پندرھواں سال
آج ہفتہ ہے اور معمولات کے مطابق آج مجھے ماں کا ہاتھ بٹانا ہے۔ ماں، جس سے میں بہت محبت کرتا ہوں۔ وہ تو میں پہلے بھی بہت کرتا تھا، مگر اب زیادہ کرنے لگا ہوں۔ عمر کے کئی برس میں نے اور ماں نے اکیلے ہی گزارے ہیں۔ اسی چھوٹے سے تین کمروں کے فلیٹ میں ابو کے بغیر۔ وہ ہمارے ساتھ زیادہ نہ رہ سکے۔ ماں بیدار ہوچکی ہے، اسے انڈسٹریل ہوم بھی جانا ہے۔
پتھر کے سلیب پر چھری سے صابن کے باریک سلائس بناتے ہوئے ہاتھوں پر پسینے اور صابن کے ملاپ سے لجلجاہٹ پیدا ہونے لگی۔ مگر میں تیزی سے سلائس اور پھر ان کے بھی مزید ٹکڑے کرنے لگا۔ باریک ٹوٹی ہوئی سوئیوں کی طرح جسے ماں ہر اتوار کی صبح دودھ میں ابال کر پکایا کرتی اور مجھے اور میری چھوٹی معذور بہن کے پیالوں میں انڈیل دیتی۔ پھر اس کے اوپر پہلے سے تراشے ہوئے بادام اور پسے ہوئے کھوپرے کے آمیزے کو ڈال کر ہفتہ واری شاندار ڈش کا نام دیتی، تو میں سوچتا، بھلا ایک ہی ذائقہ اور ایک ہی صورت والی چیز کو کب تک کھایا جائے۔ مگر مجھے ماں سے محبت ہے اور میں اب اسے کوئی تکلیف نہیں دینا چاہتا۔
صابن کے باریک ٹکڑوں کو میں نے مٹھی میں بھرا اور فلیٹ کی گیلری میں رکھی پرانی واشنگ مشین کے بڑے اور خالی پیٹ میں ڈال دیا۔ پانی کا وال کھولا تو تیز دھار کی صورت میں پانی خالی مشین کو بھرنے لگا۔ پھر سوئچ آن کیا اور مشین کا بٹن گھمادیا۔ پیندے میں لگی پلیٹ گھومنے لگی۔ چند چکر سیدھے چند الٹے۔ پانی رکنے بھی نہ پاتا تھا کہ مشین اسے دوسری سمت میں پھینکنا شروع کردیتی۔ پانی بے بسی سے دوسری سمت گھومنا شروع کردیتا۔ میں نے آنکھیں چکراتے ہوئے پانی پر گاڑھ دیں، جس میں صابن کے ٹکڑے باریک سے باریک تر اور پانی مزید گدلا ہوتا جارہا تھا۔ بالکل اس رطوبت کی طرح جیسی آج کل میرے جسم سے خارج ہونے لگی تھی۔آج رات بھی جب بارش میں بھیگتے ناچتے اور تھرکتے ہوئے جسم خواب میں میرے چاروں طرف سے مجھے بھی اکسانے لگے۔ بے واچ کی سنہری بالوں والی اداکارہ جو مجھ سے عمر میں کئی سال بڑی دکھائی دیتی ہے، ان میں سب سے آگے تھی۔ نہ جانے کیوں آج کل مجھے میری عمر سے زیادہ کی عورتیں ہی اچھی لگتی ہیں۔ ان کے سڈول بدن پر نظریں گڑھ جائیں تو ہٹنے کا نام نہیں لیتیں۔
اپارٹمنٹ کے نیچے سودا خریدتے ہوئے ، رات کو فلیٹوں کی چار دیواری کے ساتھ موٹی اور بھدی اور چند دبلی پتلی عورتوں کو جاگنگ کرتے ہوئے، یا پھر کلاس میں اپنی ریاضی کی استاد کو تختہ سیاہ پر کسی مشق کو حل کرتے ہوئے بار بار اوپر نیچے یا دائیں بائیں، سرکتی ہوئی سلکی پھول دار قمیص کے اندر چھپے ہوئے بدن پر اپنی نظریں گاڑھ دیتا اورجب اچانک کلاس ٹیچر پلٹ کر سوال پر سوال کر ڈالتی تو آئیں بائیں شائیں بکنے لگتا اور جھینپتا کہ کہیں ٹیچرنے دیکھتے ہوئے پکڑ تو نہیں لیا۔
