پارینہ لمحے کا نزول
سولہ برس سات ماہ پانچ دن دو گھنٹے اکیس منٹ اور تیرہ سیکنڈ ہو چلے تھے اپنے لیے اس کے ہونٹوں سے پہلی بار وہ جملہ سنے جو سماعتوں میں جلترنگ بجا گیا تھا مگر دِل کے عین بیچ یقین کا شائبہ تک نہ اتار سکا تھا۔
ایسے جملوں پر فوری یقین کے لیے کچی عمر کی جو نرم گرم زمین چاہیے ہوتی ہے وہ دائرہ دردائرہ گزرتے گھومتے ایک سے یخ بستہ دِنوں کی تہ در تہ برف تلے کب کی گَل کر نیچے بہت دُور کھسک چکی تھی۔ ایسے میں وہ جملہ جو سماعت بیچ جلترنگ بجا گیا تھا۔ پکی عمر کی پتھریلی سطح کے کرخت پن سے پھسل کر بدن کی کھنکتی مٹی پر جھنکار چھڑکنے لگا تھا۔ کیوں کہ بدن کی تنی کمانوں کی تانت جو کب کی ڈِھیلی پڑنے لگی تھی۔ پھر سے تن گئی تھی۔
یقین نہ تھا ہاں گماں تھا۔ گُماں بھی یوں تھا کہ انتظار کی ڈِھیلی ڈور کے اس سرے پراوپر کی بے آبرو ہوا میں جھولتی پتنگ ابھی تک بہ ہرحال تھی‘ اگرچہ نہ ہونے کے برابر تھی کہ ہتھیلی پر کشید لکیروں سے لگی ڈورانگلیوں کی پوروں کو تو کاٹتی تھی مگر کوئی بھی تُنکا بے حیثیت ہوا میں ڈولتی پتنگ تک منتقل نہ ہونے دیتی تھی۔
میں اوپر دیکھتی تھی اور جھولتی پتنگ کے سنگ خودبھی جھول جاتی تھی کہ آنکھ چندھیاتی تھی اور اوپر سے برستی دُھوپ بارش سارا بدن بھگوتی تھی۔ کچھ خبر نہ تھی کہ ڈور کے اس سرے پر پتنگ بندھی تھی یااس سرے پر میں خود۔ ایسے میں یقین دل کے بیچ کیوں کر اترتا مگر انتظار کی ڈُور سے لگا امید کا مانجھا تھا اور لپٹتی چرخی۔ جو مسلسل لپیٹے جا رہی تھی۔۔۔ تاہم جھول تھا کہ ختم ہونے میں نہ آتا تھا۔ انتظار دَھاگے کو دُھوپ بارش میں کھنچتے کھنچتے سارا بدن پاؤں کی اس ایڑی جیسا ہو گیا تھا جس کی جلد تڑخ کر منھ کھول دِیتی ہے اور تب تک کھولے رَکھتی ہے جب تک مرہماس کے بیچ نہاترے۔
ایسے ہی دِنوں میں سے ایک دِن تھا جب میرا باپ اپنی حویلی کے طویل آنگن کو پاٹتا۔ بارہ دری طے کرتاٗ گھمن گھیری ڈالتے زِینے چڑھتا وہاں آیا جہاں مجھ پر دُھوپ کی عجب بارش برس رہی تھی۔ مجھے حیرت ہو رہی تھی کہ وہ تو پہلے ہی روز سے مجھے بھلائے ہوے تھا‘ پھر وہ یہاں تک چل کر کیسے آیا۔ مگر جب میں نے اس کے ہاتھ میں تھمی ہوئی وہ لاٹھی دِیکھی جو اس کا سارا وجود سہارے ہوے تھی تو میں نے حیرت کی پھیلی چنی سمیٹ لی کہ اس کی ساری مجبوری سمجھ آنے لگی تھی۔
اس کی پہلی مجبوری یہ تھی کہ پہلی دو میں سے ایک کی کوکھ خالی بھڑولے کی طرح نکلی تھی جب کہ دوسری سے میں برآمد ہوئی تھی حالاں کہ وہ کچھ اور امید باندھے بیٹھا تھا۔ پھر انتظار کے طویل برآمدے سے گزر کر کئی اور کوکھیںاس نے قدموں تلے کچل ڈالی تھیں۔ یہاں تک کہ وہ لڑکھڑا گیا اور اب اس لڑکھڑاہٹ کے خوف نے وجود کو سہارے کے لیے اس کے ہاتھ میں لاٹھی تھما دی تھی؛ جو اس کی دوسری مجبوری تھی۔
یوں تو میرا وجود بھی محبوری کی بِیل بَن کراس کے خالی خولی آنگن میں اس کے اندیشوں کی دیوار پر چڑھتا چلا جاتا تھا مگر میرا یہ وجوداسے تب نظر آیا جب اس کے ہاتھ دوسری مجبوری لگی تھی۔اس نے گھوم کر پہلے اپنی حویلی کے طول و عرض کو دیکھا۔
ایسا کرتے ہوےاس کا ہاتھ اس کے دِل پر تھا۔
پھر اس نے کلف لگے شملے کو تھام کر بےتوقیر ہوا میں ڈولتی پتنگ کو دیکھا اور نفرت سے منھ موڑ کر حدِ نظر تک پھیلے سرسبز قطعات کو دیکھنے لگا جنہیں دیکھنے سے نظر نہ بھرتی تھی۔اس کی نظر ابھی تک نہ بھری تھی مگر اس کے کلف لگے شملے کا بوجھ اس قدر زیادہ ہو گیا تھا کہاس کی نگاہ خود بخود اس لاٹھی پر جا پڑی جو کچھ عرصے سےاس کے بدن کا حصہ بن گئی تھی۔ میں نےاس لاٹھی کو دِیکھا جو میرے باپ کے بدن سے کوئی مَیل نہ کھاتی تھی مگراس کے پورے وجود کو سہارے ہوے تھی۔
میرے باپ کے رَعشَہ زَدہ ہاتھوں نے میرے ہاتھوں سے ڈور تھام لی اور پتنگ بےتوقیر ہوا سےاتر کراس کے قدموں میں لوٹنے لگی‘ پھر وہیں ڈھیر ہو گئی؛ اس زمین پر کہ جس پر فقط میرے باپ کا نام لکھا تھا۔ ایسے میں۔ مَیں نےاسے دِیکھا تھا۔ جو میرے باپ کی لاٹھی بن کر آیا تھا اور اس کا وہ جملہ سنا تھا جو میرے چٹختے وجود کے بیچ پوری طرح سما گیا تھا۔
یوں نہیں تھا کہ اس کے صدق کی ایسی آنچ مجھ تک نہ پہنچ پائی تھی جو بدن میں یقیناً تارتی۔
اور یہ بھی نہیں تھا کہ میرے دِھیان کا دَھاگہ سپنوں کی کوئی اور پوشاک بن رہا تھا۔
وہ اپنے پورے مگر کچے بدن کی پوری سچائیوں کے ساتھ میرے مقابل تھا اور میں اپنے سارے مگر کرخت وجود کی مکمل صداقت کے ساتھاس کے سامنے تھی۔ تاہم بیچ کے نامعلوم پانیوں میں یقین کی ایسی سنہری مچھلی تھی‘ جو گرفت میں نہ آتی تھی۔
شاید یہی وجہ ہے کہ وہ لمحہ میری حیات کے عناصر منتشر ہونے تک میرے پلّو سے بندھا رہےگا اور مجھے اپنے پلّوسے باندھے رکھےگا۔
میں نے جس لمحے کو ایک خاص مُدّت سے ماپ کر نشان زدّ کیا ہے (اس میں آپ اب مزید سترہ سیکنڈ کا اضافہ کر سکتے ہیں) میرے بدن کی کھنکتی ٹھیکری کے بیچ یوں جھنکار چھڑکتا رہا ہے کہ مجھے گزری مُدّت کو ماپنے کے لیے اب تک کوئی کلینڈر نہیں دیکھنا پڑا؛ کلائی پر بندھی گھڑی پر نظر نہیں ڈالنا پڑی۔ نہاسے دِیکھنا پڑتا ہے اور نہ ہی آئینے میں خود کو... اندر ہی اندر ٹک ٹک ہوتی رہتی ہے اور وقت ساعت ساعت پہلے سے موجود حاصل جمع کا حصّہ بنتا رہتا ہے۔ یوں کہ جیسے ہر مظہر کی لہر شعور کے پانیوں کا حصہ بنتی چلی جاتی ہے۔
ایک خاص لمحہ عجب طور پر میرے اندر ٹھہر سا گیا تھا جو اگرچہ ایک ساعت کی کئی ہزارویں تقسیم کی رفتار سے پرے کھسک رہا تھا مگر اپنے حوالے کی ڈور مضبوطی سے لمحہ موجود سے باندھے ہوے تھا۔ بہت پہلے کہ جب مجھے اوپر کی بے توقیر ہوا سے سابقہ نہ پڑا تھا تاہم مہکتے پھولوں کا طواف کرتی تتلیوں کو پوروں سے چھو لینے اور کچے رنگوں کی ملائمت کو انگلیوں کے بیچ مسلنے کا عرصہ گزر چکا تھا‘ تب مجھ پر لفظوں کے گہرے پانیوں میں غوطہ زَن ہونے اور پہروں سانس روک لینے کاخبط سا ہو چلا تھا ۔ان ہی دِنوں میں نے مارکیز کو پڑھا تھا اور وہاں کہ جہاںاس نے وقت کوایسے ماپا تھا جیسے بعد ازاں میں ایک خاص لمحے کو ماپتی رہی ہوں تو مجھے حیرت ہوتی تھی ۔۔۔ مگر اب مجھے حیرت نہیں ہوتی۔
یہ سارا عمل ابھی چند سکینڈ پہلے تک حیرت کے پانیوں سے پَرے عین یقین کی دَھرتی پر یوں ہوتا رہا ہے جیسے سانس لی جاتی ہےدیکھا جاتا ہےسونگھا جاتا ہے۔ غیرمحسوس طریقے سے۔ جانے بوجھے بغیر۔ بے خبری میں.... یوں‘ کہ جیسے میرا بیٹا میری نظر کے سامنے اتنا بڑا ہو گیا تھا کہ میرے ہی ہونٹوں اور گالوں پر بوسہ دینے سے جھجکنے لگا تھا۔
میں معمول کی طرح آنکھیں بند کیے چہرہ اس کے سامنے کیے بیٹھی رہی۔ منتظر تھی اور پریقین بھی کہ ابھی میرے بیٹے کے ہونٹ تتلیوں کی طرح میرے ہونٹوں اور گالوں پراتریں گے اور اپنے لمس کی خُوشبو اور نمی کے دھنک رنگوں سے مجھے نہلا ڈالیں گے۔ بالکل اسی طرح جیسے وہ گزشتہ سارے عرصے میں کرتا آیا تھا اور جس کی سرشاری میں۔ مَیں اس لمحے کی جھنکار کو بدن ہی کے بیچ سمیٹے ہوے تھی۔
میں منتظر تھی۔۔۔ منتظر رہی۔
اور وہ جھجک کر دور کھڑا سراسیمہ نظروں سے دیکھتا رہا۔
اگرچہ میری آنکھیں بند تھیں مگر مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ وہالٹے قدموں دُور ہو رہا تھا۔
مجھے یوں لگا جب وہ دور ہو رہا تھا تو اس کے ننھے منے ہاتھوں میں پارینہ لمحے کے بوکے سے بندھی رَسی تھی جو بدن کی چرخی سے گھوم کر سارے درد کاپانی باہر نکال لائی تھی۔
درد کا یہ پانی رُکا کب تھا؛ اندر ہی اندر رِستا رہا تھا مگر اب کے یوں لگا کہ میرے بیٹے کی جھجک نے بوکا بھر کر اس پڑچھے میں ڈال دیا تھا جو سیدھا بدن کے باہر گرتا تھا۔
میں نے آنکھیں پوری طرح کھول کر پَرے کھڑے دِیوار سے لگے بیٹے کو دیکھا اور مجھے ایسا محسوس ہونے لگا ‘جیسے وہ میرا بیٹا نہ تھا۔ وہ تو وہ تھا جس نے کبھی میرے بدن کی کمانوں کی ڈھیلی تانت تن دِی تھی۔
میں بھاگ کر وہاں گئی جہاں ایک کونے میں وہ بیٹھتا تھا جس کا عکس میں نے اپنے بیٹے کے چہرے پر دیکھا تھا؛ وہ وہیں کچھ نہ کچھ پڑھتا رہتا تھا۔ کتابوں کے ڈِھیر کے بیچ بیٹھا کچھ لکھتا رہتا۔اس کے ارد گرد کاغذ ہی کاغذ تھے یا پھر بس کتابیں۔ ہاں‘ ملنے والے آ جاتے (جو اکثر آتے رہتے) تووہ ان سے باتیں کرتا رہتا۔ حکمت کی باتیں۔ دانش بھری باتیں۔ بڑی بڑی باتیں... ایسی باتیں کہ جو اس کا قد میری نظر میں اور پستہ کرتی رہتیں۔ تاہم یہی وہ باتیں تھیں جواس سے ملنے والےاسی جیسے لوگوں میں‘ اس کے لیے عقیدت بڑھاتی رہتی تھیں۔
میں دیکھتی ہوں۔۔۔ مگر۔۔۔ وہ نہیں دیکھتا ۔
یک لخت مجھے یوں لگا کہاس کا قد بہت بڑا ہو گیا تھا۔ اس قدر بڑا کہ میں ایک چیونٹی جیسی ہو گئی۔اس کا وجود پورے گھر میں پھیل گیا اور میں کہیں بھی نہیں تھی ۔ حالاں کہ اس سے پہلے میں سارے گھر میں تھی ۔ اس سارے گھر میں کہ جس کے باہر اس کے نام کی تختی لگی ہوئی تھی اور وہ خود کہیں نہیں تھا۔ اس کونے میں‘ کہ جہاں وہ بیٹھا رہتا‘ شاید وہاں بھی نہیں تھا۔
