Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پچھتاوا

پریم چند

پچھتاوا

پریم چند

MORE BYپریم چند

    پنڈت درگاناتھ جب کالج سے نکلے تو کسبِ معاش کی فکر دامنگیرہوئی۔ رحم دل اوربااصول آدمی تھے۔ ارادہ تھا کہ کام ایسا کرناچاہئے جس میں اپنی گزران بھی ہو اور دوسروں کے ساتھ ہمدردی اور دلسوزی کا بھی موقع ملے۔ سوچنے لگے اگرکسی دفتر میں کلرک بن جاؤں تو اپنی گزر توہوسکتی ہے لیکن عوام سے کوئی تعلق نہ رہے گا۔ وکالت میں شریک ہوجاؤں تودونوں باتیں ممکن ہیں مگرہزار احتیاط کرنےپربھی دامن کو صاف رکھنامشکل ہوگا۔ پولس کے محکمہ میں غرباپروری کے بے انتہا مواقع ہیں۔ مگر وہاں کی آب وہوا آزادمنش اورنیک نیت آدمی کےلئے ناموافق ہے۔ مال کے صیغہ میں قاعدہ اورقانون کی گرم بازاری ہے۔ بے لوث رہنے پر بھی سختی اور جبر سے محترز رہنا غیرممکن۔ اس طرح بہت غوروفکر کے بعد انہوں نے فیصلہ کیاکہ کسی زمیندار کے یہاں مختار ِعام بن جانا چاہئے۔ تنخواہ توضرورملےگی مگر غریب کاشتکاروں سے رات دن کا تعلق رہے گا۔ حسن ِسلوک کے موقعے ملیں گے۔ سادگی کی زندگی بسرہوگی۔ ارادہ مضبوط ہوگیا۔

    کنور بشال سنگھ ایک صاحبِ ثروت زمیندار تھے۔ ان کی خدمت میں حاضرہوئے اورعرض کی کہ مجھے بھی اپنے نمک خواروں کے زمرہ میں شامل کرلیجئے۔ کنورصاحب نے انہیں سر سے پاؤں تک دیکھا اور بولے، ’’پنڈت جی! مجھے آپ کواپنے یہاں رکھنے سے بڑی خوشی ہوتی مگر آپ کے لائق میرے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘

    درگاناتھ نے کہا، ’’میرے لئے کسی خاص جگہ کی ضرورت نہیں ہے۔ میں ہرایک کام کرنے کوتیار ہوں۔ تنخواہ جوکچھ آپ بہ خوشی دیں گے وہ مجھے منظورہے۔ میں نے توارادہ کرلیا ہے کہ سوا کسی رئیس کے اورکسی کی نوکری نہ کروں گا۔‘‘

    کنور بشال سنگھ نے مغرورانہ اندازسے فرمایا، ’’رئیس کی نوکری، نوکری نہیں، ریاست ہے۔ میں اپنے چپراسیوں کودورپیہ مہینہ دیتاہوں اور وہ تن زیب کی اچکن پہن کر نکلتے ہیں۔ دروازوں پرگھوڑے بندھے ہوئے ہیں۔ میرے کارندے پانچ روپیہ سے زیادہ نہیں پاتے لیکن شادی بیاہ وکیلوں کے خاندان میں کرتے ہیں۔ معلوم نہیں ان کی کمائی میں کیا برکت ہوتی ہےبرسوں تنخواہ کا حساب نہیں کرتے۔ کتنے ہی ایسے ہیں جو بلاتنخواہ کے کارندگی یا چپراس گری کرنے کوتیار بیٹھے ہیں۔ مگراپنا یہ اصول نہیں۔ سمجھ لیجئے مختار ِعام اپنے علاقہ میں زمیندار سے کم حیثیت نہیں رکھتا۔ وہی رعب، وہی حکومت، وہی شان، جسے اس نوکری کاچسکا لگ چکاہے اس کے سامنے تحصیل داری کی کیا حقیقت ہے۔

    پنڈت درگاناتھ نے کنورصاحب کی تائید نہیں کی۔ جیسا کہ کرنا ان کا فرض تھا۔ دنیاداری میں ابھی کچےتھے۔ بولے، ’’مجھے اب تک کسی رئیس کی نوکری کاچسکا نہیں لگاہے۔ میں تو ابھی کالج سے نکلا آتا ہوں اور نہ میں ان وجوہ سے یہ نوکری کرناچاہتاہوں جوآپ نے فرمائے مگراتنے قلیل شاہراہ میں میرا گزر نہ ہوگا۔ آپ کے اورملازم آسامیوں کاگلادباتےہو ں گے۔ مجھ سے مرتے دم تک یہ فعل نہ ہوں گے۔ اگرایماندارنوکر کی قدرہوتی ہے تو مجھے یقین ہے کہ آپ بہت جلدمجھ سے خوش ہوجائیں گے۔‘‘

    کنورصاحب نے بڑی متانت سے کہا، ’’بیشک ایماندار آدمی کی سب جگہ قدر ہوتی ہے۔ لیکن میرے یہاں زیادہ تنخواہ دینے کی گنجائش نہیں ہے۔‘‘

    زمیندار کی اس ناقدری پرکسی قدر ترس ہوکر پنڈت جی نے جواب دیا، ’’تو پھر مجبوری ہے اس تکلیف دہی کے لئے معاف فرمائیے گا۔ مگرمیں آپ سے کہہ سکتاہوں کہ ایماندارآدمی اتنا سستا نہ ملے گا۔‘‘

    کنورصاحب نے دل میں سوچا کہ آخر عدالت کچہری روزہوتی ہی رہتی ہے۔ سیکڑوں روپے تجویزوں اورفیصلوں کے ترجمے میں صرف ہوجاتے ہیں۔ ایک انگریزی داں آدمی ملتاہے۔ بالکل سادہ لوح۔ کچھ زیادہ تنحواہ دینی پڑے گی توکوئی مضائقہ نہیں مگر پنڈت جی کی بات کا جواب دیناضروری تھا۔ بولے، ’’مہاراج ایماندار آدمی ایماندارہی رہے گا چاہےاسے تنخواہ کتنی ہی کم دیجئے اور نہ زیادہ تنخواہ پانے سے بے ایمان ایماندار بن سکتاہے۔ ایمان کا روپیہ سے کوئی تعلق نہیں۔ میں نے ایماندارچپراسی دیکھےہیں۔ اوربے ایمان ہائی کورٹ کے جج، لیکن خیر آپ ہونہار آدمی ہیں میرے یہاں شوق سے رہئے۔ میں آپ کو ایک علاقہ کا مختار بنادوں گا۔ آپ کا کام دیکھ کرترقی بھی کروں گا۔‘‘

    درگاناتھ بیس روپیہ ماہوار پرراضی ہوگئے۔ وہاں سے ڈھائی میل پرکنورصاحب کے کئی موضعے چاندپار کے علاقہ کے نام سے مشہورتھے۔ پنڈت جی اس علاقہ کے مختارِعام مقررہوئے۔

    درگاناتھ چاندپار کے علاقہ میں پہنچے توانہیں معلوم ہوا کہ واقعی جیسا کنور صاحب کہتے تھے ریاست کی نوکری بجائے خودریاست ہے۔ رہنے کےلئے خوبصورت بنگلہ۔ فرش فروش سے سجا ہوا سیکڑوں بیگھہ کی سیر، کئی نوکر، کئی چپراسی، سواری کے لئے ایک خوبصورت ٹانگھن۔ آسائش اور تکلف کے سب سامان موجود۔ مگر انہیں یہ ٹھاٹ باٹ دیکھ کر کچھ زیادہ خوشی نہ ہوئی کیونکہ اسی سجے ہوئے بنگلہ کےچاروں طرف کاشتکاروں کے جھونپڑے تھے۔ پھونس کے بنے ہوئے جن میں مٹی کے برتنوں کے سوااورکوئی اثاثہ نہ تھا۔ بنگلہ وہاں کے عرف عام میں کوٹ مشہورتھا۔ لڑکے سہمی ہوئی آنکھوں سے برآمدے کودیکھتے مگر اوپرقدم رکھنے کی جرأت نہ ہوتی۔ اس افلاس کے بیچ میں ثروت اور تمول کا یہ نظارہ ان کےلئے نہایت دل شکن تھا۔ کاشتکاروں کی یہ حالت کہ سامنے آتے ہوئےتھرتھر کانپتے تھے۔ چپراسی لوگ ان سے بلاتوتکارکے بات نہ کرتے۔

    پہلے ہی کئی سو کاشتکاروں نے پنڈت جی کی خدمت میں نذرانے پیش کئے مگر انہیں کتناتعجب ہوا جب ان کےنذرانے واپس کردیئے گئے۔ کاشتکار توخوش ہوئے مگرچپراسیوں کے خون ابلنے لگے۔ نائی اور کمہارخدمت کے لئے آئے۔ وہ لوٹادیئےگئے۔ گو الوں کے گھروں سے دودھ کا ایک بھرا ہوا مٹکا آیا۔ وہ بھی واپس ہوا۔ تمبولی ایک ڈھولی پان لے کرآیا۔ مگراس کی نذر بھی قبول نہ ہوئی۔ اسامیوں نے آپس میں کہا کہ یہ کوئی دھرماتما آدمی معلوم ہوتاہے لیکن چپراسیوں سے یہ بے ضابطگیاں کیوں کربرداشت ہوتیں۔ انہوں نے کہا کہ حضور اگرآپ کویہ چیزیں پسند نہ ہوں تونہ لیں۔ مگررسم کو تو نہ مٹادیں۔ اگرکوئی دوسرا آدمی یہاں آئے گاتو اسے نئے سرے سے یہ رسوم باندھنے میں کتنی دقت ہوگی۔ پنڈت جی نے اس نیک صلاح کاصرف اتنا جواب دیا جس کے سرجیسی پڑے گی آپ بھگت لے گی۔ ابھی سے اس کی فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے۔

    ایک چپراسی نے جرأت کرکے کہا، ’’ان اسامیوں کوآپ جتنا غریب سمجھتے ہیں اتنے غریب نہیں ہیں۔ ان کا ڈھنگ ہی ایسا ہے۔ بھیس بنائے رہتے ہیں۔ دیکھنے میں ایسے سیدھے سادے گویا بے سینگ کی گائے ہیں مگر سچ مانئے ان میں کاایک ایک آدمی ہائیکورٹ کا وکیل ہے۔‘‘

    مگرچپراسیوں کی اس بحث کا پنڈت جی پرکچھ اثرنہ ہوا۔ انہوں نے ہرایک کاشتکار سے ہمدردانہ اور برادرانہ برتاؤ کرنا شروع کیا۔ صبح سے ۹ بجے تک غریبوں کومفت دوائیں دیتے۔ پھر حساب کتاب کا کام دیکھتے۔ ان کے اخلاق نے اسامیوں کوموہ لیا۔ مال گزاری کا روپیہ جس کے لئے ہرسال قرقی اورنیلامی کی ضرورت ہوتی تھی امسال ایک اشارے پروصول ہوگیا۔ کسانوں نے اپنے بھاگ سراہے اور منانے لگےکہ ہمارےسرکارکی کبھی بلدی نہ ہو۔

    کنوربشال سنگھ اپنی رعایا کی پرورش کابہت خیال رکھتے تھے۔ بیج کے لئے اناج دیتے۔ مزدوری اوربیل کے لئے روپے۔ فصل کٹنے پر ایک کے ڈیڑھ وصول کرلیتے۔ جیسا کہ مناسب تھا۔ چاندپارکے علاقہ میں میں کتنے اسامی ان کے مقروض تھے۔

    چیت کا مہینہ تھا۔ فصل کچھ کھلیان میں تھی۔ کچھ گھرمیں آچکی تھی۔ کنور صاحب نے چاندپار والوں کو بلایا اورکہا، ’’ہمارا اناج اورروپیہ بے باق کردوچیت آگیا۔ جب تک سختی نہ کی جائے تم لوگ ڈکارتک نہیں لیتے۔ اس طرح کام نہیں چل سکتا۔‘‘

    بوڑھے ملوکانے کہا، ’’سرکار اسامی کبھی اپنے مالک سے بے باک ہوسکتا ہے کچھ ابھی لے لیاجائے کچھ پھردے دیں گے۔ ہماری گردن سرکارکی مٹھی میں ہے۔‘‘

    کنورصاحب نے فرمایا، ’’آج کوڑی کوڑی چکاکرتب یہاں سے اٹھنے پاؤگے۔ تم لوگ ہمیشہ اسی طرح حیلہ حوالہ کرتے رہتے ہو۔‘‘

    ملوکا نے منت کرکےکہا، ’’ہماراپیٹ ہے سرکارکی روٹیاں ہیں۔ ہم کو اورکیا چاہئے۔ جوکچھ اپج ہے وہ سب سرکار ہی کی تو ہے۔‘‘

    کنورصاحب کوملوکا کی اس زبان درازی پرغصہ آگیا۔ راجہ رئیس ٹھہرے۔ اسے سخت سست کہا اوربولے، ’’کوئی ہے۔ ذرا اس بڈھے کی گوشمالی توکردے۔ یہ بہت بڑھ بڑھ کر باتیں کرتاہے۔‘‘

    انہوں نے توشاید دھمکانے کی نیت سے کہا مگرچپراسیوں کی آنکھوں میں چاند پار کھٹک رہا تھا۔ ایک تیزدم چپراسی قادرخان نے لپک کربوڑھے کسان کی گردن پکڑی اور ایسا دھکادیاکہ وہ بے چارہ تیوراکرزمین پر گرپڑا۔ ملوکا کے دوجوان بیٹے چپ چاپ کھڑے تھے۔ باپ کی یہ حالت دیکھی خون نے جوش مارا۔ دونوں جھپٹے اورقادرخان پرٹوٹ پڑے۔ دھماکے کی آوازیں آنے لگیں۔ صافہ گرا، اچکن تارتار ہوئی اورقادرخان زمین دوزہوگئے۔ ہاں زبان کی تیزی میں ذرہ بھر فرق نہ آیا۔

    ملوکا نے دیکھاکہ بات بگڑگئی۔ اٹھا اور قادرخان کوچھڑاکر اپنے لڑکوں کوگالیاں دینے لگا۔ جب لڑکوں نے الٹے اسی کو ڈانٹا تودوڑکر کنورصاحب کے پیروں پرگرپڑا۔ مگر بات سچ مچ بگڑچکی تھی۔ اس کی مصلحت آمیزیاں بے اثرہوئیں۔ کنورصاحب کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے۔ بولے، ’’بے ایمان آنکھوں کے سامنے سے دورہوجا۔ ورنہ تیرا خون پی جاؤں گا۔‘‘

    بوڑھے کے جسم میں خون تونہ تھا مگر کچھ گرمی ضرور تھی۔ سمجھا تھا کہ یہ کچھ انصاف کریں گے۔ یہ پھٹکار سن کربولا، ’’سرکاربڑھاپے میں آپ کے دروازے پر پانی اترگیا۔ اوراس پر سرکارہمیں کوڈانٹتے ہیں۔‘‘ کنورصاحب نے کہا، ’’تمہاری عزت ابھی کیا اتری ہے۔ اب اترے گی۔‘‘

    دونوں لڑکے طیش میں آکربولے، ’’سرکاراپنا روپیہ لیں گے، کسی کی عزت لیں گے۔‘‘

    کنورصاحب نے اینٹھ کر، ’’روپیہ پیچھے لیں گے۔ پہلے دیکھیں گے تمہاری عزت کیسی ہے۔‘‘

    چاندپارکے کسان اپنے گاؤں میں پہنچ کر پنڈت درگاناتھ سے یہ رام کہانی کہہ ہی رہے تھے کہ اتنے میں کنورصاحب کاآدمی پہنچا اورخبردی کہ سرکار نے اسی دم آپ کوبلایاہے۔

    درگاناتھ نے اسامیوں کوتشفی دی اور گھوڑے پرسوارہوکر دربارمیں حاضرہوئے۔

    کنورصاحب کی آنکھیں غصہ سے لال تھیں۔ چہرہ تمتمایا ہوا۔ کئی مختار اورچپراسی بیٹھے ہوئے آگ پر تیل ڈال رہے تھے۔ پنڈت جی کودیکھتے ہی کنور صاحب بولے، ’’چاندپار والوں کی حرکت آٖ پ نے دیکھی۔‘‘

    پنڈت جی نے سرجھکاکرکہا، ’’جی ہاں نہایت رنج ہوایہ توایسے سرکش نہ تھے۔‘‘

    کنورصاحب بولے، ’’یہ سب آپ ہی کے قدموں کی برکت ہے۔ آپ ابھی اسکول کے لڑکے ہیں۔ آپ کیا جانیں دنیا میں کس طرح رہنا ہوتاہے۔ اگرآپ کا اسامیوں کے ساتھ یہی برتاؤ رہا تو پھرمیں زمینداری کرچکا۔ یہ سب آپ کی کرنی ہے۔ میں نے اسی دروازے پر اسامیوں کورسیوں سے باندھ باندھ کر الٹے لٹکادیا ہے اورکسی نے چوں تک نہیں کی۔ آج ان کی یہ جرأت کہ میرے سامنے میرے ہی آدمی پرہاتھ چلائیں۔‘‘

    درگاناتھ نے معذرت آمیزانداز سے کہا، ’’حضور! اس میں میری کیا خطا ہے۔ میں نے توجب سے سناہے خودافسوس کررہا ہوں۔‘‘

    کنور صاحب نے فرمایا، ’’آپ کی خطانہیں ہے تو اورکس کی ہے۔ آپ ہی نے انہیں سرپرچڑھایا۔ بیگاربندکردی۔ آپ ہی ان کے ساتھ بھائی چارہ رکھتے ہیں۔ ان کے ساتھ گپ شپ کرتے ہیں۔ یہ چھوٹے آدمی اس برتاؤ کی قدرنہیں کرسکتے۔ کتابی اخلاق مدرسوں کے لئے ہے۔ دنیاوی اخلاق کا قانون دوسرا ہے۔ خیرجوہوا سوہوا۔ اب میں چاہتاہوں کہ ان بدمعاشوں کواس گستاخی کامزہ چکھاؤں۔ اسامیوں کو ابھی آپ نے مال گزاری کی رسید تو نہیں دی ہے؟‘‘

    درگاناتھ نے ڈرتے ڈرتے کہا، ’’جی نہیں رسید یں تیار ہیں صرف آپ کے دستخط کی دیرہے۔‘‘

    کنورصاحب کے چہرہ پراطمینان کی جھلک نظرآئی۔ بولے، ’’یہ بہت اچھا ہوا۔ شگون اچھے ہیں۔ اب آپ ان رسیدوں کو چراغ علی کے سپردکیجئے۔ ان لوگوں پربقایا لگان کی نالش کی جائے گی۔ فصل نیلام کراؤنگا، بھوکوں مریں گے تب آٹے دال کابھاؤ معلوم ہوگا۔ جوروپیہ اب تک وصول ہوچکا ہے وہ بیج اورقرضہ کے کھاتے میں چڑھالیجئے۔ آپ کوشہادت صرف یہ دینی ہوگی کہ مال گزاری کی مد میں نہیں قرضہ کی مدمیں روپیہ وصول ہوا، بس۔‘‘

    درگاناتھ سکتے میں آگئے کیایہاں بھی انہیں آفتوں کا سامنا کرنا پڑے گا جن سے بچنے کےلئے یہ گوشہ قناعت اختیارکیاتھا۔ جان بوجھ کر اتنے غریبوں کی گردن پر چھری پھیروں۔ اس لئے کہ میری نوکری قائم رہے۔ نہ! یہ مجھ سے نہ ہوگا۔ بولے، ’’کیا میری شہادت کے بغیرکام نہ چلے گا؟‘‘

    کنورصاحب نے غصہ سے کہا، ’’کیا اتنے کہنے میں آپ کو کوئی عذر ہے؟‘‘

    درگاناتھ نے دبدھے کے لہجہ میں کہا، ’’جی یوں تومیں آپ کا نمک خوار ہوں۔ ہر ایک حکم کی تعمیل کے لئے حاضرہوں۔ مگرمیں نے شہادت کبھی نہیں دی ہے اور شاید یہ کام مجھ سے انجام نہ ہوسکے۔ مجھے تومعاف ہی رکھا جائے۔‘‘

    کنورصاحب نے تحکمانہ انداز سے فرمایا، ’’یہ کام آپ کوکرنا پڑے گا۔ اس میں حیلہ حوالہ کی گنجائش نہیں ہے۔ آگ آپ نے لگائی ہےبجھائے گا کون؟‘‘

    درگاناتھ نے زوردے کرکہا، ’’میں جھوٹ بولنے کا عادی نہیں ہوں۔ اور اس طرح کی شہادت نہیں دے سکتا۔‘‘

    کنورصاحب مصلحت آمیز لہجہ میں بولے جس میں طنزکا پہلوغالب تھا، ’’مہربان یہ جھوٹ نہیں ہے میں نے جھوٹ کابیوپار نہیں کیاہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ روپیہ کی وصولی سے انکار کیجئے۔ جب اسامی میرے مقروض ہیں تو مجھے اختیار ہے کہ چاہے روپیہ قرضہ کی مدمیں وصول کروں چاہے مال گزاری کی مدمیں۔ اگراتنی سی بات کو آپ جھوٹ سمجھتے ہیں تو یہ آپ کی زیادتی ہے۔ ابھی آپ نے دنیا نہیں دیکھی۔ ایسی صاف گوئی کے لئے دنیا میں جگہ نہیں ہے۔ آپ میرے ملازم ہیں آخر حقِ نمک بھی توکوئی چیزہے۔ آپ تعلیم یافتہ ہونہار آدمی ہیں۔ ابھی آپ کو دنیا میں بہت دن رہنا اور بہت کام کرناہے۔ ابھی سے آپ یہ روش اختیار کریں گے تو آپ کوزندگی میں بجزمایوسی اورپریشانی کے اورکچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ ایمانداری بے شک اچھی چیزہے مگراعتدال کاخیال بھی رہنا چاہئے۔ انتہاہر چیزکی بری ہوتی ہے۔ اب زیادہ سوچ بچار کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ موقع ایسا ہی ہے۔‘‘

    کنورصاحب پرانے پھکیت تھے نوجوان کھلاری ہارگیا۔ وہ پس وپیش کے جال میں پھنس گیا۔ جو نیک ارادوں کے لئے سمِ قاتل ہے۔

    اس واقعہ کے تیسرے دن چاندپار کے اسامیوں پربقایا لگان کی نالش ہوئی۔ سمن آئے۔ گھرگھرکہرام مچ گیا۔ سمن کیاتھے۔ موت کے پروانے تھے۔ دیوی دیوتاؤں کی مناون ہونے لگی۔ عورتیں زمیندار کوکوسنے لگیں اور مرد اپنی تقدیروں کو۔ مقررہ تاریخ کے دن گاؤں کے گنوار کندھے پر لٹپاڈور، اورانگوچھے میں چبینہ باندھے کچہری کو چلے۔ سیکڑوں عورتیں اوربچے روتے ہوئے ان کے پیچھے پیچھے چلے جاتے تھے گویا وہ ان سے اب پھر نہیں ملیں گے۔

    پنڈت درگاناتھ کے لئے یہ تین دن سخت آزمائش کے دن تھے۔ ایک طرف کنورصاحب کی دلجوئیاں تھیں۔ دوسری طرف کسانوں کی آہ وزاریاں۔ مگرپس وپیش کے بھنورمیں تین دن تک غوطے کھانے کے بعد انہیں زمین کاسہارامل گیا۔ دل نے کہا یہ پہلی آزمائش ہے۔ اگراس میں ناکام رہے توپھر ان کا سامنا کرنا غیر ممکن۔ فیصلہ ہوگیاکہ میں اپنے فائدے کے لئے اتنے بیکسوں کونقصان نہ پہنچاؤں گا۔

    دس بجے دن کا وقت تھا۔ عدالت کے احاطہ میں میلہ سا لگا ہواتھا۔ جابجا چھوٹے بڑے سیہ پوش دیوتاؤں کی پوجاہورہی تھی۔ چاندپار کے کسان غول کےغول ایک درخت کے نیچے آکربیٹھے۔ ان سے کچھ دورکنورصاحب کے مختارِعام اورسپاہیوں اور گواہوں کاہجوم تھا۔ یہ لوگ بہت خوش تھے۔ جس طرح مچھلی پانی میں پہنچ کر کلیلیں کرتی ہے اسی طرح یہ لوگ خوش فعلیاں کررہے تھے۔ کوئی پان کھارہا تھا کوئی حلوائی کی دوکان سے پوریوں کے پتل لئے چلاآتاتھا۔ ادھر بے چارے کسان درخت کے نیچے اداس بیٹھے ہوئے سوچتے تھے کہ آج نہ جانے کیاہوگا۔ نہیں معلوم کیا آفت آئے گی۔ رام کا بھروسہ ہے۔

    مقدمہ پیش ہوا۔ استغاثہ کی شہادتیں گزرنے لگیں۔ یہ اسامی بڑے سرکش ہیں۔ جب لگان مانگی جاتی ہے توجنگ پرآمادہ ہوتے ہیں۔ اب کی انہوں نے ایک حبہ نہیں دیا، قادرخان نے روکراپنے سرکی چوٹ دکھائی۔ سب کے پیچھے پنڈت درگاناتھ کی پکارہوئی انہیں کے بیان پر استغاثہ کافیصلہ تھا۔ وکیل صاحب نے انہیں خوب طوطے کی طرح پڑھا رکھا تھا۔ مگران کی زبان سے پہلا ہی جملہ نکلا تھا کہ مجسٹریٹ نے ان کی طرف تیزنگاہوں سے دیکھا۔ وکیل صاحب بغلیں جھانکنے لگے۔ مختارعام نے ان کی طرف گھورکردیکھا۔ اہل مد اورپیشکار سب کے سب ان کی طرف ملامت آمیز نگاہوں سے دیکھنے لگے۔

    عدالت نے سخت لہجہ میں کہا، ’’تم جانتے ہو کہ مجسٹریٹ کے روبروکھڑے ہو؟‘‘

    درگاناتھ نے مودبانہ مگرمستقل انداز سے جواب دیا، ’’جی ہاں خوب جانتا ہوں۔‘‘

    عدالت، ’’تمہارے اوپر دروغ بیانی کا مقدمہ عائدہوسکتاہے۔‘‘

    درگاناتھ، ’’بیشک اگرمیرابیان غلط ہو۔‘‘

    وکیل نے ان سے طنزیہ لہجہ میں کہا، ’’معلوم ہوتا ہے کسانوں کے دودھ گھی اور نظرونیاز نے یہ کایاپلٹ کردی ہے۔‘‘ اورمجسٹریٹ کی طرف اسی انداز سے کہا۔

    درگاناتھ بولے، ’’آپ کو ان نعمتوں کازیادہ تجربہ ہوگا۔ مجھے اپنی روکھی روٹیاں زیادہ پیاری ہیں۔‘‘

    عدالت نے پوچھا، ’’تم ازروئے حلف کہتے ہو کہ ان اسامیوں نے بالکل مطالبہ چاق کردیاہے۔‘‘

    درگاناتھ نے جواب دیا، ’’جی ہاں میں ازروئے حلف کہتا ہوں کہ ان کے ذمہ لگان کی ایک کوڑی باقی نہیں ہے۔‘‘

    عدالت، ’’رسیدیں کیوں نہیں دیں۔‘‘

    درگاناتھ، ’’میرے آقاکاحکم۔‘‘

    مجسریٹ نے نالشیں خارج کردیں۔ کنورصاحب کوجونہی اس شکست کی خبرملی ان کے غیظ وغصب کی کوئی حد نہ رہی۔ پنڈت درگاناتھ کوہزاروں ہی بے نقط سنائیں۔ نمک حرام، دغاباز، بے وفا، مکار۔ میں نے اس شخص کی کتنی خاطرکی۔ مگرکتے کی دم کبھی سیدھی نہیں ہوتی۔ آخردغاکرہی گیا۔ خیریت یہ ہوئی کہ پنڈت درگا ناتھ مجسٹریٹ کافیصلہ سنتے ہی مختارعام کوکنجیاں اور کاغذات سپرد کرکے رخصت ہوگئے تھے ورنہ اس نمک حرامی کے صلہ میں کچھ دنوں تک ہلدی اورگڑپینے کی ضرورت ہوتی۔

    کنورصاحب کالین دین وسیع پیمانہ پرتھا۔ چاندپار بڑا علاقہ تھا۔ وہاں کے اسامیوں پرکئی ہزار کی رقم آنے کوتھی۔ انہیں یقین ہوگیا کہ اب یہ روپیہ ڈو ب جائے گا۔ وصول ہونے کی کوئی امید نہیں۔ اس پنڈت نے اسامیوں کو سرچڑھادیا۔ اب انہیں میرا خوف نہیں رہا۔ اپنے کارندوں اورمشیروں سے صلاح لی۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ اب وصولی کی کوئی صورت نہیں۔ کاغذات عدالت میں پیش کئے جائیں گے توآمدنی کا ٹیکس تولگ جائے گا۔ مگرروپیہ وصول ہونا مشکل۔ عذرداریاں ہوں گی۔ کہیں صاحب میں کوئی غلطی نکل آئی تورہی سہی ساکھ بھی جاتی رہے گی اور دوسرے علاقوں کا روپیہ بھی مارپڑے گا۔

    مگردوسرے دن جب ٹھاکر صاحب پوجا پاٹ سے فارغ ہوکر اپنے چوپال میں بیٹھے تو کیادیکھتے ہیں کہ چاندپار کے اسامی غول کے غول چلے آرہے ہیں۔ انہیں خوف ہوا کہ کہیں یہ سب کوئی فساد کرنے تونہیں آئے۔ مگرکسی کے ہاتھ میں لکڑی تک نہ تھی۔ ملوکا آگے آگے آتاتھا۔ اس نے دورہی سے جھک کرسلام کیا۔ ٹھاکر صاحب کوایسی حیرت ہوئی گویا کوئی خواب دیکھ رہے ہیں۔

    ملوکانے سامنے آکرعرض کی، ’’سرکار ہم لوگوں سے جو کچھ بھول چوک ہوئی اسے ماپھ کیاجائے۔ ہم لوگ سب ہجورکے چاکرہیں۔ سرکارنے ہم کوپالا ہے۔ اب بھی ہمارے اوپروہی نگاہ رہے۔‘‘

    کنورصاحب کاحوصلہ بڑھا۔ سمجھے کہ پنڈت کے چلے جانے سے ان سبھوں کے ہوش ٹھکانے ہوگئے ہیں۔ اب کس کا سہارا لیں گے۔ اسی بدمعاش نے ان سب کوبھڑکادیاتھا۔ کڑک کوبولے، ’’وہ تمہارے حمایتی پنڈت کہاں گئے۔ وہ آجاتے تو ذرا ان کی مزاج پرسی کی جاتی۔‘‘

    بوڑھے ملوکا نے آنکھوں میں آنسوبھرے ہوئے کہا، ’’سرکار ان کوکچھ نہ کہیں۔ وہ آدمی نہیں دیوتا تھے۔ جوانی کی سوگندہے جوانہوں نے آپ کی کوئی شکایت کی ہو۔ وہ بے چارے توہم لوگوں کوباربارسمجھاتے رہتے کہ دیکھومالک سے بگاڑ کرنا اچھی بات نہیں۔ ہم سے کبھی ایک لوٹےپانی کے روادار نہیں ہوئے۔ چلتے چلتے ہم لوگوں سے کہا کہ مالک کاجو کچھ تمہاے جمے نکلے، چکادینا۔ آپ ہمارے مالک ہیں۔ ہم نے آپ کابہت کھایاپیا۔ آپ ہی کے نمک سے ہمارے تن پلے ہیں۔ اب ہماری سرکارت یہی بنتی ہے کہ ہمارا حساب کتاب دیکھ کر جوکچھ ہمارے اوپر نکلے ہم سے بتادیاجائے ہم ایک ایک کوڑی چکاکرتب پانی پئیں گے۔‘‘

    کنورصاحب کوسکتہ ساہوگیا۔ انہیں روپیوں کے لئے کتنی بارزبردستی کھیت کٹوائے گئے۔ کتنی بار گھروں میں آگ لگوائی۔ کتنی بار مارپیٹ کی۔ کیسی کیسی سختیاں کیں۔ کیسے کیسے ستم ڈھائے۔ اورآج یہ سب خودبخود سارا حساب صاف کرنے آئےہیں۔ یہ کیا جادوہے۔

    مختارعام صاحب نے کاغذات کھولے۔ اورآسامیوں نے اپنی اپنی پوٹلیاں کھولیں۔ جس کے ذمہ جتنا نکلا اس نے بے چوں چرا وہ رقم سامنے رکھ دی۔ دیکھتے دیکھتے سامنے روپیوں کاڈھیرلگ گیا۔ چھ ہزار روپیہ دم کی دم میں وصول ہوگیا۔ کسی کےذمہ کچھ باقی نہیں۔ یہ سچائی اور انصاف کی فتح تھی۔ زبردستی اورظلم سے جو کام کبھی نہ ہوا وہ انسانیت نے پورا کردکھایا۔

    کل جب سے یہ لوگ مقدمہ جیت کرگھرآئے اسی وقت سے انہیں روپیہ ادا کرنے کی دھن سوارتھی۔ پنڈت جی کووہ سچ مچ دیوتا سمجھنے لگے تھے۔ اوریہ ان کی سخت تاکید تھی۔ کسی نے غلہ بیچا، کسی نے گنے گروی رکھے۔ کسی نے بیل فروخت کرڈالے۔ یہ سب کھچ سہا۔ مگرپنڈت جی کی بات نہ ٹالی۔

    کنورصاحب کے دل میں پنڈت جی کی طرف سے جوبدگمانی اور کدور ت تھی وہ بہت کچھ مٹ گئی۔ مگرانہوں نے ہمیشہ سختی اورظلم سے کام لیناسیکھا تھا۔ انہیں اصولوں کے وہ قائل تھے۔ انصاف اور سچائی اور ملائمیت کی انہوں نے ہمیشہ آزائش نہیں کی اوران پر ان کابالکل اعتقادنہ تھا۔ مگرآج انہیں صاف نظر آرہاتھا کہ سچائی اور نرمی میں بڑی طاقت ہے۔ یہ اسامی میرے قابو سے نکل گئے تھے۔ میں ان کا کیا بگاڑسکتا تھا۔ یہ خوف کاکرشمہ نہیں۔ حق اورانصاف کی تاثیرہے۔ ضروروہ پنڈت سچا اور دھرماتما آدمی تھا۔ اس میں مصلحت اندیشی نہ ہو۔ موقع شناسی نہ ہو، مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ سچا اور بے لو ث تھا۔

    جب تک ہم کوکسی چیز کی ضرورت نہ ہو اس کی ہماری نگاہوں میں قدرنہیں ہوتی۔ ہری دوب بھی کسی وقت اشرفیوں کے تول بک جاتی ہے۔ کنورصاحب کا کام ایک بے لوث آدمی کے بغیر رکانہیں رہ سکتا تھا۔ اس لئے پنڈت جی کے اس مردانہ فعل کی قدرایک شاعرکافکرِسخن سے زیادہ نہ ہوئی۔ چاندپار کے آدمیوں نے تو اس کے بعد اپنے زمیندار کوکسی قسم کی تکلیف نہیں دی۔ ہاں ریاست کے دوسرے حصوں میں وہی سابق دستور رگڑجھگڑمچی رہتی تھی۔ روزانہ عدالت، روزانہ فوجداری، روزانہ ڈانٹ پھٹکار، مگریہ سب زمینداری کے سنگارہیں۔ ان کےبغیرزمینداری کیا!آخروہ دن بھر بیٹھے بیٹھے کیامکھیاں مارے۔ کنورصاحب اسی طرح شانِ قدیم کے ساتھ اپنا انتظام سنبھالتے جاتے تھے۔

    کئی سال گزرگئے۔ کنورصاحب کاکاروبار زروبروز چمکتاگیا اورباوجود اسکےکہ پانچ لڑکیوں کی شادیاں بڑے حوصلہ اوردھوم کے ساتھ کیں۔ ان کے عروج میں زوال نہ آیا۔ ہاں قوا البتہ کچھ کچھ ڈھیلے ہونے لگے۔ افسوس یہ تھا کہ اب تک اس مال وزراور جاہ وحشم کا کوئی وارث نہیں تھا۔ بھانجے، بھتیجے اور نواسے ریاست پر دانت لگائے ہوئے تھے۔

    کنورصاحب کا دل ان دنیاوی جھگڑوں سے پھرتا جاتا تھا۔ آٓخریہ رونادھونا کس کے لئے! اب ان کے طرزِزندگی میں ایک انقلاب ہوا۔ کبھی کبھی سادھوسنت ان کے دروازہ پر دھونی رمائے نظرآتے وہ خود اب بھگوت گیتااور وشنوپران زیادہ پڑھتے۔ بتیرنی گھاٹ سے اترنے کے سامان ہونے لگے لیکن پرماتما کی مرضی! سادھو سنتوں کی دعا کی بدولت، خواہ دھرم اورپن کے اثرسے، بڑھاپے میں ان کے لڑکا پیداہوا۔ سوکھاپیڑ ہراہوا۔ زندگی کی امیدیں برآئیں۔ خوب دل کھول کر مال وزر لٹایا۔

    مگر جس طرح بانس کی جڑیں نکلی ہوئی کوپل جوں جوں بڑھتی ہے بانس سوکھتاہے۔ اسی طرح کنورصاحب بھی جسمانی عارضوں میں مبتلا ہوتے گئے۔ ہمیشہ بیدوں اورڈاکٹروں کاتانتا لگارہتا۔ مگرمعلوم ہوتا تھا کہ دواؤں کاالٹا اثر ہورہاہے۔ قابض مسہل اور مسہل قابض کاکام کرتی۔ جوں تو ں کرکے انہوں نے دوڈھائی سال کاٹے۔ یہاں تک کہ طاقتوں نے جواب دے دیا۔ زندگی کی آس ٹوٹ گئی معلوم ہوگیاکہ میرے دن قریب ہیں۔

    مگریہ ساری جائیداد اورساراکاروبارکس پر چھوڑجاؤں۔ افسوس! ارمان دل ہی میں رہ گیا۔ بچے کابیاہ بھی نہ دیکھ سکا۔ اس کی تتلی باتیں سننےکی بھی نوبت نہ آئی۔ اس جگر کے ٹکڑے کوکسے سونپوں جواسے اپنا بیٹا سمجھے۔ جوپودھے کوسینچے۔ پائے اوراس کی پونجی اسے سونپ دے۔ لڑکے کی ماں! عورت ذات۔ نہ کچھ جانے نہ سنے۔ اس سے کاروبار سنبھلنا مشکل۔ مختارعام اورگماشتے اورکارندے درجنوں ہیں، مگرسب کے سب دغاباز، ایمان فروش، خودغرض۔ ایک بھی ایسا آدمی نہیں جس پر میری طبیعت جمے۔ کورٹ آف وارڈس کے سپردکردوں تووہاں بھی وہی سب آفتیں۔ کوئی ادھردبائےگا، کوئی ادھرکھینچے گا۔ یتیم بچے کاکون پرساں ہوگا۔ ہائے! میں نے آدمی کی قدر نہ کی، مجھے آدمی نہیں ہیرامل گیاتھا۔ میں نے اسے ٹھیکرا سمجھا۔ کیسا سچا، کیسا دلیر، اپنے ایمان پرقائم رہنے والا آدمی تھا۔ وہ اگرکہیں مجھے مل جائے تو میرے سب بگڑے کام بن جائیں۔ اس بدنصیب لڑکے کے دن پھرجائیں۔ میں اس کے پیروں پرسررکھ دوں گا۔ اسے مناؤں گا اوراپنے لال کو اس کے قدموں پرڈال دوں گا۔ میں اپنے جنم کی کمائی اس کے سپردکردوں گا۔ اس کے دل میں درد ہے۔ رحم ہے۔ وہ ایک پتیم پرترس کھائے گا۔ آہ کاش مجھے اس کے درشن مل جاتے۔ میں اس کودیوتا کی پیردھودھوکرماتھے پر چڑھاتا۔ آنسوؤں سے اس کے پیر دھوتا۔ اس کی منت کرتا۔ اس سے دیاکاوان مانگتا۔ وہی اگرہاتھ لگائے تو یہ ڈوبتی ہوئی ڈونگی پار لگ سکتی ہے۔

    ٹھاکر صاحب کی حالت روزبروز خراب ہوتی گئی۔ وقت آخرآپہنچا۔ انہیں پننڈت درگاناتھ کی رٹ لگی ہوئی تھی۔ بچے کی صورت دیکھتے اور کلیجہ سے ایک آہ نکل جاتی۔ باربارپچھتاتے اور کفِ افسوس ملتے۔ ہائے! اس دیوتا کوکہاں پاؤں۔ جو شخص اس وقت ان کے درشن کرادے آدھی جائیداد اس کے نچھاور کردوں۔ پیارے پنڈت! میری خطا معاف کرو۔ میں اندھا تھا۔ نادان تھا۔ اب میری بانہہ پکڑو۔ مجھے ڈوبنے سے بچاؤ۔ اس معصوم بچے پرترس کھاؤ!

    عزیز و اقارب کاجمگھٹ سامنے کھڑا تھا۔ کنورصاحب نے ان کے چہروں کی طرف نیم وا آنکھوں سے دیکھا۔ سچی غمخواری کہیں نظر نہ آئی۔ ہرایک چہرہ پرخودغرضی جھلک رہی تھی۔ عالمِ یاس میں انہوں نے آنکھیں موندلیں۔

    ان کی بیوی زارزار رورہی تھی۔ آٓخر اس سے ضبط نہ ہوسکا۔ اسے روتے ہوئے قریب جاکر کہا، ’’پتی جی! ہم کو اور اس اناتھ بالک کو کس پر چھوڑے جاتے ہو؟‘‘

    کنورصاحب نے آہستہ سے کہا، ’’پنڈت درگاناتھ پر۔ وہ جلدآئیں گے۔ میرا دل کہتا ہے ان سے کہہ دینا کہ میں نے اپنا سب کچھ اس کے بھینٹ کردیا۔ یہ میری آخری وصیت ہے۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے