Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پیچاک

MORE BYشاہد جمیل احمد

    دریا، کنارا، دور تک چھوٹے اور درمیانے پیڑوں کے جُھنڈ اور پھر ایک بڑا درخت۔ درخت کا بھی کوئی نام نہیں، اسے بس ہم اس کی چھایا اور داڑھی سے پہچانتے ہیں۔ جب ہم درخت کی داڑھی دیکھتے ہیں تو کبھی اپنی چھاتی کے بالوں کو دیکھتے ہیں، کبھی اپنی بغلوں کو اور کبھی اپنی ٹانگوں کے بِیچ۔ وہ سامنے لمبا چلا آ رہا ہے جس کا جانور کی کھال کا ستر پوش چھال کا ازار بند ٹوٹنے کی وجہ سے اس کے گھٹنے پر جھول رہا ہے۔ مگر اسے اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ پھر ایک دم میں اپنے ستر کی طرف دیکھتا ہوں، وہاں تو کچھ بھی نہیں! میرا مطلب ہے کہ ستر پوش سرے سے ہے ہی نہیں۔ لمبے سے میری ملاقات اسی جنگل میں کچھ عرصہ پہلے ہوئی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے ایک دم چیتے کی سی لپک سے اپنے دفاع کیلئے ایک پودے کی قدرے موٹی شاخ توڑنے کی کوشش کی مگر بےسود۔ پھر میں نے خود ڈرتے ہوئے اُسے دونوں ہاتھ کے اشارے سے شانت رہنے کی تاکید کی اور وہ ادھ ٹوٹی شاخ کو چھوڑ کر میرے ساتھ چلنے لگا۔ اس رات اِس درخت تلے رات بسر کرنے والے ہم دو تھے۔ کبھی میری کچھ پل کو آنکھ لگ جاتی تو وہ جاگتا رہتا اور جب اسے گہری اونگھ آتی تو میں جاگنے لگتا۔ جب ہم دونوں سو جاتے تو درخت پربیٹھے بن مانس چپکے سے ہمارے پاس آتے اور ہمیں زور کی دو ہتھڑ مار کر کلکلاریاں کرتے واپس درخت پر چڑھ جاتے۔ کچھ دن تو ہم لوگ اکٹھے خوراک کی تلاش میں نکلتے اور جیسے ہی کوئی کچا پکا پھل پھول یا بےضرر کیڑا مکوڑا نظر آتا اس پر ایک دم پل پڑتے اور جو کبھی اس کے ہاتھ لگ جاتا اور کبھی میرے۔ پھر ایک صبح ہم نے بغیر آپس میں کچھ بولے اور اشارہ کئے اپنے راستے جدا کر لیے مگر شام ہوتے ہی ہم لوگ اپنے درخت تلے آ جاتے۔

    ایک دن لمبا اپنے ساتھ ایک چھوٹے کو بھی لے آیا۔ لمبے نے مجھے اشارے سے بتایا کہ چھوٹا اسے جنگل کی اس سمت سے ملا جس جانب سورج غروب ہوتا ہے۔ چھوٹا لمبے کو دیکھتے ہی چوپائے کی طرح چھلانگیں لگاتا آناً فاناً درخت پر چڑھ گیا۔ پہلے تو لمبا سمجھا کہ وہ بھی کوئی بن مانس ہے مگرپھر غور سے دیکھنے پر پتہ چلا کہ بن مانسوں سے ذرامختلف ہے اور شکل و شباہت میں اس سے زیادہ ملتا ہے۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے چھوٹے کو درخت سے نیچے اترنے کا کہا درخت سے اترنے کے بعد بھی وہ اس کے ساتھ ساتھ مگر کچھ فاصلے پر کبھی چوپایوں کی طرح اور کبھی دو پایوں کی طرح چلتا جا رہا تھا۔ درخت کے تلے پہنچ کر جب اُس نے مجھے وہاں پہلے سے موجود پایا توو ہ ایک دم ڈر گیا۔ جب اس نے ایک جانب کچھ پتھر پڑے ہوئے دیکھے اور تنکوں میں سلگتی آگ کو دیکھا تو اور بھی خوف زدہ ہوا۔ میں نے اور لمبے نے ہاتھوں سے بےشمار اشارے کرکے اسے سمجھایا کہ ہم اس کے دشمن نہیں۔ اب ہمیں رات کے وقت یہ سہولت ہو گئی کہ ہم میں سے کم از کم دو لوگ آسانی سے سو سکتے تھے۔ ویسے بھی جیسے جیسے ہماری تعداد بڑھ رہی تھی ویسے ویسے درخت کے بن مانس کم ہوتے جا رہے تھے۔ چھوٹا بھی صبح سویرے اپنی خوراک تلاش کرنے کیلئے جنگل میں نکل جاتا۔ اسے بن مانسوں کے بیچ بھاگنے اور ان کی خوراک چھیننے میں زیادہ مزا آتا تھا۔ شام کو مگر ہم تینوں پھر سے درخت تلے آ جاتے۔

    پھر ایک دن میری ملاقات موٹے سے ہو گئی۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور مجھے اپنے موٹے موٹے بازوؤں میں بھر کر کم گہری کھائی میں پھینک دیا۔ اس نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ پاس کھڑے پتانما تنے کے ایک پودے کی دو تین ایسی ضربیں لگائیں کہ تناخود ٹوٹ پھوٹ گیا۔ اس نے ایک بار پھر مجھ پر حملہ کرنے کیلئے کوئی چیز اٹھائی ہی تھی کہ میری آنکھوں کی لجاجت اس کی آنکھوں میں اتر گئی۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے پتے اور گارا ملی کھائی سے نکالا اور میرے ساتھ چلنے لگا۔ میں اسے درخت کے پاس لے آیا۔ پہلے تو وہ دو اور لوگوں کو وہاں موجود پا کر کچھ ٹھٹکا اور شاید اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ہم تینوں مل کر اس سے بدلہ لیں گے۔ مگر پھر میں نے بلکہ ہم سب نے دائیں بائیں اپنے سر ہلا کر اسے یقین دلایا کہ ہماری اس سے کوئی عداوت نہیں۔ اب تو ہم سب لوگ کبھی کبھی کوئی چھوٹا جانور بھی پکڑ لاتے اور کھال سمیت آگ پر بھون لیتے۔ موٹے کو جانور کھانے کا بہت شوق تھا۔ کبھی کبھی تو وہ صبح ایک جانور کو پکڑتا اور پھر سارا دن اسے جلانے اور کھانے میں صرف کر دیتا۔ اس نے جانوروں کو چیرنے پھاڑنے اور کاٹنے کے لئے طرح طرح کے پتلے نوکیلے اور تیز دھار پتھر بھی جمع کر لیے تھے۔ پھر ایک دن موٹے کو پتہ نہیں کیا سوجھا کہ اُس نے شام کو ہمارے لوٹنے تک چوڑے ہرے پتّوں اور درخت کی چھال سے ہم سب کے لباس تیار کئے۔ ہم سب نے یہ لباس پہنا اور گول دائرے میں ایک دوسرے کے پیچھے گھوم کر اور جھوم کر خوشی کا اظہار کیا۔

    جہاں تک دبلے کا معاملہ ہے تو وہ مجھے ہی ملا تھا۔ وہ نہیں ملا تھا بلکہ اس کی چیخ ملی تھی۔ جنگل کی دریا والی سمت اس کی چیخوں سے گونج رہی تھی۔ پہلے تو میں یہ سمجھا کہ شاید کچھ لوگ اسے لکڑ ی کے بھالوں سے مار رہے ہیں مگرپھر آہستہ آہستہ درختوں کی اوٹ سے دیکھا کہ اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے دریا میں تیرتی درخت کی جڑوں کو پکڑا ہوا ہے اور اس کی ٹانگیں پانی کے بہاؤ سے دور کھنچی ہوئی ہیں۔ وہ تو پانی میں بہہ ہی جاتا اگر میری نظر اس پر نہ پڑتی اور قریب ہی سے موٹا میری چیخوں کی آواز سن کر آنہ جاتا۔ ہم سب میں دبلا ہی وہ پہلا شخص تھا جسے ہم سے شروع میں خطرہ محسوس نہ ہوا تھا۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ پہلے ہی موت کے منہ سے واپس آیا تھا اور ہم لوگوں نے ہی اس کی جان بچائی تھی۔ دبلا ہم سب میں عادت کا اچھا تھا۔ نہ تو وہ ہم لوگوں کی طرح کھانے کی کسی چیز پربُری طرح جھپٹتا تھا اور نہ دوسروں کے ہاتھ سے چھین کر کھاتا۔ یوں لگتا تھا جیسے اسے زیادہ کھانے کا کوئی لالچ نہیں تھا۔ اگر آسانی سے اسے کچھ مل جاتا تو کھا لیتا اور اگر نہ ملتا تو نہ کھاتا۔ اسے دیکھ کر تو ہم لوگوں کو بھی شرم آنے لگی تھی۔ دبلے کی شرافت، کمزوری اور تعاون کو مدنظر رکھتے ہوئے موٹے نے اسے اپنے ساتھ رکھ لیا تھا۔ وہ اس کے لئے لکڑیاں اور سوکھی گھاس پھونس جمع کرتا، اسے آگ جلا کر دیتا اور جانور پکڑنے میں ہر طرح سے اس کی مدد کرتا۔

    کافی عرصہ جنگل میں اکٹھے رہنے کے بعد ہم لوگ ایک دوسرے کے اشارے، کنائے اور دم دما دم، چِھک چِھکا چھک یعنی زبان کافی حد تک سمجھنے لگے تھے۔ ہم سب لوگوں کی بپتا ایک جیسی تھی اور ہم لوگ یہاں خوشی سے نہیں آئے تھے بلکہ ہمیں ہماری بستیوں اور گروہوں سے کھدیڑا گیا تھا۔ میری کہانی جو میں نے اپنے دیگر ساتھیو ں کو سمجھائی وہ یہ تھی کہ میرے پاس کچھ بکریاں تھیں جن کی بھٹینوں میں ہر وقت دودھ بھرا رہتا۔ میرے گروہ کے بڑے نے ایک ایک کرکے میری ساری بکریاں چھین لیں اور جب آخری بکری چھیننے لگا تو میں نے ہائے کلاپ شروع کر دیا۔ بڑے کے ساتھیوں نے مجھ پر لاتوں گھونسوں اور لاٹھیوں کی ایسی بارش کی کہ میں بے ہوش ہو گیا۔ جب ہوش آیا تو قافلہ مجھے مردہ ہونے کا یقین کرکے اگلے پڑاؤ کی طرف بڑھ گیا۔ لمبے کی بپتا مجھ سے بھی دردناک تھی۔ لمبے کی لمبی بیوی اور چھوٹی بچی تھی۔ لمبے کے گروہ کے سردار کو وہ دونوں پسند آ گئیں۔ لمبی کو اس نے اپنے لئے اور چھوٹی کو اپنے بیٹے کیلئے ہمیشہ کیلئے رکھ لیا۔ جب لمبے نے آہ و بکا کی تو سردار کے لوگ اس کے ہاتھ پیر باندھ کر اُسے دریا برد کر آئے۔

    چھوٹے نے اپنی کہانی سناتے ہوئے بتایا کہ اس کے پاس کچھ اناج جمع ہو گیا تھا۔ ہر سال وہ اس اناج کے بیج دریا کنارے بو دیتا اور پھر پہلے سے کہیں زیادہ اناج حاصل کرتا۔ اس کی بستی کے سرکردہ لوگوں کو اس کے دانوں کی وجہ سے اس سے عناد ہو گیا اور نہ صرف یہ کہ اس کے دانے چھن گئے بلکہ اسے اس کے ساحل، بستی اور دریا کے پانی سے محروم کر دیا گیا۔ موٹے کو اس کی چمکتی کھال والی کالی بھینس لے بیٹھی۔ وہ اتنا دودھ دیتی کہ اگر کچھ دیر اس کا دودھ نہ دھویا جاتا تو اس کے تھنوں سے دود ھ رسنے لگتا۔ زور اور نے تو اس سے اس کی بھینس چھینی تھی لیکن وہ اپنی بھینس کے بغیر رہ بھی تو نہیں سکتا تھا۔ دشمن کو ہنس ہنس کر اپنی بھینس کا دودھ دھوتے اور پیتے دیکھ کر ایک دن اس نے خود ہی اپنے قبیلے سے ہمیشہ کیلئے علیحدگی اختیار کر لی۔ دبلے کو دور پار کے دریائی کناروں اور ساحلوں سے قیمتی پتھر، موتی اور گھونگے تلاش کرنے میں مہارت تھی۔ اس کے پاس جب کافی قیمتی پتھر جمع ہو گئے تو اس نے انہیں اناج اور دودھ کے بدلے اپنی بستی کے لوگوں سے تبدیل کرنا شروع کر دیا۔ درے والی کو خبر ہوئی تو اس نے اپنے مرد سے کہہ کر نہ صرف یہ کہ دبلے کے تمام قیمتی پتھر چھین لئے بلکہ اُسے ادھ موا کرکے گروہ چھوڑنے کا حکم بھی دے دیا۔

