Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پناہ گاہ

نگار عظیم

پناہ گاہ

نگار عظیم

MORE BYنگار عظیم

    مدراس سینٹرل اسٹیشن کے نزدیک پوناملی ہائی روڈ پر ہوٹل نیلامبر کی پانچویں منزل پر ہمارا قیام تھا۔ کالج کے پندرہ لڑکے لڑکیوں کو میں اور میرے دو کلیگ ویبھو اور ابھیمنیو ایجوکیشنل ٹور پر لائے تھے۔ تمام لڑکے لڑکیاں اور میرے دونوں ساتھی اسی فلور پر پانچ کمروں میں بٹے ہوئے تھے۔ ہوٹل میں تمام سہولیات کے باوجود ناشتہ لنچ اور ڈنر کا کوئی انتظام نہیں تھا سوائے بیڈ ٹی کے، بہت جلد ہوٹل سے کچھ ہی فاصلہ پر ہم نے صاف ستھرا کشادہ ہوٹل تلاش لیا۔ یہاں ناشتہ لنچ اور ڈنر سبھی کا خاص اہتمام تھا۔ کھانے میں دال بھات، سبزی، گوشت، مرغ، مچھلی سبھی کچھ موجود تھا۔ ہوٹل کا نام انگریزی تلفظ سے کھا جا (Khaja) تھا جسے اردو میں خواجہ پڑھنے میں کئی روز لگ گئے تھے۔

    صبح سویرے سبھی نہا دھوکر تیار ہوتے، باہر نکلتے اور چہل قدمی کرتے ہوئے ہوٹل تک پہنچ جاتے سب مل جل کر ناشتہ کرتے اور گھومنے نکل پڑتے۔ لنچ جہاں ہوتے وہیں کر لیتے۔ ایک دو مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ لنچ بھی پیک کرا لیا لیکن واپسی پر ڈنر وہیں لیتے۔ گپ شپ کرتے ہوئے تقریباً دس منٹ میں ہوٹل پہنچ جاتے۔ ہوٹل کے کامن روم میں سب اکٹھا ہوتے دن بھر کی کارکردگی پر گفتگو ہوتی کیمپ فائر ہوتا اگلے روز کے پروگرام کی ہیڈلائنس تیار ہوتیں۔ اپنے اپنے کمروں میں پہنچ کر اسٹوڈنٹس ڈائریاں لکھتے اور تھک کر سو جاتے۔ میں اکثر بیڈروم سے کھلتی چھوٹی سی بالکنی سے اس شہر کی مصروفیات کا اندازہ کرتا تو خود بہ خود پرانے اور نئے مدراس کا جواب چنئی ہو گیا تھا موازنہ کرنے لگتا۔

    تیس برس کی طویل مدت کے بعد اس شہر میں دوبارہ آنے کا موقع ملا تھا۔ اس وقت بھی میں کالج سے ایجوکیشنل ٹور پر آیا تھا۔ اس وقت اسٹیشن کے آس پاس کی یہ تمام سڑکیں خالی اور کشادہ نظر آتی تھیں۔ بس اکا دکا ہی اونچی عمارتیں تھیں۔ یہاں چھوٹے چھوٹے ویشنو ہوٹل اور ڈھابے ہوا کرتے تھے۔ ٹھہرنے کے لیے دھرم شالائیں اور مسافر خانے تھے۔ جھونپڑی نما پکی ڈھلواں چھتوں والے نیچے اور چھوٹے مکانات ہوتے تھے۔ یہاں کے لوگ انتہائی سادہ زندگی گزارنے کے عادی تھے لیکن محبت معصومیت اور ملنساری کے باوجود مذہبی چھواچھوت اور ذات پات کی تفریق مدراسی تہذیب کا ایک خاص حصہ تھی۔ تیلگو، کنڑ اور ملیالم زبانوں کے بولنے والوں کے درمیان باہر کا مسافر بڑی دقت کا سامنا کرتا تھا لیکن اب مغربی تہذیب کے اثرات نے تمام لبادے اتار دئیے تھے۔ اردو، ہندی اور انگریزی زبانوں نے مدراسی تہذیب کو ایک نیا رنگ دے دیا تھا۔ اب سب کچھ کمرشلائز ہو گیا تھا۔ سڑک کے دونوں جانب آسمان کو چھوتی اونچی اونچی عمارتوں نے رنگ برنگی گاڑیوں سے مزین ان چوڑی کشادہ سڑکوں کو اپنی آغوش میں لے لیا تھا۔ ان عمارتوں میں زیادہ تر بزنس آفس بڑے بڑے شاپنگ مال ریستوراں کافی شاپ اور شراب کی دوکانیں ہر وقت لوگوں سے گھری رہتیں۔ اکا دکا پرانے ڈھابوں نے بھی ترقی یافتہ نئی شکل اختیار کر لی تھی۔ مرد عورت نوجوان لڑکے لڑکیوں کے رہن سہن، لباس اور طرز زندگی نے پرانے مدراس کو بہت پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ وہ تعصب جو تیس برس پہلے دیکھنے کو ملا تھا کہیں نہیں تھا۔

    جنوری کا پہلا ہفتہ تھا موسم دھوپ چھاؤں کی طرح آنکھ مچولی کھیل رہا تھا۔ میرے احساسات اور خیالات بھی موسم کی پروائی کی طرح اپنی راہیں بدل رہے تھے۔ میری اور نلنی کی محبت بھی یہیں پروان چڑھی تھی۔ نلنی کا پہلا بوسہ لینے کا موقع اسی سرزمین پر میسر ہوا تھا۔ اپنی ناکام محبت کے ایک ایک لمس کا احساس میرے اندر آج بھی موجود تھا لیکن اس وقت میرے ذہن پر نلنی نہیں بلکہ پوناملی ہائی روڈ کے فٹ پاتھ کی وہ بھکارن دستک دے رہی تھی جسے پچھلے چار روز میں کم ازکم دس بارہ مرتبہ دیکھ رہا تھا۔

    دراصل مدراس پہنچنے کے دوسرے ہی روز میں اور ویبھو اچھے کھانے کی تلاش میں اس روڈ پر گھوم رہے تھے۔ یکایک ’’مدد کرنا بھائی‘‘ کی مردانی آواز نے کانوں کو چھوا۔ ہمارے ہندوستان کے کسی بھی کونے میں ایسی آواز اب اپنا اثر کھو چکی ہے لہٰذا میں آواز کو سنی ان سنی کرتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔ لیکن چند قدم آگے جانے کے بعد آواز لگانے والے شخص پر نظر پڑی تو خود بہ خود میرے قدم رک گئے۔ وہ ایک معمر بزرگ تھے۔ تقریباً ستّر بہتّر کے۔ براق سی گھنی داڑھی، ملگجا کرتا پاجامہ، لاٹھی کا سہارا لیے وہ ابھی تک میری طرف متوجہ تھے لیکن میری نگاہیں ان سے ہٹ کر اس نوجوان لڑکی پر مرکوز ہوئی تھیں جو ان بزرگوار کا بازو پکڑے چمٹی کھڑی تھی۔ پل بھر میں ہی میرے اندر ان بزرگوار کے لے ناگواری کا احساس پیدا ہوا تو میں اندر ہی اندر بڑبڑایا۔ ’’پیسوں کے لالچ میں یہ لوگ اپنی بہو بیٹیوں کو بھی—‘‘ کچھ پیسے بڑے میاں کے ہاتھ پر رکھ کر میں آگے بڑھ گیا۔ یہ تو محض ایک اتفاق تھا۔ اس کے بعد ناشتہ لنچ اور ڈنر پر آتے جاتے وہ دونوں روزانہ نظر آتے۔ وہ انتہائی معصوم بڑی بڑی آنکھوں والی سانولی اور پرکشش لڑکی تھی۔ ہمیشہ اس کے بال قرینے سے چوٹی میں گندھے ہوتے۔ وہ پھولدار سوتی ساڑی پہنے ہوتی۔ عمر بہت سے بہت تیس تک رہی ہوگی۔ اسے دیکھ کر کئی سوال میرے ذہن میں پیدا ہوئے۔ بزرگ مسلمان ہیں اور لڑکی ہندو، اس طرح روڈ پر... لیکن اس پر یقین نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ کچھ علاقوں کی مسلم خواتین بھی سندور لگاتی ہیں اور منگل سوتر پہنتی ہیں۔ اگر وہ شادی شدہ ہے تو شوہر کہاں ہے؟ اور اگر یہ، یہ بڈھا ہی اس کا شوہر ہے تو تو... اس کے آگے میرا ذہن کام کرنا بند کر دیتا۔

    لیکن اس لڑکی میں اور بھی کچھ نیا تھا۔ وہ عام فقیر عورتوں کی طرح نہیں تھی۔ عجیب بات یہ تھی کہ اسے کبھی مانگتے ہوئے بھی نہیں دیکھا بلکہ اس کی آواز ہی نہیں سنی۔ نہ ہی وہ بھیک دئیے گئے پیسوں کی طرف کبھی ہاتھ بڑھاتی۔ بس اگر وہ بزرگ کھڑے ہوتے تو ان کا بازو اس کی دونوں ہتھیلیوں کی گرفت میں ہوتا اور اگر وہ بیٹھے ہوتے تو ان کا گھٹنا پکڑ کر سمٹی سمٹائی ان کی بغل میں گھس کر بیٹھی ہوتی۔ عجیب امتزاج تھا یہ۔ ہاں، اس کی آنکھوں کی گہرائی مجھے مڑکر دوبارہ دیکھنے پر راغب کرتی۔ لیکن میں اس کے لیے آخر اتنا کیوں سوچ رہا ہوں؟ شاید میرے اندر کا مرد اس سانولی اور پرکشش معصوم لڑکی کی طرف مائل ہورہا تھا کیونکہ میرا ہاتھ دس بیس روپیہ سے اب پچاس روپہ تک پہنچ گیا تھا۔ نوٹ دیتے وقت وہ میری طرف بڑی عجیب نظروں سے دیکھتی۔ شاید میں کامیاب ہورہا تھا۔ کیا وہ میرے ہوٹل کے کمرے پر...؟؟

    یکایک ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکوں کے ساتھ بوندوں کی بوچھار نے میرے گرم ہوتے ہوئے جسم کو چھوا تو میری سوچوں کی لگام چھوٹ گئی۔ دروازہ بند کرکے میں واپس بستر پر لیٹ گیا اور نہ جانے کب تک کروٹیں بدلتا رہا۔

    صبح گروپ کے ساتھ جب میں ناشتہ کے لیے جا رہا تھا تو اسے اپنی جگہ نہ پاکر میری نظریں اسے تلاش کرنے لگیں۔ خالی پن کے احساس کے ساتھ بڑی بے دلی سے ناشتہ کیا۔ اس روز مدراس میوزیم دیکھنے کا پروگرام تھا، لہٰذا ہوٹل سے باہر نکلتے ہی میرے تمام ساتھی بس اسٹینڈ کی طرف چل پڑے۔ اچانک میری نظر ان دونوں پر پڑ گئی۔ آج وہ اپنی جگہ تبدیل کر ہوٹل کی دوسری جانب کھڑے تھے۔ میں لپک کر ان تک پہنچ گیا۔ جیب سے فوراً پچاس کا نوٹ نکال کر ان کی طرف بڑھا دیا۔ وہ دونوں انتہائی معنی خیز حیران کن نظروں سے مجھے دیکھ رہے تھے لیکن اس لڑکی نے نوٹ کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ وہ بوڑھا شخص نوٹ لیتے وقت کچھ کہہ رہا تھا جسے میں عجلت کے سبب سن نہ سکا اور جلد ہی واپس اپنے ساتھیوں کی طرف مڑگیا جو کافی آگے نکل چکے تھے۔ وہ پورا دن میوزیم کی نذر ہوگیا۔ کئی فلور اور کئی حصوں پر مشتمل میوزیم میں سبھی کو بڑی دلچسپی تھی۔ واقعی بڑا لاجواب میوزیم ہے وہ۔ شارک مچھلی کے ڈھانچے کو سبھی پہلی مرتبہ دیکھ رہے تھے۔ یہ مچھلی اپنی لمبائی چوڑائی کے لحاظ سے ایک ہال سے دوسرے ہال تک کسی جہاز کی طرح سروں کے اوپر پھیلی ہوئی تھی جسے بڑی پرفیکٹ تکنیک سے لٹکایا گیا تھا۔ میرے تمام ساتھی اس کی لمبائی چوڑائی وزن اور دوسری معلومات پڑھنے اور نوٹ کرنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لینا چاہتے تھے۔ یکایک میرے دماغ میں ایک چھناکا سا ہوا اور اُس مچھلی میں مجھے وہ بھکارن نظرآنے لگی۔ مچھلی کی بڑی بڑی ابھری ہوئی آنکھیں بالکل اسی کی آنکھوں جیسی لگنے لگیں۔ گھبرا کر میں دوسرے کمرے کی طرف نکل گیا۔ یہاں بیشتر پرندے تھے جو انتہائی خوبصورت اور بے مثل تھے۔ اپنی اصل حالت میں ان کے جسم کو محفوظ کیا گیا تھا۔ میری نظریں ایک بھورے گہرے براؤن عقاب پر ٹک گئیں جو اڑنے کی پوزیشن میں اپنے دونوں پنکھ پھیلائے تھا۔ اس کی آنکھوں کی تیز پتلیوں، چونچ اور جسم کی لینگویج سے اندازہ ہوتا تھا بس اب وہ اپنے شکار پر جھپٹنے ہی والا ہے۔ اسے دیکھ کر مجھے ایک انجانی قوت کا احساس ہوا—— واپسی پر ڈنر کے لیے وہاں جانا نہیں ہوا کیونکہ سبھی ساتھیوں نے ڈنر دوسری جگہ لینے کی فرمائش کی تھی جسے بغیر کسی چوں چراں کے مجھے مان لینا پڑا۔ ہماری واپسی میں اب صرف تین روز باقی تھے اور اسے حاصل کرنے کی شدت میرے اندر زور پکڑتی جا رہی تھی۔ بہت سوچنے پر بھی میں اس شدت کی وجہ سمجھنے سے قاصر تھا یا شاید سمجھنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ لڑکیاں میری کمزوری رہی ہوں۔ ایک انجانے سے جذبہ کی شدت نے مجھے اس وقت کمزور کر دیا تھا۔ شاید اسی شدت کے سبب میں خود سے سگریٹ خریدنے کا بہانا کرکے نیچے آیا۔ میرا رخ خود بہ خود اسی جانب تھا۔ کچھ فاصلے سے مجھے ہنگامہ سا سنائی دیا۔ میرے قدم رک گئے کیونکہ بالکل اسی جگہ جہاں صبح میں نے انہیں چھوڑا تھا بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ قریب جانے پر اندازہ ہوا یہ وہی تھی جو بری طرح چلا رہی تھی۔ چھوڑ دو مجھے چھوڑ دو مجھے۔ کئی لوگ اسے زبردستی کھینچ کر لے جا رہے ہیں۔ ایک پولیس والا بھی وہاں کھڑا تھا جسے یا تو وہ لوگ ساتھ لے کر آئے تھے یا ہو سکتا ہے جھگڑے کی آواز سن کر ادھر آ گیا ہو۔ بڑے میاں لڑکی کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے جنہیں ان لوگوں نے گالیاں دیتے ہوئے دھکا دے کر دور گرا دیا تھا۔ میں گھبرا کر الٹے قدموں بھاگا۔ نہ جانے کیا لفڑا ہو؟ ان عورتوں کا کیا بھروسہ کوئی ایمان دھرم تو ہوتا نہیں ان کا۔ ضرور کوئی گاہک ہوگا۔ وہ بڈھا بھی پورا دلال لگتا تھا۔ پیسہ ویسہ کھا گیا ہوگا کسی کا۔ ایسے بھلا کوئی کسی کو کھینچ کر لے جا سکتا ہے۔ شکر ہوا میں بچ گیا کسی لفڑے میں پھنس جاتا تو ساری عزت خاک میں مل جاتی۔ میں ہوٹل کے کمرے پر پہنچ کر بستر پر ڈھیر ہو گیا۔ ذہن اسی کے متعلق سوچتا رہا۔ باربار اس کا چہرہ نظروں کے سامنے آ جاتا۔ کتنی بھولی اور معصوم لگتی تھی۔ آواز بھی آج پہلی مرتبہ سننے کو ملی۔ بولتی ہی نہیں تھی۔ جیسے گونگی ہو۔ گھاگھ نکلی پوری۔ شاید وہ بڈھا ہی طے کرتا ہے اس کے معاملات۔ کچھ کہہ تو رہا تھا صبح۔ میں تو اس سے ملنے کی پوری پلاننگ بھی کر چکا تھا۔ سوچا تھا کل سر درد کا بہانا بناکر ہوٹل پر ہی رک جاؤں گا اور... اور... سب گڑبڑ ہو گیا۔ اب نہ جانے وہ کب تک واپس آئے۔ آئےگی تو ضرور... اس وقت میری حالت کسی ہارے ہوئے جواری سے بھی بدتر تھی۔ کمرے سے بالکنی اور بالکنی سے کمرے کے نہ جانے کتنے چکر لگا چکا تھا۔ سر درد سے پھٹا جا رہا تھا اور بے چینی پل پل بڑھتی جا رہی تھی۔ اپنی عزت کے بچ جانے کا سکون مجھے اندر ہی اندر کاٹ رہا تھا۔ گھڑی کی سوئی مانو ٹھہر گئی تھی۔ ابھی صرف ڈیڑھ بجا تھا پوری رات باقی تھی۔ حالات پرسکون پاکر میں ہوٹل سے نیچے اترا اور سڑک پر نکل آیا۔ آخر پتہ تو چلے کیا ہوا؟ میں خواجہ ہوٹل کے سامنے سے گزر ہی رہا تھا کہ اس کا مالک باہر ہی کھڑا نظر آ گیا۔ بابوجی آج کھانا کھانے نہیں آئے، اس نے ٹوکا۔

    ہاں آج کہیں اور کھا لیا تھا۔ یہ بتائیے ایک کپ چائے مل جائےگی؟ کیوں نہیں آئیے۔ اس نے چائے کا آرڈر دیا۔ اس وقت تک ہوٹل تقریباً خالی ہو چکا تھا۔

    آج یہ جھگڑا کیسا ہو رہا تھا؟

    جھگڑا؟ کون سا جھگڑا؟ اچھا اچھا وہ فضلو بابا کے پاس۔

    وہ فضلو بابا ہیں؟

    ہاں... یہ تو ہونا ہی تھا۔ معاملہ ہی کچھ ایسا ہے۔

    معاملہ، کیسا معاملہ؟

    ’’فضلو بابا کو بہت سمجھایا تھا اسے بھگادو مگر مانے نہیں۔ کیسے کیسے لوگ بھرے ہیں اس دنیا میں۔ ایک طرف فضلو بابا اور دوسری طرف...‘‘

    لیکن کچھ بتائیے بھی تو؟

    وہ پاس بیٹھتے ہوئے بڑے رازدارانہ انداز میں بولا عورت کا چکر ہے؟

    فضلو بابا سے...؟؟

    نہیں نہیں... اپنے پتی سے۔

    یہ کیا پہیلی ہے؟ پتی سے؟

    ہاں پتی کا گھر چھوڑ کر بھاگ آئی ہے۔ سسرال والے پھر لے جاتے ہیں پکڑ کر، وہ پھر بھاگ آتی ہے۔ اب پھر لے گئے۔ کون بول سکتا ہے بھلا پتی پتنی کے معاملے میں۔

    لیکن وہ بھاگ کیوں آتی ہے۔ فضلو بابا کون ہیں اس کے؟

    فضلو بابا کون ہوتے۔ انہیں تو ایسے ہی ایک دن بھوکی پیاسی ملی۔ انہوں نے ترس کھاکر روٹی کھلا دی بس۔ فضلو بابا کو کھانا میں کھلاتا تھا اپنے ہوٹل سے لیکن جس روز سے یہ لڑکی فضلو بابا کے پلے پڑی فضلو بابا کو بھیک مانگنا پڑ گیا اس کی خاطر... اس کی روٹی کا پیسہ وہ مجھے زبردستی ادا کرتے ہیں۔

    چائے پیجئے ٹھنڈی ہو رہی ہے۔

    پہلے آئی تھی تو بولتی ہی نہیں تھی لگتا تھا گونگی ہے۔ ایک دن اسی طرح پکڑ کر لے گئے۔ مہینہ بھر نہیں ہوا ہوگا پھر بھاگ آئی۔ فضلو بابا بتاتے ہیں بہت سمجھایا بجھایا کہ گھر جا بری بات ہے، نہیں مانی۔ بولتی ہی نہیں۔ بھاگنے کی وجہ پوچھی بس منہ بند۔ پھر فضلو بابا نے ڈرایا کہ نہیں بتائےگی تو پولس کو تھما دوں گا۔ تب کہیں جاکر چپی ٹوٹی۔ روتے روتے سسرال والوں کے ظلم بتائے، چوٹیں دکھائیں، سسرال والوں نے مارا پیٹا تھا۔ پر جو وہ چاہتے تھے بہت غلط تھا۔ نہ جانے کون ذات ہے بھلا ایسا بھی کہیں ہوتا ہے؟ آپ ہی بتائیں۔

    کیسا...؟

    اپنے پتی سے بچے نہیں ہوئے تو جیٹھ سے... یہ تو گھور پاپ ہے...

    کیوں بابو جی.....؟ کہاں کھوگئے؟؟

    اس رات بہت مشکل سے اپنے بے جان جسم کو اٹھا کر میں ہوٹل کے کمرے تک پہنچا تھا۔

    کئی برس بعد اسی شہر کے اسی ہوٹل میں بیٹھا ہوں۔ میرے معلوم کرنے پر ہوٹل کے مالک نے بتایا فضلو بابا اس واقعہ کے چند ماہ بعد گزر گئے اور اس لڑکی کو پھر کسی نے نہیں دیکھا۔

    اب میں اسے کیا بتاتا کہ اس لڑکی نے اس واقعہ کے بعد سے کسی شارک مچھلی کی طرح میرے وجود کو نگل لیا ہے۔ میں خود کو اس کا گنہگار محسوس کرتا ہوں۔ بڑی بڑی آنکھوں والی وہ لڑکی مجھے اٹھتے بیٹھتے ہر جگہ نظر آتی ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے