Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پیپل سے محبت کے ساتھ

انور سجاد

پیپل سے محبت کے ساتھ

انور سجاد

MORE BYانور سجاد

    اس وقت مال روڈ ویران ہوگئی ہے۔ اونگھتی ہوئی نیلی اور پیلی روشنیوں میں اکادکا آوارہ چند لوگ ہیں، جو اپے غنودگی میں ڈوبے ہوئے سایوں کا پیچھا کر رہے ہیں۔ جب روشنی ان کے سامنے ہوتی ہے تو سائے ان کا پیچھا کرنے لگتے ہیں۔ مصنوعی روشنیوں میں زندگی کی ایسی ڈور بھی میں نے کبھی نہ دیکھی تھی۔

    میں ہر روز کی طرح اس وقت بھی پیپل کی وسطی شاخوں میں سے ایک پر اپنے گھونسلے میں تنہا بیٹھی ہوں۔ ہمسایوں کے گھونسلے سب کے سب خالی ہیں یہ بھی سب شاید وہیں گئے ہیں جہاں ہر روز تم شام ہوتے ہی چلے جاتے ہو۔ صرف نمبر تین درخت کے فلیٹ نمبر، معافی چاہتی ہوں، گھونسلا نمبر دومیں ایک بیچاری انڈور پر بیٹھی مستقبل کے سنہرے خواب دیکھ رہی ہے۔ اگر اس کے پاس انڈوں کی گداز گدی نہ ہوتی تو وہ گھونسلا بھی خالی ہوتا۔ دن رات یہاں بیٹھے بیٹھے میرے جوڑ جوڑ میں درد بھر گیا ہے۔ کچھ تو تمہارے انتظار کے باعث اول کچھ ناریل کے کھردرے بالوں کے باعث جو تم ہالی وڈ فرنیچر کی دکان میں پرانے پھٹے ہوئے صوفے سے نکال کر لائے تھے۔

    جوڑ تو جوڑ میرے دماغ کو بھی گٹھیا ہو گیا ہے، مجھے اپنا پرانا، اصلی گھر جو یاد آتا رہتا ہے جو نرم نرم گھاس اور کھیتوں میں بکھری کپاس سے بنا ہوا تھا۔ تم مجھے وہاں سے کیوں لے آئے؟ تم نے کاہنے کاچھے پر چھائے ہوئے صاف و شفاف سائبان کی نیلا ہٹوں کو سر کے ایک جھٹکے کے ساتھ کیوں فراموش کر دیا۔ ڈیزل کے دھوئیں سے اٹے ہوئے بیمار آسمان نے اپنا تمام سرمٹی غبار میرے پھیپھڑوں میں بھر دیا۔ پھر تمہیں شکایت شکوہ رہتا ہے کہ میں ہر دم کھانستی ہوں۔ شاید تم میری کھانسی کی وجہ سے گھر نہیں آتے کہ خدانخواستہ تمہیں بھی۔۔۔ لیکن جان، اگر تم میرے پاس رہو تو مال روڈ کے اس درخت پر رہتے ہوئے بھی کبھی نہ کھانسوں، کھانسی کو دباکر دمے سے مر جاؤں۔

    میرے اچھے چڑے، جب تم چلے جاتے ہو تو میرے پاس خود کلامی کے علاوہ اور کوئی مشغلہ نہیں ہوتا۔ اور اب تو میں سامنے کی فلور سینٹ ٹیوب کے جلنے سے لے کر اس کے دوبارہ جلنے تک اپنے آپ ہی سے باتیں کرتی رہتی ہوں۔۔۔ میری قسمت۔ کس منحوس وقت تم اپنے گاؤں سے شہر میں اپنے چچا سے اس کی دعوت پر ملنے آئے تھے۔ پھر تم یہیں کے ہو رہے۔ جانے تمہارے چچا نے تمہیں کیا کھلا دیا، تعویذ کردیا کہ گنڈا، ب تمہارا دماغ اپنے آپ کو پہچاننے سے بھی قاصر ہو گیا ہے۔ میرے پاس آ جاؤ، میں تمہاری جان ہوں، تمہاری چڑیا۔ تم اپنے آپ کو اپنی ذات کو بھی پہچانو۔ اگر تم اپنے چچا کے اثر و رسوخ اور گھٹیا سیاست کے باعث یہاں چڑا جم خانہ کے ممبر بن ہی گئے ہو تو کیا ہوا لیکن میں تو جانتی ہوں تم اس چڑا کلب کے رکن ہونے کے باوجود کاہنا کا چھاکے ایک کھیت مزدور ہو جس کا بسیرا احمد علی مزارع کے شریں کے درخت پر تھا۔

    مجھے اچھی طرح یاد ہے وہ دن، جب تم شہر سے لوٹ کر آئے تھے تو آتے ہی مجھ سے شہر چلنے کو کہا تھا۔ میرا دل تو اسی وقت شریں کے زرد پھولوں کی طرح لرزنے لگا تھا۔ میں نے تمہاری وفاشعار بیوی ہونے کی وجہ سے تمہارا حکم ماننا اپنا فرض سمجھا۔ اور اگر دلیلوں میں پڑ بھی جاتی تو تم نے قائل ہونے کے باوجود میری بات کہاں ماننی تھی۔ میں بہرحال تمہارے ساتھ چلی آئی۔ دو چار روز اپنا گھونسلا نہ ملنے کے باعث ہم تمہارے چچا کے ہاں شیزان ریستوران کے روشندان میں پڑے رہے پھر تمہارے چچا نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے جھوٹے کلیم پر مال روڈ کے اس پیپل کے درخت پر تمہیں ایک شاخ الاٹ کرا دی اور کاہنا کا چھاکی فضائیں میرے لیے خواب بن کر رہ گئیں۔

    توبہ، توبہ۔ شیزان کے روشن دان میں کیا زندگی تھی۔ میرا تو وہاں دم ہی گھٹتا رہتا تھا سگریٹوں کے دھوئیں میں، میں وہاں بیٹھی اندر جاتے لوگوں کو دیکھتی رہتی۔ پاؤڈر کی تہوں میں چھپے بدصورت چہرے، لپ اسٹک سے اٹے مکروہ ہونٹ، ان کے ساتھ چمکیلے بوٹوں والے جن کے اندر جرابیں پھٹی ہوئی بوسیدہ، بیرای لاؤ۔۔۔ یس سر۔۔۔ ویٹر وہ لاؤ۔۔۔ یس سر۔۔۔ تھینک یو سر، عجیب انسان ہیں۔ احمد علی مزارع کی طرح اپنے گھروں میں چولہے پر چائے ابال کر نہیں پی سکتے۔ اپنے توے سے اتری روٹی نہیں کھا سکتے۔ مجھے حیرت ہے کہ تمہارے چچا کے گھر ہمارے گراں کے جو لوگ آتے تھے وہ بھی اسی رنگ میں رنگے۔ اپنی ’’چوں چڑچوں‘‘ بھول کر ’’امری کڑکوں‘‘ کرتے پھرتے ہیں۔ ہنہ۔۔۔ چڑا چلا آدم کی چال اپنی بھی بھول بیٹھا! مجھے تو ان لوگوں سے وحشت ہوتی تھی اور تم؟ تم اتنے بے حیا ہو کہ ان کے ساتھ مل کر مجھے سے نازیبا مذاق کرتے تھے اور میں شرم سے پانی پانی ہو جاتی تھی۔ کاش! تم چڑے ہی رہتے۔

    پھر تم ایک شام مجھے کارسروس سٹیشن کے نل سے بہتے ہوئے پانی میں نہلا کر اپنے ساتھ بہت بڑے باغ میں بنی پیلی سی عمارت میں لے گئے۔ وہاں سیلاب زدہ چڑوں کی مدد کے لیے ناچ تھا۔ انسان تو خیر انسان ہیں ہی، لیکن میری سمجھ میں آج تک یہ نہیں آیا کہ ہماری قبیل کو کیا ہو گیا تھا کہ ہر چڑا چڑیا پر پھلائے چونچ سے چونچ ملائے انسانی موسیقی کی دھن پر رقص کر رہا تھا۔ تم جانے کس حسینہ کی چونچ سے چونچ ملائے ناچ رہے تھے۔ میرا خون کھول رہا تھا لیکن بے بس تھی۔ ایک کونے میں بیٹھی خون کے آنسو بہاتی رہی۔ ایک محترم میرے پاس بھی آئے۔ میں نے اسے یقین دلایا کہ میں تمہاری بیوی ہوں۔ اس نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا،

    ’’آپ شاید کلب میں پہلی مرتبہ آئی ہیں؟‘‘

    میں خاموش تھی۔

    ’’آپ اَن سوشل معلوم ہوتی ہیں۔۔۔ آپ میں کرٹسی نہیں۔ آداب سے بےبہرہ۔۔۔‘‘

    میں ادھر ادھر دیکھنے لگی تھی۔ تم بدستور ناچ رہے تھے اور کبھی کبھی میری طرف دیکھ کر مسکرا بھی دیتے تھے۔

    ’’محترمہ۔۔۔‘‘

    اس نے زبردستی چونچ ملانا چاہی، میں نے اس کے سرپر اس بری طرح سے ٹھونگا مارا کہ وہ بدمعاش بلبلاکر بھاگ گیا۔ میں اسی غصے میں جلتی چلی آئی اور ناریل کے کھردرے بستر پر لیٹی روتی رہی۔ تم اس رات بلکہ صبح میں آئے تھے۔ تمہارے آواز میں غنودگی تھی اور میرا دل کانپ کانپ اٹھا تھاکہ خدانخواستہ کہیں تم بیمار تو نہیں ہو گئے۔

    میری جان چڑے! یہاں کی غذا کھا کھا کر تو میرا ہاضمہ بھی خراب ہو گیا ہے۔ باسی چیزیں اور بدیسی گندم اس پر مستزاد۔ میں نے تم سے کئی مرتبہ کہا کہ مجھے وہی کچھ چاہیے جو ساری عمر کھاتی رہی ہوں لیکن تم نے بڑے غصے میں کہا تھا۔۔۔ یہی ملےگا، ورنہ بھوکی رہو۔ اگرچہ رزق کو بیہودہ نہیں کہنا چاہیے لیکن یہ گھٹیا غذا کھا کاکر میں تو گھل گئی ہوں۔

    پھر رفتہ رفتہ جانے کیوں تم نے مجھ سے بولنا چھوڑ دیا۔ میری کسی بھی ادا سے تمہیں رغبت نہ رہی، بلکہ الرجی ہی ہو گئی۔ میں نے تمہیں بارہا منانے کی کوشش کی لیکن تمہاری ایک ہی رٹ تھی کہ میں سوشل ہو جاؤں۔ توبہ توبہ بے حیائی کو سوشل ہونا کہتے ہیں تو میں تو شرم ہی سے فنا ہو جاؤں۔ مجھ سے یہ نہ ہوگا چاہے تم مجھے طلا، طلا، طلاق ہی کیوں نہ دے دو۔

    ایک روز تنہا بیٹھی تھی کہ جی چاہا سواری کی جائے کار کی۔ درخت کی طرف، قریب سے ایک لمبی چمکیلی کار گزرنے لگی، میں اس کی چھت پر پر بھی جمانہ پائی تھی کہ شپ سے نکل گئی اور میں گرکے دوسری اس کے پیچھے آتی کارکے نیچے آتے بچی۔ اور تو اور یہاں کے تو تانگوں پر مجھے کوئی بیٹھنے نہیں دیتا۔ ہائے! مجھے احمد علی مزارع کے مویشی کتنے یاد آتے ہیں جن کی پیٹھ پر بیٹھ کے میں جب جی چاہتا سیر کر لیتی تھی اور وہ بیچارے کچھ نہ کہتے۔ کتنے سہانے تھے وہ دن! یہاں کے میلے کچیلے سورج کے بجائے وہاں کا چمکیلا صاف و شفاف سورج اپنی نرم سی کرنوں سے ہمیں دن گزارنے کی جرأت دیا کرتا تھا اور ہم اس کی سنہری کرنوں کے دوش پر اڑتے ہوئے کھیتوں کو چلے جاتے تھے جہاں گندم، اپنی گندم کے دانے بکھرے ہمارا سواگت کرتے تھے۔ پھر اسی ترنگ میں ہر جانور کی سورای۔۔۔ تم نے مجھے کہاں لا بٹھایا ہے! یہاں تو بیتے دنوں کی گونج بھی اب معدوم ہوتی جا رہی ہے۔

    میرے سرتاج! تمہاری صحت دن بدن گرتی جا رہی ہے اور اب تو تم شاذ ہی گھر آتے ہو۔ میں تمہاری تیمارداری بھی نہیں کر سکتی۔ میں تو جانوں یہ سب شراب کا کیا دھرا ہے۔ میاں، ہم چڑے، ہمیں شراب سے کیا غرض۔ لیکن تم نے اس ام الخبائث کو اپنی ماں کی جگہ دے دی ہے۔ جم خانہ کلب میں بار کاؤنٹر کے کونے میں اوندھی پڑی بوتلوں سے بچی کھچی ٹپکی شراب میں چونچ تر کرنے کی تمہیں لت پڑ گئی ہے۔ وہ سندر سیٹیاں بھول گئے جو ہم سب مل کر شریں کی شاخوں میں بجایا کرتے تھے۔ تمہاری نشے میں ڈوبی انگریزی سیٹیوں کے سر سے سُر ہی نہیں ملتے۔

    آخری مرتبہ جب تم گھر آئے تو نشے میں دھت تھے۔ میں انڈوں پر بیٹھی انہیں اپنی مامتا کی حدت پہنچا رہی تھی۔ تم نے آتے ہی مجھے پیٹنا شروع کر دیا وجہ آج تک میری سمجھ میں نہیں آ سکی۔ بہرحال اس لڑائی میں تمہاری ایک ٹھوکر انڈوں کو لگی اور دونوں کے دونوں نیچے سڑک پر جاگرے۔ میری مامتا ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی۔ میرا جی چاہا کہ تمہاری کھال ادھیڑ کر تمہارے کلب میں جاکے نیلام کردوں لیکن۔۔۔ لیکن میں تو تمہاری وفاشعار بیوی ہوں، مشرقی ٹائپ، خالصتاً اپنے ملک کی۔ میں تمہیں کھو دینا نہیں چاہتی تھی لیکن تم پھر بھی چلے گئے، جانے کہاں؟ میں تمہارا انتظار ہمیشہ کرتی رہوں گی۔

    جان، میرے چڑے! تم جو شراب پی کر غیر چڑیوں کے ساتھ عیاشی کرتے رہتے ہو، تمہارے لیے مناسب ہے؟ اگر میں بھی دوسری چڑیوں کی طرح بناؤ سنگھار کرکے غیروں کے ساتھ پھروں تو وفا کے پر نہیں نچ جائیں گے؟ آجاؤ۔ میرے اچھے ساتھی۔ تمہاری نودریافت دنیا خاصی مکروہ دنیا ہے۔ اس سے حاصل کی ہوئی خوشی ایسی چڑیا ہے جس کے جسم سے دل و دماغ آندر پیٹا نکال کر بھس بھر دیا ہو۔ یہ سنہرے تاروں کا جال جو تم اپنے گرد لپیٹ رہے ہو پھر کبھی کھول نہیں سکوگے اور میں تم سے دور ہوتی جاؤں گی۔ تم اعلیٰ، یورپی طرز کے ریستورانوں اور کلبوں کے روشن دانوں کی چڑیوں کے ساتھ اس جال میں قید ناچتے رہو گے۔ یہ لوگ تمہارے جسم میں بھوسہ بھر رہے ہیں، رفتہ رفتہ، میں غم کی ماری ایسی جگہ چلی جاؤں گی جہاں سے کبھی کوئی لوٹ کر نہیں آیا۔

    اس وقت مال روڈ اور بھی ویران ہو گئی ہے۔ مصنوعی روشنیوں میں انسانوں اور ان کے سایوں کی دوڑ بھی ختم ہو چکی ہے۔ اور میری آنکھیں تمہاری راہ دیکھتی پتھرا گئی ہیں۔ میری جان، میرے پاس آؤ کہ ہم آسمان کی نیلاہٹوں میں پھیلی سورج کی خالص روشنی میں اپنی زندگی نئے سرے سے شروع کریں۔ تم اپنے سائے کاز مین پر پیچھا کرتے ہوئے کرنوں پر سوار ہوکر سورج میں جانا چاہتے ہو، یہ بھول کر کہ آسمان اور زمین کے درمیان، روشنی ہونے کے باوجود سایہ نظر نہیں آتا اگر تم نے اپنی پرواز کی حدوں کو نہ سمجھا تو تم اور تمہارا سایہ دونوں جل جاؤگے۔‘‘

    اس رات کے بعد چڑیا نے چند راتیں چڑے کا انتظار کیا۔

    پھر ایک رات جب چڑا لوٹ کر آیا تو اس کی چڑیا وہاں نہیں تھی۔ کئی روز کے بعد اس نے چڑا جم خانہ کے چیریٹی ہال میں دیکھا کہ اس کی وفاشعار چڑیا، دم ہلاکر کولہے مٹکا مٹکاکر ہسٹیریا زدہ مریض کی طرح ناچ رہی ہے۔ اس نے یکے بعد دیگرے کئی چڑوں کے ساتھ چونچ میں چونچ دے کر ناچ کیا۔ چڑے نے کئی بار اپنی چونچ پر مسکراہٹیں پھیلاکر اس کو وِش کیا لیکن اب وہ اسے پہچانتی نہیں تھی۔ پھر اس چڑے نے اپنے گرد لپٹا ہوا سنہرا جال توڑنا چاہا، اپنی کھال میں اپنا دل و دماغ، اپنا آندر پیٹا واپس لانا چاہا لیکن وہ گدلے سورج کی کرنوں پر اڑتا ہوا اس کے اتنا قریب پہنچ گیا تھا کہ وہ اور اس کا سایہ دونوں جل گئے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے