Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اونٹ

MORE BYشموئل احمد

    کہانی کی کہانی

    افسانہ اونٹ سماج کے ان نام نہاد مذہب کے ٹھیکیداروں کی نفسیات کو بنیاد بنا کر لکھا گیا ہے جو منبر پر بیٹھ کر عوام کو تو دین اسلام اور صحیح راہ پر چلنے کی ترغیب دیتے ہیں لیکن خود کوئی غلط کام کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ در اصل اس وعظ و نصیحت کے پیچھے ان کا مقصد اپنی حیثیت کو، لوگوں کے سامنے برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ کہانی میں مولانا اور سکینہ کے جنسی تعلقات کو بیان کیا گیا ہے اور دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو سے مولانا کی مکروہ سوچ کو واضح کیا ہے۔

    مولانا برکت اللہ وارثی کا اونٹ سرکش تھا اور سکینہ رسی بانٹتی تھی۔ مولانا نادم نہیں تھے کہ ایک نامحرم سے ان کا رشتہ اونٹ اور رسی کا ہے لیکن وہ مسجد کے امام بھی تھے اور یہ بات ان کو اکثر احساس گناہ میں مبتلا کرتی تھی۔

    جاننا چاہیے کہ اونٹ کی سرکشی کہاں سے شروع ہوتی ہے۔۔۔؟

    اونٹ کی سر کشی آنکھ سے شروع ہوتی ہے۔

    پس آنکھ کو بچاؤ۔۔۔

    آنکھ کنڈی کے سوراخ پر تھی اور سکینہ اکڑوں بیٹھی غسل کررہی تھی۔ لا الٰہ پڑھتے ہوئے اس نے آخری بار پانی اجھلا اور کھڑی ہو گئی اور مولانا سکتے میں آ گئے۔۔۔ سکینہ کی خم دار پشت۔۔۔؟

    سکینہ کی پشت الٹی محراب کی طرح بل کھائی ہوئی تھی۔ کچھ اس طرح کہ سینہ آگے کی طرف نکلا ہوا تھا اور کولہے پیچھے کی طرف نمایاں۔ جسم کا سارا گوشت جیسے کولھوں پر جمع تھا۔ سکینہ نے زلفوں کو ایک ذرا جھٹکا دیا اور مولانا نے دیکھا پانی کا قطرہ پشت کی محراب پر رول گیا اور کولھے پر ٹھیر گیا۔۔۔

    مولانا گھر آئے، بیوی سے قربت کی اور غسل فرمایا۔

    مولانا اس دن رحمت علی کو تعویز دینے ان کے گھر گئے تھے۔ ان کو واہمہ تھا کہ کسی نے ان کے گھر پر کچھ کر دیا ہے جس سے خیرو برکت جاتی رہی ہے۔ ایک ہی بیٹا تھا حشمت علی وہ بھی جواری نکلااور کہیں سے دو بچوں والی سکینہ کو اٹھا لایا۔ سکینہ نکاح نامہ لے کر آئی تھی۔ رحمت علی نے صبر کرلیا کہ بیٹے کی منکوحہ ہے لیکن بیگم رحمت علی کا کلیجہ کٹتا تھا اور محلے والے تو دھڑلّے سے سکینہ کو حشمت علی کی رکھیل بتلاتے تھے۔

    رحمت علی کی انگلیوں کے پور پور میں جلن رہتی تھی۔ مرض ڈاکٹر کی سمجھ میں نہیں آیا۔ رحمت علی نے مولونا سے رجوع کیا، مولانا نے سورہ جن پڑھ کر کرتا ناپا۔ کرتا ایک انگل چھوٹا نکلا۔ تشویش ہوئی کہ کوئی پرانا آسیب ہے۔ دوسرے دن نقش سلیمانی لے کر رحمت علی کے گھر گئے۔ آنگن کا دروازہ کھلا تھا ۔ کنڈی کھٹکھٹائی تو جواب نہیں ملا۔ کھانستے ہوئے اندر داخل ہوئے۔ گھر میں کوئی نہیں تھا لیکن غسل خانے سے پانی گرنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ آنگن میں چاپا نل کے قریب ہی غسل خانہ تھا، وہاں سے کسی کے گنگنانے کی بھی آواز آنے لگی تو تجسس ہوا۔۔۔ آنکھ کنڈی کے سوراخ سے لگا دی۔۔۔! پس آنکھ کو بچانا چاہیے۔۔۔!

    اور جاننا چاہیے کہ عورتیں امت کے معاملے میں بڑے فتنہ کی موجب ہوتی ہیں۔

    جب سے سکینہ آئی تھی ایک سے ایک فتنہ برپا ہوتا رہتا تھا۔ وہ اپنا حق جتاتی تھی کہ اس کے پاس نکاح نامہ تھا اور بیگم رحمت پھٹکار بتاتی تھیں۔ سکینہ گھر کی کسی چیز کو بھی ہاتھ لگاتی تو فوراًطوفان کھڑا ہو جاتا لیکن حشمت کی موجودگی میں ان کا کچھ چلتا نہیں تھا۔ سکینہ چائے بناتی اور بیگم رحمت علی کے کلیجے پر سانپ لوٹتا۔ وہ چھپ کر دیکھتیں کہ حرافن کہیں شکر تو نہیں چرا رہی ہے۔۔۔؟

    آخر ایک دن پکڑی گئی۔ حشمت کہیں باہر گیا ہوا تھا۔ سکینہ کا راشن ختم ہو گیا تھا۔ بچہ بھوک سے بلک رہا تھا۔ مولانا اس وقت ڈیوڑھی میں بیٹھے ہوئے تھے۔ سکینہ دودھ لینے کچن میں گئی کہ بیگم رحمت علی نے کلائی پکڑ لی۔

    ’’حرامی کے لیے میں دودھ دوں۔۔۔؟‘‘

    بھوک سے بلکتا معصوم بچہ۔۔۔ ماں شیرنی بن گئی۔ ایک جھٹکے سے کلائی چھڑا لی۔

    ’’جہنمی بڑھیا۔۔۔!‘‘

    ’’خاموش! زبان لڑاتی ہے۔۔۔!‘‘

    بیگم رحمت علی نے جھوٹا پکڑا ۔

    ’’ارے ۔۔۔ ارے۔۔۔!‘‘رحمت علی دوڑ کر آئے۔

    ’’کنجڑے کباڑی کا گھر بنا دیا۔ کنجڑے کباڑی کا گھر۔۔۔؟‘‘

    دونوں گتھم گتھا تھیں۔ رحمت علی نے کسی طرح دونوں کو الگ کیا۔

    سکینہ کی آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں، بال چہرے پر بکھر گئے تھے، وہ تن کر کھڑی تھی۔ اس کا یہ روپ دیکھ کر رحمت علی کانپ گئے۔ بیگم رحمت علی بھی سہم گئیں۔

    بچے کو دودھ مل گیا لیکن سکینہ کی آنکھوں میں عدم تحفظ کا رنگ گہرا گیا۔

    مولانا نے رحمت علی کو سمجھایا۔ ’’حشمت نے با قاعدہ نکاح کیا ہے ۔ اس کے ساتھ زیادتی مناسب نہیں ہے۔‘‘

    سکینہ آنگن میں آئی تو مولانا نے سب کی نظر بچا کر پچاس کا ایک نوٹ اس کی طرف بڑھایا۔

    ’’بچوں کے دودھ کا انتظام کر لو۔‘‘

    سکینہ نے خاموش نگاہوں سے دیکھا۔

    ’’اسے قرض حسنیٰ سمجھ کر رکھ لو۔ حشمت آئے گا تو لوٹا دینا۔‘‘

    عورت لاکھ ان پڑھ سہی مرد کی آنکھوں میں بھوک بہت جلد پڑھ لیتی ہے اور مرد بھی عورت کی آنکھوں میں عدم تحفظ کا رنگ فوراً پہچان لیتا ہے۔

    دونوں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھا۔۔۔ سکینہ نے پچاس کا نوٹ رکھ لیا۔

    کسی عورت کی چادر پر بھی نگاہ مٹ ڈالو کہ اس سے دل میں آرزو پیدا ہوتی ہے۔ عورتیں جو سفید چادر اوڑھتی ہیں اور سیاہ نقاب ڈالتی ہیں تو شہوت کو زیادہ تحریک ملتی ہے۔

    سکینہ باہر نکلتی تو سفید چادر اوڑھتی اور سیاہ نقاب ڈالتی اور اس کی چال ایسی تھی کہ سینہ تنا ہوا ہوتا، کمر ڈولتی اور بازو تلوار کی طرح لہراتے۔ حشمت جب اگلے ہفتے بھی لوٹ کر نہیں آیا تو سکینہ تلوار لہراتی مولانا کے حضور پہنچی ۔ ان کی سانس جیسے رک گئی۔۔۔ لاالٰہ۔۔۔ غسل خانے کا منظر نگاہوں میں گھوم گیا۔ مولانا نے اتھل پتھل سانسوں کے درمیان فال کھولا۔

    ’’خاطر جمع رکھ۔۔۔ مسافر تین دنوں بعد گھر لوٹے۔۔۔‘‘

    حشمت واقعی تین دنوں بعد گھر آیا اور پیسے بھی لایا۔ سکینہ گدگد ہو اٹھی۔ پلاؤ اور مرغ چلا۔ مولانا نے بھی مرغ کی ٹانگ توڑی۔ اس دن سکینہ پہلی بار حشمت کی موجودگی میں ان سے مخاطب ہوئی۔

    ’’مولانا صاحب! ایک ایسا تعویذ دیتے کہ یہ گھر پر کام دھندہ کرتے۔۔۔‘‘

    ’’اب مر د تو روٹی روزی کے لیے گھر سے باہر جائےگا ہی۔۔۔!‘‘مولانا مسکرائے۔

    ’’لیکن یہ بغیر کچھ کہے گھر سے باہر چلے جاتے ہیں اور مہینوں لگا دیتے ہیں اور خبر نہیں کرتے۔۔۔! سکینہ نے پیار بھری شکایت کی۔۔۔

    مولانا نے الجامع کا نقش دیا۔ اس میں تین حروف نورانی تھے اور تین ظلمانی۔

    معلوم ہونا چاہیے کہ آنکھ بھی شرمگاہ کی طرح زنا کرتی ہے۔ مولانا غسل خانے کا منظر بھولتے نہیں تھے اور سکینہ تلوار لہراتی ہوئی نگاہوں کے سامنے سے گذرتی تھی لیکن خدا شکر خورے کو شکر دیتا ہے۔ حشمت پھر گھر سے غائب ہو گیا اور سکینہ فال نکلوانے پہنچی۔ اس بار مسافر کسی دام میں گرفتار تھا۔

    ’’کہنا مشکل ہے کہ وہ کہاں ہے ، کس حال میں ہے۔۔۔‘‘

    سکینہ کے چہرے پر عدم تحفظ کا رنگ نمایاں ہوا۔ مولانا نے موضوع بدلا۔

    ’’اس دن تم نے کھانا بہت مزیدار بنایا تھا۔۔۔!‘‘

    ’’مولانا صاحب! پیسے میں برکت نہیں ہے۔۔۔‘‘

    ’’نیت صاف رکھو۔ برکت بھی ہوگی۔‘‘

    ’’یہ کماتے بہت ہیں لیکن سب اڑا دیتے ہیں۔‘‘

    ’’کنٹرول رکھو۔‘‘

    ’’کیسے کنٹرول کروں۔۔۔؟جوئے کی ایسی لت ہے کہ توبہ۔ سارا پیسااسی میں چلا جاتا ہے۔ پیسہ نہیں ملتا تو گھر کا سامان بیچنے لگتے ہیں۔‘‘

    ’’یہ بری بات ہے۔‘‘ مولانا نے ریش پر ہاتھ پھیرا۔

    ’’آپ کوئی ایسا تعویذ دیتے کہ جوئے کی لت چھوٹ جاتی۔۔۔‘‘

    ’’انشاء اللہ۔۔۔!‘‘

    مولانا نے اس وقت تعویذ تو نہیں دیا لیکن قرض حسنیٰ کا بوجھ بڑھایا پچاس کا نوٹ آگے بڑھاتے ہوئے بولے۔

    ’’اس کو رکھ لو۔۔۔!‘‘

    سکینہ زیر لب مسکرائی۔۔۔

    عورت یوں ہی نہیں مسکراتی۔ اس نے قرض حسنیٰ قبول کیا اور بے حد آہستہ سے سر گوشیوں کے انداز میں بولی۔

    ’’بعد ظہر گھر پر آئیےگا۔۔۔!‘‘

    مولانا نے سہرن سی محسوس کی۔۔۔ کس طرح پھسپھساکر بولی۔۔۔؟ بعد ظہر۔۔۔؟ گھر پر آئیےگا۔۔۔گھر پر۔۔۔؟؟

    جہاں حسن و جمال ہوگا وہا شوق وصال ہوگا۔۔۔

    مولانا بعد ظہر سکینہ کے گھر پہنچے۔ گھر میں سناٹا تھا۔ سکینہ بال سنواررہی تھی اور تنہائی میں عورت کے ساتھ شیطان ہوتا ہے۔ مولانا کو دیکھ کر شیطان مسکرایا۔۔۔

    ’’سب لوگ کہاں گئے۔۔۔؟‘‘ مولانا نے پوچھا۔

    ’’میلاد النبی میں گئے ہیں۔‘‘

    ’’کہاں؟‘‘

    ’’وکیل صاحب کے گھر۔۔۔!‘‘

    شیطان نے مولانا کو اندر پلنگ پر بٹھایا۔

    ’’ابھی دو گھنٹے تک کوئی نہیں آئےگا۔۔۔!‘‘ سکینہ مسکرائی۔

    ’’اسی لیے بعد ظہر بلایا۔۔۔؟‘‘ مولانا بھی مسکرائے۔

    ’’میرے کمرے میں کوئی نہیں آتا ہے۔۔۔‘‘

    لیکن مولانا کے چہرے پر ایک طرح کی گھبراہٹ تھی۔

    ’’اگر کوئی آیا بھی تو تو آپ کو چور دروازے سے نکال دوں گی۔۔۔‘‘

    ’’چور دروازہ۔۔۔؟‘‘ مولانا چونکے۔

    شیطان نے چور دروازہ دکھایا۔ کمرے سے ملحق ایک چھوٹی سی کوٹھری تھی جس کا دروازہ باہر گلی میں کھلتا تھا جو سڑک سے ملی ہوئی تھی۔ گلی میں کسی کا آنا جانا نہیں تھا یہ دوسی طرف سی بند تھی۔

    جاننا چاہیے کہ جماع کے شوق کو انسان کے دلوں پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اس میں بہشت کی لذت کا نمونہ ہے۔ ابھی اصل گھڑی نہیں آئی تھی جس کا شیطان کو انتظار تھا۔

    سکینہ نے مرغی کا سالن بنایا تھا۔ پراٹھے بھی تلے۔ اس بار کھانا زیادہ لذیذ تھا۔ مولانا نے انگلیاں تک چاٹیں۔۔۔ سکینہ برتن اٹھانے کے لیے جھکی۔۔۔! اور نگاہوں میں منظرلہرایا۔ بید مجنوں کی طرح ہلتی کمر، تھرکتے کولھے۔۔۔ شیطان کو اسی گھڑی کا انتظار تھا۔۔۔ وہ انسان کے دلوں میں شہوت کے بیج بوتا ہے۔۔۔ اس نے بیج بویا اور مولانا نے سکینہ کا ہاتھ پکڑ لیا۔

    ’’ذرا بیٹھو تو۔۔۔! بات تو کرو۔۔۔!‘‘

    ’’برتن رکھ کر آتی ہوں۔۔۔!‘‘ سکینہ بہت ادا سے بولی۔

    صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ سکینہ برتن رکھ کر آئی تو ہاتھ پکڑ کر کھینچا۔ سکینہ ہنستی ہوئی گود میں دوہری ہو گئی۔ شیطان اڑن چھو ہو گیا۔ وہ اپنا کام کر چکا تھا۔۔۔

    مولانا نے قربت کی، گھر آئے اور غسل فرمایا۔۔۔!

    مولانا نادم نہیں تھے کہ سکینہ سے ان کا رشتہ۔۔۔

    حشمت کا زیا دہ وقت جوئے خانے میں گذرتا تھا یا باہر تسکری کے دھندے میں۔ مولانا دبی زبان میں اس کی وکالت کرتے اور گھر والوں کو شریعت کا خوف دلاتے۔۔۔ سکینہ اب فال نہیں نکلواتی تھی۔۔۔ وہ قدرے سکون سے تھی اور مولانا کی چاندی تھی۔ ہر دن عید اور ہر رات شب برات تھی۔

    جاننا چاہیے کہ شہوت کی آفتوں میں سے ایک آفت ہے عشق، جس کے باعث بہت سے گناہ سرزد ہوتے ہیں۔ آدمی اگر ابتدا میں احتیاط نہ کرے تو سمجھو ہاتھ سے گیا۔۔۔!

    اور مولانا نے دوسری بار سہرن محسوس کی۔ وہ کھانا کھاکر اٹھے تھے کہ سکینہ نے ہاتھ پکڑا اور آنکھوں میں جھانکتی ہوئی ٹھنکی۔

    ’’مولانا صاحب !‘‘

    مولانا دم بخود تھے۔۔۔ یا اللہ! یہ ادائے قاتلانہ۔۔۔؟ اس طرح توپہلے کبھی مخاطب نہیں کیا۔

    سکینہ اپنی ناک کی طرف اشارہ کرتی ہوئی پہلے مسکرائی پھر اک ذرا کمر لچکاتی ادائے خاص سے بولی۔

    ’’دو دو آدمی کے رہتے ہوئے میری ناک میں نتھ نہیں ہے۔۔۔!

    ’’دود آدمی۔۔۔!!‘‘ مولاناریشہ خطمی ہو گئے۔ ایک آدمی میں ہوں،ایک حشمت؟ کہاں ملے گی نتھ۔۔۔؟‘‘

    زندگی میں کبھی نتھ نہیں خریدی تھی۔۔۔ وہ بھی سونے کی۔۔۔ زو جہ نتھ نہیں پہنتی تھی۔ وہ بلاق پہنتی تھی، ناک کے بیچوں بیچ چاندی کی بلاق۔۔۔ وہ خانقاہی تھی۔ بستر پر آتی تو دعائے مسنون پڑھتی اور مو لانا نے محسوس کیا تھا کہ سکینہ میں جست ہے اور زو جہ ٹھس ہے۔

    مولانا سونا پٹّی گئے۔ ڈیڑھ سو میں نتھ خریدی۔۔۔ نتھ کو ماچس کی ڈبیہ میں رکھا اور سکینہ کے گھر آئے۔ سب لوگ آنگن میں بیٹھے تھے۔ رحمت علی اور بیگم رحمت بھی اور پہلا آدمی بھی۔۔۔ پہلے آدمی نے دوسرے آدمی کے لیے کرسی لائی۔ سکینہ چاپا نل سے پانی بھر رہی تھی۔

    دوسرے آدمی نے سب کی آنکھیں بچا کر ماچس کی ڈبیہ دکھائی اور نتھ کا اشارہ کیا۔۔۔ سکینہ زیر لب مسکرائی۔ چولہا جلانے کے بہانے ماچس مانگنے آئی۔ مولانا نے ڈبیہ بڑھائی۔ سکینہ ماچس لے کر کچن میں جانے کی بجائے سیدھا کمرے میں گئی۔

    جاننا چاہیے کہ عورتیں بڑے فتنے کی موجب ہوتی ہیں۔۔۔ ایک نیا فتنہ پیدا ہوا۔۔۔

    رحمت علی کو پولیس پکڑ کر لے گئی۔ حشمت بھی حاجت میں بند ہوا۔ سکینہ زخمی ناگن کی طرح آنگن میں بیٹھی پھنکارتی رہی۔ مولانا بھی سہم گئے۔

    سب جال شیطان نے بچھائے۔ ہوا یہ کہ حشمت پھکّڑ ہو رہا تھا۔ جوا کھیلنے کے پیسے نہیں تھے ۔نظر نتھ پر پڑ گئی۔ سکینہ کے پیچھے پڑ گیا کہ نتھ دو۔۔۔ سکینہ بھلا کیوں دیتی۔ دونوں میں تو تو میں میں ہوئی۔

    ’’کہاں سے لائی نتھ۔۔۔؟ پہلے تو نہیں دیکھا۔۔۔؟‘‘

    ’’روز کے خرچ سے بچائے۔ اپنے شوق کی چیز خریدی۔۔۔!‘‘

    ’’پیسے تو میرے ہی ہیں۔۔۔‘‘

    ’’جی نہیں۔‘‘

    ’’مجھے دو۔‘‘

    ’’نہیں۔۔۔!‘‘

    ’’بعد میں تمہیں بنا دوں گا۔‘‘

    ’’گھر کا سامان بیچئے۔‘‘

    حشمت کو غصہ آ گیا۔

    ’’کیوں نہیں دوگی۔۔۔؟‘‘

    ’’میں اپنی چیز کیوں دوں۔۔۔؟‘‘

    ’’باپ کے گھر سے لائی ہے کیا؟‘‘

    ’’دیکھئے گالی مت دیجئے۔!‘‘ سکینہ کو بھی غصہ آ گیا۔

    ’’بھونسڑی والی۔۔۔!‘‘ حشمت نے ایک جھپٹا مارا اور نتھ کھینچ لیا۔ سکینہ درد سے چیخی۔ اس کی ناک لہو لہان ہو گئی۔ رحمت نتھ لے کر چمپت ہو گیا۔ سکینہ فرش پر گر گئی اور دھاڑیں مار مار کررونے لگی۔‘‘ میں لٹ گئی، برباد ہو گئی۔۔۔ ہائے۔۔۔ ہائے۔۔۔!‘‘ رحمت علی دوڑ کر آئے۔ ان کو دیکھ کر سکینہ اور زور سے چیخنے لگی۔۔۔ لے گیا حرامی۔۔۔! کیڑے پڑیں۔۔۔!‘‘

    بیٹے کے لیے ایسے الفاظ سن کر رحمت علی کو برا لگا۔

    ’’کیوں پاگل کی طرح چیخ رہی ہے ۔۔۔؟‘‘

    سکینہ اور زور سے چیخی۔ ’’ہاں میں پاگل ہوں۔ باپ بیٹا سب مل کر مجھے مارو۔۔۔ مارو اور دونوں ہاتھوں سے اپنا سینہ پیٹنے لگی۔ رحمت علی گھبرا گئے۔ بیگم رحمت اوسارے پر کھڑی تماشا دیکھ رہی تھیں۔ سکینہ کی نظر پڑی تو ان کی طرف چپل پھینک کر چلائی۔’’جہنمی بڑھیا!

    تیرا کلیجہ تو ٹھنڈا ہوا۔۔۔؟‘‘بیگم رحمت جلدی سے کمرے میں گھس گئیں۔ سکینہ کچھ دیر بین کرتی رہی پھر تھانے پہنچ کر حشمت علی کے خلاف ایف آئی آر درج کرا دیا۔

    ’’گانجے کی تسکری کرتا ہے۔ میرے منع کرنے پر مارا پیٹا اور زیور لے کر بھاگ گیا۔‘‘

    پولیس پہنچ گئی۔ کمرے سے گانجے کا تھیلا بر آمد ہوا۔ حشمت علی تو فرار تھا۔ رحمت علی موجود تھے۔ پولیس نے گانجا ضبط کر لیا اور رحمت علی کو حاجت میں بند کر دیا۔ ایک گھنٹے کے بعد حشمت علی بھی گرفتار ہوا۔ مولانا کو خبر ملی تو دوڑ کر آئے۔ بیگم رحمت علی کمرے میں بیٹھی رو رہی تھیں۔ ان کے ارد گرد محلّے کی عورتیں جمع تھیں۔ سکینہ آنگن میں بیٹھی سانپ کی طرح پھنکار رہی تھی۔

    مولانا تھانے گئے۔ رحمت علی سلاخوں کے پیچھے سر نگوں بیٹھے تھے۔ مولانا کو دیکھ کر پھوٹ پڑے۔

    ’’خدا کو یہ دن بھی دکھانا تھا۔۔۔‘‘

    مولانا نے دلاسہ دیا۔ ’’سب ٹھیک ہو جائےگا۔۔۔‘‘

    لیکن ٹھیک ہونا دشوار معلوم ہوا۔۔۔ تھانے دار نے پانچ ہزار کی رقم کا مطالبہ کیا۔

    ’’یہ تو بہت ہے۔‘‘ مولانا گھبرائے۔

    ’’جرم بھی تو بڑا ہے۔‘‘

    ’’رحمت صاحب کا کیا قصور ہے۔ ان کو تو چھوڑ دیتے۔۔۔؟‘‘

    ’’انہیں کا تو قصور ہے۔‘‘ تھانے دار مسکرایا۔

    ’’کیسے۔۔۔؟

    ’’ آپ تو انہیں کے لیے آئے ہیں۔‘‘

    ’’جی ہاں۔‘‘

    ’’ان کے لڑکے کے لئے تو آئے ہیں نہیں۔۔۔؟‘‘

    ’’جی نہیں۔‘‘

    ’’پھر تو قیمت لگےگی۔۔۔‘‘

    ’’کچھ رعایت کرتے۔۔۔‘‘مولانا گڑ گڑ ائے۔

    ’’بزرگ آدمی حاجت میں بند ہیں وہ بھی تسکری کے جرم میں کیسی بات ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’غضب ہو جائےگا۔۔۔‘‘

    ’’پھر تو قیمت۔۔۔؟‘‘

    مولانا بےنیل و مرام واپس آئے۔ اس رات سکینہ نے مولانا کو چور دروازے سے اندر بلایا۔ گھر میں سناٹا تھا۔ بیگم رحمت پڑوس میں سونے چلی گئی تھیں۔ سکینہ نے کمرے میں اندھیرا کر رکھا تھا۔ اوسارے پر روشنی تھی۔ دونوں بچے ایک طرف پلنگ پر سو رہے تھے۔

    ’’کیا ضرورت تھی یہ سب کرنے کی۔۔۔؟‘‘ مولانا نے شکایتی لہجے میں پوچھا۔

    ’’نتھ لے گیا۔‘‘ سکینہ بلکتی ہوئی بولی۔

    ’’تو کیا ہوا میں دوسری لا دیتا۔‘‘

    ’’آپ بھی مجھے کوسیے۔۔۔!‘‘ سکینہ بلک پڑی۔

    ’’ارے نہیں ۔۔۔! مولانا نے سکینہ کو لپٹا لیا۔ سکینہ سینے سے لگ گئی اور آنکھیں بند کر لیں۔ مولانا نے محسوس کیا کہ سکینہ کافی تناؤ میں ہے۔

    ’’ناک سے کھینچ کر لے گیا۔۔۔‘‘ سکینہ سسکتی ہوئی بولی۔

    ’’ظالم ہے کمبخت۔۔۔! مولانا نے ناک سہلائی پھر بوسہ لیتے ہوئے بولے۔

    ’’میں تمہیں دوسری لا دوں گا۔‘‘

    ’’وہ بات تو پیدا نہیں ہوگی۔‘‘

    ’’کیوں نہیں۔۔۔؟‘‘ جب میں ہی لاکر دوں گا تو ایک ہی بات ہے۔‘‘

    میری پہلی فرمائش تھی۔۔۔ میرا پہلا تحفہ۔۔۔ میں اسے قبر تک ساتھ لے جاتی۔۔۔!‘‘

    ’’اب بھول بھی جاؤ۔‘‘

    ’’کیسے بھول جاؤں۔۔۔؟‘‘ سکینہ سسکتی ہوئی مولانا کی بانہوں میں تھوڑا اور سمٹ آئی۔

    ’’زیادہ غم نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ مولانا سکینہ کی پشت پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے۔ سکینہ کی خم دار پشت ۔۔۔مولانا کی انگلیاں زینہ زینہ نیچے اترنے لگیں۔۔۔ اور سکینہ کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔

    جاننا چاہیے کہ شہوت کی آفت عظیم ہے۔۔۔!!

    بیگم رحمت کے پاس سونے کی چوڑیاں تھیں بیچ کر رحمت علی کو چھڑایا لیکن حشمت دس دنوں بعد چھوٹ کر آیا۔

    سکینہ کو اب کوئی کچھ نہیں کہتا تھا، حشمت کا وہی رویہ تھا۔ دن بھر جوئے خانے میں پڑا رہتا اور کبھی اچانک گھر سے لا پتہ ہو جاتا۔ مولانا کی پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں اور سر کڑھی میں تھا۔ وہ اب سامنے کے دروازے سے آتے تھے۔

    لیکن ایک دن دروازہ تنگ محسوس ہوا۔ وہ جنازے کی نماز پڑھا کر لوٹے تھے اور قیلولہ فرما رہے تھے۔ سکینہ کا سر ان کے سینے پر تھا۔ مولانا پشت پر ہاتھ پھیررہے تھے۔ سکینہ کاکل میں انگلیاں پھیر رہی تھی کہ اچانک اس کو ڈاکو کی کہانی یاد آ گئی۔

    ایک ڈاکو تھا۔ وہ رات میں لوٹتا تھا اور دن میں سادھو کا بھیس بنا کر رہتا تھا۔ ایک بار ڈاکو سے چھپتا چھپاتا ایک شخص روپیوں کی پوٹلی لے کر اس کے پاس آیا۔

    ’’مہاراج میرے پیچھے ڈاکو لگے ہیں۔ آپ یہ رکھ لیں۔ خطرہ ٹل جانے کے بعد میں لے جاؤں گا۔‘‘

    سادھو نے پوٹلی رکھ لی۔ کچھ دنوں بعد وہ شخص اپنی امانت واپس لینے آیا۔ سادھو نے پوٹلی واپس کردی اور ساتھ میں ایک آدمی بھی کر دیا کہ گھر تک بہ حفاظت چھوڑ دے۔۔۔ڈاکو کے ساتھیوں نے حیرت ظاہر کی۔

    ’’سردار! آپ نے پیسے کیوں واپس کر دیے۔۔۔؟‘‘

    اس کو سادھوؤں پر عقیدہ ہے۔ اس عقیدے کی حفاظت ضروری ہے ورنہ مذہب خطرے میں پڑ جائےگا۔۔۔‘‘

    ’’عقیدہ۔۔۔؟ مذہب خطرے میں۔۔۔؟‘‘ سکینہ اچانک بولی۔

    ’’مولانا صاحب۔۔۔!‘‘

    مولانا چونکے۔۔۔ اس کا لہجہ تحکمانہ تھا۔

    ’’کیا ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’آپ امامت سے استعفا دے دیجیے۔۔۔!‘‘

    ’’کیوں۔۔۔؟‘‘

    ’’اچھا نہیں لگتا ہے۔۔۔!‘‘

    ’’کیا اچھا نہیں لگتا۔۔۔؟‘‘

    ’’بحیثیت امام یہ زیب نہیں دیتا۔‘‘

    ’’کیوں۔۔۔؟‘‘

    ’’آپ امام ہیں۔ قوم آپ کے پیچھے نماز پڑھتی ہے اور آپ کی یہ حرکت۔۔۔؟ ‘‘

    ’’اور تمہاری حرکت کیسی ہے۔۔۔؟‘‘ مولانا کو غصہ آ گیا۔

    ’’میں تو ہوں بری۔ لوگ مجھے برا سمجھتے ہیں۔ لیکن آپ تو امام ہیں۔‘‘

    ’’امام ہوں تو کیا ہوا۔۔۔؟‘‘

    ’’آپ کو لوگ اچھا سمجھتے ہیں۔ اس اچھائی کی حفاظت ضروری ہے۔۔۔!‘‘

    ’’امام ہوں اس لیے محفوظ ہوں۔ عام آدمی ہو گیا تو جینا دوبھر ہو جائےگا۔۔۔‘‘

    ’’امام ایسی حرکت کرےگا تو تو مذہب خطرے میں پڑ جائےگا۔‘‘

    ’’چھورو ان باتوں کو۔۔۔؟‘‘ مولانا نے بات بدلی اور سکینہ کو بانہوں میں سمیٹا۔

    ’’اس لیے کہتی ہوں کہ امامت سے استعفیٰ دیجیے۔۔۔‘‘ سکینہ مولانا کے بازوؤں میں کسمساتی ہوئی بولی۔

    ’’اب چھوڑو بھی۔۔۔!‘‘

    ’’عام آدمی بن کر جو جی میں آئے کیجئے۔‘‘

    ’’اچھی بات ہے۔۔۔!‘‘مولانا لب و رخسار پر جھکے۔۔۔ سکینہ کا بدن ڈھیلا پڑ گیا۔

    اس دن مولانا کو محسوس ہوا کہ سکینہ زو جہ کی طرح ٹھس ہے۔۔۔!

    مولانا کو اب سکینہ کی آنکھوں میں چنگاریاں سی نظر آتیں۔۔۔ خصوصاً اس وقت جب وہ جنازے کی نماز پڑھا کر آتے۔ سکینہ تن کر کھڑی ہو جاتی۔ ’’آپ استعفیٰ نہیں دیں گے۔۔۔؟‘‘

    ’’کیوں استعفیٰ دوں۔۔۔؟‘‘ مولانا جھلّا جاتے۔

    ’’امام ایسی حرکت کرےگا۔۔۔؟‘‘

    اس بات پر مولانا کا خون کھولنے لگتا۔ ان کے جی میں آتا وہ بھی سنائیں۔

    ’’اور تو کیا کر رہی ہے حرام زادی۔۔۔؟ چھنال۔؟ لیکن چھنال کے تیور کچھ ایسے ہوتے کہ وہ کچھ کہہ نہیں پاتے۔ ان کی زبان گنگ ہو جاتی۔مولانا نرمی سے کام لیتے۔

    ’’استعفیٰ دینے سے لوگ اور شک کریں گے۔‘‘

    ’’آخر ایک دن تو یہ بات معلوم ہوگی۔۔۔؟‘‘ سکینہ اس طرح تن کر کہتی، مولانا کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا اور سکینہ برس پڑتی۔

    انگلیاں اب گھی میں جلنے لگی تھیں اور سر بھی اوکھلی میں تھا۔۔۔ سکینہ بے دریغ بوسل چلاتی۔

    مولانا خاموش رہتے لیکن سکینہ کا پارہ آہستہ آہستہ چڑھنے لگتا۔

    ’’بھلا آپ جیسا آدمی جنازے کی نماز پڑھائے۔۔۔؟‘‘

    ’’قوم ہر جگہ رسوا ہو رہی ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ آپ جیسے لوگ امامت کر رہے ہیں۔ زندگی میں اگر صحیح نماز نہیں ملی تو کم سے کم مرنے کے بعد تو نصیب ہو۔۔۔؟‘‘

    مولانا جھلّا کر کمرے سے باہر نکل جاتے۔

    ایک دن تو حد ہو گئی۔۔۔ ہم بستری کے دوران سکینہ کو پھر وہ کہانی یاد آ گئی۔ وہ فوراً اٹھ کر بیٹھ گئی۔

    ’’آپ استعفیٰ دیں گے یا نہیں۔۔۔؟‘‘

    ’’کیا بات ہوئی۔؟‘‘

    ’’استعفیٰ دیں گے یا نہیں۔۔۔؟‘‘ یہ کوئی موقع تھا ایسی باتوں کا؟ بوس و کنار کی منزلوں سے گذرتی ہوئی وصل کی رات۔

    اس گھڑی میں، جب کہ رات آہستہ آہستہ بھیگ رہی تھی تو امامت سے استعفیٰ کا اصرار کیا معنی رکھتا تھا۔۔۔

    مولانا بھنّا گئے۔۔۔ سکینہ تن کر کھڑی تھی۔۔۔دونوں ہاتھ کمر پر تھے اور آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں۔۔۔!

    ’’یہ سراسر قوم کو دھوکہ دینا ہے۔۔۔‘‘

    ’’آپ کے پیچھے اتنے لوگ نماز پڑھتے ہیں، کیا ان کی نماز قبول ہوگی۔۔۔؟‘‘

    مولانا کا جی جل گیا۔

    چھنال عورت۔۔۔! وہ بدبداتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئے۔‘‘

    رحمت علی کے گھر مولانا کی آمدو رفت کم ہوگئی لیکن کمبل انہیں کیسے چھوڑتا۔۔۔؟ سکینہ مولانا کے گھر آنے جانے لگی۔ ان کی زوجہ کے پاس بیٹھی گھنٹوں ٹھٹھا کرتی۔ مولانا اس سے نظریں ملانے میں کتراتے۔ اس کی آنکھوں میں ان کو اپنے لیے ہر وقت ایک فرمان نظر آتا۔۔۔ امامت سے استعفیٰ‘‘

    ایک دن دھماکہ ہوا۔۔۔

    سکینہ نے انکشاف کیا کہ وہ پیٹ سے ہے۔ وہ خوش تھی کہ بیٹا ہوا تو دیوبند میں پڑھائےگی اور عالم فاضل بنائےگی۔۔۔!

    مولانا کے ہوش اڑ گئے۔۔۔راز طشت از بام ہوگا۔۔۔؟ لیکن ڈھٹائی سے بولے۔

    ’’کیا ثبوت ہے کہ بچہ میرا ہے۔۔۔؟‘‘

    نفرت کی انتہا بھی آنکھوں میں چمک پیدا کرتی ہے۔ سکینہ کی آنکھوں میں چمک بڑھ گئی ۔

    ’’آپ اطمینان رکھیں۔۔۔! بچہ کسی کا ہو حشر کے روز ماں کے نام سے پکارا جائےگا۔۔۔!‘‘

    پھر وہ زہر آلود مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔

    ’’عورت مرد کی پسلی سے اس لیے پیدا کی گئی کہ مرد کے سارے عیب کو ڈھکے لیکن یہ عیب کیسے ڈھکوں جو آپ امامت کو لگا بیٹھے ہیں۔۔۔؟‘‘

    ’’امامت چھوڑ دی تو لوگ شک کریں گے۔ جب تک امام ہوں کسی کی انگلی نہیں اٹھ سکتی۔‘‘

    ’’ہر راز کی قسمت میں ہے ایک دن عیاں ہونا۔‘‘ سکینہ کسی فلسفی کی طرح بولی۔

    ’’تعلق ختم کر لو۔۔۔‘‘ مولانا کے لہجے میں اکتاہٹ تھی۔

    ’’کیا؟‘‘سکینہ نے تیکھی نظروں سے دیکھا۔

    ’’آخر دل کی بات زبان پر آہی گئی۔۔۔کیوں۔۔۔؟‘‘

    ’’مذاق کر رہا تھا۔‘‘ مولانا مسکرائے۔

    ’’لیکن میں مذاق نہیں کررہی ہوں۔۔۔! کان کھول کر سن لیجئے۔ اگر امامت سے استعفیٰ نہیں دیا تو انجام برا ہوگا۔‘‘

    ’’اور یہ بھی سن لیجئے۔میں اس بچے کو جنم دوں گی اور اس کا نام رکھوں گی قدرت اللہ وارثی۔۔۔‘‘

    مولانا کو اب محسوس ہوا کہ سکینہ کی خم دار پشت دراصل اس کی جارحیت کی غماز ہے۔۔۔ آگے کی طرف نکلا ہوا سینہ۔۔۔ تلوار کی طرح لہراتے ہوئے بازو۔۔۔ عقاب جیسی آنکھیں؟ ایسی عورتیں آسانی سے سپر نہیں ڈالتیں۔۔۔ سکینہ اگر کہتی ہے کہ اس کو دیوبند میں پڑھائےگی تو پڑھائےگی۔ وہ ان کے نام سے ملتا جلتا نام بھی رکھ سکتی ہے اور کیا عجب بچے کی شکل بھی ملنے لگے۔۔۔؟ مولانا نے جھر جھری سی محسوس کی۔۔۔ ایک حرافن کے پیٹ میں پلتا ہوا مام کا وجود۔۔۔؟

    مولانا کو خاموش دیکھ کر سکینہ کی آنکھوں میں نفرت کی چمک بڑھ گئی۔

    ’’ایمان کی حفاظت ضروری ہے۔‘‘ پھر اس نے سر سے پاؤں تک آگ برساتی نظروں سے دیکھا اور انتہائی حقارت سے بولی۔

    ’’آپ جیسا امام ۔۔۔؟ ہونہہ۔۔۔!‘‘ اور کمرے سے نکل گئی۔۔۔ کمرے سے نکلتے ہوئے اس نے فرش پر تھوکا نہیں تھا لیکن مولانا کو لگا کہ حرافن نے باہر نکل کر تھوکا ہے۔۔۔ حرام زادی چھنال !!

    اس دن کے بعد مولانا کی آمدو رفت اور کم ہو گئی۔ سکینہ بھی کچھ بے نیاز سی رہنے لگی۔ کبھی کبھی ملاقات ہو جاتی تو دونوں ایک دوسرے کو خاموش نظروں سے دیکھتے۔ مولانا کہیں کھوئے کھوئے سے نظر آتے اور سکینہ کی آنکھوں میں کوئی فرمان نہیں ہوتا تھا پھر بھی ایک سلگتی سی چنگاری تھی۔ ایسا لگتا تھا سکینہ خود اپنی ہی آگ میں جل رہی ہے۔

    ایک بار گھر میں کوئی نہیں تھا۔ سب لوگ کہیں شادی میں گئے ہوئے تھے۔ سکینہ تنہا تھی۔ مولانا سے ملے بہت دن ہوگئے تھے وہ ان کے گھر جانا چاہ رہی تھی کہ وہ آ دھمکے۔۔۔ سکینہ جیسے کھِل گئی۔

    ’’ابھی خدا سے کچھ مانگتی تو مل جاتا۔‘‘

    ’’کیسے۔۔۔؟‘‘

    ’’آپ کے ہی دیدار کو جا رہی تھی۔‘‘

    ’’اور لوگ کہاں گئے۔۔۔؟‘‘

    ’’شادی میں گئے ہیں۔ کل تک آئیں گے۔‘‘

    ’’ارے واہ!‘‘ مولانا نے خوشی کا اظہار کیا۔

    ’’حضور کے دیدار ہی نہیں ہوتے۔۔۔!‘‘

    ’’تم ہی بھول گئیں۔۔۔!‘‘ مولانا نے گالوں میں چٹکی لی۔

    ’’چلئے۔۔۔ سکینہ مچل کر بولی۔

    مولانا نے سکینہ کو بانہوں میں بھرنا چاہا۔۔۔

    سکینہ بل کھا گئی۔۔۔ ’’ہرجائی۔۔۔!‘‘

    مولانا نے کمر میں ہاتھ ڈال کر اپنی طرف کھینچا۔

    ’’ہرجائی تو تم ہو۔۔۔!‘‘

    ’’میں کیوں ہونے لگی۔۔۔؟‘‘

    مولانا نے چاہا بوسہ لیں۔ سکینہ نے ہاتھ سے چہرہ پرے کیا اور اٹھلا کر بولی۔

    ’’کہاں رہے اتنے دن۔۔۔؟‘‘

    ’’روز تو آتا تھا ۔‘‘

    ’’میرے پاس تو نہیں آتے تھے۔‘‘

    ’’تم ناراض تھیں۔۔۔‘‘

    ’’جھوٹے۔۔۔‘‘

    مولانا نے پھر بوسہ لینا چاہا۔ سکینہ نے اس بار بدن ڈھیلا چھوڑ دیا۔ مولانا نے سکینہ کو بانہوں میں بھر لیا۔

    ’’آج تو کھانا کھاکر جائیے۔۔۔‘‘ سکینہ بازوؤں میں کسمساتی ہوئی بولی۔

    مولانا نے طویل بوسہ لیا اور مسکرا کر بولے۔

    ’’بعد عشا آؤں گا۔‘‘

    ’’انتظار کروں گی۔‘‘ سکینہ بھی مسکرائی۔

    مولانا خدا حافظ کہتے ہوئے چلے گئے۔

    سکینہ نے بریانی بنائی اور کباب لگائے۔۔۔ سر شام غسل کیا۔۔۔ اور سیاہ لباس پہنا۔ آنکھوں میں سرمہ اور دانتوں میں مسی لگائی۔ ناخن رنگے ،پاؤں میں پائل باندھی اور بالوں کو کھلا رکھا۔۔۔ ایک بار خود کو مختلف زاویوں سے آئینے میں دیکھا۔ زلفیں شانے پر بکھری ہوئی تھیں۔ کمر کے قریب سیاہ لباس بھیگی زلفوں سے نمی جذب کر رہا تھا۔ سفید بالوں کی ایک لٹ رخسار پر لہرا رہی تھی۔۔۔ جامنی ہونٹوں کے درمیان مسی لگے دانت نگینے کی مانند جھلک رہے تھے۔ آنکھیں ستارے کی طرح چمک رہی تھیں اور چہرہ اوس میں بھیگے ہوئے سیاہ گلاب جیسا کھلا تھا۔۔۔!

    مولانا چور دروازے سے داخل ہوئے۔ سکینہ کو دیکھا اور چونک پڑے۔ منھ سے بے اختیار نکلا۔

    ’’سبحان اللہ۔۔۔!‘‘

    سکینہ مسکرائی۔۔۔

    ’’کس کے قتل کا سامان ہے۔۔۔؟‘‘ مولانا نے سکینہ کو آغوش میں لینے کی کوشش کی۔ سکینہ ایک ادا کے ساتھ پرے ہٹ ہٹ گئی۔ اس کے بال شانوں پر لہرا گئے۔۔۔

    وہ تن کر کھڑی ہوئی۔۔۔ سینے کے ابھار کو نمایاں کیا۔۔۔ چتون ترچھی کی اور ادائے خاص سے مسکرا کر بولی۔

    ’’قتل الموذی قبل الایذا۔۔۔‘‘

    مولانا مسکرائے اور سکینہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف جھٹکے سے کھینچا۔ وہ سینے سے ٹکرائی اور چوڑیاں بج اٹھیں۔ مولانا نے چاہا اس کو بازوؤں میں بھینچیں۔۔۔ اس نے مزحمت کی اور ان کو احساس ہوا کہ سکینہ کی پشت آج زیادہ ہی خم دار ہے۔۔۔!

    ایسی بھی کیا بےصبری حضور۔۔۔؟ پہلے کھانا تو کھا لیجیے۔۔۔ سکینہ ہنس کر بولی۔

    ’’پہلے تمہیں کھاؤں گا۔۔۔!‘‘ مولانا مسکرائے۔

    شوق سے کھائیے میرے آقا لیکن قوم کو نہیں کھائیے۔۔۔!‘‘ سکینہ بر جستہ بولی اور مولانا کی بھویں تن گئیں۔۔۔ مولانا کولھے کی تھرکن دیکھتے رہے۔۔۔ پھر سکینہ کھانا کاڑھ کر لائی ۔۔۔بریانی۔۔۔ قورمہ۔۔۔ کوفتے۔۔۔ کباب۔۔۔!

    ’’آج تو کافی اہتمام ہے۔ پہلے کبھی نہیں کیا۔‘‘ مولانا کا لہجہ توصیفی تھا۔

    ’’بہت دنوں بعد آئے بھی تو ہیں۔‘‘

    کہیں یہ آخری کھانا تو نہیں۔۔۔؟‘‘ مولانا مسکرائے۔۔۔ مسکراہٹ پر اسرار تھی۔ جواب میں سکینہ بھی معنی خیز انداز میں مسکرائی، لیکن کچھ بولی نہیں۔

    سکینہ نے محسوس کیا کہ مولانا کچھ مضطرب سے ہیں اور کھانا بھی سیر ہوکر نہیں کھایا۔

    کھانا پسند نہیں آیا کیا۔۔۔؟‘‘ سکینہ نے پوچھا اور چاندی کی طشت میں پان کی گلوریاں پیش کیں جن میں طبق لگے ہوئے تھے۔

    ’’کھانا پسند آیا لیکن پان کیسے کھاؤں۔۔۔؟‘‘

    ’’کیوں۔۔۔؟‘‘

    ’’پھربوسہ کیسے لوں گا۔۔۔؟‘‘

    ’’پوری رات باقی ہے میرے قاتل۔۔۔‘‘ سکینہ گلے میں بانہیں حمائل کرتی ہوئی بولی۔ مولانا مسکرائے اور یہ مسکراہٹ اسی طرح پر اسرار تھی۔۔۔

    ’’سارا کمال تمہاری پشت کا ہے۔۔۔‘‘ مولانا سکینہ کو بازوؤں میں بھینچتے ہوئے بولے۔

    سکینہ نے نیم باز آنکھوں سے دیکھا۔

    سکینہ کو آغوش میں لیے بستر پر آئے۔۔۔طسکینہ کسمسائی۔۔۔ دوسرے پل اس کو کپڑوں سے بے نیاز کیا۔ سکینہ نے خود سپردگی کے عالم میں آنکھیں بند کر لیں۔۔۔!

    ’’پہلی بار تمہیں غسل کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ غضب کی پشت۔۔۔ غضب کے کولھے۔‘‘ مولانا نے کولھے کو تھپتھپایا۔۔۔ پھر پشت پر داڑھی سے برش کیا۔۔۔گل۔۔۔گل۔۔۔گل۔

    سکینہ ہنسنے لگی۔۔۔’’ گدگدی لگتی ہے۔۔۔!

    ’’گدگدی لگتی ہے چھنال عورت۔۔۔؟‘‘

    ’’سارا فتور تیری پشت میں ہے۔ نہ یہ خم دار ہوتی نہ کوئی فتور ہوتا۔۔۔‘‘ اچانک مولانا کا لہجہ بدل گیا۔ سکینہ چونک اٹھی۔ اس نے اٹھ کر بیٹھنا چاہا لیکن مولانا نے اس کی پشت کو دونوں زانوؤں سے کس کر دبایا اور ہاتھوں سے گردن جکڑ لی۔ سکینہ چھٹپٹائی۔ اس کے حلق سے اوع اوع اوع کی کریہہ آواز نکلی۔۔۔ مولانا نے اس کے چہرے کو تکیے میں زور سے دھنسایا۔ حرام زادی۔۔۔ بچے کو جنم دےگی۔۔۔؟ ‘‘امامت سے استعفیٰ۔۔۔؟‘‘ اوع۔۔۔اوع ۔۔۔اوع۔۔۔ سکینہ گرفت سے نکلنے کے لیے زور سے ہاتھ پاؤں پٹکنے لگی لیکن مولانا نے اس کو پوری قوت سے جکڑ رکھا تھا اور پھر۔۔۔

    سکینہ کی آواز حلق میں گھٹ کر رہ گئی۔۔۔ آنکھیں ابل پڑیں۔۔۔ زبان اینٹھ گئی، ناک اور منہ سے خون ابل کر تکیے پر پھیل گیا۔

    مولانا نے ادھر ادھر دیکھا۔۔۔ کوئی چیز کمرے میں چھوٹ تو نہیں رہی۔۔۔ میز پر ٹوپی رکھی ہوئی تھی۔ اٹھا کر پہنا۔ وہیں پر پان کا طشت بھی تھا۔ طبق لگی گلوریاں بلب کی زرد روشنی میں چمک رہی تھیں۔۔۔ مولانا کے ہونٹوں پر تیکھی سی مسکراہٹ رینگ گئی جس میں انا کی تسکین کا رنگ بھی گھلا ہوا تھا۔

    ’’چھنال۔۔۔!‘‘ مولانا پان کی گلوریاں منھ میں ڈالتے ہوئے نفرت سے بڑبڑائے اور چور دروازے سے باہر نکل گئے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے