عبدالصمد خیراتی ہاسپٹل میں کمپونڈر تھا۔
چھے سال پہلے وہ یہاں وارڈ بوائے کی حیثیت سے داخل ہوا تھا اور چھ سال کی مسلسل محنت کے بعد آج اس نے ترقی کی یہ جست لگائی تھی، اس کا تعلیمی پس منظر میٹرک کلاس ہی میں الجھ کر رہ گیا، وہ آگے نہ پڑھ سکا۔
وہ آگے اپنی تعلیم کیوں جاری نہ رکھ سکا؟ اس نے میٹرک فیل ہونے پر کیوں تعلیم چھوڑ دی؟ یہ ایسے سوالات تھے جن کا جواب شاید وہ خود بھی نہ دے سکے لیکن آج عبدالصمد خوش تھا کہ وہ کمپونڈر بن گیا ہے۔ کمپونڈر یعنی دوائیں بنانے والا اور دس کم سو روپے تنخواہ پانے والا ایک معتبر انسان۔۔۔ اب وہ ڈاکٹر کے تحریر کیے ہوئے نسخے کو دیکھ کر دوائیں دیا کرےگا اور چند سال بعد جانے وہ کیا سے کیا ہو جائےگا۔ اسے اسی ہاسپٹل کے ایک کمپونڈر کا خیال آیا جس نے نوکری چھوڑ کر پرائیویٹ ڈسپنسری کھول لی تھی جو جے رام جنرل مرچنٹ کی برابر والی گلی میں واقع ہے۔
پہلے چھے برس اس نے یہاں وارڈ بوائے کی حیثیت سے گزارے تھے، بیماروں کو اسفنج کرنا، اینما دینا، منہ دھلانا، پیشاب کرانا، غرض یہ تھے اس کے فرائض، اس کریہہ اور پست ماحول کے گرد اس کی زندگی رقص کر رہی تھی۔
غلاظت سے اسے بچپن سے نفرت تھی لیکن اسے یہاں اپنی فطرت کے خلاف نوکری کرنی پڑی تھی، وہ چاہتا تھا کہ جس طرح بھی ہو اس گھناؤنے ماحول سے بھاگ جائے، دور، جہاں کی فضا میں ایسی گھٹن، ایسی بدبو، تعفن نہ ہو، وہ بیماروں کے ماحول میں رہتے ہوئے خود کو بیمار محسوس کرنے لگا تھا۔ اسے وہ کالی کلوٹی نرس یا د آنے لگی جس نے اسے ذرا سی غلطی پر گالی دی تھی تو اس نے تڑاخ سے گالی کا جواب گالی سے دیا تھا، اس پر اسے دو ماہ کے لیے معطل کر دیا گیا، پھر اس نے نرس سے معافی چاہی تھی تب کہیں جا کر وہ بحال ہوا تھا۔
اور پھر اس کے تحت الشعور میں رشتہ داروں، ملاقاتیوں، دوستوں کے چہرے ابھرنے لگے، پہلے اس کے دماغ کے پردے پر ایک چہرہ نمودار ہوا، یہ اس کا چچا زاد بھائی الطاف تھا جس سے اس کی دیرینہ مخاصمت تھی۔ خوبرو، جامہ زیب، گبرڈن کا سوٹ پہنے۔۔۔ وہ کہہ رہا تھا کب تک آوارہ گردی کرتے پھرو گے؟ صمد، تمھاری اس بے راہ روی سے ہمارے خاندان کی بدنامی ہو رہی ہے، کپڑے اتنے خراب کیوں ہیں؟ تمھیں اپنی حالت تک کا احساس نہیں، کہیں نوکری کیوں نہیں کر لیتے۔ ہاں دیکھو کوئی ایسی ویسی نوکری قبول نہ کرنا جس سے ہمارے خاندان پر حرف آئے، تم حساس ہو پڑھے لکھے ہو اور پھر غریب ہو، سنتے ہیں فاقہ مستی انسان کو خوددار بنا دیتی ہے اور ویسے تم بچپن سے ہو بھی خوددار۔۔۔ ارے یہ تمھارا کوٹ مسکرا کیوں رہا ہے؟ ‘‘یہ کہہ کر وہ خود بھی مسکرانے لگا تھا۔ اس مسکراہٹ میں طنز تھا، بڑاپن تھا، امارت تھی اور اس وقت اس کو محسوس ہوا تھا وہ کوٹ نہیں پہنے ہوئے ہے بلکہ اس کا جسم مضبوط رسیوں سے باندھ دیا گیا ہے، اس کے جسم سے کالا زہریلا ناگ لپٹ گیا ہے جس کی پھنکار سے وہ بےجان سا ہوا جا رہا ہے او ر لوگ اس کے قریب آنے سے ڈر رہے ہیں، اور اس نے جاتے ہوئے کہا تھا۔۔۔‘‘، ’’اچھا اگر تمھیں کچھ کپڑے چاہئیں تو مجھ سے کہہ دینا، میرے یہاں پرانے کپڑے بہت رکھے ہوئے ہیں جو میرے کسی کام کے نہیں۔‘‘
