کہانی کی کہانی
یہ افسانہ سماجی تفریق کی عکاسی کرتا ہے۔ اسے جس تانگے سے گاؤں کے بس اڈے جانا تھا، شام کو اطلاع ملی کہ اسے گاؤں کے چودھری نے اپنے لیے بک کر لیا ہے۔ اس پر اسے بہت غصہ آتا ہے اور تانگے والے کو ایک لمبا چوڑا لیکچر دے ڈالتی ہے۔ تانگے والا کسی بہانے سے چودھری کو منع کر دیتا ہے۔ اگلے دن تانگے میں جاتے ہوئے وہ دیکھتی ہے کہ چودھری اپنے گھوڑے پر سوار ہے اور ایک نوکر اس کے پیچھے پیچھے دوڑ رہا ہے۔ وہ اس نوکر کو اپنے تانگے میں جگہ دے دیتی ہے۔
یوں تو ان دنوں ہر جگہ سخت گرمی پڑ رہی تھی مگر اپنے آبائی گاؤں پہنچ کر مجھے احساس ہو رہا تھا جیسے ہم ایک لمبی سخر دوپہر کی زد میں آ گئے ہیں۔ دن بھر آگ برستی اور لو کے تھپیڑے گھروں، آنگنوں، گلیوں اور کھیتوں کھلیانوں میں اپنی پیاسی زبانوں سے حسن اور ہریالی چاٹتے۔۔۔ سورج کسی خونخوار درندے کی طرح جبڑوں سے لگا خون چاٹتا اپنے کچھار کو پسپا ہوتا تو لوگوں کی جان میں جان آتی مگر زمین اس قدر تپی ہوئی اور ہوا اس قدر دہکی ہوئی ہوتی کہ گئی رات تک لو چلتی اور جھلسے ہوئے نڈھال جسموں کو تازگی نصیب نہ ہوتی۔۔۔ میں اسے ایسے موسم میں یہاں لا کر پشیمان ہو رہا تھا مگر اس نے ابھی تک کوئی شکایت نہ کی تھی۔
اگلے روز ہمیں واپس جانا تھا اس لئے اس کے اصرار پر میں اسے شام کو گھمانے لے گیا مگر دل میں شرمندہ ہو رہا تھا۔ اسے کہاں لے جاؤں کیا دکھاؤں۔ اس نے میرے بچپن کے گاؤں کی خوبصورت اور رومانی باتیں میرے افسانوں میں پڑھی تھیں اور شاید تصور میں بھی بسا رکھی تھیں۔ مجھے لگتا تھا جیسے اس کی خوبصورت آنکھیں ہر جگہ میرا بچپن تلاش کر رہی تھیں مگر ننگ دھڑنگ اور میلے کچیلے بچوں کو گلیوں میں بھاگتے دوڑتے اور جوہڑوں میں چھلانگیں لگاتے دیکھ کر مجھے خفت ہو رہی تھی اور اپنی بےپردگی کے احساس کی دھول سے میرا حلق بند ہو رہا تھا۔
گاؤں اب میرے خیال میں بہت بدل گیا تھا۔ گاؤں سے ملحقہ زمین میں سیم اور تھور کا کوڑھ دور تک پھیل گیا تھا۔ وہ اکلوتا باغ جہاں ہم آنکھ مچولی کھیلتے، جھولے جھولتے اور زندگی سے بھرپور قہقہے لگاتے تھے اجڑ چکا تھا۔ برگد کے نیچے جہاں دوپہروں کو محفلیں جمتی تھیں اور ہیر اور سیف الملوک گائی جاتی تھیں اب وہاں بھینسیں بندھی تھیں اور گوبر کا تعفن پھیلا ہوا تھا۔ وہ میدان جہاں کبڈی اور کشتی کے مقابلے ہوتے تھے اور فصلوں کی کٹائی کے دنوں میں جہاں رہس دھارئیے سوانگ رچاتے اور کٹھ پتلیوں کے ناچ دکھاتے تھے، ایک غلیظ تالاب کی صورت اختیار کر چکا تھا۔ آٹا پیسنے کی چکی کے گھگھو کی ٹوہ ٹوہ، کتوں کے لڑنے، بلیوں کے غرانے اور مویشیوں کے ڈکرانے کی آوازوں سے مل کر عجیب وحشت سی پھیلاتی رہتی۔۔۔ وہ ناز و نعم میں پلی۔۔۔ مہذب معاشروں میں رہ کر آئی تھی۔ میں اسے اپنا گاؤں دکھانے لایا تھا مگر اس کی موجودگی میں مجھے اپنا گاؤں اور بھی پسماندہ لگ رہا تھا۔ ویسے بھی موجودہ گاؤں میرے بچپن کے گاؤں سے اس قدر مختلف تھا کہ خود مجھے لگ رہا تھا میں کسی اجنبی جگہ پر آ گیا ہوں۔ لوگوں میں پہلے کی طرح محبت نہیں رہی تھی ایک دوسرے کی بجائے اب وہ شہر کے لوگوں کی طرح روپے پیسے سے محبت کرنے لگے تھے۔ غالباً اس نے میری پریشانی بھانپ لی تھی۔ کہنے لگی۔
’’یہ گاؤں بہت اچھا ہے میرے خیال میں اب لوگ زیادہ حقیقت پسند ہوتے جا رہے ہیں۔ موجودہ بحرانی دور کے بطن سے جلد ہی ایک نئے عہد کا آغاز ہو گا۔‘‘
’’خاک ہوگا۔‘‘ میں نے کہا، ’’یہ تو ہمارا اجتماعی رویہ بن چکا ہے ہم سب میلے پر آئے ہوئے لوگ ہیں۔ ہم ایک بے فکری قوم ہیں۔ آتش فشانوں کے دہانوں پر بیٹھ کر چین کی بانسری بجانے والے اور یہ چھوٹا سا گاؤں بھی ہمارے اسی مجموعی رویے کا ایک حصہ ہے۔ تم دیکھ نہیں رہی ہو۔۔۔ ہر شخص دوسرے سے کیسے الگ تھلگ ہے۔ ترقی یافتہ شہروں کی مشینی بے مروتی اور بےسکونی کا دھواں اور آپا دھاپی کی آنچ یہاں بھی پہنچ گئی ہے۔‘‘
کہنے لگی، ’’کچھ بھی ہو یہاں کی فضا میں مجھے آزادی اور وسعت کا احساس ہوا ہے ورنہ پچھلے کئی ماہ سے اپنے آپ سے گھن آنے لگی تھی۔ اپنے ہونے نہ ہونے کا کچھ پتہ نہ چلتا تھا۔ میں تو یہاں آ کر زمین و آسمان سے نئے رشتے استوار کر رہی ہوں۔‘‘
اس کی ایسی ہی باتوں سے میری ڈھارس بندھی اور خفت کا احساس کم ہوا۔۔۔ اسی شام ایک عجیب صورت حال پیدا ہو گئی۔۔۔
جب ہم گھر لوٹ رہے تھے گلی میں پیراں دتہ سے ملاقات ہو گئی۔ گاؤں میں اسی کا ایک تانگہ تھا جو سواری ملنے کی صورت میں جوتا جاتا تھا۔ ہم نے اسے دو ایک روز پہلے ہی اپنے پروگرام سے مطلع کر دیا تھا اور تاکید کر دی تھی کہ وہ ہفتہ کی صبح کو کہیں ادھر ادھر نہ جائے اور ہمیں پکی سڑک پر بسوں کے اڈے پر پہنچا آئے۔ اسے اپنا منتظر پا کر ہمیں خیال آیا کہ وہ صبح کے پروگرام کے بارے میں اطمینان کرنے آیا ہو گا مگر اس نے ہمیں کوئی متبادل انتظام کر لینے کا مشورہ دے کر پریشان کر دیا۔
’’کیوں کیا ہوا۔۔۔؟ کیا گھوڑا بیمار ہو گیا؟‘‘
’’نہیں جی۔‘‘ وہ کہنے لگا، ’’ابھی ابھی چودھری نور محمد کا پیغام ملا ہے کہ صبح انہیں تحصیل جانا ہے۔‘‘
’’ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’تم انہیں بھی ساتھ لے لینا۔‘‘
’’نہیں جی۔۔۔ وہ بڑے آدمی ہیں۔۔۔ سواریوں والے تانگے میں نہیں بیٹھیں گے۔‘‘
’’بڑے آدمی! کیا بہت موٹے اور لمبے ہیں۔‘‘ وہ بولی۔ ’’اور کیا ہم تمہیں بونے نظر آتے ہیں۔‘‘
پیراں دتہ نے خوفزدہ ہو کر ادھر ادھر دیکھا پھر بولا،
’’ان کے لئے ہمیشہ سالم لے جانا پڑتا ہے۔‘‘
’’اگر ایسی بات ہے۔‘‘ وہ فیصلہ کن انداز میں بولی۔ ’’تو ہم نے تمہیں پہلے سے کہہ رکھا ہے تمہیں ہمارے ساتھ جانا ہو گا۔‘‘
میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ شہر نہیں جہاں سواریوں اور سیٹوں کی ریزرویشن ہو جاتی ہے۔ یہ گاؤں ہے اور چودھری نور محمد اس کے دو تہائی حصے کا مالک ہے اور پیراں دتہ اس کی حکم عدولی نہیں کر سکتا مگر وہ اپنی بات پر اڑی رہی۔ کہنے لگی۔
’’آپ خود چودھری سے بات کریں اور اسے بتائیں کہ ہمارا پہنچنا ضروری ہے اور ہم نے تانگہ بک کر رکھا ہے۔‘‘
’’وہ بےحد مغرور اور اجڈ آدمی ہے اسے اپنی ہتک سمجھے گا اور برا منائے گا۔‘‘
’’تو کیا آپ اس سے ڈرتے ہیں؟‘‘ وہ چمک کر بولی۔ ’’میں خود اس سے بات کر سکتی ہوں۔‘‘
’’یہ مناسب نہیں۔‘‘ میں نے کہا۔
’’بی بی جی۔۔۔ عزت دار آدمی کو ڈرنا ہی پڑتا ہے۔‘‘ پیراں دتہ نے کہا۔
’’کمال ہے‘‘ وہ غصے سے بولی۔ ’’آدمی آدمی سے ڈرے۔۔۔ کیسی عجیب بات ہے۔‘‘
’’سبھی آدمی۔۔۔ آدمی نہیں ہوتے۔‘‘ میں نے اسے سمجھایا۔ ’’آدمیوں کے روپ میں راکشس بھی ہوتے ہیں اورکبھی کبھی اژدہے بھی آدمیوں کی جون بدل لیتے ہیں۔ بہرحال تم کسی فلمی کہانی کی ہیروئن نہ بنو اور پریشان نہ ہو۔ کوئی دوسرا انتظام ہو جائےگا۔۔۔‘‘
’’لیکن یہ ایک غلط اور اصول کے خلاف بات ہے۔‘‘
’’بہت سی غیر اصولی باتیں ہمارے اردگرد ہر لمحے ہوتی رہتی ہیں اور ہم چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر سکتے انسان بعض معاملات میں بے بس ہوتا ہے مگر تم اس معمولی سی بات پر جی میلا نہ کرو۔‘‘
’’عجیب بات ہے کہ ایک شخص دوسروں کے ساتھ بیٹھنا پسند نہیں کرتا محض اس لئے کہ کاغذوں میں اس کے نام اس کی ضرورت سے زیادہ اراضی لکھی ہوئی ہے۔ مگر اسے معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کس دور میں رہتا ہے۔‘‘
’’وہ اپنے علاقے میں صاحب اقتدار ہے اور اپنے عہد میں رہتا ہے اس وقت میں اور تم بھی چودھری نور محمد کے عہد میں سانس لے رہے ہیں۔‘‘
’’میں جانتی ہوں۔۔۔ یہ لوگ دیہات کو پسماندہ رکھنا چاہتے ہیں سکو ل نہیں بناتے اور سڑکیں نہیں بننے دیتے۔ پکی سڑک کے ساتھ علم و آگہی کی روشنی پھیلتی ہے جس میں ان کے اصلی چہرے بےنقاب ہوتے ہیں۔‘‘
وہ دیر تک بولتی رہی اور میں چپ چاپ سنتا رہا۔ مجھے معلوم تھا کہ اسے کلاس لئے کئی روز ہو گئے ہیں۔ پیراں دتہ چلا گیا تو میں اسے تسلی دیتا ہوا گھر لے آیا۔۔۔
مجھے ڈر تھا کہ وہ رات بھر گھر والوں کا مغز چاٹتی رہے گی مگر تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ پیراں دتہ پھر آ گیا۔ کہنے لگا۔
’’اجازت مل گئی ہے جی۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘
’’میں نے انہیں بتایا کہ آج کل سڑک بہت خراب ہے۔ جا بجا گڑھے پڑے ہوئے ہیں اور گرد و غبار سے کپڑے خراب ہو جاتے ہیں۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’پھر انہوں نے کالو کو بلا کر صبح سویرے گھوڑے پر زین ڈالنے کا حکم دے دیا۔‘‘
’’کون سے گھوڑے پر؟‘‘ وہ چونک کر بولی۔
’’اپنے مشکی گھوڑے پر۔۔۔ بڑی اچھی نسل کا ہے۔‘‘ پیراں دتہ نے جواب دیا۔
میں نے پیراں دتہ کا شکریہ ادا کیا اور اسے صبح تانگہ لانے کی تاکید کر کے رخصت کر دیا مگر شکیلہ کے ماتھے پر اب تک بل پڑے ہوئے تھے۔ کہنے لگی۔
’’وہ سواریوں والے تانگے میں نہیں بیٹھتا۔۔۔ ہونہہ۔۔۔ ڈرٹی ارسٹو کریٹک ایٹی چیوڈ‘‘
میں نے اس کے کان میں کہا، ’’اب غصہ تھوک دو۔۔۔ اس بے چارے نے تمہیں دیکھا نہیں ہے ورنہ سواریوں والے تانگے میں بیٹھنے کو اپنی خوش قسمتی سمجھتا۔‘‘
اپنے بےپناہ حسن کی تعریف سے اس کا سارا غصہ اتر گیا اور وہ مسکرانے لگی، ’’مائی فٹ۔‘‘
اگلی صبح جب ہم تانگے میں سوار ہو کر گاؤں سے تھوڑی دور پہنچے تو ہم نے دیکھا آگے آگے سڑک پر چودھری نور محمد اپنے گھوڑے پر سوار کلف دار طرہ لہراتا بڑی شان سے جا رہا تھا۔ گھوڑے کے سموں سے اٹھنے والی گرد سے بے نیاز اس کا ملازم کالو پیچھے پیچھے بھاگتا جا رہا تھا۔ جگہ جگہ راستہ چلتے اور کھیتوں میں کام کرتے کسان اسے سلام کرتے۔۔۔ خیریت دریافت کرتے اور دعائیں دیتے۔ پیراں دتہ نے تانگے کی رفتار کم کر دی تھی۔ سورج نکلتے ہی خونخوار دھوپ چاروں طرف پھیل گئی تھی اور آنے والی سخر دوپہر کے خوف سے چرند پرند سہمے ہوئے تھے۔ ہم دھوپ تیز ہونے سے پہلے اڈے پر پہنچ جانا چاہتے تھے مگر پیراں دتہ چودھری نور محمد سے آگے نکلنے کی گستاخی نہیں کرنا چاہتا تھا۔
کالو کو گھوڑے کے پیچھے بھاگتے دیکھ کر ہمیں اس پر بہت ترس آ رہا تھا مگر ہم چودھری کے کسی معاملہ میں دخل نہیں دینا چاہتے تھے لیکن شکیلہ کے کہنے پر پیراں دتہ نے کالو کو تانگے میں سوار ہونے کے لئے آواز دے دی۔ چودھری نے مڑ کر خشمگیں نگاہوں سے تانگے کی طرف دیکھا پھر کالو کو تانگے میں سوار ہونے کی اجازت دے دی۔
نہر کے آخری پل پر چودھری کسی راہگیر کے پاس رک کر باتیں کرنے لگا تو ہم رسمی علیک سلیک کر کے اس کے قریب سے گزر گئے۔ وہ بولی۔
’’دیکھنے میں تو خاصا مہذب اور با وقار لگتا ہے۔‘‘
میں نے کالو کی موجودگی کا احساس دلا کر اسے خاموش رہنے کا اشارہ دیا تو وہ چپ ہو گئی مگر مجھے معلوم تھا کہ وہ اندر ہی اندر کلاس لے رہی تھی۔
اڈے پر خلاف معمول بےحد رش تھا۔ تھوڑے تھوڑے وقفوں کے بعد بس آتی مگر رکے بغیر نکل جاتی تھی لوگ گرمی سے بےحال ہو رہے تھے اور ہر شخص جلد از جلد سوار ہو کر اپنی منزل پر پہنچ جانا چاہتا تھا۔ اب چودھری نور محمد بھی اڈے پر پہنچ گیا تھا اور گھوڑے کی لگام کالو کے ہاتھ میں تھما کر بس کا انتظار کرنے والوں کی بھیڑ میں شامل ہو گیا تھا۔
کافی دیر کے اکتا دینے والے طویل انتظار کے بعد ایک بس آ کر رکی سارے ہجوم نے ایک ساتھ ہلہ بول دیا مگر کنڈیکٹر نے سب کو پیچھے دھکیل دیا اور صرف دور کی سواریوں کو سوار ہونے کی اجازت دی۔ خوش قسمتی سے ہمیں دور جانا تھا اس لئے ہمیں سوار کرا لیا گیا اور نسبتاً قریب کی سواریاں جن میں چودھری نور محمد بھی شامل تھا دروازے سے چمٹی چیختی چلاتی اور منت سماجت کرتی رہیں۔ لوگ بار بار اندر گھسنے کی کوشش کرتے اور کنڈیکٹر انہیں دھکے دے کر سوار ہونے سے روکتا رہا۔ اس دھکم پیل میں چودھری نور محمد کی طرے دار دستار سر سے اتر کر نیچے گر گئی اور گرد سے اٹ گئی۔ اس نے جلدی سے اسے اٹھایا اور جھاڑ پونچھ کر دوبارہ پہن لیا اور بس کے دروازے کی طرف لپکا۔
جب کنڈکٹر کو یقین ہو گیا کہ دور کی سب سواریاں سیٹوں پر بیٹھ گئی ہیں تو اس نے قریب کی دوسری سواریوں کو بھی اندر آنے اور کھڑے ہو کر سفر کرنے کی اجازت دے دی۔
بس روانہ ہوئی تو میں نے دیکھا۔ چودھری نور محمد نے اپنی دستار دونوں ہاتھوں سے تھامی ہوئی تھی اور دور اور نزدیک کی عام سواریوں کے درمیان پھنسا ہوا نیم ایستادہ تھا اور شکیلہ کے گلاب ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ کی چٹک تھی!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.