Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پاروتی سے پارو تک

شبیر احمد

پاروتی سے پارو تک

شبیر احمد

MORE BYشبیر احمد

    جنگلی بھینسا ڈکرایا۔ زور سے زمین پر پاؤں مار کر خاک اڑائی۔ لیکن وہ ڈری نہیں۔ ڈرتی کیسے، وہ کوئی معمولی عورت نہیں۔ کالے پہاڑ جیسا وہ وحشی بھی معمولی بھینسا نہیں۔ سینگ کی نوک سے دنیا کو زیر و زبر کرنے کی قوت رکھتا ہے۔ تمام توانائی سمیٹ کر اس کی طرف لپکا۔ پاروتی پھر بھی نہیں گھبرائی۔ داؤ کے دستے پر گرفت مضبوط کی اور ڈٹی رہی۔ اس وحشی نے پاروتی کے پیٹ میں سینگ داخل کرنے کے لیے جوں ہی اپنا سر جھکایا، پاروتی نے کھچاک سے ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کر دیا۔ بھینسے کا سر دھم سے پاروتی کے قدموں میں آ گرا۔

    اور وہ چونک کر جاگ اٹھی۔ پاس لیٹا ہوا گاہک اچانک کھڑا ہو گیا۔ گھبرا کر پوچھنے لگا، ‘’کیا ہوا!’’

    ‘’کچھ نہیں۔’’ اس نے دیوار پر ٹنگی ہوئی گھڑی پر نظر ڈالی۔ رات کے دو بج رہے تھے۔ ‘’ہو گیا؟’’

    ‘’کیا!’’ گاہک اب بھی بکابکا کھڑا تھا۔

    ‘’میرا مطلب ہے آپ اپنا کام کر چکے؟ اگر باقی ہے تو آئیے۔ جلدی سے کر لیجیے۔ آپ کا وقت پورا ہو چلا ہے۔ جلدی کیجیے۔ وہ دوسرے گاہک کو لے کر آتا ہوگا۔’’ پاروتی پلنگ پر لیٹے لیٹے بےدلی سے بولی۔

    شمالی کلکتے میں بسے اس علاقے کا نام سونا گاچھی ہے، جو کبھی ثنااللہ غازی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہاں ایک بازار لگتا ہے، حسن کا بازار، جس کی رونق کبھی ماند نہیں پڑتی۔ تہوار کے موقعوں پر تو یہاں کی رونق کو چار چاند لگ جاتے ہیں اور درگا پوجا تو بنگال کا سب سے اہم تہوار ہے۔ اس موقعہ پر یہاں جسم فروشی کا کاروبار پورے شباب پر رہتا ہے۔ صبح تک خریداروں کی ریل پیل رہتی ہے۔ دور دراز علاقوں سے جسم فروشی کے اسباب مہیا کیے جاتے ہیں۔ نابالغ سے لے کر ادھیڑ عمر والی تک، کیا کچھ نہیں ملتا ہے! باربی ڈالز کی طرح شوکیس میں سجی نوعمر لڑکیاں ہمہ وقت تیار رہتی ہیں۔ بس کرارے کرارے نوٹ گنے کی دیر ہے! کم قیمت والیاں بھی حاضر خدمت رہتی ہیں۔ کیل کانٹوں سے لیس گلیوں کے نکڑوں میں، کوٹھوں کے برآمدوں پر، بند دکانوں کے چھجوں کے نیچے قطار باندھے اپنی جلوہ گری کا مظاہرہ کرتی ہوئیں اور آج تو مہا اشٹمی ہے۔ درگا پوجا کی اہم ترین رات۔ لیکن پاروتی نے پہلے ہی سے من بنا رکھا تھا۔ وہ اس مہا اشٹمی کو دھندے پر نہیں بیٹھےگی۔ پوجا گھومنے جائےگی۔

    بچپن میں پاروتی کے دل میں یہ خواہش انگڑائیاں لیا کرتی تھی کہ وہ مہا اشٹمی کی رات کلکتہ کے منڈپوں میں جائے۔ وہاں کی آرائش و زیبائش سے لطف اندوز ہو۔ ماں درگا کا درشن کرے۔ رنگ اور روشنی میںڈوبے ہوئے اس شہر کا دل کش نظارہ دیکھے۔ قسم قسم کی چاٹ کھائے، طرح طرح کے کھلونے خریدے۔ وہ ہر سال اپنے باپو سے ضد کیا کرتی تھی کہ وہ اسے مہا اشٹمی کے روز شہر گھمانے لے جائے۔ لیکن اس کے باپو کو تاڑی پینے سے فرصت کہاں تھی! وہ مہا اشٹمی کے روز تو دوپہر ہی سے مٹکا لےکر بیٹھ جاتا تھا اور ماں کی موت کے بعد تو پاروتی خانگی جھمیلوں میں ایسی الجھی کہ چھوٹی سی عمر میں ہی زندگی کی تمام رعنائیاں اوجھل ہو گئیں۔ لیکن جب سے دیب ملا اس کے من میں امید کی ایک کرن پھوٹنے لگی۔ اسے بھروسہ ہو چلا تھا کہ دیب اس کا دامن خوشیوں سے بھر دےگا۔ وہ اسے ماں درگا کی درشن کو ضرور لے جائےگا۔ لیکن پاروتی کا بھروسہ پاش پاش ہو گیا جب اس نے دیکھا کہ دیب بھی بو تلوں میں ڈوب جانے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ پاروتی خود پر قابو نہ رکھ سکی۔ جھلا اٹھی۔ زخمی شیرنی کے مانند ٹوٹ پڑی، ‘’کیوں رے بھڑوے، کام نہ کاج کا دشمن اناج کا! میری کمائی پر گل چھرّے اڑاتا ہے اور میری ہی باتیں ان سنی کرتا ہے۔ حرام خور کہیں کا! دو ہفتوں سے کہہ رہی ہوں، مہا اشٹمی کے دن ماں کی درشن کو چلوں گی اور تو ہے کہ ڈھالنے بیٹھ گیا۔ چل اٹھ!’’ یہ کہہ کر پاروتی نے دیب کی پیٹھ پر ایک زور دار تھپکی لگائی۔

    دیب پیشہ ور دلال تو تھا نہیں کہ خاموشی سے سہہ لیتا۔ طیش میں آکر ڈپٹ پڑا، ‘’چپ رہ حرامی، تو مجھے کیا کھلائےگی؟ تیری اوقات کیا ہے! تو جو بھی ہے میری وجہ سے ہے، ورنہ تجھے پوچھتا کون، اس کالے بھینسے کے سوا؟ اس کی رکھیل بن کر زندگی بھر اسی کے اشارے پر ناچتی رہتی۔ یہاں تجھ جیسی رنڈیوں کی کمی ہے کیا؟ میرا احسان مان کہ تجھے موٹی رقم مل جاتی ہے۔ تیرے پاس شہر کے جتنے بڑے بڑے گاہک آتے ہیں، سب میری بدولت۔ اگر میں نہ ہوتا تو ماسی اور اس کے دلال تیری بوٹیاں نوچ ڈالتے اور تو ہے کہ مجھے حرام خور کہتی ہے۔ کمینی، عورت ذات جو ٹھہری! دغاباز کہیں کی!’’

    اور دوسرے پل پاروتی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ وہ من ہی من بڑبڑائی، ‘’شاید میں نے اس کی کوئی دکھتی رگ چھیڑ دی ہے؟ کوئی پرانا زخم یاد آ گیا ہوگا، اس لیے وہ پینے بیٹھ گیا تھا اور میں نے اس کے زخم پر مرہم لگانے کے بجائے اس پر نمک چھڑک دیا۔ لیکن ایسے میں وہ مجھ سے اپنا دکھ بانٹتا کیوں نہیں؟ صرف تنہائی میں شراب پینے لگتا ہے۔’’

    اور پھر پاروتی نے عشوہ گری کا سہارا لیا۔ اسے پیچھے سے جکڑ لیا۔ شوخ چنچل اداؤں سے رجھانے لگی۔ نخرے بگھارتے ہوئے بولی، ‘’ناراض ہو گئے کیا؟ ارے تم تو سچ مچ روٹھ گئے! میں تو مذاق کر رہی تھی۔ لیکن ہاں، اس کا مطلب یہ نہیں کہ مجھے تم پر غصہ نہیں آتا ہے۔ آتا ہے، بہت آتا ہے۔ اتنے دنوں سے تم میرے ساتھ رہتے ہو، مگر مجھے اس لائق نہیں سمجھتے کہ مجھ سے اپنا دکھ بانٹو۔ پر آج میں نہیں چھوڑنے والی۔ بتانا ہوگا۔ آج، بتانا ہوگا۔ تم نے خودکشی کیوں کرنی چاہی تھی؟ بتاؤ نا، بتاؤ نا؛ ہونہہ۔۔۔’’ وہ دیب کی پیٹھ پر ہلکے ہلکے مکے مارنے لگی۔

    سورج ڈھل چکا تھا۔ مغربی افق پر شفق کی لالی پھیل چکی تھی۔ ہگلی ندی کی جانب سے آنے والی ہوائیں ہلکی ہلکی خنکی کا احساس دلا رہی تھیں۔ دیب کے بڑے بڑے گھنگرالے بالوں سے اٹھ کھیلیاں کر رہی تھیں۔ اب پاروتی کو سچ مچ دیب پر پیار آنے لگا تھا۔ اس نے اسے پوری قوت سے بھینچا۔ لیکن وہ بت بنا کھڑا رہا۔ کھڑکی سے باہر آسمان پر اڑتے ہوئے چھوٹے چھوٹے سنہرے مٹیالے بادلوں کو ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا۔

    پاروتی نے کئی بار شرارت سے اس کے کان پر پھونکیں ماریں؛ دانت اور زبان سے کان کی لو کو چھیڑا۔ پیٹھ پر گرم گرم سانس کی دھاریں چھوڑیں، گردن پر تپتے ہونٹ رکھے۔ لیکن وہ تھا کہ بت کا بت بنا، افق پر نظریں جمائے کھڑا رہا۔

    مگر پاروتی کب ہار ما ننے والی تھی۔ اسے جھنجوڑکر بولی، ‘’دیبو آج تمہیں بتانا ہی ہوگا۔ مجھے پتہ ہے، تم اندر سے اتنے سخت نہیں، جتنے نظر آتے ہو۔ بتاؤ نا، کیا ہوا تھا۔’’

    ‘’سننا چاہتی ہو؟’’ دیب نے اپنے جسم کو حرکت نہیں دی، محض ہونٹ ہلائے، ‘’تو سنو۔ اس روز جو ہوا اس کی وجہ بھی عورت تھی۔ چندر مکھی! چاند کی طرح حسین تھی وہ! بہت پیار کرتا تھا اس سے میں۔ بہت پیار کرتا تھا۔’’

    ‘’چندر مکھی!’’ پاروتی نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔

    ‘’ہاں، چندر مکھی، چاند جیسی خوبصورت تھی وہ۔ میری بیوی!’’

    ‘’کیا ہوا، بے چاری مر گئی؟’’ پاروتی نے افسوس ظاہر کرنا چاہا۔

    ‘’نہیں، بھاگ گئی! میرے ایک دوست کے ساتھ!’’ دیب نے فرش پر نظریں جماتے ہوئے کہا۔

    ‘’اف، تم جیسے آدمی کو چھوڑ کر! کیسی بےوفا تھی!’’

    ‘’نہیں وہ بےوفا نہیں تھی۔ وہ عورت تھی بس۔ ماں بننا چاہتی تھی۔ بھاگ جانا اس کی مجبوری تھی۔’’

    ‘’بھلا یہ کوئی مجبوری ہوئی؟’’ پاروتی نے زبان کے ساتھ ساتھ ہتھیلیوں کو بھی جنبش دی۔

    ‘’ہاں، وہ مجبور تھی، اپنے عورت پن کے ہاتھوں!’’

    ‘’عورت پن کے ہاتھوں مجبور! نہیں وہ بدنصیب تھی۔ ہوس کا شکار ہو گئی۔ گھر کی عظمت اور شوہر کی محبت کو نہ پہچان سکی۔’’ پاروتی کی آواز بھرّا گئی۔ اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ آنسو کی دو چار بوندیں دیب کے شانے پر بھی ٹپک پڑیں۔

    دیب نے مڑ کر دیکھا۔ پاروتی نے کپکپاتے ہوئے لہجے میںڈھارس بندھائی، ‘’تم تو مرد ہو! تم کیوں جی چھوٹا کرتے ہو؟ دیکھو، میری طرف دیکھو، ‘’پاروتی نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا، ‘’تم کیا سمجھتے ہو، مجھے اپنا جسم بیچنے میں سکھ ملتا ہے؟ میں اس منڈی میں اپنی مرضی سے آئی؟ لائی گئی ہوں۔ اپنے باپو کی وجہ سے۔ اسی کی وجہ سے یہاں ہر روز تل تل مرتی ہوں۔’’ پاروتی نے اپنا پرانا زخم کریدا، ‘’لالٹو کو جنم دے کر ماں چل بسی۔ میں چھوٹی تھی۔ باپو دن بھر کھیت میں مزدوری کرتا اور رات بھر تاڑی پیتا۔ میں اپنے ننھے بھیا کی دیکھ بھال کرتی۔ اب وہی میرا سب کچھ تھا۔ چھوٹی سی عمر میں چولہا چوکا، لپائی پوتائی، تمام کام کیا کرتی تھی۔’’

    دیب کو حیرت ہوئی، یہ کیا، میری کہانی سننے کے بجائے اس نے اپنا قصہ چھیڑ دیا! لیکن وہ خاموش رہا۔ پاروتی کہتی گئی، ‘’لالٹو بڑا نٹ کھٹ تھا۔ دن بھر دیدی دیدی پکارتا ہوا میرے آگے پیچھے منڈلاتا رہتا تھا۔ میں بھی اس پر جان چھڑ کتی تھی۔ لیکن دو دنوں کے بخار، صرف دو دنوں کے اس ڈینگو نے میرا لالٹو۔۔۔’’ اس کی آواز سسکیوں میں گم ہو گئی۔

    کچھ دیر تک دونوں چپ رہے۔ خود کوسنبھال کر پاروتی پھر گویا ہوئی، ‘’آج وہ اگر ہوتا تو اٹھارہ سال کا ہوتا۔ تمہاری طرح لمبا تگڑا ہوتا، میرا بھائی!’’ پاروتی کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔

    دیب نے پاروتی کو چھاتی سے چمٹا کر تسلی دی۔ آہستہ سے پلنگ پر بٹھایا۔ پاروتی نے گفتگو جاری رکھی، ‘’اور ایک دن باپو کو لقوہ مار گیا۔ وید جی نے شہر لے جانے کو کہا۔ میں باپو کو شہر لے آئی۔ یہاں آئی تو مہیش بابو کی نگاہ مجھ پر پڑی۔ انھوں نے باپو کو اسپتال میں بھرتی کرایا۔ علاج کی ذمہ داری اپنے سرلے لی اور۔۔ اور اس کے بدلے مجھے یہ قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔ وہ مجھے اسپتال کا نام نہیں بتاتا۔ کہتا ہے، وہ اب بھی میرے باپو کا علاج کروا رہا ہے۔’’

    ‘’تو اس سے پوچھتی کیوں نہیں؟’’ دیب نے کہا۔

    ‘’میں نے بہت کوشش کی مگر وہ بتاتا ہی نہیں اور میں جان کر کروں گی بھی کیا؟ باپو کے سامنے جاؤں گی کس منہ سے؟ اور ویسے بھی بیٹی کو جوان دیکھ کر ماں باپ کو فکر ہو جاتی ہے، اس کی شادی کی۔’’

    پاروتی نے گاؤ تکیہ اپنی گود میں رکھا، اس پر کہنیاں ٹیکیں اور ہتھیلیوں سے رخسار تھام کر کہا، ‘’میری شادی تو ہوئی نہیں پر دلہن ہر دن بنتی ہوں۔ ہر روز مانگ سجاتی ہوں۔ نئے نئے دولہوں کے ساتھ سیج چڑھتی ہوں۔ سسرال جانا ہم جیسوں کے نصیب میں کہاں؟ آسِن کے اسی مہینے میں ششٹی کے دن ماں درگا سسرال سے میکے آتی ہے۔ میرا تو میکا بھی نہیں! میکے میں مہا اشٹمی کے دن دھوم دھام سے ماں کی پوجا ہوتی ہے۔ سَندھی پوجا۔ سنا ہے اس وقت ماں کے چہرے پر تیج ہوتا ہے۔ مہیسہ سُر کو مارنے کا تیج! میں وہ تیج دیکھنا چاہتی ہوں اور اس سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ اس ناپاک گھر کی مٹی تیرے لیے اتنی ضروری کیوں ہے کہ تو اسے آباد رکھنے کے لیے ہم جیسی بدنصیبوں کو وہاں پہنچا دیتی ہے۔ کیا تو بھی خود غرض ہے؟ بس ایک بار، صرف ایک بار تم مجھے وہاں لے چلو۔ میں تمہارا احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گی۔’’

    اور دیب نے پیار سے اس کے ماتھے پر ہاتھ پھیرا، ‘’ٹھیک ہے، میں تجھے لے جاؤں گا۔ جا، تیار ہو جا۔’’

    پاروتی آنسو پونچھتے ہوئے کھڑی ہوگئی۔ اندر والے کمرے کی طرف لپکی۔ دیب نے بوتلیں واپس الماری میں رکھ دیں۔ بیٹھے بیٹھے کچھ سوچ رہا تھا کہ دروازے پر کسی نے دستک دی۔ دیب نے دروازہ کھولا۔ دیکھا موسی ایک گاہک لائی ہے۔ اس نے دھیرے سے دیب کے کان میں کہا، ‘’تگڑی اسامی ہے۔ پورے پانچ ہزار کا ڈیل ہے۔ صرف دو تین گھنٹے کی بات ہے۔ نوکا میں۔ اگر چیز بھا گئی تو، سمجھو اسامی پرماننٹ۔’’

    ‘’نہیں موسی نہیں، وہ آج نہیں جائےگی۔’’

    ‘’ہائے اللہ، نہیں جائےگی! کیوں، کالا سانڈ آئےگا کیا؟ مگر وہ تو سنیچر کو آتا ہے۔’’ موسی نے پلو سے پیٹھ اور گردن کا پسینہ پونچھتے ہوئے کہا۔

    ‘’نہیں، مہیش بابو کی و جہ سے نہیں۔ پارو کو ضد چڑھی ہے، پوجا گھومنے کی۔’’

    ‘’ہائے اللہ، پوجا گھومنے کی! اس کا دماغ تو نہیں پھر گیا؟ سیزن کا ٹائم ہے۔ گاہگ پورے پاڑہ میں کیڑ ے کی طرح کلبلا رہے ہیں اور اسے پوجا گھومنے کی پڑی ہے۔ ٹھہر، میں ابھی اس کی خبر لیتی ہوں۔’’

    دیب نے کہا، ‘’خبر کیا لوگی۔ اگر نہیں جائے گی تو چھوڑو۔ یہاں رنڈیوں کا کون سا اکال ہے۔’’ یہ کہہ کر دیب نے اندر سے دروازہ بند کر لیا۔

    مگر موسی کب ماننے والی تھی؟ سارا چکلا سر پر اٹھا لیا، ‘’پارو، اری او چھنال ماگی، کہاں گئی رے، مر گئی کیا؟ دروازہ کھول!’’

    موسی کی آواز سن کر پاروتی اندر والے کمرے سے نکل آئی۔ چوڑے لال پاڑھ والی سفید ریشمی ساری میں ملبوس۔ یوں لگا جیسے پاروتی نے درگا کا روپ دھار لیا ہو۔ دیب بت بنا کھڑا رہا۔ آنکھیں پھاڑے دیکھتا رہا!

    باہر موسی اب بھی گرج رہی تھی۔ دیب نے دروازہ کھولا۔ دیب کے چہرے پر ناراضگی کے آثار دیکھ موسی کی آواز مدھم پڑ گئی اور پاروتی کی آب وتاب دیکھ کر موسی بھی دنگ رہ گئی۔ ہکلاتے ہوئے بولی، ‘’دیب۔۔۔ کہہ رہا ہے۔۔۔ آج تو دھندے۔۔۔ پر نہیں بیٹھےگی۔۔۔ اتنا اچھا مارکٹ چھوڑ کر۔۔۔ پوجا گھومنے جائےگی!’’

    اس کے بعد دیب سے مخاطب ہو کر عاجزی کرنے لگی، ‘’ارے دیبو، تو ہی اسے سمجھا۔ سال بھر بعد سیزن آتا ہے اور یہ حرامی بھری تھالی میں لات مارنے پر تلی ہے۔ اری ہم رنڈی ماگیوں کی کیسی ذات اور کیسی پوجا! جب تک جوانی ہے چار پیسے کما لے۔ پھر کوئی پھوٹی کوڑی کو نہیں پوچھےگا۔ میں اتنی تگڑی پارٹی لائی ہوں اور تو گھر آئی لکشمی کو ٹھکرا کر پوجا گھومنے جا رہی ہے۔ پاپ لگےگا، کہہ دیتی ہوں۔ پاپ لگے لگا، ہاں۔’’

    دیب بولا، ‘’موسی، میں نے کہا نا۔ جب وہ بیٹھنا نہیں چاہتی ہے تو چھوڑ دے اسے۔ اتنا زور کیوں لگا رہی ہے؟’’

    ‘’اری اس کی متی ماری گئی ہے! اتنا اچھا گاہک کوئی چھوڑتا ہے بھلا!’’

    جب گاہک نے یہ مہابھارت دیکھی تو وہ دبک کر چل دیا۔ موسی بھی چیختی چلاتی ہوئی نیچے اتر گئی۔ بلا ٹلتے ہی پاروتی مارے خوشی کے دیب سے لپٹ گئی۔ بولی، ‘’دیبو، میں بہت خوش ہوں۔ میں کبھی مہا اشٹمی کے دن ٹھاکر دیکھنے نہیں گئی۔ آج جاؤں گی۔ ماں درگا کی سَندھی پوجا دیکھوں گی۔ دیکھوں گی مہیسہ سُر کے بَدھ کے سمئے ماں کا جلال! اس کا وجے اتسو! باغ بازار، اہری ٹولہ، جوڑا بگان، ٹالا پارک، محمد علی پارک، کالج اسکوئر، سیالدہ سبھی پنڈالوں میں جاؤں گی! الگ الگ روپ میں ماں شکتی کی درشن کروں گی!’’

    دیب نے اس کا رخسار چھو کر کہا، ‘’میں ابھی آیا۔’’

    وہ اندر والے کمرے میں چلا گیا۔ اس نے کپڑے بھی نہیں بدلے تھے کہ ایک بار پھر دروازے پر دستک سنائی دی۔ ایک للچائی ہوئی آواز آئی، ‘’ارے او پارو، پارو میری جان، دیکھ میں آ گیا!’’

    دیب چونک پڑا۔ پاروتی تھرا گئی اس نے ڈرتے ڈرتے دروازہ کھولا۔ خوف و دہشت سے اس کی نگاہیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ وہ صرف اتنا ہی کہہ پائی، ‘’مہیش بابو، آپ!’’

    سفید دھوتی کرتا پہنے ساٹھ سال کا کالا جنگلی بھینسے جیسا شخص دائیں ہاتھ میں پیتل کا چھوٹا پان بٹا اور بائیں سے دھوتی کا کونچا تھامے اچانک یمراج کی مانند اندر گھس آیا۔ دھوتی کے کونچے کو دائیں ہاتھ کی کلائی پر رکھا اور بائیں ہاتھ سے پان بٹے سے پان کی ایک گلوری نکال کر اپنے مٹیالے ہونٹوں کے درمیان ڈال لی۔ دوسری گلوری نکال کر پاروتی کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا، ‘’ارے میری جان، تو تو پاروتی بن گئی ہے، لے پان کھا، لے نا، منہ میں دباتے ہی مستی چھا جائےگی، تیری قسم!’’

    مہیش بابو کو دیکھ کر پاروتی کا خون کھول اٹھتا تھا۔ انھی کی وجہ سے وہ کوٹھے پر بٹھائی گئی تھی اور آج ان کی بے وقت آمد سے پاروتی کا پارہ مزید چڑھ گیا۔ اس نے ناگواری سے پوچھا، ‘’آپ آج کیا لینے آئے ہیں؟’’

    ‘’لگتا ہے میرا آنا تجھے اچھا نہیں لگا۔ لیکن میں کیا کروں پارو؟ تجھ سے ضروری کام جو آن پڑا ہے۔ پوجا کی چھٹی ہے۔ چار دنوں سے دکان پر تالا چڑھا ہے۔ تنہائی میں تیری یاد ستانے لگی، اس لیے چلا آیا۔’’

    ‘’آپ جایئے۔ آج مہا اشٹمی ہے۔ میں سندھی پوجا دیکھنے جا رہی ہوں؟’’

    ‘’ارے تو تو خود درگا ہے۔’’ مہیش بابو نے اسے نیچے سے اوپر تک نہارتے ہوئے کہا، ‘’لے میں مہیسہ سر بن جاتا ہوں۔ کر دے میرا بَدھ۔ سجالے یہیں منڈپ۔ کر لے یہیں سَندھی پوجا۔’’

    یہ کہہ کر مہیش بابو گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور اپنی چھاتی کھول کرپارو کی جانب بڑھا دی۔ بولے، ‘’دیوی پاروتی، لے بھونک دے اپنے نینوں کی کٹاری میرے سینے میں!’’

    ‘’نہیں، جائیے آپ، چلے جایئے!’’ پارونے دھمکی آمیز لہجے میں کہا۔

    ‘’نہیں دیوی پاروتی، میںنہیں ٹلنے والا۔ بس، تو میرا بدھ کر ڈال!’’

    پاروتی آپے سے باہر ہو گئی۔ پلنگ کے نیچے سے داؤ نکالی اور کھینچ کر کھڑی ہو گئی۔ لیکن مہیش بابو کی پیشانی پر بل تک نہیں پڑا۔ انھوں نے پاروتی کے آگے اپنا سر جھکا دیا اور بڑے اطمینان سے کہا، ‘’لے میری درگا، اس مہیسہ سُر کا سر حاضر ہے۔ کاٹ ڈال، بدھ کر دے اس کا۔ ایک جھٹکے میں جسم سے جدا کردے۔ یہیں درگا منڈپ، یہیں سندھی پوجا، یہیں مہا اشٹمی! لیکن میں تجھے جو خبر سنانے آیا تھا، پہلے وہ سن تولے۔ اس کے بعد بڑے شوق سے یہ داؤ میری گردن پر مار دینا۔’’

    پاروتی داؤ کھینچے کھڑی تھی۔ غصے سے اس کی آنکھیں لال ہو رہی تھیں۔ اس کی نگاہوں کے آگے کل رات والا خواب پھرنے لگا تھا۔

    ‘’بتاؤں، دیوی پاروتی؟’’ مہیش بابو نے کچھ دیر ٹھہر کر آنکھیں مٹکائیں اور خود ہی گویا ہوئے، ‘’تو سن کل رات تیرے باپو کو پھر دل کا دورہ پڑا تھا۔ بڑے زوروں کا! ارے خیر منا کہ مجھے خبرمل گئی۔ میں پہنچ گیا۔ تو میرے لیے اتنا کچھ کرتی ہے آخر میری بھی کچھ ذمہ داری بنتی ہے! میں نے اسے سرکاری اسپتال سے نکال کر بڑے اسپتال میں ڈال دیا ہے! بڑا اسپتال کا مطلب سمجھتی ہے نا؟ بڑا مہنگا اسپتال! تو گھبرا مت۔ میں نے دیکھ بھال کے لیے ایک نوکر لگا رکھا ہے!’’

    پاروتی ہنوز داؤ کھینچے کھڑی تھی۔ مگر اس کی آنکھوں میں غصہ نہ تھا، آنسو تھے۔ نگاہوں کے آگے کل رات کا خواب نہیں، بیمار باپ کا چہرہ تھا۔ وہ حواس باختہ کھڑی رہی!

    اور پھر ایک دم سے پورا منظر بدل گیا۔ ماں درگا مہیسہ سُرکے آگے خود سپردگی کر رہی تھی۔ اس کے قدموں میں ہتھیار ڈال کر گڑگڑا رہی تھی۔ ہاتھ جوڑ کر عاجزی کر رہی تھی، ‘’نہیں میں درگا درشن کو نہیں جاؤں گی۔ سندھی پوجا نہیں دیکھوں گی۔ آپ جیسا کہیں گے ویسا ہی کروں گی۔ میرے لیے تو آپ ہی بھگوان ہیں! آپ ہی سرو شکتی مان! آپ کی پوجا میرا دھرم ہے۔ آپ جو کہیں گے، جیسا کہیں گے، وہی کروں گی۔’’

    دیب پھر بت بن گیا۔ دروازے کی اوٹ سے ٹکٹکی باندھے فقط دیکھتا رہا۔

    اس عظیم شہر کی فضا ڈھاک ڈھول کی آواز اور ماں درگا کی جے جے کار سے گونجنے لگی!

    سَندھی پوجا شروع ہو چکی تھی!

    (ایوانِ اردو، دہلی، مارچ ٢٠٠٨ء)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے