Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پاسا

MORE BYعلی امام نقوی

    کہانی کی کہانی

    "کہانی مذہبی انتہا پسندی کے ایسے گروہ کے بارے میں بات کرتی ہے، جو ایک مصنف کو تاریخ کو دوبارہ لکھنے کا مشورہ دیتا ہے۔ اس تجویز پر گروہ کے لوگوں اور مصنفین کے درمیان کافی بحث مباحثہ بھی ہوتا ہے۔ مگر اس کے باوجود مصنف تاریخ کی اس بازیافت میں ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہتا ہے۔"

    ’’ہم نے تمہیں چنا ہی اس کارن ہے کہ تم ساہتیہ اور اتہاس کی باریکیوں کا گیان رکھتے ہو۔ تمہیں کیول یہ کرنا ہے کہ ہماری کلپنا انوسار ایک کتاب لکھو۔‘‘

    ’’آپ کی کلپنا کے انوسار؟ آپ۔۔۔ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟

    ’’ہاں اس اس کتاب کا منسپٹ ہمارا ہوگا۔ اتہاس لکھنے والوں نے کچھ دیکتیوں کو ہسٹری کے کوڑے دان میں ڈال دیا ہے۔ سچ تو یہ ہے وہی ہمارے پرش تھے۔‘‘

    ’’وہ مہان تھے یا نہیں؟‘‘

    ’’ہمیں اس کا گیان نہیں ہے۔ پر ہمارے کچھ پرکھے کہہ گئے وہ بھی مہان تھے اور اب تو سرکار ہماری ہے دیش کی بڑی آبادی میں ہم ہیں۔ آج تک جو بھی گذری ہے اس پر تمہیں زیادہ شبد خرچ کرنے ہیں۔‘‘

    ’’پراس سے۔۔۔ ہوگا کیا؟‘‘

    ’’ہوگا۔ اوشیہ ہوگا ہمارے دیش پہ شدھ سے سدھانتک اور ادھیاتمک سنسکرتی لاگو ہوتی۔‘‘

    ’’مجھے۔۔۔ مجھے تو نہیں لگتا میرا لیکھا چوکھا آپ کو کامیاب کر سکےگا۔‘‘

    ’’وہ تو بعد کس سمسیا ہے پترشلا۔ تمہیں کتاب لکھنی ہے۔ تمہاری تحریر لیکھ نہیں ہوگی، بجلی ہوگی، بجلی، جلا کر بھسم کرنے والی بجلی۔ تم صرف لکھو گے شلا کے بیٹے، سرکار اپنے پریس سے اسے پرکاشت کرےگی اور یہ بھی یاد رکھو، اس کتاب کو تم دس بیس یا سو پچاس کے لیے نہیں لکھو گے۔ اسے لاکھوں کے سامنے سناؤگے۔ کنبھ کے مجمع میں۔

    سوچنے اور ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے پتر شلا! ہم کہہ چکے سرکار ہماری ہے۔ پولیس ہماری ہے۔ سین ہماری ہے اور یہ سب پانے کی خاطر ہم نے پورے پچاس برس انتظار کیا ہے۔ وہ جو آج ہم پر انگلی اٹھا رہے ہیں، تم دیکھو تو ان کی اپنی تین انگلیاں خود ان کی اور اٹھی ہوئی ہیں۔ ان کے من کا چور ان کی اپنی طرف اٹھی ان کی اپنی انگلیوں کو سیدھا کرنا چاہتا ہے پر ان کا انگوٹھا انگلیوں کو دبائے ہوئے اور۔۔۔ پیارے پتر شلا! ستیہ تو یہ ہے آج جو ہماری طرف انگلی اٹھا کر ہمارے وچاروں کا کھنڈن کررہے ہیں انہوں نے ان کے پرکھوں نے بھی یہی چاہا تھا۔ پر اس سمے ان وچاروں کے کھلکر پرکٹ کرنے کا موسم نہیں تھا اس پل ضرورت تھی، ہم ایکتا کے گیت گائیں کیونکہ ہمیں ستہ تک پہنچنے کے لیے اسی کی اوشکتا تھی اور جب وے سامنے آئی تو ہم نے زبان کھولی تھی۔ آنکھوں میں ان کی بھی چمک پیدا ہوئی تھی پر انہوں نے موسم کی اور اشارہ کیا تھا اور کہا تھا۔ آج ضرورت ہے آپ سب ان وچار دھارائوں پر چپکے چپکے کام کرتے رہیں۔ ہم بھی مانتے ہیں ہندو تو ہی قوم پرستی ہے۔ پر اس کی بات کھل کر کرنے کا سمے یہ نہیں ہے۔

    شلا کے بیٹے! ہمارا وشواس کرو۔ وے سیکولرازم کی مالا جپتے رہے، ہم نے دیش کی شالائوں میں اسے سبوتاژ کرنے کا کام آرمبھ کیا۔ سنسکرت گیان کے نام پردیش کے کلچر اور اتہاس کے سارے میں چھوٹی چھوٹی کتابیں چھاپی گئیں، شکشاسنسدوں، کندریوں میں پڑھائی گئیں اور یہی کام صرف وہاں نہیں ہوا ہے۔۔۔ سینا سے جو لوگ ریٹائر ہو کر کیول پینشن پہ گزار ا کر رہے تھے ہم نے انہیں اپنے یووکوں کو تیار کرے پر مجبور کیا ہے۔ کیول اس لیے کہ اس دیش میں سدھ سدھانتک اور ادھیاتمک سنسکرتی ہو۔‘‘

    ’’مجھے سوچنے کے لیے تھوڑا سا وقت دیجئے۔‘‘

    ’’سوچو، اوشیہ سوچو اور ساتھ ساتھ یہ بھی وچار کرنا کہ ہماری سرکار صرف تم ہی کو پہلا اوسر نہیں دے رہی ہے۔ ہم سے پہلے جوستہ میں تھے انہوں نے بھی یہ کام کئے ہیں تم شلاپتر ہو، چھوٹی سی آیو میں تم نے بڑا نام کما لیا ہے۔ مگر آج بھی تم نے دنیا پراپت نہیں کی۔ پرکاشن سنستھائیں تمہیں آج بھی ہاتھوں ہاتھ نہیں لے رہی ہیں۔ تمہیں اپنی کتاب پرکاشت کرنے میں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اب ایسا نہیں ہوگا۔

    ’’وشواس کرو، ویسا نہیں ہوگا۔ آؤ، ہم سب پراتھنا کریں۔۔۔ پالن ہار ان سبھی کو اتنی بدھی دے دے کہ انہوں نے جو کچھ کھویا ہے۔ اسے پانے میں سپھل ہو جائیں۔‘‘

    ’’وہی تویہ پانا چاہتے ہیں گرودیو۔‘‘

    ’’انہیں تو یہی پتہ نہیں، انہوں نے کھویا کیا ہے۔‘‘

    ’’آپ جانتے ہیں؟‘‘

    ’’ہاں، جانتا ہوں۔ آج جو کچھ بھی پانے کی کامنا یہ کررہے ہیں، یہ وہ تو ہرگز نہیں جو کھویا گیا۔‘‘

    ’’انہوں نے کھویا کیا ہے گروجی؟‘‘

    ’’اپنا دھر، دھرم کی شدھ شکھستا اور اس پر یعنی اس کی راہ پر چلنے کی سکتی کھوئی ہے۔ یہ۔۔۔ یہ تو وہی کررہے ہیں جو انطاکیہ والوں نے کیا تھا۔ انہیں سمجھانے کے لیے ایک ہی سمے میں ایک کے بعد ایک دو نہیں تین تین مہان ویکتی آئے ہیں۔ مگر انہوں نے ان تینوں کا کہنا نہیں مانا۔‘‘

    ’’ہم میں اور ان میں کیا کچھ ایک سا ہے گروجی؟‘‘

    ’’وچار دھارا ایک ہے۔‘‘

    ’’اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ دھرم کی اصل شکھشا انہوں نے بھی کھولی تھی‘‘

    ’’کھوئی نہیں بدل دی تھی۔‘‘

    ’’ایسا کیوں کیا تھا، انہوں نے گرودیو؟‘‘

    ’’اس لیے کہ لابھ کیول گنے چنے لوگوں کو ہو۔‘‘

    ’’پر، وہ تو اوروں کا بھی خیال رکھتے ہوں گے۔

    ’’کہتے تو یہی رہے پر انہیں اوروں کا خیال تب آیا جب ان کے کرموں کی وجہ سے جنتا بھوکوں مرنے لگی۔ اسی شکھشا کو ماننے والے آج اس دھرتی پر جہاں جہاں ہیں ان کے آس پاس کے لوگ باگ آج بھی پریشان ہیں اور ان کے گیانیوں نے اپنے اتیا چاروں پر پرداہ ڈالنے کے لیے ہی آئی ایم ایف ڈبلیو ٹی او اور جیون سرکھشا جیسی سنستھائیں بنا رکھی ہیں۔ وہ بھی ان ہی وچار دھارائوں کے مالک ہیں جو اپنے دیش میں رام راجیہ چاہتے ہیں۔ تم جو سماچار مجھ تک پہنچاتے ہونا اس کی جان کاری مجھے ہے۔

    ’’میں بہت اچھی طرح جانتی ہوں، اپنے قلم سے گھر بھر کا پیٹ پوری طرح نہیں بھر پا رہے ہو۔ لکھتے ہو اور جمع کرتے رہتے ہو۔ یہ ۔۔۔ دیکھیں تو یہ ایک اچھا اوسر تمہیں مل رہا ہے۔ اس سے بہت کچھ تم پالو گے۔ پر اس سے لابھ اٹھانے سے پہلے تمہیں یہ بھی سوچنا ہوگا شلا، میں نے یا تمہارے دونوں بچوں نے تم سے کچھ کم ہونے کی شکایت کی ہے؟ ہم کر سکتے تھے شکایت کہ ہمارے جیون میں ایک پرکارکی ہلچل نہیں ہے۔ تم یہ پوچھنا کہ کیسی ہلچل؟ بلکہ تمہیں اس وشے پر خود سوچنے کی ضرورت ہے۔ تمہاری سوچ کوا یک راہ خود ہی مل جائےگی، اگر تم اپنی آنکھیں کھلی رکھوگے، پر صرف آنکھیں کھولنے ہی سے کام نہ چلےگا۔

    ہمیں سوچنا ہوگا، جو ہم دیکھ رہے ہیں وہ سب ویسا کیوں ہے جیسا دکھائی دے رہا ہے؟ ویسا کیوں نہیں جیسا ہونا چاہیے۔ پلیز تم مجھ سے نہ پوچھنا، ہونا کیسا چاہیے؟ میں تمہاری طرح گیان نہیں رکھتی۔ مگر جو بھی تم یا تمہارے جیسے لوگ لکھتے ہیں اسے پڑھ کر اسے سمجھنا چاہتی ہوں جو لکھا گیا ہے۔ لکھنے والے نے جو بھی شبدوں میں دیا یاد ینا چاہاہے وہ وہی ہے جو پروسا گیا ہے یا کچھ اور بھی ہے اور اگر تم برا نہ مانو تو کہوں تم نے اور تم سوں نے زیادہ تر اپنے باہر کی بے آرامی لکھی ہے۔ ہم جو جیون بھوگ رہے ہیں۔ وہ کچھ ایسا برا بھی نہیں کہ اسے پڑھنے والوں کے آگے نہ پروسا جائے‘‘۔

    ’’تم میں تو اچھا بھلا الوچک موجود ہے۔‘‘

    ’’وہ تو سب ہی میں ہوتا ہے۔ تم میں بھی ہے۔ میں نے تمہیں لکھنے اور اپنے لکھے کو کاٹتے بھی دیکھا ہے۔ شلا! اس سے پوچھو، تمہیں اس اوسر کا لابھ اٹھانا چاہیے یا نہیں؟‘‘

    ’’پوچھ چکا ہوں۔‘‘

    ’’کیا کہتا ہے وہ؟‘‘

    ’’وہ تو کہتا ہے بن سوچے نہ چل۔ کھڑا رہ، وچار کر، پھر قدم اٹھا۔‘‘

    ’’ابھی کچھ دیر پہلے میں بھی کہہ چکی ہوں، جو زندگی ہم گزار رہے ہیں اس میں ایسا بہت کچھ ہے جو کہا اور سنا جائے۔‘‘

    ’’پر۔۔۔ وہ، مجھ سے جو کام لینا چاہتے ہیں وہ تو سدھانتک اور ادھیانتک سند کرتی کی بات کررہے تھے! ان کا کہنا یہ ہے کہ ہندوتو ہی قوم پرستی ہے۔

    ’’تھوڑا بہت جو بھی اب تک میں نے پڑھا ہے اس سے اتنا تو جان گئی کہ ایک طرح کی دیش پرستی اور ہندو وچار دھرا ہمارے ساہتیہ میں بھی پنپ رہی ہے۔ بھارتیتا کے نام پر اسی کی جڑوں کو پانی دیا جا رہا ہے۔ جرنلزم کا حال تو اور بھی برا ہے۔ پروہاں بھی سچ بولتے موجود ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سمبندھ ایک دم سے توڑے نہیں جاتے۔ میرا اپنا وچار یہ ہے، تمہیں اس وشئے پر خوب اچھی طرح سوچنا ہوگا، ان لوگوں سے پھر ملنا ہوگا، بات کرنا ہوگی۔‘‘

    ’’کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ سمبندھ ایک دم سے توڑے جاتے ہیں نہ پیدا ہوتے ہیں۔ وہ تو پالن ہار بناتا ہے۔ کتابیں وہ نہیں کہہ رہی ہیں جو آپ کہہ رہے ہیں۔ جنہیں آپ دشمن مان رہے ہیں ان کی آیوہی کیا ہے؟ اپنے دیش میں بولی جانے والی زبان کا کھنڈن جس کارن کیا جا رہا ہے اس کا تو جنم ہی اسی دھرتی پر ہوا تھا اور شریمان! موریہ یگ کے کتبات، اشوک کے کتبات ویسے تو نہیں لکھے گئے تھے جیسے ہم لکھ رہے ہیں۔ جس زبان کو آپ دشمن کی زبان کہتے ہیں وہ تو یہاں بدھشڑیک میں بھی رہی ہے۔ اس یگ میں آخر ہمارا ان کا رشتہ تھا تو کون سا رشتہ تھا۔ پریم کا یا نفرت کا؟

    ’’شلا کے بیٹے! تم یہاں بحث نہیں کروگے۔‘‘

    ’’آپ مجھ سے کچھ ادھیکار بھی چھین لینا چاہیں گے۔‘‘

    ’’کیا کہنا چاہتے ہو تم۔‘‘

    یہ بھارت ہے، اس کی اپنی پرمپرا ہے۔ جس میں سنواد بہت ہی مہتو ہے اور اس سے تو وواد ہوتا ہے۔

    ’’اسے آپ گیان سے بھی دور کر سکتے ہیں۔ آدان پر دان ہو تو وواد خود ہی ختم ہو جائےگا۔‘‘

    تم لیکھک ہو شلا پتر! اور ہم جو کچھ چاہتے ہیں وہ کیول ہماری وچار دھارا نہیں ہے۔ منو خود گیا نی تھے۔ تپسیا بھی کرتے تھے۔

    جانتا ہوں شری مان۔ نہیں جانتا تو کیول اتنا کہ ورنا شرم نے اصل وچار دھارا سے ورودھ کیوں کیا؟ آپ اچھی طرح جانتے ہیں میں شلا پتر ہوں۔ انہوں نے، ان کے بزرگوں نے ہم کو تو صرف یہ بتایا ہے کہ اصل کار یہ کیول کرم ہے۔

    تم پھر بحث کا دوار کھول رہے ہو۔ بھول رہے ہو کہ ہماری اچھا کیول ہماری اپنی اچھا نہیں ہے۔ یہ ہم نے ویدوں سے جانا ہے۔ اب تم سے یہ تو نہیں پوچھوں گا کہ وید کا ارتھ جانتے ہو یا نہیں۔

    ’’آپ پوچھیں نہ پوچھیں پر مجھے پوچھنے کا ادھیکار تو ہے اور میں جان لینا چاہوں گا کہ ہندومت کی اصل وچار دھارا کیا تھی۔‘‘

    ’’تم۔۔۔ تم کیسے ہندو ہو؟ ہزاروں ورشیہ سے چلی آرہی شکھشا کو نہیں جانتے۔‘‘

    ’’آپ تو برا مان گئے شری مان۔ میرا پرشن تو بہت ہی سیدھا ہے او جو کچھ مجھ سے آپ اور آپ کی، میرا مطلب اپنی سرکار سے ہے۔ چاہتے ہیں اس کے لیے میرا یہ جان لینا ضرور ی ہے کہ منوکو اصل وچار دھارا سے کیا اختلاف تھا؟‘‘

    ’’شلا پتر! ایسا کوئی سوال نہیں جس کا جواب نہ ہو۔ پر ہر پرشن کا اتر نہیں دیا جانا چاہیے۔ کچھ سوال کرنے والے کو خود بھی سمجھ لینے کی ضرورت ہے۔ تمہیں نربھئے ہو کر وہ کار یہ کرنا ہوگا جو سرکار چاہتی ہے۔ جن کے ورودھ میں ہم تمہیں یہ کشٹ دے رہے ہیں۔ ذرا ان کی اور دیکھو۔ اس پرکار کے کام وہاں بھی لیے گئے ہیں۔ ان کا اتہاس اٹھاؤ پڑھو اور یاد رکھو کہ سرکار تم سے کیا کام لینا چاہتی ہے۔‘‘

    ’’میرا ماننا تو یہ ہے کہ تم وہ کام کرو۔‘‘

    ’’یار! میں نے تمہیں دوست جان کر یہ بات بتائی ہے اور تم نے فوراً ہی اکدم سے اپنا وچار پرکٹ کر دیا۔ سوچا نہ سمجھا۔ بھائی جی! وہ جوان سے پہلے ستہ میں تھے، انہوں نے یہ کام کیوں نہ کیا؟ ذرا سوچتے، سمجھتے پھر رائے دیتے۔‘‘

    ’’یار! تم لیکھک ہو۔ پڑھے لکھے لیکھک، پتر شلا کے نام سے تم نے ناموری پائی ہے۔ تم خود سوچو، سوتیہ پاٹھک کو کتنے لوگ جانتے ہیں؟ میں یا بھابھی ہے نا؟ تمہیں یہ نام دینے والے بھی وہ نہیں پا سکے جو سرکار تمہیں دینا چاہتی ہے۔ تمہارے پتا جی نے تمہیں کیول نا م دیا تھا اور وہ سورگباش ہو گئے۔ یاد کرو۔ ان کے متر کو جس نے تمہیں ساہتیہ کے ساتھ اتہاس لکھنے کا گر بتایا۔ تمہارا ایک نام رکھا۔ تم خود وچار کرو، سیدھے سادے گیانی شلا پاٹھک کے جاننے والے آج کتنے لوگ ہیں۔ لیکن تمہیں تو تمہاری کویتائوں سے اور تمہارے پتاکے متر کی دور تک دیکھنے کی شکتی نے وہ ہنر سکھا دیا کہ تم چھوٹی سی عمر میں ہی جانے بھی گئے اور مانے بھی اور اب ہماری اپنی سرکار تم سے ایک کام لینا چاہتی ہے اور تم دبدھا میں پڑے ہو۔‘‘

    ’’مگر‘‘

    ’’اگر، مگر کو چھوڑو یار، اس شبد نے بڑے بڑے جھگڑے کھڑے کیے ہیں۔ آج بھی دنیا میں اسی کارن سمسیائیں نہیں سلجھ رہی ہیں۔ میری مانو، اگر مگر کو ڈی فریزر میں رکھ دو اور مان جاؤ کہ جو شکتی آج ستہ میں ہے اس میں اور اس سنستھا میں جو کل تک ستہ میں تھی کوئی اتر نہیں ہے۔‘‘

    ’’کیسی باتیں کرنے لگے؟‘‘

    ’’سچ کہہ رہا ہوں یار! کچھ ستیہ پورم پور ننگے ہوتے ہیں اوار کچھ ڈھکے چھپے۔‘‘

    ’’ستیہ تو سدا ہی ننگا رہا ہے۔‘‘

    ’’دماغ خراب ہو جائےگا، اگر وبدھا میں پڑے۔ ہاتھ بڑھاؤ، پیالہ اٹھائو، ادھر ادھر نہ دیکھو۔ تمہیں وچار میں ڈوبا، دیکھ کر دوسرے تمہیں دھکیل پیالہ اٹھالیں گے۔‘‘

    ’’پر یہ تو سوچ یار! وشو کا ہر دھرم اپنی کتاب کو کسی نہ کسی ویکتی سے سمبند ھت کرتا ہے۔ پر ہمارا ویکتی کون ہے؟ اور ہمار کتاب کون سی ہے؟ گیتا، رامائن، ویدوں میںرگ وید، اتروید، بجر وید یا اپنشد کوئی بتلائے کہ ویدوں کا نزول کن پہ ہوا؟ ایشور دانی کس پر اتری؟‘‘

    ان سوالوں میں الجھنے کی ضرور ت نہیں ہے۔ بس یہ مان کر چلو کہ ہندو دھرم سب سے پرانا ہے۔ تم سے وہ اتہاس لکھوانا چاہتے ہیں۔ اب تمیں یہ تو نہیں بتائوں گا کہ تمہارا کام کیا ہے؟ پھر بھی کہنا تو پڑےگا ہی۔ بس پیارے یہ جان لو۔ اتہاس لکھنے و الے کا کام اپنے زمانے کے واقعے کو دکھا دینا ہے۔ یعنی لکھ دینا بس۔

    ’’واقعہ سچا ہو یا جھوٹا۔‘‘

    اس پر سوچنا پڑھنے والے کا کرتویہ ہے۔ اگر اس کے پاس دیکھنے والی آنکھ اور سوچنے والا دماغ ہے تو یہ کام وہ خود کرےگا۔

    اور اگر وہ نہ ہوں تو۔

    تو پھر وہی ہوگا جو ہو رہا ہے۔

    اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اس دھرتی پہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے اسے ہونے دیا جائے۔

    ’’ہم کیا کر سکتے ہیں بھائی؟ ہمیں تو بہیں رہ کر جینا ہے اور یہ بھی تو دیکھو کہ ہم اکیلے نہیں ہیں بیوی ہے، بچے ہیں، ماں باپ ہیں۔‘‘

    ’’وہ سب تو ان کے ساتھ بھی ہیں جن کے خلاف ہماری سرکار ہے۔‘‘

    ’’ہیں تو۔‘‘

    ’’کیا یہی انصاف ہے؟‘‘

    ’’نہیں انصاف تو نہیں ہے۔‘‘

    ’’تو پھر تم اسے کیا کہوگے؟‘‘

    ’’ظلم یعنی اتیاچار، لیکن تم مجھ سے کیا کہلوانا چاہتے ہو یار؟‘‘

    ’’کچھ نہیں میں تو خود سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ ابھی ابھی تم نے ایک ہی شبد دو طرح کہہ دیا اور ذرا پہلے چلے تم کہہ چکے ہو کہ انصاف نہیں ہے۔ میں سمجھنا چاہتا ہوں جو اتیا چار کرے اسے اتیا چاری ہی کہتے ہیں نا؟‘‘

    ’’بالکل!‘‘ میرے خیال سے تو اتیا چاری وہ ہوتا ہے ’’جس میں خامی ہو اور بھائی میرے سب سے بڑا عیب تو ہمارے دماغ میں پیدا ہونے والی نفرت ہے اور وہ جو مجھے ہانک کر اپنا کام کروانا چاہتے ہیں وہ ہماری اپنی بدھیوں میں اپنے ہی جیسے ویکتیوں کے ورودھ نفرت ہی تو پیدا کروانا چاہتے ہیں۔‘‘

    ’’او ر تم یہ کام نہیں کرنا چاہتے۔‘‘

    ابھی تو میں نے فیصلہ نہیں کیا ہے۔

    میرے خیال سے تمہیں ان کا کہنا مان ہی لینا چاہیے۔

    اور اگر انکار کروں تو؟

    مجھے یقین ہے، وہ ایسا نہیں کرےگا، پیدا کرنے والے نے اسے عقل دی ہے۔ دیکھنا ہے وہ اس کا پریوگ کس طرح کرتا ہے۔

    بدھی تو ان کے پاس بھی ہے گروجی جو ستہ پر موجود ہیں۔

    وہ تو صرف ستہ چاہتے ہیں۔ بدھی کس طور برتیں، جانتے ہیں وہ، پربرتنا نہیں چاہتے کہ اس سے ان کے پاس مال کم ہو جائےگا۔ وہ تو کیول یہ چاہتے ہیں کہ لوگ ان کے محتاج ہو کر جئیں۔ لوگوں کو بھی پالن ہار نے بدھی دی ہے۔ مگر بہتوں کی عقلیں چمک دمک دیکھ کر، ان کے موہ میں اپنا اثر کھو دیتی ہیں۔ کیونکہ جن کے پاس سرکار ہوتی ہے وہ یہ چاہتے ہیں کہ گیان سے جو وہ پا چکے ہیں وہ دوسروں تک نہ پہنچے اسی لیے وہ گیانی سے کہتے ہیں ’’اپنی حالت پر رہو، اس پرکار کی باتیں نہ کرو اور یدی کہنے پر مجبور بھی ہو جاؤ تو یوں کہو کہ سننے والے اسے سمجھنا چاہیں تو تب بھی نہ سمجھیں۔‘‘

    اور وہ ایسا کرتے ہیں؟

    ہاں۔ اگر اتنے پر ہی تھمے رہتے تب بھی برا ہونے کے باوجود برا نہ ہوتا۔ انہوں نے تو مایا کے موہ میں کھوٹوں کو کھرا ثابت کرنا چاہا اور ابھی ابھی جو خبر تم لائے ہو وہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

    ’’اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جس دھرم کا پرچار وہ کر رہے ہیں۔ صحیح ارتھ میں وہ دھرم ہی نہیں ہے۔‘‘

    بھولتے ہو تم۔ یاد ہے، تم سے میں کہہ چکا ہوں کہ یہ اپنا دھرم اور اس کی شکھشا کھو چکے ہیں۔

    کون پائےگا اسے؟

    جسے اس کی تلاش ہوگی۔ اسی کا پرکاش انہیں وہاں تک پہنچا دےگا۔

    یہ سمبھو ہے؟

    ہاں ممکن ہے۔ کیونکہ جہاں برائی ہے، وہیں کہیں آس پاس ہی اچھائی بھی موجود ہے۔ یاد کرو، اندھیارے میں سے ہی کرن نکلتی ہے۔

    پروہ تو شلا کے بیٹے سے کچھ اور چاہتے ہیں۔

    یہی نا، جو کھرے ہیں انہیں کھوٹا لکھو اور کھوٹے کو ایک دم کھرا ثابت کرو۔

    ’’جی گرو جی۔‘‘

    ان کی کوشش ساکار بھی ہو گئیں تو بھی ستیہ صرف سچ ہی رہےگا۔ اس وشال دھرتی پر جو بھی آج ہو رہا ہے۔ وہ پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا۔ یہ بھولتے ہیں بھارت کی سیمائوں کے اس پار بھی درتی ہے۔ میں جانتا ہوں، وہ کہتے ہوں گے، ہماری وچار دھارائیں بھی وہاں تک پہنچتی ہیں۔ پر انہیں کیا پتہ، یہ وہاں پہنچے ہیں یا وہ یہاں آ چکے ہیں۔ وہ جنہیں سمجھانے کو کئی کئی مہان ہستیوں کو بھیجا گیا تھا۔

    آخر تم آ ہی گئے شلا پتر۔ آؤ بیٹھو، بتائو تم نے کیا فیصلہ کیا؟

    فیصلہ تو اسی روز کر چکا تھا شریمان یہ دیکھئے! اب تک اتنا لکھا ہے۔ چاہا آپ دیکھ لیتے۔ تھوڑا وچار ویمرش کرتے۔

    دیکھو بھائی! تم کون ہو، کس کے پتر ہو، ہم جانتے ہیں، ہماری سرکار کے اور سدسیہ بھی جانتے ہیں۔ تمہیں کیا کرنا ہے؟ وہ توہم بتا ہی چکے ہیں۔ یہ بھی بتا دیا ہے کہ یہ کام کب تک ہو جانا چاہیے۔ کمبھ سے مہینہ بھر پہلے کتاب کو چھپنا بھی ہے اور دیش بھر میں کتابوں کی دکانوں پہ پہنچنا بھی ہے۔ تمہیں اس کے کچھ انش کمبھ میں پڑھنے ہوں گے۔ وہیں کتابیں بھی ہوں گی خریدنے والے اسے خریدیں گے۔ جو نہ خرید سکیں گے انہیں ہمارے کاریہ کرتا سرکار کی اور سے دیں گے کہ لوگ جان جائیں، ہم، ہمارے پرکھے کتنے مہان ہیں اور وہ جسے مہان کہتے ہیں۔ اتنے مہان نہیں ہیں، جتنے بتائے جاتے ہیں۔ اس وشئے پر ہم تم سے کیا وچار ویمرش کریں گے۔ تم تو شلاپتر ہو۔ تم سے پہلے بھی ایک پتر یہ کام کر چکے ہیں۔ بس تمہیں یہ کاریہ کرتے اس کا دھیان رکھنا ہوگا کہ سورگ پتر کی طرح اتہاس لکھتے سمے چھان پٹک نہ کرو۔ تمہیں ہندو دھرم کی اصل وچار دھارا سے یہ بتانا ہوگا کہ منواسمرتی کے انوسار منشیہ پیدائشی طور پر چار طبقوں میں بٹا ہوا ہے، ہم تو تم سے بتاہی چکے ہیں کہ ہماری سرکار کیا چاہتی ہے۔ ہم تو کیول شدھ (پاک صاف) سدھارتنک (اصولی) اور ادھیاتمک (آتمک/روحانی) سنسکرتی کو پورے بھارت میں لاگو کرنا چاہتے ہیں۔ وے جو سنسد میں وپرش ہیں ان سے ڈرنے کی بھی ضرور ت نہیں کہ ان کی اپنی مجبوی کا ہمیں بھی گیان ہے،

    ہم جانتے ہیں کہ اپنے دیش سے انہیں کھدیڑنے میں، جن کے راج میں سوریہ ڈوبتا ہی نہ تھا وہ بھی ہمارے ساتھ تھے جن کے ہاتھوں سے سفید چمڑی والوں نے راج جھپٹا تھا۔ ہم جب ان کے وردھ رہے تبھی برہما نے جنہیں اپنے سر سے جنم دیا تھا یہ فیصلہ لے چکے تھے کہ دیش کا راج پھر ان ہاتھوں میں نہیں جانا چاہیے۔ نہ ہی ان میں سے کسی کو اپنے راج پاٹ کا ساجھے دار بنانا چاہیے۔ لیکن اس یگ کے پرشوں نے اپنی مجبوریوں پہ پردہ ڈالنا ہی ضروری سمجھا تھا۔ پھر جو کچھ بھی ہوا، سبھی کو پتہ ہے اور اس کے بعد اپنے ہاتھوں سے ستہ ہمیں سوپننے کے لیے انہیں ورشوں لگ گئے۔ دوش ان کا بھی نہیں ہے۔ پر، ہم ان ہی کو دوشی مانتے ہیں اور۔۔۔ اب تمہیں یہ بتانا ہے کہ دوشی ہم نہیں وہ ہیں جنہوں نے ہم پہ آکر من کیا اور برسوں ہم پر راج کر گئے۔

    ٹھیک ہے۔ وہی سب ہوگا جو آپ چاہتے ہیں۔

    جانتے ہونا، ہمارا دشمن کون ہے؟

    جی ہاں شریمان! جانتا ہوں، پہچانتا بھی ہوں اور۔۔۔

    مدتوں سے مجھ سے کہا جا رہا تھا کہ ایک ایسی کتاب لکھو جس میں ان کی حقیقت بیان ہو جن کو کچھ لوگ ورشوں سے پسند نہیں کر رہے۔ بہت سوچ وچار کے بعد میں نے اس کاریہ کو ہاتھ میں لیا۔ پر بھوکی کرپا ہے کہ آج یہ کتاب دیش بھر میں موجود ہے۔ سرکار کے کچھ کاریہ کرتائوں کا کہنا تھا کہ اس کتاب کے کچھ حصے مجھے اس مجمع کو بھی سنانے ہوں گے جو آج یہاں موجود ہے۔ ان میں سے زیادہ تر وہ ہیں جو یہاں اشنان کرنے آئے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو یہاں پوجا پاٹ کریں گے نہ اشنان۔ وہ کیول یہ دیکھنے کے لیے یہاں موجو د ہیںکہ کمبھ میں کیا کچھ ہوتا ہے۔ ان ہی میں وہ بھی ہیں جو سدھارتنک، ادھیاتمک اور شدھ سنسکرتی کے ورودھی ہیں۔ اگر ہم وچار کریں تو جان لیں گے کہ وہ کون ہیں۔ سرکار کا کہنا ہے کہ یہ وہی ہیں جنہوں نے ہمارے دیش پر آکر من کیا اور پھر یہیں رچ بس گئے۔

    لیکن یہ تو کیول آدھا سچ ہے۔ ایک ہزار چھ سو چھ وورش پہلے گرجتے بادلوں سمان ایک طوفان اور بھی آیا تھا۔ اسے ہمارے کچھ اتہاس کار غزنویوں کا طوفان کہتے ہیں۔ وہ بادلوں کی طرح آیا اور آندھی کے سمان چلا گیا۔ اس کے آنے اور جانے کا اپنا ایک اتہاس موجود ہے، جس کے پنوں میں کئی ستیہ موجود ہیں۔ ایمان کی کہوں تو آکرمن کرنے والا وہی تھا اور ایک ستیہ جوہم میں سے زیادہ لوگ نہیں جانتے وہ یہ ہے کہ ہماری دھرتی پر وہ بھائی جو آج ہمارے دشمن دو راستوں سے آئے تھے۔ ایک گروہ تو وہ تھا جو سندھ اور ملتان سے ہوتا ہوا یہاں آیا اور چلا گیا۔ اسی راستے سے ایک کو خود ہم نے نیوتا دے کر بلایا۔ یہ وہ تھا جس کا راج پاٹ اس کے باپ کے سورگباش ہونے کے بعد اس کے چچا نے ہڑپ لیا تھا۔ مگر دوسرا ستیہ تو یہ ہے بھائیو! اس سے بہت پہلے سے ہی ہمارے دیش میں عربوں کا آنا جانا رہا۔ جن کو ہم اپنا دشمن کہہ رہے ہیں اور جن سے ہم میں سے بہت سے لوگ آج بھی ڈرے ہوئے ہیں۔ وہ تو پچھمی ساحلوں سے اس دیش میں زیتوں کا تیل اور اپنے ملک کی کھجوریں لے کر آیا کرتے تھے۔

    ایک ہزار چار سو تیس ورش پورو جب وہاں نہیں ہے کوئی مالک کیول اللہ کے، کی آواز گونجی تھی تب یہاں سرندیپ کے راجا کو سب سے پہلے اس کا پتہ چلا تھا۔ سرندیپ اور اس کے آس پاس کے راجاؤں کو جب اس کا گیان ہوا تھا تبھی انہوں نے ایک بدھی مان کو جانکاری کی خاطر بھیجا تھا۔ مدتوں بعد جب وہ مدینہ پہنچا تو وہ مہان ہستی ان میں نہیں رہی تھی۔ ہاں وہ ہستی تھی جو خود ودیا میں ڈوبی ہوئی تھی یا ودیا ان میں رچی بسی تھی۔

    پیارے بھائیو! میں نے اس کتاب میں لکھ دیا ہے۔ وہ جو کہتے ہیں نہیں ہے کوئی سوائے اللہ کے ہمارے بھارت میں دو راستوں سے آئے ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے