Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پانچ من گلاب کے پھول

جیم عباسی

پانچ من گلاب کے پھول

جیم عباسی

MORE BYجیم عباسی

    بارہ آنکھیں اسے گھور رہی تھیں۔ اس کا جسم چارپائی پر بے دم پڑا تھا۔ سر داہنی جانب ڈھلکا اور بازو اوپری طرف اسی جگہ، جہاں انھیں اسے اٹھا کر رکھنے کے بعد چھوڑ دیا گیا تھا۔ محمد زمان اس کے اوپر کھڑا شکنوں سے بھری پیشانی لیے کچھ پڑھتا، پھونکتا جا رہا تھا۔ زمان کی بیوی، جس کا داہنا ہاتھ سینے اور گلے کے درمیانی حصے پر جما تھا، تیز تیز سانسیں لیے جا رہی تھی۔ دھونکنی کی طرح پھولتا پچکتا اس کا سینہ بھاپ نکالتی بھٹی کی طرح محسوس ہو رہا تھا۔ زمان کی بیوہ بہن چارپائی کی پائینتی پر بازو ٹکائے نیچے بیٹھی ہوئی تھی اور زمان کی باقی دو بیٹیاں چارپائی سے دور، اور اکلوتا بیٹا کمرے میں بند کھڑکی سے آنکھ لگائے خوفزدہ حالت میں دیکھے جا رہا تھا۔ چھت میں لٹکے سفید پنکھے کے سیاہ کناروں والے پر آہستگی سے گھومتے چرّخ چوں کی آوازیں نکال رہے تھے۔ پنکھے کی آواز، زمان کی بیوی کی تیز سانسوں، زمان کے مونچھوں میں چھپے لبوں سے نہ سمجھ آنے والی آوازکے باوجود ماحول میں خامشی کا تاثر تھا۔ ابھی ابھی وہ اسے چارپائی پر لٹانے میں کامیاب ہو پائے تھے۔ صبح اٹھتے وقت تو وہ چنگی بھلی تھی، پھر اپنے آپ سے نکل گئی۔ چارپائی پر پاپے چائے میں ڈبوتے اٹھی اور چارپائی الٹ دی۔ اس کے ساتھ بیٹھی چائے سڑکتی چھوٹی صفیہ زمین پر چارپائی کے بان کے نیچے کُرلاتی رہ گئی۔ بھلا اس وقت صفیہ پردھیان کیسے جاتا؟ امیراں برآمدے میں کھڑی غرائے جا رہی تھی، جیسے حلق سے اگلا نہ جا رہا ہو۔ ماں جب تک آئی، وہ بھینس کے ڈکرانے سی آواز کرتی زمین پر جا پڑی۔ عامل محمد زمان بیوی کی آوازوں پر نیم کا مسواک درمیان میں چھوڑتا وہاں پہنچا۔ لوٹتی پوٹتی امیراں کی خرخراہٹ اور بڑے بڑے دیدوں سے اسے اندازہ ہوا کہ وار ہو گیا۔ اس کی دل پر ایک ضرب لگی۔ اس کے تو شب و روز اسی وار ہو جانے کی فکرمندی میں نکلتے تھے، مگر دھیان اکلوتے بیٹے خلیل کی طرف رہتا تھا۔ اِدھر اپنے علائقے میں آسیب نکالتے، جادو کا توڑ کرتے، جن اور غیبات کے تعویذ لکھتے عامل محمد زمان کو یہ پریشانی گھیرے رکھتی تھی کہ جوابی وار آج ہو کہ کل، کیونکہ منھ پر صاف دھمکیاں سنائی جاتی تھیں۔ اسی وجہ سے محمد خلیل کا گلا حفاظتی تعویذات کے گھیرے میں رہتا تھا، لیکن یہ تو انھوں نے اگلی دکھا کر پچھلی ماری تھی۔ امیراں پر غیبات کے حملے کا محمد زمان کوکبھی خیال ہی نہ آیا تھا۔ اس نے لوٹتی پوٹتی امیراں کی کان کی کچیا پکڑ کر دعاے ابودجانہ پڑھنا شروع کی۔ محمد زمان کا ہاتھ کیا لگا، امیراں پھڑک اٹھی۔ اس کا جسم ایڑیاں پٹخنے لگا۔ چٹ ان پڑھ ہونے کے باوجود زمان کی بیوی ان معاملات کی خبر رکھتی تھی۔ اس نے خلیل کو کمرے اندر دھکیل کر کنڈی لگائی اور ایک فاصلے پر کھڑی ہو گئی۔ عامل محمد زمان دعاے ابودجانہ پڑھنے پر قادر ہی نہ ہو پا رہا تھا۔ امیراں کے کان کی کچیا پکڑنا لازم تھا اور محمد زمان کو مشکل تھی کہ کہیں بالی کچیا کو چھیل نہ ڈالے۔ ایسے خطرناک مواقع پر کچیا کی قربانی تو کوئی بات نہ تھی مگر آج عامل محمد زمان کے ہاتھ گرہ لگے تھے۔ جب خطرہ سرحد پر منڈلانے لگا تب اس نے بیوی اور بہن کو ’’جو بھی یاد ہو‘‘ پڑھنے کا کہہ کر امیراں کے ہاتھ پاؤں پکڑنے کا بولا۔ سہمی ہوئی دونوں عورتیں آگے آئیں۔ زمان کی بہن کو تو چار قل یاد تھے۔ اس نے زور زور سے وہ پڑھنا شروع کیے اور بیوی ایک سر سے ’’بسم اللہ، بسم اللہ‘‘ کیے جا رہی تھی۔ محمد زمان کی بہن نے امیراں کے ہاتھ پکڑے اوربیوی ٹانگیں جکڑنے کا زور لگانے لگی۔ اب جا کر محمد زمان دعاے ابودجانہ شروع کر سکا۔ تب، جب ایک ہاتھ سے کان کی کچیا اور دوسرے سے امیراں کی ناک بند کرتے محمد زمان نے دوسری بار دعاے ابودجانہ پوری کی، امیراں قابو میں آ چکی تھی۔ محمد زمان نے چار کیل دم کر کے چارپائی کے پایوں میں گاڑے اور امیراں کو اس پر رکھنے کا کہا۔ بیوی اور بہن نے اٹھا کر اسے بان پر ڈال دیا۔ محمد زمان کے ذہن پر فکرات اپنا لبادہ لپیٹنے لگے۔ اس کے ساتھ خیالات میں یہ دستک بھی ہو رہی تھی کہ پریل حاجانو باہر اس کا انتظار کر رہا ہے۔ اس کی ڈاچی اور بیوی، دونوں پر غیبات نے ڈیرہ جما لیا تھا۔ ڈاچی تیسری بار بھی لگ نہیں اٹھا پائی تھی اور بیوی تھی کہ اسے دوروں پر دورے پڑ رہے تھے۔ محمد زمان نے عارضی بندوبست پر راضی کر کے پریل حاجانو کو ڈاچی کے لیے تعویذ اور بیوی کے لیے سات گرہیں لگا کالا ریشمی دھاگہ دم کر کے روانہ کیا اور پھر امیراں کے لیے تدبیر کرنے لگا۔ گھر کے چاروں کونوں میں اذان بول کر، امیراں کے رہنے والے کمرے کی چھت کے قریب دیوار وں میں چار کیل گاڑ کر، آخری تدبیر کے طور پر نقش سلیمانی لکھ کر محمد زمان جب فارغ ہوا، تب تک امیراں کے ہوش میں آنے کے اثرات نمودار ہو رہے تھے۔ اسی روز امیراں کو تہہ کیا ہوا تعویذ چمڑے میں بند کروا کر پہنا دیا گیا۔ اب سورج سُکھ سے چڑھنے اترنے لگا۔ ایسی کوئی بداثری ظاہر نہ ہوئی جو تشویش کو ناک تک لا کر چھوڑتی۔ البتہ ماں کو فکر اٹھتی کہ جوان بیٹی پر اثرچڑھ آنا۔ ابھی تو رب سائیں نے خیر کر دی مگر کل کلاں اگر پھر کچھ ہوتا ہے تو کون اسے دلہن بنا کر گھر لے جائے گا؟

    ماہِ صفر کیا آیا، ماں کی طرف خواہ مخواہ کے وسوسے رخ کرنے لگے۔ بلاوجہ ہول اٹھتے رہتے۔ وہ بار بار امیراں سے پوچھنے لگتی کہ اسے کچھ محسوس تو نہیں ہو رہا؟ ٹھیک تو ہے ناں؟ چودھویں کا چاند چڑھتے ہی فکرات حقیقت میں بدلیں اور عامل محمد زمان کی سب تدبیریں ہوا ہو گئیں۔ امیراں پھر اثر میں آ گئی۔ حیوانی آواز نکالتی وہ اِدھر سے اُدھر ٹکریں مارتی رہی۔ اس رات قابو کیے جانے اور پڑھائی کرنے کے باوجود وہ باربار چھڑا کر قفل زدہ دروازے کو دوڑتی اور کمرے سے باہر نکلنے کا زور لگاتی۔ زمان کے ساتھ آج اس کی بیوی اور بہن کے ساتھ خلیل بھی مدد میں تھا مگر وہ ایک ہاتھ نہ آ رہی تھی۔ سورہ جن سے لے کر دعاے عقدالجن پڑھ پڑھ کر پھونکنے، کان اور ناک کو بند کرنے، کان میں اذان بولنے کے بعد بھی کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ عامل محمد زمان کی بے بسی ناقابل بیان تھی۔ اس کو کوئی حل سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ رات کے دو پہر بیتنے کے وقت کہیں جا کر امیراں بے سدھ ہو کر پڑ گئی۔ گھر والے طوفان کے بعد والے سکون میں آئے مگر محمد زمان منجدھار سے کیسے نکلے؟ بیچ صحن میں بغیر رلی چارپائی پر لیٹے اس کے ہاتھ کی انگلیاں خشخشی داڑھی میں خلال کیے جا رہی تھیں۔ پیشانی پر لکیروں کی تعداد سے اضطرابی کیفیت کا اندازہ کیا جا سکتا تھا۔ ساری پیشانی جیسے کھیت کی ٹیڑھی میڑھی نالیوں کی صورت نظر آ رہی تھی۔ صحن میں مٹی کا فرش، کچی اینٹوں سے بنی قدِ آدم دیواریں اور برآمدے کا کچھ حصہ چاندنی میں چٹکا ہوا تھا۔ کونے میں لگے شرینھ کے چمکتے پتے ساکت تھے۔ محمد زمان کے پاس پہلو بدلائے جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ وقت آخری پہر کے پاس تھا کہ صحن میں لیٹے محمد زمان کی دو گھڑی پہلے لگی آنکھ کھل گئی۔ شرینھ میں سے بلی کے خوخیانے کی آواز نکلی آ رہی تھی۔ محمد زمان کچی نیند سے بیدار ہوا تو اس کا جسم ہولے ہولے لرز رہا تھا۔ اسی اثنا میں اس نے دیکھا کہ امیراں قدم قدم چلتی کمرے سے برآمدے اور برآمدے سے صحن کو آ رہی ہے۔ ننگے سر، ننگے پاؤں۔ وہ چلتی چلتی شرینھ کے نیچے آ رکی۔ شرینھ سے اب کے خوخیانے کی آواز کیا ابھری، امیراں کے حلق سے غرّاہٹ کی گونجدار آواز سنائی دی۔ اس آواز نے محمد زمان کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس کے سر اور گدی میں سوئیاں چبھنے لگیں اور ہاتھ پاؤں میں کپکپاہٹ دوڑ پڑی۔ فضا خوخیاہٹ اور غراہٹ سے لبریز تھی اور محمد زمان اٹھ کھڑے ہونے پر قادر نہ تھا۔ اس کے حواس تب جاگے جب آذان کہہ آذان کہتے بہن نے محمد زمان کو آ جھنجھوڑا۔ محمد زمان نے اٹھ کھڑے ہونے کا زور لگایا اور کانوں پر ہاتھ جمائے اذان بولنے لگا۔ شروع میں آواز پھسپھساتی نکلی اور پھر لفظ لفظ کر کے بلند ہوتی گئی۔ اذان کی آواز نے شرینھ میں خامشی کا راج قائم کر دیا۔ خامشی کیا ہوئی، امیراں شرینھ کے اور نزدیک گئی اور اس کے تنے پر ہاتھ جمائے زور لگانے لگی، جیسے درخت جڑوں سمیت اسے نامنظور ہو۔ اس کے منھ سے غراہٹ اسی رفتار سے نکلی آ رہی تھی۔ ایسا ہیبت ناک ماحول پیش تھا جس کے سامنے جانے کی شاید ہی کسی میں ہمت ہو۔ محمد زمان، اس کی بیوی اور بہن صحن میں بتوں کی طرح کھڑے تھے۔ انھوں نے ہلنے جلنے کی قدرت تب پائی جب امیراں تنے سے الگ ہوتی واپس کمرے میں چارپائی پر جا دراز ہو گئی۔ محمد زمان لاتعلقی اور بے خبری میں اپنے کمرے کو چلتا گیا۔ اپنی بیوی کی سسکیاں تک اس کی سماعت تک نہیں پہنچیں۔ بے سہارگی نے اس کا قد گھٹا دیا تھا۔ سہارے کی تلاش میں وضو کر کے عمل کی ابتدا کی مگر زبان بار بار چوکی جا رہی تھی۔ اس کی انگلیاں جو اس کی ڈاڑھی سے کھیلنے کی عادی تھیں، آج چپ سادھے تھیں۔ ان سے سانس لینا بھولا ہوا تھا۔ صبح ہوئی، اور یہ ایک عام روزمرہ والی صبح نہ تھی۔ کچھ بھی معمول کا نہ تھا۔ محمد زماں کی بیوی بچوں کے کمرے میں لیٹی رہی۔ بچے اپنے اپنے بستروں میں بغیر کروٹ بدلے دبکے رہے۔ محمد زماں نے اٹھ کر نہ بآواز بلند ’’غرر غرر‘‘ کرتے غرارے کیے نہ نیم کا مسواک کیا۔ حالانکہ روز اس کے غراروں سے بچوں کے کان کھرکھراتے اور شرینھ میں بسیرا کیے بیٹھی فاختہ اپنے بچے گھونسلے میں چھوڑے غراروں کی آواز سے اڑ جاتی تھی۔ جب امیراں نے اٹھ کر ماں سے چائے مانگی تب محمد زماں کی بیوی نے جان آتی محسوس کی۔ بیوی چائے بنانے جاتے وقت محمد زماں کو امیراں کے بارے آگاہی دیتی گئی۔ محمد زماں حوائجات ضروری سے فراغت پا کر چائے پینے صحن میں بیٹھا تو امیراں اس کے سامنے چارپائی پر آ بیٹھی۔

    ’’بابا، میر گضب خان آپ کو سلام کہتا ہے!‘‘ یہ سن کر پریشانی سے نبڑتے محمد زماں نے امیراں کو دیکھا۔ اس کا چہرہ دوپٹے کے گھیرے میں تھا۔ تاثرات میں نرمی کے باوجود آنکھوں میں ایک ایسا احساس تھا جو بغور دیکھنے سے روکتا تھا۔

    ’’بیٹی، کیسی ہو تم؟‘‘

    ’’بابا، میر گضب خان کہتا ہے، اس کی آپ سے دشمنی نہیں۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے بیٹی، ٹھیک ہے۔ تم نے چائے وائے پی لی؟‘‘

    ’’بابا، میر گضب کوکاف (کوہ قاف) کا ایک بڑا جن ہے۔ اس کی دشمنی ہو گئی ہے، وہ یہاں کچھ دن رہنے آیا ہے۔‘‘ محمد زماں کا سر جھکا رہا۔ جواب میں کچھ نہ بولا۔ ’’وہ دشمن سے جنگ میں زکھمی ہو گیا ہے۔ ٹھیک ہو کر چلا جائے گا۔‘‘ محمد زماں اب بھی چپ تھا۔ ’’اگر تم نے سائیں مست علی شاہ کو بتایا یا دھونی دی تو میں کھلیل کو نہ چھوڑوں گا۔‘‘ امیراں کی آواز اور لہجہ بدلتا گیا۔ بھاری اور بلند۔ جیسے لوہے کے ڈرم سے نکل رہی تھی۔

    ’’نہیں غضب خان، نہیں! میں کچھ بھی نہ کروں گا‘‘، عامل محمد زماں سراسیمگی سے بولا۔

    ’’قسم اٹھا دستگیر کی، کہ تو کچھ بھی نہ کرے گا۔‘‘

    ’’دستگیر کی قسم، میں کچھ نہیں کروں گا۔‘‘

    ’’سائیں مست علی شاہ کو نہیں بتائے گا۔‘‘

    ’’میں سائیں مست شاہ کو کچھ نہیں بتاؤں گا۔‘‘

    ’’کوئی عمل نہیں کرے گا اور دھونی وونی نہیں دے گا۔ اٹھا قسم۔‘‘

    ’’دستگیر پیر کی قسم، میں کوئی عمل تعویذ نہیں کروں گا۔ لیکن تو بتا، تو کب امیراں کو چھوڑے گا؟‘‘

    ’’میں جلد امیراں کو چھوڑ دوں گا۔‘‘

    ’’کب؟‘‘

    ’’میں چلّہ کرنے آیا ہوں۔ وہ پورا کروں گا اور چلا جاؤں گا۔‘‘

    ’’تم حضرت سلیمان کی قسم اٹھاؤ، تم چالیس دن بعد امیراں کو چھوڑ دو گے۔‘‘

    ’’میں حضرت سلیمان کی قسم اٹھاتا ہوں کہ میں اپنا چلّہ پورا کر کے چلا جاؤں گا۔ لیکن اگر تم نے کچھ کیا تو پھر میرا وعدہ بھی ختم!‘‘ امیراں چارپائی سے اٹھ کر چلی اور پیچھے محمد زماں ہتھیلی پر پیشانی ٹکا کر ڈھے گیا۔

    ’’سائیں، اب کیا ہوگا؟ زماں کی بیوی کے منھ سے الفاظ ٹپک پڑے۔

    ’’اس نے حضرت سلیمان کی قسم اٹھائی ہے، اگر نہیں گیا تو خود جل کر بھسم ہو جائے گا۔‘‘ محمد زماں قسم کے بعد ذرا اطمینان میں تھا مگر بیوی کومحمد زمان کے کچھ نہ کرنے والی بات کیل کی طرح سینے میں جا ٹھکی۔ اس کے پاس محمد زمان کا جن غیبات کے سامنے یہ رویہ ناقابلِ قبول تھا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی، محمد زمان اپنے عمل سے جن کو جلا کیوں نہیں رہا؟ زبان کھولنا عورت کی سرشت نہ تھا اس لیے وہ چارپائی پر بیٹھ کر امنڈتے آنسوؤں کو روکنے لگی۔

    اس واقعے کا تیسرا روز تھا کہ محمد زماں گھر کے لیے گوشت لایا تھا۔ جمعے کے جمعے گھر میں گوشت پکتا تھا۔ زماں کی بیوی گوشت تھال میں رکھے بوٹیاں بنا رہی تھی کہ امیراں اس کے اوپر آ کھڑی ہوئی۔ ماں نے نگاہیں اٹھا کر دیکھا۔ کلف زدہ لٹھے کی طرح سیدھے بازو لٹکائے نظر آئی۔ ماں کی نگاہ نیچی نہ ہوئی تھی کہ امیراں جھکی اور اس نے تھال مع گوشت اٹھا کر دور پھینک دیا۔ ماں بپھر کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ ایک ہاتھ سے امیراں کی چٹیا پکڑ کر دوسرا ہاتھ طمانچے کے لیے سیدھا کیا کہ امیراں کی اجنبی آنکھوں نے دل میں بیٹھے وسوسوں کو جگا ڈالا۔ اس کے ناخنوں میں سے غصے سے بھری توانائی نکل گئی۔

    ’’گوشت کیوں پھینکا؟‘‘ زماں کی بیوی کے منھ سے الفاظ خادموں کی طرح سمٹ سمٹ کر باہر آئے۔

    ’’میر گضب خان مچھی کھائے گا۔ یہ ابتدا تھی۔ اب کسی دن میر غضب خان مچھلی تلنے کو بولتا اور اکیلا ہی کھاجاتا۔ باقی گھر والے دال پر گزارہ کرتے۔ کسی وقت تکے کے لیے مزاج کرتا تو کبھی قیمے بھرے پراٹھے کا حکم ہوتا۔ ہر کھانے کے ساتھ پیپسی یا پاکولا لازم تھی۔ اور میٹھا بھی میر غضب خان کی فرمائش ہوتی۔ کبھی زردہ پک رہا ہوتا تو کبھی سوجی والا حلوہ۔ کبھی بزار سے گلاب جامن منگوائے جاتے تو کبھی منصور ماوے والے کے پاس سے ماوا۔ دسویں دن نیا جوڑا سلوایا جانے لگا۔ چلّے کے اختتام سے دو دن پہلے امیراں عامل محمد زماں کے پاس آ بیٹھی۔

    ’’میں ابھی ایک چلّہ اور پڑھوں گا۔‘‘ امیراں کی آواز بھاری تھی۔

    ’’لیکن تم نے وعدہ کیا تھا، قسم اٹھایا تھا حضرت سلیمان کا۔‘‘

    ’’مجھے چالیس دن اور چاہییں۔ اس سے ایک دن بھی بڑھا تو مجھے سائیں مست علی شاہ کے پاس لے جا کر جلا کر کھاک کر دینا۔ تم کھود دیکھ رہے ہو کہ میں نے تمھاری بیٹی کو کوئی نکسان نہیں دیا۔ میرا دشمن بہت طاقت والا ہے۔ مجھے اور مہلت چاہیے۔‘‘ عامل محمد زماں نے قبول کر لیا مگر محمد زماں کی بیوی کے صبر کا پیالہ بھر چکا تھا۔

    ’’سائیں، یہ پھر چالیس دن ٹک گیا۔ آپ کچھ کرتے کیوں نہیں؟‘‘

    ’’کیا کروں؟‘‘ محمد زماں اس کی بات پر جھنجھلا کر غصے سے ابل پڑا۔

    ’’سائیں، اس کو نکالیں، یہ میری بیٹی کو مار دے گا۔‘‘ محمد زماں کی بیوی سسک پڑی۔

    ’’جاہل عورت، اس کو میں ابھی کے ابھی جلا کر خاک کر سکتا ہوں مگر امیراں کی جان بھی جا سکتی ہے۔‘‘

    ’’تو پھر سائیں مست علی شاہ کے پاس کیوں نہیں لے جاتے؟‘‘

    ’’سائیں مست علی شاہ کے پاس لے جاؤں تو سہی، مگر یہ اپنے قبیلے کا سردار ہے۔ میں نے اپنے معمولوں کے ذریعے پتا کروایا ہے کہ اگر سائیں اس کو جلا ڈالیں گے تو آگے اس کے قبیلے والے خلیل کو نہیں چھوڑیں گے۔ یہ غضب خان چالیس دن کا چلہ پورا کر کے چلا جائے گا، اس نے قسم دی ہوئی ہے۔ یہ صرف یہاں چھپنے آیا ہے۔ اس کو میری وجہ سے ہمارے گھر میں کوئی دشمن ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا۔‘‘ یہ باتیں کہہ کر محمد زماں اٹھ کر چلا گیا۔ معلوم نہیں کیوں، میر غضب خان کے سامنے خود کو بے بس پاتا تھا۔ مرتا کیا نہ کرتا، پھر چالیس دنوں کی گنتی میں مشغول ہو گیا اور میر غضب خان کی فرمائشیں اور معمولات اسی طرز پر جاری رہے۔ عامل محمد زماں کی پریشانی اور قرض روزبروز بڑھتا جا رہا تھا۔ جاے پناہ کوئی نہ تھی، بجز اس کے کہ میر غضب خان کی اٹھائی ہوئی قسم نے عصاے سلیمان علیہ السلام کی طرح سہارا دے رکھا تھا۔ دوسرا چالیسواں سرک سرک کر قریب ہوتا جا رہا تھا۔ عامل محمد زماں کی کیفیت ایسی تھی کہ ان دنوں اس کی انگلیاں اپنا روز کا ورد ہفت ہیکل اور مسبحات عشر پڑھنے سے زیادہ غضب خان کے چلے کے بقیہ دن گننے کے کام آتی تھیں۔ آخری دنوں کے آس پاس میر غضب خان کا پیغام آیا، اور اس دفعہ براہ راست بات کے بجائے محمد زماں کی بیوی کو وسیلہ بنایا گیا تھا۔ امیراں نے ماں کو بتایا تھا کہ میر غضب خان اپنا چلہ مکمل کرنے والا ہے اور وہ ٹھیک ہو چکا ہے۔ اب جاتے جاتے وہ اس خاندان کو کچھ دے کر جانا چاہتا ہے۔ خزانے کی ایک دبی دیگ کا میر غضب خان کو علم ہوا ہے اور اس نے اس دیگ کے محافظ جنوں کو مطیع کر لیا ہے۔ اب وہ چاہتا ہے کہ دیگ محمد زماں کے حوالے ہو۔ یہ بات عامل محمد زماں کے خوابوں کی تعبیر تھی۔ خزانے سے بھری دیگ ابتدا سے اس کی منزل تھی۔ ایک عرصے سے وہ اس خیال میں تھا، مگر یہ کام بہت بڑا اور خطرناک تھا۔ سائیں مست علی شاہ تک اس سے گریز رکھتے تھے۔ اس میں جان جانے کا مکمل احتمال ہوتا ہے مگر میر غضب خان خود اس دفینے کو اس کے حوالے کرے تو اور کیا چاہیے۔ ورنہ تو اسے پتا تھا کہ سائیں مست علی شاہ کے ایک خلیفے سکندر علی کھتری نے دفینہ نکالنے کی کوشش کی تھی۔ سائیں نے اسے بہت روکا تھا مگر اس نے ہزار حجت کر کے علم اور طریقہ سیکھا تھا۔ سکندر کھتری کے خاندان میں یہ بات چلی آ رہی تھی کہ ان کے گھر میں دیگ ہے۔ زمین دوز دیگ ان کے گھر میں اِدھر سے اُدھر چلتی تھی اور اس کے کھڑکنے کی وہ لوگ کبھی کبھی آواز سن لیتے تھے۔ سکندر نے سائیں مست علی شاہ کے بتائے طریقے پر ایک سفید دیسی اور اصیل مرغے کو چالیس دن تک باندھ کر اسے پاک خوراک دی تھی اور اسے گند کھانے کی عادت سے بچایا تھا۔ اکتالیسویں دن اس نے مرغے کے گلے میں دفینے کا تعویذ سرخ کپڑے میں باندھ کر گھر کے صحن میں جا چھوڑا۔ مرغا اِدھر سے اُدھر چلتا باورچی خانے کو آیا اور چولھے کے قریب اپنی چونچ زمین پر مارنے لگا۔ یہ علامت تھی، دیگ باورچی خانے میں دفن ہے۔ سکندر کھتری نے اس کے بعد تین ماہ تک چودھویں کی رات گوبروں کی آٹھ ڈھیریاں سلگا کران کے بیچ بیٹھ عمل مکمل کیا تھا۔ اس دوران خوفناک مورتیں اس کے سامنے آ کر اسے دہلاتی رہیں مگر سکندر ثابت قدم رہا۔ اسے رینگتے سانپ اور مردہ باپ کی شکل دکھائی دی تھی مگر عمل سکھاتے وقت اسے سائیں نے بتایا ہوا تھا کہ یہ سب دھوکے اور مکر سے اس کا عمل برباد کرنے کی کوشش کی جائے گی اور اس نے بہرصورت اپنا عمل مکمل کر کے ہی اٹھنا ہے۔ عمل کے آخری پل صبحِ کاذب سے تھوڑا پہلے سامنے سائیں مست علی شاہ کی شکل سامنے آ کھڑی ہوئی کہ اٹھ جا، اب تیرا کام پورا ہو گیا ہے۔ سکندر سائیں کی خوش خبری پر دائرے سے باہر نکل آیا۔ سائیں اسے مبارکیں دیتے خود درگاہ تک ساتھ لے گئے اور پھر اسے رکنے کا کہہ کر غائب ہو گئے۔ وہ تو بعد میں کھلا کہ غیبات کی چال تھی۔ اس کے بعد سکندر کھتری کا دماغ چل گیا تھا اور عجیب عجیب باتیں کہتا تھا۔ ایک مرتبہ تو سائیں کے خلاف سننے پر کچھ عقیدت مندوں نے اس کی ٹھکائی بھی کی تھی مگر دفینہ ہاتھ سے نکل جانے کے بعد وہ سیدھے پن میں نہ آ سکا تھا۔ سکندر کھتری والا واقعہ اچھا خاصا مشہور تھا اس لیے محمد زماں شوق کے باوجود دفینے کا عمل سیکھنے اور کرنے کی ہمت پکڑ نہ سکا تھا، حالانکہ کئی بار وہ اپنے دوستوں سے یا گھر میں بات کرتا رہتا تھا۔ اب چونکہ میر غضب خان مہربان ہوا تھا اور اس نے دفینے کے محافظوں کو بھی مطیع کر لیا تھا تو بات صرف یہ رہ گئی تھی کہ کھدائی کر کے دفینہ نکال لینا تھا۔

    یہ دوسرے چلے کی آخری رات کی بات ہے۔ اس دن میر غضب خان نے زردہ بنوایا اور پہلی بار گھروالوں کو اس میں شریک کیا۔ عشا کے بعد شہر کی گلی بازار میں چلتے پھرتے لوگ جب اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوے اور سناٹا چھانے لگا، تب محمد زماں والے کمرے میں محمد زماں، اس کی بیوی اور بہن ایک چارپائی پر ساتھ بیٹھے۔ دوسری چارپائی پر امیراں اجرک کے نقش و نگار والی بچھی چادر پر بیٹھی تھی۔ اس کے سامنے سفید لٹھے کا ایک گز کپڑا پڑا ہوا تھا جسے اس نے گول مول کر کے سوٹی کی صورت دی ہوئی تھی۔ یہ ایک گز کا لٹھا سرِ شام منگوا لیا گیا تھا۔ شہر کی فضا انسانی اور مشینی آوازوں سے خالی ہو چلی تھی۔ کہیں کہیں سے کتوں کا بھونکنا سننے میں آ رہا تھا۔ ایک پہر شاید گزرا ہو گا کہ امیراں آہستہ آہستہ جھومنے لگی اور اس کی زبان نے نامانوس الفاظ نکالنے شروع کیے۔ وہ الفاظ کمرے میں بیٹھے باقی لوگوں کو ایک ’’روں روں‘‘ کی طرح سنائی دے رہے تھے۔ پھر جھومنے میں شدت آنے لگی اور اور وہ چارپائی سے زمین پر کودی اور شرینھ کے درخت کے نیچے جا رکی۔ ایک گز لٹھے کو اس نے سوٹی کی طرح گھمانا شروع کر دیا تھا۔ شرینھ کے گرد گھومتے اس نے اضطرابی انداز میں لٹھے سے کسی چیز کو محمد زمان کے کمرے کی طرف ہنکانا شروع کر دیا، جیسے وہ کسی ان دیکھے جانور کو پچکارتی اندر دھکیلتی آ رہی ہو۔ محمد زمان، اس کی بیوی اور بہن اس کے پیچھے پیچھے تھے۔ مضطرب کیفیات میں مبتلا ان کے اجسام کی شریانوں میں خون پارے کی طرح گردش کر رہا تھا اور خیالات پر امید و بیم پہلو بدلے جا رہے تھے۔ امیراں باپ کی چارپائی کے گرد کپڑا پٹخ رہی تھی۔

    ’’چارپائی اٹھا کر یہاں کھودو۔‘‘ حکم کی تعمیل ہوئی اور محمد زماں کدال چلاتا کمرے میں زمین کھودنے لگا۔ کمرے میں کھڑے افراد کی نظر کدال کے ساتھ نکلی آنے والی مٹی پر تھی جس کے ہر ذرے کے ساتھ ان کی امید کا دیا جل اور بجھ رہا تھا۔ محمد زمان کدال مارتا گیا۔ چارپائی کی جگہ مٹی میں چند فٹ گہرا کھڈا جنم لے چکا تھا۔

    ’’جلدی کرو، جلدی!‘‘ امیراں چلّانے لگی۔ محمد زماں کے ہاتھ تیز ہونے لگے۔ کھڈے نے اچھی خاصی شکل لے لی تھی مگر صرف مٹی نکلی آ رہی تھی۔ امیراں پر ہسٹریائی انداز چھانے لگا۔ اس نے لٹھے کی سوٹی نما کو گھماتے، کسی چیز کا تعاقب کرتے، بچوں والے کمرے کا رخ کیا۔ محمد زماں کی بیوی اور بہن اس کے ساتھ ساتھ ہی دوڑی گئیں۔ محمد زماں کدال ہاتھ میں لیے جب بچوں والے کمرے تک پہنچا، وہ کمرے کے ایک کونے کو گھیرے چیخے جا رہی تھی۔ چیخ پکار سے پریشان حال بچے اپنی اپنی چارپائیوں سے اترنے کی ہمت نہیں کر پا رہے تھے۔

    ’’اس کونے میں کھودو۔ اس میں کھودو!‘‘ کی آواز پر لبیک کرتا محمد زماں پھر کھدائی میں شروع ہو گیا۔ کھدائی کرتے کرتے اب اس پر تھکن غالب آنے لگی۔ ادھر امیراں کی وحشت میں ہر لمحہ اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔

    ’’جلدی کرو، ورنہ دیگ نکل جائے گی!‘‘ امیراں کی آواز اور عامل محمد زماں کے اندر بھری امیدوں نے اس کے ہاتھوں میں نئی قوت پیدا کر دی۔ وہ بڑھ بڑھ کر ہاتھ چلاتا گیا۔ ہر ضرب کے ساتھ نرم مٹی چری جا رہی تھی اور تھوڑی ہی دیر میں مٹی کا ایک ڈھیر جنم لے چکا تھا۔

    ’’آ خلیل، اب تھوڑی دیر تُو چلا لے۔‘‘ عامل محمد زماں کی آواز اس کے تھک جانے کی تعبیر بیان کر رہی تھی۔ خلیل آگے آیا۔

    ’’خبردار جو کھلیل نے کدال کو ہاتھ بھی لگایا!‘‘ امیراں چیخی۔ محمد زماں نے کچھ کہنے کی جرأت نہ کی۔ اس کے تھکے ہاتھ کدال پر مضبوطی سے جمے اور پھر حرکت میں آنے لگے۔ اب امیراں کے ساتھ اس کی بیوی کی آواز بھی ’’جلدی! جلدی!‘‘ کہتی سننے میں آ رہی تھی۔ محمد زماں کے اندر جو پہلے صرف دفینہ کی امید بھری تھی، اب خواہ مخواہ کا ایک خوف بھی جگہ بنانے لگا۔ کدال سے زمین پر لگتی ضرب کمزور پڑنے لگی۔ تھکن محمد زمان کے جسم کے ساتھ اس کے ذہن کو بھی برمے کی طرح چیرتی گئی۔ اچانک محمد زماں کونے میں کھدے کھڈے میں گرا ہوا نظر آیا۔ محمد زماں کو جب ہوش آیا تو اس نے اپنا منھ گیلا اور اپنے آپ کو چارپائی پر پڑا محسوس کیا۔ اس کے حواس واپس ہوے تو دیکھا، امیراں چیخے چلّائے جا رہی تھی۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔

    ’’سب کھتم ہو گیا، سب کھتم۔‘‘ امیراں اس کے اوپر آ کھڑی ہوئی۔ ’’اب کھلیل کو نہ چھوڑوں گا۔‘‘ امیراں یہ کہتے خلیل کے قریب ہونے لگی۔ عامل محمد زماں میں اس کے سامنے جانے کی سکت نہ تھی۔

    ’’کھبردار! ایک پاؤں آگے بڑھایا تو بھسم کر دوں گی۔‘‘ محمد زماں کی بیوی امیراں اور خلیل کے درمیان کھڑی تھی اور اس کی آنکھیں شعلے برسا رہی تھیں۔ ’’مجھے سائیں مست علی چھاہ نے بھیجا ہے۔ کیا سمجھتے ہو کھُد کو؟ مجھ پر تمھارا کوئی جادو نہیں چلے گا۔ تو کھلیل کو ہاتھ لگا کر تو دیکھ، یہیں کے یہیں ذرہ ذرہ نہ کردوں تو کہنا۔‘‘ عامل محمد زماں کی بیوی کے الفاظ نہیں، تیر تھے جومیر غضب خان سے دوبدو مقابلے پر للکار رہے تھے۔ امیراں پاؤں پاؤں پیچھے ہٹتی گئی۔ اس کا غصہ اور وحشت گم ہونے لگے۔ ’’نکل اس کمرے سے، کتی، کمینی!‘‘ محمد زماں کی بیوی آگے ہوتے حکم دیتی گئی۔ امیراں ہٹتی کمرے سے نکل کر صحن میں آ گئی۔ ’’میں تمھیں کہتی ہوں کہ اگر کل تک امیراں سے نہ نکلا تو میں تجھے اس چولھے میں جلا ڈالوں گی۔‘‘ محمد زماں کی بیوی نے امیراں کو بالوں سے پکڑ کر صحن میں ایک طرف بنے چولھے کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا۔ امیراں کا سر اٹھ نہیں رہا تھا۔ ’’مجھے کالی چائے پلاؤ۔‘‘ محمد زماں کی بیوی نے محمد زماں کی بہن کو حکم دیا۔ محمد زماں کی بیوی نے کالی چائے کا پیالہ ختم کیا تب تک محمد زماں صحن میں نکل آیا تھا اور امیراں نیچے مٹی پر سر نہوڑائے بیٹھی تھی۔ ایک لفظ کہے بغیر۔

    ’’سن لے کتے! سائیں نے کہا ہے، اگر تو کل تک نہ گیا تو سائیں مست علی چھاہ تمیں اِدھر آ کر جلا کر کھاک کر دیں گے۔‘‘ محمد زماں کی بیوی کی آواز نہیں ایک گرج تھی جو ہر طرف گونجے جا رہی تھی۔

    دوسرے دن میر غضب خان کی فرمائش پر عامل محمد زماں شہر بھر کے پھول والوں سے پانچ من گلاب کے پھول خرید کر کے گدھا گاڑی پر لدوا لایا۔ ان پھولوں کو ایک چارپائی پر بچھایا گیا اور اس رات امیراں اس چارپائی پر لیٹی اور میر غضب خان کا اس گھر میں یہ آخری دن تھا۔ یہ واقعہ گھر تک ہی رہا اور باہر نہیں نکلا۔ شہر والے صرف یہ جانتے ہیں کہ ایک صبح قبرستان کی ساری قبریں گلاب کے پھولوں سے مہکی جا رہی تھیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے