Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پنڈت گیا پرشاد کی گائے

وسیم حیدر ہاشمی

پنڈت گیا پرشاد کی گائے

وسیم حیدر ہاشمی

MORE BYوسیم حیدر ہاشمی

    پنڈت گیا پرشاد کی نوکری لگنے کے بعد وہ ثم شہری ہو گئے تھے مگر کھیت کھلیان، باغ بن اور نہر تالاب کا موہ نہیں چھوڑ سکے تھے۔ سرکاری نوکری میں انھیں جو کواٹر ملا تھا، اتفاقاً اس کے ارد گرد کئی ایسے پڑوسی بسے تھے جن کا تعلق بھی دیہات سے ہی تھا چنانچہ یہاں بیوی بچوں کا دل بھی خوب لگ گیا تھا۔ اپنی کوششوں سے وہ یہاں کھیت کھلیان، باغ بن اور ندی تالاب تو پیدا نہیں کر سکتے تھے مگر دو ایک درخت اور چند پھولوں کے پودے اپنے کواٹر کے ارد گرد ضرور لگا لیے تھے۔ اب ان کی صرف یہی خواہش باقی رہ گئی تھی کہ وہ ایک اچھی سی دودھارو گائے خرید کر اپنے دروازے پر باند لیں۔ دودھ اور گوبر کے ساتھ گائے کی خدمت کا ثواب بونس میں ملےگا۔ گائے خریدنے کی خاطر انھوں نے اپنے دفتر سے لے کر ہر پہچان والے کو مطلع کر دیا تھا کہ کہیں بھی کوئی گائے نظر آئے تو انھیں اطلاع ضرور دی جائے۔ گائے خریدنے کی خاطر انھوں نے دس ہزار روپیہ بھی بینک سے نکال کر گھر میں ہی رکھ چھوڑا تھا۔ کیا پتہ کب کوئی معقول سودا پٹ جائے ۔ رات ہو یا اتوار یا سرکاری چھٹی ہو اور بینک سے روپیہ نہ نکالا جا سکنے کی صورت میں گائے ہاتھ سے نکل جائے۔ ان روپیوں کو انھیں بڑی سے بڑی ضرورت پر بھی چھونا گوارا نہ تھا۔ گائے کی ان کی اس قسم کی دیوانگی سے ان کا ہر شناسا بہتر واقف تھا۔ کئی دوست یار تو باقاعدہ گیا پرشاد کو گائے دلوانے میں مدد کی غرض سے تہہ دل سے کوشاں بھی تھے۔ گیا پرشاد کو زیادہ اونچی گائے نہیں چاہیے تھی۔ بس دیکھنے میں چھوٹی اور خوبصورت لگتی ہو۔ پانچ چھ سیر دودھ کافی تھا۔ آخری شرط تھی کہ وہ سیدھی ایسی ہو کہ کوئی بچہ بھی آسانی سے دوہ لے۔ ہر دوسرے تیسرے روز اسے کہیں نہ کہیں سے یہ خبر ضرور ملتی کہ فلاں محلے یا فلاں گاؤں میں ایک بہت اچھی گائے بکاؤ ہے۔ اس قسم کی خبر سن کر وہ روپے جیب میں ٹھونستے اور نکل پڑتے مگر اب تک وہ من پسند گائے خرید سکنے میں ناکام ہی رہے تھے۔ ہر گائے میں انھیں ایسی کوئی نہ کوئی کمی ضرور نظر آ جاتی کہ انھیں بےنیل مرام واپس آنا پڑتا تو وہ یہی سوچ کر صبر کر لیتے کہ ’شاید گؤ ماتا کی سیوا ابھی میری قسمت میں نہیں۔‘

    پنڈت گیا پرشاد آج نہا دھوکر پوجا پاٹھ سے صبح نوبجے ہی فارغ ہو گئے اور بیوی کو کھانا پروسنے کا حکم دینے کے بعد ایک چٹائی پر پالتی مار کر بیٹھ گئے۔ تقریباً دس منٹ بعد بیوی کھانے کی تھالی لے کر حاضر ہو گئی۔

    ’’کیا بات ہے، آج بہت جلدی تیار ہو گئے۔ کیا دفتر میں کچھ خاص کام ہے؟‘‘ اس کا سوال جائز تھا کیوں کہ اکثر و بیشتر وہ کھانا دس بجے ہی کھایا کرتے تھے۔

    ’’نہیں، دفتر میں ایسا کوئی خاص کام نہیں بلکہ ہمارے دفتر کے ہی ایک بابو نے کہا تھا کل ساڑھے نو بجے تک آ جایئےگا۔ اس نے اپنے کسی رشتہ دار کو بلایا ہے۔ وہ ایک گائے لے کر آئے گا اگر پسند آ گئی تو لے لوں گا۔ ‘‘وہ جلدی جلدی کھانا کھاتے ہوئے گائے کی سنی سنائی خوبیاں بیوی سے بیان کرنے لگے اور کھانا کھا کر دفتر کے لیے نکل پڑے۔ ابھی انھیں گئے ہوئے ایک گھنٹہ بھی نہیں گزرا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی تو گیا پرشاد کی بیوی نے دروازہ کھول دیا مگر نووارد کو دیکھتے ہی دروازے کے اندر ہی ٹھٹک کر رک گئیں کیوں کہ وہ کوئی انجان شخص تھا۔ نووارد کے ہاتھ میں دودھ سے بھری اسٹیل کی ایک بڑی سی بالٹی تھی۔اس نے بڑے ادب سے پرنام کرتے ہوئے کہا۔

    ’’میرا نام جسراج پانڈے ہے۔ میں گیا پرشاد کے ساتھ اسی آفس میں کام کرتا ہوں۔ میں بھی بڑا بابو ہوں۔۔۔!‘‘وہ اتنا ہی کہہ پائے تھے کہ گیا پرشاد کی بیوی نے خوش دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔

    ’’اچھا، اچھا، تو آپ ہی پانڈے جی ہیں۔ یہ اکثر آپ کی چرچہ کرتے ہیں۔ میں آپ کے نام سے پر چت ہوں۔ کہیے، کیسے آنا ہوا؟‘‘اور وہ برآمدے میں آ گئیں۔

    ’’گیا بابو نے ہی مجھے بھیجا ہے۔ یہ بالٹی اندر لے جایئے اور دودھ پکا لیجیے۔ آج گیا بابو نے ایک گائے خریدی ہے اور کہلوایا ہے کہ الماری میں جو دس ہزار روپیہ رکھا ہے ان میں سے ساڑھے آٹھ ہزار بھیج دیجیے۔ گائے والے کو گائے کی قیمت دینا ہے۔ وہ خود ہی آتے مگر۔۔۔!‘‘ پانڈے جی اتنا ہی کہہ پائے تھے کہ گیا پرشاد کی بیوی نے بیچ میں ہی بات کاٹتے ہوئے سوال کیا۔

    ’’وہ گائے کیسی ہے؟میرا مطلب دودھ کتنا دیتی ہے اور اس کا رنگ، قد وغیرہ۔۔۔؟‘‘وہ بہت خوش نظر آ رہی تھیں۔

    ’’بہت سندر ہے بھابی جی۔ مشکل سے چار فیٹ اونچی اور کبوتر جیسی سفید۔ ایکدم کامدھینو کا روپ لگتی ہے۔ یہ دودھ اسی کا ہے جسے گیا بابو نے اپنے ہاتھوں سے دوہا ہے۔‘‘اس نے بالٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

    ’’آپ بیٹھیے پانڈے جی، کچھ جل جلپان کیجیے۔ آپ نے بہت اچھا سماچار سنایا ہے۔ ‘‘ انھوں نے برامدے میں پڑی کرسی کی طرف اشارہ کیا تو پانڈے جی نے بڑے انکسار کے ساتھ کہا۔

    ’’دھنیہ واد بھابی جی۔ اس کا سمے نہیں ہے۔ صاحب سے کیول آدھے گھنٹے کی چھٹی لے کر نکلا ہوں اگر دیر ہو گئی تو بلا وجہ ان کی کھری کھوٹی سننی پڑےگی۔ ویسے اتنی سندر گائے کے لیے آپ کو بدھائی ہو۔‘‘انھوں نے عجلت دکھائی تو گیا کی بیوی دودھ کی بالٹی لے کر اندر چلی گئیں اور پانچ منٹ بعد ہی ساڑھے آٹھ ہزار روپے لا کر پانڈے جی کے ہاتھ پر رکھ دیئے۔ پانڈے جی نے روپیہ گن کر جیب میں رکھا اور ’نمستے بھابھی جی‘ کہتے ہوئے دودھ کی خالی بالٹی لے کر باہر نکل گئے۔

    گیا پرشاد کی بیوی نے جلدی سے ایک درخت کے نیچے خود ہی کھونٹا گاڑا۔ انھیں قوی امید تھی کہ آج گیا پرشاد جلد ہی آئیں گے اور ان کی توقع کے مطابق وہ گائے والے کے ساتھ چار بجے ہی دفتر سے گھر آ گئے۔ گائے واقعی بہت خوبصورت تھی۔ گیا کی بیوی نے بڑی شردھا سے جھک کر گائے کو ہاتھ جوڑا اور اس کی پوجا کرنے کی پیشکش کی تو گیا پرشاد نے کہا۔

    ’’پوجا وغیرہ بعد میں ہوتی رہےگی۔ تم پہلے اندر جاؤ اور الماری میں سے ساڑھے آٹھ ہزار روپے نکال لاؤ۔ یادو جی کو گائے کی قیمت ادا کرنا ہے۔‘‘گیا پرشاد کے منہ سے یہ سن کر اس کی بیوی کے پیروں تلے کی زمین ہی نکل گئی۔ وہ کبھی گیا پرشاد کو دیکھتی تو کبھی سامنے کھڑی گائے کو۔ لاکھ کوششوں کے باوجود اس کے منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکل سکا۔ وہ ایک ٹک پنڈت گیا پرشاد کو دیکھے جا رہی تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے