پرفیکشنسٹ
خان صاحب انتہائی وسیع المطالعہ اور اعلی تعلیم یافتہ ہستی تھے۔۔ مڈل کلاس سے۔ کالج کے وقت سے ٹی وی کے لیے ڈرامے لکھنا شروع ہو چکے تھے۔ لیکن یہ عمدہ ڈرامے انکے اپنے نام سے نشر نہ ہوتے۔ یہ ایک سیریل تھی۔ لکھنے والے کا نام بہت بڑا تھا۔ لیکن ایک وقت پر اس کے پاس مصالحہ ختم ہو چکا تھا۔ سیریل پیسہ کما رہی تھی۔ اسے جاری رکھنا مجبوری تھی۔ خان صاحب کو نام سے زیادہ پیسوں سے مطلب تھا جو بہت اچھے مل جاتے تھے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ ٹی وی کے پروڈیوسر بن گئے۔ کئے ڈرامے لکھے ڈائریکٹ کیے۔ کئیوں کو راتوں رات سٹار بنایا۔ تو وہ اصل میں پارس تھے۔
ان کے کام پر گوروں کی نظر پڑی تو راتوں رات امریکہ بلا لیا گیا۔ اب وہ وہاں ڈرامے پروڈیوس کرنے لگے۔ ہمارے آقاؤں کو یہ اچھا نہ لگا۔ مطلب تاج برطانیہ۔ ملکہ نے خان صاحب کو طلب کیا۔ منہ مانگی تنخواہ پر اپنے سرکاری ٹی وی کا سیاہ و سفید بنا دیا۔ خان صاحب دیانتدار بھی کمال کے تھے۔ چاہتے تو ذاتی محل کھڑے کر سکتے تھے۔ مگر گھر بھی نہ بنایا۔ جو کمایا دوستوں میں اڑا دیا۔ شادی تک نہ کی یہ سوچ کر کہ اس جھنجھٹ میں مطالعہ چھوٹ جاوے گا۔ کونسی کتاب ہو گی دنیا کی جو انہوں نے نہ رٹی ہو۔ پڑھنے کا چسکا ایسا لگا کہ لکھنا بھول گئے۔ جو لکھا اس پر لعنت بھیجی۔ یہ فیصلہ کیا کہ پہلے ساری دنیا کا لٹریچر پڑھینگے پھر لکھیں گے۔
ہر پبلشر خان صاحب کے آگے پیچھے کیش لے کر پھرتا۔ کوئی ناول، کوئی ڈرامہ تو کوئی افسانوں کی فرمائش کرتا۔ کچھ پبلشرز کو وہ ٹال نہ سکے۔ حامی بھر لی۔ مسودہ بھی تیار ہو گیا۔ مگر نظر ثانی پر انہیں خامیوں سے بھرپور نظر آیا۔ پھاڑ کر پھینک دیا۔ اس طرح بیسیوں مسودہ تیار ہوئے اور آتشدان کی نذر ہوئے۔ اس دوارن وہ ریٹائرڈ بھی ہو گئے۔ خان صاحب کو اعلی کھانوں کا شوق تھا۔ خود پکاتے خود کھاتے دوستوں کو بھی کھلاتے۔ یہ شوق دل کے بائی پاس آپریشن کی صورت رنگ لایا مگر باز پھر بھی نہ آئے۔ ایک دن یوٹیوب پر کوئی ریسے پی تلاش کرتے ان کی دوستی قلندر سے ہو گئی۔ یہ قلندر بہت پہنچی ہوئی چیز تھا۔ زبردست کھانے بناتا۔ انگریزی میں شاعری کرتا۔ طبلہ بجاتا۔ کلاسیکل موسیقی کی باریکیوں کو سمجھتا۔ بہت سے انگریزی اخبارات میں لکھتا۔ خان صاحب کو علم نہ تھا کہ قلندر ان کا پرانا فین ہے۔ وہ تو دوستی آگے بڑھی تو راز کھلا۔
قلندر نے خان صاحب کو نت نئے کھانوں کی ترکیبیں اور موسیقی سے متعارف کرایا۔ انہوں نے قلندر کو اپنا استاد مان لیا۔ قلندر نے ان سے اردو اور لٹریچر سیکھنا شروع کر دیا۔ دونوں ایک دوسرے کے استاد اور شاگرد! لیکن خان صاحب کو قلندر سے کافی شکایتیں رہتیں۔ یہ کہ منہ پھٹ ہے۔ آتا جاتا کچھ نہیں مگر رائے ایسے دیتا ہے جیسے بہت بڑا عالم ہو۔ ڈیڑھ ناول اور شیکسپیر کے ڈھائی ڈرامے پڑھ کر اچھلتا پھرتا ہے۔ کسی سے بھی مرعوب نہیں ہوتا۔ ادب کے سب خداؤں کے بت توڑنے میں لگا ہوا ہے۔ ہر ایک کے کام میں کیڑے نکالتا ہے۔ الٹے سیدھے افسانے لکھتا ہے۔ ایک گھٹیا سا بکواس ترین ناول لکھ کر اپنے آپ کو بہت بڑا تیس مار خان سمجھتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود خان صاحب کو قلندر سے بہت پیار تھا۔ شاید یوں کہ وہ عمر میں انکے بیٹے کے برابر تھا۔ اور قلندر خان صاحب کو اپنے نانا کی طرح سمجھتا تھا۔ وہ یوں کہ قلندر کے اپنے نانا کے ساتھ بے انتہا بے تکلفی تھی۔ اور نانا نے اسے بہت سے چیزیں سکھائیں تھیں۔ خان صاحب کا بہت رعب و دبدبہ تھا۔ بڑے بڑے ان سے بہت محتاط ہو کر ادب سے گفتگو کرتے مگر قلندر انہیں ’’یار خان یار خان‘‘ کہتا۔ ایسا لگتا قلندر ان کا فول ہے جیسے پرانے وقتوں میں بادشاہوں کے فول ہوا کرتے تھے۔ فول بادشاہ کو کھری کھری سنا سکتا تھا۔ بادشاہ اس کے آگے بے بس ہوتا۔
قلندر خان صاحب کی بے انتہا عزت کرتا مگر اپنے انداز میں۔ ان کی جلی کٹی باتوں کا برا نہ مناتا۔ بلکہ اور شیر ہو جاتا۔ مثلاً اگر خان صاحب اسے کہتے کہ تمہیں پڑھنا چاہیے تو وہ کہتا آپ نے ساری عمر پڑھا اور کیا تیر مارا؟ آپ کی تو کوئی کتاب بازار میں ہے ہی نہیں۔ میں نے تو پھر ایک ناول لکھ مارا جسے چار ہزار لوگوں نے آن لائن پڑھا۔ تین سو نظمیں انگریزی میں لکھیں جو امیزان پر برائے فروخت ہیں۔ انگریزی میں صحافت کی بدولت تین محل جیسے گھر تعمیر کر دیے۔ دنیا جہاں کی سیر کر لی۔ لیکن خان صاحب اس کی ایک نہ سنتے۔ یہ ہی کہتے کہ پانسو الفاظ لکھنے کے لئے پانچ لاکھ الفاظ پڑھنے پڑتے ہیں۔ تمہارا ناول یا افسانے ادب کی شرائط پر پورے نہیں اترتے۔ قلندر بھی بھلا کہاں رکنے والا۔ جھٹ سے کہتا اجی بھاڑ میں گئے اصول و ضوابط۔ یہ کوئی ریاضی ہے کہ دو جمع دو چار ہونگے تو جواب درست ہو گا!
خان صاحب قلندر کو کہتے کہ ناول اور افسانے کی کلاس اٹینڈ کرے۔ اس پر قلندر کہتا اسے ضروت نہیں۔ طریقہ اس کے پاس قدرت کی طرف سے ہے اور اپنا ہے۔ اس پر خان صاحب اسے کہتے کہ بھئی پلمبر، الیکٹریشن اور کارپینٹر بھی تو اپنا کام سیکھتے ہیں۔ اس پر قلندر انہیں ترکی بہ ترکی جواب دیتا یہ کہہ کر کہ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ۔ ارے بھئی خان تمہیں اتنا علم نہیں کہ پلمبر کلاس میں بارہ کی چابی سے بارہ کا نٹ کھولنا ہی سیکھے گا نا؟ بارہ کی چابی سے دس کا نٹ تو کھولنے سے رہا! تو یہ ریاضی ہے۔ تخلیقی کام سیکھا نہیں جاتا۔ جو اس کے ذہن میں آتا ہے لکھ ڈالتا ہے۔ تنقید سے اس پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ کسی کو پسند آئے یا نہ آئے۔ یہ اس کا مسئلہ نہیں۔
پھر وہ خان صاحب کو یاد دلاتا کہ اگر آدم اصولوں پر عمل کرتا تو انسان دنیا میں آتا ہی نہیں۔ اصولوں سے انحراف کئے بغیر کچھ نیا تخلیق کیا جا ہی نہیں سکتا۔ ساتھ وہ خان صاحب کو مشورہ دیتا کے مرنے سے پہلے ایک کتاب تو لکھ جائیں۔ بنا کتاب کے ہری اوم ہو گیا تو کیا نام چھوڑا؟ خان صاحب اسے مزید پڑھنے کا مشورہ دیتے تو وہ انہیں مزید پڑھنے سے رک جانے کا مشورہ دیتا۔ اور کہتا کہ اب آپ لکھیں۔ اس پر خان صاحب کبھی کبھار متفق بھی ہو جاتے۔
ایک دن خان صاحب نے دھماکے دار انکشاف کیا۔ کہ ملک کے سب سے بڑے پبلشر کے لئے وہ اپنی یادداشتیں لکھ رہے ہیں۔ اس پر قلندر نے خان صاحب کی طبییعت صاف کر دی یہ کہہ کر کہ کون پاگل ہو گا جو اس دور میں آپ کی یادداشتیں پڑھے گا۔ جن کے ساتھ آپ کی یادیں تھیں وہ سب کے سب تو یا جہنم یا جنت سدھارے۔ پھر اس قسم کی کتابوں میں انسان مبالغہ آرائی سے کام لیتا ہے۔ دوستوں کی پرائیویسی بھی متاثر ہوتی ہے۔ قلندر نے صاف صاف کہہ دیا کہ اسے تو شدید مایوسی ہوئی۔ خان صاحب کی وجہ شہرت تو ان کا تخلیقی کام تھا۔ انہوں نے دنیا بھر کے ٹی وی کے لئے کامیاب ڈرامے لکھے۔ لہذا انہیں یا ناول یہ افسانوں کا مجموعہ شائع کرنا چاہیے۔
قلندر کی بات خان صاحب کے دل کو لگی۔ انہوں نے ناول لکھنا شروع کر دیا۔ پبلشر بھی ناول پر راضی ہو گیا۔ چھ ماہ میں خان صاحب نے تین سو صفحات پر مشتمل ناول کا مسودہ تیار بھی کر لیا۔ لیکن وہی ہوا۔ انہوں نے نظر ثانی کی اور پہلی ہی نظر میں مسترد کر دیا۔ قلندر کو بہت غصہ آیا۔ لیکن وہ کیا کر سکتا تھا۔ اندر ہی اندر دکھی تھا کہ خان صاحب لکھتے کیوں نہیں۔
قلندر کے جی میں آئی کہ خان صاحب کو خوب سنائے۔ مگر وہ فون ہی نہ اٹھاتے۔ کئی وائس میسج کئے۔ کئی ای میلز کیں۔ کوئی جواب نہ آیا۔ دل کے مریض بھی تھے۔ عمر رسیدہ بھی۔ قلندر کے پاس ان کا سٹریٹ ایڈریس بھی نہیں۔ واحد رابطہ ای میل، فیس بک، یا واٹس ایپ۔ ان تینوں پر خان صاحب لاپتہ!
چھ ماہ گذر گئے۔ قلندر سمجھ گیا کہ خان صاحب اب وہیں ہیں جہاں سب نے جانا ہے۔ وہ بہت غمزدہ رہتا۔ اسے اندیشہ تھا کہ کہیں پاگل نہ ہو جائے۔ اس پاگل پن سے بچنے کے لیے اس کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ اس نے ایک ناول لکھنا شروع کر دیا۔ اس طرح اسے ایک مشغلہ مل گیا۔ یہ ناول خان صاحب ہی کے بارے میں تھا۔ نام مقام وغیرہ اس نے بدل دیے۔ رات دن لگا کر اس نے تین مہینے میں یہ ناول تیار کر لیا اور امیزان کے کنڈل ڈیسک ٹاپ پبلشنگ یعنی کے ڈی پی پر چھاپ دیا اور اسکی قیمت دو ڈالر رکھ دی۔ پہلے ہی مہینے اس ناول کو ایک لاکھ سے زائد لوگوں نے آن لائن ای-بک کی شکل میں خرید لیا۔ دوسرے مہینے میں یہ ناول دس لاکھ کی تعداد میں بک چکا تھا۔ قلندر بہت خوش تھا۔ لیکن اسے اس سے بھی بڑی خوشی تب میسر ہوئی جب ایک دن خان صاحب نے اسے کال کر کے حیران کر دیا۔ اس سے پہلے وہ کچھ کہتا، خان صاحب اس طرح شروع ہوئے،
’’یار قلندر آئی ایم ویری سوری۔ میں جان بوجھ کر غائب ہو گیا تھا۔ صرف تم اس دنیا میں ایسے تھے جس نے مجھے یہ یقین دلایا کہ پرفیکشن نام کی شے اس دنیا میں ہر گز نہیں۔ یہ سوچ کر میں ایک جزیرے پر چلا گیا اور پورے آٹھ ماہ لگا کر ایک ناول مکمل کیا۔ اس بار مسودے پر نظر ثانی میں نہیں تم کرو گے۔ اپنی ای میل چیک کرو۔ میں نے مسودہ تمہیں بھیج دیا ہے۔ اگر میں نے نظر ثانی کی تو ہو سکتا ہے اسے دوبارہ مسترد کر دوں!‘‘
یہ بات سنکر قلندر نے خان صاحب کو جو کہا وہ انہیں اچھا نہ لگا۔ یہ پہلی بار تھا کہ خان صاحب کو قلندر کی بات بری لگی۔
قلندر نے کہا کہ خان صاحب اب ضرورت نہیں۔ بہت تاخیر ہو چکی ہے۔ آپکا ناول تو چھپ بھی چکا۔ امیزان پر دو ماہ میں اسکی دس لاکھ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔ اور اب امیزان خود اسکا دس زبانوں میں ترجمہ کروا رہا ہے!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.