امیروں کی ہمدردی میں ہمدردی کم دل آزاری زیادہ ہوتی ہے۔
اور پھر شکر کی بوری کی طرح بھاری بھرکم چچا کا بھونڈا چہرہ اس کی نگاہوں کے سامنے آیا وہ کہہ رہا تھا : ’’میری مانو تو تم یہاں سے دور چلے جاؤ، تمھارے چچی، تمھارا بھائی، تمھارے خاندان کے اکثر افراد تم سے نفرت کرتے ہیں۔۔۔ بےکار رہنا شریفوں کا شیوہ نہیں، میں تمھیں اپنے کاروبار میں اس لیے شریک نہیں کر سکتا کہ تمھارے چال چلن ٹھیک نہیں، تم دودھ جیسے چاندی کے سکوں کو دیکھ کر چوری کرنے لگوگے اور میں تمھیں چور بنتا دیکھنا نہیں چاہتا، تم اپنے پاؤں پر آپ کھڑا ہونا سیکھو۔۔۔‘‘ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ اس وقت اپنے چچا کا گلا گھونٹ دے لیکن وہ ایسا نہ کر سکا تھا۔۔۔ اسے جینا تھا۔
’’پھر اس نے خود کو آگے بڑھتا ہوا محسوس کیا۔۔۔ یہ پارسی کی گلی ہے، وہ پکار رہا ہے، ارے حکیم تم بھاگ کیوں رہے ہو۔۔۔ ٹھہرو۔۔۔ مجھے تم سے کام ہے، اس کی آواز سن کر اس کا دوست کنی کاٹنے کی فکر میں ہے لیکن نکڑ پر وہ اسے دبوچ لیتا ہے۔ وہ پوچھ رہا ہے تم ایسے گھبرائے ہوئے کیوں ہو، اس کا دوست میں، میں کر رہا ہے، اس کی زبان گنگ ہے۔ تم مجھ سے ڈرتے کیوں ہو، میں نے تمھیں کیا نقصان پہنچایا ہے، سچ سچ بتاؤ میں ابھی اتنا نیچ تو نہیں ہوا۔۔۔ اس کا دوست کہہ رہا ہے۔۔۔ میرے پاس اس وقت روپے نہیں ہیں صمد ورنہ میں تمھاری ضرور مدد کرتا۔‘‘ پھر اس کی زبان سے صرف ایک ہی لفظ نکلا تھا۔۔۔ اوچھے کمینے لوگ!
اس کے دماغ کے پردے پر اب اندھیرا چھا چکا تھا، اسے کوفت ہونے لگی، اس نے ماضی کو کیوں یاد کیا۔۔۔ اس نے ان لٹیروں کی صورت کیوں دیکھی۔ ان گھناؤنی سڑی بسی شکلوں کو اس نے مدتوں بعد خیال میں دیکھا تھا۔ اس نے دل میں عہد کیا کہ ایسی باتوں کو وہ پھر کبھی یاد نہ کرےگا جن کے یاد کرنے سے اس کو روحانی تکلیف ہوتی ہے۔ پھر اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ دوڑ گئی، لیکن اب اس کی مسکراہٹ میں تازگی نہ تھی، زندگی کی لہر نہ تھی، پھیکا پن تھا، پژمردگی تھی۔۔۔ دوسرے دن پھر وہی خیراتی ہسپتال تھا اور وہ۔۔۔
بات یہ تھی کہ اس نے زندگی کے اکثر لمحات پریشانیوں میں گزارے تھے او ر کمپونڈر بننے کے بعد وہ خود کو ایک مطمئن انسان سمجھنے لگا تھا اور آج جب اسے کمپونڈروں کے پہننے کا سفید سرکاری لباس ملا تو اسے محسوس ہوا جیسے اس کے جسم سے غریبی کا لباس اتر گیا ہے او ر اس کی جگہ امارت نے لے لی ہے۔ وہ سوچنے لگا یہ سفید سرکاری لباس اسے ڈیوٹی کے بعد پہننے دیا جائے تو کیا ہی اچھا ہو۔۔۔ وہ اسے احتیاط سے پہنا کرےگا۔۔۔ پھر وہ اپنے آپ اپنی اس مضحکہ خیز حرکت پر مسکرانے لگا، وہ بھی کتنا بےوقوف ہے، نرا گدھا۔۔۔ ترقی ملنے کے بعد عبدالصمد پہلی تنخواہ کا منتظر رہنے لگا، اس نے خریداری کی ایک فہرست تیار کر لی، اسے اچھے او ر قیمتی کپڑے پہننے کی بڑی خواہش تھی لیکن اس کی یہ خواہش اب تک اس لیے پوری نہ ہو سکتی تھی کہ اس کے پاس روپے نہیں تھے، ایک اکیلے انسان کے لیے دس کم سو روپے زندگی گزارنے کے لیے کچھ کم نہیں۔
جب تک وہ وارڈ بوائے رہا اسے ماہانہ بیس روپے ملا کرتے تھے او ر وہ دن رات کولھو کے بیل کی طرح ہسپتال میں جتا رہتا تھا، پورے ہسپتال میں کل چار کمپونڈر تھے جن کے اپنے گھر تھے اور اس ہسپتال میں عبدالصمد ہی ایک لاوارث تھا۔ اس نے سوچا یہ ترقی جو اس نے حاصل کی محض بڑے ڈاکٹر کی مہربانیوں کا نتیجہ ہے او ر وہ اب تک شکریہ ادا کرنے کے لیے ان کے گھر نہیں گیا۔
وہ کتنا بدتمیز ہے، جانے وہ اس کے متعلق کیا خیال کر رہے ہوں گے، جب وہ دوا خانہ بند کر کے نوٹس بورڈ کے قریب سے گزرا تو معاً اس کی نظریں نوٹس بورڈ کے تازہ اعلان پر پڑیں جو ابھی ابھی گوند سے چسپاں کیا گیا تھا۔
سرخ روشنائی سے جلی حروف میں درج تھا۔
’’آج کل دیکھا جا رہا ہے کہ ہسپتال کے اوقات کے بعد میں عملے کے بعض لوگ گھر نہیں جایا کرتے، یہ چیز قانوناً ممنوع ہے۔ سوائے وارڈ بوائے، ہسپتال کے خاکروبوں اور ڈیوٹی پر کام کرنے والوں کے کوئی دوسرا شخص آج سے غیر اوقات میں رہنے نہ پائے۔‘‘
وہ دیر تک اس اعلان کو پڑھتا رہا اور جب پڑھ چکا تو اسے محسوس ہوا جیسے وہ ہسپتال سے برطرف کر دیا گیا ہے۔۔۔ گھر۔۔۔ ؟ اس کا کوئی گھر نہ تھا۔۔۔ وہ آج تک ہسپتال کو ہی اپنا گھر سمجھتا رہا، یہ اور بات ہے تھی کہ وہ ترقی پانے کے بعد اس جگہ سویا نہیں کرتا تھا جہاں وارڈ بوائے خاکروب وغیرہ سویا کرتے تھے۔ پھر اسے سوچ کر بڑی طمانیت ہوئی کہ وہ چند دن لطیف کے گھر سوجایا کرےگا جو اس کا نیا دوست ہے، اسی کی طرح کمپونڈر،وہ تھوڑا بہت اس کی تاریک زندگی سے واقف ہے۔
اور اس نے پرسوں کہا بھی تھا کہ وہ اس کے گھر سوجایا کرے، کمپونڈر بن جانے کے بعد اسے ہسپتال میں نہیں سونا چاہیے۔۔۔ اسے محسوس ہونے لگا تھا کہ جیسے لطیف نے اس اعلان کے نکلنے سے پہلے ہی یہ جان لیا ہو کہ کمپونڈروں کو ہسپتال میں نہیں سونا چاہیے، رات کی ڈیوٹی کے لیے ایک علیحدہ کمپونڈر مقرر تھا، وہ اس سے مستثنیٰ تھا۔
چھ بج چکے تھے او ر اسے بڑے ڈاکٹر کے یہاں شکریہ ادا کرنے جانا تھا اور جب وہ ہسپتال کی سیڑھیاں اتر چکا تو معاً اسے خیال آیا کہ وہ دوا خانہ کا سرکاری لباس پہنے ہوئے ہے جو صرف دوا خانے ہی کے اوقات میں پہنا جاتا ہے۔ وہ الٹے پاؤں لوٹا تاکہ کپڑے پہن کر ڈاکٹر کے ہاں جائے۔ اس کے پاس صرف ایک شیروانی اور ایک بوسیدہ کوٹ تھا،اسے زیادہ پہننے سے اس میں جا بجا سوراخ پڑ گئے تھے او ر کوٹ کا کالر تقریباً پھٹ چکا تھا، ہاں شیروانی کوٹ کی بہ نسبت کچھ زیادہ شکستہ حالت میں نہ تھی، وہ اپنے ان بوسیدہ کپڑوں کو تقریباً بھول چکا تھا، جب تک وہ وارڈ بوائے رہا اسے سرکاری ڈریس کے علاوہ اپنے کپڑے پہننے کی کبھی ضرورت پیش نہ آئی تھی، پھٹا پرانا کوٹ پہننا اس کے نزدیک سراسر حماقت تھی اسے جیسے اس کوٹ سے نفر ت تھی۔ شیروانی پہننے کے خیال سے اسٹور روم کے بازو والے کمرے میں آیا جہاں پرانے کپڑے رکھے جاتے تھے، اس نے اپنے تمام کپڑے الٹ پلٹ کر دیکھے، کوٹ پر جیسے پھپوند لگ چکی تھی اور شیروانی کا رنگ کچھ بدل سا گیا تھا، جب اس نے کپڑے نکالے تو اس کے اطراف دوا خانے کے وارڈ بوائے او ر خاکروب جمع ہو گئے۔
’’یہ کوٹ مجھے دیجیے کمپونڈر صاحب! نہیں نہیں یہ شیروانی مجھے دے دیجیے۔‘‘ یہ پاجامہ۔۔۔ یہ کوٹ۔۔۔ یہ شیروانی۔۔۔ سب ہی اس سے بوسیدہ کپڑے مانگ رہے تھے۔ اس کے دل پر دھکا سا لگا، یہ سب کپڑے تمھارے ہی ہیں،میں نے یہ تمھیں دینے کے لیے ہی نکالے ہیں۔ لے لو۔۔۔ سب لے لو۔۔۔ وہ بڑی بڑی ڈگیں بھرتا ہوا ہسپتال سے باہر نکل گیا۔
اسے اپنے کپڑے تقسیم کرنے سے زیادہ دکھ اس بات کا تھا کہ اس نے جو کپڑے تقسیم کیے تھے وہ سب کے سب بوسیدہ تھے جو کسی طرح ایک دو دفعہ سے زیادہ پہننے کے قابل نہ تھے۔ اسے اس بات کا بہت رنج تھا کہ وہ اپنے ان غلیظ کپڑوں کو لینے وہاں کیوں گیا تھا، اگر وہ وہاں نہ گیا ہو تو لوگ کیوں کر سمجھتے کہ وہ کپڑے تقسیم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس نے محض اپنی ساکھ قائم رکھنے کے لیے اپنے سارے کپڑے تقسیم کر دئیے کہ کہیں دوا خانے کے نچلے طبقے کے لوگ یہ نہ سمجھیں کہ وہ کمپونڈر بننے کے بعد کچھ بدل سا گیا ہے، لیکن کمپونڈر بن جانے کے بعد بھی اس کی زندگی میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں ہو پائی تھی، یہ دوسری بات تھی کہ وہ کمپونڈر بن جانے کے بعد بھی اپنے آپ کو ایک مطمئن انسان سمجھنے لگا تھا۔ چند قدم چلنے کے بعد اسے خیال آیا کہ اسے ڈاکٹر کے ہاں جانا ہے او ر اس کے جسم پر سفید لباس کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے۔۔۔ لیکن فی الوقت مجبوری ہے وہ اس ماہ ختم پر اپنے کپڑے سلوائےگا۔
جوں جوں ڈاکٹر کا مکان قریب آ رہا تھا اس کا دل گھڑی کی ٹک ٹک کی طرح دھک دھک کرنے لگا، وہ دل کو کڑا کر کے بنگلے میں داخل ہوا۔ جوں ہی ڈاکٹر کی نگاہ اس پر پڑی وہ بنگلے کے اوپری حصے سے اتر کر نچلے حصے میں آ گیا جہاں ملاقاتیوں کا کمرہ تھا۔ بڑے ڈاکٹر صاحب نے اُسے دیکھتے ہی حیرت آمیز لہجے میں کہا ’’ارے تم اب تک On Dutyہو !‘‘
اسے ایسا لگا جیسے کسی نے اسے ابلتے ہوئے لاوے میں پھینک دیا ہو اور سفید لباس اسے یوں لگا جیسے کوئی خوفناک افعی اس کے جسم سے لپٹ گیا ہے او ر اپنے نکیلے دانتوں کے ذریعے اس کے جسم میں آہستہ آہستہ زہر چھوڑ رہا ہے۔ اس نے اپنے خشک ہونٹوں کو زبان پھیر کر گیلا کرتے ہوئے کہا ’’میں آج off ہوں ڈاکٹر صاحب۔‘‘
’’وہ! تم آف میں ہو‘’ ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے اس انداز میں کہا جیسے وہ صمد کی مجبوریوں کو تاڑ گیا ہو ‘‘یہ سفید لباس تمھارے جسم پر اچھا لگتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے اس کے اترے ہوئے چہرے کا جائزہ لیتے ہوئے کہا، جیسے وہ خفت مٹانا چاہتا ہو۔
لیکن صمد کو محسوس ہوا جیسے وہ شرم سے زمین میں دھنستا جا رہا ہو، سفید لباس ہوا کے ہلکے ہلکے جھونکوں سے اڑ اڑ کر اس کے جسم پر چرکے لگا رہا ہو، اس کا چہرہ اس بات کی صاف چغلی کھا رہا تھا کہ وہ ذہنی الجھنوں میں مبتلا ہے۔۔۔ وہ کچھ کہنا چاہتا ہے لیکن کہہ نہیں سکتا۔ ڈاکٹر نے ہمدردانہ لہجے میں کہا ’’ تمھیں کچھ کہنا ہے۔‘‘ وہ گھبرا سا گیا، ’’جی نہیں مجھے کچھ کہنا نہیں ہے، میں یوں ہی چلا آیا۔‘‘ ڈاکٹر پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا، بغیر کچھ کہے وہ وہاں سے چل دیا۔
’’سلطان بازار پار کر کے جب وہ پارسی گلی کے نکڑ پر آیا تو اسے خیال آیا کہ وہ شکریہ ادا کرنے کے لیے ڈاکٹر کے ہاں گیا تھا لیکن وہ کچھ کہہ نہ سکا، اسے بڑا دکھ ہوا، وہ سوچنے لگا کاش اسے یہ ترقی نہ ملی ہوتی وہ وارڈ بوائے ہی رہتا۔۔۔ وہ سفید لباس پہنے نہ ہوتا۔ یکبارگی اس کا خیال پلٹا، اب لطیف کے گھر چلنا چاہیے، لطیف نے کئی دفعہ اس سے کہا بھی تھا کہ وہ اس کے گھر آ کر چند روز مہمان رہے کیونکہ بڑے ڈاکٹر نے یہ نوٹس دے دیا تھا کہ کمپونڈروں کو ڈیوٹی کے بعد ہسپتال میں نہیں سونا چاہیے۔ لطیف کا گھر پیچ در پیچ گلیوں میں واقع تھا، اس نے صرف محلے کا پتہ ہی بتایا تھا اور خاص طور پر یہ نشانی بتلائی تھی کہ اس کے مکان کی منڈیر کا نصف حصہ گر چکا ہے۔ وہ شام ہونے تک ٹھیک اسی پتے پر پہنچ گیا، پہلی ہی آواز کے ساتھ لطیف باہر نکل آیا، بڑی گرم جوشی سے مصافحہ کرنے کے بعد وہ اسے دیوان خانے میں لے آیا ’ تم یہاں بیٹھو میں،ابھی آتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ وہ اندر چلا گیا، مکان سفال پوش ہونے کی وجہ سے دیواروں میں دراڑیں پڑ گئی تھیں او ر کھپریل اپنے اصلی مقام سے جا بجا ہٹا ہوا دکھائی دے رہا تھا، محراب میں دیا ٹمٹما رہا تھا اور دیواروں پر مذہبی کتبے اور کیلنڈر لٹک رہے تھے۔ گھر کو پہلی ہی نظر میں دیکھنے کے بعد اس چیز کا اندازہ بہ آسانی ہو سکتا تھا کہ صاحب خانہ غریب ہے، اگر غریب نہیں ہے تو لا ابالی ضرور ہے۔ تھوڑی دیر بعد لطیف چائے لے آیا۔ ’’دیکھوں صمد! چائے کوئی خاص نہیں، کوئی خیال نہ کرنا، پانی ملا دودھ تھا، یہ سمجھ کر پیو کہ تم ایک غریب دوست کے گھر چائے پی رہے ہو، اگر شکر کم ہو تو بلا تکلف کہنا، بات یہ ہے کہ ہم لوگ شکر بہت کم پینے کے عادی ہیں۔‘‘
صمد تشکر آمیز نگاہیں ڈالتے ہوئے چائے پینے لگا، وہ آہستہ آہستہ چائے کے گھونٹ لے رہا تھا۔
’’کیا شکر چاہیے‘‘۔ لطیف نے اصرار کے لہجے میں کہا۔
’’نہیں نہیں شکر کافی ہے، میں بھی زیادہ شکر استعمال نہیں کرتا، زیادہ شکر استعمال کرنے سے نقصان کا اندیشہ ہے۔‘‘ وہ آہستہ آہستہ چائے کے گھونٹ لے رہا تھا کہ اندر سے زنجیر کھٹکھٹانے کی آواز آئی۔ لطیف اندر چلا گیا۔
’’برا ہو میرے دماغ کا، میں شکر ڈالنا ہی بھول گئی، دیکھو کیا خیال کر رہا ہوگا وہ۔۔۔‘‘ اس کی بیوی نے خفت آمیز لہجے میں کہا۔
لطیف کا چہرہ اچانک یکایک اتر گیا، اس کا جی چاہ رہا تھا کہ وہ اپنی بیوی کا گلا دبا دے، کتنی شرمندگی محسوس ہو رہی تھی اسے۔ صمد کے الفاظ اس کے کانوں میں گونجنے لگے۔
’’میں بھی شکر کم پیتا ہوں، شکر زیادہ پینے سے نقصان کا اندیشہ ہے نا۔‘‘
وہ اترے چہرے کو لیے جب دیوان خانے میں داخل ہوا تو صمد چائے پی کر کرسی پر بیٹھا کچھ گنگنا رہا تھا، جیسے وہ گنگنا کر اپنے منہ کا مزہ بدل رہا ہو۔۔۔ ‘‘جانے کیا بات ہے لطیف، مجھے کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں بہت جلد اپنی ملازمت کھو دوں گا۔۔۔‘‘
’’کیوں تمھیں یہاں کیا تکلیف ہے؟ یہ دیوانگی چھوڑو۔۔۔ عقل مند ایسی باتیں نہیں کرتے۔‘‘ لطیف نے ناصحانہ انداز میں کہا، پھر دونوں مختلف موضوع پر باتیں کرتے ہوئے جانے کب سو گئے تھے۔ سویرے جب اُس کی آنکھ کھلی تو لطیف وہاں موجود نہ تھا۔
صبح ہی صبح جب ہر طرف خاموشی ہو تو ایک انسان کی آواز دوسرے انسان تک بآسانی پہنچ سکتی ہے۔ صمد کے کانوں سے چند ملی جلی آوازیں ٹکرائیں۔ ’’شمی‘‘ شاید لطیف کی بیوی کا نام تھا ’’کل ہم سے جس قسم کی غلطی ہوئی ہے وہ ناقابل درگزر ہے، شاید ہم اسے کبھی بھلا نہ سکیں، کتنا شریف ہے صمد کہ اس نے چہرے سے یہ تک ظاہر نہ ہونے دیا کہ وہ پھیکی چائے پی رہا ہے۔ میری جیب میں تین روپے پڑے ہیں،ممدو کے ہاتھ گیہوں کا آٹا اور قیمہ منگوا لینا۔۔۔ وہ ابھی سو رہا ہے، ناشتہ جلد تیار ہو جانا چاہیے، کیوں شمی ہمیں گیہوں کی روٹی کھائے ہوئے کتنا زمانہ ہوا ہے ؟‘‘
اس کی بیوی نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا ’’چھوڑو ان باتوں کو۔‘‘ پھر ایک بچے کی آواز ان دو آوازوں کو دباتے ہوئے ابھر رہی تھی ’’ممی میں آج پراٹھے کھاؤں گا، میں بھی۔۔۔ ہاں میں نے کہہ دیا ہے، ہاں میں ضرور کھاؤں گا۔‘‘
لطیف کی آواز آ رہی تھی۔۔۔ ’’دیکھوں میں، صمد اٹھ گیا ہو۔۔۔‘‘ صمد آنکھیں بند کیے پڑا رہا، حالانکہ وہ جاگ رہا تھا، وہ لطیف کی تاریک زندگی کے تاریک پہلو سے ابھی واقف ہوا تھا اور وہ اس بچے کی آواز کو بھی سن چکا تھا جو پراٹھے کھانے کے لیے اپنی ماں کو دھمکی دے رہا تھا اور شاید پراٹھے کھانے کی خوشی میں ناچ بھی رہا ہو۔۔۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ لطیف اتنا غریب ہے کہ وہ گیہوں کے آٹے کے پراٹھے تک نہیں کھا سکتا تھا، اسے اتنا تک یا د نہیں کہ اس نے گیہوں کے آٹے کے پراٹھے کھانا کب سے ترک کیا ہے۔ اس کا دماغ جیسے شل ہو گیا اور اس نے طے کر لیا کہ وہ لطیف کے گھر کل سے کھانا نہیں کھائےگا، لطیف کتنا شریف انسان ہے وہ اسے اپنی پریشانیوں کے باوجود مہمان رکھنا چاہتا ہے۔
’’صمد اٹھ بیٹھو، آٹھ بجا چاہتے ہیں۔‘‘ لطیف نے اسے اٹھاتے ہوئے کہا اور صمد جاگ پڑا، اس نے ایک فراخ انگڑائی لی جیسے وہ ابھی ابھی اس کے جگانے پر بیدار ہوا ہے۔ ‘‘جلدی سے منہ دھو لو، میں ابھی ناشتہ لے آتا ہوں۔‘‘ اس کے منہ دھونے سے پہلے وہ ناشتہ لے کر آ گیا، پھر اس نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا ’’میں تمھاری کوئی خدمت نہیں کر سکا، بھلا برا ہو جو کچھ تھا حاضر ہے، کوئی خیال نہ کرنا۔‘‘
پھر ناشتہ کر چکنے کے بعد وہ دونوں ہسپتال کی طرف چل پڑے، ہسپتال شہر کے بیچوں بیچ واقع تھا، عمارت زیادہ وسیع نہ تھی لیکن خوبصورت ضرور تھی۔ گیٹ کے بڑے کالے بورڈ پر انگریزی حروف میں خیراتی ہسپتال لکھا تھا۔ جب وہ دونوں ہسپتال پہنچے تو آٹھ بجنے میں ابھی کافی دیر تھی، وہ سامنے والے چمن میں بیٹھے ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے، ہسپتال کا مالی کیاریوں میں پانی ڈال رہا تھا۔
’’گورنمنٹ نے عوام کی بھلائی کے لیے دوا خانہ تو قائم کیا ہے لیکن دوائیں ہسپتال میں اتنی کم ہیں کہ بسا اوقات بیماروں کو بغیر دوائی کے واپس لوٹنا پڑتا ہے او ر پھر ایک حصہ دوا اور چار حصہ پانی۔۔۔ کیا خاک بیمار اچھے ہو سکیں گے۔‘‘ صمد نے کہا۔
’’چھوڑو ان باتوں کو صمد، ہم کو اس قسم کی باتیں نہیں کرنی چاہیے، دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں، کوئی سن لےگا تو رہی سہی نوکری بھی جاتی رہےگی۔‘‘ پھر آٹھ بجتے ہی دونوں ہسپتال میں داخل ہوئے۔ بیمار آتے رہے، دوائیں لیتے رہے۔ لطیف آج وقت سے تھوری دیر پہلے ہی گھر چلا گیا۔
آج ہسپتال خالی خالی سا نظر آ رہا تھا، دوا خانہ بند کر کے جب وہ باہر نکلا تو ہسپتال کے خاکروب جگو نے اسے جھک کر سلام کیا۔ اس نے دیکھا کہ اس کے جسم پر اس کا میلا کوٹ چمٹا ہوا ہے، اس کی آستینیں پہلے سے زیادہ پھٹ چکی تھیں اور کالر کے پھوسڑے نکل گئے تھے، لیکن وہ پھٹا ہوا کوٹ پہن کر بھی کتنا خوش تھا۔ اسے محسوس ہوا جیسے وہ پھر ایک بار نقطہ عروج سے نقطہ زوال پر آ گیا ہے اور جیسے پھر اس کا پھٹا ہوا کوٹ اس کی افلاس کی تشہیر کر رہا ہے۔ وہ سوچنے لگا جگو اگر یہی کوٹ ہمیشہ پہنتا رہا تو وہ گھل گھل کر ایک نہ ایک دن مر جائےگا، اسے اس کوٹ سے نفرت ہے، وہ اپنے اس کوٹ کو ایک لمحے کے لیے بھی دیکھنا نہیں چاہتا، وہ دنیا کے ذلیل سے ذلیل انسان کے جسم پر بھی اپنے اس کوٹ کو دیکھنا نہیں چاہتا۔ جیسے اس کوٹ سے اس کی زندگی کی سب سے بڑی ٹریجڈی وابستہ ہو، اس کا دماغ بھنا اٹھا، وہ کپڑے نہیں پہن سکتا۔۔۔ وہ ہسپتال میں نہیں سو سکتا۔۔۔ وہ لطیف کے گھر مہمان نہیں رہ سکتا۔۔۔ اس لیے کہ وہاں اپنی آنکھوں سے زندگی کے المیہ کرداروں کو لڑکھڑاتے ہوئے دیکھا تھا، اس کے باوجود وہ لطیف کے گھر سوتا رہا، اس کو اپنی فطرت کے خلاف کام کرنے پڑے او ر اسی بات کا اسے غم تھا۔
لیکن آج اس کی زندگی کے ویران کمرے میں روشن دیئے جگمگ جگمگ کر رہے تھے، وہ آج غیر معمولی طور پر خوش نظر آ رہا تھا، آج تنخواہ کا دن تھا۔ لطیف صمد کی خوشی کو محسوس کر رہا تھا اور وہ خود بھی حد سے زیادہ خوش تھا، اس کا خیال تھا کہ صمد بازار جا کر سب سے پہلے اپنے لیے کپڑے خریدےگا اور پھر رہنے کے لیے کرائے کا چھوٹا سا مکان لے لےگا۔
جب دوا خانے کی بڑی گھڑی نے بارہ بجائے تو ہسپتال کے سب ملازم تنخواہ لینے کے لیے اس بڑے ہال میں جمع ہونا شروع ہوئے جہاں تنخواہ تقسیم کی جاتی تھی۔ لطیف اور صمد تنخواہ لینے کے لیے دوا خانے کے او ر کمپونڈروں کے ساتھ شریک ہو گئے۔ صمد کو دیکھ کر جگو نے تشکر آمیز نگاہیں اس پر ڈالیں او ر اسے جھک کر سلام کیا، اسے دیکھ کر صمد کے دل میں کے ناسور پھر رسنے لگے، یکبارگی اس کا چہرہ زرد پڑ گیا اور پھر جیسے کسی نے اس چہرے کی سرخی چھین کر اس پر ہلدی مل دی ہو۔
’’صمد! اس کے بعد تمھاری باری ہے، تنخواہ لے کر باہر میرا انتظار کرنا۔‘‘ لطیف نے کہا، لیکن صمد خاموش رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد صمد کا نام پکارا گیا اور جب تنخواہ لے کر لوگوں کے سامنے سے گزرا تو سب نے محسوس کیا کہ وہ حد درجہ مغموم ہے، کوئی سوچ اور فکر اسے پگھلا رہی ہے، ترقی کے بعد پہلی تنخواہ بھی اسے خوش نہ کر سکی۔
لطیف تنخواہ لے کر جب باہر آیا تو صمد وہاں موجود نہیں تھا، وہ سوچ میں پڑ گیا، صمد اس کا تھوڑی دیر بھی انتظار نہ کر سکا، اس سے کوئی غلطی نہیں ہوئی لیکن وہ ملنے سے تھوڑی دیر پہلے تک تو بہت خوش تھا، پھر اس کے بعد نہ جانے یکایک اسے کیا ہو گیا تھا، لطیف بہ دستور ذہنی الجھن میں مبتلا تھا۔
صمد رات کے کوئی گیارہ بجے ہسپتال پہنچا۔
بینچ پر ہسپتال کا خاکروب جگو میٹھی نیند سو رہا تھا۔
’’جگو اٹھو۔۔۔‘‘ صمد نے ا س کے کان کے قریب جا کر کہا۔ وہ چونک کر اٹھ بیٹھا، وہ سہما ہوا تھا۔
’’سلام کمپونڈر صاحب۔‘‘
’’ہاں دیکھو جگو! ایک بات مانو گے، میں تم سے کچھ مانگنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’کمپونڈر صاحب، میں میں‘‘ وہ گونگے کی طرح گھگیا رہا تھا۔
’’گھبراؤ نہیں، یہ کوٹ ہے نا جو میں نے چند دن پہلے تمھیں دیا تھا وہ مجھے دے دو۔۔۔ اور یہ نیا کوٹ لے لو، دیکھو اسے میں نے آج ہی خریدا ہے۔‘‘
جگو حیران تھا۔ یہ آج کمپونڈر صاحب کو کیا ہو گیا ہے، اسی حیرانی کے عالم میں صمد کے ہاتھ سے نیا کوٹ لے کر پہن لیا اور پرانا کوٹ اس کے ہاتھ میں تھما دیا اور صمد آہستہ آہستہ سیڑھیاں اترتا ہوا ہسپتال سے باہر چلا گیا۔۔۔!!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.