مشین میں صابن حل ہوچکا تھا۔ میں ماں، نانی اور بہن کے کپڑوں کو صابن اور پانی کے آمیزے میں ایک ایک کر ڈالتا جاتا اور مشین کو حرکت کرتے دیکھتا۔ کپڑے جیسے ہی پانی کی سطح پر پہنچتے تو دائرے میں گھومتے پانی کے ساتھ خود بھی گھومنا شروع کردیتے۔ گھومتا پانی ذرا سی دیر میں کپڑے کو پوٹلی بنادیتا جو کہ مشین کی دیواروں سے ٹکراتی ہوئی دوسرے کپڑوں میں گم ہونے لگتی۔ ایک ایک کرکے ماں بہن اور نانی کے سارے کپڑے مشین کے پیٹ میں چلے گئے اورمسلسل گھومتے رہے۔ میں کپڑوں کو اوپر نیچے ہوتے ہوئے غور سے دیکھنے لگتا۔ اکثر اس موقع پر میری آنکھوں میں چمک پیدا ہونے لگتی۔ مشین کپڑوں کو ایک دوسرے میں بڑے عجیب اور دلچسپ طریقے سے ایک دوسرے میں گتھم گتھا کررہی تھی۔ قطع نظر اس کے کہ یہ میری ماں، نانی اور معذور بہن کے کپڑے ہوتے، مگر میرے لیے یہ ایک دلچسپ مشعلہ بن جاتا ہے۔
لال شلوار نے میری قمیض کو چھوا تو جسم میں سرسراہٹ محسوس ہوئی۔ پھر ایک دوپٹے کا گولا پھول دار شلوار سے گلے مل رہا تھا، تو کوئی آستین کسی قمیض کے گلے میں بانہیں ڈال رہی تھی۔ چکنے پانی کے آمیزے میں تیرتے ہوئے لبادوں کی آنکھ مچولی اور اوپر نیچے ہونے کا کھیل مزید دلچسپی سے دیکھتا، اگر گیلری سے باہر سامنے والے بلاک کے ایک فلیٹ کا دریچہ اچانک روشن نہ ہوگیا ہوتا۔ میری نظر بے ارادہ اس طرف اٹھ گئی۔ یہ فلیٹ ہماری منزل سے ایک منزل نیچے تھا، جس کی وجہ سے دریچے کے پار سبز ٹائلوں کے بیچ سرکتا بے نیاز جسم صاف دکھائی دے رہا تھا۔
میں نے کن انکھیوں سے چاروں طرف دیکھا، کوئی نہ تھا حتیٰ کہ ماں اور نانی بھی اس طرف نہیں تھیں۔ شاور کی پھوار تلے کوئی حالت رقص میں بے نیاز اور اپنے لمبے بالوں سے کھیل رہا تھا۔ اور بال تھے کہ ایک جگہ رکتے ہی نہیں تھے۔ روشن چمکتے نشیب و فراز پر سیاہ چمکتے بالوں کی گھٹا۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے پہاڑیوں کی چھوٹی بڑی گھاٹیوں پر سیاہ بادلوں کا سایہ کبھی ادھر اور کبھی ادھر پڑ رہا ہو۔
عمر کے اس پندرھویں برس میں اپنی کلاس کے ساتھیوں کے منہ سے بے شمار ایسے جملے سنے ہوئے تھے، جن کے بین سطور میں قہقہوں کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ مگر میں ہمیشہ نظرانداز کردیا کرتا۔ میرے ہم جماعت مذاق اڑاتے، مجھے چھیڑتے تومیں چڑ جاتا۔ تصویروں والے قلم، تاش کے پتے اور البم کلاس میں جس دن آتے ، لڑکوں کے چہروں پر عجیب سی مسکراہٹ پھیل جاتی۔ ہاف ٹائم میں سب دوڑ کر چھت پر چلے جاتے۔ میں کئی بار سیڑھیوں تک جاتا، مگر لوٹ آتا۔ مگر آج تو ساری تصویریں، سارے قلم اور سارے البم میرے سامنے متحرک اور روشن تھے، بجلی کہیں اور چمک رہی تھی۔ کرنٹ کہیں اورلگ رہا تھا۔ بوندیں کہیں اور برس رہی تھیں اور گیلا کوئی اور ہورہا تھا۔ مگر اچانک روشنی گل ہوگئی اور یوں لگا جیسے دریچے کے اس پار رقص تھم گیا ہو۔
تب میں دوبارہ واشنگ مشین کے موٹے پیٹ میں گھومتے کپڑوں کے بیچ لوٹ آیا۔ جہاں لال دوپٹہ سبز قمیص سے اٹھکھیلیاں کھیل رہا تھا۔ یہ لال دوپٹہ ماں کا تھا اور سبز قمیص نانی کی۔ مجھے حیرت ہوئی۔ لال دوپٹے کی سبز قمیص سے کبھی بنی ہی نہیں۔ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ہر وقت کسی نہ کسی بات پر نوک جھونک چلتی رہتی ہے۔ نانی کی گفتگو کی تان ہمیشہ اس پر آکر ٹوٹتی کہ دوسری شادی نہ کرنے کی ضد کیوں ہے۔ لوگوں کی تو جوان کنواری بیٹیاں رشتوں کے انتظار میں بیٹھی ہوئی ہیں۔ جب کہ تو بیوہ ہے، تیرے دروازے پر رشتہ کھڑا ہوا ہے، اور تو نصیبوں جلی اسے تھامنے سے انکار کرتی ہے۔
’’میں نے کتنی بار کہا ہے کہ میں شادی نہیں کروں گی‘‘۔
’’میں جب مرجاؤں گی تو کون دیکھ بھال کرے گا۔ ہاتھ پیروں سے معذور بچی کا نہلانا، دھلانا، گو صاف کرنا سب مجھے کرنا پڑتا ہے۔ میں نہ رہی تو بھلا تو نوکری کرے گی یا بچی کو دیکھے گی‘‘۔
’’جس طرح بھی ہوگا پال لوں گی‘‘۔
’’لڑکی تیری سمجھ میں کیوں نہیں آتا۔ کمانے والا مرد ہوگا، تب کم از کم اس گوشت کے لوتھڑے کی دیکھ بھال تو کرسکے گی‘‘۔
’’رحم کرو اماں! تمہاری یہ جلی کٹی باتیں سن کر میری بچی پر کیا گزرتی ہے۔ تمہیں کچھ پتا ہے‘‘۔
آج صبح بھی یہی سب کچھ ہوا تھا۔ روز وہی جملے وہی تاویلیں اور وہی ماں کا انکار۔ وہی معذور کی آنکھوں میں آنسو، اور وہی دن بہ دن جوان ہوتے ہوئے میرے دھیان کی بے تعلقی اور لاپرواہی۔ گھر کا ماحول سنورے تو کیوں کر سنورے۔
میں جانتا تھا کہ نانی ماں کو کس شخص سے شادی کرنے پر اکساتی رہتی ہے۔ اوپر کی منزل پر رہنے والے اکرم صاحب پہلے ہی دو بیویوں کے شوہر تھے۔ ایک تو یہیں رہتی تھیں اور دوسری ناظم آباد میں رہائش پذیر تھیں۔ کل تک جنہیں اکرم صاحب بھائی اور ان کی بیوی کو بھابی کہہ کر پکارتے تھے، ان کے انتقال کے چند روز بعد ہی انہوں نے اس بھابی کے لیے شادی کا پیغام دے ڈالا ،اور کہہ دیا کہ میں عدت ختم ہونے کا انتظار کروں گا۔ میں نہیں چاہتا کہ میرے بھائی جیسے دوست کی بیوی اب ماری ماری پھریں۔ ماں نے یہ سب بہت خاموشی سے سنا تھا۔ گو کہ یہ سن کر ماں کے اند رابال سا آیا تھا کہ سارا سچ اگل دے۔ درد میں ڈوبا ہوا سچ۔۔۔ وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر باتھ روم کی طرف دوڑی۔ پر کچھ نہ نکلا وہ اپنے اندر ہی سب کچھ سہہ گئی۔ الٹی بھی اور سچ بھی۔ وہ کیا کہنا چاہتی تھی، اس وقت میں بھی نہ سمجھ سکا تھا، جب کہ میں ماں کے بہت نزدیک تھا۔ مگر نانی خاموش نہ رہ سکیں۔
’’آخر اس میں حرج ہی کیا ہے؟‘‘
’’ہونہہ!‘‘
ماں غصے میں پھنکاری تو نانی خاموش ہوگئی۔ مگر تھوڑی دیر کے بعد خود ہی بڑبڑانے لگی۔
’’مر نے والے نے کیا سکھ دیا۔ برسوں ملک سے باہر بیوی بچوں سے دور رہا۔ پانچ سال تک خبر نہ لی۔ تھوڑے بہت پیسے بھیجتا رہا۔ وہ بھی بس گزارے کے ۔ ہاتھوں میں ڈالنے کے لیے دو سونے کی چوڑیاں بھی نہ بنواسکی۔ ساری زندگی کانچ کی چوڑیاں ہی ڈالے رکھیں اور اب اس سے بھی گئی۔ اور پھر جب لوٹا تو کیا لوٹا، ایک مردہ جسم کی طرح۔ اللہ توبہ آدمی دیکھے تو ڈر جائے اور پھر دیکھو آتے ہی ایک بچی پیدا کر ڈالی۔ معذور گوشت کے لوتھڑے کی طرح۔ جس میں سانس صرف گلے اور پیٹ تک اٹکی ہوئی ہے۔ آدمی اپنی حالت سے اندازہ لگائے کہ اس حالت میں بچے پیدا ہوں گے تو کیسے ہوں گے۔ بس بے چاری عورت ہی عذاب میں مبتلا ہوگی اور کچھ نہیں۔ برسوں ہماری بچی نے دکھ جھیلا اب چلو پاپ کٹا۔ اللہ اللہ کرکے مٹی آسان ہوگئی۔ اب اللہ رسول کی سنت پوری کرنے کو کوئی آگے بڑھ کر ہاتھ پکڑنا چاہے تو عورت لاٹھی سمجھ کر ہی تھام لے۔ پہاڑ جیسی زندگی ایسے ہی تو نہیں کٹنے کی‘‘۔
نانی جب بول رہی تھیں تو مجھے ابو کا پاکستان آنا یاد آیا۔ وہ جب بٹسوانا (ساؤتھ افریقہ) گئے تو میں بہت چھوٹا تھا۔ ان کا جانا تو مجھے یاد نہ تھا البتہ جب وہ لوٹے تو میں گیارہ سال کا تھا اور اپنے باپ کو پہچان سکتا تھا۔ مگرانہیں دیکھتے ہی مجھے او رماں کو جھٹکا لگا۔ میں نے ان کی جو تصویریں دیکھی تھیں وہ ان سے مختلف لگے۔ بہت کمزور، دھنسے ہوئے گال اوردھنسی ہوئی آنکھیں، جن میں کوئی چمک کا شائبہ نہ تھا۔ سر کے بال فوٹو کی نسبت آدھے ، جسم کمزور، دیکھنے سے ہی اپنی عمر سے زیادہ کے لگ رہے تھے۔ ماں نے ابو سے پوچھا بھی مگر وہ ٹال گئے۔
ابو فرنیچر بنانے کے بہت اچھے کاریگر تھے۔ ان کی مہارت کا ثبوت گھر میں بیڈ روم سیٹ، الماریاں اور لاؤنج میں بڑی ڈائننگ ٹیبل، منقش مینا کاری، کٹاؤ اور بناوٹ کے بطور یادگار موجود تھے۔ واپس آنے کے بعد انہوں نے اپنے پرانے کارخانوں میں رجوع کیا کچھ دن کام پر جاتے رہے، مگر پھر ایسے بیمار پڑے کہ ہتھوڑی پکڑنا اور آری چلانا بھی مشکل ہوگیا۔ ان کے ہاتھوں میں جیسے رعشہ اتر آیا ہو۔ وہ چھوٹے موٹے ڈاکٹروں سے علاج کرواتے رہے مگر ٹھیک نہ ہوپائے۔ ماں نے بڑے ڈاکٹر کو دکھانے کی ضد کی تو ایک بار پھر ٹال گئے۔
دن بہ دن بڑھتی ہوئی کمزوری نے ابو کو بستر سے لگادیا تھا۔ پھر ایک دن ان کے پرانے دوست اور کارخانے دار ملنے آئے۔ ماں نے ان کی باتیں سن لیں۔ ان کے جانے کے بعد گھر میں طوفان آگیا۔ ماں کے چیخنے چلانے اور رونے کی آوازوں میں ایک لفظ بار بار سننے کو ملا، اور میں کچھ کچھ سمجھ گیا کہ میرے ابو کو آخر کیا بیماری ہے۔
واشنگ مشین میں مسلسل کبھی دائیں اور کبھی بائیں گھومتے ہوئے کپڑے اب رک چکے تھے۔ بزر بند ہوچکا تھا۔ میں نے ڈرین کا بٹن کھول دیا۔ صابن کے آمیزے والا پانی جو کہ اب بے حد گدلا ہوچکا تھا، نکاس کے راستے ملحقہ باتھ روم میں جانے لگا۔ میں نے سامنے والے بلاک کے اس دریچے کی طرف دیکھا جہاں بوند بوند گرتا پانی تھوڑی دیر پہلے کسی کو گیلا کررہا تھا۔ مگر اب وہاں کچھ نہیں تھا۔ دریچہ کھلا ہوا تھا۔ میرے تجسّس نے مجھے اکسایا اورمیں دیگر فلیٹوں کے دریچوں میں جھانکنے کی کوشش کرنے لگا ، مگر کہیں کچھ بھی نہ تھا۔ ہاں بعض گیلریاں انسانوں سے بھری ہوئی تھیں۔ مگر میری دلچسپی ان میں نہ تھی۔
دراصل میں نے ماں سے سننے کے بعد ہی جانا تھا کہ ابو اپنے ساتھ کتنی سنگین بیماری لگا لائے تھے۔ ماں نے بتایا کہ ایسے مریض کو حکومت کی ہدایت کے مطابق اپنی بیماری کی اطلاع محکمہ صحت کو دینا چاہیے، تاکہ اس کا سد باب کیا جاسکے، جیسا کہ اکثر ٹی وی پر بتاتے رہتے ہیں۔ مگر جب ماں نے ابو سے یہ کہا تو وہ ماں کے آگے ہاتھ جوڑ کر بولے کہ میں لوگوں کی بے رحمانہ نگاہوں کا سامنا نہیں کرسکوں گا۔ لہذا مجھے گھر میں ہی مرنے دو۔ ابو کی قابل رحم حالت دیکھ کر ماں جانے کیسے خاموش ہوگئی۔ ماں نے مجھے سمجھادیا تھا کہ باہر کسی سے ذکر نہ کرنا۔ مجھے اتنا اندازہ تھا کہ ماں ایسا کیوں کہہ رہی ہے، اور مجھے سمجھ میں آگیا تھا کہ لوگوں کو نہ بتانے میں ہم سب کی بھلائی ہے۔ ان ہی دنوں ماں نے ایک انڈسٹریل ہوم میں نوکری کرلی تاکہ گھریلو اخراجات پورے ہوتے رہیں۔ ابو اتنا عرصہ بٹسوانا سے جو کما کر لائے، ماں نے اس سے یہی فلیٹ خریدلیا ،جس میں ہم اب تک کرائے پر رہتے تھے۔ ماں نے اپنی مدد کے لیے گاؤں سے نانی کو بلوالیا۔ مگر جہاں نانی کی موجودگی سے سہولت تھی، وہیں ان کی چک چک بھی سننا پڑتی تھی۔
نانی ماں سے اکثر کہتی ہیں کہ تو نے اپنے میاں کی بہت خدمت کی۔ یہ بات نانی ٹھیک ہی کہتی ہیں۔ میں نے خود ماں کو ابو کے سارے کام کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ابو کی کمزوری دن بہ دن بڑھتی جارہی تھی۔ میں ان کے کمرے میں جاتے ہوئے ڈرتا تھا۔ مجھے ایسا لگتا جیسے وہاں کوئی آسیب ہے، دیواروں سے کوئی بلا لپٹی ہوئی ہے۔ بستر پر میرے ابو کو کئی بلاؤں نے جیسے جکڑ رکھا ہو اور ان کے سینے پر سوار ہو کر اپنے بھاری پنجوں سے مسلسل دبا رہی ہوں۔ کوئی ان کے بالوں کو نوچتی ہے اور کوئی ان کی آنکھوں میں نوکیلے ناخن گاڑھ دیتی ہے۔ جس سے آنکھوں میں زندگی سے مایوسی کا گھاؤ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ مدافعت نہ ہونے کی وجہ سے بے بسی اور لاچاری کمرے کی فضا میں چاروں طرف پھیلتی چلی جارہی ہے۔ اس بے بسی اور لاچاری کو دور کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا۔ کیونکہ ماں نے مجھے بتایا تھا کہ اس مرض کا کوئی علاج نہیں، اور نہ ہی اس سے چھٹکارے کی کوئی اور صورت ہے ۔ سوائے موت کے۔
ایک رات ماں نے مجھے اس بیماری کے بارے میں اوراس کے پھیلنے کے اسباب کے بارے میں سب کچھ بتایا۔ وہ سب بھی جو شاید کوئی ماں اپنے جوان ہوتے بیٹے کو نہ بتا پائے۔ مگر ماں جس دکھ اور کرب سے گزررہی تھی، اس نے اسے کچھ باتوں میں بہت بہادر اور کچھ معاملات میں انتہائی کمزور بنادیا تھا۔ ہمارے گھر کی طرف دبے پاؤں بڑھنے والی موت کے اندیشوں اور اس کی ہولناکی نے میری ماں کو جہاں بہت کمزور کیا تھا، وہیں جب وہ مجھے دیکھتی تو میں اسے ایک بہادر عورت کی صورت میں پاتا۔ مجھے لگتا کہ وہ مجھے زندگی کے سارے تجربوں سے آشنا کردینا چاہتی ہے۔ اس رات میں نے ماں کی ساری باتیں سرجھکا کر سنی تھیں۔ اور اپنے گھر کی دہلیز پر بیٹھے موت کے فرشتے کو بھی دیکھا تھا۔ مجھے لگا جیسے میرے باپ سے لپٹے عفریتوں کو دیکھنے کے باوجود، وہ فرشتہ کسی مخصوص وقت کے انتظار میں ہے۔
توکیا مجھے اپنے باپ کی موت کی دعا کرنا چاہیے، تاکہ اسے مسلسل نوچتے کھسوٹتے عفریتوں سے نجات مل سکے۔ میرے اندر سے کسی نے چیخ کر کہا۔۔۔ نہیں۔۔۔
آخر کار انہیں عفریتوں سے نجات مل گئی۔ ماں نے بہت کم آنسو بہائے۔ شاید وہ اپنے حصے کے آنسو پہلے ہی بہا چکی تھی۔ موت کے آنے سے پہلے ہی اگر موت کی خبر آجائے تو آنسوؤں کا خراج بھی پہلے ہی ادا ہوجایا کرتا ہے اور آدمی جلد ہی صبر کرلیتا ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ عدت کے پہلے ہی ہفتے کوئی شادی کا پیغام یہ کہہ کر بھیج دے کہ ایسا کرنا عین سنت کے مطابق ہے، اورمذہب اس کی اجازت بھی دیتا ہے۔ لوگ بھی مذہب میں سے اپنے مطلب کی چیزیں کتنی جلدی ڈھونڈ نکالتے ہیں۔
جو کپڑے کھنگل چکے تھے۔ میں نے انہیں گیلری میں بندھی نائیلون کی رسی پر پھیلادیا تھا۔ جب میں نے مشین کے پیٹ میں اپنے کپڑے ڈال دیئے، تب مجھے یاد آیا کہ سارا کاٹا ہوا صابن تو میں استعمال کرچکا ہوں۔ مجھے اپنے کپڑوں کے لیے دوبارہ صابن کاٹنا ہوگا۔ سوچتا ہوں ماں کتنی کنجوس ہے۔ ایریل استعمال نہیں کرتی۔ کم از کم مجھے صابن تو کاٹنے سے نجات مل جائے گی۔ مگر میں جب بھی اس طرح کا کوئی سوال ان سے کرتا ہوں تو ماں مجھے کہتی ہے کہ جتنامیں کماتی ہوں اس میں گھر مشکل سے چلتا ہے۔ تمہاری پڑھائی کے اخراجات بھی ہیں۔ لہذا کوئی اضافی خرچہ نہیں کرسکتی۔ تب ایک رات میں نے ماں سے آہستہ سے پوچھا۔
’’نانی کے کہنے کے مطابق تم شادی کیوں نہیں کرلیتیں؟‘‘
ماں نے مجھے اپنے پیروں پر لٹا کر میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے جو کچھ کہا وہ سن کر میں ماں سے لپٹ گیا اور بولا:
’’کیا تم بھی؟‘‘
ماں نے اپنی ڈبڈبائی آنکھوں سے اثبات میں گردن ہلائی اورکہا۔
’’مجھے اس کی علامتیں محسوس ہونے لگی ہیں۔ مگر میں اتنی جلدی نہیں مروں گی۔ یہ مرض اتنی جلدی کھل کر سامنے نہیں آتا۔ تو اتنا بڑا ہوجائے گا کہ کمانے لگے۔ تیری شادی ہوجائے ہاں اگر میں پہلے مرجاؤں تو بس ایک بات کا خیال رکھنا، جب شادی کی عمر ہوجائے تو شادی کرلینا، بیوی سے دور مت رہنا اور اگر ملک سے باہر جاؤ تو اسے بھی ساتھ لے جانا، ورنہ اس کے ساتھ ہمیشہ رہنا۔ عورت اور بری صحبت سے بچنا، جیسا کہ میں نے پہلے تمہیں سمجھایا تھا۔ مجھے نہیں لگتا کہ تمہاری معذور بہن زیادہ جی پائے گی، مگر جتنا ہوسکے اس کا خیال رکھنا۔یہ تمہارے باپ کی غلطیوں کا کفارہ ہے، جسے شاید تمہیں ادا کرنا پڑے‘‘۔
اس رات ماں مجھے دیر تک سمجھاتی رہی اور میں اس کے پیروں پر سر رکھے چپکے چپکے آنسو بہاتا رہا۔ میں نے محسوس کیا کہ ہمارے گھر کی دہلیز پر موت کا فرشتہ اب بھی بیٹھا انتظار کررہا ہے۔ میں اپنی ماں سے پہلے بھی محبت کرتا تھا، مگر اس رات مجھے ا س سے محبت کی شدت کا احساس ہوا۔ اسی رات میں نے محسوس کیا کہ اب میں بڑا ہوگیا ہوں، اور نہیں ہوا تو ہوجانا چاہیے۔
میں صابن کے مزید ٹکڑے کرکے مشین میں ڈال چکا ہوں۔ نانی کے بڑبڑانے کی آوازیں اب بھی آرہی ہیں۔ سامنے والے بلاک کا وہی دریچہ پھر روشن ہوگیا ہے، نائیلون کی ڈوری پر سوکھتے ہوئے کپڑوں کی اوٹ سے سب کچھ دیکھنا اب اور آسان ہے، اب پھر بوندیں کہیں اور گررہی ہیں۔ اور گیلا کوئی اور ہورہا ہے۔ ماں کے انڈسٹریل ہوم جانے کا وقت ہوگیا ہے۔ مشین کے بڑے سے پیٹ میں صابن ملے گدلے پانی میں کپڑے پہلے سیدھے اور پھر الٹے چکر لگاتے ہیں، دیواروں سے ٹکراتے ہیں، اٹھکھیلیاں کھیلتے ہیں اور گلے ملتے ہیں۔ کانوں میں مشین کے چلنے کی اور نانی کے بڑبڑانے کی آوازیں ایک ساتھ آرہی ہیں۔
’’اللہ غارت کرے نئی سوچ کا۔ چار مہینے دس دن کی عدت پوری کرنے سے پہلے ہی عورتیں گھر سے باہر جانے لگی ہیں۔ اور اگر کوئی شرعاً ہاتھ تھامنے کی بات کرے تو تڑاخ سے جواب دیتی ہیں‘‘۔
(۲۰۰۲ء)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.