پہلا پتھر
کہانی کی کہانی
بنیادی طور پر یہ کہانی عورت کے جنسی استحصال کی کہانی ہے۔ لیکن مصنف نے اس میں تقسیم کے وقت کی صورت حال اور فرقہ وارانہ تعصب کا نقشہ بھی کھینچا ہے۔ سردار ودھاوا سنگھ کی بڑی سی حویلی میں ہی فرنیچر مارٹ اور پرنٹنگ پریس ہے، جس کے کاریگر، سردار کی دونوں بیویاں، پناہ گزیں دیوی داس کی تینوں بیٹیاں، سردار کے دونوں بیٹے آپس میں اس طرح بے تکلف ہیں کہ ان کے درمیان ہر قسم کا مذاق روا ہے۔ سردار کی دونوں بیویاں کارخانہ کے کاریگروں میں دلچسپی لیتی ہیں تو کاریگر دیوی داس کی بیٹی گھکی اور نکی کو ہوس کا نشانہ بناتے ہیں، چمن گھکی سے شادی کا وعدہ کرکے جاتا ہے تو پلٹ کر نہیں دیکھتا۔جل ککڑ نکی کو حاملہ کر دیتا ہے اور پھر وہ کنویں میں چھلانگ لگا کر خودکشی کر لیتی ہے۔ سانولی اندھی ہے، اس کو ایک پناہ گزیں کلدیپ حاملہ کر دیتا ہے۔ سانولی کی حالت دیکھ کر سارے کاریگروں کے اندر ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے اور کارخانہ کا سب سے شوخ کاریگر باج سنگھ بھی ممتا کے جذبہ سے شرابور ہو کر سانولی کو بیٹی کہہ دیتا ہے۔
تب شاستری اور فریسی ایک عورت کو لائے جو بدکاری میں پکڑی گئی تھی اور اس کو بیچ میں کھڑا کر کے کہا،
اے استاد! یہ عورت بدکاری کرتی ہوئی پکڑی گئی ہے۔
موسیٰ کے قانون کے مطابق ایسی عورت کو سنگسار کرنا جائز ہے۔ سو تو اس عورت کے بارے میں کیا کہتا ہے؟
جب وہ اس سے پوچھتے رہے تو اس نے سیدھے ہوکر ان سے کہا، ’’تم میں سے جس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو۔ وہ پہلے اس کو پتھر مارے۔
(یوحنا رسول: آیت ۴۰۳، ۷۷۵)
(۱)
رندہ ہاتھ سے رکھ کر باج سنگھ نے چوکنا تیتر کی طرح گردن دروازے سے باہر نکالی اور ایک نظر شاہی اصطبل پر ڈالی۔۔۔ کوئی خاص چیز دکھائی نہیں دی۔ حالانکہ اسے شبہ یہی ہوا تھا کہ گھکی بڑے دروازے میں کھڑی کسی کو آواز دے رہی تھی۔ وہ اس خیال سے اٹھا تھا کہ اندھیرے میں گھکی کی ایک آدھ چمی لے لینا مشکل نہ ہوگا۔
’’شاہی اصطبل‘‘ در اصل اصطبل نہیں تھا بلکہ یہ سردار ودھاوا سنگھ کی شاندار حویلی تھی جسے باج سنگھ عرف باج اور اس کے چیلے چانٹے شاہی اصطبل کے نام سے پکارتے تھے۔ حویلی کی سب سے بڑی خوبی تھی اس کی کشادگی۔ یہ حویلی ایک بہت بڑے صندوق کے مانند تھی۔ چھت کاطول و عرض اتنا کہ پوری بارات کے لیے چارپائیاں بچھائی جا سکتی تھیں۔ بڑے بڑے ہال کمرے، دروازے آٹھ آٹھ فٹ اونچے۔ ان ہال کمروں میں عظیم الجثہ سردار ودھاوا سنگھ فیل پاکے باعث زخمی شیر کی طرح اینڈھ اینڈھ کر چلا کرتے تھے۔ حویلی کاایک حصہ لیبل پرنٹنگ پریس کے لیے وقف تھا۔ اس کے علاوہ حویلی کے اندر کی جانب بڑے دالان کے گوشے میں نانک فرنیچر مارٹ کے مالک بھی سردارجی ہی تھے۔ فرنیچر کا کارخانہ یہاں تھا اور شوروم حویلی کی دوسری طرف یعنی عین برلب سڑک۔
باج ہیڈمستری تھا۔ ہاتھ کی صفائی اور حرمزدگی کی ’چستی‘ کے باعث سب کارندوں کا، خواہ وہ کارخانے کے ہوں یا پریس کے، وہ استاد سمجھا جاتا تھا۔ حویلی کے بغل میں سڑک کی جانب چند دکانیں تھیں مع مکانات کے۔ یہ سب سردارجی کی ملکیت تھیں۔ آخر ان کے آبا و اجداد جالندھر شہر ہی میں رہتے آئے تھے۔ اس لیے اتنی سی جائداد کا بن جانا غیر معمولی بات نہیں تھی۔
جب ۱۹۴۷ء کے آغاز میں مغربی پنجاب کے مسلمان بھائیوں نے اپنے کراڑ اور سکھ بھائیوں کا ناکہ بند کر دیا تو رفیوجیوں کی ایک بڑی تعداد مشرقی پنجاب میں آ گئی۔ ان میں گھکّی کا باپ دیوی داس بھی تھا۔ پیشے کے اعتبار سے وہ بنیا تھا۔ چنانچہ سردارجی نے حویلی کے بالکل بغل والا دکان اور مکان ازراہِ کرم اسے کرایہ پر دے ڈالا اور وہ وہاں پنساری کی دکان کرنے لگا۔ اس کی بیوی کو مسلمان بھائیوں نے ہلاک کر دیا تھا۔ لیکن اس کا اپنی تین جوان لڑکیوں سمیت صحیح سلامت نکل آنا معجزے سے کم نہیں تھا۔ ان میں سے سب سے بڑی کانام گھکّی، اس سے چھوٹی کا نام نکی اور سب سے چھوٹی کا سانولی تھا۔ سانولی اندھی تھی۔
گھکّی خوبصورت اور بانکی لڑکی تھی۔ موقعہ پاکر سب سے پہلے باج سنگھ نے اس کی چمی لی تھی۔ بوسہ لینے کے سلسلےمیں کھل جا سم سم تو باج نے کی، لیکن اس کے بعد باقی لوگوں کا راستہ بھی صاف ہو گیا۔ اس میں امیر و غریب کی تخصیص نہیں تھی۔ سردار صاحب کے بیٹے، ان بیٹوں کے دوست اور کارندے وغیرہ سب ایک آدھ چمی کی تاک میں رہتے۔ یہ بات نہیں تھی کہ ان میں سے ہر ایک کا داؤ چل ہی جاتا ہو۔ بعض تو دور ہی سے چٹخارے لینے والوں میں سے تھے۔ کیونکہ گھکّی بقول لیبل کاٹنے والے چرن کے ’بڑی چلتی پرزی‘ تھی۔ پٹھے پر ہاتھ نہیں رکھنے دیتی تھی کسی کو اور تو اور خود باج سنگھ جو بڑا دیدہ دلیر اور گھسڑم گھساڑ قسم کا آدمی تھا، چمی سے آگے نہ بڑھ پاتا تھا، تو بھلا دوسروں کو وہ قریب کہاں پھٹکنے دیتی تھی۔
مایوس ہوکر باج سنگھ ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کارخانے کے دروازے ہی میں کھڑا رہ گیا۔ اس کے بازو کہنیوں تک لکڑی کے برادے سے سنے ہوئے تھے۔ پینتالیس بہاریں دیکھنے کے بعد بھی اس کابدن اکہرا اور مضبوط تھا۔ صورت گھناؤنی ہونے سے بال بال بچی تھی۔ مونچھوں کے بال جھڑبیڑھی کے کانٹوں کی طرح ہوگئے تھے۔ ہونٹ موٹے۔ ایک آنکھ میں پھولا۔ اونٹ کے کوہان کی طرح ناک کے نتھنوں میں سے بال باہر نکل آیا کرتے تھے، جنہیں وہ چمٹی سے کھینچ ڈالتا۔ آج سے دس برس پہلے اس کی بیوی مر گئی۔ بیوی کے چھ مہینے بعد اس کی اکلوتی بچی بھی چل بسی۔
وہاں کھڑے کھڑے باج نے دیکھا کہ جس ہل چل کا اسے احساس ہوا تھا، وہ بالکل بے معنی نہیں تھی۔ کیونکہ حویلی کے یکے بعد دیگرے چار دروازوں سے پرے باہر والے برآمدے میں برقی روشنی ہو رہی تھی۔ لکڑی کے چھوٹے سے پھاٹک میں سے کچھ سامان اندر لایا جا رہا تھا۔ جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ ضرور کوئی نیا مہمان آیا ہے۔ جب سے مغربی پنجاب میں گڑبڑ شروع ہوئی تھی، سردار جی کے یہاں کافی مہمان آ رہے تھے۔ کچھ عرصہ پہلے ان کے ایک ہندو دوست اپنے بال بچوں سمیت آگئے، ان کا ایک نوجوان لڑکا تھا۔ چمن۔۔۔!
اس کی گردن مور کی سی تھی اور آنکھیں سرمیلی۔ وہ بھی گھکّی کو دلچسپی کی نظروں سے دیکھتا تھا۔ باج کے چیلے چانٹوں کا خیال تھا کہ گھکّی بھی اس پر مرتی تھی۔ باج کے دل میں حسد پیدا نہیں ہوا۔ وہ ان چیزوں سے بالاتر تھا، کہتا، ’’ارے ہماراکیا ہے۔ ہم نے آتے ہی گھکّی کی چمیاں لے کر اسے کانی کر ڈالا۔ اب چاہے ٹنڈا لاٹ بھی اس کی چمی لیا کرے ہمارے۔۔۔ سے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اپنی ایک ثابت اور دوسری پھولاماری آنکھ سے سب کے چہروں کا جائزہ لیتا۔ جب چمن کے گھروالے الگ مکان لے کر رہنے لگے تو پھر بھی سردارجی کےیہاں چمن کی آمد ورفت جاری رہی۔ ادھر باج نےگھکّی سے زیادہ اس کی چھوٹی بہن نکی کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔
دروازے میں کھڑے کھڑے پہلے تو باج کے دل میں آئی کہ جاکر نئے مہمانوں کو دیکھے۔ شاید کوئی ’لنڈیا‘ بھی ان میں شامل ہو لیکن آج کل کام بہت آیا ہوا تھا، جسے جلد از جلد ختم کرنا ضروری تھا۔ ’’ہٹاؤ‘‘ اس نے دل ہی دل میں کہا، ’’صبح سب کچھ سامنے آجائے گا۔‘‘
(۲)
دوسرے روز آنکھ کھلی تو باج نے جلتا پھنکتا سورج اپنی پیشانی پر چمکتا ہوا پایا۔ ادھر یہ ہڑبڑا کر اٹھا، ادھر بڑی سردارنی حسب معمول بھوری بھینس کی طرح کدو کدو بھر چھاتیاں تھلتھلاتی، سینہ زوریاں دکھلاتی آگ جلانے کے لیے برادہ لینے کے واسطے چھاج ہاتھ میں پکڑے اس کی جانب بڑھی۔ بڑی سردارنی کے جسم کا ہر عضو اپنے نقطہ عروج تک پہنچ چکا تھا۔ یعنی جو چیز جتنی موٹی، جتنی بھدی، جتنی کشادہ ہو سکتی تھی، ہوچکی تھی، چلتی تو یوں معلوم پڑتا جیسے تنور ڈھانپنے والے چاپڑ کو پاؤں لگ گئے ہوں۔
ایسی ڈبل ڈوز سردارنی بھی سردار جی کے لیے ناکافی ثابت ہوئی۔ چنانچہ انہیں ایک چھوٹی سردارنی بھی کہیں سے اڑا کر لانی پڑی۔ لیکن جب سے ان کے فوطوں میں پانی بھر آیا تھا، تب سے انہوں نے سردارنیوں سے توجہ ہٹا کر ہر روز کئی کئی گھنٹے مسلسل گوربانی کے پاٹھ پر مرکوز کردی تھی۔ موقعہ ملنے پر بڑی سردارنی ضرورت سے زیادہ دیر تک باج کے پاس کھڑی رہتی۔ کیونکہ باج نہایت مسکین بن کر کئی بار کہہ چکا تھا، ’’پروڈھی سردارنی! آپ بیالیس برس کی تو نہیں دکھائی دیتیں جی۔۔۔! جی! آپ تو مشکل سے تیس برس کی دکھائ دیتی ہیں۔‘‘
اس پر بڑی سردارنی دل ہی دل میں چہک اٹھتیں اور غین (غ) کی طرح منہ بناکر فرماتیں، ’’ہٹ وے پراں۔ کون کہتا ہے میں بیالیس برس کی ہوں۔‘‘ اس کے بعد وہ دروازے سے کندھا بھڑائے جمی کھڑی رہتیں۔ ایک ٹانگ سیدھی رکھتیں اور دوسری ٹانگ کو دھیرے دھیرے حرکت دیتی رہتیں۔ ڈھکے ہوئے پپوٹوں تلے دبی ہوئی پتلیاں باج کے چہرے پر جمائے رکھتیں۔ باج دل ہی دل میں سوچتا کہ گھکّی کی کمر تو بڑی سردارنی کی پنڈلی سے بھی پتلی ہوگی۔
بالآخر جب سردارنی ٹوٹے ہوئے جھاج میں برادہ بھر کر لوٹیں تو ان کے پچھواڑے کا نظارہ دیکھ کر باج کے منہ سے بے اختیار نکل گیا، ’’بلے بلے۔‘‘ پھر اپنے ایک نوجوان ساتھی بونگے سے مخاطب ہوکر بولا، ’’کیوں او بونگیا! اگر سردار جی پھیل بے جنجیر ہیں تو سردارنی بھی وہ چٹان ہے جو جتنی جمین سے باہر ہے، اس سے چارگنا جمین کے اندر دھنسی ہوئی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے پھلاہ کی داتن منہ میں ڈالی تو اس کی چرمراہٹ سے اس کا بدصورت چہرہ اور زیادہ بھدا ہوگیا۔ بونگے نے جواب دیا، ’’ابے تو سردار جی کو کیا سمجھتا ہے۔ اگر سردارنی چارگنا زمین کے اندر ہے تو سردار جی دس گناجمین میں دپھن ہیں۔‘‘ باج نے بیٹھے بیٹھے مریل بونگے کو لات رسید کرتے ہوئے کہا، ’’اوئے چل اوئے مئوں دیا متراڑا۔‘‘ جو بات یاد آئی تو پھر بولا، ’’پربونگیا گھکّی کی کمر تو سردارنی کی پنڈلی سے بھی کم موٹی ہوگی۔۔۔‘‘
’’تو پھر؟‘‘
’’نا نا۔۔۔ سوچو بھلا اتنی پتلی کمر۔۔۔ بہت پتلی کمر ہے جار! اتنا ناجک لک۔‘‘
’’اوبئی!‘‘ بونگے نے مشفقانہ انداز میں کہنا شروع کیا، ’’عورت کی کمر میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ مرد کی ساری طاقت چھاتی میں اور عورت کی کمر میں ہوتی ہے۔‘‘
’’ہچھا!‘‘ گھاگ باج نے گال کے اندر زبان گھمائی۔ اسی اثنامیں چمن بھی ادھر آ نکلا۔ وہ ہر وقت چمکتا رہتا تھا۔ باچھوں میں سے ہنسی یوں پھوٹی پڑتی تھی جیسے وہ ریوڑیاں کھا رہا ہوں۔ چلتا تو لہرا کے۔ بات کرتا تو بل کھا کے۔ بونگے نے کہا، ’’لے بھئی! گھنیا جی تو آگئے۔‘‘
’’گوپی بھی آتی ہی ہوگی۔‘‘ باج نے چھدرے دانتوں کی نمائش کی اور منہ سے ٹپکتی ہوئی رال کو بمشکل روکا۔ بونگے نے پہلے تو چمن کو دل پھینک انداز سے دیکھا اور پھر ایک آنکھ بند کرکے دوسری آنکھ باج کی بغیر پھولے والی آنکھ سے ملائی اور گھی میں ڈوبی ہوئی آواز میں بولا، ’’جار! جیہ لونڈیا بھی گوپی سے کم نمکین نہیں ہے۔‘‘ باج نے ایک اور لات رسید کی، ’’بڑا ٹھرکی ہے بے تو۔‘‘ بونگے نے بھاؤ بنا کر گانا شروع کیا، ’’اوئے بھگت لبوب کبیر بھی تو فرما گئے ہیں کہ اوئے کچا منڈارن درگا۔۔۔‘‘
عین اس وقت چھوٹی سردارنی بھی کولہے مٹکاتی دھم دھم کرتی دروازے سے نکل کر صحن میں آن پہنچیں۔ کہنے کو تو وہ چھوٹی سردارنی تھیں لیکن ڈیل ڈول کے لحاظ سے اگر بڑی بیس تھیں تو وہ انیس۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے دھنیے نےمنوں روئی دھنک کر ہوامیں اڑا دی ہو۔ البتہ نقوش تیکھے تھے۔ رنگ نکھرا ہوا تھا۔ چہرہ چکنا چپڑا۔ اگلے دو دانتوں میں سونے کی میخیں۔
مشہور تھا کہ وہ سردار جی کی بیاہتا نہیں تھیں۔ بقول باج کچھ جیر جبر معاملہ تھا۔ باوجود موٹاپے کے چھوٹی سردارنی کی بوٹی بوٹی تھرکتی تھی۔ بڑی سردارنی کو حالات نے ذرا فلسفی بنا دیا تھا اور حالات ہی نے چھوٹی سردارنی کو ’’چل چل چنبیلی باغ میں میوہ۔۔۔ الخ‘‘ بنا دیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ بڑی سردارنی کے سامنے لونڈے لونڈیاں آپس میں ہنسی ٹھٹھول کرنے سے کتراتی تھیں۔ لیکن چھوٹی سردارنی کے سامنے کھلے بندوں چھیڑ چھاڑ کا بازار گرم رہتا۔ گرما گرمی میں چھوٹی سردارنی کی کمر میں بھی ایک آدھ چٹکی بھرلی جاتی، جس پر وہ نوخیز لڑکی کے مانند کلبلاتی بل کھاتی اور کھل کھلاتی تھیں۔
وہ رنگین محفلوں کی جان تھیں۔ ان کی عمر اگر چہ پینتیس سے تجاوز کر چکی تھی، تاہم سردار جی اب بھی ان کی نگرانی کرتے تھے۔ کیونکہ چھوٹی سردارنی چلتی تو جھمکڑے کے ساتھ، بیٹھتی تو جھمکڑے کے ساتھ۔ اس کی بے تکلفانہ محفلوں میں آنکھیں لڑانے، چٹکیاں لینے اور ہائے وائے کرنے کے مواقع بڑی آسانی سے فراہم ہو جاتے تھے۔ شاذونادر وہ ایک آدھ بدتمیزی پر چیں برجبیں بھی ہو جاتیں تو سب لڑکے اور لڑکیاں انہیں منانے لگتے۔ ان کے بدن کو سہلایا جاتا۔ ان سے لپٹ لپٹ کر خوشامدیں کی جاتیں۔ آخر کار وہ من جاتیں۔
چنانچہ اب جو وہ صحن میں داخل ہوئیں تو گویا نسیم سحری کی طرح آئیں اور اپنے ہمرکاب نہ صرف بوئے چمن لائیں بلکہ اپنے اوٹ میں نرگس، نسرین اور گلاب وغیرہ بھی لائیں یعنی گھکّی، نکی اور سانولی اور دیگر لڑکیاں بھی ان کے پیچھے چھپی چھپی آ رہی تھیں۔ مقصود اس سے حاضرین کو تعجب انگیز مسرت بہم پہنچانا تھا۔ وہی بات ہوئی کہ دفعتاً ’’اوئے‘‘ کے شور سے فضا گونج اٹھی اور کچے کنوارے قہقہوں کی مسلسل موسیقی سے سارا صحن رسمسا گیا۔ ان سب سے دور، سڑک والے کمرے میں کسی جٹاجوٹ سنیاسی کی طرح پاٹھ کرتے ہوئے سردارجی کے کان بھی ان آوازوں سے تھرتھرائے، پیشانی کے خطوط گہرے ہوگئے۔ انہوں نے جلدی سے اپنے بڑے بڑے دانتوں پر ہونٹ پھسلا کر بے چینی سے پہلو بدلا وار غرا کر کہا، ’’باہگورو نام جہاز ہے، جو چڑھے سو اترے پار۔‘‘
(۳)
داتن کی آخری منزل پر پہنچ کر باج نے بڑا کنستر اٹھایا اور صحن کے پرلے گوشے میں دستی نلکے کے قریب پہنچا۔ اب فضا نسبتاً پرسکون تھی۔ کچھ لوگ تو چھوٹی سردارنی کو گھیرے تھے، باقی اپنے اپنے مشاغل میں محو تھے۔ کنستر نلکے کےنیچے رکھ کر باج نے دستی کے دوچار ہاتھ ہی چلائے ہوں گے کہ سامنے سے نکی جلد جلد قدم اٹھاتی ہوئی اس کی جانب آئی اور آتے ہی بولی، ’’کنستر اٹھاؤ تو۔۔۔‘‘ باج کی خوشی کا بھلا کیا ٹھکانا تھا۔ داتن چباتے چباتے اس کا منہ رک گیا۔ آنکھوں کے گوشے شرارت اور حرمزدگی کے باعث سمٹ گئے۔
’’نی گڑیے کی گل اے۔‘‘
’’اے دیکھ گل ول کچھ نہیں۔ کنستر ہٹا جھٹ پٹ۔‘‘
باج نے دانت پیس کر ہاتھ پھینکا۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ نکی پہلے ہی سے تیار تھی۔ جھپ سے پیچھے ہٹ کر بدن چرا گئی اور نیم معشوقانہ انداز سے چلا کر بولی، ’’ہم کیا کہہ رہے ہیں کنستر ہٹانا۔‘‘
’’اری کنستر سے کیا بیر ہے۔۔۔ ہماری ہر چیز سے بدکتی ہو۔‘‘
’’پانی پیئں گے۔‘‘ باج نے کسنتر ہٹا دیا، ’’لو جانی پیو اور جیو۔ جیو اور پیو۔‘‘ نکی نے نل کے نیچے ہاتھ رکھ دیا اور قدرے انتظار کے بعد انجن کی سیٹی کی سی آواز میں چلائی، ’’اے ہے۔۔۔ دستی ہلاؤ۔‘‘ باج نے صوفیانہ رمز کے ساتھ جواب دیا، ’’تم ہی ہلاؤنا دستی۔۔۔‘‘
’’دیکھو تنگ مت کرو۔‘‘
’’اری نام نکی ہے تو اس کا یہ متبل تو نہیں کہ تو سچ مچ نکی (چھوٹی) ہے۔‘‘
’’چھوٹی نہیں تو کیا بڑی ہوں۔‘‘ نکی نے نچلا ہونٹ ڈھیلا چھوڑ کر شکایت آمیز نگاہ اس پر ڈالی۔ اب باج نے بڑی فراخ دلانہ ہنسی ہنس کر دستی ہلانا شروع کی۔ پانی پی کر نکی بھاگنے لگی تو باج نے فوراً اس کی کلائی دبوچ کر ہلکا سا مروڑا دے دیا۔
’’اوئی۔‘‘
’’کیا ہے؟‘‘
’’میری کلائی ٹوٹ جائے گی۔‘‘
’’یہاں دل جو ٹوٹا پڑا ہے۔‘‘
’’چھوڑنا! کوئی دیکھ لے گا۔‘‘
’’اری کبھی ہم سے بھی دو بات کر لیا کر۔‘‘
’’کہانا، کوئی دیکھ لے گا۔‘‘
’’تو پھرآئے گی نا ہمارے پاس۔‘‘
’’میں نہیں جانتی۔‘‘
ایک اور مروڑا۔ نکی کو واقعی سخت تکلیف ہو رہی تھی۔ جان چھڑانے کے لیے بولی، ’’اچھا آجاؤں گی۔‘‘
’’پکا وعدہ۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’مار ہاتھ پر ہاتھ۔‘‘
ہاتھ پر ہاتھ مارا گیا۔
’’اچھا دیکھ! اب کلائی چھوڑے دیتا ہوں، پر ایک شرط ہے۔۔۔ تو بھاگے گی نہیں۔‘‘
’’اچھا نہیں بھاگوں گی۔ چھوڑ اب۔ کوئی دیکھ لے گا۔‘‘
’’بس دو ملٹ بات کرلے ہم سے۔ جاد رکھیو جو ہمیں دھوکا دیا تو بانس پر لٹکادوں گا۔‘‘ ہاتھ چھوٹنے پر نکی ننھی سی خوش وضع ناک چڑھائے اور ابرو پر بل ڈالے نیم رضامندی سے رکی رہی اور جب کہ باج اس نظارے سے لطف اندوز ہو رہا تھا، وہ ٹھمک کر بولی، ’’کہہ اب۔‘‘
’’بات کرتی ہو کہ ڈھیلے مارتی ہو۔‘‘
’’اب جو تم سمجھو۔ جلدی سے بات کہہ ڈالو۔ اتا بخت (وقت) نہیں ہے۔‘‘
’’بخت (وقت) نہیں ہے۔ کیا کسی جارے سے ملنے جانا ہے۔‘‘
’’دھت۔ کوئی سن لے گا۔ تم بڑے۔۔۔‘‘
’’بڑے کیا؟‘‘
’’بدماس ہو۔‘‘
’’ہائے سریپ جادی۔۔۔ کبھی کبھار بدماس سے بھی ایک آدھ بات کر لیا کر۔۔۔ اچھا نکی یہ بتا کہ تیری عمر کتی ہے۔‘‘
’’سولہ برس۔‘‘
’’کیسی میٹھی عمر ہے۔‘‘
’’ہوگی۔ بس جائیں اب۔‘‘
’’گھکّی کی بھلا کیا عمر ہوگی؟‘‘
’’مجھ سے ڈیڑھ سال بڑی ہوگی۔‘‘
’’اور سانولی۔۔۔‘‘
’’چودہ کی ہوگی۔‘‘
’’لیکن نکی تو تو چودہ کی بھی نہیں دیکھتی۔‘‘
’’دکھتی کیسے نہیں۔‘‘
’’جرا نجیک (نزدیک) آنا! دیکھوں۔‘‘
’’ہٹ۔‘‘
’’آج کل مستی جھاڑ رہی ہو۔ پہلے تو گھکّی ہی تھی۔ اب تم نے بھی پر نکال لیے ہیں۔۔۔ تم کیا اب تو سانولی بھی رنگ دکھلا رہی ہے۔‘‘
’’ارے دیکھ سانولی کو کچھ مت کہیو۔ وہ بچاری اندھی ہے۔ اس سے بری بھلی بات مت کرنا۔‘‘
’’اری نکی جوانی بن بولے بات کرتی ہے۔ اس کو اندھی کہتی ہو۔ کھد مجا اڑاتی ہو۔۔۔ لو وہ رہی سانولی۔ چپ چاپ دروجے میں بیٹھی ہے۔‘‘
صحن کے دوسرے کونے میں دروازے کی دہلیز پر اندھی سانولی الگ تھلگ چپ چاپ بیٹھی تھی۔ نکی نے ادھر دیکھا تو باج نے پوچھا، ’’سانولی جنم سے اندھی ہے کیا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’تو کیسے ہوئے اندھی۔‘‘
’’دیکھو بیکار بیکار باتیں کرتے ہو۔ ہم جاتے ہیں۔‘‘
’’ٹھہرناجرا۔ بتا تو دے۔‘‘ باج نے اصرار کیا۔ وہ قربِ یار کو طول دینے کے لیے بے معنی باتیں کیے جا رہا تھا۔
’’بھئی ہم کچھ نہیں جانتے۔ لالہ (باپ) کہتا ہے کہ وہ بچپن میں اندھی ہوگئی تھی۔ اب میں کیا جانوں۔ لو ہم چلے۔‘‘
’’ارے ہیں دروجے میں سانولی کے پاس کون کھڑا ہے؟‘‘
نکی چلتے چلتے رک گئی، ’’ہم نہیں جانتے۔‘‘ باج باچھوں کو خوب کھینچ کر ہنسا۔ ’’تجھے معلوم نہیں۔۔۔ سبھی تو تیرے جار ہیں۔‘‘
’’دیکھ ہم سے بکواس متی کر۔۔۔ ہم اسے کیا جانیں۔ رات ہی تو آیا ہے۔‘‘
’’ارے رات والا۔۔۔ اچھا اچھا یاد آیا۔ میں نے اس وقت اندر سے سر نکالا۔ سچ نکی میں سمجھا تم ہو۔۔۔ لیکن نکی تم۔۔۔‘‘ نکی نے جھنجھلا کر قدم بڑھاتے ہوئے کہا، ’’لو ہم چلے۔‘‘ اس پر باج نے زور سے ناک صاف کی اور دستی ہلانے لگا۔
(۴)
لڈو سرپٹ بھاگتا ہوا آیا اور کارخانے کے دروازے کے دونوں پٹ اس قدر دھماکے کے ساتھ کھولے کہ اندر کام کرتے ہوئے باج اور اس کے ساتھیوں کے ہاتھ رک گئے۔ وہ قدرے حیران ہو کر اس کا منہ تکنے لگے کہ لڈو لیبلوں کی گڈیاں باندھنی چھوڑ کر بے وقت یہاں کیسے آن ٹپکا۔ اندر پہنچ کر لڈو کو اس بات کا احساس ہوا کہ اس قدر دھماکے سے اپنی آمد کے جواز کے لیے جو مواد اس کے پاس ہے وہ کافی اور مناسب ہے بھی یا نہیں۔ بہر حال اس نے ہانپتے ہوئے گردن گھما کر سب کی طرف دیکھا اور بولا، ’’جارو! آج بڑی مجے کی بات دیکھنےمیں آئی۔‘‘
مزے کی بات! اس وقت گیارہ بجنے کو تھے۔ کاریگر مسلسل کام کر رہے تھے۔ اس لیے وہ مزے کی بات سننے کے موڈ میں تھے۔ ادھر باج سنگھ نے صبح باسی مٹھے سے سر دھویا تھا۔ اس کے بالوں سے ابھی سڑی لسی کی بساند دور نہیں ہوئی تھی۔ اس نے بھی موقعہ غنیمت جانا کہ مزے کی بات سننے کے ساتھ ساتھ وہ بالوں میں کنگھا کرلے گا۔ اس طرح جب اس کے بالوں کےاندر تک ہوا پہنچے گی تو بال سوکھنے کے ساتھ بساند بھی دور ہو جائے گی۔ چنانچہ اس نے اپنا پھاوڑا سا کنگھا اٹھایا اور اسے داڑھی میں اڑس کر بولا، ’’ابے لڈو ماؤں کے متراڑ، جب سے تو پیدا ہوا ہے، آج تک تونے کوئی مجے دار بات نہیں سنائی لیکن آج تو مینڈ کی کو بھی زکام والی مثال تجھ پر لاگو ہوتی ہے۔۔۔ اچھا بول بیٹے۔ بجورے۔‘‘
حالات موافق پاکر باقی کاریگر بھی پنڈے کھجاتے ہوئے لڈو کے قریب آگئے۔ ان میں مونوں (منڈے ہوئے سر والوں) نے بیڑیاں جلا کر دانتوں میں داب لیں۔ اس غیر متوقع خوش آمدید سے لڈو کی جان میں جان آئی۔ اس نے کھکھیا کر ایک بیڑی طلب کی۔۔۔ جو قدرے ناک بھوں چڑھانےکے بعد دے دی گئی۔ اب لڈو نے بڑے اہتمام کے ساتھ بیڑی کو جلایا۔ یہ توقف حاضرین کے لیے ناقابل برداشت ہوتا جا رہا تھا۔ باج نے دولتی رسید کرنے کے انداز سے پاؤں اوپر اٹھاتے ہوئے کہا، ’’اوئے بھین کے بیگن جلدی سے اگل ڈال۔ سالے ہم تیرے بے بے کے نوکر تو نہیں ہیں کہ بیٹھے منہ تکتے رہیں تیرا۔۔۔‘‘
’’جار آج بڑے مجے کی بات ہوئی۔‘‘ لڈو نے اس طرح بات شروع کی جیسے ابلتے ہوئے پانی کی کیتلی کاڈھکنا بھک سے اڑجائے۔ ’’آج صبح جب باج نکی سے۔۔۔ باج نکی سے۔۔۔‘‘ باج نے خونخوار تیور بناکر کہا، ’’اوئےتیری بہن کو چور لے جائیں۔۔۔ ہماری ہی بات ملی سنانےکو۔۔۔‘‘
’’نئیں نئیں جی۔‘‘ لڈو نے خالص پنجابی لہجے میں حلق سے گھسا کر آواز نکالی، ’’پادشاہو! آپ کی بات نہیں ہے۔ وہ تو گھکّی کی بات ہے۔‘‘ ایک کاریگر نے اشارہ کر کے ساتھیوں سے کہا، ’’یہ چونگا بھی ٹھرکی ہے اور گھکّی پر ٹھرک جھاڑنے والوں میں شامل ہے، ہاں تو برخوردار کیا بات ہے گھکّی کی۔۔۔‘‘
’’او جی جب چھوٹی سردار اکھبار میں لگی ہوئی ماسٹر تارا سنگھ کی تصویر سب کو دکھا رہی تھیں تو گھکّی اور چمن کی نجریں ملیں۔۔۔ میں دیکھ رہا تھا چپکے سے۔‘‘
’’تو تو دیکھا ہی کرتا ہے گھکّی کو، پر سالے چمن نے جتنی چمیاں لی ہیں تو نے اتی ٹھوکریں نہ کھائی ہوں گی گھکّی کی۔‘‘
اس پر لڈو نے روٹھنے کے انداز سے منہ بسورا تو کسی نے ہمدردی جتائی، ’’بھئی ایسا مت کہو بچارے کو۔ گھکّی کی ٹھوکروں میں کیا کم مجا ہے۔ کئیوں نے تو ٹھوکر بھی نہ کھائی ہوگی اس کی۔۔۔ ہال تو بول بیٹا بول۔۔۔ بول بجورے بول۔‘‘
’’بس پھر کیا تھا۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارے ہوئے، ابروہلے اور پھر گھکی بڑی مسومی کے ساتھ اٹھ کر ٹھمک ٹھمک چل دی۔‘‘
’’کہاں چھت کو۔‘‘
’’ابے نہیں۔۔۔ اس بکت تو وہ اپنے گھر کو گئی۔ تھوڑی دیر بعد چمن نے کہا کہ جرا پکھانے جاؤں گا۔ سردارے (سردارجی کا بڑا لڑکا) نے کھانس کر کہا۔ بئی جلدی آنا۔ نہ جانے پکھانے میں بند کیا کرتے ہو۔ اس پر چمن بڑی میٹھی ہنسی ہنستا ہوا پچھلے کمرے میں چلا گیا جہاں سے کہ چھت کو سیڑھیاں جاتی ہیں۔‘‘
ایک دو نے جماہی لےکر کہا، ’’ابے لڈو کے گھسے۔ یہ سب پرانی باتیں ہیں، روج کا قصہ ہے۔۔۔‘‘
’’ابے سن تو۔‘‘ لڈو نے سرزنش کی، ’’سب کی نجر بچا کر میں بھی گیا پیچھے اور بئی جب اوپر پہنچا تو دیکھا کہ سیڑھیوں کا دروجہ بند ہے۔ بس بئی یہ دیکھ کر میری پھونک نکل گئی۔‘‘
باج ہنسا، ’’سالے تیری پھونک تو اچھی طرح نکلنی چاہیے پھول کے گبارہ ہو رہا ہے۔‘‘ لڈو نے سنی ان سنی کرتے ہوئے سلسلہ کلام جاری رکھا، ’’پہلے تو میں سمجھا کہ دروجے کے پاس ہی کھڑے ہوں گے، مگر کوئی آواج سنائی نئیں دی۔ دراڑ میں سے جھانکا تو چھت پر بھی کوئی صورت نہیں دکھائی دی۔ پھر میں نے سوچا کہ جرور برساتی کے اندر بیٹھے ہوں گے۔‘‘
’’بڑی جسوسی دکھائی تو نے۔‘‘
لڈو نے بیڑی کا کش لیا، ’’میں نے نیچے اوپر سے ہاتھ ڈال کر چٹکنی سرکا دی۔ یہ دیکھو میری بانہ پر خون جم گیا ہے۔۔۔‘‘
’’آگے بول۔‘‘
’’چھت پر سے ہوتا ہوا میں برساتی کی طرف بڑھا۔ اینٹوں کی جالی میں سے دیکھا کہ وہ دونوں اندر چارپائی پر کچھ بیٹھے اور کچھ لیٹے ہیں۔‘‘
ایک کاریگر بولا، ’’لیکن گھکی وہاں کیسے پہنچی۔‘‘ لڈو کو اس کی حماقت پر بڑا رحم آیا، ’’جار! تم بھی بس۔۔۔ چھت سے چھت ملی ہوئی جو ہے۔‘‘
’’بئی تو بڑا عکلبند (عقلمند) ہے۔ اب آگے چل۔‘‘
’’بس آگے کیا پوچھتے ہو، بڑے مجے میں تھے دونوں۔ گھکی کا منہ تو لال بھبوکا ہو رہا تھا۔ اتی پیاری لگ رہی تھی کہ جی چاہا کہ بس جا کر لپٹ ہی جاؤں۔‘‘
’’واہ رے بجورے۔‘‘ باج بولا، ’’اب تو ایہہ بات پکی ہو گئی کہ معاملہ چمی چاٹی تک ہی نہیں ہے۔۔۔ اچھا پھر کیا ہوا؟‘‘
’’بڑے پریم کی باتیں ہو رہی تھیں۔ چمن نے گھکی کے منہ کے آگے سے بال ہٹا کر کھوب بھینچ بھینچ کر۔۔‘‘
’’ارے یہ سب تو ہوا ہی ہوگا۔ جیہہ تو بتاکہ باتیں بھی ہو رہی تھیں کچھ؟ جیہہ تو مالوم ہو کیا ارادے ہیں ان کے۔‘‘
’’پھر گھکی نے بڑے پیار سے اس کے گلے میں باہیں ڈال کر پوچھا، چمن تم سچ مچ مجھی سے پیار کرتے ہو۔۔۔ چمن نے مور کی طرح گردن ہلائی اور بولا، سچ مچ۔‘‘
’’مجھے اکین نہیں آتا۔‘‘
’’جالم۔ جالم۔ اری ہم تو جان پھدا کرتے ہیں۔‘‘
گھکی نے یہ سن کر سر نیچا کر لیا اور گہری سوچ میں ڈوب گئی۔ اس پر چمن نے پھر اسے سمیٹ کر اپنی گود میں لے لیا اور کہنے لگا، ’’کہو تو آسمان سے تارے توڑ لاؤں، کہو تو اپنی چھاتی چیرکر۔۔۔ گھکی نے اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھ دی اور پھر ایسے بولی جیسے سفنے میں بول رہی ہو، ’’تم تارے مت توڑو۔ اپنی چھاتی مت چیرو۔۔۔ مجھے۔۔۔ مجھے اپنی داسی بنا لو۔‘‘
’’داسی! داسی؟ ارے تم رانی ہو رانی۔ داس تو ہم ہیں تمہارے۔‘‘
’’گھکی کچھ دیر چپ رہی۔ پھر بولی، تم میرا متبل نہیں سمجھے۔ مجھ سے سادی کر لونا۔‘‘
’’جیہہ سن کر چمن بدک گیا۔ جیسے گھکی کھوب صورت لڑکی نہیں، ناگن ہو اور وہ اسے بڑی عجیب نجروں سے دیکھنے لگا۔ اس بخت گھکی کا سر جھکا ہوا تھا۔ سالی اپنے کھیال میں مگن بولی، میں گریب کی لڑکی ہوں۔ ہر کوئی مجھے بھوکی نجروں سے دیکھتا ہے۔ ہر کوئی مجھے کھانا چاہتا ہے۔۔۔ گھر سے باہر پاؤں رکھنا مسکل ہو گیا ہے۔ پھر بھی میں نے اجت بچا کر رکھی ہے۔ مگر تمہارے آگے میرا کوئی بس نہیں چلا۔ سوچو اگر مجھے کچھ ہو گیا تو؟‘‘
’’جیہہ کہہ کر اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے۔ اس پر چمن نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔۔۔ اری واہ روتی کاہے کو ہے۔ بے پھکر رہو، تمہیں کچھ نئیں ہوگا۔ پریم میں ایسی باتیں دن رات ہوتی رہتی ہیں۔ تم بڑی وہمن ہو۔‘‘
’’مگر میں تمہاری ہو چکی ہوں۔ سدا کے لیے تمہاری۔ جیہہ کہہ کر اس نے اپنے پیلے رنگ کے کرتے سے آنکھیں پونچھیں لیکن آنسو نہیں تھمتے تھے۔ ہچکیاں بھرتی ہوئی بولی، چمن! میں عمر بھر تمہارے پاؤں دھو دھو کر پیوں گی۔ تمہاری نوکر رہوں گی۔ تمہارے اشارے پر ناچوں گی۔ لالہ کو میری بڑی پھکر لگی ہے۔ ماں ہے نہیں۔ میں ہی سب میں بڑی ہوں۔ مجھے چھوٹی بہنوں کابھی کھیال کرنا ہے۔ میں تمہاری منت کرتی ہوں۔ مجھے چھوڑنا نہیں۔‘‘
’’اے ہے ہے، تمہیں کون چھوڑتا ہے۔ پگلی ہوئی ہو کیا؟‘‘
’’اس پر گھکی نے بھیگی آنکھوں سے چمن کی طرف دیکھا اور بولی، نئیں تم وادا کرو کہ مجھ سے سادی کر لوگے۔۔۔ میں بڑی منہ پھٹ ہوں۔ بے سرمی ماپھ کرو۔ مجھے اپنی بنالو۔ میں خوب پڑھ لکھ لوں گی اور جیسا تم کہوگے ویسا ہی کروں گی۔‘‘
’’جیہ کہتے کہتے گھکی کا سر جھک گیا اور اس نے مدھم آواج میں پوچھا، ’’کہو مجھی سے سادی کروگے؟‘‘ اور جب اس نے پھر چمن کی طرپھ دیکھنے کو سر اٹھایا تو چمن نے جھٹ سے اس کا سر دبا کر چھاتی سے لگا لیا، ’’ہاں ہاں بھئی۔ تجھی سے سادی رچاؤں گا۔ اری تم میں کمی کس بات کی ہے۔ تم سندر ہو۔ ہجاروں میں ایک ہو۔۔۔ لو اب چلیں تم بھی گھر کو جاؤ۔ نہیں تو نیچے والے سک کریں گے۔۔۔‘‘
’’جیہہ سن کر میں بگٹٹ بھاگا وہاں سے۔‘‘
(۵)
دوپہر کے وقت گرمی کی وہ شدت ہوتی تھی کہ کیا کارخانے اور کیا پریس کے کاریگر سبھی کام چھوڑ کر الگ بیٹھ جاتے۔ دن کا یہ حصہ سب سے زیادہ دلچسپ ہوتا تھا۔ فرصت کا سماں ہوتا تھا۔ حویلی جی بھر کر کشادہ تھی۔ چھوٹے بڑے متعدد کمرے، ان میں اونچی اونچی الماریاں، کرسیاں، میزیں، پلنگ، صندوق۔۔۔ غرض آنکھ مچولی کھیلنے کا پورا سامان میسر تھا۔ باج سنگھ تنور سے روٹی کھا کر تو سیدھا حویلی کے اندر داخل ہو گیا۔ بڑے سردار جی کے سوا حسب معمول سبھی لوگ موجود تھے لیکن بڑی سردارنی سب سے الگ تھلگ پہلے بڑے کمرے میں براجمان تھیں۔ دوسرے کمرے میں ہنسی ٹھٹھول اور خوش گپیوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔
آج تنور پر روٹی کھانے کا باج کو کچھ مزا نہیں آیا تھا۔ دال میں کنکر، راشن کے آٹے میں ریت۔ تنور والوں کی ایسی تیسی کر کے پیٹ بھرے بغیر ہی وہ لوٹ آیا تھا۔ جب وہ حویلی میں داخل ہوا تو قدرتی طور پر سب سے پہلے اس کی نگاہ سردارنی پر پڑی۔ تعجب! آج وہ پان چبا رہی تھی۔ چوٹی سردارنی تو خیر ہر کھانے کے بعد ایک عدد پان کلے میں دبا لیتیں۔ نہ جانے کہاں سے لت لگی تھی انہیں۔ بڑی سردارنی کو پان چباتے ہوئے اس نے پہلی بار دیکھا تھا۔ ان کی باچھوں اور ہونٹوں پر گہرے سرخ رنگ کی تہہ جمی ہوئی تھی۔ نظریں چار ہوتے ہی بڑی سردارنی اس قدر بے دریغ انداز میں مسکرائیں کہ ایک بار تو باج بدک گیا لیکن پھر سنبھل کر وہیں اینٹوں کے فرش پر بیٹھ گیا اور اپنے ٹخنوں اور پنڈلیوں پر سے لکڑی کا برادہ جھاڑنے لگا۔
بڑی سردارنی نے اس کی جانب چوکی دھکیلتے ہوئے کہا، ’’ہاؤ ہائے! جمین پر کاہے بیٹھتے ہو، چوکی پر بیٹھو۔‘‘
’’نہیں بڑی سردارنی! اینٹیں ٹھنڈی لگ رہی ہیں، مجا آ رہا ہے۔ اچھا کریں ہیں آپ جو دوپہر کو پھرش پر پانی پھکرا دے ہیں۔ سچ بڑی سردارنی دور کی سوجھے ہے آپ کو۔۔۔ سچ۔‘‘ یہ سن کر سردارنی نے چاہا کہ مارے خوشی کے پھولی نہ سمائے لیکن اب اور پھولنے کی گنجائش ہی کہاں تھی۔ چنانچہ اس نے پہلے تو کمال انکسار سے سر جھکا دیا۔ پھر قدرے بھونڈے مستانہ پن سے نظریں اٹھائیں۔ باج کو کوئی بات سوجھ نہیں رہی تھی۔ اس لیے اس نے پگڑی کے اندر دو انگلیاں داخل کر کے سر کھجانا شروع کر دیا۔ سردارنی محققانہ انداز میں بولی، ’’روٹی کھا کر آ رہے ہو؟‘‘
’’جہر مار کر کے آ رہے ہیں۔‘‘
باج کو برہم پا کر سردارنی بڑے مبالغے کے ساتھ پریشان ہوئیں، ’’آکھر ماجرا کیا ہے؟‘‘ باج نے ماجرا سنایا اور نتیجہ یہ برآمد کیا کہ ’’روٹی! ہائے روٹی! تو بڑی سردارنی آپ کی ہوتی ہے۔ مکھن سسرا روٹی کی نس نس میں رچ جاتا ہے۔ نوالہ منہ میں رکتا ہی نہیں۔ بتاشے کی طرح گھلا اور چل اندر۔‘‘ بڑی سردارنی کو تعریف و توصیف کے یہ فقرے ہضم کرنے میں خاصا پرانا یام DEEP BREATHING کرنا پڑا۔ جب دم میں دم آیا تو ایک خاس سر تال میں بولیں، ’’کبھی ہمارے یہاں کھاتے بھی ہو۔‘‘
’’کبھی کھلاتی بھی ہیں آپ۔‘‘ چالاک باج نے اسی سرتال میں برجستہ جواب دیا۔ اس پر جلال میں آ کر جو بڑی سردارنی اٹھیں تو باج کو یوں محسوس ہوا جیسے زمین سے آسمان تک اودی گھٹا چھا گئی ہو۔ روٹی کھاتے کھاتے باج نے پوچھا، ’’کیوں جی! آج بڑے سردار جی بیٹھک میں کس سے بات چیت کر رہے ہیں؟‘‘ سردرانی نے جھالر دار پنکھا جھلتے ہوئے جواب دیا، ’’معلوم نہیں۔‘‘
گھر میں ایک ہی ٹیبل فین تھا بجلی کا اور وہ جدھر بڑے سردارجی جاتے، ان کا پیچھا کرتا۔ باج نے نمک حلال کر ڈالنے کے خیال سے کہا، ’’کیوں مجاخ کرتی ہو سردارنی! بھلا یہ کبھی ہو سکتا ہے کہ ادھر بات چیت ہو رہی ہو اور آپ کو کھبر نہ ہو۔‘‘ سردارنی نے بڑے بڑے کی طرح منہ کھولا، لیکن دفعتاً اس کا دہانہ تنگ کر کے بولیں، ’’جسوس چھوڑ رکھے ہیں، ابھی معلوم ہو جائےگا سب۔‘‘
اسی اثنا میں چھوٹی سردارنی بغل والے کمرے سے نکل کر ان کے کمرے میں داخل ہوئیں۔ بتیسی نکلی پڑتی تھی۔ سنہری کیلیں چمک رہی تھیں۔ حسب معمول لڑکیاں ان کے ساتھ تھیں۔ جب لڑکیاں ساتھ تھیں تو قدرتی طور پر لڑکے بھی ساتھ تھے۔۔۔ بڑی سردارنی کو چھوٹی سردارنی کے یہ لچھن پسند نہیں تھے اور پھر اس موقعہ پر؟ چنانچہ اس نے چپکے سے ناک بھوں چڑھا کر ہاتھ کو ذرا SLOW MOTION سے گھماکر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ اسے یقین تھا کہ باج بھی اس معاملہ میں اس سے متفق ہے۔ لیکن باج نے بڑی دیدہ دلیری سے اپنے بے ڈول دانتوں کی نمائش کی اور تر مال اپنے سامنے پا کر اس نے دل ہی دل میں نعرہ لگایا، ’’جو بولے سو نہال۔‘‘
چھوٹی سردارنی معہ کم سن پریوں کے اور جنات کے دھوم دھڑاک سے آگے بڑھیں۔ ان کے پہلو بہ پہلوان کا ہاتھ جھلاتی گھکی چہکی، پھدکتی چلی آ رہی تھی۔ گھکی محض بانکی نہیں تھی بلکہ اسے اپنے بانکپن کا احساس بھی تھا۔ ہر نگاہ جو اس کے چہرے یا جسم پر پڑتی تھی، اس کا رد عمل اس کی ابروؤں کی لرزش، ہونٹوں کی پھڑکن یا جسم کی کسی نہ کسی حرکت سے ظاہر ہو جاتا۔ اس کے بعد نکی۔۔۔ گھکی نوک پلک اور چہرے کے خد و خال کے لحاظ سے غضب تھی تو نکی بدن کے اعضا کی متناسب بناوٹ، تناؤ اور تڑپ کے اعتبار سے قیامت تھی۔ اس کی نظریں بڑی بہن کی طرح دور تک نہیں پہنچتی تھیں۔ وہ اس انسان کے مانند دکھائی دیتی تھی جو ویرانے میں بھٹکتا بھٹکتا دفعتاً میلےمیں آ نکلے۔۔۔
نکی کی چندری کا دامن اندھی سانولی کے ہاتھ میں تھا۔ اس کا چہرہ اوپر کو اٹھا رہتا۔ وہ بڑی دونوں بہنوں سے کم گوری تھی۔ خد و خال گورا لیکن چہرہ بحیثیت مجموعی پرکشش تھا۔ اسے اس بات کا مطلقاً احساس نہیں تھا کہ مرلی والا اس کے بدن میں عمر کے ساتھ ساتھ کیا کیا تبدیلیاں کر رہا ہے۔ کیونکہ اس معمے کا احساس تو لڑکی کو آنکھیں چار ہونے پر ہی ہو سکتا ہے۔ وہاں ایک بھی دیکھنے والی آنکھ نہیں تھی۔ اس لیے آنکھیں چار ہونے کا وچار ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔۔۔
’’بلے بلے۔‘‘ باج کو اپنے کان میں آواز سنائی دی۔ دیکھا کہ بونگا بھی اسے کارخانے میں نہ پا کر وہاں آن پہنچا تھا اور پھر رال ٹپکاتے ہوئے بولا، ’’جار! گھکی کی کمر تو دیکھو۔ کیسی پتلی۔ کیسی لچک دار ہے۔ آنکھ نہیں ٹکتی اس پر۔۔۔‘‘
’’اوئے میں جٹی پنجاب دی
میرا ریشم برگالک۔۔۔‘‘
معاً باج نے بونگے کو کہنی کا ٹھوکا دیتے ہوئے کہا، ’’دیکھ اوئے جل ککڑ!‘‘
جل ککڑ پریس میں لیبل پرنٹ کیا کرتا تھا۔ اس کی عمر چونتیس برس کے لگ بھگ ہوگی۔ دوبچے بھی تھے۔ تعجب! وہ بھی سینگ کٹاکر بچھڑوں میں شامل ہو گیا تھا۔ یہ راز باج کی سمجھ میں اب تک نہ آیا تھا۔ لیکن آج اس نے دیکھا کہ کیسے جل ککڑ نے دیدہ دانستہ نکی کو دھکا دیا اور کیسے نکی نے معشوقانہ ادا کے ساتھ اس کی اس حرکت کو برداشت کیا لیکن آخر جل ککڑ میں رکھا ہی کیا تھا۔ اس کی مضحکہ خیز صورت کی وجہ سے ہی تو یاروں نے اس کا نام جل ککڑ تجویز کیا تھا۔۔۔ مگر عورت کے دل کو کون پا سکتا ہے۔۔۔ بونگے نے کہا، ’’جاریہ تو دورمار توپ نکلا۔ کیسا مشکین بنتا تھا۔‘‘ آج کل جل ککڑ زیادہ تر رنگین بشرٹ پہنے رہتا تھا۔ جس کے کپڑے پر چینی طرز کے اژدہا ناچتے دکھائی دیتے تھے۔
سردار جی کے لڑکے بھی ’’چل کبڈی تارا۔ سلطان بیگ مارا۔‘‘ کہتے ہوئے ساتھ ساتھ چلے آ رہے تھے اور ان کے پیچھے وہ نوجوان تھا۔ جو وہاں کوئی امتحان دینے کے لیے نیا نیا آیا تھا۔ اسے دیکھتے ہی باج نے پوچھا، ’’اوے ماں دیا متر اڑا ایہہ کون ہے۔‘‘
’’اوئے جیہہ بھی اپنا منڈا ہے۔ نواں داکھل ہویا اے۔ عسک دے مدرسے دے بچ۔‘‘
’’ہچھا ہچھا۔۔۔ ایہہ تاں پرسوں ہی آیا ہے۔‘‘
’’آہو جی لونڈوں کی باتیں چھوڑو۔ اب ناریوں کی باتیں کرو۔‘‘
پریوں کے اس قافلے نے زمین پر ڈیرے ڈال دیے اور اس کی خوش نوائیوں میں بڑی سردارنی اپنے آپ کو تنہا محسوس کرنے لگی۔
’’اوئے پر جی چمن کہا ہے؟‘‘
ایک چھوٹا لڑکا (غالباً بڑی سردارنی کا جاسوس) جو بیٹھک سے اسی وقت وہاں آیا تھا بولا، ’’چمن ادھر بیٹھک میں بیٹھا ہے۔‘‘
باج کو حیرت ہو رہی تھی۔ یہ کیا؟ گل ادھر اور بلبل ادھر؟ پھر اسی جذبے کے تحت اس نے گھکی کی جانب دیکھا۔ وہ نظروں ہی نظروں میں سب کچھ سمجھ گئی۔ اس کے ابرو لرزے، پلکیں جھپکیں، کمر لچکی اور پھر وہ ساکت ہو گئی۔ باج نے دل پھینک تیور بنا کر آنکھوں ہی آنکھوں میں سمجھایا کہ لو ہم تفتیش کرتے ہیں اور حسن کے چور کو حسن کے حضور میں حاضر کرتے ہیں۔ چنانچہ اس نے بلند آواز میں پوچھا، ’’لیکن بئی وہ وہاں کیا کر رہا ہے؟‘‘
’’ادھر ایک جرنیل صاحب بیٹھے ہیں۔‘‘ باج نے سوچا کوئی فوجی افسر ہوگا۔ یہ لونڈے ہر ایسے افسر کو ایک دم جرنیل بنا دیتے ہیں۔ پھر بولا، ’’پربائی! چمن کا وہاں کیا کام؟‘‘
’’چمن کے بابو جی بھی بیٹھے ہیں۔‘‘
اس سے مراد یہ کہ چمن کو باپ کی وجہ سے مجبوراً وہاں بیٹھنا پڑ رہا ہے۔ ’’اچھا تو بچو چمن کو انہوں نے وہاں کس لیے پھانس رکھا ہے۔‘‘ باج نے جرح کی۔
’’وہ پھوج میں بھرتی ہو رہا ہے۔‘‘ لڑکے نے ٹیں سے جواب دیا۔ اب باج نے ایک نظر بڑی سردارنی پر ڈالنا ضروری سمجھا اور پھر منہ ٹیڑھا کر کے اس کے ایک کونے میں سے سانپ کی پھنکار کی سی آواز نکالتے ہوئے بولا، ’’اے جی آپ کا جسوس تو بڑا ہسیار نکلا۔‘‘ داد پاکر سردارنی ہاتھی کی طرح جھومنے لگیں اور عرصہ تک جھومتی رہیں۔ جب جسوس لونڈے کو محسوس ہوا کہ وہ ایسی باتیں کہہ رہا ہے جن سے سب کو بڑی دلچسپی محسوس ہو رہی ہے تو اس نے مزید معلومات بہم پہنچانے کے لیے کہا، ’’چمن ماہاؤ جا رہا ہے۔‘‘
’’اوئے ماہاؤ کون جگہ کا نام ہے۔ وہاں تیری ماؤں (ماں) رہتی ہے کیا؟‘‘ بونگے نے دبی زبان میں کہا تاکہ صرف باج سن سکے۔
سردار نے کہا، ’’اوئے ماہاؤ نہیں مہو کہو مہو۔‘‘
’’کیا چمن مہو جا رہا ہے؟‘‘ سردار جی کے چھوٹے لڑکے نے سوال کیا اور ساتھ ہی پہلے تو مصنوعی تعجب کے مارے دونوں ٹانگیں خوب پھیلا کر اور پاؤں فرش پر جما کر بالکل بےحس و حرکت کھڑا رہا اور پھر سمٹ کر جو کودا تو کمرے سے باہر اور بیٹھک کے اندر۔
’’اوئے چمن ہم کو چھوڑکر مہو جا رہا ہے اور ہم کو خبر تک نہیں دی۔‘‘ لفظ ’’ہم‘‘سے اس کا اشارہ گھکی کی طرف تھا۔ یہ الفاظ اس نے کھڑے ہوکر کہے۔ اس وقت اس کی میلی کچھ کا اور بھی زیادہ میلا ازاربند اس کے دونوں گھٹنوں کے بیچ میں جھول رہا تھا اور اس نے پرمعنی انداز میں کنکھیوں سے گھکی کی جانب دیکھا۔ بھلا گھکی کو اس کی بات کا مطلب پالینے میں کیا مشکل پیش آ سکتی تھی۔ اس کے دل میں ایسی گدگدی پیدا ہوئی کہ وہ اٹھ کر رقصاں و شاداں چھوٹی سردارنی کے ایک بازو سے اٹھ کر اس کے دوسرے پہلو میں جا بیٹھی اور بےحد سریلی آواز میں بولی، ’’ہمیں پہلے ہی سے معلوم تھا۔‘‘
گھکی نے یہ بات زیادہ زور سے نہیں کہی لیکن یہ اتنی بلند ضرور تھی کہ باج اسے آسانی سے سن سکے۔ اس پر باج ٹھنڈا ہوکر ٹھنڈے فرش پر اس طرح بیٹھ گیا جیسے غبارے میں سے دفعتاً ساری ہوا نکل جائے اور پھر اس نے ابرو ہلاکر اور مونچھیں پھڑکا کر بونگے کے کان میں کہا، ’’جار! سچ مچ یہ لونڈیا بڑی چلتی پرجی ہے۔‘‘
(۶)
ایت وار! آج سردار جی کے دونوں لڑکے دس بجے کا انگریزی شو دیکھنے جا رہے تھے۔ بڑے زور شور کے ساتھ تیاریاں ہو رہی تھیں۔ نہ جانے کب کی پرانی نکٹائیاں برآمد کی گئیں۔ ایک مسہری لگانے کے بانس کے سرے پر بندھی تھی اور دوسری بڑے ٹرنک کے پیچھے سے گیند کی طرح گول مول کی ہوئی نکلی۔
چونکہ اس وقت چھوٹی سردارنی غسل کر رہی تھیں اس لیے ان کی چیلیاں بے جان سی ہو کر ادھر ادھر لٹک رہی تھیں۔ نکی بڑی سردارنی کے ساتھ باورچی خانے کے اندر بیٹھی تھی۔ سانولی پرے نل کے پاس بیٹھی ایڑیوں کو رگڑ رگڑ کر دھو رہی تھی۔ دستی ہلانے والا نیا نوجوان تھا۔ گھکّی حویلی کے بڑے دروازے کے آگے بنی ہوئی چند پختہ سیڑھیوں کے بیچ والے حصے پر بیٹھی تھی۔ اس کی دونوں کہنیاں اس کے گھٹنوں پر ٹکی تھیں اور دونوں ہتھیلیوں کے بیچ میں اس کا چہرہ پھنسا ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں اداس تھیں۔ چمن کو گئے پچیس دن گزر گئے تھے۔ لیکن گھکّی کو اس کا ایک خط تک نہ آیا تھا۔ حالانکہ دوسروں کو اس کی چٹھیاں آ چکی تھیں۔۔۔
اتوار کی وجہ سے چھٹی تھی۔ اس لیے کاریگروں کی گہما گہمی نہیں تھی۔ البتہ باج اور بونگا موجود تھے۔ کیونکہ وہ مستقل طور سے وہیں پر مقیم تھے۔ دیواروں کی سفیدی کرنے کے کام میں آنے والے پانچ فٹ اونچے اسٹول پر پاؤں کے بل بیٹھا باج داتن چبا رہا تھا۔ اسٹول کے ساتھ سٹ کر زمین پر بیٹھا ہوا بونگا آئینے میں دیکھ دیکھ کر چمٹی سے ناک کے بال نوچ نوچ کر پھینک رہا تھا۔ دور بیٹھک کی طرف سے ایک بڑے سنکھ کی سی آواز میں سردار جی پاٹھ کر رہے تھے۔ سردار جی کا پاٹھ اور باج کی داتن دونوں مشہور چیزیں تھیں۔ ادھر سردار جی مسلسل کئی کئی گھنٹے پاٹھ کرنے میں جٹے رہتے۔ ادھر اتوار کو فرصت پا کر باج علی الصبح ہی منہ میں یہ لمبی داتن اڑس کر بیٹھ جاتا۔ پہلے اسے چباتا پھر دانتوں پر گھساتا۔ پھر چباتا اور دانتوں پر گھساتا۔ یہاں تک کہ داتن ختم ہو جاتی۔
بونگے نے اپنے کام سے فرصت پاکر اطمینان سے ٹانگیں زمین پر پھیلا دیں۔ بلند نشین باج نے اپنے تیزی ہلتے ہوئے منہ کو لمحہ بھر کے لیے روکا اور بونگے سے مخاطب ہوکر دبی زبان میں پھنکار کر بولا، ’’بونگیا! آج گھکی کچھ اداس ہے۔ شاید چھوٹی سردارنی کا انتجار ہو رہا ہے۔‘‘ اس طرح بولنے سے باج کی مونچھوں میں پھنسے ہوئے تھوک کے قطرے اڑکر بونگے کے چیچک مارے چہرے پر پڑے اور اس نے بھڑک کر اسٹول کو ذرا سا ہلا دیا اور چھوٹی چھوٹی آنکھیں لال چنگاری بناکر کہا، ’’اوئے ابھی ہلا دوں تو راج سنگھاسن سے سر کے بل نیچے گر پڑے۔ ہم پر تھوکتا ہے؟‘‘ اسٹول کے قدرے ہل جانے پر باج نے گدھ کے مانند بازو پھڑپھڑائے اور اس کی طرف دھیان دیے بغیر بولا، ’’کیوں یہی بات ہے نا! ملکاں (چھوٹی سردارنی) کا انتجار ہو رہا ہے۔‘‘
’’اوئے نئیں۔‘‘ بونگے نے نتھنے پھلا کر عالمانہ انداز میں جواب دیا، ’’ہیر کو رانجھے کا۔ سسی کوپنو کا۔ گوپی کو کنہیا کا انتجار ہے، سمجھے؟‘‘
’’سمجھا۔‘‘ باج سے بھلا کیا بات چھپی تھی۔ اس نے بونگ کو محض گرمانے اور پھر اس کی کسی حرکت بازی کا لطف اٹھانے کے لیے انجان پن کا ثبوت پیش کیا تھا۔ اب بونگے نے احتیاطاً ادھر ادھر دیکھا اور کسی کو قریب نہ پاکر ہلکا سا نعرہ بلند کیا۔ ’’ہائے۔‘‘ روئے سخن گھکّی کی جانب۔
’’کیا ہے؟‘‘ باج نے پوچھا اور سمجھ گیا کہ بونگے کو خرمستی سوجھ رہی ہے۔
’’درد۔‘‘ بونگے نے جواب دیا۔
’’کہاں؟‘‘
’’جیہہ تو میں مرجاواں تاں بھی نہ دساں۔‘‘ بونگے نے خاص زنانہ آواز میں جواب دیا اور پھر قدرے سکوت کے بعد گانے لگا،
’’چھوڑ گئے بالم!‘‘
’’اکیلی مجھ نوں چھوڑ گئے۔‘‘
فضا بونگے کی ٹرٹراتی آواز سے گونج اٹھی۔
اب دونوں چھوٹے سردار تیار ہو کر اندر سے نکلے تو اس شان سے کہ پہلے تو بڑے بھائی نے اندر سے چھلانگ لگائی تو گھکی کے اوپر سے کود کر صحن میں۔ وہ سمجھنے بھی نہ پائی تھی کہ دوسرا بھائی صاف کود گیا اوپر سے۔ گھکی ہڑبڑاکر اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس کا چہرہ لال بھبھوکا ہو گیا۔ چمک کر بولی، ’’ہمیں نہیں اچھا لگتا ایسا مجاخ، اگر ہماری گردن ٹوٹ جاتی تو؟‘‘ اس پر چھوٹے بھائی نے پنجاب کے مشہور لوک ناچ بھنگڑا کے انداز میں چند چک پھیریاں لیں اور گلے کی گہرائیوں میں سے نہایت گھگیائی ہوئی آواز نکال کر گیت کا بول دہرایا، ’’چھوڑ گئے بالم!‘‘
ادھر بونگا بھی بس تیار ہی بیٹھا تھا۔ فی الفور چھاتی پر دو ہتڑ مار کر بین سر میں گا اٹھا، ’’اکیلی مجھ کو چھوڑ گئے۔‘‘
اس پر باج نے جو قہقہے لگائے تو وہ سیدھے آسمان کے اس پار پہنچے۔ بڑی سردارنی معہ نکی کے باورچی خانے کے دروازے میں آن کھڑی ہوئیں۔ چھوٹی سردارنی بھی غسل سے فارغ ہو کر نکل آئیں۔ سانولی سمجھی ضرور کوئی مزے دار بات ہو رہی ہے۔ چنانچہ وہ نل کے پاس بیٹھی زور زور سے ہنسنے لگی۔ چلتے چلتے چھوٹا سردار وہی بول دہراتا گیا اور بونگا بھی گرمی کھا کر سینے پر دوہتڑ مار مار جواب دیتا گیا۔ صحن میں قیامت کا شور سن کر بڑے سردار جی اندر سے ہی کڑکے۔۔۔ تو چھوٹے سردار جی بگٹٹ بھاگے۔ باج اسٹول سے کودا اور بونگے سمیت کارخانے میں جا گھسا۔ بڑی سردارنی اور نکی نے اندر سے باورچی خانے کا دروازہ بھیڑ دیا۔ گھکی اچھلی اور چھوٹی سردارنی نے اسے بغل میں دابا اور ایک بار پھر غسل خانے کے اندر۔۔۔
(۷)
دیوی داس کے مکان اور دکان کے آگے سڑک کے آر پار کاغذ کی رنگ برنگی جھنڈیا لہرا رہی تھیں۔ باجے بج رہے تھے۔ گھر کے اندر کسی تاریک گوشے میں چند عورتیں بطخوں کی قیں قیں کی سی آواز میں ٹوٹے پھوٹے گیت گا رہی تھیں۔
گھکی کی شادی ہو رہی تھی!
چمن کے ساتھ؟ نہیں۔
بارات آنے والی تھی۔ محلے کے لونڈے دوڑ دوڑ کر دولہا کی پیشوائی کو جاتے لیکن بڑے بوڑھوں کی زبانیں یہ سن کر کہ ابھی بارات نہیں آئی تو مایوس ہو جاتے اور چپ چاپ چڑوے ریوڑیاں چبانے لگتے۔ بیٹھک میں بڑے سردار جی اور ان کے چند معزز اور بزرگ ساتھی کاٹھ کے الوؤں کی طرح ساکت بیٹھے تھے۔ کبھی ایک آدھ بات ہو جاتی تو سب اثبات میں سر ہلا ہلاکر اظہار اطمینان کرتے۔ پریس کے کاریگر سڑک کی جانب برآمدے میں کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے۔ ادھر کارخانے کے کاریگر بغلیں بجاتے چھت پر چڑھ گئے۔ وہاں سے دیوی داس کی نیچی چھت صاف دکھائی دیتی تھی۔ اس کی چھت پر دس پندرہ چارپائیاں بچھی تھیں کیونکہ زیادہ براتیوں کے آنے کی امید نہیں تھی۔ چند بچے اور عورتیں بے جان رنگوں کے کپڑے پہنے سست قدموں سے ادھر ادھر کے کام کرتی پھرتی تھیں۔ قریب والے پیپل کے پیڑ کا تاریک سایہ چھت پر پھیل رہا تھا۔۔۔ اور باجے الگ کراہ رہے تھے۔
چھت والے کاریگروں میں سے ایک سر ہلاکر بولا، ’’تت تت عورت کی بے وفائی کے بارے میں سنا تھا، لیکن آج اپنی آنکھوں سے دیکھ لی۔‘‘ بونگے نےنتھنے پھلا کر اس کی طرف دیکھا اور پھر کچھ کہنے کے لیے منہ پھلایا۔۔۔ اور پھر نتھنے اور منہ دونوں سکوڑ کر رخ دوسری جانب پھیر لیا۔ کاریگر کو تعجب ہوا۔ اس نے باج کو کندھا مار کر کہا، ’’کہو استاد! آج بونگے کو کیا ہو گیا ہے۔‘‘ باج نے پہلے پھولے ماری آنکھ دکھا کر بےرخی برتی۔ لیکن پھر چشم بینا سے شرارے برسا کر کہا، ’’عورت کی بیوفائی نہیں، مرد کی بیوفائی کہو۔‘‘
’’یعنی؟‘‘
’’جعنی جیہہ کہ چمن کو یہاں سے گئے تین مہینے گزر چکے ہیں اس نے ایک سطر تک نہیں لکھی گھکی کو۔۔۔‘‘
’’اور گھکی نے؟‘‘
’’اس نے اپنے ہاتھ سے ٹوٹی پھوٹی ہندی میں اسے کئی چھٹیاں لکھیں لیکن ایک کا بھی جواب نہیں آیا۔‘‘
اب بونگے نے بھی بولنا شروع کر دیا، ’’چمن نے اپنے چار دوستوں کو لکھا کہ کسی نہ کسی طرح گھکّی کو چھٹی لکھنے سے روکا جائے۔ ہر چھٹی اس کی اس بات سے کہ، اگر میرے پر ہوتے تو میں اڑ کر آپ کے پاس آجاتی۔۔۔ تنگ آ گیا ہوں۔‘‘
’’ادھر کہیں چمن کے پتا جی وہاں جا نکلے۔‘‘ باج نے بات آگے بڑھائی، ’’ان کی موجودگی میں کہیں کوئی کھت آیا تو انہوں نے پڑھ لیا۔ پہلے بیٹے کے کان مروڑے اور پھر یہاں آکر بڑے سردار جی کو بتایا۔ سردارجی نے دیوی داس کو بلایا اور کہا، ’’اوئے لونڈیا کی سادی کر دے جھٹ پٹ، پندرہ دن کے اندر۔ نہیں تو دکان کھالی کر دے اور اٹھا لو بوریا بستر مکان سے بھی۔‘‘ ایسے مسکل سمیں میں بھلا دیوی داس کہاں جاتا۔ ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا۔ پرجی گریب کی لڑکی کی سادی بھلا اتی جلدی کہاں ہو سکتی ہے؟ چمن کے باپ نے کہا، ’’آکھر تمہاری لونڈیا کو ایسے کھت لکھنے کی ہمت کیسے ہوئی۔ جمین کی کھاک سر کو چڑھے، بڑے سردار جی نے ڈانٹ پلائی۔ اب میں نے کہہ دیا۔ جیادہ ریائت نئیں نا ہو سکتی۔ پندرہ دن کے اندر اندر سادی کر ڈال کہیں، نئیں تو مکان اور دکان دونوں سے کھارج۔‘‘
گفتگو اسی منزل پر پہنچی تھی کہ بڑی سردارنی جی بھی اوپر آ نکلیں اور حسبِ عادت باج کے قریب کھڑی ہو گئیں۔ اپنی آمد پر سب کو چپ دیکھ کر بولیں، ’’بارات نہ جانے کب آئےگی؟‘‘ ان کی بات ختم بھی نہیں ہونے پائی تھی کہ لوگ باگ چلا اٹھے، ’’بارات آ گئی۔ بارات آ گئی!‘‘ شہنائیاں اور زور سے کائیں کائیں کرنے لگیں۔ تھوڑی دیر بعد سردار جی کا چھوٹا لڑکا دوڑا دوڑا آیا، ’’اوئے لٹیا ڈوب گئی۔ دھت تیری کی۔‘‘
’’کیوں کھیریت؟ دولہا دیکھا؟ کیسا ہے؟‘‘ سب نے ایک زبان ہو کر پوچھا۔ لڑکے نے بڑے واہیات انداز سے بازو ادھر ادھر پھینک کر جواب دیا، ’’دھت تیری کی۔۔۔ چڑی مار۔۔۔ بالکل چڑی مار دکھائی دیتا ہے۔‘‘
(۸)
اگست ۴۷ء کے فسادات زور شور سے شروع ہوئے تو حویلی کے مکینوں اور کاریگروں کے وقت کا کچھ حصہ قتل و غارت، ہندوؤں اور سکھوں پر ڈھائے گئے مظالم اور ان کی خواتین کی آبرو ریزی جیسے موضوعات پر صرف ہونے لگا۔ لیکن وہاں کی روز مرہ کی زندگی اور چہل پہل میں کوئی خاص فرق نہیں آیا تھا۔ سوائے اس کے کہ گھکّی کی شادی کو تین ساڑھے تین ماہ گزر چکے تھے۔ ان تین مہینوں کے دوران میں چمن دوچار دن کے لیے جالندھر آیا۔ انہوں نے الگ مکان کا انتظام کر لیا تھا۔ پھر بھی چمن سردار جی کے گھر چوری چھپے آتا رہا۔ وہ گھکّی سے بچ کر رہتا تھا۔ خود گھکّی نے بھی بطور خاص اس امر کی احتیاط برتی کہ اس کی چمن سے مڈبھیڑ نہ ہو۔
چمن نے سردار جی کے لڑکوں کو بتایا کہ مہو میں اس کی زندگی بڑے مزے اور چین میں کٹ رہی تھی۔ اردگرد معشوقوں کی بھی کچھ کمی نہیں تھی۔ اس نے ایک نیا آرٹ سیکھا تھا۔ جس کا مظاہرہ اس نے سگریٹ کے دھوئیں کے مرغولے بنا بنا کر کیا۔ اگر گھکّی کی کوئی بات چلتی تو کہتا، ’’ہندوستانی لڑکیاں بھی بس ’عجیب‘ ہوتی ہیں۔ ذرا ہنس کر بات کر لو تو گلے کا ہار ہو جاتی ہیں۔ فلش FOOLISH چائلڈش CHILDISH!‘‘
بالآخر وہ گھکی سے ایک بات کیے بغیر ہی واپس چلا گیا۔ بظاہر گھکی پر اس کا کوئی خاص ردعمل دکھائی نہیں دیتا تھا۔ وہ اب بھی چھوٹی سردارنی کے ساتھ اٹھتی بیٹھتی، ہنستی بولتی، لیکن اس کے دل کو گھن لگ چکا تھا۔ اس کا جسم نرم اور کمزور تو پہلے ہی تھا۔ لیکن اب تو بالکل ہی ہڈیوں کا ڈھانچا سا ہوتا جا رہا تھا۔ وہ نہایت نازک اور شگفتہ پھول کے مانند تھی۔ اسے اگر مناسب حالات میسر آ جاتے تو یقیناً اس کی مہک دور دور تک پھیلتی۔ لیکن اب وہ درد دبا کر خاموش ہو گئی تھی۔ اس کے چہرے سے ایسا سنجیدہ وقار ٹپکتا تھا کہ اب کسی کو اس سے چہل بازی کرنے کی جرأت تک نہیں ہوتی تھی۔ اسے کھانسی آنے لگی تھی۔ جب کھانستی چھوٹتی تو وہ اپنے کمزور سینہ کو چھوٹے چھوٹے ہاتھو ں سے تھام کر کھانستے کھانستے بے حال ہو جاتی۔ اس کا چہرہ سرخ ہو جاتا۔ بعض دیکھنے والوں کو اس کی حالت پر ترس آنے لگتا۔ لیکن وہ مسکراتی ہوئی اپنے خوش وضع سر کو پیچھے کی جانب پھینک کر اسے دائیں بائیں دو چار جھٹکے دیتی اور پھر بات چیت میں مصروف ہو جاتی۔
نکی، البتہ اب اڑنکلی تھی۔ اسے بات بے بات پر اس قدر ہنسی چھوٹتی تھی کہ بس لوٹ پوٹ ہو جاتی۔ پہلے گھکّی ان محفلوں کی جان تھی تو اب نکی! گھکی کا رویہ پہلے بھی پروقار تھا۔ اب سینہ پر زخم کھا کر وہ اور سنجیدہ ہو گئی تھی۔ مگر نکی شروع ہی سے شوخ تھی اور اب میدان صاف پاکر وہ تڑپتی ہوئی بجلی بن گئی تھی۔ چھیڑ چھاڑ کی اس میں بہت برداشت تھی۔ اس لیے وہ گھکی سے زیادہ مقبول تھی۔ خفا ہونا تو اسے آتا ہی نہیں تھا۔ سمٹنا، بننا، بچنا، جھوٹوں ہی ابرو پہ بل ڈالنا، پٹھے پر ہاتھ نہ رکھنے دینا، یہ سب درست، پھر بھی وہ خفا نہیں ہوتی تھی۔ خواہ کچھ بھی ہو جائے۔ اس کی چہک اور مہک میں فرق نہیں آتا تھا۔ اب نکتہ سنجوں کو یہ بھی کوئی راز کی بات نہ رہی تھی کہ نکی کا خاص منظور نظر پریس کا وہی آدمی تھا جسے سب جل ککڑ کہتے تھے لیکن سمجھ میں نہ آنے والی بات یہ تھی کہ آخر اس کے پاس کون سی ایسی گیدڑ سنگی تھی جس کی وجہ سے نکی سب کو چھوڑ چھاڑ کر اس کی بغل گرم کرتی تھی۔
ایک روز شام کے وقت ایک بہت بڑے زمین دوز چولہے پر لوہے کی کڑاہی جمائی گئی، جسے دیکھ کر سب کے منہ میں پانی بھر آیا۔ کیونکہ چند مہینوں کے وقفے کے بعد یہ وہ شام ہوتی تھی، جب بڑی سردارنی کڑاہی میں ریت گرم کر کے اس میں مکئی، چنا اور چاول بھونتیں، گڑ ملا کر ان کے مرونڈے تیار کرتیں اور سب کو جی بھر کر کھلاتیں۔ چنانچہ جب کارخانے کے اندر تیشہ چلاتے ہوئے باج سنگھ کو بونگے نے خبر سنائی کہ آج صبح میں کڑاہی جمالی گئی ہے اور بڑی سردارنی کے کیا تیور ہیں تو اس سے نہ رہا گیا۔ وہ تیشہ ویشہ پھینک فوراً باہر نکلا اور دیکھا کہ بونگے نے جو زیادہ تر جھوٹ بولا کرتا تھا، اب کے جھوٹ نہیں کہا تھا۔
بڑی سردارنی نے جب باج کو دیکھا تو اس انداز سے مسکرائی کہ جیسے اسے پہلے ہی سے یقین تھا کہ باج سب کام چھوڑ چھاڑ کر فوراً باہر آئےگا۔ آج سردارنی نے جامنی رنگ کا دوپٹہ اوڑھ رکھا تھا۔ یوں تو اسے کوئی بھی رنگ نہیں پھبتا تھا لیکن جامنی رنگ تو بہت ہی بھونڈا لگ رہا تھا۔ اس رنگ کے تلے اس کے پلپلے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیلتی جا رہی تھی۔ باج سے آنکھیں چار ہوتے ہی وہ با معنی انداز سے ٹھمک کر باورچی خانے میں داخل ہو گئی۔ رفتہ رفتہ سب قسم کے دانے بھن چکے تو پھر نکی کی مدد سے بڑی سردارنی نے سوندھی سوندھی بو والے دانوں کو گڑ میں ملا کر الگ الگ قسم کے مرونڈے تیار کیے۔
چرن منٹ منٹ کی خبر پریس میں پہنچا رہا تھا۔ کارخانے کے کاریگر چونکہ باورچی خانے کے زیادہ نزیک تھے، اس لیے وہ کام میں من لگا ہی نہیں سکے۔ وہ اس بات کے منتظر تھے کب سردارنی اپنی لوچ دار آواز میں انہیں کھانے کی دعوت دے اور کب وہ پل پڑیں میٹھے مرونڈوں پر۔ سب سے پہلے سردارنی نے گھکی کو آواز دی۔ اب اسے گھکی پر پیار سا آنے لگا تھا۔ گھکی دونوں کہنیاں گھٹنوں پر ٹکائے اور منہ بازوؤں میں چھپائے کھانس رہی تھی۔ کھانس چکی تو حسب عادت اس نے سر کو پیچھے کی جانب پھینک کر دائیں بائیں دو چار جھٹکے دیے اور پھر ہنسنے لگی۔۔۔ اس کی ہنسی خوب فراخ ہوتی تھی۔ لیکن اس کے باوجود اس کے چہرے پر عجیب کیفیت طاری رہتی تھی۔ اب اس پر پہلے والے لطیف رد عمل نہیں ہوتے تھے، یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ خود اپنے لیے ہنس رہی ہے۔۔۔ اسی طرح کھل کھلاکر ہنستی ہوئی وہ آگے بڑھی اور اس نے دونوں ہاتھ ایسے پھیلائے جیسے اسے مندر یا گوردوارے سے پرشاد مل رہا ہو۔
بڑی سردارنی نے سب کو نام لے لے کر بلایا، ’’دے بونگیا، دے چرن، نی سانولیے، نی پریمو۔۔۔‘‘ باج اپنے محبوب اسٹول پر ٹنگا ہوا تھا۔ اسے نہیں بلایا گیا۔۔۔ نہیں، اسے نام لے کر نہیں بلایا گیا۔ بلکہ سب کی نظریں بچاکر سردارنی جی اسے ابروؤں، آنکھوں اور سر کے اشاروں سے بلاتی رہیں۔ گویا اس کے لیے مخصوص پیغامات بھیجے جا رہے تھے۔ باج بھی ایک کائیاں تھا۔ جی میں حیران بھی تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی روز سردارنی بغل گیر ہو جائے۔ کچھ دیر سردارنی کی حرکات سے محظوظ ہونے کے بعد وہ قلانچ بھر کر اسٹول سے اترا اور دوسری قلانچ میں وہ سردارنی کے قریب پہنچا۔ مرونڈے لیتے وقت اس نے سردارنی کی پسلیوں میں کہنی کا ایک ٹہوکا بھی دیا۔ کیونکہ۔۔۔ اب اتنا حق تو ضرور تھا سردارنی کا اس پر۔
بونگا آج بہت لاڈ میں آیا ہوا تھا۔ باج کے پاس بیٹھنے کے بجائے وہ چھوٹی سردارنی کے قریب جا بیٹھا اور بندر کی طرح بڑے مبالغے کے ساتھ منہ آگے کو بڑھا کر اور چپ چپاچپ کی آوازیں نکالتا ہوا مرونڈے چبانے لگا۔ اسی وقت نکی کو قریب سے خاص انداز میں اٹھتے اور ذرا غیرقدرتی انداز میں چلتے دیکھ کر بونگے نے چھوٹی سردارنی سے مخاطب ہوتے ہوئے بڑی بیباکی سے کہا، ’’او جی! نکی کا پاؤں تو بھاری دکھائی دیتا ہے۔‘‘ باج نے بھی یہ بات سن لی۔ اس نے غور سے دیکھا تو اسے بھی یقین سا ہونے لگا۔ اس نے سوچا، آخر بات کیا ہے۔ آج بونگا سچ ہی بولے جا رہا ہے۔
(۹)
رفتہ رفتہ نکی کا پاؤں اور زیادہ بھاری ہو گیا تو حویلی میں کچھ چہ میگوئیاں ہونے لگیں اور پھر دفعتاً نکی غائب ہو گئی۔ پہلے تو یہ افواہ اڑی کہ وہ جل ککڑے کے ساتھ غائب ہوئی لیکن جل ککڑ حسب معمول کام پر آتا رہا۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ جس روز نکی غائب ہوئی تو اس کے گھر والوں نے پریشانی کا اظہار بالکل نہیں کیا۔ تیسرے دن گھکی نے دبی زبان سے اعتراف کیا کہ موسی گاؤں سے آئی تھی، وہ اسی کے ساتھ چلی گئی تھی۔ موسی کب آئی تھی؟ بس وہ آئی اور چلی گئی۔ لیکن نکی نے کبھی کہیں جانے کا ارادہ ظاہر نہیں کیا تھا۔۔۔ ان سب سوالوں کا ٹال مٹول کے سوا کوئی جواب نہیں تھا۔۔۔ اگر کوئی اور زیادہ کرید کر پوچھتا تو گھکی کو کھانسی چڑھ جاتی۔ وہ کھانستے کھانستے بےحال ہو جاتی۔ یہاں تک کہ بات آئی گئی ہو جاتی۔
ماہِ اکتوبر ختم ہونے کو تھا لیکن اگست سے جو فسادات شروع ہوئے تھے، ختم ہونے ہی میں نہ آتے تھے۔ حویلی کے طویل و عریض صحن کے اردگرد متعدد کوٹھریاں بنی ہوئی تھیں۔ بہت سے کاریگر شہر کے خطرناک حصوں سے نکل کر معہ بال بچوں کے عارضی طور پر وہاں مقیم تھے۔ چنانچہ رات کو کارخانے میں کافی رونق ہو جاتی۔ کھانے سے فارغ ہو کر کاریگر گئی رات تک آپس میں گپ شپ ہانکتے اور مغربی پنجاب میں جو مظالم ہندوؤں اور سکھوں پر ڈھائے جا رہے تھے، ان کی دل کھول کر مذمت کرتے۔
ایسی ہی ایک رات تھی۔ کھانا کھانے کے بعد کاریگروں کا ایک گروہ کارخانے میں گھسا گپ شپ میں مصروف تھا۔ ٹھنڈی ہوا چلنے لگی تھی۔ اسی لیے اندر سے کنڈی چڑھا دی گئی تھی بلکہ بونگا تو سلگتے ہوئے اپلوں کی مٹی کی انگیٹھی رانوں میں دبائے بیٹھا تھا۔ کسی نے آوازہ کسا، ’’ابے بونگے اچھی جوانی ہے سالے، انگیٹھی رانوں میں دابے ہے۔‘‘
’’جار! جن انگیٹھیوں کی گرمی تھی، ان میں سے ایک کی سادی ہو گئی اور دوسری گائب۔۔۔‘‘
’’ہاں بھئی ڈیڑھ مہینہ ہوگیا نکی کو گیب ہوئے۔‘‘
ایک بولا، ’’جار اچھی بات جاد دلائی مجھے، آج ایک آدمی ملا تھا جو نکی کی موسی کے گاؤں کے قریب والے گاؤں میں رہتا ہے۔‘‘
’’کیا نکی کی کوئی کھبر ملی؟‘‘ ایک دونے دلچسپی لی۔
’’ہاں۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’اس نے کنویں میں چھلانگ لگا دی تھی۔‘‘
’’ہرے رام!‘‘
’’اس نے جیہہ بھی بتایا کہ اس کے بچہ ہونے والا تھا۔‘‘
’’ہو۔۔۔ او۔۔۔ پھر؟‘‘
’’اس نے بتایا جیادہ کھبر نہیں۔ سنا تھا کہ لڑکی بچ جائےگی۔‘‘
باج نے رائے دی، ’’میرے کھیال میں تو دیوی داس نے اس کی حالت دیکھ کر گاؤں بھیج دیا ہوگا تاکہ وہیں کہیں بچے سے جان چھڑا کر لوٹ آئےگی تو جلدی سے سادی کر دی جائےگی اس کی۔‘‘ اس افسوس ناک واقعہ کا سب کے دلوں پر اثر ہوا اور ہنستی بولتی محفل پر خاموشی طاری ہو گئی۔۔۔ اتنے میں دروازے پر دستک کی آواز آئی۔
’’کون؟‘‘ باج نے دریافت کیا۔ لیکن جواب میں پھر مسلسل دستک کی ہلکی ہلکی آوازیں آتی رہیں۔۔ سب کو یہ بات عجیب سی معلوم ہوئی۔ باج اپنی جگہ سے اٹھا لیکن اس کے دل میں کھدبد کھدبد ہو رہی تھی کہ کہیں بڑی سردارنی نہ ہو۔ موقعہ پا کر اس نے چڑھائی کر دی ہو شاید۔ باج نے کنڈی کھول دی۔ باہر سے دروازے کو بہت آہستہ آہستہ دھکیلا گیا۔ چراغ کی تھرتھراتی ہوئی لو کی مدھم روشنی میں ایک لڑکی اندر داخل ہوئی۔
سانولی!
باج دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔ حاضرین میں سے سب کی آنکھیں دروازے پر لگی ہوئی تھیں۔ سانولی کو دیکھ کر قریب تھا کہ ان کے منہ سے بےاختیار مختلف آوازیں نکل جائیں۔ لیکن باج کے اشارے پر وہ اسی طرح چپ چاپ بیٹھے رہے۔ سانولی اور آگے بڑھی۔ اس کا گول چہرہ، نوخیز جوانی کی حدت سے تمتمائے ہوئے چہرے کی جلد، قدرے موٹے اور بھرپور ہونٹ۔ چکنے گال۔۔۔ ان سب چیزوں کے حسن کو پہلے کبھی کسی نے قابل توجہ نہیں سمجھا تھا۔ ان سب دل لیوا خوبیوں کے ساتھ ساتھ اس کے چہرے پر شیر خوار بچے کا سا بھولپن ہویدا تھا۔ لیکن اتنی گئی رات کو وہ وہاں کیا کرنے آئی تھی؟
سانولی نے ہاتھ پھیلاکر اس اونچی اور بھاری بھرکم میز کا سہارا لیا، جس پر باج فرنیچر بناتے وقت مختلف حصوں پر رندہ کیا کرتا تھا۔ لڑکی نے منہ کھولا اور سرگوشی میں بولی، ’’باج، چاچا!‘‘
’’ہاں۔‘‘ باج نے داڑھی پر ہاتھ پھیرا۔ سانولی نے گردن ادھر ادھر گھماکر کوئی اور آواز سننے کی ناکام کوشش کی۔ اس وقت اس کے نیم وامنہ کے اندر دانتوں کی قطار کے پیچھے اس کی جیبھ چھوٹی سی مچھلی کی طرح متحرک تھی۔ پھر اس نے رازدارانہ لہجے میں دریافت کیا، ’’تم اکیلے ہو؟‘‘ یہ سن کر سب نے گردنیں آگے کو بڑھائیں۔ ان کی آنکھیں پھیل گئیں۔ باج نے آواز کا لہجہ بدلے بغیر جواب دیا۔
’’ہاں سانولی! میں اکیلا ہوں۔‘‘
’’کہاں ہو؟‘‘ یہ کہہ کر وہ بازو پھیلا کر ہاتھ ہلاتی ہوئی آگے بڑھی۔ پھر اس نے اسے چھو لیا۔
’’یہ رہے تم!‘‘ وہ اسے چھو کر بہت خوش ہوئی۔
’’سانولی! تم اس بخت یہاں کیوں آئی ہو؟‘‘
’’کیوں اس وخت کیا ہے؟‘‘
’’اس بخت رات ہے تم۔۔۔ تم جوان ہو۔۔۔ کریب کریب۔‘‘
’’میرے لیے رات اور دن ایک برابر ہیں۔‘‘
’’لیکن اس بخت رات کے گیارہ بج چکے ہیں۔۔۔ ار پھر تم اکیلی ہو۔‘‘ یہ سن کر سانولی کے صاف ستھرے چہرے پر اذیت کے آثار پیدا ہوئے۔ وہ حیران ہوکر بولی، ’’پر باج چاچا! بھلا تمہارے پاس آنے میں کیا برائی ہو سکتی ہے۔ تم تو دیوتا ہو۔۔۔‘‘
باج ٹھٹھک کر پیچھے ہٹا۔
’’تم نہیں جانتے چاچا۔‘‘ سانولی نے پھر کہنا شروع کیا، ’’تمہاری دنیا اور ہے اور اندھیوں کی دنیا اور۔ چاچا تم کتنے اچھے، کتنے مہربان ہو۔ جب میں تمہاری آواج سنتی ہوں تو گھنٹوں اس کی مٹھاس اور پیار کے بارے میں سوچتی رہتی ہوں۔ جب کبھی لالہ (باپ) مجھے گسّے ہوتا ہے تو میں سوچتی ہوں کہ کوئی بات نہیں میرا باج چاچا جو ہے۔ وہ مجھے لالہ سے کم پیار تو نہیں کرتا۔۔۔ ٹھیک ہے نا۔‘‘ اس دوران میں باج مونچھ کا ایک سرا دانتوں میں ہلکے ہلکے چباتا رہا۔ اس کی بات ختم ہو جانے پر اس نے تامل کیا اور پھر اس کے بدنما چہرے پر ایک دل کش مسکراہٹ پیدا ہوئی اور اپنا کھردرا ہاتھ اس کے سرپر رکھ کر بولا، ’’ہاں سانولی! یہ سچ ہے۔۔۔ لیکن۔۔۔ اس بخت تم جاؤ۔‘‘
’’نہیں، نہیں چاچا میں تم سے باتیں کرنے آئی ہوں۔‘‘
’’اچھی لڑکی بنو سانولی! اس ٹیم جاؤ۔ کل کریں گے باتیں۔۔۔‘‘
’’او نہیں چاچا، کل تک صبر ہوسکتا تو میں بستر سے اٹھ کر کیوں آتی؟‘‘
سب دم بخود۔
کارخانے کے کمرے میں ایک بار پھر سانولی کی آواز گھنٹی کی طرح گونج اٹھی، ’’باج چاچا! تم سمجھتے نہیں۔ میں تم سے باتیں کرنے آئی ہوں۔ اس بخت یہاں کوئی نہیں۔ جبھی تو میں تم سے باتیں کرنا چاہتی ہوں۔‘‘
’’کیا باتیں کرنا چاہتی ہو؟‘‘
’’باج چاچا!‘‘ اب سانولی کی آواز بدل گئی۔ اس نے توقف کیا اور پھر بولی، ’’باج چاچا! کلدیپ بابو بہت اچھے ہیں۔۔۔ وہ کہتے تھے کہ میری آنکھیں ٹھیک ہو سکتی ہیں میں جنم کی اندھی نہیں ہوں نا! اس لیے۔۔۔ اور۔۔۔ وہ۔۔۔ کہتے تھے کہ تم سے بیاہ۔۔۔ بیاہ کروں گا۔‘‘ اس پر باج نے اپنی داڑھی کو مضبوطی سے مٹھی میں پکڑ لیا، ’’کون کلدیپ؟‘‘
’’وہ جو نئے آئے تھے، وہی ناں!‘‘
’’کیا کہتا تھا وہ۔۔۔‘‘
’’وہ کہتے تھے سانولی! تم مجھے بڑی پیاری لگتی ہو۔ میں کہتی میں اندھی ہوں، بھلا اندھی لڑکیاں بھی کسی کو پیاری لگتی ہیں۔ وہ کہتے باؤلی! پیار کیا نہیں جاتا، ہو جاتا ہے۔ میں تمہیں پیار کرتا ہوں اور پھر تم جنم کی اندھی نہیں ہو۔ تمہارا علاج ہو سکتا ہے۔ تم دیکھنے لگوگی۔۔۔ پر چاچا! ان کو گئے پندرہ دن ہو چکے ہیں۔ لوٹ کے نہیں آئے۔۔۔ اور۔۔۔ اور۔۔۔‘‘ یہ کہتے کہتے سانولی نے اپنی بےنور آنکھوں کو اور پھیلایا، جیسے کچھ دیکھنے کی کوشش کر رہی ہو اور پھر جھینپ کر بولی، ’’۔۔۔ اور میرا پاؤں بھی بھاری ہے۔۔۔‘‘
باج نے دفعتاً کھل جانے والے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔
سانولی کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گئی اور بغیر جوش و خروش کے ذرا غم میں ڈوبی ہوئی آواز میں اس نے پھر سلسلۂ کلام جاری کر دیا، ’’آج بستر پر لیٹے لیٹے میں سوچ رہی تھی کہ اگر وہ نہ آئے تو۔۔۔؟ لالہ بہت دکھی ہے۔ وہ کہتا ہے گھکی اور نکی دونوں کھراب ہیں۔ ایک کو ایسا روک لگ گیا ہے جس سے بچنا محال ہے۔ دوسری کا پاؤں۔۔۔ سچ باج چاچا۔ لالہ بے حد دکھی ہے۔ وہ رات رات بھر روتا رہتا ہے۔۔۔ وہ مجھ سے پیار کرتا ہے۔ مجھے گلے سے لگاکر کہتا ہے۔ یہ میری رانی بیٹا ہے۔ اسے پاپ چھوکر بھی نہیں گیا۔۔۔ لیکن اسے نہیں ملوم کہ میرا پاؤں بھی۔۔۔ میں سوچتی ہو کہ اگر کلدیپ بابو نہ آئے تو۔۔۔ لالہ کو ملوم ہو جائےگا۔ وہ مر جائےگا۔ ایک دم مر جائےگا۔۔۔ یہ سوچتے سوچتے مجھے رونا آ گیا۔ مجھے کچھ نہیں سوجھا تو جی کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے تمہارے پاس چلی آئی۔۔۔ لیکن وہ جرور آئیں گے۔۔۔ ہیں نا! چاچا! وہ آئیں گے نا؟‘‘
سب لوگ دم سادھے بیٹھے رہے۔ باج نے ایک بار پھر بھاری بھرکم ہاتھ اس کے سر پر رکھا اور اسے تسلی دیتے ہوئے کہا، ’’ہاں سانولی! کلدیپ آئےگا۔۔۔ وہ جرور آئےگا۔۔۔‘‘ تھرتھراتی ہوئی مدھم روشنی میں باج نے دیکھا کہ سانولی کی بےنور آنکھوں کے گوشوں میں آنسو دمک رہے ہیں۔۔۔
’’اور اب سانولی تمہیں واپس جانا چاہیے۔‘‘ یہ کہہ کر باج نے دروازہ آہستہ سے کھولا اور سانولی کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر اسے آگے بڑھایا۔ وہ قدم بہ قدم چلنے لگی۔ باج دروازے پر ہی رک گیا۔ وہ سانولی کو جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ ہر چہار جانب خاموشی کی حکومت تھی۔ تاروں کی مدھم روشنی میں سانولی ایک سائے کی مانند دکھائی دے رہی تھی۔ اس کے لیے اندھیرا اجالا ایک برابر تھا۔ وہ بلا کسی ہچکچاہٹ کے بڑھتی چلی جا رہی تھی۔
باورچی خانے کے کونے سے گزر کر حویلی کی پرشکوہ لیکن سیاہ دیوار کے سیاہ تر سائے تلے سے ہوتی ہوئی جب وہ بڑے پھاٹک پر بنی ہوئی اس اونچی محراب کے تلے پہنچی جس کے نیچے سے تین ہاتھی اوپر تلے آسانی سے گزر سکتے تھے تو باج کو میلے کچیلے کپڑے پہنے وہ اکہرے بدن کی ہلکی پھلکی اندھی لڑکی بہت کمزور، بے حقیقت اور بے دست و پا دکھائی دی، جیسے وہ کوئی رینگتا ہوا حقیر کیڑا ہو۔
باج وہیں پر کھڑا رہا۔ اس نے آسمان کی وسعتوں، حویلی کی بلند و بالا دیواروں، بے جان عمارتوں کے سلسلوں اور پھر اس طویل و عریض دالان پر نگاہ دوڑائی جس کی فضا میں کئی کچے کنوارے قہقہے گونجتے گونجتے دفعتاً دردناک چیخوں میں تبدیل ہو گئے تھے۔۔۔ رات، کوئی رات اس قدر کالی اس کے دیکھنے میں پہلے کبھی نہیں آئی تھی۔۔۔ اور تارے خون کی چھینٹوں کے مانند دکھائی دے رہے تھے۔
(۱۰)
جوں جوں دن گزرتے جا رہے تھے، توں توں سانولی کے رازداں کاریگروں، خصوصاً باج کی پریشانی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ سانولی اپنی بہنوں کی طرح برباد ہو۔ نل کے پاس یا دروازے کی سیڑھیوں پر، یا اونچی محراب تلے بیٹھی ہوئی اندھی سانولی کی حالت انھیں بڑی قابل رحم دکھائی دیتی تھی۔ آتے جاتے جب بھی ان کی اس سے مڈبھیڑ ہوتی تو سانولی نے کبھی ان سے یا باج سے دوبارہ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔
بیس دن اور بیت گئے۔
پنجاب برباد ہو رہا تھا۔ وارث شاہ کا پنجاب، گندم کے سنہرے خوشوں والا پنجاب، شہد بھرے گیتوں والا پنجاب، ہیر کا پنجاب، کونجوں اور رہٹوں والا پنجاب! اور اس کی ایک بے نور آنکھوں والی حقیر سی بیٹی بھی برباد ہو رہی تھی۔ ایک رات جب کہ سب کاریگر کھانے دانے سے فارغ ہو کر حسب معمول کارخانے میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے تو قدرتی طور پر سانولی کا ذکر شروع ہو گیا۔ ان سب کی دلی تمنا یہی تھی کہ کاش! سانولی کا اپنی بہنوں کا سا حال نہ ہو۔ لیکن وہ اس بات کو بخوبی سمجھتے تھے کہ یہ ناممکن ہے اور یہ سوچنا پرلے درجے کی حماقت ہے۔ باج کھلے دروازے میں کھڑا کالے آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ بونگے کو سردی محسوس ہوئی تو اس نے چلاکر کہا، ’’اوئے مئوں دیا متراڑا درواجا بند کر دے، سالے تو تو سانڈ ہو رہا ہے پھول کر، ہم گریبوں کا تو خیال کر۔‘‘
اور کوئی موقعہ ہوتا تو باج بونگے کی گالی کے جواب میں کوئی نئی اور بھاری بھرکم گالی کی اختراع کرتا۔ لیکن اس وقت اس نے چپکے سے دروازہ بھیڑ دیا اور خود بڑی میز پر ہاتھ ٹیک کر کھڑا ہو گیا۔ سب اسے ہنسنے بولنے کے لیے اکساتے رہے لیکن جب اس کا موڈ ٹھیک نہیں ہوا تو انہوں نے بڑے اصرار سے پوچھا، ’’بئی باج! آج کیا بات ہے۔‘‘
’’میں سوچ رہیا ہوں۔‘‘
بونگے نے سردی لگنے کے باوجود اٹھ کر جھٹ سے کبڈی کھیلے والے کھلاڑی کا سا پوز بنایا اور قریب آکر بولا، ’’سچے پادشاہو! کیا سوچ رہے ہو؟‘‘ باج نے اس کی جانب فلسفیانہ انداز سے دیکھا تو اسے ہنسی آ گئی۔ لیکن باج کے تیور ویسے کے ویسے رہے۔ بونگے کو تمسخرانہ انداز سے اپنی جانب دیکھتے ہوئے باج نے کلے کے اندر زبان گھمائی اور پھر سرکو حرکت دے کر اس نے بونگے اور دیگر ساتھیوں پر چھا جانے والی نظروں سے دیکھا اور کہا، ’’میں ایک بات سوچ رہا ہوں۔‘‘
’’کیا؟‘‘ سب کو اس کا فلسفیانہ موڈ دیکھ کر ہنسی آرہی تھی جسے وہ بمشکل روکے ہوئے تھے۔ باج نے سر کو یوں جھٹکا دیا جیسے وہ بہت بھاری جہاں دیدہ بزرگ ہو اور پھر میز کو دونوں ہاتھوں سے مضبوطی سے پکڑ کر بولا، ’’پنجاب میں کتا جلم ہو رہا ہے۔ ایسا کھون کھرابا نہ دیکھا نہ سنا ٹھیک؟‘‘
’’ٹھیک۔‘‘
’’اور پھر ہندو اور سکھ عورتوں کو جو بجتی (بے عزتی) پچھمی پنجاب میں مسلمان کر رہے ہیں۔ وہ سب تم کو مالوم ہے۔ ٹھیک؟‘‘
’’ٹھیک۔‘‘ سب نے ذرا جوش میں آکر جواب دیا۔ اب کچھ دیر تامل کرنے کے بعد دھیرے دھیرے سپاہیانہ انداز میں سیدھا کھڑا ہو گیا اور ایک لفظ پر زور دے کر بولا، ’’پر۔۔۔ میں سوچتا ہوں کہ مسلمان گسے میں آکر جو بیاکوپھی (بیوقوفی) کر رہے ہیں، وہی بیاکوپھی ہم چنگے بھلے اپنی بہنوں اور بہو بیٹیوں کے ساتھ کر رہے ہیں۔ بتاؤ مسلمانوں کو دوش دینے سے پہلے ہمیں کھد کو شرم مسوس نہیں ہونی چاہیے۔‘‘
محفل پر سناٹا چھا گیا۔ ننھے سے چراغ کی پتلی سی تھرتھراتی لو کی روشنی میں باج نے اپنی موٹی اور لمبی انگلی اٹھاتے ہوئے سلسلہ کلام جاری رکھا، ’’ایسے ہی پاکستان میں گھکی، نکی اور سانولی کی ہزاروں لاکھوں بہنیں ہوں گی، تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم یا وہ کس عجت (عزت) کے لیے لڑ رہےہیں۔ کیوں ایک دوسرے کو جا نگلی کہتے ہیں؟‘‘
اتنے میں دروازہ بڑے دھماکے کے ساتھ کھلا۔ سب نےادھر نگاہ ڈالی تو دیکھا کہ سانولی دروازے کے بیچوں بیچ کھڑی ہے۔ اس کے روکھے سوکھے بال روئی کی طرح دھنے ہوئے ہیں۔ اس کے بازو پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کے اعضا میں لرزش ہے۔ بیشتر اس کے کہ کوئی بولتا، وہ زور سے چلائی، ’’باج چاچا! باج چاچا!‘‘
زندگی میں پہلی بار باج کا کلیجہ دھک سے رہ گیا۔
’’باج چاچا! باج چاچا!‘‘ سانولی کی آواز فضا میں دوبارہ گونجی۔
’’ہاں، ہاں سانولی بول۔ گھبرائی ہوئی کیوں ہے تو، بول۔۔۔‘‘
’’وہ آ گئے؟‘‘
’’کون؟‘‘
’’کلدیپ بابو آ گئے۔‘‘
’’آ گیا وہ؟‘‘ سب خوشی کے مارے چلا اٹھے۔
’’اور آتے ہی وہ مجھے ڈاکدار کے پاس لے گئے۔ ڈاکدار نے کہا آنکھیں ٹھیک ہو جائیں گی۔ لیکن علاج بہت دن کرنا پڑےگا۔۔۔‘‘ باج نے بڑھ کر سانولی کے دونوں کمزور کندھوں کو اپنے ہاتھوں میں دبوچ لیا اور اسے ہلاکر بولا، ’’سچ، کب؟‘‘
’’ہاں سچ۔ ان کی ماتا جی بھی ساتھ آئی ہیں۔‘‘
’’اری تو وہ اتنے دن کہا ں گیب رہا۔‘‘
’’انہوں نے مجھے بتایا کہ پہلے ان کی بات کوئی نہیں مانتا تھا۔ انہوں نے بھوک ہڑتال شروع کر دی۔ بڑی مشکلوں سے انہوں نے ان کی بات مان لی۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسا رگڑا جھگڑا ہوا کہ میں کھت بھی نہ لکھ سکا۔ لکھتا بھی تو کیا لکھتا۔۔۔‘‘
’’اوہو ہو ہو۔‘‘ سب بےاختیار ہنسے۔
سانولی نے جھوم کر کہا، ’’وہ میری منتیں کرنے لگے، کہنے لگے، سانولی مجھے ماپھ کر دو۔۔۔ اگر تمھیں کوئی دکھ پہنچا ہو۔ ہم کوئی امیر نہیں ہیں، لیکن سب کام ٹھیک ہو جائیں گے۔۔۔ ہم تمہیں دلی لے جائیں گے۔۔۔‘‘
اب سب لوگ سانولی کی طرف بڑھے اور اپنے اپنے انداز اور لہجے میں خوشی کا اظہار کرنے لگے۔ آخر باج نے دونوں ہاتھ اٹھاکر کہا، ’’بھائیو! ٹھہرو۔ میرے کھیال میں اب سانولی کو آرام کرنا چاہیے۔ اسے رات کے سمے گھر سے باہر نہیں رہنا چاہیے۔۔۔ سانولی ہم بوہت کھش ہیں۔ اب کل باتیں ہوں گی۔ چلو۔۔۔ اب تم جلدی سے گھر جاؤ۔‘‘
سانولی کے ساتھ کسی کا جانا مناسب نہیں تھا۔ کیونکہ وہ گھر والوں سے چوری چھپے آئی تھی۔ سب اسے انتہائی پیار سے کارخانے کےدروازے تک چھوڑنے گئے۔ آٹھ دس منٹ بعد جب سارا ٹولہ بازار جانے کا پروگرام بناکر باہر نکلا تو اونچی محراب تلے سے گزرتے وقت انہیں دیوار کے ساتھ ایک مٹیالا بت سا نظر آیا۔ وہ سب رک گئے۔ باج نے آگے بڑھ کر غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ سانولی ہے۔
’’سانولی! تم ابھی گھر نہیں گئی؟‘‘
سانولی نے خلا میں گھورتے ہوئے کہا، ’’باج چاچا! نہ جانے میرے دل کو کیا ہو گیا ہے۔ کچھ سوجھتا ہی نہیں کہ کیا کروں۔ ذرا دم لینے کے لیے رک گئی۔۔۔ باج چاچا! سوچتی ہوں۔ ایسی کھشی کی بات کیسے ہو سکتی ہے۔ لیکن چاچا تمہیں میری بات پر اکین ہے نا؟‘‘
باج نے گھوم کر اپنے ساتھیوں کی جانب سوالیہ انداز سے دیکھا۔ سب چپ تھے۔ وہ بھی چپ رہ گیا۔ سب کو خاموش پاکر سانولی نے اپنا سوال دہرایا، ’’آپ سب کو اکین نہیں آتا؟‘‘ باج کی آنکھوں کے گوشے پر آب ہو گئے۔ اس نے ہاتھ بڑھاکر سانولی کے سرپر رکھ دیا اور پھر دھیمی آواز میں بولا، ’’ہمیں اَکین ہے۔۔۔ اور دیکھو تمہیں بےبخت گھر سے باہر نہیں رکنا چاہیے اور پھر سردی پڑنے لگی ہے۔ کہیں تم بیمار نہ ہو جاؤ۔‘‘
سانولی نے اس کی مضبوط کلائی کو اپنی کمزور انگلیوں سےچھو کر پوچھا، ’’پرباج چاچا آپ سب لوگ بے وخت کہاں جا رہے ہیں؟‘‘
’’ہم۔‘‘ باج نے پدرانہ پیار سےلرزتے ہوئے اس کے گال کو چھوتے ہوئے جواب دیا، ’’سانولی بیٹی! ہم اس کھوشی میں برفی کھانے جا رہے ہیں۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.