدل دیت۔۔۔ نا اہلو۔۔۔ بدبختو۔۔۔‘‘
ایک بار جو گالیوں کی برسات شروع ہوئی تو پھر کہاں تھمنے والی تھی۔ اس بیچ اسلم کو اس کی خبر لگ جاتی تو وہ جبراً انہیں کھینچتا ہوا اندر لے آتا۔ نور علی شاہ جھٹکے سے ہاتھ چھڑا کر پھر دروازے پر آ جاتے اور باقی بچی گالیوں کی تھال پروسنے میں لگ جاتے۔ اسلم یعنی اسلم علی شاہ۔۔۔
تب بڑی مشکل سے سر پر آنچل ڈالے، بڑی بی دروازے پراتیں، نمودار ہوتیں۔ بےپردگی کا مظاہرہ ہی ان کے احتجاج کی آخری کڑی ثابت ہوتا۔ لو بہت ہو گیا۔ اب اندر بھی آ جاؤ۔ ذرا پرانے وقتوں کی لاج رکھیو۔ امجد علی شاہ کے خاندان پر رحم کریو۔۔۔ ذرا سوچیو۔ ان کی روحیں قبروں میں اس منظر کو دیکھ کر کیسے تڑپتی ہوں گیں۔
بڑی بی کو دیکھتے ہی نور علی شاہ کے بدن میں اضطرابی کیفیت چھا جاتی۔ ارے تم کیوں آ گئیں۔ چلو اندر جائیو۔۔۔، گرد و غبار میں ڈوبی ہوئی تیز آندھی جیسے ایک جھٹکے میں تھم جاتی۔ بدن میں تہذیب اور اخلاق کے گرگٹ تھرکنا اور کانپنا شروع کر دیتے۔ وہ بغیر رکے جھٹ سے اندر چلے آتے اور گالیوں سے کوسنے کی طرف دن کا دوسرا حصہ بھی ڈھلنے لگتا۔ وہ بڑبڑاتے رہے۔۔۔ لو دیکھو۔۔۔ دیکھو بھائیو۔۔۔ امجد علی شاہ کے خاندان پر کیا بدنصیب وقت آن پڑا ہے۔۔۔ اب وہ پالکیاں کہاں کہاں کے کہار۔ زنانیاں نامحرموں کو شکل دکھانے باہر نکلنے لگی ہیں۔۔۔ ہے ہے۔۔۔ زمین پھٹ جائے پاک پروردگار۔۔۔ اب کون سا دن دیکھنے کو یہ آنکھیں باقی ہیں۔
دن بھر کے اکتائے قصوں میں یہ سارے منظر روز کا حصہ تھے۔ لیکن ابھی ایک اور منظر بچ رہا ہوتا۔ منحنی سا اسلم لاکھ ضبط کے بعد بےقراری کے عالم میں ابا کے سامنے، ہوا کے زور سے ہلتی کمزور دیوار کی طرح تنے کی کوشش کرتا۔۔۔ ہڈیوں کے ڈھانچے میں جیسے کرنٹ بہنا شروع ہو جاتا۔ اٹھنگا سا پائجامہ اور کرتا پہنے اسلم اپنی پتلی پتلی بینت جیسی ٹانگوں پر کھڑا ہو جاتا۔
’’ابا بہت مذاق بن چکا ہمارا۔ ایسا کیوں کرتی ہیں آپ؟‘‘
وہ ایسے دیکھتا جیسے ایتھنز کے خداؤں کو نہ پوجے جانے کے جرم میں سزائے موت کے طور پر زہر کا پیالہ پینے کی تجویز رکھنے والوں نے سقراط کو دیکھا تھا اور سقراط آنکھیں جھکا کر اپنے بدصورت پیروں کو تکنے لگا تھا اور خوش ہوا تھا کہ اس کا انتہائی بدصورت ٹنڈ منڈ پیر بیوقوفوں اور نا سمجھوں کے چہرے سے زیادہ چمک رہا تھا۔
نور شاہ نے ٹھیک ایسے ہی جھک کر اپنے پیروں کو دیکھا اور بس دھیرے سے مسکرا دیئے۔ پھر چپ سے اچھے اور اپنے بیٹھکے میں آ گئے۔
بیٹھکے میں آنے تک وقت ٹھہر چکا ہوتا۔ حال سے اوقات کی سنکری گلیوں میں داخل ہونے تک وقت کا مارا خبطی بوڑھا دوسروں کی نظر بچا کر کب کا ان میں پورا کا پورا اتر چکا ہوتا۔
ایسے بھی دن ڈھلتا ہے کیا؟ راتیں آسمان پر ٹمٹماتے ستاروں کی طرح اتنی چھوٹی کیوں ہوتی ہیں، بچپن سے، اماں کے ہاتھ سے بیلن چوکی چھین کر بنائی گئی ٹیڑھی میڑھی چھوٹی چھوٹی روٹیوں کی طرح۔۔۔ عمر کے پاؤں پاؤں چل کر تواریخ کے گلیارے میں احساس اور جذبات سے دھینگا مشتی کرتے ہوئے گزرا وقت چہرے پر گہری جھریاں چھوڑ گیا تھا۔۔۔ ان جھریوں میں بیتے دنوں کی خلش موجود تھی۔۔۔ اب نقاہت سما گئی تھی۔ سانسیں تھمنے اور ٹوٹنے لگی تھیں۔ زندگی میں خالص کے نام پر بس شونیہ کی خالی خالی یاترائیں تھیں۔۔۔ اور سنہرے ماضی کے آبشار کے شور تھے کہ ب ابھی ابھی تو سلطنت، جاگیریں اور شہنشاہیت کے قصبوں سے نکل کر ٹرین جمہوریت کے بے حال اسٹیشن تک پہنچی ہے۔۔۔ آنکھوں میں آنسو نہیں ہوتے بس۔۔۔ سوکھی سی گرد ہوتی جو وقت کو گالیاں اچھالتے وقت چپکے سے آنکھوں میں پڑ گئی ہوتی۔ آنکھوں کو صاف کرتے۔ پائجامہ تھوڑا سا اوپر چڑھا کر، اکڑوں بیٹھ کر دونوں پاؤں کے پنجوں کو برابر برابر پھیلا دیتے۔۔۔ غور سے پنجوں کو دیکھتے۔
ہاں اسے کہتے ہیں خاندانی پیر۔۔۔ محراب نما انگوٹھا اور مسجد کے ستونوں کی طرح ایک دوسرے سے جڑی تنی تنی لمبی لمبی انگلیاں، خوبصورت عورت کے سینے کے گداز کی طرح ابھرا ہوا تلوا، تلوے سے انگوٹھے کی طرف جاتی ہوئی خمیدہ فلائی اوور کی طرح چمکتی سڑک۔ اسی پر تو وہ جان نثار کرتے تھے وار ابا مرحوم لیاقت علی شاہ فخر سے بتایا کرتے تھے کہ نور علی شاہ دھیان سے سن، خاندانی لوگ اپنے ہاتھ اور پاؤں سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔۔۔ خوبصورت، سانچے میں ڈھلے ہوئے۔۔۔ واﷲ کیا کہنے۔۔۔ ہم تو خیر نوابوں کے خاندان سے ہیں۔ ہماری برابری بھی کیا ہے۔
نواب اور نوابوں کا خاندان۔۔۔ بدلتے وقت کے سانچے میں نہیں ڈھلے تو بس اسی وجہ سے کہ قدم قدم پر یہ نوابی ہونا ریڈ سنگل کی طرح انہیں روک دیتا تھا۔ زندگی میں کچھ بھی نہیں کیا تو بس اسی لئے کہ نوابی خاندان پر حرف نہ آ جائے۔ اﷲ نوابی خاندان کے زوال کے بعد بھی ان کی نسلوں نے اس نوابیت کی لاج تو رکھی تھی۔۔۔ ابا میاں لیاقت علی شاہ نے بھی کیا کیا، بس زندگی بھر اسی کفن کو اٹھائے ڈھوتے رہے۔ نوابوں کی یادگار کے نام پر بس ایک صندوق تھا جو نسل در نسل ہوتا ہوا اب ان کے پاس تھا۔ خدا کی مار، کہ اب اس شاہی صندوق کو بھی اس کباڑ نما دو چھوٹی چھوٹی کوٹھریوں والے دربے میں کون سی جگہ ملی تھی۔ پائخانہ جانے والے راستے کے پاس اسٹور کے استعمال کے لئے تھوڑی سی جگہ تھی۔ جہاں گھر کی بیکار چیزیں بے قرینے، پھینک دی جاتیں، وہیں کنارے۔ یہاں چار کھمبے والی گلی مکان ملنے کے بعد بس اس صندوق کو یہی جگہ نصیب ہوئی تھی۔ صندوق کا پھیلان اتنا تھا کہ کوٹھریوں میں رکھنے کے بعد جگہ اور بھی تنگ ہو جاتی۔ آخر سوچ سمجھ کے بعد انتہائی صبر اور آہ کے ساتھ تعفن کو جانے والے راستوں پر صندوق کو رکھ دیا گیا۔ پائخانہ آتے جاتے نور علی شاہ اس موروثی صندوق کو درد انگیز نظروں سے دیکھتے اور وقت کی بے مروتی، بے رحمی پر گیلی لکڑی کی طرح نم ہو جاتے۔ ماضی کی بھول بھلیاں میں گم ہونے کی خواہش ہوتی تو افسردگی سے صندوق کا تالہ کھولتے۔ صندوق کی گرد صاف کرتے ہوئے کرتا پائجامہ دھول میں اٹ جاتا۔ کہتے ہیں صندوق قیمتی صندل کی لکڑیوں کا بنا تھا۔ کئی پشتوں تک صندل کی خوشبو نسل در نسل اپنی مہک کی خیرات بانٹتی رہی بالآخر یہ خوشبو بھی وقت کے سانحے میں کھو گئی۔ اب ناک لکڑی میں گھسا کر بھی رگڑیے تو کم بخت خوشبو نہیں بلکہ ایک عجیب سی بدبو ناک کے ذریعہ منہ میں داخل ہو جاتی۔ لیاقت علی شاہ نے مرنے سے پہلے صندوق کی تالہ کنجی نور علی شاہ کے ہاتھوں میں سونپی تھی۔ لے بیٹا بس یہی تیرے خاندانی ہونے کی نشانی ہے۔ اسے سنبھال کر رکھیو۔ انہوں نے تالہ اچھی طرح بند کر کے دیکھا، کنجی جیب میں رکھی، پھر ابا کی طرف مڑے تو ابا جگ سے منہ موڑ کر انتہائی آرام کی نیند سو چکے تھے۔ جیسے بیٹے کو جاگیر سونپتے ہی چین و قرار آ گیا ہو۔
لیاقت علی شاہ کو حکومت ہند کی طرف سے کل جمع 80 روپیہ شاہی بھتہ ملتا تھا۔ بھتے کی رقم میں بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ نہ کمی آئی نہ زیادتی۔ بس یہ بھتہ بندھا رہا۔ یہ بھتہ ان کے خاندان کو مل رہا تھا۔ زندگی ٹھکانے لگانے ک لئے اسی بھتہ کا گزارا تھا۔ کبھی کبھی نئی سرکاریں بدلنے کے دوران اس بھتہ کے ملنے میں مشکلیں بھی پیش آئیں۔ کورٹ کچہری کے دس چکر لگے تو یہ بھتہ پھر جاری ہو گیا۔ کبھی کبھی کوئی بڑا سرکاری افسر اچانک ان پر ترس کھا اٹھتا، ’’اوہ، اتنے بڑے خاندان سے ہیں آپ۔ لگتا نہیں ہے، جیسے ان کی خستہ، بےگور و کفن لاش میں وہ اس دور کی نوابیت تلاش کر رہا ہو۔ پھر ایک طنزیہ ہنسی۔ وہ اس ہنسی کو اچھی طرح پہچانتے تھے۔ جی حضوری کے وہ قائل تو نہیں تھے مگر مجبوری تھی اور نتیجہ میں بھتہ اب 150 روپیہ پہنچ گیا تھا جس میں 50 روپیہ تو مکان کا کرایہ ہی نکل جاتا۔ آسودگی کے نام پر محض نواب گھرانے کے ہونے کا احساس تھا اور وہ اس احساس کو پورے طمطراق سے نسل در نسل ڈھوئے جا رہے تھے۔
پڑوس میں ہی مختار بنیے کی دکان تھی۔ جب تب اسی دکان کا آسرا تھا۔ لیکن جہاں کمائی کا کوئی راستہ نہ ہو وہاں اکیلا بنیا بے چارہ کہاں تک سودہ سامان ادھاری دیتا رہتا۔ سو ایک دن غصے میں آ کر نور علی شاہ کا ادھاری کھاتہ بند کر دیا۔ پڑوسی ہونے اور نوابی شان، سب واسطہ دھرا کا دھرا رہ گیا۔ مختار کی اکڑ اور ہٹ میں پیٹ کی دوزخ پگھل پگھل گئی۔ گھر میں دو روز سے فاقہ تھا۔ جام شہادت قبول کرنے کا وقت آ چکا تھا۔ وہ جیسے پہلی بار مختار کے آگے سرنگوں ہو گئے۔
’’لو ننگے آیا ہوں۔ اب بولو۔ امجد علی شاہ کے خاندان کا کوئی آدمی خواب میں بھی کبھی اس طرح ننگا نہ ہوا ہو گا میاں جیسے میں ہو رہا ہوں، تمہارے سامنے۔ چاہو تو مجھے گروی رکھ لو۔ میرا تماشہ بنا لو۔ مگر ادھاری مت بند کرو۔‘‘
اور مختار نے جیسے قربانی کے جانور کے ذبح کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔
’’ٹھونگا بنا سکتے ہیں آپ۔ میاں جی ٹھونگا بنائیے۔ ہم خریدیں گے۔ آس پاس کی کئی دکانوں میں بھی بات کرا دیں گے۔ ہر طرح کے چھوٹے بڑے۔ کیلو دو کیلو والے۔ دام مناسب ملیں گے۔‘‘
تب سے وہ ٹھونگا ہی تو بنا رہے ہیں۔ شروع شروع میں گھر میں رکھی پرانی کتابیں اور کاپیاں اس کام میں آ گئیں۔ پھر سڑکوں سے بیکار پڑے کاغذ اٹھا اٹھا کر گھر لائے جانے لگے۔ بیوی بچے سارا دن روزی کے تلخ نوالے گلے سے اتار نے پر مجبور تھے۔ مہینے میں 200-250 روپیے تک ک ٹھونگے بن جاتے۔ مختار نے دو چار جگہوں پر بات کرا دی تھی۔ شروع شروع میں تو ٹھونگے پہنچانے وہی جایا کرتے تھے پھر اسلم بھی جانے لگا۔ ہاں کبھی کبھی دل سے آہ اٹھتی تو زور زور سے چیخنا چلانا شروع کر دیتے۔۔۔ ہے ہے۔۔۔ دیکھو لوگو۔۔۔ کیا نازک زمانہ آ گیا ہے۔۔۔ امجد علی شاہ کے خاندان والے ردی کے ٹھونگے بھی بنانے لگے ہیں۔‘‘
سب کچھ حسب معمول چل رہا تھا کہ ایک چھوٹا سا واقعہ ہو گیا۔ ممکن ہے دوسروں کی نظر میں اس کی بہت اہمیت نہ ہو مگر نور علی شاہ کے لئے اس کی اہمیت اتنی تھی، جتنی سمندر میں بھٹک رہے جہاز کے لئے قطب تارہ کی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ہکسلے اپنی کتاب کے سلسلے میں ہندوستان آئے ہوئے تھے۔ دراصل وہ ہندوستان کے شاہی گھرانوں اور ان کے زوال پر ایک اہم کتاب ترتیب دے رہے تھے۔ اس سلسلے میں پورے ملک میں گھوم گھوم کر انہوں نے کافی مواد جمع کر لئے تھے۔ پروفیسر ہکسلے کو جب نواب امجد علی شاہ کے گمنام خاندان کا پتہ چلا تو وہ خود کو ملنے سے نہیں روک پائے۔ چار کھمبا کی گندی گلی میں کار کے داخل ہونے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اس لئے کار باہر ہی کھڑی کرنی پڑی۔ پروفیسر ہکسلے کے ساتھ ان کا ایک انڈین فرینڈ بھی تھا۔ جس سے ان کی پرانی خط و کتابت تھی۔ کتاب سے متعلق مواد کی فراہمی میں اس نے خاصہ مدد کی تھی۔
تنگ گلی میں گورے چٹے انگریز کو دیکھتے ہی چہ میگوئیوں کا بازار گرم ہو گیا۔ بچوں کے علاوہ مختار کی دکان پر بھیڑ لگانے والوں نے بھی حیرت سے گورے چمڑے والے کو دیکھا۔ یقیناً ان کی حیرت کی اس وقت انتہا نہ رہی، جب اس کے ساتھ والے شخص نے کسی سے نور علی شاہ کے بارے میں دریافت کیا۔
مختار نے گردن اچکا اچکا کر نو وارد کو کسی آٹھویں عجوبے کی طور پر دیکھا اور پاس کھڑ گاہک سے طنزیہ لہجے میں بولا۔۔۔ ’’یہ انگریز سالے تو بھارت سے چلے گئے تھے، پھر واپس کیسے آ گئے؟‘‘
’’نور علی شاہ‘‘ کو پوچھ رہا ہے۔‘‘
’’نور علی شاہ‘‘ مختار کی ہنسی چھوٹتے چھوٹتے رہ گئی۔ جیسے اچانک اس نے نور علی شاہ کے سراپا میں ان کے بنائے ٹھونگوں کا عکس دیکھ لیا ہو اور حیرت یہ کہ اس وقت بھی اس ک ہاتھ میں وہی ٹھونگا تھا جو نور علی شاہ کے یہاں سے بن کر آیا تھا اس میں کسی گاہک کا سودا پیک کر رہا تھا۔
پروفیسر ہکسلے اور ساتھ والا حیدر آبا دی چھوٹے چھوٹے گندے بچوں کی فوج پار کرتے ہوئے نالے پر بنے مکان پر چڑھ گئے، جہاں دروازہ پر بھورے رنگ کا ٹاٹ کا پردہ گرا ہوا تھا۔ کسی محلے والے نے دروازہ کی کنڈی ہلا کر بانگ لگائی۔ ’’نور علی، ودیش سے کوئی ملنے کو آئیے با۔‘‘ نواڑ کی پلنگ س، دھب سے کودے نور علی شاہ، پائجامہ کا ازاربند بند کرتے ہوئے دروازہ کی طرف تیزی سے دوڑ گئے۔ سچ مچ سامنے ایک خوش شکل 40-45 سال کی عمر کا ایک گوری چمڑی والا انگریز کھڑا تھا۔
’’ٹوم نور علی شاہ‘‘ اس نے بے انتہائی نرمی اور ملائمت سے ہاتھ بڑھایا۔۔۔
حیدرآبا دی نے شستہ اردو میں مکالمہ جڑا۔ ’’یہ آکسفورڈ سے آئے ہیں۔ آپ سے خصوصی طور پر ملنے کے متمنی تھی۔ دراصل آپ کے شاہی خاندان کے بارے میں کچھ پوچھنا چاہتے ہیں۔‘‘
اس نے محسوس کیا، ہکسلے بھی ٹوٹی پھوٹی زبان آسانی سے بول پا رہا تھا۔
نور علی شاہ کا چہرہ کھل اٹھا۔ ’’آئیے۔۔۔ باہر کیوں کھڑے ہیں۔ اندر آ جائیے۔‘‘ مگر اندر کون سی جگہ تھی، بیٹھنے بیٹھانے کے لائق۔ دنیا بھرکے کپڑے پھیلے ہوئے تھے چھوٹے سے برآمدے میں الگنی میں پسرے کپڑوں سے پانی اب بھی چورہا تھا۔ وہیں ایک طرف اسلم اور فاطمہ بیٹھے ٹھونگے بنا رہے تھے۔ بڑی بی سر جھکائے گندے برتنوں کو انہماک سے دھونے لگی تھیں۔
غصہ جیسے چڑئے کی طرح اچانک نور علی شاہ کی ناک پر بیٹھ گیا۔
’’یہ دیکھئے نوابوں کا خاندان، شاہی خاندان۔۔۔ مگر ٹھہریے۔ میری عورتیں پردہ کرتی ہیں۔۔۔‘‘
انہوں نے غصّے میں ڈانٹ کر بیوی اور لڑکی کو باہر جانے کا اشارہ کیا۔ غصّے میں اپلاتے ہوئے چیخ پڑے۔ اب ہماری قدر کہاں۔ قدر تو انگریز جانتے تھے۔ آپ جانتے تھے اور بھارت سرکار نے ہماری بولی لگائی ہے صرف ڈیڑھ سو روپے ’’جس میں سرکاری افسر کے لئے ایک اچھی سی شراب تک نہیں آ سکتی۔‘‘
پروفیسر ہکسلے نے ان کے کندھے پر پیار سے ہاتھ رکھا۔ ہم کو معلوم۔ یہی تو جاننے اور پوچھنے ہم آیا۔۔۔
اس نے پیار سے، بے حد معصوم دکھنے والی نیلی نیلی آنکھوں سے کسی بچے کی طرح ان کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے گردن ہلائی۔ تب تک مختار بنیے کا بھیجا ہوا لڑکا دو لڑکا دو بینت کی کرسیاں لے آیا تھا۔ ہکسلے اور حیدر آبا دی ان کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ نیواڑی کی پلنگ پر نور علی شاہ پیروں کو لٹکائے سوچ میں گم ہو گئے۔ یہاں ان کے ملک سے تو کبھی ایک چڑیا بھی ان کی کھوج لینے نہیں آئی اور یہاں باہر سے۔۔۔ باہر والوں کی بات ہی نرالی ہے۔
’’کوئی تکلف نہیں۔ ہم صرف کچھ پوچھنے آئے ہیں۔‘‘ حیدرآبادی نے ٹائی کی ناٹ درست کی۔ ترچی نظروں سے گھر کا جائزہ لیا۔ اڈگی کواڑ سے سہمی ہوئی نظریں ادھر ہی دیکھ رہی تھیں۔ اس بیچ ایک بچہ دو گلاس اسپیشل چائے لے کر آ گیا۔ حیدرآبادی کو گلاس تھامتے ہوئے تھوڑی ہٹر بڑا ہٹ بھی ہوئی مگر گوری چمڑی والے نے آسانی سے شکریہ کہتے ہوئے گلاس تھام لیا۔ اور دھیرے دھیرے چسکی لینے لگا۔
’’ہاں امجد علی شاہ کے بارے میں۔۔۔ ٹوم جو بولے گا، ہم لکھےگا۔‘‘ اس کے لہجے میں وہی ملائمت تھی۔ پھر جیب سے نوٹ بک نکال کر، خالی گلاس نیچے رکھ کر وہ ہمہ تن گوش ہو گیا۔
تواریخ کی سبز وادیوں کی یادگار پر گرد جم چکی تھی۔ نور شاہ دھیرے دھیرے اس گرد کو صاف کر رہے تھے۔ سب کچھ تو وقت نے چھین لیا۔ کیسی ریاستیں اور جاگیریں۔۔۔ پرانے قصوں کے پٹارے کھل گئے تھے۔ راجہ مہاراجہ کی شان و شوکت کی انوکھی البیلی کہانیاں، عیش و عشرت کی عجیب داستانیں وہ سناتے رہے۔۔۔ بتاتے رہے۔ سب کہانیاں وقت کی تحویل میں دفن ہوتی رہیں۔ ہندوستان تبدو پاٹ نہیں ہوا تھا لیکن نواب امجد علی شاہ کے پر پوتوں کے نصیب کو گہن لگ چکا تھا۔ ریاست ختم ہو چکی تھی۔ جاگیریں حکومت نے چھین لیں۔ جو محل تھا، شاہی اصطبل تھا، وہ سب حکومت نے بطور میوزیم اپنی نگرانی میں لے لیے۔ اب ٹورسٹ آتے ہیں، جاتے ہیں، لاکھوں کے وارے نیارے ہیں اور یہاں یہ بندہ بیراگی جسے نواب امجد علی شاہ کا وارث بتاتے ہوئے بھی شرم آتی ہے، بھوک سے بے حال ہے، کپڑوں سے ننگا ہے، اور اس پھٹ حالی میں صرف داستان گو بن کر رہ گیا ہے۔۔۔ آہ۔۔۔ امجد علی شاہ کا اصطبل دیکھئے جہاں شاہی گھوڑے بندھتے تھے، وہ آج کے عالی شان عمارتوں اور کوٹھیوں سے بھی بہتر ہیں۔۔۔
وہ سناتے رہے۔ انگریز بیچ بیچ میں روک روک کر کچھ سوال کرتا۔ حیدرآبادی دھیمے سر میں کچھ جواب دیتا۔ انگریز سر ہلا کر پھر لکھنے میں محو ہو جاتا۔۔۔
دوپہر کا سورج منڈیروں سے کچھ دور چلا گیا تھا۔ آنگن میں کچھ بدلی سی چھا گئی تھی۔ نور علی شاہ پھر سیاسی زمانے میں پہنچ گئے تھے۔ شدت جذبات سے آواز کبھی لڑکھڑا جاتی تھی۔ گلو گیر ہو جاتی۔ اچانک وہ ٹھہرے آنکھوں میں گزرے وقت کی گرد پڑ گئی تھی۔ ’’نشانی۔۔۔ آپ نشانی پوچھتے ہیں۔‘‘
’’ہاں۔ یس۔۔۔‘‘ انگریز نے متاثر کن انداز میں سر کو دوبارہ جنبش دی اور بےقراری میں اٹھ کھڑا ہوا۔ گردن سے جھومتا ہوا کیمرہ نکالا اور معصومیت سے بولا۔۔۔
نور علی شاہ ہم ایک پوز چاہٹا۔۔۔ جھٹ سے فلیش چمکا۔۔۔ اور نور علی شاہ جھب سے کیمرے میں سما گئے۔
لیجئے لیجئے۔۔۔ آواز شدت جذبات سے بھاری تھی۔۔۔ اس مرغی کے دربے کی بھی تصویریں لیجئے۔ جہاں ہم رہتے ہیں۔ مگر نہیں معاف کیجئے گا۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ عزت کی اتنی پاسداری ہے کہ خواتین کو آپ کے سامنے حاضر نہیں کر سکتا۔ نہیں۔ بے شک نہیں۔ کبھی نہیں۔ آپ ادھر ادھر کی جتنی مرضی تصویریں لیجئے۔
انگریز کے کیمرے کی فلیش گھر کی خستہ حالی پر کئی بار چمکی۔ اس کی آنکھوں میں شکریہ کا مفہوم چھپا تھا۔ حیدرآبادی نے شائستہ لہجے میں پوچھا۔ کوئی نشانی جو محفوظ رہ گئی ہو۔۔۔؟‘‘
’’ہاں ہے تو سہی۔۔۔‘‘ ان کے دل سے سرد آہ نکل گئی۔ ’’آئیے۔ چلیے۔ آپ بھی دیکھئے۔‘‘
وہ رندھ قدموں سے پائخانہ جانے والے راستوں کی طرف بڑھے۔ پھر تھم سے گئے تعفن کا ایک تیز ریلا کھلے سنڈاس سے نکل کر ہوا میں گھل مل گیا تھا۔
’’یہ ہم ہیں۔۔۔‘‘ وہ چبا چبا کر بولے۔ گوہ اور موتر میں نہائے ہوئے۔ دن رات اسی تعفن کو برداشت کرتے ہیں اور جیتے ہیں۔ بس۔ انہوں نے اسلم کو آواز لگائی۔ اسلم جو کواڑ کے پیچھے چھپ کر کھڑا تھا۔ تیزی سے آیا۔ انگریز اور حیدر آبادی کو جھٹکے سے سلام کیا اور ابا کی آنکھوں میں جھانکا۔
یہ صندوق۔۔۔ اسے باہر نکالیو۔۔۔ انہوں نے پھیلے کباڑ کی طرف اشارہ کیا۔ پھر انگریز کی جانب توجہ سے دیکھتے ہوئے بولے۔ اس کے اندر جو کچھ بھی ہے وہ ناقابل دید ہے نہ آپ کے کسی کام کی۔۔۔ مگر نشانیاں تو ہیں اور دیکھئے تو سہی۔ ان نشانیوں کو کیسی جگہ نصیب ہوئی ہے۔
انگریز کے فلیش چمکتے رہے۔ تالہ کھلنے پربھی۔ صندوق کے اندر سے گرد و غبار کا ایک تیز جھونکا اٹھا۔ انگریز نے متجسس ہاتھوں سے ان نشانیوں کا لمس محسوس کیا۔ بے آن، بےرنگ، بے رونق اور اپنی آب کھوتی نشانیاں۔۔۔
اس نے پھر ایک تصویر لی۔ اس کا چہرہ مسکرا رہا تھا، دوسرے ہی لمحے اس کا ہاتھ اپنی جیب میں گیا اور کچھ کرنسی نوٹ اس نے مضبوطی سے نور علی شاہ کے ہاتھ میں پکڑا دیئے۔ دھیرے دھیرے ان کے ہاتھوں کو تھپتھپایا اور حیدرآبادی کا ہاتھ پکڑ کر باہر نکل آیا۔
وہ کب گئے، گاڑی کب روانہ ہوئی، انہیں کچھ پتہ نہیں۔ وہ بس بے خبری میں کھوئے رہے ایک عجیب سی آگ تھی جو اچانک ان کے اندر بھٹی کی طرح روشن ہو گئی تھی۔ بدن تپ رہا تھا۔ سر پھٹا جا رہا تھا۔ نشانیاں۔۔۔ وہ صرف نشانیوں کے بارے میں غور کر رہے تھے۔۔۔ نواب امجد علی شاہ کے خاندان کی آخری نشانی۔۔۔ اب اس نشانی کو دیکھنے کے لئے بھی لوگ آیا کریں گے۔ پھر جاتے جاتے دیکھنے کا ٹیکس بھی ادا کریں گے۔۔۔‘‘
وہ بار بار بھڑک رہے تھے۔۔۔ بار بار پروفیسر ہکسلے کے کیمرے کا فلیش ان کی آنکھوں میں چمک رہا تھا۔
وہ دیکھ رہے تھے۔۔۔ وہ کھڑے ہیں۔۔۔ گندہ سا، اٹھنگا سا پائجامہ اور اس پر چور مچور شکن آلود کرتا۔۔۔ چہرے پر پڑی ہوئی جھائیاں اور اجھڑائے بال۔۔۔ ان کا دبلا پتلا جسم۔۔۔ اور فلیش چمک رہا ہے۔۔۔
سنڈاس کے پاس کباڑ کے ڈھیر میں پڑا تواریخی صندوق۔۔۔ صندوق میں پڑی بوسیدہ، گرد و غبار میں ڈوبی صدیوں پرانی نشانیاں اور فلیش چمک رہا ہے۔۔۔ زمین پر چھترائے ہوئے برتن، الگنی پر سوکھتے ہوئے کپڑے۔۔۔ اور فلیش چمک رہا ہے۔۔۔
نور علی شاہ! وہ بہت دھیرے سے مردہ لہجے میں بڑبڑائے۔۔۔ تم محض نشانی رہ گئے ہو۔۔۔ اپنے پرکھوں کی آخری یادگار۔
زمین پر دونوں پاؤں کو جوڑ کر وہ غور سے دیکھتے رہے۔۔۔ ایک عجیب سی کراہیت ان کی نس نس میں بس چکی تھی۔ وہ بہت غور سے تھکے ہوئے اپنے پاؤں کو دیکھ رہے تھے مگر اب سب کچھ انہیں ٹیڑھا میڑھا لنج پنج نظر آ رہا تھا۔۔۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.