اس نے میرے وجود کے اجنبی پن سے گھبرا کر جہاں پناہ لی تھی ‘وہاں تخلیق کی دِیوی اس پر مہربان ہوئی۔۔۔ یوں کہ وہ اپنے اندر اور باہر دونوں سمت پھیلتا چلا گیا۔ جب کہ وہ نہ تو میرے اندر تھا اور نہ ہی میرے باہر۔
نہیں۔ شاید وہ میرے اندر بھی تھا اورمیرے باہر بھی۔ اپنے اس جملے کی طرح جو بہت پہلے میرے بدن کی تنی کمان کی تانت بن گیا تھا۔
بس میں ہی اپنی آنکھیں بند کیے ہوے تھی۔ اندر کی بھی اور باہر کی بھی۔
وہ میرے لیے ناکارہ بے حیثیت وجود کی طرح تھا جو ایک کونے میں پڑا‘ ایسے لفظ جنم دیتا رہتا تھا جو اسے میری نظر میں معتبر نہ کر سکتے تھے۔
مجھے اس کے لفظوں سے کوئی سروکار نہ تھا۔
مجھے اس سے بھی کوئی سروکار نہ تھا۔
بس اتنا تھا (اور یہ کافی تھا) کہ وہ تھا اور میرے بیٹے کے لیے اس کا نام تھا۔ ایک ایسا نام جو اس گھر کی چاردیواری سے باہر بہت محترم تھا۔ اس کا اپنا وجود میرے لیے بےحیثیت تھا۔ بے مصرف‘ کاٹھ کباڑ جیسا ‘جس پر دھول جمتی رہتی ہے۔
وہ پہلے پہل مجھ سے محبت جتلاتا رہا ۔ میں اس کی محبت کے دعووں کو قہقہوں میں اڑاتی رہی۔
پھر وہ میرے وجود کے گلیشئر سے لگ کر یخ بستہ ہو گیا۔
اور بیچ میں وہ خاص مُدّت گزر گئی جس میں اب آپ کو مزید اکیس سکینڈ جمع کرنے ہوں گے۔
اس سارے دورانیے میں ہم دونوں کے بیچ کچھ نہ رہا۔
محبت نہ نفرت
بےحسی نہ گرم جوشی
عزت نہ تحقیر
نہ وہ میرے لیے تھا اور نہ میں اس کے لیے تھی۔
جب کوئی اس سے ملتا اور میرے لیے تعریف کے کچھ جملے کَہ دِیتا تو اسے خُوش ہونا پڑتا حالاں کہ یہ اس کے لیے نہ تو کوئی خُوشی کی بات ہوتی نہ دُکھ کی خبر۔
جب اس کا نام اخبارات میں چھپتا۔ اس کی تخلیقات کے ساتھ۔ اس کے اعزاز میں تقاریب ہوتیں یا دوست احباب اس کے بہت اچھا ہونے کی اطلاع دیتے تو میرے چہرے پر خُوشی آ جاتی۔ اطلاع دینے والے کے لیے‘ حالاں کہ میرے اندر اس کے لیے کوئی جذبہ نہ تھا۔
مگر ابھی ابھی۔ چند لمحے پہلے ‘مجھے بھاگ کر وہاں آنا پڑا تھا کہ میرا بیٹا جھجک کر پرے کھڑا ہو گیا تھا اورالٹے قدموں دور چلا گیا تھا اور اس کے چہرے سے اس کا چہرہ جھلک دینے لگا تھا۔
وہ ایک کتاب پر جھکا ہوا تھا۔۔۔ میںاس پر جُھک گئی۔
اُس نے حیرت سے میری طرف دیکھا۔ اس حیرت پران سارے لمحوں کے جالے تنے تھے جن میں اب آپ کو مزید اتنی صدیاں جمع کرنا ہوں گی جن کی گنتی میں اب بھول چکی ہوں۔
میں نے آنکھیں بند کر لیں اور پورا وجود اس کے سامنے کر دیا۔ یوں کہ بہت مُدّت پہلے ادا کیا گیا جملہ دوسرے سیارے سے آٹھ ہزار سال کے بعد پہنچنے والے سگنل کی طرح میرے بدن کے فلک کا پارچہ پھاڑتا عین میرے دِل کے بیچاترا‘ اور سنگلاخ چٹانوں کو توڑتا اندر کی مہکتی سوندھی مٹی کے قطعے میں بیج کی طرح دفن ہو گیا۔
میں نے آنکھیں بند رکھیں۔۔۔ اس لمس کے انتظار میں‘ جس میں مہک تھی اور اس نمی کے لیے‘ جس سے دَھنک رَنگ پھوٹتے تھے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.