پریشانی
وہ ہر بات مان لیا کرتی تھی، بلا تا مل۔۔۔ ہر حکم سر آنکھوں پر۔۔۔ جب میں کچن میں کوئی کام کرتی تو وہ میرے ہاتھوں سے چھین لیتی اور کہتی اب آپ کی بیٹی بڑی ہو گئی ہے، آپ صرف آرام کیجیے۔ جب میں اسے کہتی کہ ایک راج کمار آئےگا تجھے گھوڑے پر بٹھا کر لے جائےگا، تیرے سارے ناز اٹھائےگا تو وہ شرما جاتی اور کہتی مجھے نہیں کرنا شادی وادی۔
میری امید بھری خشک آنکھوں نے اس کے لیے کئی خواب بنے تھے۔ جب وہ تھوڑی بڑی ہوئی تو بھاگتی دوڑتی، اچھلتی کودتی پورے گھر کو روشن کرنے لگی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہماری نظروں کے سامنے وہ نجانے کب بڑی ہو گئی، پتا ہی نہیں چلا، کالج جانے لگی۔ ایک دن ہم سب اس کی نانی کے گھر جا رہے تھے۔ راستے میں ہماری گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ وہ مجھ سے اس طرح لپٹ گئی جیسے میرا غلاف بن گئی ہو، میرے حصے کے بھی سارے زخم اسے لگے۔ اس کا پیر بری طرح زخمی ہو گیا تھا، بہت خون بہا، مجھے ایک خراش تک نہیں آئی اور اس کا ایک پیر کاٹنا پڑا۔
زخم بھر جانے کے بعد وہ کالج جانے لگی تھی۔ ’’اپاہج، معذور، لنگڑی‘‘ جیسے لفظوں کی چاروں طرف گونجتی آوازیں اس کے کانوں کو نا گوار گزرتی تھیں۔ سب اس کا مذاق اڑانے لگے تھے اور اس نے کالج جانا بند کر دیا۔
اس کے بابا ہر وقت کہتے تھے ’’میری گڑیا کی شادی بڑی دھوم دھام سے کروں گا۔۔۔ سب د یکھتے رہ جائیں گے۔۔۔ دیکھ لینا۔‘‘
انھیں ہر وقت اب اس کی شادی کی فکر ستانے لگی تھی، چہرے پر ہمیشہ کھیلتی کودتی مسکراہٹ نجانے کہاں غائب ہو گئی تھی، ہر وقت ماتھے پر فکر کی لکریں میری جان نکال لیتی تھی، ان کی یہ حالت اب مجھ سے دیکھی نہیں جاتی تھی۔ جو بھی رشتہ آتا اس کی محرومی کو دیکھ کر لوٹ جاتا تھا۔
ایک روز وہ ہال میں بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔ اسی وقت میں نے اسے چائے بنا نے کا حکم دیا، وہ اٹھی، کچن میں گئی، گیس کا چولہا جلانے کے لیے لائٹر شروع کیا، ایک زور کا دھماکہ ہوا، لمبی لمبی آگ کی لپٹیں اٹھیں، وہ جل کر خاک ہو گئی اور میں خاموش کھڑی، آنکھوں سے جاری بےاختیار آنسوؤں کے ساتھ اس کے بابا کی طرف دیکھ کر من ہی من میں بول رہی تھی ’’میں نے آپ کی پریشانی دور کر دی۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.