نور
’’وہ کسی سخن ور نے کیا خوب کہا ہے۔۔۔کنج میں بیٹھے ہیں چپ چاپ طیور۔۔۔برف پگھلے گی تو پَر کھولیں گے!‘‘
میں شہر کے اس پارک میں بینچ پر تنہا بیٹھا نجانے سوچ کی کس بند گلی میں بھٹک رہا تھا کہ اچانک ایک اجنبی آواز اورحیران کن طرزِ تخاطب نے مجھے چونکا دیا۔ میں نے سر اٹھا کر اس اجنبی کی طرف دیکھا۔ وہ ایک دلچسپ حلیے کا شخص تھا جس کی وضع قطع اور چہرے سے اس کی عمر کا اندازہ لگانا تقریبانا ممکن تھا۔سرما اپنا سرد بستر لپیٹ کرایک ماہ پہلے رخصت ہوچکا تھا مگر وہ صاحب گلے میں اچھا خاصا گرم مفلر یوں لپیٹے ہوئے تھے کہ اگر ذرا سی ڈِھیل دی تو ہَوا گریبان کے راستے جسم کے اندر جانے کا راستہ ڈھونڈ لے گی۔سر پرعجیب الشکل اونی ٹوپی پہن رکھی تھی جس کی نچلی حدود کا تعیّن اس کے باہر کو نکلے ہوئے بڑے بڑے کان کر رہے تھے۔اس کے بڑے سے منہ پرچھوٹے چھوٹے نقوش تھے جنہیں دیکھ کر کسی ایسے گھر کا خیال آتا تھا جس کا رقبہ خواہ مخواہ بڑے رقبے پر پھیلا ہوتا ہے مگر اس کا رہائشی حصہ کافی کم ہوتا ہے۔چھوٹی چھوٹی سی آنکھیں جن کی حفاظت کے لئے موٹے موٹے عینک کے شیشے معمور تھے۔چھوٹی اور نازک سی ستواں ناک جو نجانے کس وجہ سے سرخ تھی اور اس کے عین نیچے باریک باریک ہونٹوں کی جوڑی۔موصوف نے محض گرم مفلر اور اونی ٹوپی پر ہی تکیہ نہیں کیا تھا بلکہ ان دونوں کی موجودگی کو دوام بخشتے ہوئے بدن پر ایک عددکوٹ بھی زیب تن کر رکھا تھا جو نہ تو لانگ تھا اور نہ ہی عام سائز کوٹ اور اسی بنا پر اسے نِیم اوور کوٹ کہنا زیادہ مناسب تھا۔ان سب سے کہیں زیادہ دلچسپ اس کے لباس کی کلر سکیم تھی۔تیکھے نیلے رنگ کی اونی ٹوپی جس پر گلابی رنگ کے پھول تھے، برتقالی اور شوخ سبزرنگوں سے سجامفلر ،نارنجی رنگ کانِیم لانگ کوٹ، فیروزی رنگ کے دستانے،پیلے رنگ کی شرٹ کے نیچے زیب تن کی ہوئی جینز جس کی رنگت کا غالباًکثرت استعمال کے باعث تعیّن کرنا تقریباً ناممکن تھا۔اور تو اور اس کے جوگرز بھی شوخ رنگوں سے مزیّن تھے جس میں سفید،جامنی اور سرخ رنگ قہقہے لگاتے ہوئے محسوس ہوتے تھے۔وہ شخص ہُو بہوکسی وارم کلرز کے دیوانے پینٹر کی کلرپیلٹ تھا اورایسے میں جب میں نے اس کے جملے پر دوبارہ غور کیا تو وہ بھی مجھے کچھ کم رنگین محسوس نہ ہوا!
’’آپ نے مجھ سے کچھ کہا؟ حالانکہ میں نے اس کا جملہ اور شعرصاف سنا تھا مگر اس کے باوجود میرے لبوں سے اظہارِ لا تعلقی میں لپٹا ایک بے رنگ ساجملہ بے ساختہ نکل گیا۔
’’ہم نے کہاں کچھ کہا حضرت۔۔۔اپنے ارد گرد دیکھیے۔۔۔سب اشجار،چرند پرند اور منظر آپ کے بارے میں یہی کہہ رہے ہیں۔۔۔قسم لے لیجیے آپ کا چہرہ دیکھ کر آپ پر یہ شعر اتنا ہی فٹ بیٹھتا ہے جتنا سیاست میں آج کل کوئی صنعت کار۔۔۔وہ دیکھیے سامنے ڈال پر بیٹھا تنہانیل کنٹھ۔۔۔وہ بھی اداس ہے مگر قسم لے لیجیے کم از کم آپ سانہیں۔۔۔وہ ایک سخن ور نے کیا خوب کہا ہے کہ۔۔۔یونہی اداس رہا میں تو دیکھنااک دن۔۔۔تمام شہر میں تنہائیاں بچھا دوں گا۔۔۔ناچیز کونور الٰہی کہتے ہیں۔۔۔لوگ ہمارے نام کا مطلب پوچھتے ہیں تو ہم جواباًایک سخن ور کے شعر کا حوالہ دیا کرتے ہیں۔۔۔سلسلے جو اس سے مل جائیں تو ٹھیک۔۔۔ورنہ جھوٹے ہیںیہ سب نام و نسب۔۔۔ہمیں یقین ہے کہ آپ کو بھی لوگ کسی نہ کسی نام سے تو ضرورپکارتے ہوں گے!
یہ کہہ کر جب اس نے اپنا نازک سا ہاتھ آگے بڑھایا تو مجھے بھی شرمندہ انداز میں مروتاً رسم نبھانی پڑی ورنہ سچ تو یہ تھا کہ مجھے اپنی تنہائی میں اس کی موجودگی شدید ناگوار گزر رہی تھی۔
’’جی مجھے محسن ضیا کہتے ہیں! میں بمشکل منمنایا۔
’’اجی کیا خوب کہتے ہیں۔۔۔ آپ کے اور ہمارے نام میں جو قدر مشترک ہے وہ روشنی ہے! میری حیرت پر دھیان دئیے بغیرنور الٰہی بہت بے تکلفی کے ساتھ میرے ساتھ بینچ پر براجمان ہو گیا۔
’’جی میں سمجھا نہیں! نجانے وہ کیا کہے جا رہا تھا۔
’’بھئی نوراور ضیا دونوں کا مطلب روشنی ہی ہوا کرتا ہے ناں۔۔۔وہ کسی سخن ور نے کیا خوب کہا ہے۔۔۔بستیاں چاند ستاروں کی بسانے والو۔۔۔کرۂ ارض پہ بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ۔۔۔سو محسن میاں۔۔۔اپنے اپنے نام کے مصادق ذمہ داری نبھانا تو بنتا ہے ناں۔۔۔اور یقین کیجیے لالٹین ہاتھ میں اٹھا کرقافلے کے آگے آگے چلنے میں کمال کا لطف ہوا کرتاہے! ‘‘
میں مزید الجھ گیا۔نجانے وہ کیا چاہتا تھا اور یہ سب مجھ سے ہی کیوں کہہ رہاتھا سومجھے اب اس کی دماغی حالت پر شک ہونے لگا۔
’’جب ہم شہر کی بے رنگینیوں سے مضمحل ہو جاتے ہیں تو اکثر اس جیسے رنگوں اور سبزے سے لدے کسی گلشن کا رخ کرتے ہیں۔۔۔آج مسلسل تیسراموقع ہے کہ آپ کو اسی بینچ پر ،چہرے پر ایک ہی اداس منظر سجائے دیکھا ۔۔۔آپ کو تو پتہ بھی نہیں چلا ہو گا مگر آج آپ کی آنکھوں میں کچھ طغیانی کا زور اتنا نمایاں ہے کہ دلِ مضطرب سے رہا نہ گیا۔۔۔اس بہتے ہوئے دریا کا بندھ کسی نہ کسی کو تو باندھنا چاہئے۔۔۔وہ کسی سخن ور نے کیا خوب کہا ہے۔۔۔غمِ دنیا تو وہ قلزم ہے کہ دل کا مضمون۔۔۔غرق ہوتا چلا جاتا ہے کنارے کی مثال! ‘‘
نور الٰہی کے اس شعر پر میں نے پہلی بار اسے غور سے دیکھا تواس کی دماغی حالت پر ایک لمحہ پہلے ابھرنے والے اپنے شکوک و شبہات مجھے کسی حد تک رفع ہوتے ہوئے محسوس ہوئے اور اس کے چہرے کے نقوش بھی اس بارمجھے اتنے عجیب و غریب نہیں لگے جتنا کہ پہلی نظر اس پر ڈالنے کے بعد لگے تھے!
’’آپ کون ہیں؟ ‘‘
’’سمجھ لیجیے ہم آپ کا عکس ہیں۔۔۔آپ کے ہمزاد ہیں۔۔۔اور اگر آزمانا چاہیں تو آپ کے غم خوار ہیں۔۔۔وہ کسی سخن ور نے کیا خوب کہا ہے کہ۔۔۔اپنی دُھن میں رہتا ہوں۔۔۔میں بھی تیرے جیسا ہوں۔۔۔میرا دِیا جلائے کون۔۔۔میں تراا خالی کمرہ ہوں۔۔۔اپنی لہر ہے اپنا روگ۔۔۔دریا ہوں اور پیاسا ہوں! ‘‘
نجانے نور الٰہی کے اندازمیں کیا اسرار پنہاں تھا کہ ایک سنسنی سی مجھے اپنے رگ و پے میں اترتی ہوئی محسوس ہوئی۔کچھ دیر پہلے مضحکہ خیز نظر آنے والی آنکھوں میں کمال کی نظر تھی کہ اس نے ایک ہی نظرمیں میرے اندر کے موسم کو ٹھیک ٹھیک پڑھ لیا تھا!
’’یا تو یہ فارغ شخص ہے ۔۔۔یا دیوانہ یا پھریہ یقیناً کوئی فرشتہ ہے جسے اللہ نے بھیس بدل کر میرے پاس بھیجا ہے ورنہ زمانے کی بے ہنگم دَوڑ میں کس کے پاس فالتو وقت ہے اور کون کسی کا چہرہ پڑھنے کی حجت کرتا ہے!
’’جب کبھی ہمارا دل تناولِ بیرونی کے لایعنی تجربے کے لیے کلکاریاں مارنے لگتا ہے تو ہمارے قدم خود بخود اس سامنے والے ریسٹورانٹ کے سامنے آرکتے ہیں۔۔۔اگر ناگوارِ خاطر نہ ہو تو آج اکھٹے کھانا کھا کر اس اوّلین نشست کو مزید یادگار بناتے ہیں! ‘‘اس نے مجھے ٹھیک طرح سے کوئی بہانہ بنانے کا موقع بھی نہ دیا اور بے تکلفی کے ساتھ میرا ہاتھ تھام کرمجھے سامنے والے ریسٹورانٹ میں لے گیا۔اس کی ہتھیلی میں ایک گمنام سا خوشگوارپیغام تھا جسے میں سمجھنے کی ناکام سعی میں لگ گیا۔وہ ایک کافی اچھا اور صاف ستھرا ریسٹورانٹ تھا۔ اس کے بیرے غالباً نور الٰہی کو اچھی طرح پہچانتے تھے سو ان میں سے ایک اسے دیکھ کر مسکراہٹ چہرے پر سجائے لپک کر ہماری ٹیبل کی طرف چلا آیا اور ایسے میں نور الٰہی نے جو آرڈر دیا وہ بھی اتنا ہی دلچسپ تھا۔
’’بھائی حضرتِ منتظر۔۔۔.طعام کا بندوبست کیجیے۔۔۔ہمیشہ کی طرح آلاتِ تناول ذرا اچھی طرح دھو کر لائیے گا۔۔۔بخدا پچھلی دفعہ لطف آگیا تھا سو آج بھی اگرانگریزی زبان والی صنفِ مخالف کی مخروطی انگلیاں ہو جائیں اور انہیں لحم کی قربت حاصل ہو تو سونے پر سہاگہ ہو گا۔۔۔اور اس کے علاوہ آپ کے ریسٹورانٹ کی وجہِ شہرت یعنی چنوں کا نصف بہتر بھی لے آئیے۔۔۔ذرا لپک کر جائیے کیونکہ ہماری آنتڑیاں مسلسل سورۃ اخلاص کا ورد کیے جا رہی ہیں ورنہ شہنشاہِ سخن وری فیض کا نسخہ ہائے وفا آپ کی خدمت میں پیش کرنا شروع کر دیں گے! ‘‘ بیرا توگھبراہٹ بھری ہنسی دانتوں تلے دبائے ہوئے منظر سے غائب ہو گیا مگر مجھے نور الٰہی کا آرڈر سمجھنے میں کچھ دیر لگ گئی۔ اگر میری اردو اچھی نہ ہوتی تو شاید کبھی نہ سمجھ پاتا کہ موصوف نے بھنڈی گوشت اور دال چنا کا آرڈر دیا تھا۔جونہی سالن کی دونوں پلیٹوں میں میں نے اپنے درست اندازے تیرتے دیکھے،میرے لبوں پر بے ساختہ مسکراہٹ امڈ آئی۔ مجھے مسکراتا دیکھ کرنور الٰہی کے چہرے پر انسباط بھرے ایسے تاثرات امڈ آئے جیسے اس نے ڈیڑھ سو امید واروں کو مات دے کر آٹھ سو روپے کو نوکری حاصل کرلی ہو!
اور پھرہم اتفاقاً یا قصداًروز اس پارک میں ملنے لگے۔نور الٰہی کا ٹھکانہ تو نجانے کہاں تھا مگرمیرا دفتراس پارک کے عین سامنے ہی تھا۔لنچ کے دوران اکثر مجھے دفتر میں پیلی پلاسٹک کی نوار سے بُنی اورتین جگہ سے ادھڑی اپنی کرسی،فائلوں سے اٹا، قدیم دیار کا بنا ہوا ہُو بہُو میرے جیساپریشان ڈیسک اور سرمئی نما رنگت کی فولادی الماری جو پچھلے برس اپنا ایک پٹ کھونے کے باعث اب قطعاً فولادی نہ رہی تھی، زہر لگنے لگتے سو میں منظر تبدیل کرنے کے لیے ہمیشہ اپنا لنچ ٹفن اٹھا کر یہیں چلا آیا کرتا تھا۔میں جونہی پارک میں قدم دھرتا گویا پارک کے مستقل گھونسلہ نشین پرندے اپنی زبان میں سِیٹی مار کرنور الٰہی کو خبر کر دیتے۔ ادھر میں اس بینچ تک پہنچتا،ادھروہ بھی نجانے کہاں سے آناًفاناًآن ٹپکتا۔چندہی ملاقاتوں میں مجھ سا آدم بیزار، تنہائی پسند اور گوشہ نشیں شخص بھی نجانے کیسے اسے قبول کرنے پر راضی ہوگیا ورنہ ایسی کوئی بھی تبدیلی مجھے دفعہ ۱۴۴ کا بلا وجہ نفاذ لگا کرتی تھی۔
’’یادوں کے حاشیے بھی بہت اہم ہیں محسنؔ ۔۔۔دِیمک لگی کتاب کو آہستہ کھولیے‘‘۔نور الٰہی نے اس روز مجھے ایک نظر دیکھتے ہی نجانے کیا سوچ کر یہ شعر داغ ڈالا کہ میں چونک کر اس کا چہرہ تکنے لگا۔اس کے شعر میں ایک اظہر من الشمس پیغام تھا۔ میں اس میمنے کی مانند تھا جوہر وقت چاروں طرف سے زندگی سے جڑے مسئلوں ، محبت میں مات اورتلخ یادوں جیسے خونخوار بھیڑیوں میں گھرا ہوتا ہے سو ایساکیونکر ممکن تھا کہ میری ذات دیمک زدہ کتاب سے مختلف نظر آتی۔ میں تو شروع ہی سے اسے برتن جیسا شخص رہا تھا جس کے پیندے میں ذرا سی آنچ سے اس کے اندرونی کنارے نمی سے بھر جاتے ہیں۔ لڑکپن میں جب میرے والد صاحب کی زندگی کا گھومتا ربن ٹائپ رائٹر کا لوہا کُوٹتے کُوٹتے ٹی بی جیسے مرض کی کاری ضرب سے ہمیشہ کے لیے ٹوٹ گیا تو میری ماں نے اپنے چاروں بچوں کو اپنے مضبوط پروں تلے چھپانے کے لیے کون سے جتن تھے جو نہیں کیے تھے۔دُور دراز دیہاتوں اور قصبوں میں بطور لیڈی ہیلتھ ورکر ویگنوں اور بسوں کے بے رحم دھکے کھاتی ہوئی جاتی مگر ہم سب کو ایک ہچکولا بھی نہ لگنے دیتی۔ جو مزیدار تر نوالے وہ مسکرا مسکراکر ہمارے منہ میں ڈالتی وہ دراصل اس کے خون اور پسینے سے تر ہوتے تھے، جو صاف ستھری اور شکنوں سے پاک پوشاک وہ ہمیں پہناتی اس کے پیچھے اس کا چاک دامن اور پیشانی پر سجی وہ ان گنت شکنیں تھیں جوبڑا ہونے کے ناطے صرف میں دیکھ سکتا تھا اور میرے چھوٹے بہن بھائی نہیں دیکھ سکتے تھے۔
یہی وجہ تھی کی جب انٹر کامرس کا سالانہ امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کرنے کے باوجود میں نے نوکری کرنے اور پرایؤیٹ بی کام کرنے کا فیصلہ کیا تو میری ماں نوکری سے چھٹی کر کے سہ پہر تک رو رو کرمیری منتیں کرتی رہی مگر میں نے اس کی ایک نہ مانی۔ شام تک اپنے بڑے بیٹے کو چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بنانے کا اس کا دیرینہ خواب اس کے آنسوؤں کے تیز ریلے میں بہہ گیا۔میں اپنی جگہ صحیح تھا کہ اب ماں کو بیل کی طرح زندگی کا بھاری چھکڑا یوں اکیلے کھینچتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھاجس پر اس کے چار جوان بچے سوار تھے جن میں میری دو چھوٹی بہنیں بھی تھیں جودبے پاٍؤں جوانی کی دہلیزپھلانگ چکی تھیں۔میری اچھی قسمت کہ مجھے بغیر کسی سفارش کے میرٹ پر سٹینو گرافر کی نوکری مل گئی ۔ پہلے پہل تو اپنے پنکھ کھلنے کے بعدپہلی آزاد اڑان اور کھلے آسمان نے خوب لطف دیا اور اپنی تنخواہ قارون کے خزانے سے کم محسوس نہ ہوئی مگر جب آٹے دال کا اصل بھاؤ اور زندگی سے جڑے مسائل کے اصل خدو خال نظر آنا شروع ہوئے تو وہی تنخواہ مجھے اپنے ساتھ سراسرسر زیادتی لگنے لگی۔نتیجہ یہ نکلا کہ اس آگہی کے کچھ ہی عرصے بعد میں صبح سے شام تک بات بات پر ذاتی و ملکی حالات کو دل میں ایسی ایسی فحش گالیاں دیتا کہ اگر ان میں سے ایک بھی محلے کی نکڑ پر بیٹھے وہ آوارہ مزاج لڑکے سن لیتے تو وہ بھی گالیوں کے متعلق میرے حسنِ انتخاب کی داد دئیے بنا نہ رہتے جن کی خرافات و مغلظات سن کر ہر بار میری کان کی لوئیں سرخ ہو جایا کرتی تھیں۔
مجھ سے چھوٹی بہن کے کواڑ پر رشتے کی پہلی دستک ہوئی تو انہیں ہاں کرنے اور شادی کے لیے ایک سال کی مہلت حاصل کرنے کے بعدمیں اور میری ماں اکثر زمین پر دھرے چولہے کے پاس اکیلے بیٹھے رہتے اور بوکھلائے انداز میں کبھی دُور چلتی پھرتی آمنہ کو بے یقینی کے ساتھ دیکھتے اور کبھی آنسوؤں سے بھری آنکھوں کے ساتھ اپنی خالی جیبوں میں جھانکتے۔جب اورکچھ سمجھ نہ آیا تو میں اورمیری ماں نے چند قریبی جاننے والوں کے پاس ٹیوشن ڈھونڈنے کی درخواست دائر کی سو میں اور میری بہنیں شام کوگھرمیں سکول کی دوسری شفٹ چلانے لگے۔
انہی دنوں مجھے شام کے وقت ایک بے حد امیر گھرانے کی نوجوان خوبصورت لڑکی کی ٹیوشن مل گئی۔اس سے ہماری آمدنی میں چند ہزار روپے تو بڑھ گئے مگر کچھ ہی عرصے بعدمیرے دل کا انمول قرار لٹ گیا۔نشاط تھی ہی ایسی ، آفاقی حسن کی مالک جس کے چہرے پرنظر جمانا مجھے اتنا ہی مشکل لگتاتھا جتنا بارش کے بعد چکنی مٹی والی گیلی زمین پر پاؤں جمانا، سو اسے نظر بھر کر دیکھنے سے بھی احتراز کیاکرتا تھا۔لڑکی کیا تھی اچھا خاصا نفسیاتی مسئلہ تھی جسے بے پناہ خوبصورتی کے باعث چندحسن پرست چھچھوروں سے لاحق شدیدبیرونی خطرات نے کالج چھوڑنے اورگھر پڑھنے پر مجبور کر دیا تھا۔میری غیر معمولی قابلیت،بے مثال شرافت، انتھک محنت اوربھرپور توجہ نے چندہی مہینوں میں اس کا مسئلہ تو حل کر دیا مگراس کے فوراً بعداس سے کہیں زیادہ گھمبیرمسائل کھڑے ہوگئے جب میں نے ایک روز پڑھاتے ہوئے اسے شرارتی انداز میں پنسل منہ میں جمائے، بامعنی مسکراہٹ اپنے عنابی ہونٹوں پر سجائے اور اپنی وارفتہ نظریں میرے چہرے پر جمائے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔جب تک میں نے اپنا پیشہ وارانہ فرض پورا کیا تب تک وہ بے صبری سے مات کھا کر اپنا حالِ دل ایک عرضی کے ذریعے مجھے عرض کر بیٹھی اور میں تمام زمینی حقیقتوں سے ہار کر اس کی محبت کے قرض تلے بری طرح دھنستا چلا گیا۔عہد و پیمان کے بعد جب محبت کے اگلے عملی مرحلے در پیش آئے تو سب سے پہلے میں کلاس کے فرق،ترجیحات کے خاردار طرق،ماں کی قہر آلود سرزنش اور غیض و غضب سے لبریز اس کی کڑکتی برق میں غرق ہوا۔ نشاط نے اپنی محبت کی ڈوبتی ہوئی ناؤ کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی مگرجب ناؤ کھینے والے ملاح کے بازوطوفان کی آمد سے قبل ہی شل ہو جائیں،ناؤ کے بادبان مخالف ہواؤں سے ہار کر کھل جائیں اورناؤ کاپتوارہی اپنی جگہ سے ہِل جائے توکوئی کیا کر سکتا ہے۔ہر روز ٹیوشن سیشن ختم ہوتے ہی وہ ایک چھوٹے سے کاغذ پر ملن کی ایک نئی ترکیب اور ایک پرانی دعا نئی ترتیب کے ساتھ درج کر کے مجھے تھما دیتی اور میں تنہائی کی بند گلی میں بیٹھااپنی کم ہمتی اور درماندگی پر آنسو بہاتا رہتا۔آخر ایک مضمحل شام وہ ڈوبتے ہوئے سورج کی سی شفق آنکھوں میں بھرے ، آنسو بھری آنکھوں اور شکوہ کناں نظروں سے مجھے دیکھتی ہوئی ہمیشہ کے لیے ڈھل کر میرے افق سے غائب ہو گئی۔محبت میں یہ بھرپورمات دراصل میری موجودہ ذہنی کیفیت کی سب سے بڑی وجہ تھی سو میں اپنی ذات سے شروع ہو کراپنے دفترکے چائے والے تک ہر اس شخص سے ناراض تھا جو میری زندگی کا حصہ تھا ۔دنیا، زندگی، محبت،تقدیر،رشتے،نامساعد ملکی حالات اورسماجی عدم توازن سمیت سارے جہان کے متعلق میرے خیالات بے حد عامیانہ اور جارحانہ تھے!
اور ایسے میں نور الٰہی کو میرا چہرہ دیمک زدہ کتاب لگ رہا تھا تو اس میں ایسا غلط کیا تھا!
’’آپ نے بالکل درست اندازہ لگایا محترم۔۔۔میری ذات کو گھن لگ چکی ہے۔۔۔میری سوچ کھوکھلی دہلیز کی طرح ہے جو بظاہرکھڑی نظر آتی ہے لیکن یہ کسی بھی وقت زمین بوس ہو سکتی ہے۔۔۔اگر فنا بھی ہو جاؤں تو انسانوں سے اٹی دنیا کو کیا فرق پڑ جائے گا۔۔۔کتنے ہی لوگ ہر روز یہاں قبل از وقت، مرنے سے کہیں پہلے، خواہ مخواہ زندگی سے منہا ہو جاتے ہیں! ‘‘ میں نے اپنے ذخیرے سے صرف چھٹانک بھر زہر اگلا۔
’’اجی چھوڑئیے محسن میاں۔۔۔وہ کسی سخنور نے کیا خوب کہا ہے۔۔۔تُو بھی ہیرے سے بن گیا پتھر۔۔۔ہم بھی کل جانے کیا سے کیا ہو جائیں۔۔۔ہم بھی مجبوریوں کا عذر کریں۔۔۔پھر کہیں اور مبتلا ہو جائیں۔۔۔ہم اگر منزلیں نہ بن پائے۔۔۔منزلوں تک کا راستہ ہو جائیں۔۔۔بندگی ہم نے چھوڑ دی ہے فرازؔ ۔۔۔کیا کریں لوگ جب خدا ہو جائیں! ‘‘ نور الٰہی نے کچھ ایسے سرد لہجے میں یہ اشعار پڑھے کہ مجھے عجیب سی سنسنی گردن سے کمر کی زیریں حصے تک سفر کرتی ہوئی صاف محسوس ہوئی کیونکہ اس کے اشعار کی اپنی روح سمیت ترسیل سو فیصد درست اور کارگر ثابت ہوئی تھی ۔میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اوراس کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کی مگر وہ انگلیاںآسمان کی طرف کر کے کچھ لکھنے میں مصروف تھا۔میں بجلی کی تاروں پر الجھی ہوئی کسی کٹی پتنگ کی مانندپہلے اس کے ذُومعنی اشعار اورپھر اس ان دیکھی تحریرمیں الجھ گیا۔
’’آپ نے یہ اشعار کیوں کہے؟۔۔۔اور یہ ۔۔۔یہ آپ ہَوامیں کیا لکھ رہے ہیں؟ ‘‘
’’ایسے اشعار کی تفسیر بالکل نہیں پوچھا کرتے جنہیں سن کر آپ کا دل گواہی دے کہ یہ تو میرا اپنا افسانہ ہے۔۔۔ اورہَوا میں ہم نے آپ کے لیے ایک دعا لکھی ہے۔۔۔ایسی دعا جوہمارے خیال میں آپ کے لیے بہترین دوا ہے۔۔۔ویسے تودعا سے بہتر کوئی دوا نہیں ہوتی لیکن محسن میاں آج کل تشخیص اور دوا تجویزکرنے کے معاملے میں طبیب حضرات کی پُر کاریاں اورکارستانیاں اس قدر مقبول ہو گئی ہیں کہ اکثر دوا لینے کے بعد اجتماعی دعا کی ضرو رت پڑ جاتی ہے!
اس رات میں نے اتنی کروٹیں بدلیں کہ میری چارپائی اور تکیہ تک احتجاج کرنے لگے۔ہر کروٹ پرنور الٰہی کے اشعار اور جملے کئی بند دَر کھولتے رہے۔جن دریچوں پر کچھ عرصے سے بڑے بڑے جالے لگ چکے تھے،وہ سب اترتے ہوئے محسوس ہوئے۔
’’کیا واقعی میں نے جیتے جی اپنا مجسمہ اپنے ہی ہاتھوں سے تراشنا شروع کر دیا ہے جو نور الٰہی نے مجھے پتھر کہا؟۔۔۔مجھ پر ہوئے ستم کیا واقعی مجبوریوں کا عذر اور ایسے کوہِ گراں ہیں جنہیں میں نے زبردستی اپنے کاندھوں اور اپنی ذات پر لاد رکھا ہے؟۔۔۔ کیا واقعی کم ہمتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میں نے اپنی منزل کے نشان اپنے ہی پیروں تلے روند ڈالے ہیں؟۔۔۔ کیا میں نے احتجاج اور ناراضی کواپنے تمام مسئلوں کا حل سمجھ کر راہِ فرارکا تنا ہوا رسّے کا پھندا اپنے ہاتھوں سے اپنی گردن میں ڈال رکھا ہے؟۔۔۔ کہیں میں بھی خود ترسی اور خود فریبی کا شکار ایک بزدل نوجوان ہوں؟۔۔۔کیا واقعی میں بندگی کے سب ضابطے بھول بیٹھا ہوں؟۔۔۔یا میں خدا ہونے کی اتنی بھدّی اوور ایکٹنگ میں مصروف ہوں؟ ‘‘
نیند سے مات کھانے تک کوئی شے میرے من میں ببول کی طرح مسلسل چبھتی رہی اور جب صبح بیدار ہوا تو سحر کی ایک کرن میری کھڑکی سے اور دوسری میرے اندر سے پُھوٹ رہی تھی۔ ایک کَسی ہوئی ریشم کی گانٹھ صبح تک ڈِھیلی ہو چکی تھی!
اس دوپہر لاکھ چاہتے ہوئے بھی میں اپنی تسلی کے لیے نور الٰہی سے اس موضوع پرچند وضاحتی سوالات پوچھنے کی ہمت جمع نہ کر پایا اور اس کے بجائے سارا غصہ تقدیر پراتار دیا۔جتنی دیر میں تقدیر کے لتّے لیتا رہا ،نور الٰہی کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ رقصاں رہی۔آخر تنگ آکر میں نے اپنے خیالات پر اسے رائے زنی کرنے کو کہا تو اس نے میری دُکھتی ہوئی رگ پر ہاتھ نہیں بلکہ اپنا پورا بھاری بھر کم پیر ہی رکھ دیا۔
اجی محسن میاں۔۔۔انسان جب اپنی محرومیوں سے تلملا کر اپنی تقدیر کو لتاڑتا ہے تو بخدا ہمیں شک ہونے لگتا ہے کہ ا س کے اندر اپنے اشرف المخلوقات کے بلند عہدے پر فائز ہونے کا ادراک موجودہے بھی یا نہیں۔۔۔انسان کی سب سے بڑی قوت تو اس کا ذہن اور قوتِ تدبیر ہے اورجب باہر تمام منظر تاریک لگنے لگیں تو اسے اپنے اندر نوروضیاء کو تلاش کرنا چاہیے ۔۔۔یاس اور آس میں ایک بہت طاقتور کیمسٹری ہوتی ہے ۔۔۔اسی وجہ سے توکسی سخنور نے ارشاد فرمایا ہے کہ۔۔۔یاس میں جب کبھی آنسو نکلا۔۔۔اک نئی آس کا پہلو نکلا۔۔۔آئیں ساون کی اندھیری راتیں۔۔۔کہیں تارا کہیں جگنو نکلا۔۔۔اورہم انسان کیمسٹری یعنی مادے کی شناخت میں اپنی اس کمزوری کا سارا وزن حساب ، طبیعیات اورحیاتیات کے پلڑے میں ڈال دیتے ہیں! ‘‘
اپنے افکار بیان کرتے ہوئے اور اشعار پڑھتے ہوئے نور الٰہی کے انداز میں کچھ ایسی ناقابلِ بیان پراسراریت، رعب اور اثر عود آتے تھے کہ ہر بار ایک عجیب سا مجرمانہ احساس میرے رگ و پے میں اتر جاتا، میں اس قدر مطیع و مرعوب ہوجاتا کہ مجھے لگتا جیسے میرے پاس اسے چیلنج کرنے کی نہ سکت ہے اور نہ ہی اس سے بحث کرنے کے لئے کوئی منطق۔سو اس بار بھی خشک حلق لیے مجھے اپنے منفی نظرئیے اورمایوس سوچ کا نئے سرے سے تجزیہ کرنا پڑا۔
’’میں نے زندگی میں مشکل وقت پڑنے پرجسے بھی آواز دی کبھی اس نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔۔۔دوست، رشتے داربلکہ ساری دنیا خود غرض ہے! ‘‘ اگلے روز میں نے اپنی پٹاری سے نیا لہرئیے دار پھنکارتا ہوا گِلہ نکال کر نور الٰہی کے سامنے رکھا۔
’’ دیکھیے محسن میاں۔۔۔جب آپ ہر بار کسی کو کسی غرض سے ہی آواز دیں گے توکون آپ کی صدا سنے گا۔۔۔اصل آواز وہ ہے جو بے غرض ہو کر کسی کو دی جائے اور پھر دیکھیے گا وہ شخص لازماً آپ کو پلٹ کردیکھے گا۔۔۔اجی ہم سے تویہ کوّے ہزار گنا اچھے ہیں،کوئی ایک کوّا بھی تکلیف میں ہو تو کوّں کا پورا قبیلہ ’’کہاں آئیں ‘‘ ، ’’کہاں آئیں ‘‘ کا راگ الاپتے فوراًمصیبت زدہ کوّے کی طرف لپکتاہے۔۔۔ اور ایک ہم ہیں حضرتِ انسان۔۔۔راستے میں کھو جانے والا روتا ہوا بچہ ہو، حادثے کے بعد زخمی حالت میں پڑے لوگ، یا سارے جہان کی یاسیت چہرے پر سجائے کوئی تنہا وجود، مجال ہے کوئی اپنی روٹین توڑ کر چند بے لوث لمحے اورہمدردی بھرے دو جملے کسی کو عطا کر سکے۔۔۔اور تو اور ہم انسانوں نے تو اب ایسے در و دیوارتعمیر کرنا شروع کر دئیے ہیں کہ دم دئیے ہوئے چاولوں ، مصالحہ بگھارنے اور بُھوننے کی اشتہاء انگیزخوشبو بھی ہمسائے کے گھروں تک نہیں پہنچنے دیتے۔۔۔ورنہ وہ ایک سخن ور نے کیا خوب کہا تھا۔۔۔اک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے۔۔۔جس کا ہمسائے کے آنگن میں بھی سایا جائے‘‘
جواباً میں ہونقوں کی طرح بِیچ چوراہے یوں کھڑا تھا جیسے کوئی زناٹے دار طمانچہ میرے گال پر رسید کرکے بھرے مجمع میں کہیں غائب ہوگیا ہو!
ایک روز میں کلاس سسٹم پر ایسا برسا، ایسا برسا کہ حلق خشک اور آنکھوں کے گوشے بھیگ گئے۔جب میں بول بول کرتھک گیا اور باقاعدہ ہانپنے لگا تونور الٰہی نے اپنے بوری نما دستی تھیلے سے ایک پائن ایپل جوس کا ڈبہ نکالا اور اس میں نلکی پھنسا کر مجھے پیش کر دیا۔ میں نے اس جوس کے ڈبے کو یوں حیرت سے دیکھا جیسے کسی عظیم مسئلے کے بہترین حل کے طور پر کسی کو زہر کا پیالہ پیش کر دیا گیاہو۔
’’پی لیجیے محسن میاں۔۔۔پائن ایپل جوس کا کلاس سسٹم سے کوئی بیر نہیں۔۔۔مشروب ستُّو کا ہو، گنّے اورفالسے کا ،یا پھربدیسی پیشن فروٹ یا پِینا کولاڈا کا، فرحت ایک سی ہی عطا کرتا ہے۔۔۔آپ کے دلچسپ نُوحے پر صرف اتنا کہیں گے کہ پانچوں انگلیوں کا مختلف حجم، سانچہ اورکردار اس عظیم سفال گر نے یقیناًکچھ سوچ کراور کسی حکمت کے تحت ہی ڈیزائن کیاتھا۔۔۔ اسی لیے شہادت کی انگلی اورا نگوٹھا جسے ہم پیار سے ٹھینگا بھی کہا کرتے ہیں دوبالکل مختلف اشکال، معنی اورعلامات رکھنے کے باوجودانگلیوں کے ہی قبیلے میں شمار کیے جاتے ہیں۔۔۔چیونٹی اور ہاتھی جثّے کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے اپنے متعین کردہ کردار کی بِنا پریکساں اہمیت رکھتے ہیں۔۔۔جب اس دنیا کے سٹیج پرسجی تمثیل کے ہدایت کار اعلی نے ہر کسی کا کردارہی اہم لکھا ہے تو پھر ہم لوگ آخر اس کلاس ٹائپ کے فرق میں ٹانگیں پھنساکراس سکرپٹ کو کیوں چیلنج کرتے ہیں ۔۔۔کیا آدھے انچ کے اگنیشن پوائنٹ کے بغیر دو ٹن کی گاڑی چل سکتی ہے،یا تقریباً دو سو پچاس گرام وزن رکھنے والے دل کے بغیر سو کلو گرام کا انسانی جسم زندہ کہلا سکتا ہے۔۔۔ وہ کسی سخن ور نے اپنی شناخت کے حوالے سے کیا خوب شعر کہا تھا۔۔۔بڑوں سے ملنے میں ہمیشہ فاصلہ رکھنا۔۔۔جہاں دریا سمندر سے ملا، دریا نہیں رہتا! ‘‘ نور الٰہی کا مختصر جواب اس وقت تومجھے کسی مشکل پہیلی سے کم نہ لگا لیکن جب اس روز شام کے وقت گھر واپس جاتے ہوئے میں نے سڑک کنارے چاٹ کی ایک ہی ریڑھی سے مہنگی ترین کار میں بیٹھے ہوئے جوڑے اور پرانی سائیکل پر بیٹھے ایک نوجوان کو ایک ہی قسم کی پلیٹوں میں بے فکری کے ساتھ چاٹ کھاتے دیکھا تو تب کہیں جا کرنور الٰہی کی پہیلی مجھے کچھ کچھ سمجھ میں آئی!
اسی طرح اس روز میں اورنور الٰہی اپنا اپنا ٹفن کھول کر لنچ کرنے بیٹھے تو میں نے لقموں سے کہیں زیادہ محبت، اس کے مفہوم اور اس سے وابستہ دُکھوں کواپنے دانتوں تلے چبایا۔میں بولتا رہا اورنور الٰہی ہمہ تن گوش میری جارحانہ گفتگوبہت دھیان کے ساتھ سنتا رہا۔
’’نجانے آپ کیا کہہ رہے ہیں محسن میاں۔۔۔کاسہ ٹُوٹ جائے تو پیاس کو کیا کوسنا۔۔۔ شکستگانِ محبت کو تو سخن وروں اور دانش وروں نے شہنشاہوں کے برابر تولا ہے۔۔۔ان کے خیال میں جو آگہی، تڑپ، درد اور گہری سوچ و فکر کے خزانے انہیں محبت میں مات کے بعد نصیب ہوتے ہیں،اس کے آگے د نیا بھرکے امیر ترین لوگوں کے اثاثے ہیچ ہوتے ہیں۔۔۔ہائے ہائے وہ کسی سخن ور نے محبت میں مات کھانے کے بعد کیا خوب کہا تھا۔۔۔مجھے تجھ سے جدا رکھتا ہے اور دُکھ تک نہیں ہوتا۔۔۔مرے اندر تیرے جیسا یہ آخر کون رہتا ہے۔۔۔محبت میں منزل مل جائے تو کائنات دو اشخاص تک محدود رہتی ہے اور اگر محبت میں منزل نہ ملے تو بخدا ساری کائنات نصیب ہوتی ہے۔۔۔اس بات پر ایک اور سخن ور کا شعر یاد آ گیا۔۔۔اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں۔۔۔فیضان محبت عام سہی عرفان محبت عام نہیں۔۔۔محسن میاں جس طرح ہَوا صحرا میں ریت پر اور سطحِ آب پردلکش لکیریں بنا کر اسے دلکش اور دل پزیر بنا دیتی ہے بالکل اسی طرح محبت کسی بھی عام سے وجود پر طاری ہوکر اور اپنے آپ میں مبتلا کر کے اسے کسی برانڈڈ آئٹم کی طرح بے حدخاص بنا دیتی ہے۔۔۔ محبت میں پا لینے یا کھو دینے سے زیادہ اہم آپ کے وجود کے لیے محبت کی زربفت کا منتخب ہونا ہے۔۔۔محبت جیسی خوبصورت مَینا کوخواہش اور ملکیت کے سنہری پنجرے میں قید مت کیجئے ورنہ یہ آپ کو اداس جاز میوزک کی طرز کے ہی گیت سنائے گی۔۔۔اگرچہ ہم اس احساس اور سانحے سے باقاعدہ طور پر گزر چکے ہیں مگر قسم لے لیجیے ہمارے گھر میں اداسی بال کھول کر نہیں سوتی بلکہ جُوڑا باندھ کراٹھلاتی پھرتی ہے اور نہ ہی ہمارے غریب خانے میں موجود واحد آتشدان میں بجھے ہوئے دنوں کی راکھ کا کبھی ڈھیر ملتا ہے بلکہ کئی نوجوان لکڑیاں انگڑائیاں لیتی ہوئی اس آتش میں کُود پڑنے کو بے قرار ملتی ہیں! ‘‘ اور میں اس روز رات گئے الجھے ہوئے ذہن کے ساتھ نور الٰہی کی اس نئی نرالی منطق کی گھتیاں سلجھاتنے کی ناکام کوشش کرتارہا۔ اس تناظر سے تو واقعی میں نے اپنی محبت کو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا!
نجانے کیا بات ہے، مجھے کسی بات کی خوشی نہیں ہوتی۔۔۔مجھے لگتا ہے میں سکتے کا شکار ہوں یا شاید میرا پورا وجود کسی شدید چوٹ سے سُن اور بے حِس سا ہو گیا ہے۔۔۔کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے میں ایک گہری کھائی میں جا گرا ہوں اور باہر نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی! ‘‘ ایک روز میں نے بہت بھدّے سے انداز میں نور الٰہی کے سامنے ہتھیار پھینکے۔
’’اس بیمار ذہنی کیفیت کا تو میرے پاس بہت اسیر نسخہ موجودہے محسن میاں۔۔۔کئی بار اپنے اوپر اس کا کامیاب تجربہ کر چکے ہیں اور بخداہر بار افاقہ ہوتا ہے۔۔۔آپ پہاڑوں، جنگلوں، جِھیلوں اورسبزہ زاروں کا تنہاسفر اختیار کریں۔۔۔پہاڑوں کی رفعت سے نیچے جھانک کر کوہ قامت مناظر دیکھیں اور اپنی سوچ کا قد ناپیں۔۔۔پہاڑوں میں جہاں بھی تنہائی میسرآئے ،زوردار آواز میں چیخ چیخ کراپنی پر آشوب عرضیاں اور نالۂ دل پہاڑوں کی گونج کے حوالے کر آئیں۔۔۔پہلے جنگلوں میں نِیم آشکارپگڈنڈیوں پرجا بجا اپنے نقشِ پا بچھائیں،پھرجنگلی پھولوں کواپنی انگلیوں کی پور سے چُھوکراپنے لمس کی تطہیر کریں اور پھران کی سحر انگیز خوشبو اپنے اندر بھرکرایک لمبا سانس بھریں اور اپنے اندر کی سب کثافتیں وہیں چھوڑ آئیں۔۔۔جنگل کے درخت اور پھول انسانوں کی طرح نہیں ہوتے، وہ ان کی پیدا کردہ کثافتیں لے کر انسانوں کوحیات بخش لطافتیں عطا کرتے ہیں، ان میں امیدکے کاسنی اور گلابی پھول بانٹتے ہیں ۔۔۔اور جب راستے میں نیلے پانیوں والی جھیلیں آئیں تو ان میں پیر لٹکا کر اپنی مسافتیں اور تھکن وہیں چھوڑ آئیں۔۔۔راستے میں کھنڈر آئیں تو کچھ دیر وہاں بھی رکیں اوریہ ضرور سوچیں کہ انہیں بسانے والے آج گمنام ہیں تو یہ ابھی تک کیوں اور کیسے یادگار ، موسوم اور خوش نام ہیں۔۔۔سبزہ زاروں اور پھولوں سے بھری وادیوں میں جائیں تو ان کا حسن دیکھ کر کم از کم ایک دفعہ یہ ضرور سوچیں کہ اگر ان کا اورآپ کا خالق ایک ہے تو آخرآپ نے اپنا دامن کیوں چاک کر رکھا ہے، اپنے سر میں خاک کیوں ڈال رکھی ہے اور کائنات میں اس عظیم خالق کی عظیم اور حسین ترین تخلیق کا اعزاز حاصل ہونے کے باوجوداپنے چہرے پر بدنما خیالات کا اس قدربھدّامیک اپ کیوں کر رکھا ہے!‘‘
میرے سِینے میں اب تک زندگی، عمر، اور تلخ تجربات کے کالے جادو نے جتنے بھی کِیل ٹھونک رکھے تھے ، وہ نور الٰہی نامی پراسرار بابے نے صرف تین ماہ کے قلیل عرصے میں اپنی شگفتہ، مدلل اورسحر انگیز گفتگو سے نکال ڈالے۔ اس نے وہ کر دکھایا تھا جو اب تک میری زندگی میں ناپیدتھا۔ذات کے اندر پھر سے تازہ ہَوا چلی تو اندر کا موسم بھی خود بخود بدلنے لگا ۔ زندگی میں وہ تبدیلیاں بھی آنا شروع ہو گئیں جو بظاہر بہت معمولی تھیں لیکن منفی سوچ کا پوسٹر اپنی ہستی پر چپکائے پھرنے کی وجہ سے اب تک ناپیدتھیں۔ میں نے پھر سے ماں، بہنوں اور چھوٹے بھائی سمیت بہت سے قریبی لوگوں کے چہروں کے نقوش اور ان کی باتوں پر دھیان دینا شروع کر دیا۔ موسموں کے تغیرات اور ان کے اثرات پر میری توجہ نئے سرے سے مرکوز ہونے لگی۔اندرونی حالات بہتر ہوئے تو میری گم شدہ خوش مزاجی بھی ہجرت کرنے والے پرندوں کی طرح اپنے اصل مسکن کی طرف لَوٹنے لگی۔ گھر ، دفتر والے اوردیگراحباب سب نے میرے اندر برپاہونے والی انقلابی اور حیران کن تبدیلیوں کو خوب سراہا۔میں نے تعلیم کا منقطع سلسلہ پھر سے شروع کرنے کا مضبوط ارادہ بھی باندھ لیا۔بہنوں کی شادی کے لیے دو عددکمیٹیاں بھی ڈال لیں۔برسوں بعداپنے گھر کو نئی قلعی کروائی،پرانے صوفوں کا حلیہ نئے کشن اور پوشش کی مدد سے بدلا،پرانے فرنیچر کو پالش کروا کر ان کی ترتیب بدلی توساتھ ساتھ بارہ برس پرانے پردے بھی بدل دئیے۔جب میں اپنے خود ساختہ قید خانے سے باہر نکلا تو پہلی بار مجھے دھیان آیا کہ آج تک نور الٰہی کے بارے میں کبھی کچھ کیونکر نہ پوچھا۔اس دوپہر اپنی زندگی میں تبدیلی کا مؤجب بننے پر پہلی باراسے کھل کر خراجِ تحسین پیش کیا جسے اس نے کسی مشرقی لڑکی کو دی جانے والی شادی کی براہِ راست دعوت کی طرح شرما کراور سر جھکا کر قبول کر لیا لیکن جونہی میں نے اس کی ذات اور ذاتی زندگی کے متعلق استفسار کیا تو وہ بینچ پر بیٹھے بیٹھے اچانک یوں اٹھ کر کھڑا ہو گیا جیسے اسے کسی موٹی سی چیونٹی نے کاٹ لیا ہو۔
’’اجی چھوڑیں محسن میاں اس قصے کو۔ہماری تعریف، ہمارا پس منظر،ہماراگھر اور ہماراافسانہ تو فقط اس ایک شعر میں پنہاں ہے کہ۔وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے۔مشکیزے سے تِیر کارشتہ بہت پرانا ہے۔۔۔ایک چراغ اور ایک کتاب اور ایک امید اثاثہ۔۔۔ اس کے بعد تو جو کچھ ہے وہ سب افسانہ ہے۔ہمارا ایمان ہے کہ جب کبھی زمین پر کوئی اہم، خاص اوربھلا شخص کسی وجہ سے اپنی اندر کی طاقت، درست سمت اور اپنی بصیرت و روشنی کوکھو بیٹھے تو اوپر بیٹھا ہوا عظیم منصوبہ سازاہلِ زمین میں سے مجھ جیسے کسی ناچیزکی ڈیوٹی لگا کر اسے اس خاص شخص کے پاس ایک خاص مشن پربھیج دیتا ہے۔۔۔جب پیغام پوری طرح پہنچ جاتا ہے،پوری طرح سمجھ لیا جاتا ہے تویہ مشن پورا ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی اس بندے کا رول بھی ختم ہو جاتا ہے۔۔۔اور پھر اس کا کہیں اور ٹرانسفر ہو جاتا ہے۔ قسم لے لیجیے جو ہم نے شہنشاہ سخن ور اقبالؔ کے اس ایک لازوال شعر کے علاوہ آپ پر کوئی اور دوسرا تجربہ کیا ہو کہ اپنے من میں ڈُوب کر پا جا سراغِ زندگی۔۔۔تُو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن،اپنا تو بن ! ‘‘ اور پھریہ کہہ کر نامعلوم وجوہات کی بِنا پرنور الٰہی کچھ دیر احمقوں کی طرح ہنستا رہا ۔ مجھے نہ سمجھ آئی اور نہ ہی ہنسی لیکن مروتاً نور الٰہی کے ساتھ مجھے بھی ہنسنا پڑا۔
’’آپ میں کمال کی برجستگی اور بذلہ سنجی ہے ۔۔۔آپ اپنے ایک شگفتہ جملے سے حبس بھرے موسم کو بادِ صبا میں باآسانی ڈھال سکتے ہیں! ‘‘
’’اس حسنِ ستائش پر آداب عرض ہے محسن میاں۔۔۔لیکن وہ کسی سخن ور نے کیا سچ کہا ہے۔۔۔اس کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی رہتی ہے فرازؔ۔۔۔جس کی ہر بات ہوتی ہے اوروں کو ہنسانے کے لیے۔۔۔شادمانی کی خوشنما عمارت کو صرف اداسی کا مضبوط سنگ مرمر ہی جاوداں اورقائم رکھتا ہے۔۔۔رات کا آخری سیاہ پہرہی سحرکے طاقتورمفہوم کی تفہیم کہلاتاہے۔۔۔غم،درد اور تڑپ ہی انسان کوپکاسو، صادقین اور بیتھووین بناتے ہیں۔۔۔زندگی میں جب بہت کچھ جمع ہوجائے تو منہا کی گنجائش، ضرب اور امکان کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے! ‘‘
’’آپ کی ہر بات سر آنکھوں پر لیکن کم از کم میں اپنی زندگی سے اب آپ کو کبھی منہا ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔۔۔اگر ایسا ہوا تو یہ میرا ناقابلِ تلافی ذاتی نقصان ہو گا۔۔۔اور ہاں میں آپ کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے دفترسے پندرہ دن کی چھٹی لے کر شمالی علاقہ جات کے سفر پر جا رہا ہوں۔۔۔پلیزآپ بھی میرے ساتھ چلیے۔۔۔آپ سے اچھا ہم سفر بھلا اور کون ہوگا۔۔۔آپ کی ناصحانہ اور شگفتہ باتیں میرے سفر کو رنگین بنائے رکھیں گی اور اسی بہانے آپ سے مزید بہت کچھ سیکھنے کو مل جائے گا! ‘‘
’’محسن میاں۔۔۔ خود شناسی اور آگہی کا یہ فیصلہ کن سفربھی آپ نے عالمِ بے خودی میں اکیلے ہی طے کرنا ہے۔۔۔وہ کسی سخن ورنے کیا خوب کہا ہے۔۔۔عمر جو بے خودی میں گزری ہے۔۔۔بس وہی آگہی میں گزری ہے۔۔۔آپ اپنا ہاتھ مضبوطی سے تھام کر آگہی کے سفر پر نکلیں گے تو کبھی تنہا نہیں ہوں گے۔۔۔اس کے بعد مروتاً اتنا ہی کہنا کافی ہوگا۔۔۔ یار زندہ صحبت باقی! ‘‘
وہ ہماری آخری ملاقات تھی!!!
اس کے بعد میں نور الٰہی سے کبھی نہیں ملا۔ میری اس سے آخری ملاقات کو آج پورے بائیس برس بیت چکے ہیں۔ہر سال میں نور الٰہی سے اپنی اس آخری ملاقات کی یاد تازہ کرنے اس پارک میں تنہا آتا ہوں۔ پچھلے کئی برسوں میں جہدِ مسلسل کے نتیجے میں میں نے ایک سٹینو گرافر سے ملک کے نامور تلقینی و القائی تربیت کار، قابلِ تقلیداستاد اوراپنی تقاریر سے ہزاروں لوگوں کی زندگیوں اور سوچوں کا رخ تبدیل کر دینے والے بے مثال مقرر کا درجہ کیسے حاصل کیا ،یہ ایک لمبی کہانی ہے لیکن میں نے اپنے اندر نور الٰہی کی روشن کی ہوئی لَو کو آج تک کبھی مدھم نہیں ہونے دیا ۔نور الٰہی آج بھی میرے اندر چلتا پھرتا، میری آواز میں بولتا رہتا ہے اور اس کا رنگین چولا اب میں نے زیب تن کر رکھا ہے۔میری جتنی بھی مصروفیات یاپیشہ وارانہ ذمہ داریاں ہوں ، مجھے جب کبھی کسی سڑک کنارے سر اور کندھے جھکائے چلتا ہوا، کسی پارک میں تنہا اداس بیٹھا اور خالی نظروں سے خلاؤں میں گھور تا کوئی نوجوان نظر آ جائے تومیں فوراً محسن ضیا سے نور الٰہی کا رُوپ دھار لیتا ہوں اور تب تک اس کی زندگی سے غائب نہیں ہوتا جب تک وہ نوجوان اپنی ذات کے اندر گمشدہ اپنی طاقت اور روشنی کوپھر سے نہیں پا لیتا۔نور الٰہی کی طرح اپنے ہرمشن میں کامیابی اوراپنی ڈیوٹی ختم ہونے کے بعدمیں اپنا رنگین چولا اتار تا ہوں اور اس نوجوان کو نور الٰہی کا کہا ہوا یہ جملہ آخری دفعہ دہراکر اس کی زندگی سے ہمیشہ کے لیے غائب ہو جاتا ہوں۔۔۔’’آپ اپنا ہاتھ مضبوطی سے تھام کر آگہی کے سفر پر نکلیں گے تو کبھی تنہا نہیں ہوں گے!!! ‘‘
افسانہ ابھی ختم نہیں ہوا اور نہ ہی میں ابہام پر یقین رکھتا ہوں!
شمالی علاقہ جات کے یادگار ترین سفرسے واپسی کے بعد اپنی مکمل اوورہالنگ کرکے جب میں پرجوش،ہلکا پھلکا اور خوش و خرم وجود لیے واپس اپنے شہر پہنچاتوسب سے پہلے میں جس شخص کو مل کر اپنے پورے سفر کی رُوداد سنانا چاہتا تھا، وہ نور الٰہی تھا۔کئی روز تک تو میں پارک میں بے چینی کے ساتھ اس کا انتظار کرتا رہا اور اس کے گھر یا دفترکا ایڈریس نہ لینے والی اپنی عظیم حماقت پر اپنے آپ کو جی بھر کر کوستا رہا۔نور الٰہی کو نہ آنا تھا سو نہ آیا۔زندگی میں نور الٰہی کی موجودگی میرے لیے اتنی اہم ہو چکی تھی کہ اس کی غیر موجودگی کو برداشت نہ کر پایا۔ایک ہفتے پارک میں انتظار کے بعدمیں نے اردگرداس کی تلاش شروع کردی اور ایک مرحلہ ایسا بھی آیا کہ اپنے ہاتھوں سے اس کے چہرے کا آڑھا ترچھا سکیچ بنا کر سامنے والے ریسٹورانٹ، اردگرد کے دفتروں اور علاقوں میں لوگوں سے اس کا اتا پتا پوچھتا رہا لیکن میری تمام کوششیں مکمل طور پربے سُود ثابت ہوئیں۔ وہ یوں غائب ہوگیا جیسے اس کا کہیں کوئی وجود ہی نہ تھا۔ مہینے بھر کی لاحاصل مشقت کے بعد مجھے لگنے لگا جیسے میں پھر سے اپنی پرانی ذہنی حالت کی طرف لَوٹ رہا ہوں!
اس سے پہلے کہ واقعی ایسا ہو جاتا،وہ ایک بار پھر میری مدد کرنے کے لیے لَوٹ آیا!
جی نہیں آپ غلط سمجھے۔۔۔حقیقت میں نہیں صرف خوابِ سحری میں!
میں نے خواب میں نور الٰہی کو بہت عجیب حلیے میں دیکھا۔مکمل سفید لباس زیب تن کیے اور اپنا مخصوص بیگ بغل میں دبائے وہ ایک پسنجر ٹرین کے دروازے پر کھڑا تھا۔وہ جیسے کہیں کسی سفر پر نکل رہاتھا،میں آنکھوں میں بحرِاوقیانوس بھرے اسے رخصت کرنے ریلوے سٹیشن پر آیا ہواتھا اور ٹرین روانگی کی آخری سیٹی بجنے کے باوجود اس کا ہاتھ چھوڑنے پر آمادہ نہ تھا۔
’’آزردہ نہ ہوں محسن میاں۔۔۔میرا ٹرانسفر ہو گیا ہے۔۔۔اورڈیوٹی تو ڈیوٹی ہوتی ہے۔۔۔زندگی میں کبھی ملاقات ہو یا نہ ہو لیکن مجھے یقین ہے آپ مجھے اپنے اندر ہمیشہ زندہ رکھیں گے کہ ہمارے ناموں میں مشترک قدر روشنی ہے۔۔۔جاتے جاتے بھی ہمیں ایک سخنور کا خوبصورت شعر یاد آ رہا ہے۔۔۔جہاں رہے گا وہیں روشنی لٹائے گا۔۔۔کسی چراغ کا اپنا مکاں نہیں ہوتا! ‘‘
اس روزجوآنکھ کھلی تو آج تک بند نہیں ہوئی۔نور و ضیا بلاحساب اور بلاغرض لٹانے کا سفرجاری ہے اورمجھے یقین ہے یہ سفر میرے ٹرانسفر کے بعد بھی جاری رہے گا کہ بجھتے ہوئے چراغ سے ہی نیا چراغ جلتا ہے !!!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.