چکنی مٹی سے گھوڑے بیل اور بندر بناتے بناتے اس نے ایک روز آدمی بنایا اور اسے سوکھنے کے لئے دھوپ میں رکھ دیا۔۔۔
سخر دوپہر تھی، چلچلاتی دھوپ کے شعلے ویران اور کلر زدہ زمین پر جگہ جگہ رقص کر رہے تھے۔ چاروں طرف ہو کا عالم تھا۔ چرند پرند پناہ گاہوں میں چھپ گئے تھے۔ شرینہہ (سرس) کا بوڑھا پیڑ دھوپ میں چپ چاپ کھڑا جھلس رہا تھا اور زیناں اب تک روٹی لے کر نہیں آئی تھی۔
اس نے گاؤں سے آنے والے راستے پر دور دور تک دیکھا مگر چلچلاتی دھوپ کے سوا اسے کچھ نظر نہ آیا، اس نے چلم کو ٹٹولا وہ گرم تھی، مگر اس نے کش لیا تو اس کے منہ میں جل چکے تمباکو کی بو آئی۔۔۔ وہ اٹھ کر سائے میں آ گیا اور زیناں کی راہ دیکھنے لگا۔
ایک مدت سے اس کی خواہش تھی کہ وہ ایک ایسا باوا بنائے جسے کم از کم زیناں دیکھ کر ضرور دنگ رہ جائے اور اس کی کاریگری کی تعریف کرے۔ اس کے ذہن میں جوانی کے دنوں سے ایسے بہت سے لوگوں کی شکلیں اور قامتیں محفوظ تھیں، جن سے وہ کبھی نہ کبھی متاثر ہوا تھا۔ وہ چاہتا تھا دیکھے ہوئے ان بہت سے چہروں اور جسموں کو توڑ کر ان کے خمیر سے ایک نہایت عمدہ قدوقامت اور چہرے مہرے والا آدمی بنائے جو ہر طرح سے مکمل اور نادر ہو۔ اس نے اپنے ذہن میں اسے کئی بار مکمل کیا تھا مگر بار بار اس کی شکل و صورت اور ساخت اس کے ذہن سے اتر جاتی یا دھندلا جاتی۔ وہ اسے مکمل یکسوئی اور اطمینان سے بنانا چاہتا تھا، لیکن اطمینان نصیب نہ ہوتا تھا اسے ہر گھڑی زیناں کی طرف سے دھڑکا لگا رہتا تھا۔ کئی بار اس نے کوشش بھی کی مگر پھر اسے ادھورا چھوڑ دیا۔
کبھی ایسا ہوتا کہ اسے اس وقت یاد آتا جب مٹی کم ہوتی یا اچھی نہ ہوتی اور کبھی اس وقت جب وہ رات کو کھلے آسمان کے نیچے چارپائی پر لیٹ کر حقہ گڑگڑا رہا ہوتا۔ مگر آج گھوڑے، بندر اور بیل بناتے بناتے اچانک اس کے دل میں درد زہ کی سی ٹیس اٹھی اور اس نے اسے بنایا اور سوکھنے کے لئے دھوپ میں رکھ دیا۔
بیٹھے بیٹھے اس نے شرینہہ کی سوکھی ہوئی پھلی لے کر مروڑی اور بیج نکال کر گننے لگا، اسے خیال آیا کہ بوڑھے شرینہہ کے سوکھنے یا ٹوٹ جانے سے پہلے دوسرا شرینہ اگا دینا چاہیے لیکن پھر وہ کسی انجانے خیال سے اداس ہو گیا۔ اسی لمحے زیناں روٹی لے کر آ گئی، اس نے ہمیشہ کی طرح اطمینان کا سانس لیا پھر گھڑے سے پانی کا پیالہ بھرا اور منہ ہاتھ دھونے لگا۔ زیناں اس کے سامنے بیٹھ کر دوپٹے کے پلو سے پنکھا کرنے اور نظر نہ آنے والی مکھیاں اڑانے لگی پھر بولی،
