Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پسپائی

شہناز پروین

پسپائی

شہناز پروین

MORE BYشہناز پروین

    ایک عرصے کے بعددل میں پھر ایک ہوک سی اٹھی اور وطن کی مٹی کی خوشبو نے سارے وجود کو لپیٹ میں لے لیا۔ ’’اتنے دنوں کے بعد جاکر کیا کروگی؟ اب تو وہاں کوئی بھی نہیں ہے تمھارا۔‘‘ میری دوستوں نے کہا تو میں رو پڑی۔

    ’’سب کچھ تو ہے میرا وہاں، میرا شہر، اسکول، کالج، یونیورسٹی، سمندر، میری شناسا سڑکیں، بوہری بازار اور سب سے بڑھ کر میرا گھر، جی چاہتا ہے ایک بار جاکر سب کچھ آنکھوں میں پھر سے اتار لوں۔‘‘

    ’’لیکن اب تو سارے شناسا پیارے چہرے تہہ خاک ہوں گے، بزرگوں میں کوئی بھی نہیں ہوگا، ہماری عمروں کے لوگ زیادہ تر یہیں ہیں۔‘‘

    ’’اسی لیے تو جا رہی ہوں، ابھی تو چند دوست وہاں ہیں، پھر جانے موقع ملے نہ ملے۔‘‘ میں نے اس کی بات سنی ان سنی کی اور رخت سفر باندھ لیا۔

    ائیر پورٹ سے گھر آتے آتے مناظر بدلتے رہے۔ ’’یہ برج؟ یہ تو نہیں تھا اور ہیڈ برجز (over head bridges) اور انڈر پاسز کو دیکھ کر ایک طرف تو خو شی ہوئی کہ ہمارے شہر نے اتنی ترقی کر لی ہے دوسری طرف ایک بےکلی سی تھی، یہ شہر اتنا بدل گیا تھا کہ مجھے اپنا گھر تلاش کرنے میں بھی دیر لگی۔‘‘

    کراچی آنے سے پہلے میں نے اپنی ایک قریبی دوست کو فون کر دیا تھا اور اس نے سارے گھر کی صفائی ستھرائی کے بعد مجھے اطلاع دے دی تھی کہ،

    ’’اپنے کمرے میں جاکر آرام سے سو جاؤ، میں نے تمھاری خواب گاہ میں تمھاری پسندیدہ خوشبو کا چھڑکاؤ کر دیا ہے۔ ‘‘

    میں نے تالا کھولا مگر اپنے کمرے میں جانے سے پہلے میری ماں کے کمرے نے مجھے اپنی جانب کھینچ لیا عام طور پر یہ کمرا بند ہی رہتا تھا مگر میری دوست نے اسے بھی کھول دیا تھا تاکہ اسے بند دیکھ کر مجھے تکلیف نہ ہو۔ یہاں میرے والدین کے استعمال کی تمام اشیاء اسی طرح سجی تھیں جیسے ان کے زمانے میں ہوا کرتی تھیں، کمرے میں داخل کیا ہوئی یادوں کا پنڈورا بوکس کھل گیا، یہ کمرہ خالی کب تھا؛ سامنے آرام کرسی پر میرے والدکے ہاتھوں میں شیخ سعدی کی گلستان تھی، جو وہ وقت بے وقت ہمیں سناتے تھے، ماں نے دونوں بانہیں پھیلا دیں، ان کی آنکھیں نم تھیں۔

    ’’اتنی دیر لگادی آنے میں؟ میں نے کتنا انتظار کیا، میں نے ان کی گود میں سر رکھا اور نیند کی گہری وادی میں اتر گئی۔‘‘ بچپن میں جب مجھے نیند نہیں آتی میں ماں کے کمرے میں آ جاتی۔ ’’امی مجھے نیند نہیں آ رہی۔‘‘

    ’’کوئی بات نہیں میری بچی، میرے پاس آکر سو جاؤ پھر وہ مجھے اپنی بانہوں میں سمیٹ لیتیں اور میں سو جاتی۔‘‘

    ابو مسکراتے، ’’یہ اس کمرے میں آنے کے بہانے تلاش کرتی ہے۔‘‘

    میرا ایک ہاتھ امی کی بانہوں اور دوسرا ابو کے سینے پر ہوتا۔ میں کمرے میں کیا گئی دوسرے کمروں سے سارے بھائی بہنوں نے داخل ہونا شروع کر دیا پھر ساری رات سوتے جاگتے گزر گئی، بظاہر میں سو رہی تھی مگر ہر طرف سے آنے والی آوازوں نے مجھے اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔

    الٰہی یہ خواب ہے یا حقیقت، میں نے زور زور سے آنکھیں ملیں، لیکن یہ سب تو زندہ حقیقتیں تھیں، ہم سب مل کر اودھم مچا رہے تھے اور ہمارے والدین ہمیں بار بار خاموش رہنے کی تلقین کر رہے تھے۔

    دن کے بارہ بجے ٹیلیفون کی گھنٹی نے جگا دیا۔

    ’’میں نے تمھیں سونے کے لیے اچھا خاصا وقت دے دیا، جلدی سے اٹھ کر تیار ہو جاؤ، میں ناشتہ لے کر آ رہی ہوں۔‘‘

    اپنی دوست ہانیہ کی آواز سن کر میرے ہوش بجا ہوئے، سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ بیتی ہوئی رات فسانہ تھی یا ہانیہ کی آواز،

    وہ کہہ رہی تھی، ’’تم نے اپنے کمرے کی سجاوٹ دیکھی؟‘‘میں اس سے کیا کہتی کہ میں تو اپنے کمرے میں گئی ہی نہیں تھی۔

    اس نے کہا ’’دو چار دن آرام کرلو ،جٹ لیگ سے نکل آوگی تو تمھیں کرا چی کی سیر کراؤں گی۔‘‘

    ’’ارے نہیںیہ تو میرا شہر ہے، میں آنکھیں بند کر کے ہر جگہ جا سکتی ہوں۔‘‘

    ’’میری جان اب یہ شہر بالکل بدل گیا ہے، تمام سڑکیں اور بازار سب کے سب، اب طارق روڈ اور بوہری بازار کی جگہ بڑے بڑے مالز میں ایک ہی چھت کے نیچے ساری خریداری ہو سکتی ہے، پھر اب تم یہاں آنکھیں بند کرکے تو کیا آنکھیں کھول کر بھی ہر جگہ آنا جانا نہیں کر سکتیں۔ آج سے تیس سال پہلے کا زمانہ بھول جاؤ، اب تو ’’دن کو بھی یہاں شب کی سیاہی کا سماں ہے۔‘‘

    مجھے اس کی باتوں کا یقین نہیں آیا، اپنا شہر اتنا پرایا تو نہیں ہو سکتا، دوسرے دن میں اس کو بتائے بغیر بہادر آباد میں منی چینجر سے پیسے لے کر نکلی ہی تھی کہ چشمِ زدن میں کسی نے مجھے زور سے دھکا دیا، دوسرے لمحے جب میں سنبھلی تو میرا پرس غائب تھا، ٹیکسی والا بھاگ کر آیا، ’’باجی آپ کو پرس دوپٹے میں چھپا لینا چاہیے تھا۔‘‘

    میں نے اپنی دوست سے رابطہ کیا اور قریبی پولس اسٹیشن پر ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش میں وقت ضائع ہوتا رہا، بڑی مشکلوں کے بعد جب متعلقہ افسر آمادہ ہوا تو پہلا سوال یہ کیا:

    ’’بی بی آپ یہاں کتنے دنوں اور ہیں؟‘‘ اس عجیب و غریب سوال کا جواب دینے سے پہلے میں نے کہا۔ ’’آپ ابھی اپنا آدمی دوڑائیں وہ قریب ہی ہوگا،‘‘

    وہ زور سے ہنسا، ’’وہ تو اب تک بہت دور جا چکا ہوگا۔۔۔

    میں آپ کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں، ایف آئی آر کٹوائیں گی تو معذرت کے ساتھ آپ کو بہت پریشانی ہوگی، پولس آپ کے گھرروز روز آکر بہت سی تصویریں دکھائےگی یا شناخت کے لیے بار بار پولس اسٹیشن بلائےگی، اگر آپ نے صحیح شناخت کر لیا تو رقم ملے نہ ملے آپ کو دوسرے خدشات لاحق ہوں گے۔۔۔‘‘ ا س نے ہانیہ کی طرف دیکھ کر کہا،

    ’’آپ نیک بیبیاں ہو صدقہ سمجھ کر بھول جاؤ، شکر ہے جان بچ گئی، ویسے اب بھی کہو تو سو بسم اللہ،میں تابع دار ہوں۔‘‘

    میری دوست نے بھی یہی مشور ہ دیاکہ ’’اتنے تھوڑے سے دنوں میں اپنے آپ کو مصیبت میں مت ڈالو، آج کل یہی معمولات ہیں لہٰذا حالات سے سمجھوتہ کرو۔‘‘ اس نے مجھے چند محفوظ مقامات کے نام بتائے کہ وہاں عام آدمیوں کا گزر کم ہوتا ہے اور حفاظتی انتظامات بھی اچھے ہیں لہٰذا آئندہ کرنسی وہیں سے لیا کروں۔ شاپنگ کے لیے بڑے بڑے مالز دیکھ کر بہت اچھا محسوس ہوا کہ ہمارے شہر نے بھی اتنی ترقی کر لی ہے کہ ایک ہی چھت کے نیچے ہر قسم کی چیزیں ملنے لگی ہیں۔

    واپسی میں دو سڑکوں پر کسی مقتدر ہستی کی آمد کی بناء پر رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی تھیں اس لیے متبادل راستے پر بہت بھیڑ تھی، ہر سگنل پر گاڑیوں کو دیر تک رکنا پڑتا تھا، ایسے ہی ایک سگنل پر کسی نے آکر ڈرائیونگ سیٹ کے ساتھ والے شیشے پر زور زور سے کھٹکھٹانا شروع کر دیا، میں نے مڑ کر دیکھا تو تقریباً ہر گاڑی کے پاس کسی نہ کسی کھڑکی کے شیشے کے سامنے کوئی نہ کوئی کھڑا تھا، یکایک میری نظریں سگنل پر کھڑے سہمے ہوئے فقیروں کے چہروں پر پڑیں، اس وقت وہ حسبِ معمول گاڑیوں کے قریب نہیں آئے بلکہ دور دم سادھے کھڑے تھے۔

    میں نے اپنی دوست کی طرف رخ کیا وہ گلے سے اپنی چین نکال کر ڈرائیونگ سیٹ کے ساتھ والی کھڑکی سے اس آدمی کو دے رہی تھی جس کا دایاں ہاتھ لپٹی ہوئی چادر میں تھا، بعد میں معلوم ہوا س کے ہاتھ میں ایک ٹی ٹی تھی، قطار در قطار کھڑی ڈرائیونگ سیٹ اور بعض گاڑ یوں کی دوسری نشستوں کے سامنے ٹی ٹی کی زد پر بےبس مخلوق تھی، کوئی اپنا والٹ اور موبائیل فون حوالے کر رہا تھا تو کوئی ہاتھوں سے سونے کی چوڑیاں، گلے سے چین اور پرس سے کیش، سگنل ہرا ہوا تو ہر شئے معمول کے مطابق تھی۔

    ہانیہ کیا ہو گیا ہے ہمارے شہر کو؟ ہم تو بارہ بجے رات کے بعدبھی بےخوف وخطر ساحل سمندر سے واپس آیا کرتے تھے؟‘‘

    ’’تم اب بھی یہاں رہنا چاہتی ہو؟‘‘ اس نے میری طرف دیکھا۔ ’’اب میں زیادہ فکر مند ہوں، اس طرح سب نے ان کے خوف سے اپنے گھر چھوڑ دیے تو شہر پر اسی عفریت کا راج ہوگا ۔‘‘ وہ خاموش رہی اور مجھے اپنے گھر چھوڑ گئی۔

    میں چپ چاپ اپنے کمرے میں آئی، خالی کمرے کی ایک ایک چیز بول رہی تھی، چابی سے چلنے و الی گڑیا کو دیکھ کر محسوس ہوا جیسے وہ کہ رہی ہو۔ ’’تم ایک بار چابی گھماؤ میں پھر اسی طرح چل پڑوں گی۔‘‘ شیلف پر سجی ہوئی کتابوں سے شانتی، امن اور حفظ و امان کے الفاظ باہر نکل کرراستہ روک رہے تھے، زندگی، روشنی، خوشی اور مسکراہٹ جیسے الفاظ سوالیہ نشان بنے ہوئے تھے۔

    دو ہفتے تذبذب کے عالم میں گزرے، آے دن اخبارات کی سرخیاں دہشت گردی کی مختلف رودادوں سے بھری ہوتیں، محلے میں ماؤں نے بچوں کو خوف سے مسجد میں نماز پڑھنے سے روک دیا تھا مبادا کسی دھماکے کا شکار ہو جائیں۔

    دو دنوں کے بعد میری روانگی تھی، میں نے ہانیہ سے کہا۔ ’’میرا ٹکٹ کم از کم دو ہفتے اور بڑھا دو، میں سوچ سمجھ کر کوئی حتمی فیصلہ کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ اس نے میری طرف بڑی بےبسی سے دیکھا میں نے کہا:

    ’’خالد بن ولید نے کہاتھا،’’ موت مقدر نہ ہو تو زندگی خود موت کی حفا ظت کر تی ہے۔ ‘‘اس نے جواب میں کہا۔’’ او ر یہ بھی کہ ’’جب موت مقدر ہو تو زندگی خود موت سے جاکر لپٹ جاتی ہے۔‘‘

    رات کے سناٹے میں کلاشنکوف کی بو چھاڑ کی آوازیں ساری فضا میں گونج رہی تھیں، ٹی وی پر بریکنگ نیوز آ رہی تھی دہشت گردوں نے ہوائی اڈے پر حملہ کر دیا ہے، امریکا سے بچوں اور تمام بہی خواہوں کے فون آ رہے تھے، ’’فوراً واپس آ جائیں۔‘‘ امریکی حکومت نے بھی اپنے شہریوں کو پاکستان آنے سے روک دیا تھا اور پاکستان آنے والوں کو واپس آنے کی تاکید کی تھی۔

    میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا دل کی مانوں یا دماغ کی، میں نے ہانیہ کو فون کیا۔

    ’’میرا ٹکٹ آگے نہ بڑھانا، جیسے ہی راستے کھلیں گے ،میں پروگرام کے مطابق نکل جاؤں گی۔‘‘

    جہاز اڑان لینے کی تیاری کر رہا تھا، میں نے اپنی کم ہمتی، بزدلی، حماقت، منافقت اور پسپائی کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی دوست کو ایس ایم ایس پر خالد بن ولید ہی کا یہ پیغام بھیجا۔

    ’’دنیا کے تمام بزدلوں کو میرا یہ پیغام سنادو کہ موت اگر میدان جنگ میں ہوتی توسو جنگوں میں شریک ہونے والا خالد بن ولید کبھی بستر مرگ پر جان نہ دیتا‘‘

    جواب میں اس کی طرف سے آنے والا ایک مسکراتا چہرہ (smiley) میرا مذاق اڑا رہا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے