عمر کا وہ حصہ ہے جس کو سارتر کا ایک قول عمدگی سے بیان کرتا ہے۔ لکھتا ہے، ’’ایک ہی دن ہے اوروہ بار بار آتا ہے۔ یہ فجر کے وقت ہمیں دیا جاتا ہے اور بوقت مغرب چھین لیا جاتا ہے۔‘‘ اب یہ بھی بات نہیں کہ عمرِ نوح میں ہوں۔ نہیں نہیں، اچھے برسوں میں ہوں، لیکن جتنا دیکھا اور محسوس کیا ہے، اس میں تسلسل اتنا ہے کہ ہر دن، ہر برس ایک سا لگتا ہے۔ وہی ہو رہا ہے جو ہوتا تھا۔ لگتا ہے ہوتا بھی وہی رہے گا۔ اس بات کو جان کر اب حواس پر کوئی غلاف چڑھ گیا ہے۔ حال یہ ہے کسی ماجرے، حادثے کا سنا تو ذہن ایک لگے بندھے مشینی طریقے مطابق اس سے نتائج اخذ کر کے رد عمل دیتا ہے۔ محسوسات کو آنچ نہیں آتی۔ لیکن ایک عجیب بات ہوئی آج۔ میرے ساتھ کچھ الگ ہو گیا۔ فلیٹ کی طرف جاتے جب میں اپنی گلی سے گزر رہا تھا تو نکڑ پر کچراکنڈی کے پاس ایک نظارہ دیکھا۔ محسوسات پر ضرب پڑی۔ ایسی ضرب، جسم جھنجھنا بن گیا۔ گاڑی اندر کھڑی کر کے میں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر فلیٹ میں پہنچا ہوں۔ یہاں آتے ہی کھڑکی کے قریب والی اس ٹیبل نے کھینچا جو میری لکھائی پڑھائی کے کام آتی ہے۔ ٹیبل پر اوپرتلے بے ترتیب کتابیں پڑی ہیں۔ ان میں پھٹتے آموں کا قصہ کے نام سے، پیلے رنگت کا ترجمہ کیا ہوا ناول بھی رکھا ہے جو پبلشر کے پاس سے اٹھا کر گم کر دیا گیا۔ میں دراز کھولتا ہوں۔ اس میں ڈھیروں ڈھیر قلم پڑے ہیں۔ اصل میں یہ میری افتادِ طبع ہے۔ جہاں قلم دیکھنے میں آیا، بے اختیار ہو کر اسے خرید لیا۔ وہ اس لیے کہ لکھتے وقت بہت مشکل ہوتی ہے۔ بڑی مشکل سے طبیعت کسی قلم پر آمادہ ہوتی ہے۔ ایسا قلم جو ہلکا ہو، لکھتے وقت رواں رہے، کاغذ پر اٹکے نہیں۔ باریک لکھائی ہو۔ تو اور کیا کیا بتاؤں، بس نری سر دردی ہے ایک یہ بھی۔ چلیے چھوڑیے اسے، ہم مدّے پر آتے ہیں۔
آج شام کو پانچ ساڑھے پانچ بجے گھر لوٹتے وقت گلی میں آنکھ نے جو کچھ دیکھا وہ ایک ایسا لمحہ تھا جو مجھے کئی دہائیاں پیچھے لے گیا۔
یہ ایک شام ہے۔ سورج اپنے آخری دم پر ہے۔ صحن کی مٹی پر چھڑکاؤ کے نشان ابھی باقی ہیں۔ موتیے اور گلاب کی کیاری کے ساتھ کھجوری پتوں سے بنی چٹائی بچھی ہوئی ہے۔ کیاری کے ساتھ ہی چٹائی پر شیشے کے چار جگ شربت سے بھرے رکھے ہیں جن کی بیرونی سطح پر قطرے پھسل رہے ہیں اور ان کے اندر رنگارنگ پانی میں برف کے بلوری ٹکڑے پگھل رہے ہیں۔ پہلے جگ سے سبز رنگت جھلک رہی ہے جو نورس شربت سے بھرا ہوا ہے۔ یہ میری چھوٹی خالہ کا پسندیدہ شربت ہے جس سے میں جڑا بیٹھا ہوں۔ دوسرے جگ میں شیزان کا لیموں والا کھٹا شربت ہے جو میری ماں کا ہے۔ وہ کسی اور کو آدھے گلاس سے ایک قطرہ زیادہ پینے نہ دے گی۔ اس جگ کے ساتھ تھوڑا مٹی جیسی رنگت والا معاذ تھادل سے بھرا جگ ہے جو نانا ابا کا ہے۔ وہ افطاری میں اسی جگ سے شربت پیتے ہیں۔ حالانکہ باقی سب ایک دوسرے کے جگ سے گلاس بھرتے ہیں لیکن نانا ابا معاذ تھادل کے علاوہ کسی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتے۔ مجھے بھی کہے جاتے ہیں،
’’بیٹا، یہ تھادل پی تھادل۔ اس میں خشخاش ہے۔ کالی مرچ، سونف، چار مغز ڈلے ہیں۔ یہ پی لیا تو سمجھو دودھ کا گلاس پی لیا۔‘‘ مگر میری نظر تو چوتھے جگ پر ٹکی ہے جس میں گہری پیازی رنگت والا گلابی شربت ہے۔ روح افزا اور دودھ سے بنا یہ شربت ماموں کا ہے۔ میرا دل کر رہا ہے اس میں سے گلاس بھر کر غٹ غٹ پی جاؤں مگر ابھی اذان کہاں آئی ہے۔ اور آئے تب بھی اس کے ختم ہونے سے پہلے نانی کسی کو کچھ پینے نہیں دیتیں۔
’’آذان تو پوری ہو۔‘‘
’’او اللہ کی بندی، آذان کے ساتھ روزہ کھولتے ہیں۔‘‘ نانا ابا کی بے بس آواز آتی ہے۔
’’جاہل نہیں میں۔‘‘
’’مائی، پیاس مارے ڈال رہی ہے۔ اب تو اللہ نے بھی اجازت دے دی۔ تو یہ اپنا لیے بیٹھی ہے۔‘‘
’’پورا دن کچھ نہیں ہوا، باقی آذان کے دو بولوں میں تیرا دم نکل جائے گا؟‘‘ نانی ہٹ کی پکی تھیں اس لیے کسی کو نہ چھوڑتیں۔ ادھر آذان ختم، ادھر سب ٹھنڈے شربت کے گلاس منھ پر چڑھانے لگتے، ’’سدھرو کچھ! کھجور سے روزہ کھولتے ہیں۔ بس شربت پر ٹوٹے پڑ رہے ہو۔ یہ لے میرا بچہ۔‘‘ نانی مجھے کھجوروں کی پیالی سے کھجور پکڑاتیں۔ ’’تو اور میں کھجور سے روزہ کھولتے ہیں۔‘‘
’’تو نے روزہ رکھا تھا؟‘‘ ماموں شربت کا گلاس بڑھا کر مجھے دیتا ہے۔ میں جواب میں سر ہلاتا ہوں۔
’’کتنے روزے رکھے آج، بڑے ادا؟‘‘ نانا مجھ سے پوچھتے ہیں۔
’’میں نے چار روزے رکھے آج۔‘‘
’’اچھا! بھلا کیسے؟ بتا تو۔‘‘
’’صبح نانی نے چاول اور تلے آلو دیے تھے۔ ایک روزہ۔‘‘ میں انگلیوں پر گنتا جاتا ہوں۔ ’’پھر میں نے پانی پیا۔ دوسرا روزہ۔ پھر دوپہر نانی نے بھنڈیاں تل کر دیں۔ تیسرا روزہ۔ پھر ابھی شام کو آم کھایا تھا۔ چوتھا روزہ۔‘‘
’’اڑے گھوڑا ڑے۔ آم!‘‘ نانا چلا اٹھتے ہیں۔ مجھے ہنسی آ جاتی ہے۔ ’’بڑے ادا، آم کا ایسے نام نہیں لیتے۔ یہ بتا، تیرا وضو ہے جو آم کا نام لے رہا ہے؟‘‘
’’ہاں نانا۔ وضو ہے۔‘‘
’’چل پھر ٹھیک ہے یار۔ آم بڑی شے ہے۔‘‘
’’بچے سے وضو کا پوچھ رہا ہے اور خود مغرب پر نہیں جا رہا۔ واہ سائیں واہ۔ بس روٹی ہڑپ کیے جا رہا ہے۔ ہے فائدہ ایسے روزے کا جو پانچ وقت نمازی رمضان میں چار وقتی ہو جاتا ہے؟‘‘
’’اڑے اللہ کی بندی، ہمارے ملے کو تکڑ (جلدی) ہے بہت۔ بولان میل چھوٹی جا رہی ہے اس کی۔ میں بڑی مسیت والوں سے پوچھ آیا ہوں، اللہ سائیں نے موکل دی ہے۔ کہا ہے، دل میں کھانے کی طلب ہے تو نماز سے پہلے کھانا کھاؤ۔ تمھیں اعتبار نہیں تو چل، تجھے کل مولوی دوست محمد کے سامنے بٹھاتا ہوں۔‘‘
’’میں کیوں جاؤں اس دوست محمد کے پاس؟ دیکھو تو سہی! اس نے جماعت پر نہ جانے کے لیے بھی کیسی کیسی باتیں ڈھونڈ رکھی ہیں۔ اب میں بیچاری اس کو پہنچ سکتی ہوں؟‘‘
’’اس ساری زمین پر ایک یہ بیچاری ہے اور ایک وہ کانا ضیا۔‘‘
’’اس مروان سے ملاتا ہے مجھ کو؟ شرم نہیں آتی تمھیں؟اس یزید کا نام لے کر کھانا حرام کردیا مجھ پر۔ لے۔ اب خود ٹھونس جا کر۔‘‘ نانی کھانا چھوڑ کر اٹھ گئیں۔
’’اماں چھوڑ۔ ابے کی تو عادت ہے۔‘‘ اماں نانی کو منانے لگی، ماموں بھی خراب منھ کر کے نانا کو گھورنے لگا۔
’’اڑے میری طرف کیا دیکھ رہے ہو؟ بس نکل گئی بات منھ سے۔ اڑے اللہ کی بندی، میں نے بس کی۔ اب بیٹھ جا۔‘‘ نانا نانی کو منانے لگ گئے۔
’’بڑی بس کی ہے تو نے! مجھے جیسے نہیں پتا تیرا۔‘‘
’’تیری قسم، بالکل بس۔ اب بیٹھ، کھانا کھا، آج تو آم بھی کھانے ہیں۔ دیر نہ کر۔‘‘
’’آم ہیں کہاں؟ تو لایا تھا کیا آم؟‘‘
’’اللہ کی بندی، میں نہیں لایا تو کیا ہوا۔ یہ تو لے آیا ہے ناں۔ میں نے خود دیکھے، ادھر باورچی خانے میں بالٹی میں رکھے ہیں۔‘‘ نانا ماموں کی طرف اشارہ کر کے بولتے ہیں۔ نانی جواب دیے بنا کھانا کھانے لگتی ہیں۔ کھانا ختم ہو چکا ہے۔ نانی بھی کھانا کھا چکی ہیں مگر وہ نانا کی آم کی متلاشی نگاہوں سے بے پروا بیٹھی ہیں۔ ’’اللہ کی بندی، اٹھ بھی اب۔‘‘ نانی کے انداز سے لگ نہیں رہا کہ نانی اٹھنے والی ہیں۔ ’’بھلا تو آم کاٹ کے لے آ ادی۔‘‘ نانا چھوٹی خالہ سے بول پڑے۔
’’چپ بیٹھی رہ! خبردار جو اٹھی ہے تو۔‘‘
’’توبہ ڑے توبہ! بڑے ادا، اٹھ تو۔ نانی اپنی کو راضی کر۔‘‘ نانا مجھے منت کرتے ہیں۔
’’نانی، نانی۔ آم لے آ۔ نانی نہیں ہے۔‘‘ میں نانی کی گردن میں ہاتھ ڈال کر پیٹھ پر لد جاتا ہوں۔
’’کمر توڑے گا کیا میری۔ اتر نیچے۔‘‘
’’نانی آم لے آ ناں۔‘‘
’’دیکھ رہی ہوں، تو سارے کا سارا نانا کی طرف ہوتا جا رہا ہے۔‘‘
’’نہیں نانی۔ میں تو سوتا بھی تمھاری چارپائی پر ہوں۔‘‘
’’ہاں یہ بات تو ہے۔ چل چھوڑ مجھے۔ جاتی ہوں میں۔‘‘ نانی اٹھ کھڑی ہوتی ہیں۔ ’’یہ اس معصوم کی وجہ سے جا رہی ہوں ورنہ آم نہیں ملنے تجھے۔‘‘ نانی جاتے جاتے پلٹ کر نانا سے بول پڑتی ہیں۔ نانی پیٹھ دے کر باورچی خانے کا رخ کرتی ہیں تو کیاری کے پیچھے گھاس کے قطعے میں کھڑی، گھاس پر منھ مارتی بکری نانی کے پیچھے چل پڑتی ہے۔
’’اڑے شریف، اللہ تجھے نیکی دے، اٹھ۔ اس بکری کو تو روک۔ یہ تیری ماں آدھے آم اسے کھلا دے گی یار۔‘‘ ماموں کو کہتے نانا نے آواز نیچی رکھنے کی کوشش کی ہے مگر نانی سن لیتی ہیں۔
’’میں دیکھتی ہوں کون نوری کو ہاتھ لگاتا ہے۔ اور تو سنتا نہیں؟ لاکھ بار کہا ہے ناں تجھے، یہ نوری ہے، بکری نہیں۔‘‘ نانی پھر واپس آ کر نانا کے اوپر کھڑی ہوتی ہیں۔
’’اچھا ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، پر تو اسے باندھتی کیوں نہیں، اللہ کی بندی؟‘‘
’’عقل ہے تجھے یا نہیں؟ نوری کوئی رسی ہے جو باندھوں؟ حیا نہیں آتی۔‘‘
’’دیکھ بڑے ادا، دیکھ۔ اس بیبی بکری کے پیچھے ہم گالیاں کھا رہے ہیں۔ اب دیکھنا، یہ تیری نانی اپنی نوری کو آدھے سے زیادہ آم کھلا دے گی۔‘‘
’’وہ آم ہوتے ہیں؟ چھلکے ہوتے ہیں چھلکے۔ شکر کر جو یہ بے چاری سارا گند چھلکے کھا جاتی ہے۔ نہیں تو سارا گھر تمھارے ان چھلکوں اور ڈنٹھلوں سے بو دیتا رہے۔‘‘
’’جو تو اسے کھلاتی ہے وہ چھلکے ہوتے ہیں؟ آدھے سے زیادہ آم تو ان چھلکوں کے نام پر اترتا ہے۔ تو ایسا کر، جو ککڑی مجھے دیتی ہے وہ اپنی نوری کو کھلا اور اپنی نوری والے چھلکے مجھے دے دے۔ ٹھیک ہے؟‘‘
’’توبہ! دیکھو تو، کھا کھا کر ایسا بن گیا ہے جیسے سات ماہ کا بچہ پیٹ میں ہو اور پھر بھی نوری کے چھلکوں میں آنکھیں لگائے بیٹھا ہے۔‘‘ نانی غصے سے باورچی خانے جانے لگیں اور نوری ان کا پلو بنی خراماں خراماں چل دی۔
’’اب سائیں، کون بات کرے۔ بات کرنے جیسا چھوڑا ہی نہیں تیری نانی نے۔ بڑے ادا، اٹھ تو، روک بکری کو۔ تجھے نانی کچھ نہیں بولے گی۔‘‘
’’سدھرنا نہیں تو نے! پڑھا اب اس چھوٹے کو اپنی پٹیاں۔‘‘
’’پھر باندھ کر کیوں نہیں رکھتی اسے اللہ کی بندی؟‘‘
’’او عقل کے اکابر، سن۔ بکری کا دودھ اس کے پاؤں میں ہوتا ہے۔ جتنا چلے گی اتنا دودھ دے گی۔ اسے باندھ دیا ناں تو پھر جو تو ابھی چائے چائے کی رٹ لگائے گا، وہ پانی میں بنا کر دوں گی پھر۔‘‘
’’ہماری بس ہو گئی۔ چل ٹھیک ہے، جو کرنا ہے کر لے۔ بس آم جلد لے آ۔‘‘ نانا اٹھ کر نلکے کی طرف چلے جو صحن کے کونے میں ایک کچی چار دیواری میں لگا تھا۔ میں نانا کے پیچھے چل پڑا۔ نانا وضو کرنے لگے تو میں نلکے کو گیڑنے لگا۔
’’او ہو ہو ہو۔ اتنا ٹھنڈا پانی! برف ہے برف۔‘‘ میں نے نانا کی بات سن کر ہاتھ بڑھا کر پانی کی دھار میں ہاتھ ڈالا۔
’’نانا، برف تو نہیں ہے۔‘‘ میں نے مایوسی سے کہا۔
’’نہ بڑے ادا۔ تو خود نلکا چلا رہا ہے اس لیے تجھے پتا نہیں چل رہا، باقی برف ہی برف ہے۔ بول تو قرآن کی قسم اٹھاؤں؟‘‘
’’نانا، نانا، وہ بتاؤ جو جت (جت ایک قوم کا نام جو اونٹ پالنے کے کام سے پہچان رکھتے ہیں) نے قرآن اٹھایا تھا۔‘‘ میں مچل اٹھا۔
’’بڑے ادا، وضو کرلوں تو بتاتا ہوں۔‘‘
’’نانا، ابھی سنا، ابھی سنا۔‘‘
’’یاررر، یار، یارر۔ تو زورآور ہے۔ صفا نانی پر گیا ہے۔ چل سناتا ہوں۔ ایک جت نے کی چوری۔ فیصلہ وڈیرے کے پاس گیا۔ اب چوری تو ہوئی برابر، پر ثابتی شاہدی کوئی نہیں تھی۔ مالکوں نے بولا، جت قرآن اٹھائے اس نے چوری نہیں کی۔ جت نے کہا، کون سا قرآن اٹھانا ہے؟ دکھاؤ۔ مسیت سے جا کر قرآن لے آئے۔ جت سے بولا، یہ قرآن اٹھاؤ گے کہ تم نے چوری نہیں کی؟ جت بولا، ہاں۔ ایسے میں دس اٹھا جاؤں۔ وڈیرا سیانا تھا۔ وہ بات سمجھ گیا۔ جت سے بولا، ٹھیر جا۔ یہ قرآن تو ہے، پر تجھے سرخ قرآن اٹھانا ہے۔ وڈیرے نے کیا کِیا، جو کھیت میں رہٹ چل رہا تھا، اس کو بڑی سرخ چادر اڑھا دی۔ جت کو وہاں لے جا کر بولا، یہ ہے سرخ قرآن۔ اب اسے اٹھا کر بول، تو نے چوری نہیں کی۔ جت کانوں کو ہاتھ لگا کر بولا، نہ سائیں۔ یہ قرآن میرا باپ بھی نہ اٹھائے۔ میں مانتا ہوں، میں نے چوری کی ہے۔ خوش اب خوش؟‘‘ نانا بات سنا کر گیلے ہاتھوں سے مجھے گدگدی کرنے لگے۔ ہنسی سے میرے پیٹ میں بل پڑنے لگے۔ میں اچھلتا کودتا نانا کے ساتھ چٹائی کی طرف واپس آتا ہوں جہاں نانا چٹائی کے ایک کونے پر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ ساتھ ان کی نقل کرتا جاتا ہوں۔ نماز کے پورے ہوتے آموں کا تھال چٹائی پر پہنچ جاتا ہے اور سارے مل کر کھانے لگتے ہیں۔ پر نانا کے کھانے کا انداز سب سے الگ ہے۔ وہ دوزانو ہو کر تھال کے قریب بیٹھتے ہیں اور آم کھانے لگتے ہیں۔ سچ کہوں تو ایسے مزے سے آم کھاتے زندگی میں کسی کو نہیں دیکھا۔ وہ آم کی پھانک اٹھاتے اور اسے کھاتے ہوے لذت سے سسکاریاں لیتے جاتے۔ ’’سائیں وَہوا! سبحان اللہ۔ کیا بات ہے۔ آہا ہا ہا۔ مزہ آ گیا۔‘‘ کے الفاظوں کے ساتھ لایعنی قسم کی آوازیں نکالتے جاتے۔ نانی تپنے لگتیں۔
’’فضیلت سے کھا، فضیلت سے۔ سنا نہیں میں کیا کہہ رہی ہوں؟‘‘ نانی بولنے لگتیں اور نانا اپنے ’’آہا ہا ہا، ہے ڑے ہے‘‘ میں لگے ہوتے۔ نانی کو تنگ آ کر وہاں سے اٹھنا ہی پڑتا۔
’’کیسے بڑے ادا؟ یہ دو پھانکیں اور بچ گئیں۔‘‘ نانا بائیں آنکھ میچ کر مجھے کہتے ہیں۔ نانی غصے میں تھال اٹھا لیتی ہیں۔ ’’اڑے گھوڑا ڑے۔ یہ اللہ رسول کی جھولی ہے تجھے، ایسا تو نہ کر۔ میرے باپ دادا کی توبہ جو ایسے آواز نکالوں اب۔ لیکن یقین کر مراد خاتون، میں کچھ نہیں کرتا۔ میں صفا شریف آدمی ہوں۔ یہ منھ میرا کم بخت ایسا ہے جو آپ آوازیں نکالتا ہے۔ تو اگر کہے تو اسے درزی سے کل ہی سلوا دیتا ہوں۔‘‘
’’درزی سے کیوں، میں سوئی دھاگا لے کر خود نہ سی دوں تیرا منھ؟ ایسے برے برے آواز نکالتا ہے کہ الٹی آتی ہے مجھے۔ فضیلت سے نہیں کھا سکتا؟‘‘
’’بسس۔ اب فضیلت سے۔ صفا منھ بند۔‘‘ نانا کی بات کے بعد نانی تھال واپس رکھتی ہیں اور ایک دو لمحوں کے بعد وہی سسکاریاں اور وہی آواز۔ نانی پھر اٹھ جاتیں اور ان کے پیچھے پیچھے میری ماں نانا کو ناراض نظروں سے دیکھتی نانی کے پیچھے چلی جاتی۔
اب اس عمر میں میں سوچتا ہوں تو یہ بات تعجب میں ڈالتی ہے کہ اماں اور نانی ہر وقت کیا باتیں کر رہی ہوتیں تھیں۔ اتنی باتیں، جیسے وہ باتوں کی بادشاہ ہوں۔ ورنہ ایک آدمی اتنی باتوں کا مالک کیسے ہو سکتا ہے؟ اب یہ دیکھیں کہ نانی چارپائی پر بیٹھی چاولوں میں سے کنکر چن رہی ہیں اور پائینتی پر بیٹھی اماں ان سے باتیں کیے جا رہی ہے۔ برآمدے میں نیچے رلی بچھائے نانی پرانے کپڑوں کو کترن میں بدل رہی ہیں اور اماں کھٹولی پر پر بیٹھی بولے جا رہی ہے۔ نانی کترن چھانٹ رہی ہیں اور اماں ان سے لگی آنچل کا پلو منھ میں دبائے ہنسے جا رہی ہے۔ نانی میرے پرانے سویٹر کو ادھیڑ کر بڑا بنا رہی ہیں اور اماں جیسے اس سے کوئی راز پوچھ رہی ہے۔ نانی سوکھی روٹی سے کھچڑا بنانے کی تیاری میں باورچی خانے کے اندر ہیں اور اماں ان کو پنکھا جھلتے ہوئے پھسکڑا مارے بیٹھی ہے۔ نانی ایک کیاری میں لگی سبزیوں کی گوڈی کر رہی ہیں اور اماں اپنی پرائی کہے جا رہی ہے۔ اور ہاں۔ نوری بھی ہر جگہ ان کے ساتھ ساتھ پھر رہی ہے۔ جب کسی وقت اماں اور نانی کی باتیں ختم ہونے میں نہیں آتیں تو وہ ان دونوں کے بیچ اپنا منھ گھسانے کی کوشش کرنے میں نانی سے دھپ کھاتی ہے۔ نانی دھپ مارنے کے بعد پھر اسے پیار سے گلے لگا لیتی ہیں۔
میں کھڑکی کے پاس بیٹھا ہوں۔ میری نگاہیں کھڑکی کے باہر اس کونے پر ٹکی ہیں جس میں موجود گھونسلے کو آج چڑیا نے مکمل کر لیا ہے۔ اس کی آٹھ نو سہیلیاں اور ایک طوطا مبارک دینے آئے ہیں۔ بات نظارے کی رہ گئی جو کچراکنڈی کے پاس دیکھ کر میرے اندر یادوں کا ایک جنگل اگنے لگا۔ ایک لاغر بکری کچراکنڈی پر کھڑی پلاسٹک کی تھیلی چبائے جا رہی تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.