پھرکی
نل تلے بیٹھ کر پھرکی نے پوری ٹونٹی کھولی اور گرد کے ساتھ بدن کی تھکن بھی دھونے لگی۔ منھ اندھیرے اٹھی تھی تو بدن میں تھکن رینگ رہی تھی۔ پورے محلے میں اسے مائی مالاں ہی کا گھر ملا تھا، تھکن دور کرنے کے لئے۔ غسل خانے میں آنے سے پہلے اس نے مائی مالاں کا گھر اور دالان صاف کیا تھا۔ یوں اس پر گرد کی ہلکی سی تہہ چڑھ گئی تھی اور کھری چارپائی پر سوئی تھی تو پنڈے پر بان کی دھاریاں پڑ گئی تھیں۔
نل بہتا رہا اور پھرکی بدن کو صیقل کرتی رہی۔
مائی مالاں جو نماز پڑھنے اور مصلی تہہ کرنے کے بعد باورچی خانے میں آگئی تھی، وہیں سے بولی، ’’اری واہمن! جانے بھی دے، اب کتنا اور نہائے گی۔‘‘
’’بس نہا چکی۔‘‘
’’باؤلی! اتنا نہاتی ہے، یوں تیری کھلڑی چٹی تھوڑی ہو جائے گی۔‘‘
’’آئے ہائے، یہ نگوڑا پانی مجھے کیا چٹا کرے گا۔‘‘
اصل میں وہ عالم تنہائی میں اپنا ذہن دھونا چاہتی تھی، جو گرد اور تھکن کے احساس سے جکڑا رہتا۔
نل بند ہوا تو دونوں نے بولنا بند کر دیا۔ کواڑ کھول کر وہ غسل خانے میں سے یوں بر آمد ہوئی جیسے میان میں سے تلوار نکلی ہو۔ سامنے مائی مالاں تھی جس کی جوانی کا پلستر جھڑ چکا تھا، حسرت بھرے لہجے میں بولی، ’’کبھی ہم پر بھی جوانی ٹوٹی پڑتی تھی۔‘‘
پھرکی نے ہوشیاری سے کہا، ’’آئے ہائے! اب بھی لاکھوں میں ایک ہو۔ آج کل کی یہ بناسپتی جوانی کس کام کی۔‘‘ مائی مالاں نے لمبی آہ بھری اور چپ ہو رہی، جس کی جوانی خالص گھی پر پروان چڑھی تھی اور اب اس آخر عمر میں بناسپتی تیل کھانا پڑا تھا۔
پھرکی نے دھویا ہوا دوپٹہ الگنی پر ڈالا۔ مائی مالاں نے اس کے پیالے میں چائے ڈالی۔ اس نے چائے پی اور دوپٹہ لے کر گھر چلی گئی۔
پھرکی بڑی صفائی پسند تھی، جبھی تو مائی مالاں اسے اپنے یہاں سلا لیتی۔ پھرکی کی ماں بھی نٖفاست پسند تھی۔ اس نے چولھے چونترے کے ساتھ پورا آنگن لیپ پوت دیا۔ حقہ لے کر بکائن کے پیڑ تلے کھٹیا پر جا بیٹھی۔ قدرت کا یہ ایئر کنڈیشنر پچھلی پانچ دہائی سے اس کی زندگی میں داخل تھا۔
حقہ یوں نپے تلے تال میں گڑ گڑانے لگا جیسے کوئی خان صاحب سر گم کرنے لگا ہو لیکن ساری عمر گڑ گڑ میں گنوانے کے بعد اسے راگ ودیا کی ابجد نہ آئی، البتہ اس کے گھر میں ایک چلتی پھرتی ٹھمری ضرور تھی۔
آنگن کے ایک کونے میں راکھ کے ڈھیر پر اپلے سلگتے رہتے اور دھویں کی باریک سی لکیر اٹھتی رہتی، بس اسی لکیر سے اس کے سانس کی ڈوری بندھی تھی۔
بڑھیا کو پتہ بھی نہ چلا کہ پھرکی کب گھر آئی اور کب کوٹھے پر گئی۔ در حقیقت وہ اب اپنی زندگی میں ہر قسم کی آمد و رفت کا سلسلہ منقطع کر چکی تھی۔ گھر خالی پڑا تھا، وہ آپ بھی خالی ہو چکی تھی اور اب آنکھیں موندے گڑ گڑ کی راگنی گھول گھول کر پئے جا رہی تھی۔
پھرکی نے رسی پر دوپٹہ پھیلایا اور باہر کی جانب بدرو کو دیکھا جو مغلئی با غات کا حاشیہ بن چکی تھی۔ باغات میں بہار آتی تو پھول کھلتے، حسینوں کے لئے گجرے، گہنے اور گلدستے بنتے۔ خود پھرکی مولسری کے پھولوں سے جھولیاں بھر لاتی لیکن بدرو کی تیز بو کم نہ ہوتی۔ یہ بو جس سے نازک طبع لوگوں کا دماغ پھٹ جاتا، پھرکی کی زندگی میں داخل تھی اور مائی مالاں کے نل تلے بھی نہ دھلتی تھی۔
ہوا میں دھوپ کی نیم گرم لذت تیر نے لگی۔ دھرتی کے پنڈے پر میٹھی میٹھی سوئیاں چبھنے لگیں۔ کچے بنیرے پر پھرکی کو ہنیاں ٹیکے کھڑی تھی۔ وہ بدرو کی پھیلی ہوئی بو میں بہار بن کر مسکرا رہی تھی۔ اپنے شاداب اور گداز بدن کی خوشبو سونگھ رہی تھی۔
پھرکی چپ ساگر میں تیر رہی تھی کہ کسی نے دھم سے پتھر دے مارا۔ نیچے دالان میں نتھی اپنی بڑی بہن سے الجھ پڑی تھی۔ اس کے چہرے سے انگارے برس رہے تھے۔ آنکھوں کے انار سلگ اٹھے تھے۔ بدن بجلی کی طرح کانپ رہا تھا۔ الٹی میٹم دیے بغیر جوگاں کے گلے پڑی تو وہ بد حواس ہو گئی۔ چھٹکی نے فی الفور چٹیا پکڑ لی۔ فری اسٹائل کشتی چھڑ گئی۔ ان میں گالیوں کا تبادلہ بے تکلفی اور آزادی سے ہو نے لگا۔ گالیاں بدرو کنارے کی گھر یلو صنعت کی پسندیدہ پید اواری جنس تھیں۔ بات بگڑتی دیکھی تو بڑھیا نے بھی جھر جھری لی۔ حقے کی نے ایک طرف کی اور بولی، ’’گشتیوں میں ذرا بھی تو سلوک نہیں۔ کم ذات! جب تک دنیا کو تماشا نہ دکھائیں چین نہیں پڑتا۔‘‘
قدردان لوگ بے ٹکٹ کا تماشا دیکھنے کو ٹھوں کے بنیروں پر آگئے۔ یہ فنی مظاہرہ تنقید و تبصرہ کا محتاج نہ تھا۔
نتھی نے جوگاں کے گوشت میں دانت گاڑ ے۔ جو گاں اس کا منھ نو چنے لگی۔
نتھی بولی، ’’کتیا! بہن ہو کر میرے ہی گھر میں ڈاکہ ڈالا۔ میرے کھسم سے ملتے تجھے شرم نہ آئی حرام جادی۔‘‘
حرام جادی ایسی گالی تھی جس کی زد بے قصور جو گاں کے بجائے بکائن کے پیڑ تلے بیٹھی ہوئی بڑھیا پر پڑتی تھی، جو بد قسمتی سے زندگی کے قابل قدر ہنگامہ خیز دور سے نکل چکی تھی اور اب اپنے سیاہ و سفید کے بارے میں اظہار خیال کرنے سے قاصر تھی۔
’’گشتیے، پیشہ ور نیئے! میرے منہ لگتی ہے۔‘‘ حرام جادی بولی۔
اس کشمکش حیات میں جوگاں نے کسی نہ کسی طرح چٹیا چھڑائی، نتھی نے لپک کر کپڑے دھونے والا ڈنڈا اٹھا لیا۔ اگر سدرو بر وقت نہ آتا اور پھرتی سے ٹو کرا پھینک کر نتھی کا ہاتھ پکڑ کر ڈنڈا چھین نہ لیتا تو خون خرابہ ضرور ہوتا۔ یوں تو نتھی ہلکے بدن کی تھی اور جو گاں کے جوڑ کی نہ تھی لیکن اس وقت نہ تھمنے والا طوفان بنی ہوئی تھی۔ اس کی رگوں میں غصے کی آندھی چل رہی تھی۔ سدرو نے چٹیا پکڑ کر بیوی کو نیچے گرایا اور گھسیٹتا گھسیٹتا اندر لے گیا۔ پھر اس نے اسے یوں پھینٹا جیسے دھوبی پٹرے پر پٹخ پٹخ کر کپڑا دھوتا ہو۔ پتہ نہ چلا کہ نتھی کی کتنی ہڈیاں ٹوٹیں، کتنی بچیں، تا ہم جو گاں کے دل میں اچھی طرح ٹھنڈپڑی۔
نتھی دیر تک کراہتی رہی۔ پھر جب اس نے ماں کے پاس آکر شکوہ کیا تو ماں نے صرف اتنا کہا، ’’جمانہ کیسا آ گیا ہے؟ گاجریں کوئی کھائے اور پیڑ کسی کو ہو۔‘‘
پھرکی نے سارا کھیل بہ غور دیکھا۔ اس کے سامنے وہ لکیریں کھنچ آئیں جن پر جو گاں چل رہی تھی۔ اس کا دوپٹہ ان لکیروں پر تیزی سے لہرا رہا، بل کھا رہا تھا۔ یہ لکیریں اس کے دل میں بھی اٹھ رہی تھیں۔
کھیل ختم ہوا۔ بھیڑ چھٹ گئی۔ ماں حقہ کے سر گم میں گم تھی۔ دھیمی دھیمی آہیں اور سسکیاں حقے کی گڑ گڑ سے مل کر فضا میں حرکت پیدا کر رہیں تھیں۔ پھرکی نیچے آئی۔
آنگن میں چپ کی اداسی پھیل رہی تھی۔ نتھی دیوار سے لگ کر پیڑھی پر بیٹھی تھی۔ سدرو کی بے وفائی کے باعث اس کے ہاتھ سے طاقت کا توازن نکل چکا تھا۔ جو گاں سر اٹھا ئے، ہرنی کی سی آنکھیں کھولے چارپائی پر بیٹھی تھی۔ سدرو اچار سے روٹی کھا رہا تھا۔ کسی کو کسی سے سروکار نہ تھا۔ پھرکی اوپر چلی گئی۔
بدرو کنارے چھوٹے چھوٹے شکستہ، نیم شکستہ، میلے کچیلے گھر وندے پھیلے تھے۔ ان میں کتنی ہی پھرکیاں تھیں جو اپنی اپنی بہنوں نتھی اور جوگاں کی لڑائیاں دیکھتیں اور درس حیات لیتیں۔
ان گھر وندوں میں سے دھوئیں کے بادل یوں اٹھ رہے تھے جیسے یہ کوئی صنعتی علاقہ ہو۔
کچھ دور مشرق کی جانب ایک دو منزلہ مکان تھا جس کی کھڑکی پھرکی کے کوٹھے کے جانب کھلتی تھی۔ نقشہ نویس نے یہ کھڑ کی کار پوریشن کے اصول حفظان صحت کے تحت بنائی تھی لیکن سلام نے اسے یار کے دیدار کے لئے وقف کر دیا۔
کھڑکی کھلی، کھڑاک ہوا۔ پھرکی متوجہ ہوئی۔ دونوں میں اشارے کنایے ہوئے اور ملاقات کا منصوبہ تیار ہوا۔ صرف تیارہی نہ ہوا بلکہ بے عملی کے اس دور میں اس پر عمل بھی ہوا اور شیڈول کے مطابق ہوا۔
پھرکی کی ذمہ داریاں محدود تھیں۔ ایک سنیما کی صفائی کرتی، لیکن حاکم شہر نے اسے خستہ حال دیکھ کر تین ہفتے کے لئے بند کر دیا۔ وہ کوٹھیوں کا کام بھی کرتی۔ مائی مالاں کے یہاں بھی کام کرتی، لیکن معاوضہ غسل خانے اور باورچی خانے سے وصول کرتی۔ پھر وہ رات کو سوتی بھی تو اسی کے یہاں۔
بازار میں سے گزری تو لال شاہ کا دل پھڑ کا اور عینک کے دبیزشیشوں تلے اس کی آنکھیں پھڑ پھڑائیں۔ اسلم درزی کی دکان کے تھڑے پر بیٹھے بیٹھے اس نے سرد آہ بھری اور کہا، ’’یار اسلم! ہم تو بس حسرتوں ہی میں مر مٹیں گے۔‘‘
’’کیا ہوا لال شاہ۔‘‘
’’ہوا کیا، دیکھتا نہیں، قیامت کس مزے سے جا رہی ہے۔ مجال ہے جو کوئی اسے روکے۔‘‘
’’لال شاہ! یہ تو صدی ہی قیامت کی ہے۔ یہ رکنے والی نہیں۔‘‘
اسلم کام میں لگ گیا اور لال شاہ چودھویں صدی کی قیامت دیکھنے لگ گیا۔
شاہی نجومی جوتشی رملی پروفیسر خیردین دن پھر زائچے بناتا، کشمیری بازار سے خریدی ہوئی کتابوں کے بو سیدہ ورق الٹتا پلٹتا اور لکیریں دیکھتا رہا لیکن ایسی ٹھکواں پیشن گوئی نہ کر سکا جس سے لال شاہ کو قرار آجاتا۔
تھڑاپا لیٹکس کے ایک رہنمانے علانیہ کہا، ’’پھرکی یونہی چلتی پھرتی رہے گی، لال شاہ اسے یونہی حسرت کی نظر سے دیکھتا رہے گا۔ پھر لال شاہ حسرتوں کے بوجھ تلے دب جائے گا، اس کے کھنڈر پر جو مزار بنے گا، پھرکی اس پر جھاڑو دینے بھی نہ جائے گی۔‘‘
اکہر ے بدن اوار لانبے قد کی پھرکی بازار میں سے گزرتی تو آنکھیں کے زاویے بدل دیتی۔ سب کی نظریں ایک نکتے پر سمٹ آتیں اور وہ ان کی جلو میں شاہانہ انداز سے گزرتی۔ بازار میں سے گزرتے ہوئے اس نے خود کو کبھی تنہا محسوس نہ کیا۔ وہ گزرتی تو اپنے پیچھے حسن کی لکیریں چھوڑ جاتی۔ کتنی ہی نظروں کی شیرازہ بندی ان روشن لکیروں سے ہوتی۔
قدرت اللہ عطا ر کی دکان پر شربت پینے اور دوا کی پڑیاں پھانکنے والوں کی اتنی بھیڑ نہ ہوتی، جتنی سانپ پکڑنے والوں کی ہوتی۔ قدرت اللہ پیشہ ور عطار تھا، پیشہ ور سپیرانہ تھا۔ اس کی دکان میں اچار چٹنی کے بلوریں مرتبانوں کے درمیان سانپوں کے مرتبان بھی دھرے رہتے۔ زندہ سانپوں کی ہانڈیاں اور پیٹاریاں اندر پڑی رہتیں۔ حکام اور رؤسا کے بنگلوں کو سانپوں کے وجود سے پاک کرنے پر جو سرٹیفکیٹ ملے تھے، وہ فریم ہو کر دیواروں پر آویزاں ہو گئے تھے۔
قدرت جب موج میں آتا تو کوئی پھینر سانپ نکال کر سڑک پر ڈال دیتا اور لام کی شکل والی آہنی سلاخ سے اسے کنٹرول کرتا۔ پھرکی کو قدرت اللہ کے سانپوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ البتہ اچار اور چٹنیوں کے مرتبانوں سے بہت دل چسپی تھی۔ انہی کی خاطر وہ اس کی دکان پر آتی۔ اس کے آ نے پر مول تول کے پیمانے بدل جاتے۔ سیب کا مر بہ گاجر کے مربے کے بھاؤ ہو جاتا۔ پھرکی کا بھاؤ اتنا اونچا ہو جاتا کہ گا جر کامربہ مفت نذر کرنا پڑتا۔
ایک دن قدرت اللہ نے اپنے حسب حال با محاورہ بات کی اور کہا، ’’پھرکی! تو تو ناگن ہے۔‘‘
پھرکی تنک کر بولی، ’’چل ہٹ! ناگن ہوتی تو لوگ مجھ سے ڈر کر دور دور نہ بھاگتے۔‘‘
’’میں نے تو یونہی کہا تھا پگلی! ناگن ہوتی تو میں تجھے پکڑ کر پٹاری میں نہ رکھ لیتا۔‘‘
’’ارے جا! میں تجھ جیسوں کو ٹوکرے میں رکھ کر بدرو میں پھینک آؤں۔‘‘
اس خوف سے کہ پھرکی کہیں رواں نہ ہو جائے اور زیادہ سلیس زبان میں بے محاورہ بات نہ کرنے لگے، قدرت اللہ چپ رہا۔ پھرکی بھی چپ رہی کیوں کہ اسے مربہ کھانے سے غرض تھی۔
وہ چلی گئی تو قدرت اللہ عطار نے شاہی نجومی جوتشی رملی پروفیسر خیر دین سے بات کی تو اس نے تمام تفصیلات کے بعد بے تکان کہا، ’’پھرکی کسی کے ہاتھ نہیں آنے کی۔ یہ تو ہوا ہے ہوا! پھرکی اور تھیوڈورا ایک ہی چیز ہیں۔ ان میں کوئی فرق نہیں۔ بازار میں چلتی پھرتی پھرکی دیکھ لو یا پاکستان ٹاکیز میں پردہ سیمیں پر چلتی پھرتی تھیوڈورا کو دیکھ لو۔‘‘
شاہی نجومی جوتشی رملی پروفیسر خیر دین کی باتیں پائیدار سمجھی جانے لگیں، جب سے شاہ ایران کے یہاں فرزند کے تولد کی پیشن گوئی سچی بات ثابت ہوئی۔ اس کا دھندا بہت بڑھ گیا اور شاہی منجم کا لقب بھی اس نے تبھی بڑھایا۔ لال جھنڈی اور تکیہ لال سائیں کے کتنے ہی بادشاہ اور برسر اقتدار لوگ اس سے مشورہ کرنے آتے۔ اس نے چوبارہ لے لیا اور دروازے پر چق ڈال کر گھریلو عورتوں سے بڑھ کر پردہ دار ہو گیا۔ کوئی مائی کا لال اس کی قابلیت، مہارت اور فضیلت کا پردہ چاک نہ کر سکا۔ وہ بازار سے نیا اُسطر لاب خرید لایا۔ بورے پر دری بچھا کر اس پر گاؤتکیہ جما لیا۔ پھرکی سے متعلق جس نے کچھ پوچھا، دگنی فیس بھری۔ سلام نے اسے خانگی منجم بنا لیا۔
سلام کا مکان گلی میں تھا۔ اس مختصر سی گلی میں لے دے کے چار پانچ مکان تھے۔ پھرکی آئی تو اس نے کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا۔
شرابی رنگ کی چائے پیالی میں انڈیل کر چینی ہلا نے لگا۔ بولا، ’’ہم ایک ہو جائیں تو کیا ہرج ہے۔‘‘
پھرکی نے بوندی کا لڈو اٹھا تے ہوئے کہا، ’’ہرج؟ ہم ایک ہی تو ہیں۔‘‘
’’یوں نہیں۔‘‘
’’کیوں نہیں۔‘‘
’’پھرکی! ہم بیاہ کرلیں تو ٹھیک ہے۔‘‘
پھرکی نے اس انداز سے قہقہہ لگایا جو وہ کبھی کبھی مر بہ کھانے کے بعد رخصت ہوتے وقت شاہی طبیب قدرت اللہ کی دکان پر لگاتی تھی۔ سلام کو یوں لگا جیسے کسی نے ساز توڑ کر نغمہ منتشر کر دیا ہو۔ یہ قہقہہ بے وقت کی راگنی بن کر اس کے دل میں چبھا۔ کمرے میں قہقہے کی گونج غائب ہوئی تو بولی، ’’بیاہ سے حاصل؟ گاجریں کوئی کھاتا ہے پیڑ کسی کے پیٹ میں ہوتی ہے۔‘‘
یہ بے معنی بات سن کر سلام کو ہنسی آ گئی۔ بولا، ’’پھرکی! میں جانتا ہوں، اس وقت بوندی کے لڈو کی جگہ گاجر کا حلوہ ہونا چاہئے تھا۔ خیر اگلی دفعہ گاجر کا حلوہ لاؤں گا۔‘‘
’’نہیں نہیں باؤ! بیاہ بہت بڑا بکھیڑا ہے۔‘‘
’’کیا کہتی ہے تو۔‘‘
’’ٹھیک کہتی ہوں۔ نتھی اور جو گاں ہر وقت لڑتی ہی رہتی ہیں۔‘‘
’’لیکن لڑنے سے بیاہ کا کیا تعلق۔‘‘
’’سارا جھگڑا ہی بیاہ کا ہے۔‘‘
’’تونے نہ ماننے پر کمر باندھ رکھی ہے۔‘‘
بددلی کے عالم میں سلام نے چائے کے بڑے بڑے گھونٹ بھر ے تو یوں لگا جیسے اونٹتی ہوئی کیتلی اسی پر اوندھ گئی ہو اور بھاپ کے ریشمیں گالوں نے اس کی روح جھلسا دی ہو۔ سانس حلق میں اٹک گیا، بولا، ’’پھرکی! ادھر ادھر کی باتیں نہ کرو! ٹھیک سے سنو، ٹھیک سے بات کرو۔‘‘
’’اچھا۔‘‘
’’ہماری تمہاری تو بات ہی اور ہے۔ ہم میں پیار کا رشتہ ہے۔‘‘
’’یہی تو میں کہتی ہوں، اس رشتے کو چلنے دو! بیاہ کر کے اسے توڑو نہیں۔‘‘
’’بڑی عجیب باتیں کرتی ہو تم پھرکی۔‘‘
’’مائی مالاں بھی یہی کہا کرتی ہے۔‘‘
’’اور پھر ہمارا بیاہ ہوگا بھی کیسے؟ تم اور میں۔۔۔‘‘
’’تم اور میں کا فرق تو مٹایا جا سکتا ہے۔‘‘
’’ہاں مٹایا جا سکتا ہے۔ گھر والے، انگ سنگ مجھے جان سے نہ مار ڈالیں گے۔‘‘
’’پھرکی تم پہیلی ہو۔‘‘
اور پھر یہ پہیلی بڑے زور سے سلام کے دماغ میں گھومنے لگی۔ جذبات بری طرح اونٹنے اور بھاپ کی طرح گردش کرنے لگے۔ سلام جس قدر بیکل تھا، پھرکی اسی قدر مطمئن تھی۔ مزے سے چائے کی پیالی اور کیک کی قاشیں ہضم کئے جا رہی تھی۔ میل خورے گلابی رنگ کی شلوار پہنے تھی۔ انگلیوں پر چاندی کی انگوٹھیوں کے نگینے چمک رہے تھے۔ لونگ کا لشکارا مچل رہا تھا۔ یوں تو وہ اس وقت چپ بیٹھی تھی لیکن محسوس ہوتا تھا جیسے سلام کے گرم گرم، جلتے سلگتے ہوئے جذبات کے بگولوں میں قہقہے چھوڑ رہی ہو۔
سلام نے پھر بات چھیڑی، ’’پھرکی! ہمت سے کام لو تو بات بن سکتی ہے۔‘‘
’’کیسے۔‘‘
’’وہی ہو جاؤ جو میں ہوں۔‘‘
’’سوچوں گی۔‘‘
باتیں ہوتی رہیں مگر بے نتیجہ۔ چائے اونٹتی رہی، بھاپ اڑتے سانپ کی طرح کیتلی کی ٹونٹی سے نکلتی رہی۔ پھرکی جو ہمیشہ مہکتی ہوئی ہوا کی طرح اس کے جذبات میں سے گزرتی رہی، آج زلزلہ بن کر اس کی آرزوؤں میں سے گزر گئی اور پیار کی بنیادوں میں جیسے دراڑیں ڈال گئی۔
پھرکی شام کو مائی مالاں کے یہاں گئی تو وہ اپنے رب کے حضور سجدہ ریز تھی۔ کمرے میں ہلکی ہلکی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ کیسا سکون تھا کیسی طمانیت تھی! بے کلی تھی نہ ہنگامے تھے۔ نہ زلزلے۔ سکھ سا گر سمٹ آیا۔ کواڑ بند تھے۔ آندھی کا گزر تھا نہ جھکڑ بگولوں کا۔
پھرکی اور ہی عالم میں تھی۔ اس کی رگوں میں شوخ بجلیاں تڑپ رہی تھیں۔ اس نے کبھی سکون کا مزا چکھا نہ اس کی جستجو کی۔ اسے تو بس بے کلی، ہنگامے اور زلزلے ہی پسند تھے۔ جوگاں یہ تماشے دکھاتی رہتی۔ وہ چار دیواری میں بند نہ تھی۔ اس نے زندگی کے سارے کواڑ کھول رکھے تھے۔
مائی مالاں فارغ ہو کر آئی تو پھرکی نے چھوٹتے ہی پوچھا، ’’ماسی! بن بیاہ ہے گزار ہ نہیں ہوتا کیا۔‘‘
’’نہ لڑکی نہ، بیاہ تو کرنا ہی ہوتا ہے۔ شرافت کا سودا اسی طرح ہوتا ہے۔‘‘
’’بڑا مہنگا سودا ہے یہ۔‘‘
اور پھر وہ نتھی کے بارے میں سوچنے لگی جس کا گھر والا کبھی اس کا نہ بنا۔ اسے ٹی بی ہو گئی تو گھر والا اور بھی پرے ہو گیا اور اس کی بہن جوگاں سے گھل مل گیا۔ کیا فائدہ بیاہ کا جو بے وفا کا ہاتھ پکڑ نہ سکے، قدم روک نہ سکے۔ نتھی کا گھر والا کتنا پیار کرتا تھا! اس کی ہر بات پوری کرتا تھا۔ سجرا سجرا بیاہ تھا تو اس پر دم دیتا تھا، بیاہ باسی ہوا تو سب کچھ باسی ہو گیا۔ نتھی بھی باسی ہو گئی اور نتھی کا پیار بھی۔
اس کے منہ سے بے اختیار نکلا، ’’بیاہ تو بس ایک مذاق ہے۔‘‘
اس نے اعلان کیا، ’’میں کنواری ہی رہوں گی۔‘‘
مائی مالاں نے کہا، ’’ہاں کنوار پن کا اپنا الگ مزا ہوتا ہے لیکن یہ کنوار پن کی زندگی یوں اکیلے نہیں کٹ سکتی۔‘‘
’’مائی! تم بھی اکیلے زندگی کاٹ رہی ہو۔‘‘
یہ سنتے ہی مائی مالاں کی آنکھوں میں آنسو کے قطرے امڈ آئے اور چپ ساگر میں طوفان آ گیا۔ اس نے ٹھنڈی آہ بھری اور کہا، ’’کتنا اچھا تھا میرا سر کا سائیں! وہ نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ اس کے بغیر تو صبر کی آ ری ہی چلتی رہتی ہے۔‘‘
مائی مالاں نے تو ے پر روٹی ڈالی۔ بھاپ سے روٹی پھول گئی اور جب اسے بھو بھل پر رکھا تو غبارہ بن گئی۔ چنگیر میں پٹخا تو پتلی پتنگ ہو کر رہ گئی۔
’’ساری بات بھاپ کی ہے۔‘‘ پھرکی نے سوچا۔
روٹی کھا کر کوٹھے پر گئی۔ وہاں مائی مالاں کا بچھونا کیا اور آپ کھری چارپائی پر لیٹ رہی۔ یوں گھوڑے بیچ کر سوئی کہ صبح سے پہلے نہ جا گی۔ لیکن سلام کی رات کٹے نہ کٹی۔ تیکھی زبان والے سنپولیے اس کے ملائم جذبات کو زخمی کرتے رہے۔ بجلی کی روشنی میں وہ اندھیرے تیر گئے جو اس کے دل سے نکلے تھے۔ یہ گہرے اندھیرے پلٹ کر اسی کے حواس کو ڈسنے لگے۔ بیٹھے بیٹھے اس نے محسوس کیا کہ وہ زندگی کی پہلی منزل ہی میں نا کام رہا ہے۔
گھروں سے اٹھتے ہوئے دھویں کے مرغولوں میں بدرو کی سڑاند گھل مل رہی تھی۔ گھروں میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری تھا۔ پیار کے رشتے بن بگڑ رہے تھے۔ دکھ سکھ دھوپ چھاؤں کی تگ ودو زندگی کو لوٹ پوٹ کر رہی تھی۔ چاند مسکرا رہا تھا جیسے زمین کے باسیوں کو سکون کی دولت بانٹ رہا ہو۔
کچے آنگنوں کی رسیلی مٹی پر میلی کچیلی اور ٹوٹی پھوٹی کھاٹیں پڑی تھیں۔ کتنے ہی لوگ بدرو سے لگ کر یوں سولئے جیسے ان کے تلے پھولوں کی چادر بچھی ہو۔ اسی سڑاند، دھوئیں، بوسیدگی اور ٹوٹ پھوٹ میں پھرکی جیسے کنول نے جنم لیا تھا۔ اس پھرکی نے پھول کی پتی بن کر سلام کا وہ کانچ محل توڑا جو اسی کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔
سلام نے کھڑکی کیا بند کی، اپنے جذبات پر دیوار کھینچ لی۔ اب وہ مکان نظروں سے اوجھل ہو گیا جس کے لپے پتے آنگن میں بکائن کا پیڑ تھا، کیلے والی ٹوکریاں بدرو کے پانی سے دھوکر دیوار سے لگا دی جاتیں، برابر میں جھاڑو دھر دیے جاتے۔ جہاں ہر وقت حقے کی گڑ گڑ سے فضا گونجتی رہتی اور کبھی کبھی وہ بجلی کو ند اٹھتی جو آنکھوں میں سے گزر کر دل پر وار کرتی، جہاں سے مہکتی ہوئی مہتابیاں چھوٹتیں تو اس کے بیتاب جذبات بڑھ کر خیر مقدم کرتے۔ حقیقتیں بکھر گئیں اور سلام بے حقیقت ہو گیا۔
سلام کو ٹھیک سے معلوم نہ تھا کہ پھرکی بھی حقیقت پسند اور حقیقتوں کی پالی ہوئی ہے۔ ایک حقیقت مائی مالاں تھی، جس کی بیوگی بے سہارا ہو کر بوسیدہ ہو رہی تھی۔ دوسری حقیقت نتھی تھی جسے اسی کی بہن کھنڈر کر رہی تھی۔
چاندنی میں ٹہلتے ٹہلتے اور نا امیدیوں کے بھنور میں ہچکولے کھا تا کھاتا سلام بہت دور نکل گیا۔ شاید ہی وہ کبھی اتنا دور نکل گیا ہو۔ ڈولتے ڈگمگاتے خیالوں میں پھرکی سنہری بیڑیاں پہنے نظر آئی اور پھر ان بیڑیوں کو اس کی طرف پھینک کر غائب ہو گئی۔ عجب سماں تھا۔ چاندنی کبھی ٹھنڈی لگتی اور اس کی آوازوں کو ریشم کی نرم گداز پرتوں میں لپیٹ لیتی، کبھی چاندنی دشت کی دوپہر بن جاتی اور اس کی آرزوئیں جھلس دیتی۔ چاندنی کی چتا میں وہ سلگ سلگ گیا۔
اصل حقیقت یہ تھی کہ اس کی آرزوؤں کا کانچ محل ریزہ ریزہ ہو چکا تھا لیکن اس کے اندر ون خانہ ہنوز یہ امید چھپی تھی کہ ایک سہانے سویرے پھرکی سجری سوچ کی جلو میں آئے گی اور اس کے کمرے کی بند کھڑکی کھول دے گی جہاں بکائی والا آنگن دکھائی دیتا تھا۔ سلام کے سامنے مہکتی ہوئی وہی گمشدہ روشنی آ جائے گی۔ امید کی جھلکیاں رہ رہ کر اسے جھاتیں جھلاتیں لیکن پھر مایوسی کا ریلا اسے بہا لے جاتا۔
وہ بغاوت پر آمادہ تھا لیکن پھرکی کے بغیر بغاوت ممکن نہ تھی۔ خود پھرکی بغاوت کر رہی تھی۔ اپنے آپ سے، اپنے گھر سے، لیکن اس سے سلام کا کچھ نہ سنورتا تھا۔
پھرکی بگولہ تھی۔ بگولوں سے کیا کھیلنا؟ یہ کب رکے تھمے ہیں؟ یہ تو اڑتے ہی رہتے ہیں اور سوکھے پتے اڑا کر لے جاتے ہیں۔ پھرکی کے آگے سلام کے جذبات سوکھے پتوں کی طرح اڑ رہے تھے۔ سلام بگولوں کے دشت میں ویران ہو گیا لیکن بدرو کا پھول بازار آرزو آباد کرتا رہا۔ وہ لال چوڑیاں پہن کر نکلی تو لال شاہ دل تھام کر رہ گیا۔ اسلم کپڑے کو دبائے مشین چلاتا رہا۔ ایک نظر دیکھ کر بولا، ’’یار لال شاہ! اللہ میاں نے یہ کیوں پیدا کی؟ بھلا ان پھرکیوں کے بغیر دنیا کا کار خانہ چل نہ سکتا تھا۔‘‘
’’دنیا کا کار خانہ چلتا نہ چلتا، تیری مشین ضرور چلتی۔‘‘
’’میں کہتا ہوں اللہ میاں سیدھی سادی عورتیں پیدا کرتا تو کیا ہرج تھا۔‘‘
’’بڑا بو گس آدمی ہے تو۔ بالکل بوگس باتیں کرتا ہے۔ تیری عقل گھاس چرنے گئی ہے۔‘‘
’’ارے اس پھرکی نے بڑوں بڑوں کی عقل مار دی ہے۔‘‘
اسلم تیزی سے مشین چلا نے لگا اور لال شاہ دل آویز لکیر دیکھنے لگا جو پھرکی اپنے پیچھے چھوڑ گئی تھی۔
سلام کی کھڑکی بند ہوئی تو کیا ہوا؟ شاہی حکیم قدرت اللہ کے یہاں سیب کا مربہ پھرکی کے ہاتھوں گاجر کے مربے کے بھاؤ بکتا رہا۔ شاہی نجومی جوتشی پروفیسر خیر دین کے یہاں پھرکی کو چاہنے والے کی قسمتوں کے فیصلے ہوتے رہے۔ یوں تو محلے میں پھرکیوں کی ٹوٹ نہ تھی۔ چھوٹے بڑے ہر سائز اور ہر رنگ روپ کی ون سونی پھرکیاں تھیں۔ کوئی تیز طرار تھی، کوئی شیریں اور ملائم، کوئی حرافہ اور کوئی چپ ساگر کی جل پری۔ کوئی کڑوی کسیلی، کوئی روکھی پھیکی، اور کوئی معتدل قسم کی۔ پھر گورے چٹے رنگ سے لے کر کالے کلوٹے رنگ تک، تمام شیڈ موجود تھے لیکن پھرکی کے آگے سب پھرکیاں ہیچ تھیں۔
سلام کی کھڑکی بند ہونے سے پھرکی کے چاہنے والوں کے حساب سے ایک دشمن کم ہوا۔ شاہی نجومی نے جھٹ پیش گوئی داغ دی کہ زحل اور مریخ برج عقرب میں آ گئے ہیں۔ اب پھرکی اور سلام الگ الگ ہی رہیں گے۔ یہ پیش گوئی بے حد پسند کی گئی۔
بند کھڑکی کے پیچھے جو منصوبہ بندی ہوئی، اس کے بارے میں پھرکی کو کسی نہ کسی طرح علم ہو ہی گیا۔ تاڑ گئی کہ سلام کا بیاہ اس دن کی باتوں کا جواب ہے۔ اسے دکھ تو ہوا لیکن جی کڑا کر کے بن سنور کے دلہن کو دیکھنے چلی ہی گئی۔ گھر جہیز کے سامان سے بھر ا پڑا تھا۔
سلام سے نظریں چار ہوئیں تو وہ ٹھنکا۔ اس نے پوچھ ہی لیا، ’’کیسے آئی ہو پھرکی۔‘‘
’’تمہیں مبارک دینے اور بی بی کو سلام کرنے۔‘‘
تمہیں مبارک دے لو! بی بی کو سلام کر کے کیا لوگی؟ بی بی کا انعام مجھی سے لو۔‘‘
اس نے دس کا نوٹ نکالا جسے پھرکی نے اچک لیا لیکن بی بی کی صورت دیکھنے پر اصرار کیا۔ سلام نے کہا، ’’نہیں باز آتیں تو بی بی کو دیکھ لو لیکن ایسی ویسی بات نہ کرنا۔‘‘
’’نہیں کرتی۔‘‘
جہیز کے سامان کی اوٹ میں عورتوں کے جمگھٹ میں دلہن لال ریشم اور سنہری زیوروں میں لدی پھندی شرم کے آنچل میں سمٹی سکڑی پلنگ پر بیٹھی تھی۔ عورتیں اسے حسرت بھری نظروں سے دیکھتیں اور اس کے مہندی والے ہاتھ میں نوٹ تھماتیں۔
پھرکی کے لئے دلہن ایک پر اسرار ہستی ضرور تھی اور بیاہ کے جوڑے کی بھڑک بھی زبردست تھی۔ پھرکی نے دلہن کا چہرہ دیکھا تو یہ اسے اپنا ہی چہرہ لگا۔ ایسا محسوس ہوا جیسے وہ آپ ہی زرق برق پوشاک پہنے ہوئے ہے، نو لکھا ہار اسی نے پہن رکھا ہے، جھومر، جھمکے اور سونے کی چوڑیاں بھی اسی کے بدن پر چمک رہی ہیں لیکن پھر وہ سنبھلی۔ نتھی اور جوگاں کے ناٹک کی جھلکیاں آنکھوں میں تیر گئیں، یہ جھلکیاں غائب ہوئیں تو جوالا مکھی بھڑ کی۔
اس کے خیالوں میں مائی مالاں ابھری جس کے سکھ کا چھتر مرنے والے کے ساتھ اٹھ گیا تھا اور وہ اکلا پا جھیلنے کو رہ گئی تھی۔ اس کے سامنے ایک ہی جست میں دلہن مائی مالاں بن گئی۔ سرخ ریشم اور مہندی جھومر، جھمکے اور نو لکھا ہار صبر کی چتا پر سلگنے لگے۔ جہیز کے انبار میں اس کا دم گھٹنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو چھلکنے لگے۔ پھرکی نے جلدی سے دس روپے دلہن کے ہاتھ پر رکھے، لپک کر باہر نکل آئی اور ہوا کے تازہ جھونکوں میں آکر شگفتہ ہو گئی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.