کہانی کی کہانی
یہ ایک لور میڈل کلاس طبقے کی کہانی ہے جو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے دفتر میں اوور ٹائم کرنے کے لیے مجبور ہوتا ہے۔ یہ آفس کے ایک ایسے بابو کی کہانی ہے جس نے دفتر میں اپنی ترقی کے لیے جنرل منیجر صاحب کو درخواست دی ہوئی ہے۔ ایک دن دفتر میں اطلاع ملتی ہے کہ جی ایم صاحب کی والدہ کا انتقال ہو گیا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ تعزیت کے بہانے شاید جی ایم صاحب سے اس کا سامنا ہو جائے اور اس رعایت سے اس کا کام بن جائے۔ یہ سوچتا ہوا وہ جی ایم صاحب کے گھر جاتا ہے لیکن وہاں اور اس کے بعد قبرستان میں جن حالات کا اسے سامنا کرنا پڑتا ہے، اس سے اس کی اصلیت ظاہر ہو جاتی ہے۔
اسے اکثر دفتر بند ہو جانے کے ایک گھنٹہ بعد تک اوور ٹائم بیٹھنے کی اجازت مل جاتی تھی اور ایک روپیہ فی گھنٹہ کے حساب سے بیس پچیس روپے ماہوار تنخواہ سے زیادہ مل جاتے تھے اس نے کئی بار کوشش کی تھی کہ اسے ایک گھنٹہ مزید اوور ٹائم کام کرنے کی اجازت مل جائے لیکن اس کے انچارج نے کبھی اس کی منظوری نہیں دی تھی۔
آج بھی وہ دفتر بند ہو جانے کے ایک گھنٹہ بعد گھر جانے کے لئے باہر نکل رہا تھا کہ چوکیدار نے اسے جی ایم صاحب کی والدہ کے انتقال کی خبر سنائی۔
دکھ کی ایسی خبروں میں جن کا تعلق کسی دوسرے سے ہو آدمی کے کہیں اندر اطمینان کا ایک پہلو بھی موجود ہوتا ہے کہ یہ حادثہ یا المیہ اس کے اپنے ساتھ پیش نہیں آیا۔ اس نے بھی یہ خبر ایسے ہی اطمینان بخش ملال کے ساتھ سنی۔ ویسے بھی اس کا جی ایم صاحب سے براہ راست کوئی تعلق یا واسطہ نہیں تھا البتہ پچھلے ہفتے اس نے اپنی ترقی کے لئے ان کے نام ایک اپیل تھرو پراپر چینل بھجوائی تھی جس میں ذاتی طور پر حاضر ہونے اور اپنا موقف پیش کرنے کی اجازت بھی مانگی تھی اور وہ اسی روز سے پریشان اور خائف تھا کہ وہ ان کا سامنا کیسے کرےگا اور اپنا موقف کس طرح بیان کرےگا۔ اس کے اور جی ایم صاحب کے درمیان بہت فاصلہ تھا۔ درمیان میں کتنے ہی بڑے بڑے افسران دشوار گزار پہاڑوں کی طرح ایستادہ تھے جن کے سامنے جاکر اس کی ٹانگیں کانپنے اور زبان لڑکھڑانے لگتی تھی پھر وہ سب سے بڑے افسرجی ایم صاحب کا سامنا کیسے کرےگا افسروں کے سامنے اس کے ہمیشہ بلاوجہ ہاتھ پاؤں پھول جاتے تھے۔
اس نے پلٹ کر آراینڈ آئی برانچ اور ٹیلیفون ایکسچینج میں جھانکا۔ آر اینڈ آئی برانچ کا مختصر سا عملہ خوش گپیوں میں مصروف تھا اور ٹیلی فون ایکسچینج کے دوسری شفٹ کے آپریٹرز تیزی سے مختلف نمبر ڈائل کرنے، افسران کو ان کی اقامت گاہوں پر اطلاع دینے اور نماز جنازہ کا وقت بتانے میں مصروف تھے۔ اسے خیال آیا کہ اگر وہ جی ایم صاحب کے بنگلہ پر اظہار تعزیت کرنے اور نماز جنازہ میں شرکت کے لئے چلا جائے تو جونیئر اسٹاف کی غیرموجودگی میں اس کی اہمیت بہت بڑھ جائےگی اور جب وہ کچھ دنوں بعد جی ایم صاحب کے سامنے اپنی اپیل کے سلسلے میں حاضر ہوگا تو’’فی الحال نہیں‘‘ لکھتے یا کہتے وقت ان کی نگاہوں میں اپنی والدہ کا جنازہ گھوم جائےگا اور وہ’’منظوری دی جاتی ہے‘‘ لکھ دیں گے۔ اس خوشگوار خیال کے ساتھ ہی نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے اندر اگر بتی سی سلگنے لگی اور اس کا سارا اندر خوشبودار دھوئیں سے بھر گیا۔
اس نے جی ایم صاحب کے بنگلے پر جانے کا تہیہ کر لیا لیکن ابھی جنازہ اٹھنے میں خاصی دیر پڑی تھی اور اگرچہ اسے پتہ تھا کہ تعزیت کے لئے جانے میں تھرو پراپر چینل کے دفتری ضابطے لاگو نہیں ہوتے پھر بھی اس کا اپنے سینئر افسران سے پہلے جی ایم صاحب کے بنگلے پر پہنچ جانا مناسب نہیں تھا۔
ایک بار اس نے سوچا کہ وہ پہلے اپنے گھر چلا جائے اور کھانا کھانے اور تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد جی ایم صاحب کے ہاں جائے لیکن اس طرح دگنا کرایہ خرچ ہوتا تھا اور پھر اسے ڈر تھا کہ کہیں اڑوس پڑوس میں اس کا کوئی کولیگ نہ مل جائے۔ وہ اگلے روز دفتر میں سب کو جی ایم صاحب کے بنگلے پر جانے، نماز جنازہ میں شرکت کرنے اور جی ایم صاحب سے ہمکلام ہونے کی خبر سنا کر حیرت میں ڈال دےگا اور کم از کم اس کے انچارج کی آنکھیں ضرور کھل جائیں گی جنہیں آدمی کی بالکل قدر نہیں تھی۔
وہ دفتر سے نکل کر خوش خوش بس اسٹاپ پر آیا اور بس میں سوار ہو کر اس چوک پر اتر گیا جہاں سے ایک سڑک جی ایم صاحب کے بنگلے کی طرف جاتی تھی۔ ابھی جنازہ اٹھنے میں کافی دیر تھی اس لئے وہ سڑک سے ہٹ کر ٹہلتا ہوا قریبی سینما ہاؤس میں آ گیا اور وقت گزاری کے لئے پوسٹر اور تصویریں دیکھنے لگا۔ بڑے عرصہ سے اس نے فلم نہیں دیکھی تھی۔ گھر کے اخراجات ہی پورے نہ ہوتے تھے اوپر سے بیوی اکثر بیمار رہتی اور اس کے علاج معالجے پر خاصے پیسے خرچ ہو جاتے تھے۔ اس لئے جب کبھی اس کا فلم دیکھنے کو جی مچلتا وہ کسی سینما ہاؤس کا رخ کرتا اور’’آج شب کو‘‘ والے بورڈ پر لگی سٹلز (Stills) دیکھ کر فلم کی کہانی اور موضوع کا اندازہ کر لیتا تھا۔ بعض سینما ایسے تھے جہاں باہر کھڑے ہو کر مکالمے اور گانے بھی سنائی دیتے تھے اس نے دیکھا۔۔۔ اس فلم میں ہیروئین کو نہایت غریب دکھایا گیا تھا۔ کہیں وہ جھاڑو دے رہی تھی کہیں بوجھ اٹھا رہی تھی اور ایک تصویر میں برتن دھو رہی تھی، قریب ہی مالکن جو شاید ہیرو کی ماں تھی کولہوں پرہاتھ رکھے کھڑی اسے کسی بات پر برا بھلا کہہ رہی تھی۔ ایک اور تصویر میں ہیروئین ایک بہت بڑے شاپنگ پلازا میں ششدر کھڑی تھی اس کے سامنے رنگا رنگ ملبوسات بکھرے پڑے تھے۔ وہ پریشان ہو گیا، وہ یہاں کیسے آ گئی لیکن پھر اس کی نظر ایک اور تصویر پر پڑی وہ خوش شکل ہیرو کے ساتھ کار میں بیٹھی ہوئی تھی۔ فلم شروع ہو چکی تھی اور بند دروازوں سے چھن چھن کر دلکش سازوں میں لپٹی ہیرواور ہیروئین کے گانے کی آوازیں سنائی دے رہی تھی شاید یہ اسی سین کا گانا تھا۔
اس نے بہت سی تصویروں پر اچٹتی سی نگاہ ڈالی اور ہیرو ہیروئین کی شادی کی تصویریں ڈھونڈھنے لگا جو اسے جلد ہی مل گئی۔ ہیروئین کو دلہن بنایا جا رہا تھا۔ بیک گراؤنڈ میں جھونپڑی نما مکان اور معمولی قسم کے لوگ نظر آ رہے تھے شاید کسی کچی بستی میں امیر کبیر دولہا کی برات آنے والی تھی۔ اس نے اطمینان کا لمبا سانس لیا اور باہر آ گیا۔ وہ سوچ رہا تھا اس کی ترقی ہو گئی اور اس کی تنخواہ میں اضافہ ہو گیا تو وہ ہر ماہ کم از کم ایک فلم ضرور دیکھےگا،کبھی کبھی بیوی کو بھی ساتھ لے آیا کرےگا۔ پھر اسے جی ایم صاحب کی والدہ کا خیال آیا یقیناً وہ نیک عورت تھیں جس نے مر کر اسے جی ایم صاحب کی نظروں میں آنے اور اپیل منظور ہو جانے کا موقع بخشا تھا۔ اسے جی ایم صاحب پر بھی ترس آنے لگا، ماں آخر ماں ہوتی ہے۔ ماں کو نہیں مرنا چاہیے خواہ کسی کی ماں ہو۔ ماں مر جائے تو لگتا ہے زمین پاؤں کے نیچے سے نکل گئی اور آدمی خلاء میں معلق رہ گیا۔
باہر آ کر اس نے چنے خریدے، نل سے پانی پیا اور پھر آہستہ آہستہ چلتا ہوا دوبارہ اس سڑک پر آ گیا جو جی ایم صاحب کے بنگلے کی طرف جاتی تھی۔ اچانک گھوڑا گاڑی ایک بس سے ٹکراتے ٹکراتے بچی۔ گاڑی بان بس ڈرائیور کو گندی گالیاں دیتا ہوا مریل گھوڑے کو بری طرح پیٹنے لگا۔ گھوڑے کی پیٹھ پر بڑے سے کھرنڈ سے خون بہنے لگا وہ لمحہ بھر کے لئے گھوڑے کی جگہ جت گیا۔ کچھ دیر چابک کھاتا اور درد سے بلبلاتا رہا پھر جب گھوڑا گاڑی دوسرے طرف مڑ گئی تو اسے یہ جان کر اطمینان ہوا کہ وہ گھوڑا نہیں آدمی ہے اور مزے سے فٹ پاتھ پر جا رہا ہے۔ وہ سگریٹ سلگا کر لمبے لمبے کش لینے لگا۔
سڑک کے دونوں جانب اونچے اونچے خوبصورت درخت تھے جن کے تنوں کو سفید رنگ سے پینٹ کیا گیا تھا۔ آس پاس پھول، پودے اور ہری بھری گھاس تھی۔ اس نے جی ایم صاحب کا بنگلہ نہیں دیکھا تھا لیکن اسے لوکیشن کا اندازہ تھا، ویسے بھی شادی بیاہ اور ماتم والا گھر تلاش کرنا مشکل نہیں ہوتا۔
ایک سبزہ زار کے پاس پہنچ کر وہ ٹھٹک گیا۔ یقیناً سامنے کا شاندار بنگلہ جی ایم صاحب کا ہی تھا۔ بنگلے کے باہر کشادہ جگہ پر کاریں اور جیپیں اس طرح کھڑی تھیں جیسے میلہ مویشیاں میں لاتعداد مویشی۔ چند ایک کاروں کو پہچان کر اسے اطمینان ہوا کہ وہ وقت سے پہلے نہیں آ گیا۔
گیٹ سے اندر بہت بڑا لان تھا جس میں خوبصورت شامیانے لگے تھے اور نہایت عمدہ قسم کی رنگ برنگی کرسیاں بچھی تھیں مگر زیادہ تر لوگ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں بٹے ادھر ادھر کھڑے باتیں کر رہے تھے وہ جس طرف سےگزرتا، سلام کے لئے اس کا ہاتھ خود بخود اٹھ جاتا لوگ اسے چونک کر دیکھتے یا شاید اسے ایسا ہی محسوس ہوتا جیسے اس کا سلام کرنا ناگوار گزرا ہو۔ اسے فکر دامن گیر تھی کہ وہ جی ایم صاحب سے اظہار تعزیت کیسے کرےگا یوں اس نے احتیاطاً چند جملے سوچ رکھے تھے؛
’’اللہ کا حکم سر۔‘‘
’’رب کی رضا سر۔‘‘
’’صبر کریں سر۔‘‘
لیکن اسے یہ جان کر اطمینان ہوا کہ یہاں رسمی اظہار افسوس کی ضرورت تھی نہ گنجائش۔ جو آتا تھا خاموشی سے بیٹھ جاتا تھا یا دوسروں سے محو گفتگو ہو جاتا تھا۔ اس نے دیکھا جی ایم صاحب بہت مصروف تھے، کبھی اندر جاتے کبھی باہر آتے۔ اسے ان کے قریب جانے کی ہمت نہ ہوئی تاہم وہ ایسی جگہ کرسی رکھ کر بیٹھ گیا جہاں سے آتے جاتے ان کی نظر اس پر پڑ سکتی تھی۔
پھر اس کی نظر اپنے سینئر افسر پر پڑی پھر اس سے سینئر افسر پر۔ اسے لگا جیسے وہ اس کی جرأت پر حیران ہوں اور اندر ہی اندر غصے میں کھولتے اس کی جواب طلبی کی ڈکٹیشن دے رہے ہوں۔
وہ بہت مرعوب اور دل و دماغ کو شل کر دینے والی نظروں سے بچنا چاہتا تھا لیکن کہیں جائے امان نہ تھی اگر کہیں تھی تو جی ایم صاحب کی نظروں سے اوجھل ہو جانے کا احتمال تھا۔ اس نے پریشان ہو کر نظریں جھکا لیں اور اپنے سامنے اور آس پاس چلتے پھرتے لوگوں کے جوتوں اور ایڑیوں پر نظریں گاڑ دیں۔ تھوڑی دیر بعد اس نے سر اٹھایا تو اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ اس کا قد سکڑ کر بالشت بھر رہ گیا ہے یا لان میں موجود لوگ اچانک دیو قامت ہو گئے ہیں۔ وہ چاروں طرف سے بہت سے بڑے بڑے لوگوں اور انیس، بیس، اکیس اور بائیس گریڈ والے افسروں میں گھرا ہوا تھا۔ یہ وزیر،وہ سفیر،یہ چیئرمین،وہ سیکری یٹری۔ یہ آئی جی، وہ ایم ڈی۔ یہ ای ڈی، وہ ڈی جی۔ اسے یہ دیکھ کر ندامت ہوئی کہ اس کے آس پاس بڑے بڑے لوگ کیپیٹل لیٹرز کی طرح کھڑے تھے اور وہ حمزہ سا مزے سے کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ اپنی کوتاہ عقلی پر اس کا ماتم کرنے کو جی چاہا۔ اس نے فوراً کرسی چھوڑ دی اور ایک طرف ہٹ کر کھڑا ہو گیا مگر ٹہلتے اور باتیں کرتے ہوئے لوگ خودبخود اس کے قریب آ جاتے۔ پھر اسے چونک کر دیکھتے جیسے اتنے چھوٹے قد کا آدمی انہوں نے پہلی بار دیکھا ہو۔
کاش وہ اپنے کسی کولیگ کو ساتھ لے آیا ہوتا۔۔۔ اس نے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں شاید اسے کوئی اپنے قد کا آدمی مل جائے مگر وہاں سب نو گزے تھے۔ اس کا دل ڈوبنے سا لگا کہیں اس نے یہاں آ کر غلطی تو نہیں کی۔ اگر جی ایم صاحب اسے دیکھ لیں۔۔۔ ایک بھرپور نظر۔۔۔ نہ بھولنے والی۔۔۔ تو وہ چپکے سے اٹھ کر گھر چلا جائے۔
تھوڑی دیر میں اور بہت سے لوگ آ گئے۔
گیٹ کے باہر کاروں کی تعداد اور بڑھ گئی۔ اندر لان میں تل دھرنے کی جگہ نہ رہی تو کچھ لوگوں کو ڈرائنگ روم میں جانے کی دعوت دی گئی۔ وہ اندر جانے والوں میں شامل ہو گیا۔ وہ زیادہ نظروں کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اسے صرف جی ایم صاحب کی ایک بھرپور نظر کا انتظار تھا۔ ڈرائنگ روم میں گنتی کے چند لوگوں میں اس کا امکان زیادہ تھا۔
سجا سجایا ڈرائنگ روم اس کے دو کمروں کے کوارٹر سے زیادہ کشادہ اور نہایت خوبصورت تھا۔ کھڑکیوں کے بیش قیمت اور نفیس پردے، خوشنما قالین اور عالیشان صوفے دیکھ کر اندر داخل ہوتے ہوئے اسے جھجک محسوس ہونے لگی۔ اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی شاید بیٹھنے کے لئے معمولی قسم کی کرسی، اسٹول یا مونڈھا مل جائے مگر اسے گدے دار صوفے میں بیٹھنا پڑا۔ تھری سیٹر صوفے میں اس سمیت چار آدمی بیٹھے تھے شائد اس نے کچھ بھی جگہ نہیں گھیر رکھی تھی۔ اس نے دیکھا کارنس پر بڑی بڑی خوبصورت ٹرافیاں، میڈل اور سجاوٹ کی چیزیں پڑی تھیں۔ دروازے کے سامنے باریک تاروں میں پروئی ہوئی مچھلیاں معلق تھیں۔ ہوا کے جھونکوں سے بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کے پیچھے لپکتی تھیں۔ اسے لگا کہ تیرتے تیرتے اس کے پراور گلپھڑے تھک گئے ہیں اور اپنا بڑا سا منہ کھولے شارک اس کے پیچھے لپکتی چلی آ رہی ہے لیکن پھر اسے یہ جان کر اطمینان ہو گیا کہ بڑی اور چھوٹی مچھلیوں کے درمیان فاصلہ کم نہیں ہوتا اور وہ آپس میں ٹکراتی نہیں تھیں۔ اسی لمحے ساتھ والے کمرے سے کسی نے ڈرائنگ روم میں جھانکا جیسے اندھیری رات میں اچانک بجلی کوندتی یا سامنے سے آنکھوں پر سرچ لائٹ پڑتی ہے، اس کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔
وہ تعظیماً کھڑا ہونا چاہتا تھا کہ وہ پردے کے پیچھے چلی گئی مگر پردے کے نیچے سے دیر تک اس کے سفید اور اجلے پاؤں نظر آتے رہے۔ اس نے سامنے پھیلے ہوئے اپنے پاؤں پیچھے ہٹا لئے۔ اسے پہلی مرتبہ پتہ چلا تھا کہ اس کے پاؤں اس قدر مٹیالے اور بھدے تھے۔
پھر اس کی نظر وال کلاک پر پڑی۔ اتنا بڑا، خوبصورت اور انوکھے ڈیزائن کا کلاک اس نے آج تک نہیں دیکھا تھا کیا پتہ وہ ماسٹر کلاک ہو۔ اس نے سنا تھا کہ مختلف کمروں میں لگے ہوئے کلاک ماسٹر کلاک سے کنٹرول ہوتے ہیں سب کے الارم ایک ساتھ بجتے ہیں اور سب کی سوئیاں ماسٹر کلاک کے تابع ہوتی ہیں اس نے یہ بھی سنا تھا کہ ماسٹر کلاک پر وقت عموماً درست ہوتا ہے لیکن اگر کبھی وقت ماسٹر کلاک سے آگے نکل جائے یا پیچھےرہ جائے تو ماتحت کلاک بھی غلط وقت بتانے لگتے ہیں۔
اچانک جی ایم صاحب اندر آ گئے اور اس کی طرف دیکھے بغیر ہوا کے جھونکے کی طرح دوسرے دروازے سے باہر نکل گئے۔ اس نے دیوار پر لگی پینٹنگ میں پناہ لی۔
اس نے دیکھا۔
شام ہونے کو تھی۔۔۔ پہاڑی لڑکی اپنی بھیڑوں کو ہانکتی ہوئی گھر جا رہی تھی اس کے ہاتھ میں زیتون کی شاخ تھی اور اس کے ہمراہ اس کے وفادار کتے۔۔۔ چاروں طرف سبزہ تھا تھوڑے فاصلے پر گھنا جنگل، عقب میں نیلی نیلی پہاڑیاں۔۔۔ اسے خیال آیا اگر کوئی بھیڑیا یا چیتا حملہ کر دے تو؟ اس نے پہاڑی لڑکی سے پوچھا،
’’تمہیں ڈر نہیں لگتا؟‘‘
’’لگتا ہے۔‘‘ وہ بولی، ’’لیکن نہیں لگتا تھا۔ میرے کتے شیر سے زیادہ بہادر، چیتے سے زیادہ پھرتیلے اور بھیڑیوں سے زیادہ خونخوار تھے میرا بھائی قریب ہی جنگل میں لکڑیاں کاٹتا تھا اس کے کلہاڑے کی دھمک سے جنگل گونجتا تھا اور اس کی للکار سن کر جانور سہم جاتے اور پرندے پھڑپھڑا کر درختوں سے اڑ جاتے تھے لیکن پھر میں اپنی بھیڑوں، وفادار کتوں اور نیلی پہاڑیوں سمیت تصویر میں قید ہو گئی۔ اب میری بھیڑیں خاموش ہیں،کتے ساکت اور بھائی کے کلہاڑے کی آواز سنائی نہیں دیتی۔
اس نے چونک کر دیکھا سب لوگ اپنی اپنی نشستوں پر اطمینان سے بیٹھے تھے مگر وہ کھڑا تھا۔ جی ایم صاحب کے کمرے میں آنے اور لوٹ جانے کے بعد وہ اب تک کھڑا تھا۔ کھڑے کھڑے اس کی ٹانگیں شل ہو گئی تھیں۔ وہ جلدی سے پھر صوفہ میں دھنس گیا۔
میت کو لان میں لایا گیا تو سب لوگ باہر آ گئے اور نماز جنازہ کے لئے صفیں بنانے لگے۔۔۔ اس نے بہت کوشش کی کہ وہ اس ہجوم میں جی ایم صاحب کو ڈھونڈ نکالے اور نماز جنازہ پڑھتے ہوئے ان کے قریب کھڑا ہو مگر وہ اسے نہ مل سکے۔ بار بار اپنے دوسرے سینئر افسران سے اس کا سامنا ہو جاتا۔
دعا کے بعد وہ لپک کر آگے بڑھا اور جنازے کو کندھا دینے والوں میں شامل ہو گیا۔ دو ایک بار جی ایم صاحب قریب آئے مگر انہوں نے اسے نہیں دیکھا۔
بہت سے لوگ نماز جنازہ پڑھ کر رخصت ہو گئے تھے، اس کا خیال تھا اب تھوڑے لوگوں میں وہ اسے ضرور دیکھ لیں گے اور یاد بھی رکھ سکیں گے لیکن وہ دوسری جانب کندھا دے کر پیچھے ہٹ گئے اور سر جھکا کر جنازے کے پیچھے چلنے لگے۔
چند ایک بار اس کی جگہ بدلی گئی مگر وہ اس خیال سے پھر اپنی جگہ پر واپس آ جاتا کہ شاید وہ اس کی جگہ لینے آئیں تو ان سے آنکھیں چار ہو جائیں۔ لیکن ڈیڑھ دو میل چلنے کے بعد بھی انہوں نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ دی تو اس کا دل بیٹھنے لگا۔
قبرستان پہنچتے پہنچتے شام کا اندھیرا ہر طرف پھیل گیا اور کچھ فاصلے سے ایک دوسرے کو پہچاننا مشکل ہو گیا۔
دفتر سے نکلے اب اسے تقریباً پانچ گھنٹے ہو چلے تھے اسے اپنے پانچ گھنٹے ضائع ہوتے نظر آ رہے تھے، تاہم اس نے ہمت نہیں ہاری اور میت کو لحد میں اتارتے وقت نیچے اتر گیا اور قبر کے اندر کھڑے ہو کر اوپر دیکھتا رہا کہ وہ اسے دیکھ رہے ہیں یا نہیں۔ قبر پر مٹی ڈالتے اور گلاب کا عطر چھڑکتے وقت بھی وہ پیش پیش رہا اور دعا کے دوران آمین کہتے ہوئے بھی اس کی آواز نمایاں تھی۔
اس کے دوسرے سینیئر افسران میں سے بہت سے اب بھی موجود تھے اور مسلسل اس کی کارکردگی کا نوٹس لے رہے تھے مگر وہ سب درخواست فارورڈ (Forward) کرنے والے تھے۔ آخری فیصلہ جی ایم صاحب کے ہاتھ میں تھا اور وہ اس کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دے رہے تھے۔
پھر قبرستان کے باہرکچھ کاریں آ کر رک گئیں۔ ان میں شاید جی ایم صاحب کی ایئر کنڈیشنڈ کار بھی تھی۔
دعا کے بعد جی ایم صاحب بچے کھچے بلند قامت لوگوں کے ہمراہ کار کی طرف چلے گئے اور وہ گم صم قبر پر کھڑا رہ گیا۔
لیکن پھر ایک شخص جو گورکنوں کو پیسے دے رہا تھا اس کی طرف آیا اور اس کے ہاتھ پر پانچ روپے کا نوٹ رکھ دیا۔
اس کا جی چاہا وہ پھپھک پھپھک کر رونے لگے لیکن پھر اسے خیال آیا کہ اگر وہ دفتر میں اوور ٹائم کام کرتا تو بھی اتنے ہی پیسے بنتے اس نے پانچ روپے کا نوٹ جیب میں ڈالا اور ایک طرف چل دیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.