    پھر یونہی ہمیں جنگل میں رہتے کافی وقت گذر گیا۔ ہم لوگ یہاں رہ تو رہے تھے مگر اداس اور پریشان۔ ہمیں ہماری بستیوں، لوگوں، جانوروں اور جوڑوں اور بچوں کی یادستاتی تھی۔ ہم لوگ واپس جانا چاہتے تھے مگر اس کیلئے ہمارے پاس طاقت نہ تھی۔ اب جبکہ ہم لوگ تعداد میں زیادہ تھے اور رات کے وقت سہولت سے سو بھی سکتے تھے مگر ہمیں نیند نہ آتی تھی۔ رات دن ہم لوگوں کو واپسی کی فکر لاحق تھی۔ ہم لوگ اپنی بستی اور اپنے لوگوں میں و اپس جانے کے راستے اور جواز سوچنے لگے۔ ایک دن لمبے نے ہمارے دماغوں پر پڑے پردوں میں ارتعاش برپا کر دیا۔ کہنے لگا میرے سر پر یہ جو آسمان ہے اِس کے اس پار کوئی رہتا ہے۔ اس کی بات سن کر پہلے تو ہم لوگ ہنسے، پھر ہم نے اسے مذاق میں کہا کہ چونکہ تو لمبا ہے اس لئے تیرا سر آسمان سے جا لگا ہوگا اور تو نے اپنے ہاتھوں سے آسمان کی چا در ہٹا کر اس کے پیچھے کسی کو جھانک کر دیکھا ہوگا۔ لمبا مگر سنجیدہ تھا، کہنے لگا وہاں کوئی ہے اور یہ وہی ہے جو اچھے کو جزا اور برے کو سزا دینے پر قادر ہے۔ پھر وہ اسی خیال میں گم رہنے لگا۔ ہمیں نہ صرف یہ کہ اب اس سے ڈر لگنے لگا تھا بلکہ اُسے خود سے برتر سمجھنے لگے تھے۔ ہمیں یوں لگتا تھا جیسے اس نے گوہر مراد پا لیا ہو۔ اب اسے اس کی بستی میں جانے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ اس کے پاس اپنے گروہ کو بتانے کیلئے کچھ نہ کچھ ضرورتھا۔ پھر ایک رات جب آسمان پر صبح سے کچھ دیر پہلے بڑا ستارہ طلوع ہو چکا تھا تو ہمیں چھوٹے کی دبی دبی رونے کی آوازوں نے بیدار کر دیا۔ جب قریب جا کر دیکھا تو اس کا سارا جسم کانپ رہا تھا۔ بڑی تسلی و تشفی کے بعد اُس نے بتایا کہ بڑے ستارے میں سے روشنی کا ایک گولہ نمودار ہوا اور اس کے سینے میں آ کر جذب ہو گیا۔ اس کے بعد چھوٹا ہر رات بڑے ستارے کے آگے سربسجود رہنے لگا۔

    کچھ ہی دنوں میں موٹا بھی جانوروں کاگوشت کھانا بھول گیا۔ ہر وقت درختوں کی لمبی چھال پرگول گول کانٹھیں باندھتا رہتا اور منہ میں کچھ بڑا بڑاتا جاتا۔ ہم ابھی سوئے ہوتے کہ جانور اس کی خوراک کیلئے اُس کے سامنے پڑا ہوتا۔ دبلا پورے دو دن اور دو رات ہم میں سے کسی کو نظر نہیں آیا۔ دو دن بعد ملا تو بہت خوش نظر آ رہا تھا۔ ہم نے پوچھا تو کہنے لگا مجھے کئی دنوں سے کوئی غیبی طاقت مٹی کی اپنے جیسی مورت بنانے کو کہہ رہی ہے اور میں وہی بنا کر آرہا ہوں۔ یہ مورت میرے اور جو اس پریقین کرےگا اس کے اچھے برے کی ذمے دار ہوگی۔ اب صرف میں رہ گیا تھا، مگر مجھے تو ان سب سے پیش تر ہی بڑے درخت کی داڑھی سے لٹکتی عجیب و غریب شکلیں دکھائی دیتی تھیں جو پل میں ظاہر ہوتیں اور پل میں غائب۔

    بلاد الرافدین، دریائے فرات، بڑکا درخت اور وہ پانچ نحیف جو اپنی نئی زندگی کیلئے اپنی بستیوں اور گروہوں میں واپس جانے کیلئے پوری طرح تیار تھے۔ وہ دن اور آج کا دن، پوری انسانیت ادیان، مافوق الفطرت، جادو، بت پرستی اور ستارہ پرستی ایسے تصورات کے پیچاک میں پھنسی ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے