Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پرچھائیں

رفاقت حیات

پرچھائیں

رفاقت حیات

MORE BYرفاقت حیات

    وہ بےخبر تھا اور اپنے بچوں کے ساتھ ٹی وی لاؤنج میں کرکٹ میچ دیکھ رہا تھا۔ دوپہر کے بعد اب سہ پہر بھی گزرتی جا رہی تھی۔

    گرچہ اتوار نہیں تھا۔ پھر بھی اس کی بیوی نے کھانے میں خاص اہتمام کیا تھا۔ سری پائے، بریانی اور کھیر۔ ہر کسی نے پیٹ کی گنجائش سے زیادہ کھا لیا تھا اور اب وہ اپنی جگہ انگڑائیاں اور جماہیاں لیتا پاؤں پسارے پڑا تھا۔

    اس کی حالت سب سے زیادہ خراب ہو رہی تھی۔ وہ صوفے پر نیم دراز تھا اور بائیس انچ کی ٹی وی اسکرین پر ٹکٹکی لگائے ہوئے تھا۔

    میچ نازک مرحلے میں تھا۔ پچاس گیندوں پر اڑسٹھ رنز اور چار وکٹ باقی۔

    اس کی بیوی طشت پر تھرموس اور چین سے منگوائی ہوئی منقش پیالیاں سجا کر لے آئی۔

    سب کے سست جسموں میں سرگرمی نظر آنے لگی۔

    وہ بھی اٹھا اور صوفے سے پشت لگا کر بیٹھ گیا۔ اس نے بے صبری سے گرم چائے کا سڑپا لگایا۔

    بالکونی کی طرف کھلنے والے دروازے سے ہوا کے جھونکے داخل ہوئے۔ کھڑکیوں کے پردے پھڑ پھڑائے اور میز پر رکھے اخبار سر سرائے۔

    کھانے کی تنجیر سے گرم ہونے والے جسم نے آسودگی محسوس کی۔ وہ چائے کی پیالی تھامے اٹھا اور بالکونی میں جا کھڑا ہوا۔

    باہر کوئی دلکش منظر نہیں تھا۔ لیکن وہ آنکھیں مچمچا کر، پھیلا کر اپنی گلی کو دیکھنے لگا۔

    ٹی وی لاؤنج میں بچوں نے شور مچایا۔ ’’چھکا!!!‘‘

    یہ غلغلہ اس کی توجہ نہیں کھینچ سکا۔

    دیکھتے دیکھتے وہ ایک دلچسپ انکشاف کی زد میں آ گیا۔ اس انکشاف کا باعث اس کی اپنی گلی تھی۔ جو برس ہا برس تک اوجھل رہنے کے بعد زندہ وجود کی طرح سانس لیتی اچانک اس کے سامنے آ گئی تھی۔

    وہ دیکھ رہا تھا۔ کھلی آنکھوں سے دیکھے جارہا تھا۔ جذب کے ایک عالم میں۔ معمولی چیزوں کو باریک جزئیات کے ساتھ۔ وہ چاہتا تھا کہ کوئی بھی شے نگاہوں کی زد میں آنے سے رہ نہ جائے اور ایسا کچھ باقی نہ بچے اس کی نظریں جس کی تہہ میں اتر نہ جائیں۔

    نکڑ پر کھڑا ہوا نیم داہنی طرف زیادہ ہی جھک گیا تھا۔ گلی میں داخل ہونے والے راستے پر چھاؤں تھی۔اترتی ہوئی شام نے جسے مزید گہرا کر دیا تھا۔ ہوا سے جھولتی شاخوں پر چڑیاں اور لالیاں پھدک رہی تھیں۔ زمین پر نمولیاں اور زرد پتیاں بکھری تھیں۔ ایک لڑکا درخت پر چڑھنے کی کوشش میں مصروف تھا۔ اس کے ساتھی شور مچاکر اس کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔

    نکڑ سے ذرا ادھر مسجد کے صدر دروازے کے باہر جوتیاں بے ترتیب پڑی تھیں۔ دوری کے سبب وہ جوتیوں کے رنگ اور قسمیں نہیں دیکھ سکا۔ مسجد کے پانچ مینار اک دوسرے سے مخصوص فاصلے پر کھڑے تھے۔ بیچ والے بڑے مینار کے سرے پر لاؤڈ اسپیکر بندھا تھا۔ دوسرے دو مینار اس کے پیچھے گم ہو گئے تھے۔تیز دھوپ اور بارشوں نے ان کی سبز رنگت کو سفید مائل کر دیا تھا۔ مسجد کا اگلا حصہ مکانوں کی اوٹ میں چھپا ہوا تھا۔

    شاید پہلی مرتبہ اس نے گلی کی سطح کو غور سے دیکھا۔ مسجد کے نزدیک سیمینٹ کا پختہ فرش تھا۔اس سے آگے آخری کونے تک کچی زمین تھی۔ جس کا رنگ کہیں سے بھورا تھا اور کہیں سے زرد۔

    ایک بوڑھا شخص اپنے گھر کے دروازے سے، ایک ہاتھ میں حقہ اور دوسرے میں چھوٹی موٹی لکڑیاں اٹھائے، باہر نکلا۔ اس نے حقہ تھڑے پر رکھا۔ ایک لکڑی سے زمین کو صاف کیا۔ پھر دوسری لکڑیوں کو ترتیب سے جماکر، دیا سلائی سے انہیں آگ دکھانے لگا۔تین چار تیلیاں ہوا نے بجھا دیں۔ اس نے خفگی سے ہوا کے رخ کو دیکھا۔ اپنی جگہ تبدیل کر کے اس نے ماچس جلائی تو لکڑیوں نے آگ پکڑ لی۔ وہ تھڑے پر بیٹھ کر ان کے راکھ بن جانے کا انتظار کرنے لگا۔

    چائے ختم ہو گئی۔ وہ پیالی ہاتھ میں لیے کھڑا رہا۔

    ایک عجیب مسرت میں سانس بھرتے ہوئے اس نے کہنیوں کو بالکونی پر لٹکایا اور آس پاس کے مکانوں پر نظر دوڑانے لگا۔

    ایک مکا ن کی بالائی منزل والی کھڑکی میں نوجوان لڑکی کا چہرہ دکھائی وہ کبھی پردے کی اوٹ میں چلی جاتی اور کبھی سامنے آکر جھانکتی۔ کبھی بات کرتے ہوئے اس کے لب ہلتے اور کبھی وہ ہنستی ہو ئی ہاتھوں سے اشارے کرنے لگتی۔نیچے گلی میں ایک دبلا سا لڑکا سر اٹھائے اسے دیکھ رہا تھا۔

    وہ مسکرا دیا اور مسکراتا رہا، پھر خاموش ہنسی ہنسنے لگا۔

    اس کی آنکھوں میںپانی بھر آیا اور اسی لمحے داہنی آنکھ سے ٹپکنے والے ایک قطرے نے اسے دوسرا جنم دے دیا۔ وہ اپنے دل میں میٹھا میٹھا اضطراب محسوس کرنے لگا۔

    اس نے ٹھنڈا سانس بھرتے ہوئے گردوپیش کی تمام چیزوں کو خود میں سمولینا چاہا۔

    اس کا چھوٹا بیٹا اس کی ٹانگوں سے لپٹ کر چیختے ہوئے اسے بتانے لگا۔’’ ابو صرف دس گیندوں پر سولہ رنز‘‘

    وہ چونکا۔

    دوسرے بیٹوں نے بھی اسے آوازیں دیں۔’’آجائیں، میچ آخری مرحلے پر ہے‘‘۔

    اس نے بےدلی سے کہہ دیا۔ ’’اچھا آتا ہوں‘‘۔

    اس کی نشست خالی تھی۔ وہ جا بیٹھا اور میچ دیکھنے لگا۔

    وہ اب ہار جیت سے بےنیاز تھا۔

    اس کی بیوی نے اسے گھورا تو وہ اس کے اندیشوں پر جی میں مسکرانے لگا۔

    شب خوابی کے کمرے میںنیلی روشنی پھیلی تھی۔فوم کے گدے پر بچھی ریشمی چادر پر وہ اپنی بیوی کے پہلو میں لیٹا تھا۔ کمرے کی فضا میں خوشبو رچی ہوئی تھی۔ خوشبو اس کی بیوی کے گداز جسم کی، اس کے وصال کے لمحے کی، بدیسی عطر اور امپیریل لیدر صابن کی۔

    وہ آنکھیں میچے خوشبوؤں کے لباس دیکھ رہا تھا۔ اپنے تخئیل میں ان کے چہرے تراش رہا تھا۔

    تھوڑی دیر بعد بوس و کنار کی لذت معدوم ہو گئی اور خوشبوئیں کونے کھدرے میں جا چھپیں۔

    اس نے آنکھیں کھولیں اور میٹھے میٹھے سانس بھرے۔بستر پر لیٹے اس نے کمرے کی چیزوں کو دیکھا اور ایک خوشگوار حیرت میں ڈوب گیا۔

    رات کا نیلاپن ہر طرف پھیلا تھا۔ اس نے سوچا کہ آس پاس جھیل کا پانی تھا۔ جس میں چھوٹے بڑے ستارے ادھر ادھر بکھرے تھے۔ وہ کمرے کی تمام چیزوں کے ساتھ خوبصورت بجرے میں سوار تھا۔ مہاگنی کے پلنگ پر اس کی بیوی۔

    لیٹی ہوئی اس کی طرف دیکھتی، مسکرا رہی تھی۔ نیلگوں روشنی میں اس کے جسم کی گولائیوں میں عجیب دلکشی پیدا ہو گئی تھی۔

    وہ مسکرانے لگا۔ اس کا رواں دواں ایک مسرت سے نہال تھا اور یہ ایسے فنکار کی مسرت تھی جو تخلیق سے پہلے فن پارے کے طلسمی گلی کوچوں کی سیر کرتا ہے۔

    وہ اٹھ بیٹھا اور اسفنج کی چپلیں پہن کر نرم قالین پر چلتا کمرے سے نکل گیا۔

    ڈرائینگ روم میں اس نے دیوار پر بٹن کو ٹٹولا۔ ٹیوب لائٹ کی روشنی میں اس کی آنکھیں چندھیا گئیں۔

    سلیقے سے پڑی صاف ستھری چیزوں کو دیکھ کر اس نے سوچا۔ ’’کتنی بے عیب سجاوٹ ہے‘‘۔

    وہ دیوار پر خوبصورت منظر کی تصویر دیکھنے لگا۔ برف سے’’ڈھکے پہاڑ، سبزہ پوش وادی اور جھونپڑی نما مکان‘‘۔

    وہ ساگوان کی الماری کے پاس جا کھڑا ہوا۔ ترتیب سے رکھی کتابیں شیشے سے جھانک رہی تھیں۔ وہ ان کے نام پڑھتا رہا۔ وہ نام جو تیس برسوں کی گپھا میں گم ہو گئے تھے۔

    الماری کے شیشے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کی داہنی آنکھ سے ایک آنسو لڑھک کر گال پر پھیلتا چلا گیا۔ اس نے شہادت کی انگلی سے قطرے کو صاف کیا۔ پھر دودھیا روشنی میں اسے ایک نظر دیکھنے لگا۔ انگلی کے بالائی سرے پر نمی تھی۔اس نے زبان پر اس کا نمکین ذائقہ چکھا۔

    پشت پر ہاتھ باندھے سینہ پھلائے وہ کمرے میں ٹہلنے لگا۔

    اس کے ذہن میں آڑے ترچھے، کھردرے اور نرم خیالات رینگ رہے تھے۔ سر سراتے ہوئے خاموشی میں گونج رہے تھے۔ اس کے لیے ہر خیال بیش قیمت تھا۔ انمول تھا۔

    وہ ٹہلتے ٹہلتے تھم جاتا اور گردن اکڑ اکر چیزوں کو داد طلب نظروں سے دیکھتا۔ مسکراتے ہوئے سر کو جھٹکتا اور اپنے آپ سے زیرِ لب کچھ کہتا۔

    یکایک اسے کسی اہم شے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس نے کمرے میں ادھر ادھر دیکھا۔ وہاں کچھ بھی ایسا نہیں تھا، جو اس کے کام آ سکتا۔

    وہ دبے پاؤں چلتا، آہستگی سے دروازہ کھول کر بچوں کے کمرے میں داخل ہوا۔

    بالآخر وہ پڑھنے کی میز تک پہنچا۔ احتیاط سے اس کی سطح پر ہاتھ مارتا رہا۔ ایک نوٹ بک ہاتھ لگ گئی۔ اس نے دراز میں ٹٹول کر ایک قلم بھی ڈھونڈ لیا۔

    ڈرائینگ روم کی طرف آتے ہوئے اس کی سانسیں پھولی ہوئی تھیں اور اعصاب پر بوجھ زیادہ ہو گیا تھا۔

    صوفے پر نڈھال گرتے ہوئے اس نے قلم اور نوٹ بک کو پھینک دیا۔

    تھوڑی دیر بعد طبیعت بحال ہو گئی مگر پہلے والی کیفیت کا فور ہو چکی تھی۔ اس کا تخئیل ٹھس تھا اور لکھنے کی خواہش مردہ۔

    آہیں بھرتے ہوئے وہ اداسی میں پہلو بدلتا رہا۔

    ایک خیال نے اسے چونکا دیا۔ وہ اٹھ بیٹھا۔ اس نے بغیر تردد کے خیال کو فیصلے میں تبدیل کیا اور آنے والے دن کو اس کی تکمیل کے لیے مختص کر دیا۔

    دن چڑھے دیر گزر گئی تھی۔ اس کا کمرہ ایسے رخ پر تھا کہ وہاں روشنی نہیں آتی تھی۔

    چھوٹی بڑی خبریں پڑھنے کے بعد اس نے عاجز آکر اخبار کو تہہ کیا اور تکیے کے نیچے رکھ دیا۔ پھر ناک سے عینک اتاری اور داہنے ہاتھ میں پکڑ لی۔

    رات والا فیصلہ یاد آیا تو وہ سوچنے لگا۔ شاید بیوی اور بچے خفا ہو جائیں۔ مخالفت کرنے لگیں مگر مجھے باقی ماندہ زندگی اپنی مسرتوں اور خواہشوں کے ساتھ بسر کرنی ہے۔ ہاں بس اور اگلے ہی لمحے دوسری اہم باتوں نے اس کی توجہ کھینچ لی اور وہ مسکراتے ہوئے ان کی جزئیات نگاری میں مصروف ہو گیا۔

    اس نے سفید قمیض پر نیلی واسکٹ پہنی، سنگھار میز کے آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر بال بنائے چہرے پر کولڈ کریم لگائی اور قمیض کی بغلوں میں پرفیوم کی پھواریں پھینکیں۔

    وہ بتی جلائے بغیر آگے بڑھا تو پاؤں کو ٹھوکر لگ گئی۔وہ گرتے گرتے بچا۔

    بیوی کو بتائے بغیر اس نے الماری کے خفیہ خانے سے اپنی چیک بک نکال کر واسکٹ کی اندرونی جیب میں رکھ لی۔

    بینک خواجہ مارکیٹ میں واقع تھا۔ وہ پیدل چلتا وہاں پہنچا۔

    منیجر سے پرانی شناسائی تھی۔ اس نے زبردستی بٹھا لیا اور اس کے لیے چائے بنوانے لگا۔

    ’’آپ آتے ہی کب ہیں ؟ ہماری خوش نصیبی آپ کو لے آئی‘‘۔ وہ کھیسیں نکالتے ہوئے بولا۔

    ’’ریٹائر ہونے کے بعد عادتیں خراب ہو گئیں۔ برسوں کی تھکاوٹ اب جاکے اتری ہے۔سوچتا ہوں کہ پرانا مشغلہ دوبارہ اپنالوں ۔ ٹھیک ہے نا‘‘۔

    ’’جی ہاں، ہاں جی‘‘۔ منیجر نے بات نہ سمجھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔

    گھر میں دو میزیں ہیں۔ دونوں پر بچوں کا قبضہ۔ حد تو یہ ہے کہ میرے لکھنے کے لیے کاغذ اور قلم بھی نہیں اور کتابوں کو بیوی نے شو پیس بنا دیا۔

    ’’اچھا، واقعی۔‘‘

    چائے پی کر اس نے اجازت لی اور فرنیچر مارکیٹ کا رخ کیا۔

    وہ دوکان ڈھونڈتا رہا۔ کچھ برس پہلے جہاں سے گھر کا فرنیچر خریدا تھا۔

    کرسیوں، میزوں اور دوسری چیزوں سے بھری گلیوں میں چلنا محال تھا۔ وہ دوکانوں کے ناموں والی تختیاں اور بورڈ دیکھتا رہا۔

    تھوڑی سی خواری کے بعد ایک گلی کے آخری سرے پر اس نے رحمن فرنیچرز لکھا ہوا دیکھا۔

    چھوٹتے ہی اس نے دوکان کے مالک کو اپنی خواری کی رو داد سنائی۔

    پھر مطالبہ کرنے لگا کہ دوکان کا پرانا بورڈ ہر حال میں تبدیل ہونا چاہیے۔

    دوکان دار نے ٹھنڈا لانے کے لیے ملازم کو دوڑانے کے بعد اسے یقین دلا یا کے دو ایک روز میں نیا بورڈ لگ جائےگا۔

    چند لمحے سستا کر وہ فرنیچر دیکھنے لگا۔ زیادہ تر کھانے کی میزیں تھیں۔ یا پھر دفتری استعمال والی بے کشش میزیں۔ صوفے کے ساتھ والی میزوں کو وہ خاطر میں نہیں لایا۔

    وہ شکایت کرنے لگا کہ دوکان بےکار مال سے بھری ہوئی تھی۔

    دوکان دار نے بوتل تھماتے ہوئے، عاجزی کے ساتھ اسے بیٹھنے کے لیے کہا۔

    وہ بیٹھ کر بوتل کے میٹھے گھونٹ بھرنے لگا۔

    دوکان دار نے ایک رنگین کتاب کھول کر اسے مختلف قسم کے نمونے دکھاتے ہوئے کہا کہ وہ ان میں سے کوئی میز پسند کر لے۔ آرڈر پر تیار ہو جائےگی۔

    تصویریں غور سے دیکھنے کے بعد اسے سنہری رنگ کی میز پسند آئی۔ وہ اس کے ڈرائینگ روم کی چیزوں سے میچ کرتی تھی۔

    بیوی کی ہدایات کے باوجود وہ دام پر نوک جھونک کی عادت نہیں اپنا سکا تھا۔ اس نے میز کی تیاری پر خرچ ہونے والی رقم کا آدھا حصہ پیشگی ادا کر دیا۔

    دن بھر تیز دھوپ چھائی رہی۔ دوپہر کہیں سے بادل گھر آئے اور ہوا کھل کر چلنے لگی۔

    اسے گلیوں، بازاروں اور سڑکوں پر گرد اور دھوئیں سے اٹی فضا میں چلتے، گھومتے جو کوفت ہو رہی تھی، ختم ہو گئی۔ اس نے کوشش کی کہ عمارتوں، دوکانوں اور لوگوں کے بارے میں کوئی رومانوی نقطہ نظر اختیار کرے، اپنے تخئیل کی مدد سے دنیا کے ہنگامے میں کوئی جاذبیت ڈھونڈے۔

    لیکن اس کی سماعت ہر لمحہ کرخت اور نوکیلی آوازوں سے چھلنی ہو رہی تھی۔ اس کی آنکھوں کے چار سمت بےشکل ہجوم تھا اور دیواروں کا منظر تھا۔ اس کی سانسیں ڈیزل اور سڑکوں پر پھیلے گندے پانی کی بدبو سے بوجھل تھیں۔

    وہ خود پر خفا ہونے لگا کہ ان غلیظ جگہوں میں جمالیاتی پہلو ڈھونڈنا سراسر حماقت تھی۔ حسن کے مشاہدے کے لیے ناران اور کاغان جانا چاہیے۔

    اس کا تخئیل اسی جنبش کا منتظر تھا۔ اس نے ایک پل میں کئی تصویریں بنا ڈالیں۔

    گردوپیش سے دور نکلتے ہوئے اس نے فیصلہ کیا کہ مہینے بھر کے لیے وہاں چلا جائےگا اور دلجمعی سے اپنا کام کرتا رہےگا۔

    یہ سوچ کر وہ باقی ماندہ جھنجھٹ نمٹانے میں لگ گیا۔

    اس کی خواہش تھی کہ جس قلم کو لکھنے کے لیے استعمال کرے وہ بیش قیمت اورنفیس ترین ہو۔ لکھتے ہوئے انگلیوں پر دباؤ نہ پڑے اور تحریر بھی خوش خط ہو۔

    دوکاندار نے دیسی قلم دکھائے تو اس نے ہاتھ سے پرے ہٹاتے ہوئے غیرملکی پین دکھانے کی فرمائش کی۔ اگلے ہی لمحے کاؤئنٹر پر طرح طرح کے رنگ برنگے قلم جمع کر دیے گئے۔ روشنائی والے اور پوائنٹر، موٹی اور باریک لکھائی والے۔

    دو چار آزمائشی لکیریں کھینچ کر اس نے سارے قلم آزما ڈالے۔

    اسے مہنگا پارکر قلم پسند آیا۔

    اب کاغذ خریدنے کی باری تھی۔ اس نے ایک سو دس گرام والے ملائم کاغذ کی بارہ کاپیاں خریدیں۔

    وہ کاپیوں کے بنڈل اٹھائے، کندھے ہلاتا فٹ پاتھ پر چل رہا تھا کہ شو کیس میں سجی کتابوں نے قدم روک لیئے۔ وہ کتابوں کے سرورق دیکھنے لگا۔

    اس کے جی میں مزید روپے خرچ کرنے کی اکساہٹ پیدا ہوئی۔

    دوکان کا ادھیڑ عمر مالک باہر نکل آیا اور اس کے قریب کھڑا ہو کر اسے گھورنے لگا۔ وہ اپنی یادداشت کھنگال رہا تھا کہ اسے کتابوں میں گم یہ بوڑھا آدمی دیکھا بھالا نظر آتا تھا۔

    اس نے ہچکچاتے ہوئے احترام سے پوچھا۔ ’’وہ آپ صدیقی صاحب ہیں نا ؟‘‘

    عینک کے شیشوں میں آنکھیں گھماتے ہوئے اس نے مخاطب ہونے والے سیاہ فام کو غور سے دیکھا۔ ’’ارے ڈی سوزا۔ یہ تمہاری دوکان ہے‘‘۔

    وہ ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے دوکان میں داخل ہوئے۔

    دوکان کی الماریاں، فرش اور میز کتابوں سے اٹے تھے۔ کونے میں صرف ایک کرسی پڑی تھی۔ ڈی سوزا نے وہ کرسی اپنے بہت پرانے گاہک کو بیٹھنے کے لیے پیش کی اور خود کاسمو پولٹین رسالوں کے ڈھیر پر بیٹھ گیا۔

    وہ اپنے کاروبار کی بربادی کا رونا لے بیٹھا۔ پھر سنہرے ماضی کا راگ الاپنے لگا۔ جب آدھا بازار کتابوں کی دوکانوں سے بھرا ہوتا تھا اور لوگ ذوق و شوق سے مطالعہ کرتے تھے اور دھڑا دھڑ بکری ہوتی تھی۔

    ’’کیا زمانہ تھا صاب۔ اب تو سالا ہر طرف الیکٹرونکس کا دوکان کھل گیا۔‘‘ اس نے گفتگو کی تان ایک موٹی گالی پر توڑی۔

    کتابوں کا انبار دیکھ کر صدیقی کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ اس کی تھکن مٹ گئی اور اسے اپنے جسم کے اندر سفید روشنی دوڑتی بھاگتی محسوس ہوئی۔

    وہ ہونٹوں پر پھیلتی مسکراہٹ کو چھپاتے ہوئے ڈی سوزا سے کہنے لگا۔’’ ایک پڑھنے والا بھی جب تک زندہ ہے۔ کتابوں کا کاروبار ختم نہیں ہو سکتا۔ میں تمہارے سامنے ہوں۔ تیس برسوں میں ایک کتاب نہ پڑھی اور نہ خریدی۔ مگر کیا ہوا ؟ کچھ بھی نہیں۔ تمہاری دوکان موجود ہے اور تمہیں ایک پرانا گاہک بیٹھے بٹھائے مل گیا۔ تم خوش نہیں ہو۔‘‘

    ڈی سوزا اپنے سر کے بال بکھیرتے ہوئے اسے دیکھتا رہا۔

    صدیقی کبھی عینک کے اوپر سے اور کبھی شیشوں میں سے ڈیلے نکالتا کہتا رہا۔’’میں نہیں جانتا، کتنے برس باقی ہیں۔ لیکن وعدہ کرتا ہوں۔ جب تک زندہ رہا۔ تمہارا گاہک رہوں گا۔ تم جانتے ہو، مجھے کتابیں خریدنے کا کتنا شوق تھا۔

    ڈی سوزا کا سمو پولیٹن رسالوں پر ٹانگیں چڑھائے گم صم بیٹھا تھا۔ لیکن اب وہ چونکا۔ ہڑ بڑایا اور اس مرتبہ سر کے بجائے چوتڑ کھجاتے ہوئے تبیسی نکال کر ہنسنے لگا۔چائے بولنا بھول گیا۔ وہ چپلیں پہن کر باہر نکل گیا۔

    صدیقی اٹھا اور الماری میں کلاسیکی ناولوں کو ٹٹولنے لگا۔

    دوکاندار ہاتھوں میں کیتلی اور پیالیاں اٹھائے لوٹا۔ اس نے چائے سے بھری پیالی اپنے چہیتے گاہک کو تھمائی۔ وہ صدیقی پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ جب اس نے دو گھونٹ بھر کے چائے کی تعریف کی تو وہ شکن آلود چہرے پر مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے میٹھے لہجے میں بولا۔’’ صدیقی صاحب، آپ میرے بھائی ہیں۔ بڑا بھائی، ہیں نا۔‘‘

    اس نے اثبات میں سر ہلایا۔

    ہم آپ کو صاف صاف بتاتا ہے۔ ہم یہ دوکان فنس کرنا مانگتا۔ ہمیشہ کے لیے ایک دم فنس۔ یہ سارا کتاب تم خریدلو، دیکھو کتنا ہے گودام میں بھی رکھا ہے اور بالکل مفت صرف پچیس ہزار میں۔ بولو، منظور ہے ؟

    صدیقی کچھ نہیں بولا۔ حیرت میں اسے دیکھتا رہا۔

    ’’تم کتاب کا قدر جانتا ہو۔ اس لیے تم کو بولا‘‘۔ وہ اپنی رو میں کہتا چلا گیا۔

    صدیقی نے خیالوں میں ایک کمرہ بنا لیا۔ ایک ہال نما کمرہ۔ جس کے تین اطراف میں الماریاں تھیں، جو اوپر سے نیچے تک کتابوں سے ٹھا ٹس تھیں۔ وہیں ایک طرف اس کا پلنگ بچھا تھا اور پڑھنے کی میز اور کرسی رکھی ہوئی تھی۔

    دوکاندار کے جھنجھوڑنے پر وہ خیال سے نکلا۔

    اس نے بچی ہوئی رقم جیب سے نکال کر ڈی سوزا کو تھمائی اور باقی اگلے روز ادا کرنے کا وعدہ کیا۔

    ڈی سوزا نے چند خوبصورت کتابیں دیدہ زیب لفافے میں بند کر کے اپنی دوکان کے خریدار کو تحفتُا پیش کیں۔ اگلے ہی لمحے صدیقی دوکان سے نکلا۔

    وہ کچھ دیر یونہی ادھر ادھر گھومتا پھرا۔

    تیس برس بعد پسندیدہ مشغلوں کے ساتھ وہ ایک بھر پور دن گزار رہا تھا۔ اس کی زندگی بیتی ہوئی جوانی سے نتھی ہو گئی تھی۔ نہ اس کی ٹانگوں میں تھکاوٹ تھی اور نہ چہرے پر اداسی۔

    وہ ایک بھولی بسری عادت کو دوہراتے ہوئے کیفے ٹیریا میں جا بیٹھا۔

    کافی اور چکن سینڈوچ کا آرڈر دے کر وہ کیفے کی چیزوں کو مسرور نظروں سے دیکھنے لگا۔

    کچھ نہیں بدلا تھا۔ ویٹروں کے سوا اور دیواروں کی رنگت کے سوا۔ ایرانی مالک بوڑھا ہو گیا تھا۔ اس کے چہرے پر جھریاں تھیں اور اس نے داڑھی رکھ لی تھی۔ کاؤنٹر والا میز پرانا تھا اور اس پر رکھی نذر نیاز حسین والی صندونچی بھی پرانی تھی۔ گھوں گھوں کرتے پنکھے پرانے تھے اور قطاروں میں لگی نشتیں بھی پرانی تھیں۔

    ایک لڑکا اور لڑکی دروازے سے داخل ہوئے اور جلدی سے با لائی منزل والی سیڑھیاں چڑھنے لگے۔

    وہ مسکرایا اور مسکراتا رہا۔

    کیفے کے دروازوں سے باہر کا منظر معمولی تبدیلی کے ساتھ وہی پرانا تھا۔

    اس نے بےسبب آہ بھرتے ہوئے سوچا۔ کچھ نہیں بدلا، کچھ بھی۔

    وہ مزے سے چکن سینڈ وچ کھا رہا تھا۔ کہ دو اجنبی اس کے قریب سے گزرتے ہوئے ٹھٹھک کر رک گئے۔

    اس نے خفگی میں سر اوپر اٹھایا اور غصیلی نظر سے انہیں دیکھا۔ ایک شخص دبلا اور لمبا تھا اور اس کے سر کے بال سفید تھے۔ جبکہ دوسرا ناٹے قد کا موٹا آدمی تھا۔ اس کا سر بالوں سے عاری تھا۔

    وہ زیرِ لب مسکرا رہے تھے۔

    صدیقی سٹپٹا گیا اور نا ک پر عینک درست کرتے ہوئے انہیں گھورتا رہا۔

    سامنے والی دوہری نشت پر بیٹھ کر انہوں نے تعارف کروایا۔

    کیفے ٹیریا میں تین بھدے قہقہے گونجے اور وہ آپس میں بحثا بحثی کرنے لگے۔

    وہ پرانے یار لوگ تھے۔ ایک شاعر تھا اور دوسرا کہانیاں لکھتا تھا۔

    صدیقی نے محسوس کیا کہ زمانی فرق بالکل غیرحقیقی تھا۔ ابھی کل تک وہ انہی دوستوں سے ادبی معاملات پر الجھتا تھا۔ وہ لوگ آج بھی انہی موضوعات پر باتیں کر رہے تھے۔ اس نے سوچا کہ جسم کی ناتوانی اور بالوں کی سفیدی آدمی کو ضعیف نہیں بنا دیتی۔

    سفید بالوں والے دوست نے بتایا کہ وہ ایک ناول پر کام کر رہا تھا۔ جبکہ دوسرا دوست اپنے مجموعے کو ترتیب دے رہا تھا۔

    دوستوں کی باتیں سنکر وہ حسد میں پہلو بدلنے لگا۔

    اپنی برتری جتانے کے لیے اس نے دن بھر کی مصروفیت کا حال انہیں سنایا۔ پھر اس نے اپنی کتابیں میز پر بکھیر دیں۔

    یہ داؤ چل گیا۔ اس کے دوست ہجے کر کے بمشکل کتابوں کے نام پڑھ رہے تھے۔

    پہلے عمارتوں پر ٹھہری شام سڑکوں پر اتری اور گلی کوچوں میں بکھر گئی۔ پھر آسمان سے رات نازل ہوئی اور تمام اشیاء پر چھا گئی۔ کونوں کھدروں میں گھس کر بیٹھ گئی۔

    کیفے کے اندر پل بھر میں روشنیاں جل اٹھیں۔

    وہ تینوں گھڑی کی ٹک ٹک سے بے نیاز تھے۔ ان کے لیے یہ برسوں پرانی شام تھی۔ وہ بے فکر تھے۔ آزاد تھے۔ ابھی ہر چیز ان کی مٹھی میں تھی۔ وقت کی ساری سمتیں اور زندگی کی تمام گہرائیاں۔

    کیفے کا ایرانی مالک انگڑائیں لیتا اٹھا اور عملے کو ہدایات دے کر جماہیاں لیتا چلا گیا۔ خاکروب پنکھے بند کر کے فرش پر جھاڑو دینے لگا۔

    بیرے نے اپنا بل وصول کرتے ہوئے کیفے کے بند ہونے کی اطلاع دی۔

    وہ باہر نکلے اور فٹ پاتھ پر سر جوڑ کر کھڑے ہو گئے۔ کوئی بھی اپنے گھر جانا نہیں چاہتا تھا۔ وہ ایک اور ہوٹل کی طرف چل پڑے۔

    مارکٹیں بند ہو رہی تھیں لوگ بتدریج غائب ہوتے جا رہے تھے۔سڑکوں پر ٹریفک بہت کم رہ گیا تھا۔

    وہ ایک چوراہے پر واقع ریستوران میں جا گھسے۔ یہاں خوب گہما گہمی تھی۔

    نشست پر بیٹھتے ہی وہ بلند لہجے میں کہنے لگا۔ ’’دوستو، آدمی عجیب شے ہے۔ حیران کن۔ کس لمحے وہ کیا کر بیٹھے، کس وقت اس کے ساتھ کیا ہو جائے۔ کوئی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی، پیشن گوئی تو ممکن ہی نہیں۔ کیوں دوستو، کیا خیال ہے۔‘‘

    دوستوں نے اختلافات کی بوچھاڑ کر دی۔

    وہ دلجمعی سے ان کی گفتگو سنتا رہا۔

    تھوڑی دیر بعد وہ دانشوارانہ خیال آرائیوں سے نکلے اور زندگی کی چھوٹی چھوٹی باتیں کرنے لگے۔

    رات گزر رہی تھی دھیرے دھیرے اور مزید گہری ہوتی جا رہی تھی۔

    چوک سنسان ہو گیا۔ آہستہ آہستہ میزیں خالی ہو گئیں۔

    ایک آدھ گزرنے والی بس کا شور ریستوران کی اداس خاوشی کو روند ڈالتا۔

    وہ تینوں ریستوران سے نکلے اور چوک کے آخر تک بغیر کوئی بات کیے ساتھ چلتے رہے۔

    ان کے گھر مختلف سمتوں میں واقع تھے۔ الوداعی مصافحے کے بعد وہ مختلف سڑکوں پر بکھر گئے۔

    ویران فٹ پاتھ پر وہ اکیلا چلنے لگا۔ بالکل ایک پرچھائیں کی طرح۔

    سینٹ پال گرجا کی آخری گھنٹی بجی۔ وہ تحیر میں مبتلا ہو کر آواز کو سنتا رہا۔ پھر گرجا کی عمارت پر چمکتے چاند کی قدیم سحر انگیزی پر آہ بھرنے لگا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے