ناٹ فار سیل
اس نے تصو یر کو آخری ٹچ دیتے ہو ئے برش نیچے رکھا اور چند قدم پیچھے ہٹ کر ناصرف اس کا ناقدانہ جائزہ لیا بلکہ ہر رخ سے اس کو جانچا اور کہیں کوئی خامی یا کمی محسوس نہ ہونے پر اطمینان کا سانس لیا اور کرسی پر بیٹھ کر سر کو اس کی پشت سے لگاکر آنکھیں موند لی اور ریلکس کرنے لگی۔۔۔ یہ تصویر اس کی برسوں کی محنت کا حاصل تھی اور اسے مکمل کر کے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے آج وہ خود مکمل ہو گئی ہو،۔۔۔ وہ بےچینی۔۔۔ اور خلش ۔۔۔ جو برسوں سے اس کی ذات کا حصہ بن کر اسے کچوکے لگاتی تھی۔۔۔ آج اس نے ان سب پر جیسے بر ش پھیر دیا تھا۔۔۔ وہ اپنے آپ کو ایک دم ہی ہلکا پھلکا محسو س کرنے لگی۔۔۔ اگرچہ انتقام لینے کا یہ طریقہ بہت انوکھا اور عجیب تھا۔۔۔ مگر وہ مطمئن تھی۔۔۔ اگرچہ وہ ایک کمرشل مصورہ تھی مگر اس نے اس تصویر کو کسی قیمت پر بھی فروخت نہ کر نے کا فیصلہ کر لیا تھا۔۔۔ اسی لیے جب اس کے بنائے ہوئے فن پاروں کی نمائش میں تصویروں پر قیمت کی پرچیاں چسپاں کی جانے لگی تو اس نے اس تصویر پر NOT FOR SALE کی پرچی لگا دی۔۔۔ منتظمین اس کے اس فیصلے پر ناخوش تھے کیوں کہ ان کے خیال میں یہ ہی وہ تصویر تھی جس کی انہیں منہ ما نگی قیمت مل سکتی تھی۔۔۔مگر وہ بےبس تھے کیوں کہ وہ کو ئی معمو لی مصورہ نہ تھی۔۔۔ جو کسی کے دباؤ میں آ جاتی۔۔۔
یہ نمائش یورپ کے ایک نہایت ہی جدید اور ترقی یا فتہ شہر میں منعقد ہو رہی تھی۔۔۔ جہاں انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے نام نہاد NGO چلانے والے متعدد بڑے بڑے علم بردار موجود تھے۔۔۔ فن مصوری کے حوالے سے اس کا نام کسی تعارف کا محتاج نہ تھا۔۔۔ سو پہلے ہی دن سے مصّوری سے دلچسپی رکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد اس نمائش گاہ میں موجود تھی۔۔۔ مگر جس تصویر نے سب کی توجہ حاصل کی اور جو تصویر سب سے ز یادہ پسند کی گئی اور لوگوں کی نگاہوں کا مرکز بنی وہ وہی تصویر تھی جس پر NOT FOR SALE کی پرچی لگی تھی۔۔۔ جیسے جیسے دن گزر تے جا رہے تھے وہ تصویر ہر خاص و عام میں مقبول ہوتی جا رہی تھی۔۔۔ فنونِ لطیفہ سے تعلق اور دلچسپی رکھنے والے بڑے بڑے قدر دان بھی اس تصویر کو حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔۔۔ اور بڑی سے بڑی قیمت بھی ادا کرنے کو تیار تھے۔۔۔ مگر اس کی نہ کو ہاں میں بدلنا ناممکن تھا۔۔۔
وہ تصویر کیا تھی!۔۔۔ ایک طمانچہ تھا ان لوگوں کے چہروں پر جو دنیا میں تہذ یب یافتہ کہلاتے تھے۔۔۔ جو عورت کو قابل احترام سمجھنے کے بجائے آج بھی اسے صرف اور صرف اپنے جنسی تسکین کا سامان ہی سمجھتے تھے۔۔۔ وہ تصویر کیا تھی!۔۔۔ صد یو ں پرانا ایک زخم تھا جو ہمیشہ لاعلاج رہا اور آج بھی لاعلا ج ہے۔۔۔ وہ زخم جو اب معاشرے کا ناسور بن چکا ہے۔۔۔ وہ زخم جو مرد عورت کو صدیوں سے اپنی بالادستی ثابت کرنے کے لیے دیتے آئے اور دے رہے ہیں۔۔۔ اس تصویر میں دنیا کے مختلف علاقوں اور تہذیبوں سے تعلق رکھنے والی عورتوں کو پینٹ کیا گیا تھا۔۔۔کوئی کالی تھی۔۔۔ تو۔۔۔ کوئی گوری۔۔۔ کوئی لمبے قد کی۔۔۔ تو کوئی چھوٹی۔۔۔ سب کے چہرے۔۔۔ وضع قطع۔۔۔ اور لباس مختلف تھے۔۔۔ مگر ایک بات جو سب میں مشترک تھی۔۔۔ وہ تھا۔۔۔ ان سب کا بایاں گال جس پر مردانہ انگلیوں کے نشان ثبت تھے۔۔۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.