پانچ انگلیاں
میری بیٹیاں بغل میں لیٹی ہیں، خوبصورت سی، پیاری پیاری۔ نرم ہتھیلیاں، چھوٹی بڑی انگلیاں۔ بیٹیاں گھروں میں چڑیوں کی طرح چہکتی ہیں۔ ان کی دلکش آوازیں گاؤں میں ندیوں کی طرح بہتی ہیں۔ انھیں دیکھ کر دل سے دعائیں نکلتی ہیں کہ رحمن ان ہاتھوں کوڈاکٹر کے ہاتھ بنانا جو مفت میں غریبوں کا علاج کریں، نیکیاں کمائیں، صرف گھر کی چہاردیواری تک محدود نہ رہیں۔
کتنے بڑے بڑے کاموں کو انجام دیتی ہیں یہ انگلیاں۔ سب مل جائیں تو طاقت، نہیں تو بھیک مانگنے والے کا کٹورا۔ یہ انگلیاں جب الگ الگ خانوں میں بکھر جاتی ہیں تو جن کا دل چاہتا ہے، ہتھیلی پر کچھ رکھ دیتا ہے۔
تحقیر
ذلت
بدنامی
انگلیاں آخر کیوں اکڑ جاتی ہیں، مڑتی نہیں، گھومتی نہیں، پھیلتی نہیں—
شاید اس لیے کہ سب کی الگ الگ دشائیں ہیں۔ سبھی اپنی موجودگی کا احساس دلانا چاہتی ہیں لیکن ہتھیلیاں جن میں سے چھوٹی بڑی انگلیاں نکلی ہیں، بےبس ہیں ان کا بوجھ برداشت کرنے کے لیے۔ انھیں شاید انتظار ہے کہ کبھی تو یہ سب آپس میں مل کر مڑیں گی، ہتھیلی کے دامن میں سمٹ جائیں گی، شاید کبھی!
برسوں پہلے
طلوع آفتاب کے وقت
تم نے میری ہتھیلی میں نہ جانے کیا دیکھا تھا
کہ آج جب سورج گرہن لگا
تو تم نے ایک بیج کو میری ہتھیلی پر بو دیا
تب سے میری ہتھیلی
گرم ہواؤں سے کبھی سخت تو کبھی بارش کی بوندوں سے نم ہوتی رہی
اب جب کہ خیالی درخت بڑا ہو گیا ہے
میری ہتھیلی کی پانچ انگلیاں
جڑوں کو کریدنے میں لگی ہیں
تم ہی بتاؤ میری ماں
یہ کیسا بیج تم نے میری ہتھیلی پر بویا تھا؟
میں سوچ رہی ہوں کہ کبھی میں بھی ان دونوں جیسی تھی—
ماں کی گود میں سر رکھ کر، لوریاں سن کر سو جایا کرتی تھی۔ سہیلیوں کے ساتھ غلام عباس کی گڑیا سے کھیلا کرتی تھی۔ جوان کب ہوئی پتہ ہی نہ چلا۔ پھر نور بخش سے میری شادی ہوئی۔ ماں بنی اور میری گود دونوں بیٹیوں کی پاٹھ شالا۔ اب یہ دونوں سیانی ہو رہی ہیں اور مجھے دونوں کے چہروں میں کبھی نور بخش کا تو کبھی اپنا عکس دکھائی دیتا ہے۔
ہم دونوں تو اپنی بیٹیوں کے لیے کمہار جیسے ہیں۔
جب نور بخش دفتر میں ہوتے ہیں اور دونوں بیٹیاں اسکول سے آنے کے بعد تھوڑا آرام کر رہی ہوتی ہیں— ایسے لمحوں میں، میں اکثر خیالوں میں گم ہو جاتی ہوں—
فلاں خوب صورت ہے، فلاں بدصورت!
دونوں کے پاس آنکھیں ہیں، ناک ہے، ہونٹ ہے، دانت ہے۔
آنکھوں کے ساتھ ایک زبان بھی دی گئی۔
دو ہونٹ بھی دیے گئے۔ دونوں بولتے ہیں۔ اپنے دل کی بات دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ دونوں کی آنکھیں دیکھتی ہیں۔ دونوں کے دانت چباتے ہیں۔ دونوں کی ناک سونگھتی ہیں۔
خوب صورتی کی پریبھاشا کس نے بنائی؟
کسی کی ناک لمبی ہے تو کسی کی چھوٹی۔ لیکن ایک خوبصورت اور دوسری بدصورت کیسے ہو گئی۔ دراصل یہ معیار تو اپنے اندر ہی کہیں چھپے ہیں جو انسان کو انسان نہیں، بدصورت اور خوب صورت بناتے ہیں۔ ایک انسان جو کسی کو برا محسوس ہوتا ہے تو وہی دوسرے کو بھلا محسوس ہوتا ہے۔ ایک کو کسی چہرے سے نفرت ہوتی ہے تو دوسرے کو اسی چہرے سے محبت! اگر ایسا نہ ہو تو ایک کے پاس چاہنے والوں کی بھیڑ اکٹھا ہو جائے اور کوئی بالکل اکیلا رہ جائے۔
اگر کوئی آنکھوں سے محروم ہے تو وہ کیسے کرے گا ادراک کسی کی خوبصورتی کا— شاید سامنے والے کے جذبات سے، اس کی پیار بھری آوازوں سے، اس کے شفقت بھرے لمس سے، ایک اچھا انسان ہی خوبصورت ہے کیونکہ اس کی اچھائیاں، اس کا کردار اور بھی بہت کچھ اس کے چہرے پر ایک لفظ لکھ دیتے ہیں— ’نور‘ اور اس کا چہرہ نور سے بھر جاتا ہے، مقبول ہو جاتا ہے ’وہ‘!
نور بخش کی طرح!
نور بخش نے اپنی زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ دیکھے۔ اوبڑ کھابڑ پگڈنڈیاں دیکھیں۔ گھر کے آنگن میں الگ الگ کھڑی ہوتی دیواریں دیکھیں۔ موسم کی طرح لوگوں کے بدلتے مزاج کو دیکھا۔ مٹی کے گھڑے، چولہے چوکے کو ٹوٹتے بکھرتے دیکھا۔ گھر کے باہر پھلواری میں ہرے بھرے درختوں کو سوکھتے دیکھا۔ حلال اور حرام کی تمیز کے بغیر لوگوں کو دولت سمیٹتے دیکھا۔ فٹ پاتھ پر ٹاٹ میں لپٹے غریبوں اور مسکینوں سے خوبصورت چہروں کو نظریں چراتے دیکھا۔ دوسروں کا حق مار کر اپنی دولت بڑھانے کی تدبیریں کرتے دیکھا۔ انسانیت، شرافت، ہمدردی اور محبت کے جذبات کو مٹتے دیکھا— کیا کیا نہیں دیکھا نور بخش نے!
شگفتہ پیرایہ زبان کا جوگی جب سے گھر چھوڑ کر گیا، دیواریں بلبلا رہی ہیں، سسک رہی ہیں، چیزیں ٹوٹ رہی ہیں، دل ٹوٹ رہے ہیں، ذہن بدظن ہورہے ہیں، رشتوں کی ڈور ٹوٹ رہی ہے۔
پریوار الگ الگ خانوں میں بکھرتا جا رہا ہے۔ ہتھیلی کی پانچ انگلیوں کی طرح!
نئی زمین، نیا مکان خوب صورت دروازے، ڈرائنگ روم میں سجے ہوئے بناؤٹی پھول— آدمی باہر سے کتنا خوبصورت ہو گیا ہے۔ مگر اس کے اندر کی خوب صورتی، جو زندہ رہنے کی شرط ہوا کرتی تھی کبھی، وہ تو کہیں گم ہوتی جا رہی ہے۔
اس قدر تیز رفتاری سے زندگی میں تبدیلی—
غریب، امیر بن رہے ہیں۔
امیر رئیس بن رہے ہیں۔
مڈل کلاس، نئے دولت مند، اپنی دولت، ہڑپی ہوئی دولت کے سہارے اپنی درمیانی درجہ کی زندگی کو تیاگ کر فلیٹوں اور کلبوں کی زندگی سے دن بہ دن قریب سے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ زندگی کو برتنے کے طریقوں میں تبدیلی آتی جا رہی ہے اور ہماری تہذیب، ہماری سنہری روایت کو سمٹ کر، گھٹ کر رہ جانے کا ڈر ستا رہا ہے۔
اتنا بڑا پریورتن اتنی سہجتا سے۔۔۔؟
زندگی کا چہرہ دیکھ کر ٹوٹ سا گیا تھا، نور بخش! اس کی زندگی جیسے ادھوری رہ گئی ہو— ادھوری آدمی— ادھوری زندگی— وہ تو ہے کسی اور راہ کا مسافر، مگر بھاگا جا رہا ہے ہانپتے، کانپتے کسی دوسری سمت میں— اس سمت میں، جہاں گھاٹیاں بھی آئیں گی—
بہت خاموش سا رہنے لگا ہے نور! مگر اس کے کانوں میں ایک شور سا ہر وقت سنائی دیتا ہے۔
’’امی! اگر بھائیوں نے کاغذات پر دستخط نہیں کیے تو میں پشتینی گھر بیچ دوں گا۔‘‘ ملا بخش چیخے۔
جمیلہ بیگم جو ہمیشہ سے ایسی لاچار نہیں تھی، کافی دبنگ عورت ہوا کرتی تھیں۔ انھوں نے خراب صحت کے باوجود پانچ بیٹوں کو جنم دیا۔ ورنہ اس زمانے میں تو عورتوں کو بچے گروانے کا موقعہ چاہیے۔ لوگ پہنچ جاتے ہیں فتویٰ لینے یا خود ہی تسلی دے لیتے ہیں کہ ارے یہ تو زندگی بچانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ جیسے موت اور حیات کی کتاب کھول دی گئی ہے نئی نسل کے سامنے—
سگریٹ پیوگے کینسر ہو جائےگا۔ پان کھاؤ گے منھ کا کینسر ہو جائےگا۔ زیادہ میٹھا کھاؤگے ڈرائبیٹک ہو جاؤگے۔ پانی پینے سے زیادہ زندہ رہیں گے، یوگ کریں گے صحت مند رہیں گے۔ گوشت کھائیں گے عمر کم ہو جائےگی، سبزی کھائیں گے زیادہ زندہ رہیں گے۔
دودھ پیوگے صحت مند رہو گے—
ارے کم بختو! کون سا دودھ— جس میں یوریا اور فارمولین کا استعمال کافی تعداد میں ہونے لگا ہے۔ جسم کا نظام برباد ہو رہا ہے۔ یورک ایسڈ بڑھنے سے گردے خراب ہو رہے ہیں۔
کون سی سبزی— وہ جس میں میگنیشیم آکسائڈ اور لیڈ کی مقدار اتنی زیادہ کہ آنتوں اور گردوں کے کینسر کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ وہ سبزی جس میں انجکشن لگا کر سائز بڑا کیا جارہا ہے۔
آکسی ٹوسن
شراب
تیزاب
ہارمونس
یوریا...
ہارمونس سبزیوں، پھلوں اور لڑکے لڑکیوں کے لیے بھی۔ منظر کتنا بدل گیا ہے۔ آدمی آدمی نہیں رہا اور اشیائے خوردنی بھی اپنی شناخت کھوبیٹھی۔ ہم اسے بھول گئے ہیں جس نے چارہ اگایا اور اسے لہلہاتا ہوا اور سرسبز و شاداب کر دیا۔
ارے دیوانو! پہلے کے لوگ جو سو کی عمر بھی پار کر دیتے تھے۔ کیا وہ تمھارا مینو دیکھ کر کھایا کرتے تھے۔ جتنا دن زندہ رہنا ہے وہ تو رہےگا ہی۔ آج نئی صدی میں انسان کا کیسا گروہ ہمارے سامنے آ رہا ہے۔ انجام کے اعتبار سے دو گروہ میں بٹ چکا ہے آج کا انسان—
ذلت
رسوائی
کھولتا ہوا پانی
کھولتے ہوئے چشمے—
دہکتی ہوئی آگ—
دوسری طرف نفیس قالین بچھی ہوئی، سجے ہوئے گاؤ تکیے، تر و تازہ چہرے۔
چاروں طرف مناظر فطرت اور مشاہدات جمع ہیں، مگر ہماری آنکھیں بند ہیں۔
جمیلہ بیگم اپنے بیٹوں کو، اپنی بہوؤں کو یا پھر پہچان والوں کو اسی طرح ڈانٹا کرتی تھیں۔ حالانکہ انھیں دو بچوں کے بعد ہی پیٹ میں ٹیومر ہو گیا تھا۔ لیکن ان کے شوہر احمد بخش بڑے مذہبی تھے، عملی طور پر— ٹیومر کٹوا کٹوا کر تین اور بچے پیدا ہوئے۔ پانچویں بچے کی پیدائش کے وقت پورا بچہ پیدا کرنے کا کارخانہ یعنی بچے دانی ہی نکال پھینکی گئی۔ شاید اچھا ہی ہوا کیونکہ آرام اگر قسمت میں ہو تو ایک سے بھی مل جاتا ہے، نہیں تو پانچ کیا دس بیٹے بھی سکھ نہیں دے پاتے۔
انتظام ربوبیت
پیدائش سے پہلے رزق کا انتظام—
ایک بار انھوں نے مجھ سے کہا تھا کہ جب چھوٹا بیٹا ساجد پیٹ میں آیا تو میں کافی رنجیدہ ہو گئی تھی، بالکل تھوپا ہوا بچہ تھا اور میں بہوش ہو جاتی تھی۔ میری صحت بالکل خراب ہو چکی تھی۔ چارمرتبہ پیٹ کا آپریشن ہو چکا تھا۔ ایک نفرت سی تھی، ایک ڈر سا تھا دل میں، جب وہ پیدا ہوا تو بالکل نہیں رویا۔ ڈاکٹر اسے الٹا لٹکا کر تھپڑ مار رہی تھی۔ جب میں نے اسے دیکھا تو محبت کا سوتا پھوٹ پڑا تھا، میرے کمزور ہاتھ دعاؤں کے لیے اٹھ گئے، میں دعائیں مانگنے لگی، میری دعا قبول ہو گئی۔ آج پانچ بیٹوں میں مجھے سب سے زیادہ پیارا ساجد لگتا ہے، نور بخش کے بعد! شاید اس لیے بھی کہ وہ سب سے چھوٹا ہے۔
’’میں نے نور بخش کو کاغذات بھیجے تھے اسپیڈ پوسٹ سے، مگر ابھی تک اس نے دستخط کرکے نہیں بھیجا۔ ایسا زیادہ دن نہیں چلےگا۔ پشتینی مکان اور زمین میں بیچ دوں گی، تب پڑے رہیں گے چاروں بھائی سڑک پر— ہم نے کوئی امی کو پالنے کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا ہے، لے جائے جس کو شوق ہے بیمار ماں کی خدمت کا۔ مجھے کوئی ایسا شوق نہیں ہے۔‘‘ بڑی بہو شبانہ نے چلاتے ہوئے کہا۔
جمیلہ بیگم خاموش رہ گئیں۔ کیوں کیسے؟؟
جمیلہ بیگم جو ایک بات بھی اپنے اوپر سے ہوکر جانے نہیں دیتی تھیں۔ زمین کی طرف نظریں جھکائے بالکل خاموش تھیں مگر ان کی خاموش زبان میں بھی ایک آواز تھی جو مجھے سنائی پڑ رہی تھی۔
دنیا کی طلب/ مال و دولت کی حرص/ جاہ و منصب کی طلب اور نہ جانے کیا کیا۔
ہر کسی کا ایک وقت ہوتا ہے کبھی ساس کا تھا آج بہو کا ہے، وہ تو سنا ہی ہوگا کہ سو سونار کی ایک لوہار کی۔ اس نے شروعاتی دنوں میں ایک بار بہو کی غلط عادت کو غلط کہا تھا تو بہو بھی ان میں برسوں پرانی بات کو سود کے ساتھ واپس کر رہی تھی۔ ویسے بھی غلط کو غلط کہنے کے بعد جھیلنے کے لیے تیار رہنا پڑتا ہے۔ دوسری طرف سسر احمد بخش تو ا س دنیا میں اب رہے نہیں۔ حج کرکے واپس لوٹے اور اللہ کو پیارے ہو گئے، بڑے اچھے اور نیک انسان تھے۔ بس تھوڑا بہت نظر کا پردہ کرتی تھیں شبانہ ان کے سامنے، وہ بھی اس لیے کہ کنکڑ باغ کی دو بیگھہ زمین اپنے شوہر ملا بخش یا پھر اپنے نام کروانا تھا۔
سسر احمد بخش شبانہ کے چچا لگتے تھے۔ احمد بخش کو اپنے پریوار سے بے پناہ محبت تھی۔ ایک مضبوط کڑی تھے وہ اپنے پریوار اور رشتے داروں کے بیچ۔ کسی کی بیٹی جوان ہوری ہو تو شادی کے لیے رشتہ ڈھونڈنے میں جٹ جاتے تھے۔ کتنے رشتے داروں کے گھروں میں شہنائیاں بجیں، کتنے گھروں کے بجھ چکے چولہوں میں آگ لگی۔ خاموشی سے کتنے بےکس اور بےسہارا کی خبرگیری کر لیتے تھے وہ مگر ان کے دوست، رشتہ دار ان کے ان کاموں کو بےوقوفی کے کام کہتے تھے کہ ان کاموں میں وقت اور دولت دونوں برباد ہو رہی تھی۔ احمد بخش نے شبانہ کی بدمزاجی کے باوجود اس کی شادی اپنے بڑے بیٹے ملا بخش سے کر دی۔ شاید اس لیے بھی کہ مرتے وقت ان کے بھائی نے شبانہ کا رشتہ ڈھونڈنے کو کہا تھا۔ حالانکہ جمیلہ بیگم کو یہ رشتہ شروع سے ناپسند تھا لیکن ان کی ایک نہ چلی اور شبانہ گھر میں بہو بن کر آ گئی۔ ویسے تو ملا بخش کو بھی یہ رشتہ پسند نہیں تھا کیونکہ ملا کا ٹانکا تو کہیں اور سے بھڑا تھا لیکن ملا بخش کی بھی ایک نہ چلی بابا احمد بخش کے آگے کہ احمد بخش کا رعب ہی گھر میں کچھ ایسا تھا۔
لیکن جیسا کہ اکثر ہوتا ہے کہ زیادہ تر میاں بیوی ایک دوسرے کو قبول کر لیتے ہیں، حالات سے سمجھوتہ کر لیتے ہیں اور پھر یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے وقت گزرنے کے بعد دونوں کے خیالات بھی ایک جیسے ہو جاتے ہیں، شاید الگ الگ چہرے بھی ایک جیسے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ ملا بخش اور شبانہ بھی ایک راہ کے مسافر ہو گئے تھے۔ دونوں ہر وقت اس دھن میں رہتے کہ زیادہ سے زیادہ مال کیسے حاصل کیا جائے۔ کوئی عزیز مرا نہیں کہ دونوں کو فکر ستانے لگتی کہ کس طرح اس کی میراث پر قبضہ کیا جائے، چاہے اپنا حق ہو یا نہ ہو، دوسروں کا حق مار کر اپنی دولت بڑھانے کی تدبیریں ڈھونڈتے رہتے۔
ملا بخش تو شروع ہی سے الگ طرح کی شخصیت کے مالک تھے، ان کو سمجھنا مشکل تھا۔ ان کا اپنا ایک الگ سنسار تھا۔ میاں بیوی دونوں ایک دوسرے سے بہت خوش تھے، خوش بھی کیوں نہ رہیں، دولت کی کوئی کمی نہیں تھی۔ اصل فساد کی جڑ تو دولت کی کمی سے ہی پنپتی ہے۔ ملا بخش اور شبانہ ایک تھے اور گھر کے سارے لوگ پرائے، وہ رشتے جو اٹوٹ ہوتے ہیں وہ ٹوٹے جا رہے ہیں۔
جمیلہ بیگم کے دوسرے بیٹے ہیں مراد بخش۔ ان کی بھی اچھی نوکری ہے، مگر وہ بھی الگ راہ میں چل پڑے ہیں۔ لاوارث کی طرح بکھرے ہوئے بال، بڑھی ہوئی داڑھی۔ مراد بخش بڑے ہی تندرست، ہٹے کٹے چھ فٹ کے پولس آفیسر ہیں۔ کام ان کا تھا چور بدمعاش کو پکڑنا ان سے مقابلہ کرنا، مگر جب بال کٹانے یا سنوارنے کی بات ہوتی تو ان کی ہمت، دلیری جواب دے جاتی اور ایک خوف ان کے چہرے پر ظاہر ہونے لگتا۔ ایسا نہیں کہ انھیں قینچی سے ڈر لگتا تھا وہ آئینے کے سامنے بھی اپنی شکل سے خوف کھاتے تھے۔ اگر غلطی سے آئینہ کے سامنے خود کا چہرہ دکھائی دے جاتا تو دور کھڑے ہو جاتے۔ آج بھی ایک انجانا خوف ان کا پیچھا کر رہا ہے اور وہ بھاگ رہے ہیں۔ ان کے اپنے ان سے خوش نہیں ہیں لیکن وہ اپنی زندگی سے مطمئن ہیں۔ بیوی، ماں باپ کے گھر بیٹھی ہے اور خود کمانے کی دھن میں لگے ہیں۔
تیسرے نور بخش بچپن سے لے کر آج تک ماں، باپ سے ڈرنے والے،خدمت کرنے ولے، گھر کا سارا کام انہی کے ذمے رہتا تھا۔ راشن سے لے کر ماں کی دوائی تک کا ذمہ نور بخش کا تھا۔
نور بخش کی بیوی اکلوتی ہے اور بڑے ناز اور پیار سے پلی بڑھی ہے، سسرال نہیں جانا چاتی۔ وہاں کے مچھر، بورنگ کا کھارا اور گندا پانی اور محلے میں غیبت کرنے والی عورتوں کی محفل اسے پسند نہیں۔ حالانکہ وہ ساس سسر سے برابر ضد کرتی کہ ابی امی آپ دونوں نور بخش کے بنگلے میں آکر رہیے۔ دیکھیےگا ہمارے گھر کا ماحول آپ کو کتنا راس آئےگا۔ میں آپ کی خوب خدمت کروں گی۔ میں اپنے آپ کو یہاں ایڈجسٹ نہیں کر پاتی۔ دوسری طرف نور بخش بھی اکیلے میں ہوٹل کا کھانا کھاکر بیمار پڑ جاتے ہیں۔
لیکن جمیلہ بی کو تو اپنے گھر سے بے پناہ محبت تھی۔ محبت بھی کیوں نہ ہو بڑی محنت سے اس آشیانے کو بنایا جو تھا۔ ڈھیر سارے سپنے بنے تھے انھوں نے۔ کاش کہ ان کا سپنا حقیقت میں تبدیل ہو جاتا۔ ویسے تو جس جگہ پر ان کا مکان ہے وہاں پر نہ تو بجلی پانی کا آرام ہے اور نہ ہی ماحول اچھا ہے۔ کوئی کسی کو آگے بڑھتا ہوا دیکھنا نہیں چاہتا۔ پھر بھی معلوم نہیں کیوں جمیلہ بیگم اپنے گھر سے باہر کیوں نہیں نکلتیں۔ اپنے حصے کی خوشیاں اپنے بیٹوں کے آنگن میں کیوں نہیں تلاش کرتیں۔ اس محلے میں کیوں رہ رہی ہیں؟
چوتھے بیٹے ماجد میاں ہیں۔ ان کا تو سارا گناہ قصور معاف ہے۔ رب نے انھیں دماغ سے کمزور بنایا ہے۔ مینٹلی ریٹارڈ رہے وہ۔ جمیلہ بیگم کو اسی کی زیادہ فکر ستاتی رہتی ہے کہ ان کے بعد ماجد کا کیا ہوگا۔ کہاں، کب، کس کے پاس رہےگا؟ سبھی بیٹوں کو نصیحت کرتی رہتی ہیں کہ اس کو پیار سے رکھنا۔
پانچویں جو ہیں جناب، ساجد میاں! رب نے انھیں خوب دولت سے نوازا ہے۔ اچھے ڈاکٹر ہیں، شہرت ہے اور عزت بھی۔ اپنی پسند سے شادی کی ہے، بہت خوش ہیں کہ انھیں اپنے بھائیوں کی بھی یاد نہیں آتی۔ مطمئن ہو گئے ہیں وہ اپنی چہار دیواری میں، اپنے سماج میں، اپنے آنگن میں—
جمیلہ بیگم احمد بخش کے ساتھ ہی رہا کرتی تھیں۔ دونوں نے زندگی کے کڑوے میٹھے پل ایک ساتھ جو گزارے تھے۔
——
تم پانچوں آپس میں محبت قائم رکھنا۔ ایک دوسرے کے سکھ دکھ میں ساتھ دینا۔ ماجد کا خیال رکھنا—
احمد بخش بیہوشی کی حالت میں بڑبڑا رہے تھے۔ کبھی آواز لڑکھڑا رہی تھی تو کبھی صاف سنائی پڑ رہی تھی۔ جمیلہ رو رو کے بےحال ہوئی جا رہی تھیں۔ احمد بخش انھیں سمجھا رہے تھے۔ اتنی تکلیف کے باوجود میں نہیں گھبرا رہا ہوں، تم کیوں روتی ہو۔ تمھارے پانچ بیٹے ہیں پانچ انگلیوں کی طرح تمھارا خیال رکھنے کے لیے۔ میرا رب تمھارے ساتھ ہے۔
نیک انسان تھے احمد، اپنی نیکیاں، اچھائیاں بٹور کر لے گئے۔ چلے گئے چھوڑکر جمیلہ کو— سسکتی، دم توڑتی، اخلاقی قدروں کو، انسانیت کو، الگ الگ خانوں میں بکھرتی پانچ انگلیوں کو۔
اطمینان پانے والی روح چلی گئی اپنے رب کی طرف۔
جمیلہ بیگم تو جیسے ٹوٹ سی گئی تھیں۔ انھیں نہ تو اپنی دواؤں کا ہوش تھا اور نہ اپنی صحت کا۔
——
باہر میدان میں قبرستان سے واپس آنے کے بعد، چائے بسکٹ کے ساتھ، ہری، سفید، پیلی، نیلی پگڑیوں والوں کے بیچ بدعت پر بحث چھڑ چکی تھی۔ گول ٹوپی اور گاندھی ٹوپی والے بھی الجھ رہے تھے۔ حق اور باطل کا معیار دلائل و براہین ہیں۔ لوگوں کی اکثریت و اقلیت نہیں، انھیں کون سمجھائے۔
’’اماں، اماں! یہ Excretion ہے نا؟ یہ راستے پر گرا پڑا ہے۔ کسی کو پیر میں لگ جائے تو—‘‘ پوتی ثمیرہ نے اپنی ماں شبانہ سے کہا۔
’’معاف کرنا بیٹی! شاید میں سنبھال نہیں پائی۔ ٹائلٹ میں گھستے گھستے ہو گیا۔ پیٹ خراب ہے نا، ہائی اینٹی بائٹک کی وجہ سے۔ ہارٹ کی دوا، بی پی کی دوا اور نہ جانے کون کون سی دوا—‘‘
’’چلئے اسے صاف کیجیے۔ گندگی پھیلا کے خاموشی سے بستر پر لیٹ گئیں۔ ذرا سا نہیں سوچا کہ کسی کے پیر میں لگ جاتا تو؟‘’ شبانہ مصلیٰ پر بیٹھے بیٹھے چلائیں۔
Excretion, Social Excretion Waste Product
جمیلہ بیگم ہانپتے کانپتے اٹھیں اور ایک پرانے پھٹے کپڑے سے گندگی کو صاف کر دیا۔
’’ماجد بیٹے! ذرا ٹھنڈا پانی تو پلا دو۔ جیٹھ کی گرمی ہے۔ سورج کا بدن بھی جل رہا ہے اور ادھر میری تو جیسے جان ہی نکلی جا رہی ہے پیاس سے۔‘‘
’’فیریز خراب ہے اس لیے میں نے لاک کر دیا ہے۔ پانی ٹھنڈا نہیں ہے۔نل کا پانی پی لیجیے اور رہی بات مٹی کے گھڑے کی، اسے تو میں کب کا توڑ چکی ہوں۔‘‘ شبانہ حلق پھاڑ کر چیخیں۔
’’اماں! قیامت کی گرمی ہے، کیسے برداشت کیجیےگا۔ پیاسی مت رہیے میری اماں! نل کا گرم پانی ہی حلق کے اندر اتار لیجیے۔‘‘ ماجد جو کم عقل تھا، مینٹلی ریٹارڈر تھا، بول رہا تھا۔
جمیلہ بیگم نے تھوڑی دیر کچھ سوچا، پھر بولیں ’’نہیں بیٹے، نہیں اترتا گلے سے سادا پانی، میں جاڑے کے موسم میں بھی اپنے گھر میں فیریز کا ٹھنڈا پانی پیتی آئی ہوں۔ اس جیٹھ کی گرمی میں تو یہ حلق سے نیچے نہیں اترےگا۔‘‘
’’اماں! بھائی جان کے یہاں کیوں پڑی ہیں۔ چلئے نا اپنے گھر۔ وہاں کے مچھّر آدمی سے بہتر ہیں۔‘‘
’’نہیں بیٹا! جب تک عدت پوری نہیں ہوگی، میں نہیں جاؤں گی۔ صرف ایک ماہ تو باقی رہ گیا ہے۔ پھر چلیں گے اپنے ماجد بیٹے کے ساتھ رہیں گے۔‘‘ جمیلہ بیگم نے ماجد کو سمجھایا۔
ابھی چند ماہ قبل گھر میں نئی دلہن ساجد کی آئی تھی۔ جمیلہ بیگم نے سوچا اسے بلا لیتے ہیں۔ تھوڑا غم ہلکا ہو جائےگا۔ انھوں نے ساجد سے کہا— ’’بیٹے! اگلے ماہ میں اپنے گھر جا رہی ہوں، میری عدت ختم ہو رہی ہے۔ ذرا بہو تبسم کو بھیج دینا۔ اکیلا گھر مجھے کاٹنے کو دوڑےگا۔‘‘
’’ارے اماں! کیسی باتیں کرتی ہیں آپ، وہ اکیلے وہاں کیسے رہےگی۔ اس کے ماں باپ کیا سوچیں گے کہ میری اکلوتی بیٹی کو ساجد نے اماں کے پاس اکیلا چھوڑ دیا۔ اماں ابھی وہ ناسمجھ ہے اسے مائیکے میں ہی رہنے دیجیے۔ اس کے ماں باپ اس کے بغیر نہیں رہ سکتے۔‘‘ ڈاکٹر ساجد بخش اپنی دھن میں بولے جا رہے تھے۔ تبھی مراد بخش کی بیگم کہنے لگیں۔ اماں مراد بخش نے ابھی تک پیسے نہیں بھیجے ہیں، مجھے آپ کے پوتے کی اسکول کی فیس جمع کرنا ہے، مجھے کچھ رقم چاہیے۔
’’ارے بہو! ابھی تو میں خود ملا بخش اور شبانہ پر بوجھ ہوں۔ احمد زندہ رہتے تو کوئی اور بات تھی۔‘‘
’’احمد بخش، اف!
آج جمیلہ بیگم خود کو اکیلا محسوس کر رہی تھیں۔ انھیں محسوس ہو رہا تھا کہ پورا سماج بیمار ہو چکا ہے۔ وہ اپنا آموختہ بھول چکا ہے۔ اپنے مذہب، اپنی فلاسفی کو سب فراموش کرتے جا رہے ہیں۔ روحانیت غالب ہوتی جا رہی ہے۔ مادی کشمکش کا سلسلہ جاری ہے۔ سارے لوگ اپنی اپنی مانیتاؤں کے ساتھ جی رہے ہیں۔ ساٹھ برسوں بعد وہ کتنی اکیلی ہو گئی ہیں۔ کسی کو گھر اپنے نام کرانا ہے تو کسی کو زمین۔ کسی کو سونے کی بالی لینا ہے تو کسی کو جھمکا۔۔۔
تہذیب ہر دور میں کروٹ بدلتی ہے۔ نئے روپ، نئے اوج سے چمکتی۔ مگر یہ کیسی چمک ہے کہ ہماری تاریخ، ہماری تہذیبی وراثت سب کو نئی گریما اور نیا ارتھ دینے کی ضرورت پڑ رہی ہے۔
بکھرے ہوئے شبدوں کو پرونے کون آئےگا؟
کوئی تو ہے، جو گھات لگائے ہے۔ ساری تہذیب و ترقی کی کمر توڑ دی جائےگی۔ فیصلے کا وقت جب آ جائےگا تب سمندر کی لہریں اپنی لپیٹ میں لے لیں گی۔ زلزلوں سے نیست و نابود کر دیا جائےگا۔ ہواؤں کے طوفان اکھاڑپھینکیں گے۔
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ بڑے بڑے ستونوں والے کے ساتھ کیا ہوا—؟
جمیلہ بیگم کتنی اکیلی ہیں آج—
تنہائی میں بھی ایک سکون کا احساس تھا ان کے اندر۔ آخر غم کا بوجھ کب تک اٹھاتیں۔ ایک دن موت کے بخار نے جمیلہ بیگم کو آ گھیرا۔
بخار سے چھٹپٹاتی جمیلہ بیگم کو ڈاکٹر کے پاس لے جانے کے بجائے ملا بخش اور شبانہ نے ایک مشورہ کیا کہ اس سال گرمی بہت پڑ رہی ہے اور اماں کو لو بھی لگ گئی ہے، چلو کولر لے آتے ہیں۔ دونوں نے ایک بار بھی جمیلہ بیگم کے ماتھے پر ہتھیلی نہیں رکھی۔ اسکوٹر اسٹارٹ کیا اور چل پڑے بازار کی طرف۔
ادھر ماجد پانی میں بھگو بھگو کے پٹیاں چڑھاتا رہا۔ اپنی ماں کے تیز بخار کو اتارنے کی ناکام کوشش کرتا رہا۔
جمیلہ بیگم نے تین بار ہچکی لی اور آرام کی نیند سو گئیں۔
شبانہ اور ملا بخش کولر لے کر لوٹ آئے تھے۔ اپنے کمرے کی کھڑکی میں لگوا کر شبانہ نے کھانا اپنے بچوں کے سامنے پروس دیا۔ پھر اپنی ساس کے قریب گئیں۔
’’اماں، اماں! اٹھئے۔‘‘
کوئی جواب نہیں ملا۔
شبانہ نے سوچا شاید اماں ایکٹنگ کر رہی ہیں۔ اس لیے ایک جھٹکے سے ان کو اپنی طرف گھمایا تو دیکھا— سانسیں تھم چکی تھیں، آنکھیں بند ہو چکی تھیں، قصہ ختم ہو چکا تھا۔
کولر آج بھی چل رہا ہے۔ فریز اب کبھی خراب نہیں ہوتا۔ سارے لوگ خوش ہیں، بہت خوش۔ مگر ساجد بیچارہ گونگا سا ہوگیا ہے، کچھ بولتا ہی نہیں۔ خاموش خاموش سا رہنے لگا ہے وہ! اس کی آنکھوں میں اب لفظوں کا، قصوں کا، داستانوں کا سلسلہ دور تک دکھائی دے رہا ہے۔
وہ قصے، وہ کہانیاں، وہ کردار جو ہمیں دکھائی دے رہے تھے، بہت کچھ اس سے آگے بھی تھا، فرد کی گمشدگی کا نوحہ کون سنائے؟
وہ معاشرہ جسے ماجد نے اپنے آنگن میں دیکھا تھا، ختم ہو چکا تھا۔پریوار چھوٹے ہو گئے تھے یا پھر اپنی ذات میں سمٹ گئے تھے۔ بیتے ہوئے ایک ایک پل کو یاد کرکے ماجد کی آنکھیں پھٹی رہ جاتی ہیں۔ ایک گہری چوٹ اس کے بھیتر کہیں سسک رہی ہے، وہ چوٹ جو جینے کا ہنر سکھاتی ہے۔
تیز گرمی میں باہر امس اور تیز دھوپ سے برا حال ہے اور کئی طرح کے Summer Infection کو لے کر لوگ احتیاط برت رہے ہیں اور ادھر شبانہ کے کمرے میں کولر کی ہواؤں میں لوگ کول کول ہورہے ہیں مگر ماجد کو کولر کی ٹھنڈی ہواؤں سے کسی کی سسکیاں سنائی دے رہی تھیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.