’’تمباکو نہیں ملا۔۔۔ دکان والا پچھلے پیسے مانگ رہا تھا۔۔۔ تم کہو تو رمجے سے کچھ۔۔۔!‘‘
’’نہیں۔‘‘ اس نے چھاچھ کا پیالہ خالی کر کے رکھتے ہوئے کہا، ’’میں شام کو آ کر خود اس سے بات کر لوں گا فی الحال ایک آدھ چلم ہے کام چل جائےگا۔‘‘
’’میں تو کہتی ہوں۔‘‘ زیناں شرینہہ کی ڈالیوں سے چھن چھن کر آنے والی دھوپ کو ہاتھ کی پشت پر روک کر بولی، ’’دوپہر کو گھر آ جایا کرو۔۔۔ درخت بوڑھا ہو گیا ہے اور لوگوں نے اس کی ٹہنیاں کاٹ کاٹ کر اسے اور بھی ٹنڈ منڈ کر دیا ہے۔‘‘
’’یہ بڑا برکت والا ہے۔‘‘ اس نے کہا، ’’یہ نہ ہوتا تو بدھائی مانگنے والوں کو گھر تلاش کرنے میں دقت پیش آتی، سارے گاؤں میں یہی ایک تو شرینہہ ہے۔‘‘
وہ روٹی کھا چکا تو وہ برتن سمیٹنے لگی۔ اچانک اسے کچھ یاد آیا اور وہ بےقراری سے بولا۔
’’زیناں میں نے آج ایک کمال کی چیز بنائی ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’بوجھو تو۔‘‘
’’مرتبان‘‘ وہ بولی، ’’تم نے اچھا کیا جب بھی لسی مانگنے جاتی ہو چودھرانی مرتبان کا ضرور پوچھتی ہے۔‘‘
’’وہ بھی بنا دوں گا لیکن یہ ایک دوسری چیز ہے۔‘‘
’’اچھا اچھا۔‘‘ وہ ہنس پڑی۔ ’’مجھے پتہ چل گیا، جھانواں۔‘‘
وہ بھی ہنس پڑا کہنے لگا، ’’جھانواں تو نہیں پر ایک لحاظ سے جھانواں ہی سمجھو کیونکہ اس میں عقل تمیز نہیں ہے۔۔۔ میں نے باوا بنایا ہے۔‘‘
’’باوا؟‘‘
’’ہاں باوا اور ایسا بنایا ہے کہ بس جان ڈالنے کی کسر رہ گئی ہے تم دیکھو گی تو حیران رہ جاؤ گی کہ دنیا میں تم سے زیادہ خوبصورت چیزیں بھی ہیں یا بنائی جا سکتی ہیں۔‘‘
’’اچھا چلو دکھاؤ۔‘‘ وہ اشتیاق سے بولی۔
وہ اسے لے کر وہاں آیا جہاں اس نے ساری چیزیں دھوپ میں سوکھنے کے لئے رکھی تھیں مگر وہ یہ جان کر پریشان ہو گیا کہ گھوڑے، بیل، بندر اور دوسری سب چیزیں جوں کی توں پڑی تھیں مگر آدمی وہاں نہیں تھا۔ اس نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی دور دور تک چلچلاتی دھوپ اور چمکتا ہوا کلر پھیلا ہوا تھا کہیں آدمی نہ آدم زاد۔۔۔ پرندے تک گھونسلوں اور درختوں کی گھنی شاخوں کی تلاش میں نکل گئے تھے۔ وہ پریشان ہو گیا۔
’’پتہ نہیں آدمی کدھر گیا۔‘‘
’’سو بار کہا ہے۔‘‘ زیناں بولی، ’’دوپہر کے وقت آرام کر لیا کرو مگر تم مانتے ہی نہیں، مجھے ڈر ہے کسی روز تم سچ مچ سودائی ہو جاؤ گے۔‘‘
’’تمہیں یقین نہیں آیا۔‘‘ وہ شکایت آمیز لہجے میں بولا، ’’خدا کی قسم میں نے تمہارے آنے سے ذرا پہلے اسے خود اپنے ہاتھوں سے بنایا، آنکھوں سے بنا ہوا دیکھا اور یہاں رکھا تھا اور ابھی تو وہ اچھی طرح سے سوکھا بھی نہیں تھا۔‘‘
’’کہیں چلا گیا ہو گا۔‘‘ زیناں نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’کیا پتہ تمہارے لئے تمباکو لینے گاؤں چلا گیا ہو۔‘‘
اس نے نظریں جھکا لیں اور نڈھال نڈھال ساشرینہہ کے نیچے آ گیا، زیناں کچھ دیر خاموش رہی پھر ناخنوں سے درخت کے تنے کی کھال کھرچتے ہوئے بولی۔
’’تو تم نے سچ مچ باوا بنایا؟‘‘
’’تو اور کیا، میں تم سے جھوٹ بول سکتا ہوں؟‘‘
’’اگر ایسا ہے تو مجھے ڈر لگ رہا ہے۔‘‘ زیناں بولی، ’’تم گھر چلو۔۔۔ دیکھو یہ وقت ٹھیک نہیں ہوتا، ویسے بھی یہ سنسان جگہ مجھے تو پکی معلوم ہوتی ہے۔ ایک دن میں واپس جا رہی تھی تو ٹبے کے پاس سے مجھے ایسا لگا جیسے کسی نے میرا نام لے کر پکارا ہو۔۔۔ میں نے تمہیں نہیں بتایا تھا کہیں تم غلط نہ سمجھو۔۔۔ اللہ کی مخلوق۔‘‘
وہ کچھ کہتے کہتے رک گئی، پھر بولی،
’’پتہ ہے ایک بار ابا گدھے پر سوار کہیں جا رہا تھا اس نے دیکھا اس کے آگے آگے ایک اور شخص بھی گدھے پر سوار جا رہا ہے پھر دونوں غائب ہو گئے آدمی بھی اور گدھا بھی۔‘‘
ابا نے اتر کر دیکھا وہاں تک گدھے کے پاؤں کے نشان تھے جہاں سے وہ غائب ہوا تھا۔
’’میں ایسی باتوں کو نہیں مانتا۔‘‘ وہ بولا اور پھر انہوں نے باوے کا کیا کرنا تھا؟
’’اللہ جانے۔۔۔ میں تو کہتی ہوں گھر چلے چلو۔‘‘
’’نہیں زیناں۔۔۔ میں گھر میں چھپ کر کب تک بیٹھ سکتا ہوں اور پھر تمہیں پتہ ہے مجھے گاؤں میں آکر وحشت ہوتی ہے۔ پورے گاؤں میں ایک بھی آدمی ایسا نہیں ہے جو مجھے آدمی سمجھتا ہو۔ لے دے کے ایک رمجا ہے وہ بھی تمہاری وجہ۔۔۔‘‘
’’ایسی باتیں نہ کیا کرو دتےؔ؟‘‘ وہ اداس لہجے میں بولی، ’’مجھے پتہ ہے کہ تم نفرتوں کے ستائے ہوئے اور کئی پشتوں سے محبت کے لئے ترسے ہوئے ہو، لیکن میں جو ہوں۔۔۔ میری طرف دیکھو۔۔۔ میں بھی تو ہوں۔۔۔ تم تو پھر دن بھر کھلونوں سے کھیلتے رہتے ہو۔‘‘
’’اور تم نے جو اتنے سارے گھگھو گھوڑے پڑچھتی پر سجا کر رکھے ہیں؟‘‘
’’ہاں رکھے تو ہوئے ہیں مگر کیا فائدہ؟‘‘
’’لیکن تمہیں رب نے اتنا حسن دیا ہے کہ تم محض شیشہ دیکھ کر بھی وقت گزار سکتی ہو۔‘‘
زیناں کی سمجھ میں نہ آیا روئے یا اترائے۔ کچھ دیر چپ رہ کر بولی، ’’دتے تم پانی میں گھرے ہوئے پانی ہو اور میں آگ میں گھری ہوئی آگ۔ تمہیں کیا پتہ آگ کیا ہوتی ہے؟ تم آوی میں چیزیں پکاتے ہو لیکن تم نے خود آوی میں پک کر کبھی نہیں دیکھا۔‘‘
’’میں تو تمہیں پہلے ہی ناری سمجھتا ہوں۔‘‘
’’نہ اڑیا۔۔۔ مجھے خاکی ہی رہنے دے۔۔۔ میں تو ایک بھینس اور ایک گدھی کے عوض۔‘‘
’’بھینس اور گدھی کا ذکر بار بار نہ کیا کرو اگر میرے پاس قارون کا خزانہ ہوتا اور تم مجھے اس کے بدلے مل جاتیں تو بھی میں خود کو خوش قسمت سمجھتا۔‘‘
’’ذکر کیوں نہ کیا کروں۔۔۔ بھینس اب تیسرے چوتھے سوئے میں ہوتی اور گدھی۔‘‘
’’تم نہ آتیں تو میرا کیا بنتا۔۔۔ برادری والوں نے تو غریب سمجھ کر صاف جواب دے دیا ہوا تھا۔۔۔ میرا جنازہ‘‘
’’ہاں تمہاری روٹی کون پکاتا۔۔۔ کپڑے کون دھوتا اور تمہارا جنازہ کیسے جائز ہوتا؟‘‘ وہ اداس اور پریشان ہو گئی۔
وہ بولا، ’’اب تم گھر چلی جاؤ۔۔۔ میں اسے تلاش کرتا ہوں۔‘‘
’’دوسرا بنا لو۔‘‘ وہ برتن اٹھاتے ہوئے بولی، ’’آخر ایک باوا ہی تو تھا۔‘‘
’’دوسرا تو میں کسی بھی وقت بنا لوں گا۔‘‘ اس نے جواب دیا، ’’لیکن پہلا کدھر گیا۔‘‘
’’ہاں تم ٹھیک کہتے ہو وہ پہلا والا کدھر گیا۔‘‘
’’عجیب بات ہے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا۔۔۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔‘‘
’’کاش میں تمہاری کوئی مدد کر سکتی لیکن میری تو اپنی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا، اللہ اپنا فضل کرے۔۔۔ اچھا میں جاتی ہوں۔‘‘
وہ اٹھ کر چل دی۔۔۔ وہ اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا، گم صم کھڑا رہا۔ جب وہ ٹبے کے پاس پہنچ گئی تو اس نے اسے آواز دی۔
’’زیناں۔۔۔ کسی سے اس کا ذکر نہ کرنا۔‘‘
مگر زیناں نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ پتہ نہیں وہ مڑ کر دیکھنا نہیں چاہتی تھی یا آواز کی سرحد پار کر چکی تھی اسے پشیمانی ہونے لگی۔ اس نے زیناں کو پہلے کیوں تاکید نہ کر دی کہ وہ کسی سے اس کا ذکر نہ کرے، لوگ اسے پہلے ہی بیوقوف اور حقیر جانتے تھے، نئی بات سن کر اور ہنسی اڑائیں گے اور اس کا جینا دو بھر کر دیں گے۔ پھر اس نے چشم تصور سے دیکھا زیناں گلی کے موڑ پر کسی سے باتیں کر رہی تھی۔
’’رمجے۔۔۔ تیرے بھائیے نے آج آدمی بنایا۔‘‘
’’آدمی بنایا؟‘‘
’’ہاں اور وہ غائب ہو گیا۔‘‘
’’کون بھائیا؟‘‘
’’نہیں آدمی۔‘‘
’’بھائیا بھی تو آدمی ہے۔۔۔ کہو ہے کہ نہیں۔‘‘
’’ہے۔۔۔ مگر اس نے باوا بنایا تھا۔‘‘
’’دیکھ زینی۔۔۔ بجھارتیں نہ ڈالا کر۔۔۔ بھائیے کا باوا گم ہو گیا ہے تو تو اسے دوسرا بنا دے تو بھی تو کاریگرنی ہے۔‘‘
اس نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں ورنہ زیناں پتہ نہیں کیا کہہ دیتی۔ شام کو وہ گاؤں پہنچا تو اس کا خدشہ درست ثابت ہوا، سارے گاؤں میں باوے کے گم ہو جانے کی خبر پھیل چکی تھی۔
تنور، چوپال، مسجد اور بڑی دکان پر ہر جگہ لوگ اس کی سادگی اور بیوقوفی پر ہنستے اور وہ جدھر سے گزرتا اسے چھیڑتے۔
’’سنا ہے دتے۔۔۔ تیرا بندہ گم ہو گیا ہے؟‘‘
’’یار دتے۔۔۔ بڑا افسوس ہے تو نے ساری عمر میں صرف ایک باوا بنایا تھا وہ بھی چیل اٹھا کر لے گئی۔‘‘
مولوی صاحب نے لاحول پڑھ کر کہا، ’’جب شرک کے کام کرو گے تو ایسا ہی ہوگا۔ کم بخت بت بناتے ہو، یاد رکھو، اللہ ایسے لوگوں کی مت مار دیتا ہے۔‘‘
اسے بےحد رنج ہوا۔۔۔ زیناں کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اسے زیناں پر بہت غصہ آیا مگر وہ ضبط کر گیا۔ اسے پہلے ہی دھڑکا لگا رہتا تھا کہ وہ اس سے روٹھ نہ جائے اس کے پاس زیناں کو اپنے پاس رکھنے کے لئے کچھ بھی تو نہیں تھا۔ پتہ نہیں کاغذ کی یہ ناؤ اب تک کیسے سلامت تھی۔ وہ ہر روز گھر آتا اور اسے گھر میں پا کر متعجب ہوتا تھا۔۔۔ اسے دوپہر کو اکثر شبہ رہتا تھا لیکن وہ خلاف توقع ہر روز روٹی لے کر آ جاتی تھی۔ باوے والی بات پر اس نے گاؤں والوں کی پھبتیاں، طعنے اور باتیں سنیں اور برداشت کیں اور بظاہر ایسا رویہ اختیار کر لیا جیسے وہ زیناں اور گاؤں والوں سے خود مذاق کر رہا تھا مگر اندر ہی اندر اس کے دل میں گرہ سی پڑ گئی اور اسے عجیب طرح کی چنتا لگ گئی، آخر وہ کدھر گیا؟ کون لے گیا؟
زیناں کو اس کی بات کا یقین آ گیا اور وہ جلد ہی بھول گئی۔ لوگ بھی بھول گئے مگر وہ پریشان اور اداس رہنے لگا اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ جب اس کے اور زیناں کے سوا وہاں کوئی نہیں آیا تھا تو وہ کدھر گیا۔ زیناں اس سے پریشانی اور اداسی کا سبب پوچھتی تو وہ اسے ادھر ادھر کی باتوں میں ٹال دیتا۔
وہ گھگھو گھوڑے بناتا اور آوی میں پکاتا اور زیناں سر پر کھاری رکھے آس پاس کے دیہاتوں میں گلی گلی گھومتی اور کھلونے بیچتی رہی۔۔۔ شرینہہ کی ٹہنیاں کٹ کٹ کر گاؤں کے مختلف دروازوں پر سجتی رہیں۔ بہت سا وقت گزر گیا مگر اس کی الجھن دور نہ ہوئی۔
اس دوران اس نے شہر جا کر جیوتشی سے پوچھا۔۔۔ سائیں بہار شاہ کے میلے پر طوطے سے فال بھی نکلوائی اور پیر ہدایت اللہ سے تعویذ بھی لیا مگر اس کی الجھن دور ہوئی نہ اس کے ذہن سے باوے کا خیال محو ہوا کئی بار اس نے سوچا کہ وہ پھر سے بنا لے۔۔۔ سامنے بیٹھ کر سکھائے اور پکائے لیکن یہ سوچ کر اسے ہول آتا تھا کہ اگر وہ اس کے دیکھتے دیکھتے غائب ہو گیا تو؟
اس نے ہرپور میں سے اچھے اچھے کھلونے نکال کر گھر کی پڑچھتی پر محفوظ کئے ہوئے تھے اگر باوا پڑچھتی پر پڑا پڑا غائب ہو گیا تو وہ سچ مچ پاگل ہو جائےگا اور زیناں تو خوف اور دہشت کے مارے بیہوش ہو جائےگی اور گھر کے در و دیوار سے خوف کھانے لگےگی۔
موسم آتے جاتے رہے۔ رتیں بدلتی رہیں۔ بہار کے موسم میں نئی کونپلیں پھوٹتی رہیں اور برسات کے دنوں میں بادل امنڈ امنڈ کر آتے رہے۔ پھر ایک موسم برسات میں آسمان سے اس قدر پانی برسا کہ جل تھل ایک ہو گیا۔ سیلاب کا پانی اترا تو کلر زدہ زمین پر جا بجا گھاس اور طرح طرح کی بوٹیاں اگ آئیں۔
ایک ایسی صبح کو جب منڈیروں پر کوے کلول کر رہے تھے اور چڑیاں چہچہا رہی تھیں دتے کے گھر سے چلم کے لئے جلائے گئے اپلوں کا دھواں اور زیناں کی چیخیں ایک ساتھ بلند ہوئیں جو تھوڑی دیر بعد گھنگھریالے قہقہوں میں تبدیل ہو گئیں۔۔۔ اور اسے پتہ چلا کہ اس کے گھر کے آنگن میں ایک ننھا سا شرینہہ اُگ آیا ہے۔ پتہ نہیں شرینہہ کے بیج کب اور کیسے گھر میں آئے تھے۔ کیا خبر بیجوں کی کوئی پھلی زیناں کی کھاری یا چنگیر میں آ گئی ہو، کوئی بیج اس کے اپنے جوتوں کے ساتھ چپک کر وہاں پہنچ گیا ہو یا پھر ہوا کے جھونکے اسے اڑا لائے ہوں۔
’’شرینہہ برکت والا درخت ہے۔‘‘ اس نے سوچا۔ ’’اور اس کی نسل گاؤں میں ختم نہیں ہوئی بوڑھا شرینہہ ابھی کھڑا تھا کہ دوسرا اُگ آیا۔‘‘
پڑچھتی پر رکھے ہوئے کھلونوں کی گرد صاف کی گئی اور گھر کے اندر سارے فرش پر گوبر کا لیپ کیا گیا۔
زیناں ٹھیک ہو گئی اور کام کاج کرنے لگی تو وہ بھی ایک صبح کام پر روانہ ہوا۔ زیناں نے کہا، ’’دوپہر کو گھر آ جانا دتے۔۔۔ وہاں رہنا ٹھیک نہیں۔‘‘
’’کیوں ٹھیک نہیں؟‘‘
’’تمہیں یاد ہے وہ باوا؟‘‘
’’باوا؟‘‘ وہ چونک پڑا۔
’’ہاں وہی باوا۔۔۔ جس کے غم میں تم اتنا عرصہ اداس اور پریشان رہے۔‘‘
’’تو تم جانتی ہو؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’اور تمہیں یقین ہے میں نے بنایا تھا۔‘‘
’’ہاں مجھے یقین ہے کہ پورے گاؤں میں ایک ہی ایسا آدمی ہے جو ان چیزوں سے بھی محبت کر سکتا ہے جو اس نے نہ بنائی ہوں۔‘‘
اس نے پھٹی پھٹی نظروں سے زیناں کی طرف دیکھا اور اوزار اٹھا کر باہر نکل گیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.