کہانی کی کہانی
’’کہانی ایک ایسے شخص کے گرد گھومتی ہے جو تقسیم کے بعد بھارت میں ہونے پر بھی خود کو پاکستان واقع اپنے گھر کے کمرے میں ہی محفوظ محسوس کرتا ہے۔ بیتی زندگی میں جتنی بھی مصیبتیں آئیں، ان سب سے بچنے کے لیے اس نے اسی کمرے میں پناہ لی ہے۔ اب وہ بھارت میں ہوکر بھی اسی کمرے میں پناہ لیے ہوئے ہے۔ اس دوران وہ سوچتا ہے کہ اس کی یہ پناہ اتنی بڑی ہو جائے کہ اس میں سب لوگ سما جائیں اور ہر پریشان حال کو کچھ سکون مل جائے۔‘‘
رات کو سویا تو میں اپنے کمرے میں تھا، اپنے پلنگ پر، لیکن صبح جب جاگا تو میں نے اپنے آپ کو اس اندھیرے کمرے میں پایا جسے میں پاکستان بنتے وقت اپنے ساتھ ہندوستان اٹھا لایا تھا۔
اس اندھیرے کمرے میں بچھے ہوئے پلنگ پر لیٹا ہوا میں دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کر رہا تھا کہ موت کی وادی سے نکل کر محفوظ جگہ پر پہنچ گیا ہوں۔ رات کے آخری پہر میں، میں نے بڑا ہی بھیانک سپنا دیکھا تھاجس میں خوفناک جانور مجھ پر ٹوٹے پڑ رہے تھے۔ سپنے میں ان بھیانک جانوروں سے بچنے کے لئے میں نے ہمیشہ کی طرح اس کمرے میں پناہ لی تھی۔
سپنا ٹوٹ گیا تھا۔ میں پوری طرح جاگ رہا تھا۔ دل اب بھی دھمک دھمک کر رہا تھا لیکن اس کمرے کی فضا میں ایک لطیف سی گرمی تھی جو خوف سے ٹھٹھرتے ہوئے میرے جسم کو راحت بخش رہی تھی۔ اس کمرے کی بوباس میں ایسی خوشبو تھی جو میری سانسوں کے ذریعہ میرے وجود میں تحلیل ہو کر دل و جان کو سکون عطا کر رہی تھی اور اس کمرے کی چاروں دیواروں نے جسیے باہیں پھیلا کر میرے زخمی وجود کو اپنی آغوش میں لے لیا تھا اور مجھے اس وقت ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کمرے کی چاروں دیواروں نے میری ساری کائنات کو احاطے میں کر لیا ہو اور اس احاطے میں کوئی خوف نہ رہا ہو، کوئی دکھ نہ رہا ہو اور ان دیواروں پر ٹکی ہوئی چھت مہربان آسمان کی طرح مسکرا رہی تھی۔
اس اندھیرے کمرے کو پاکستان سے اٹھا لانے کا قصہ یوں ہے کہ جب وقت کا وہ ظالم لمحہ قریب آیا جس کے ایک ہی وار نے صدیوں پرانے رشتوں کو کاٹ کر رکھ دیا تھا تو گھرمیں موت کا سا سناٹا چھا گیا۔ گاؤں کا لمبا تڑنگا نمبردار مراد علی آنگن میں کھڑا ہم سب کے گھر سے نکلنے کا انتظار کر رہا تھا۔ اس نے آتے ہی کہا تھا، ’’جلدی چلو۔ تڑ پھڑ۔ سارے ہندو بازار میں اکٹھا ہو رہے ہیں۔ وہاں سے فوراً ہی چل دینا ہے۔ راوی پار کرنے کے لئے۔‘‘
اس وقت میری دادی آٹا گوندھ رہی تھی۔ اس نے آٹا وہیں کا وہیں چھوڑ دیا۔ ہاتھ دھو کر جلدی سے دوپٹہ بدلنے کسی کمرے میں گئی۔ اس افرا تفری کے عالم میں، کسی کو کیا سوجھ سکتا تھا کہ کیا اٹھائے۔ پھر بھی جیسے سارا گھر اس لمحے کے لئے پہلے سے تیار تھا۔ میرے بڑے بھائی کے ہاتھوں میں اس کے اسکول کالج کے سرٹیفیکٹ تھے۔ میرے باپ کے ہاتھوں میں زمینوں کی ملکیت کے کاغذات تھے۔ چھوٹے اوتار نے سب کی دیکھا دیکھی اپنا اسکول کا بستہ اٹھا لیا تھا اور میری دادی کے ہاتھوں میں چاندی کے زیوروں اور برتنوں کی خاصی بڑی پوٹلی تھی، جو صرف اس لئے تیار کی گئی تھی کہ لوٹنے والوں کی نظر ہمارے سونے کے ان زیورات کی طرف نہ جائے جو ہم نے جوتوں کے تلووں اور جسم کے دوسرے حصوں میں چھپا رکھے تھے۔
جب دادی دوپٹہ اوڑھ کر باہر آئیں تو ان کے ہاتھوں میں پکڑی ہوئی چاندی والی پوٹلی نمبردار نے لے کر اپنی بغل میں دبالی اور پھر وہ میرے والد کے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے کاغذات دیکھنے لگا کہ کہیں ان میں نوٹ تو نہیں چھپائے ہیں۔
میں چھت کے اوپر سے گھبراہٹ کے عالم میں یہ سب دیکھ رہا تھا۔ دل کرتا تھا کہ ایک اینٹ دیوار سے اکھاڑ کر نمبر دار کو اس طرح کھینچ کر ماروں کہ اس کی طرے دار پگڑی کے نیچے چھپا ہوا سر د و پھاڑ ہو جائے لیکن ہمارے گھر کی دیواریں بڑی مضبوط تھیں۔ ویسے بھی اس وقت اینٹ اٹھا کر مارنا نہ تو ممکن ہی تھا اور نہ ہی عقلمندی۔
اس لئے مجھ پر گھبراہٹ طاری ہو گئی اور میں گھبرایا ہوا سارے مکان میں پاگلوں کی طرح گھومنے لگا۔ اس کمرے سے اس کمرے تک دالان سے رسوئی تک۔
مجھے کوئی بھی ایسی چیز سمجھ میں نہیں آ رہی تھی جسے نمبردار کی تیکھی نظروں سے چھپا کر ساتھ لے جایا جا سکے اور پھر وقت کہاں تھا؟
وقت تو موت کا روپ دھار کر مراد علی کی شکل میں گھر کے آنگن میں آ کر کھڑا ہو گیا تھا اور گھر سے نکلنے والے ایک ایک شخص کی تلاشی لے رہا تھا۔ ایسی حالت میں بھلا میں اس گھر سے چلتے وقت کیا اٹھا سکتا تھا۔ جب کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو گھبرایا ہوا اس اندھیرے کمرے میں گیا۔ اس کمرے میں بچھے ہوئے پلنگ پر ایک پل کے لئے لیٹا۔ اس کی بو باس کو اپنے وجود میں رچایا۔ اس کی دیواروں کو اپنے گرد کھڑا کیا اور پھر چھت سمیت اسے اٹھا کر جلدی جلدی سیڑھیاں اترنے لگا کیوں کہ مراد علی اونچی آواز میں مجھے پکار رہا تھا کہ جلدی آؤ چلنے کا وقت ہو گیا ہے۔
اس وقت اتنے سال گذر جانے کے بعد اگر آپ اس کمرے کا صحیح حدود اربعہ دیکھنا چاہیں تو لاہور سے نارو وال جانے والی گاڑی پر بیٹھئے۔ نارووال سے پہلے ایک سٹیشن پڑتا ہے پیجو والی۔ اس اسٹیشن پر اتر کر آپ کو دو میل پید چلنا ہو گا، داؤد نام کے گاؤں پہنچنے کے لئے جو دریائے راوی کے کنارے بساہوا ہے۔ گاؤں کے باہر ہی سائیں جھنڈے شاہ کا ڈیرہ ہے۔ اس ڈیرے کے پیچھے شری مول چند کی بیٹھک کے سامنے ایک تنگ سی گلی ہے چھوٹی سی۔ اس کے عین سرے پر ہمارا مکان ہے، جہاز نما، بڑا سا۔
اس وقت اس گھر میں دو خاندان رہتے تھے۔ ہمارا اور ہمارے چچا کا۔ لیکن گاؤں والوں کے لئے یہ ایک ہی گھر تھا۔ ایک ہی خاندان۔ وجہ یہ کہ نہ تو ان دونوں خاندانوں کے درمیان زمین کا بٹوارہ ہوا تھا اور نہ ہی گھر کے اندر تقسیم کی دیواریں اٹھی تھیں۔ کھیتوں کی فصل ایک ساتھ گھر میں آتی تھی۔ اور پھر باہر کی ڈیوڑھی کا دروازہ بند کرنے کے بعد آدھا اناج چچا کے کمروں میں چلا جاتا اور باقی آدھا ہمارے کمرے میں۔ اس پر لطف یہ کہ باہر سے آنے والے مہمان گھر میں دو دو مہینے رہ جاتے اور کسی کو یہ پتہ نہ چلتا کہ دستر خوان پر رکھا ہوا کھانے کا سامان دو رسوئیوں سے، دو گھروں سے بن کر آیا ہے۔ وہ سب یہی سمجھتے کہ دونوں بھائی بڑی محبت سے مل جل کر رہ رہے ہیں۔
ہاں تو اسی گھرمیں وہ اندھیرا کمرا ہے، جس کا میں ذکر کر رہا ہوں۔ اس میں پہنچنے کے لئے سیڑھیاں چڑھ کر چھت پر جائیں گے تو آنگن سے گذ رنے کے بعد ایک بہت بڑا دالان ملے گا۔ اس دالان کے ایک، دو، تین چارہاں پانچ دروازے تھے اور سامنے کی طرف دو روشندان تھے۔ نہیں آٹھ تھے۔ کیوں کہ اس دالان کے دوسرے سرے پر چچا کی بہت بڑی رسوئی تھی اور وہاں پر کوئی روشندان نہیں تھا۔ دالان کے پیچھے دو کمرے تھے۔ دائیں طرف والا چچا کا اور بائیں طرف ہمارا۔
ہمارے اس پچھلے کمرے میں چوں کہ باہر کی طرف کوئی روشندان یا کھڑکی نہیں تھی اس لئے اس میں قدرے اندھیرا رہتا تھا۔ دالان کے سامنے والے دروازے کھول دینے پر جتنی روشنی آ جائے، آجائے، اس کے علاوہ روشنی کا کوئی گذر اس میں نہیں تھا۔ اس لئے اس کمرے کے طاق میں ایک سرسوں کا دیا رکھا رہتا تھا جو ضرورت کے وقت جلا لیا جاتا، اس کی مدھم سی پیلے رنگ کی روشنی میں یہ کمرا اور بھی خوبصورت ہو جاتا تھا۔
ویسے تو مجھے بچپن میں اندھیرے سے بہت ڈ ر لگتا تھا اور نچلی منزل پر اس کمرے کے نیچے جو کمرے ہیں اس میں جاتے ہوئے بھی گھبراتا تھا لیکن بچپن سے ہوش سنبھالتے ہی پتہ نہیں کیوں میں نے اس کمرے کو اپنی پناہ گاہ بنا لیا تھا۔
گرمی کے دنوں میں دادی صبح اٹھتے وقت مجھے بھی کچی نیند سے جگا دیتیں تو چھت سے اتر کر میں اسی کمرے میں چھپ کر سو رہتا تھا اور چھت پر صبح کی خنکی کے بعد اس کمرے کی گرم گعد میں بڑی میٹھی نیند آتی تھی۔
پھر یہ تھا کہ گرمیوں کی بعد جب ہلکے جاڑے پڑنے شروع ہوتے تو ہمارے گھر کے نچلے حصے کی پچھلی اندھیری کوٹھریوں سے کبھی کبھی سانپ نکل آتا تھا۔ وہ سانپ چاہے ما رہی دیا جاتا لیکن اس کی دہشت مجھ پر اس قدر طاری ہوتی تھی کہ مجھے گھر کے نچلے حصے سے ڈر لگنے لگتا تھا۔ میں ڈیوڑھی میں داخل ہونے کے فوراً بعد سیٹرھیوں کے راستے چھت پر پہنچ جاتا اور جب تک اس پچھلے کمرے میں نہ پہنچ جاتا، مجھے ایسے لگتا جیسے ہر قدم پر سانپ میرا پیچھا کر رہا ہو اور اگر جلدی نہ کی تو وہ میری راہ روک لے گا یا ٹانگوں سے لپٹ جائے گا۔
یہ کمرا ایک اور وجہ سے بھی میرے لئے دوست کا کام کرتا تھا۔ میری اپنی دادی بڑی سخت مزاج عورت تھی۔ بچپن میں ذرا ذرا سی غلطی پر ایسی سخت سزا د یتی تھی کہ روئی کی طرح طوم کر رکھ دیتی تھی۔ دادی سے مار کھانے کے بعد جب روتا روتا میں اس کمرے میں بچھے پلنگ پر اوندھے منہ لیٹتا تو اس کمرے کی بوباس جیسے میری چوٹوں پر مرہم پٹی کا کا کام کرتی۔ اس کمرے کی دیواروں کی خنکی میرے دل کو ٹھنڈک پہنچاتی اور ایسے موقعوں پر اسی کمرے میں میری دوسری دادی یعنی چاچا کی ماں، میری دادی سے چوری چوری مجھے دودھ کا گلاس پلا دیتی، دودھ کا گلاس جس کا چوتھائی حصہ بالائی سے بھرا ہوتا۔
گھر کے اندر پیدا ہونے والے خوف اور ڈر کے وقت تو یہ کمرہ پناہ گاہ کا کام دیتا ہی تھا لیکن گھر کے باہر بھی جتنے خطرے آتے تھے ان سے بھاگ کر مجھے اسی کمرے میں چین پڑتا تھا۔
ہمارے گاؤں میں دوسرے تیسرے سال باڑھ آجاتی تھی۔ راوی کا پانی، اپنے کناروں کو توڑ کر ہمارے گاؤں کو جب کالے ناگ کی طرح گھیرتا تو ہر طرف پانی ہی پانی نظر آتا۔ ہماری گلی کے سامنے جو چوڑا راستہ جاتا ہے وہاں تو گھٹوبں گھوے ں پانی ہوتا لیکن ذرا آگے بڑھو تو یہی پانی گلے سے بھی اوپر ہو جاتا۔ ایسی باڑھ کے وقت پانی کی تیز دھاروں کی شائیں شائیں سے سارے گاؤں پر دہشت چھا جاتی۔ ہر شخص گھبرایا ہوا ہوتا۔
میں یہ ہولناک منظر دیکھ کر گھر لوٹتا تو اس کمرے میں چھپ جاتا جیسے مجھے یقین تھا، باڑھ کا پانی اس کمرے کی بلندی تک نہیں پہنچ سکتا۔ جب میرے دل کو ذرا سی دھیرج بندھی تو ایسے موقعوں پر میں سوچتا کہ کاش اس کمرے کی دیواریں اتنی بڑی ہو جائیں اتنی بڑی ہو جائیں کہ سارا گاؤں اس میں سمٹ جائے۔ باڑھ کی زد میں آ کر لہلہاتی فصلوں والے کھیت برباد ہو جاتے تھے اور کچی دیواروں والے بھنگیوں اور کمہاروں کے مکان اکثر باڑھ کی وجہ سے گر جایا کرتے تھے۔ اس لئے میرے دل میں آیا کرتا کہ یہ سب اسی کمرے میں آ کر سما جائیں یا یہ کمرا ہی اتنا بڑا ہو جائے کہ سارے مکان، سارے کھیت، اس کے اندر آکر باڑھ سے محفوظ ہو جائیں۔
اب تو آپ کو تھوڑا بہت اندازہ ہو ہی گیا ہو گا کہ اس کمرے کی میرے لئے کیا اہمیت ہے اور میں اسے پاکستان سے اٹھا کر کیوں لایا تھا۔
اس نئی دھرتی پر چوںکہ ابھی تک کہیں میرے قدم جم نہیں پائے اس لئے میں شاخ سے ٹوٹے ہوئے پتے کی طرح لڑھکتا پھرتا ہوں۔ حواد ث کی ہوا جب میری مرضی کے خلاف مجھے دھیلے کر انجانی سمتوں میں لے جاتی ہے او رانجان راہوں پر ٹھوکریں کھاتے ہوئے جب میرا وجود لہولہان ہو جاتا ہے تو میں خود بخود اس کمرے میں پہنچ جاتا ہوں چند لمحو ں کے لئے۔ اور اس کے طاق میں رکھے ہوئے دیے کو میں جیسے ہی روشن کرتا ہوں، اس کی پیلی روشنی میں میری تڑپتی ہوئی روح کو قرار آنے لگتا ہے۔
یایوں کہئے کہ جب حقیقی زندگی کے خوف میرے گرد پھیلے ہوئے اندھیروں سے نکل کر کالے ناگ کی طرح پھن پھیلا کر میرا راستہ روک لیتے ہیں یا میرے قدموں سے لپٹ لپٹ جاتے ہیں یا پھر دکھوں اور غموں کی باڑھ اپنی ساری حدوں کو توڑ کر جب میری ہستی کواس طرح گھیر لیتی ہے جیسے راوی ہماری ساری بستی کو گھیر لیا کرتی تھی اور جب میرے وجود کے گرد کی کچی دیواریں وقت کی بے رحم لہروں کی زد میں آ کر گرنے لگتی ہیں، تو میں اپنے آپ کو بچانے کے لئے اسی کمرے میں پناہ لیتا ہوں۔ اس کمرے میں جو میں پاکستان سے اٹھا کر اپنے ساتھ ہندوستان لے آیا تھا۔ جب موت مراد علی کا روپ دھار کر میری زندگی کی چاندی چھیننے آتی ہے تو میں ڈر کے مارے سہات ہوا پاگلوں کی طرح چاروں طرف گھومتا ہوں اور پھر اسی کمرے میں دبک کر چند لمحے سکون پاتا ہوں۔
ایسے موقعوں پر اس کمرے کی بو باس میرے زخموں پر مرہم کا پھاہا رکھتی ہے۔ میری سانسوں کے ذریعہ جسم کے اندر داخل ہو کر دل کو دھیرج دیتی ہے اور اس کمرے کی چاروں دیواریں مجھے اپنی آغوش میں لے کر زندہ رہنے کا حوصلہ بخشتی ہیں اور کمرے کی چھت مہربان آسمان کی طرح رحمت کی بارش کرنے لگتی ہے۔
جب کبھی باڑھ آتی تھی تو اپنے بچپن میں، اس کمرے میں لیٹا ہوا میں یہ دعائیں مانگا کرتا تھا کہ یہ کمرا سارے گاؤں ساری بستی کی پناہ گاہ بن جائے اور اب بڑا ہو کر میں سوچا کرتا ہوں کہ اگر اس کمرے کی دیواریں ساری دنیا کو اپنے احاطے میں لے لیں تو ہو سکتا ہے کہ اس کی مہربان چھت کے نیچے اس دکھی دنیا کو چند لمحوں کے لئے سکون میسر ہو جائے۔
اسی مقصد کے حصول کے لئے میں اکثر اس اندھیرے کمرے میں پہنچ کر اس کے طاق میں رکھے ہوئے دیے کو روشن کرتا ہوں اور اس کی جلتی ہوئی لو کی طرف دیکھتا رہتا ہوں اک ٹک اور سوچتا ہوں کہ اس کی لو کو کیسے اور تیز کیا جائے کہ اس کی پیلی روشنی پھیلتی پھیلتی ساری دنیا کو اپنی آغوش میں لے لے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.