فزکس، کیمسٹری، الجبرا
(اپنی بیٹی صحیفہ کے نام۔۔۔ کوئی نہ جانے۔۔۔ تم کو کیسے کیسے سوچا میں نے۔۔۔ کیسے کیسے جانا میں نے۔۔۔!)
(1)
’’نہیں انجلی۔ یہاں نہیں۔ یہاں میں پڑھ رہا ہوں، نا۔ یہاں سے جاؤ۔۔۔‘‘
’’لیکن کیوں پاپا۔‘‘
’’بس۔ میں نے کہہ دیا نا۔ جاؤ۔ کبھی کبھی سن بھی لیا کرو۔۔۔‘‘
’’پاپا۔ مجھے یہاں اچھا لگ رہا ہے۔‘‘
’’نہیں۔ میں نے کہہ دیا نا۔ میں کچھ ضروری کام کر رہا ہوں۔ سنا نہیں تم نے۔‘‘
’’پاss پاss‘‘ آواز میں ہلکی سی خفگی تھی۔۔۔ تمہارے پاس اچھا لگتا ہے مجھے۔‘‘
ہّمت جٹاتا ہوں۔ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اس کے قریب آتا ہوں۔ بن ماں کی بچی۔ دل میں بہت سارا پیار امڈتا ہے۔۔۔ اندر کے غصّے کو اس کے معصوم چہرے پر ہولے، سے رکھ دیتا ہوں۔۔۔ جیسے ’’دیا سلائی‘‘ کے ننھے سے شعلے پر موم کو۔ پتہ نہیں کتنا پگھلا ہوں۔۔۔؟ یا شاید پگھل گیا ہوں۔۔۔ اس کے سر پر آہستہ آہستہ انگلیاں پھیرتا ہوں۔
’’میں تمہارے سامنے پڑھتی ہوں تو اس طرح ناراض کیوں ہوتے ہو؟‘‘
انجلی ’’ہپّا‘‘ ہے۔ ’’جاؤ نہیں بولتی۔‘‘
’’اچھا۔ ناراض نہیں ہو، نا۔۔۔‘‘ میں ہنس دیتا ہوں۔
’’ہپّا‘‘ انجلی خوش ہو کر بچوں کی طرح مجھ پر بچھنا چاہتی ہے۔ میں پیچھے ہٹتا ہوں۔ اس کے ہاتھوں کو۔۔۔ نہیں۔ اس کے جسم کو۔۔۔ خود سے دور رکھنا چاہتا ہوں۔
’’نہیں۔ نہیں انجلی۔ ٹھیک ہے۔ بچپنا نہیں۔ اب بڑی ہو رہی ہو تم۔ سمجھ گئی۔ بڑی ہو رہی ہو۔‘‘
’’ہونہہ۔ پپاّ کے سامنے بڑے، بچے ہی رہتے ہیں۔‘‘
’’لیکن تم۔‘‘، بچی ہو۔۔۔ کہتے کہتے ٹھہر جاتا ہوں۔ انجلی حیرانی سے میرا منہ تکتی ہے۔
’’تم کیا پاپا۔‘‘
مسکرانے کی کوشش کرتا ہوں۔۔۔ ’’تم نہیں سمجھوگی، انجلی۔
انجلی منہ بچکاتی ہے۔۔۔ ’’میں اب بڑی ہو گئی ہوں۔ میں اب سب سمجھتی ہوں پاپا۔ کبھی کبھی تم سمجھ میں نہیں آتے پاپا۔ لو، میں تمہارے پاس سے جا رہی ہوں۔ لیکن سنو، اکیلے کمرے میں مجھے ڈر لگتا ہے۔ اب میں تمہارے پاس ہی سویا کروں گی، پاپا۔۔۔ تمہارے ہی کمرے میں۔‘‘
’’میرے کمرے میں؟‘‘
’’کیوں، سب بچے سوتے ہیں۔‘‘
’’نہیں۔ میں نے اس لئے پوچھا کہ میں رات بھر لائٹ جلا کر کچھ نہ کچھ آفس کا کام کرتا رہتا ہوں۔‘‘
’’مجھے لائٹ ڈسٹرب نہیں کرےگی پاپا۔۔۔‘‘ انجلی مسکرائی ہے۔‘‘ کل سے یہیں سو جاؤں؟‘‘
’’نہیں۔ بس کہہ دیا نا۔ اب تم بڑی ہو رہی ہو۔ اس سے زیادہ سوال نہیں۔‘‘
انجلی کے معصوم چہرے پر سوالوں کی سلوٹیں بکھر جاتی ہیں۔ میں جاتے جاتے اس کے الفاظ میں دکھ محسوس کر لیتا ہوں۔
’’کوئی بات نہیں پاپا‘‘
انجلی اپنے کمرے میں واپس لوٹ گئی ہے۔ اس کی سلوٹوں بھری سوالیہ آنکھیں اب بھی کمرے میں موجود ہیں۔ یہ آنکھیں مجھے گھور رہی ہیں۔
’’انجلی کو کیوں بھیج دیا؟
میز پر آفس کی کچھ بے حد ضروری فائلیں بکھری پڑی ہیں۔ لیکن ابھی، اس لمحے مجھے ان فائیلوں کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔
’’انجلی کیوں گئی؟ میں نے اسے اپنے کمرے میں کیوں بھیج دیا؟
پتہ نہیں۔۔۔ لیکن شاید یہ میرے اندر کا سناٹا ہے، جو مجھ سے لڑ رہا ہے۔ کیا ہو جاتا ہے تمہیں۔ کیا ہو جاتا ہے تمہیں۔ اچھے خاصے آدمی سے اچانک ’’لڑکی‘‘ کے باپ کیوں بن جاتے ہو۔ بن جاتے ہو۔۔۔ چلو کوئی بات نہیں۔ لیکن اپنی ہی لڑکی سے ڈرنے کیوں لگتے ہو۔
ایک بزدل آدمی جرح کرتا ہے۔۔۔ ’’نہیں۔ جھوٹ ہے۔ ڈروں گا کیوں؟‘‘
سناٹا ہنستا ہے۔۔۔ ’’دیکھو‘‘ اپنے آپ کو غور سے دیکھو۔ تم ڈر گئے تھے۔ کیونکہ۔‘‘ اندر کا سناٹا ایک انتہائی فحش سا جملہ اچھا لتا ہے۔۔۔ تم اسے عموماً ایسے لباسوں میں نہیں دیکھ پاتے۔ ہے نا sss یار، وہ کانونٹ میں پڑھتی ہے۔‘‘ سناٹا قہقہہ لگاتا ہے۔ کانونٹ یا نئے زمانہ کی لڑکیاں اب آنچل یا اوڑھنی کا استعمال نہیں کرتیں۔ وہ اپنے بدن پر کپڑوں کا بہت زیادہ بوجھ ڈالنا نہیں چاہتیں۔ تو کیا ہوا۔ وہ تمہاری بیٹی ہے۔‘‘
’’بس ڈر جاتا ہوں۔‘‘
’’لیکن کیوں؟‘‘
لمبی لمبی سانس لیتا ہوں۔ کہہ نہیں سکتا۔
’’بیٹی میں لڑکی تو نہیں دیکھنے لگتے؟‘‘
اندر کا سناٹا دیر تک ہنستا رہتا ہے۔
(2)
اس دن مسز ڈھلن سے یہی تو پوچھا تھا میں نے۔
’’بیٹیوں میں لڑکیوں کا جسم کیوں آ جاتا ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘ مسز ڈھلن زور سے چونکی تھیں۔ لڑکیوں کا جسم۔ ہنستے ہنستے چائے کے کپ پر ان کے ہاتھ تھرتھرائے تھے۔ ’’آپ شادی کر لو، آپ کی باتیں سمجھ میں نہیں آتیں۔‘‘
’’بیٹی میں لڑکی کا جسم۔ میں نے بہت معمولی بات کہی ہے، مسز ڈھلن۔ یہ لڑکیاں کیوں آ جاتی ہیں بیٹی میں۔ لڑکیاں۔ پرائی لڑکیاں۔ پرائی لڑکیوں کے جسم پر، مدھو مکھی کے چھتوں کی طرح، گرتی ہوئی پرائی آنکھیں۔ یہ بیٹیاں بس بیٹیاں کیوں نہیں رہتیں۔ بغیر جسم والی۔ نہیں، سنو مسز ڈھلن! قصور آپ کا نہیں۔۔۔ یقیناً آپ میری بات نہیں سمجھ سکتیں۔ لیکن بیٹیوں میں یہ لڑکیوں والا جسم نہیں آنا چاہئے۔ ہے، نا؟‘‘
شاید سب کچھ اچانک بدلا تھا۔۔۔ اچانک۔۔۔
ہاں، شاید سب کچھ اچانک ہی بدل جاتا ہے۔ گھر میں خوشیوں کا ایک روشندان تھا میرے پاس۔۔۔ سنہری کرنیں آیا کرتی تھیں۔۔۔ یہ سنہری کرنیں مسکراتیں تو گھر جگ مگ، جگ مگ کرنے لگتا۔
وہ انجلی کی ماں تھی۔ روشن دان سے جھن جھن جھانکنے والی روشنی کی کرن۔
’’تمہیں پتہ ہے، پہلی بار اسکیٹنگ کرنے والوں کو برف کیسی لگتی ہے؟‘‘
’’نہیں‘‘
’’چکنی اور خوبصورت۔‘‘
یہ اس کے لئے میرا پہلا کمپلی منٹ تھا۔
وہ زور سے ہنسی تھی۔ ’’کیا یہ تمہاری پہلی اسکیٹنگ ہے؟‘‘
’’اگر ہاں کہوں تو؟‘‘
یقین کر لوں گی۔‘‘
’’تو پھر یقین کرو۔ اس سے پہلے کبھی برف پر چلنے کا خیال ہی نہیں آیا۔‘‘
’’برف پر۔‘‘ اس کے موتیوں جیسے دانت ہنس رہے تھے۔ اُف کتنے شفاف اور قرینے سے رکھے ہوئے۔۔۔
’’کیا یہ سارے ہیرے میرے ہیں؟‘‘ میں نے اس کے ہونٹوں کا بوسہ لیا۔
’’ہاں۔۔۔‘‘ وہ پھر دلکش انداز میں ہنسی تھی۔ ’’اس کے لئے جو پہلی بار اسکیٹنگ سیکھ رہا ہے۔‘‘
پھر یہ ’’اسکیٹنگ‘‘ جیسے زندگی کا ایک حصہ بن گئی۔۔۔ گھر میں خوشیوں والا روشندان کھل گیا۔
وہ مسکراتی تھی۔
’’اب کہیں اسکیٹنگ کرنے جاتے ہویا نہیں؟‘‘
’’اب تو تم سے ہی فرصت نہیں ملتی‘‘
’’اب کرو گے بھی نہیں۔ اس لئے کہ تمہیں اسکیٹنگ سے روکنے والی آ رہی ہے۔‘‘
یہ انجلی تھی۔۔۔ جس کے بارے میں شروع سے ہی اس کا خیال تھا۔ بچی ہوگی۔
’’کیوں۔‘‘
’’زیادہ تر بچیاں اپنے لئے سردیاں پسند کرتی ہیں۔ میں خود سردی کے موسم میں پیدا ہوئی تھی۔۔۔ سنو۔ اگر بیٹی ہوئی اور بیٹی نے تمہاری طرح اسکیٹنگ کرنی چاہی تو؟‘‘
میرا چہرہ ایک لمحے کو فق ہو گیا تھا۔۔۔
وہ زور سے ہنسی۔ بس ہو گئی نا چھٹی۔ تم مردوں میں ہر وقت ایک چور مرد کیوں رہتا ہے۔ بیٹا ہو تو تاڑ پر چڑھا دو۔ دس گنا ہ معاف۔ کچھ بھی پہن لے۔ دس دس محبوباؤں کے ساتھ گھومتا رہے۔ مگر بیٹیاں۔‘‘
وہ میرے چہرے پر جھک گئی تھی۔
’’ساری۔ میں کھیل کر رہی تھی۔‘‘ اس کی مخروطی، جلتی انگلیاں میرے برف جیسے چہرے پر موم کے شعلوں کی طرح اپنی آنچ دے رہی تھیں۔ میں جانتی ہوں، تم ایسے نہیں ہو۔ تم اپنی بیٹی سے بھی ویسی ہی محبت کروگے، جیسے۔ ہے نا۔ بیٹی اگر میری طرح ہوئی تو۔‘‘
میں نے پھونک مار کر شعلہ بجھا دیا تھا۔۔۔
’’بیٹی تمہاری طرح نہیں ہونا چاہئے‘‘
’’کیوں‘‘
میں شاید خاموش رہ گیا تھا۔۔۔ بیٹی اگر بڑی ہوئی تو؟ وہی خاموشی سے ڈس جانے والا کمپلیکس۔ ’’یہ بدن کچھ جانا پہچانا سا ہے۔ یہ چہرہ کچھ!‘‘
(3)
شاید اسی لئے انجلی کی پیدائش پر میں زور سے ڈرا تھا۔ نو مولود بچوں کا چہرہ اتنا زیادہ ماں یا باپ سے نہیں ملتا۔ لیکن انجلی میں اس کی ماں مسکرا رہی تھی۔ انجلی کو نہارتے ہوئے میں اچانک زور سے چیخا تھا۔
’’نیکر۔ نیکر کہاں ہے؟‘‘
’’شی۔ جاگ جائےگی؟‘‘ اس کے چہرے پر خفگی تھی۔ زور سے چلائے کیوں۔۔۔ وہ ہنسی۔ ’’شوشو ہو گئی تھی اس لیے۔ دیکھو۔ وہاں میز پر نیکر پڑا ہے۔ بدل دونا پلیز۔‘‘
پتہ نہیں۔ لیکن شاید بہت کچھ بدلنے کی ابتدا ہو چکی تھی۔
میں نے میز سے نیکر اٹھا لیا۔
مگر میرے ہاتھ کیوں کانپ رہے تھے۔
’’سنو، تم بدل دو۔‘‘
’’کیوں۔۔۔ اِتا سا کام بھی تم لوگوں سے نہیں ہوتا۔۔۔ تم مردوں سے۔ بس بیوی ہی نو مہینے تک پاگل بنی رہے۔ تمہارا بچہ ہے۔ تم کیوں نہیں نیکر بدل سکتے۔ سنو۔‘‘
وہ انجلی کا نیکر بدل رہی تھی۔ میں کہیں اور دیکھ رہا تھا۔
’’سنو۔ انجلی کے آ جانے سے میرے بھی کام بڑھ جائیں گے۔۔۔ تم بزی رہتے ہو۔ لیکن سنو۔۔۔ انجلی کو صبح صبح تم ہی نہایا کرو گے۔ ٹھیک ہے نا؟
’’نہیں۔‘‘
سردیوں کے موسم میں جیسے دانت بجتے ہیں۔۔۔ اندر کنوئیں سے کوئی صدا اوپر تک آتے آتے تھم گئی تھی۔
’’کیسے باپ ہو، اپنے بچے کو گود میں تو لو؟‘‘
اس نے انجلی کو اچانک اٹھا کر میری گود میں ڈال دیا تھا۔ وہ ہنس رہی تھی۔
’’کیسا عجیب سا لگ رہا ہے۔ ہے نا؟ جیسے میں ننھی سی ہو کر تمہارے ہاتھوں میں سمٹ گئی ہوں۔
مجھے زور کا کرنٹ لگا تھا۔
انجلی کے ایک سال کے ہونے تک یہ سب سلسلے چلتے رہے۔ یہ لڑکیاں صفائی کے معاملے میں پیدائش سے ہی بڑی Sensitive ہوتی ہیں۔ انجلی زیادہ اسی وقت روتی تھی، جب اس نے شو شو کر دیا ہو۔ کبھی کبھی وہ کچن میں مصروف ہوتی تو وہیں سے ڈانٹ لگاتی۔
’’نیکر بدل دو۔۔۔‘‘
شاید وہ پہلا واقعہ تھا۔ نہیں حادثہ۔ نہیں، واقعہ کہنا ہی بہتر ہوگا۔ وہ شاید شاپنگ کے لئے گئی تھی اور انجلی زور زور سے روئے جا رہی تھی۔ مجھ میں ایک باپ جاگ چکا تھا۔
لیکن کیا، ہمت کی کمی تھی مجھ میں؟
اور کیوں۔۔۔؟
پیشاب سے چپ چپاتے پھلیے سے، میں نے اسے اٹھا تو لیا۔ مگر میرے ہاتھ پیشاب میں سنے نیکر اتارتے ہوئے کانپ رہے تھے۔ اس کے ننھے ننھے سے پاؤں میں دو بارہ صاف ستھری نیکر پہنانے تک، میں نے ایک لمحے کے لئے بھی اس کی طرف دیکھنا گوا رہ نہیں کیا تھا۔ لیکن کیوں؟
ایک سہمے سہمے سے باپ کو آخر اتنا سمجھانا کیوں پڑتا ہے؟
بچی ہنس پڑی تھی۔ اب میں نے اسے غور سے دیکھا۔ ہولے سے، ’’منّے‘‘ سے ہاتھوں کو چھوا۔ پاؤں میں چاندی کے کڑے تھے۔ وہ آسمان سے اترا ہوا فرشتہ لگ رہی تھی۔
بیساختہ اسے میں نے گود میں اٹھا لیا۔ پیشانی پر چمی لی۔
’’میری بیٹی۔ میری بیٹی‘‘
وہ شاید پہلے ہی آ چکی تھی۔۔۔ لیکن چھپ کر یہ تماشہ دیکھ رہی تھی۔ اس نے زور سے تالیاں بجائیں۔
’’گڈ آج سے تم باپ بن گئے۔ اب میری ضرورت نہیں رہی۔‘‘
’’ایسا کیوں کہہ رہی ہو؟‘‘
’’کیونکہ تم میں ایک باپ آ گیا ہے؟ وہ ہنس رہی تھی۔‘‘ سنو، اس باپ کو بزدل نہیں ہونا چاہئے۔ سنو، میں اس باپ کو بزدل نہیں دیکھ سکتی۔‘‘
وہ دوڑ کر آئی۔۔۔ اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں پر رکھ دیئے۔
’’دیکھو۔ انجلی ہنس رہی ہے۔ ہنس رہی ہے نا؟‘‘
شاید اس نے صحیح کہا تھا۔
مجھ میں ایک باپ جاگ گیا تھا اور شاید اسی لئے وہ ہمیشہ کے لئے سونے چلی گئی۔ اس رات کی نیند اتنی گہری تھی کہ وہ کبھی نہیں جاگی۔ انجلی میری گود میں تھی۔ اور میں آسمان کے کنارے تلاش کر رہا تھا۔ اس کنارے سے اس کنارے تک پھیلا ہوا آسمان۔ ایک لمبی زندگی اور معصوم سی، مٹھی بھر ہاتھوں میں سما جانے والی انجلی۔
انجلی بڑی ہو رہی تھی۔ باپ ڈر رہا تھا۔ باپ دوست بننے کی کوشش کر رہا تھا۔ لیکن، لڑکی یا عورت کے بدن سے جڑی ہوئی کچھ ایسی ’’خفیہ‘‘ کہانیاں بھی ہوتی ہیں، جو اچانک پراسرار راتوں کی طرح جاگ جاتی ہیں۔ کبھی کبھی، سہمی سہمی راتیں مجھ میں ڈر پیدا کر دیتیں۔ خاص کر سرما جیسے موسم میں۔۔۔ ایک ہی لحاف میں۔ انجلی کے بدن سے لپٹے ہوئے ہاتھ اچانک، خرگوش سے سانپ جیسے بھیانک ہو جاتے۔
میں لیمپ روشن کر دیتا۔ کمرے کو اپنی لمبی لمبی، گہری گہری سانسیں سونپ دیتا ہوں۔
یہ مجھے کیا ہو رہا ہے۔ انجلی بیٹی ہے۔ بیٹی ہے۔ دو ایکم دو۔ دو دونی چار۔ انجلی بیٹی ہے۔ بیٹی ہے۔ بیٹی ہے۔ دو ایکم دو۔ دو دونی چار/ انجلی بیٹی ہے۔ بیٹی ہے۔ بیٹی ہے۔ میں اپنی سانسوں سے الجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
انجلی میری بیٹی ہے۔ میری جانو۔ یار۔۔۔ یہ بیٹیوں میں، اچانک لڑکی جیسا بدن کیوں آ جاتا ہے؟
شاید اپنے آپ کو مضبوط کر رہا ہوں۔ مسکراتا ہوں۔ انجلی کی پیشانی کا بوسہ لیتا ہوں۔ پاکیزگی سے بھرا بوسہ۔ لحاف اوڑھاتا ہوں۔ ٹھنڈک بڑھ گئی ہے۔ لیمپ بجھاتا ہوں۔
لیکن انجلی کے لحاف میں گھسنے کی ہمت نہیں ہوتی۔
کیوں؟
لحاف کے اندر انجلی کا بدن جل رہا ہے۔ میں ٹھٹھر رہا ہوں۔ باہر ٹھنڈک بڑھ گئی ہے۔ کھڑکی سے ٹھنڈی ہوا آ رہی ہے۔ سگار، ایش ٹرے۔۔۔، اندھیرے میں یہ ہاتھ میں سب کچھ تلاش کر لیتے ہیں۔ ریوالولنگ چیئر پر بیٹھ گیا ہوں۔ سگار کا دھواں اور لحاف کے اندر ہلتی ڈلتی ہوئی انجلی۔
شاید یہ اسی فیصلے کی گھڑی تھی۔
’’نہیں انجلی، اب تمہیں بستر الگ کرنے ہوں گے۔ سمجھ رہی ہونا۔ اب بڑی ہو رہی ہو تم۔ اور۔ پڑھائی بھی تو کرنی ہے تمہیں!‘‘
’’انجلی کی کیا عمر ہو گئی ہوگی اب۔۔۔؟‘‘
یہ مسز ڈھلن تھیں۔ فائل پر جھکی ہوئی نگاہیں۔۔۔
’’چہ۔ چودہ۔‘‘ کہتے کہتے ٹھہر گیا ہوں۔۔۔
’’مائی گاڈ۔ مسز ڈھلن کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی ہے۔ ’’چودہ کی ہو گئی انجلی۔ اب آپ کی ذمہ داریاں بڑھ جائیں گی سر۔ گھر میں اور کون کون ہے۔ میرا مطلب، عورت۔
’’پہلے ایک آیا تھی۔‘‘
’’تھی؟‘‘
’’ہٹا دیا۔‘‘
’’کیوں۔۔۔؟‘‘
’’وہ انجلی سے زیادہ مجھ میں دلچسپی لیتی تھی۔‘‘
’’اوہ نو۔‘‘ فائل سے اوپر اٹھی ہوئی نگاہیں۔ انجلی کو اس عمر میں عورت کی ضرورت ہے سر۔‘‘
’’عورت کی ہے؟‘‘
’’Obviously۔ عورت کی سر۔‘‘ مسز ڈھلن ہنستی ہیں۔۔۔ میں کیسے سمجھاؤں آپ کو۔ آپ۔‘‘
ایک خوفزدہ باپ اپنی منہ لگی اسسٹنٹ کے سامنے چپ ہے۔ پریشان سا۔
’’کیا بات ہے مسز ڈھلن‘‘
’’آپ کی زبان میں سمجھاؤں سر۔۔۔ وہ ہنستی ہے۔ اس عمر میں ایک خوبصورت حادثہ، لڑکی کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ خوبصورت۔۔۔ نہیں سمجھ میں آنے والا اور دماغ کی رگیں چٹخانے والا۔ کیونکہ لڑکی جوان ہو رہی ہوتی ہے۔
’’جوان۔‘‘ سناٹے میں میزائل چھوٹی۔
’’یس سر۔۔۔‘‘
مسز ڈھلن نے فائل بند کر دی۔ ’’بہتر ہے آپ اس آیا کو پھر سے بلالیں۔‘‘
مسز ڈھلن پر آہستہ سے چیختا ہوں۔۔۔ آپ کہنا کیا چاہتی ہیں۔
’’پی۔ پی ریڈ۔ اس عمر میں لڑکیوں کو۔‘‘
مسز ڈھلن آگے بڑھ جاتی ہیں۔۔۔
مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا ہے۔ کمرے کا رنگ اچانک سرخ ہو گیا ہے۔ لال لال۔ کھڑکیوں پر چڑھے ہوئے شیشے۔ دیواریں۔ اور زمین۔ سب لال لال۔ سرخ سرخ۔ میری آنکھوں کے آگے۔ اندھیرا بھی لال اور سرخ۔۔۔ میں سر تھامنے کی کوشش کرتا ہوں۔
’’انجلی‘‘
یہ بیٹیوں میں لڑکیاں کیوں آ جاتی ہیں۔
’’اس دن میں، دفتر سے گھر جلد لوٹ آیا تھا۔۔۔ دروازے پر داخل ہوتے ہی زور سے چیخا۔
انجلی!
مگر کوئی نہیں۔ دروازے کے پٹ کھلے تھے۔ سیڑھیاں خاموش تھیں۔ اندھیرے میں، اسکرین پر الفریڈ ہچکاک کی کوئی فلم شروع ہو گئی تھی۔ سسپینس اور تحیر سے بھری ہوئی فلم۔
انجلی۔
باپ الگ الگ دروازے پر دستک دیتا ہے۔ چلاتا ہے۔ انجلی۔ وہ ’’بڑی سی انجلی‘‘ کو اچانک دریافت کر لینا چاہتا ہے۔ مگر اس اچانک دریافت کے بعد۔ سرخ سناٹے جیسے ذہن کو چیونٹیوں کی طرح کاٹے جا رہے ہیں۔ انجلی۔ یہاں بھی نہیں۔ اس کمرے میں بھی نہیں۔ کہاں گئی۔ بیک گراؤنڈ سے تیز میوزک۔ دروازہ کھلا ہے۔ انجلی نہیں ہے۔۔۔ کہاں گئی ہوگی۔ کہیں گئی ہوگی یار۔ بیٹیاں اچانک جوان ہو جاتی ہیں۔ کشمکش بھرے لمحے میں خود کو دی جانے والی تسلیاں۔ کہیں گئی ہو گی۔ مگر۔ اس طرح۔ گھر کو کھلا چھوڑ کر اور۔ وہی۔ سرخ انقلاب۔
ذہن میں چکر ا رہے ہیں۔
بالکنی پر آ گیا ہوں۔ یہ سانسیں دھونکنی کی طرح کیوں چل رہی ہیں۔ تیز تیز۔ شاید مجھے کچھ ہو رہا ہے۔۔۔ نظروں کے آگے یہ کیسا سرخ انقلاب مجھے پریشان کئے جا رہا ہے۔
ایک بار پھر زور سے چلاتا ہوں۔ انجلی!
سرخ منظر ایک ایک کر کے ’’لیزر‘‘ کرنوں کی طرح انجلی کے بدن میں داخل ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ سامنے اسکرین پر انجلی کا بدن روشن ہے اور لیزر کرنیں۔ سرخ لیزر کرنیں۔
مجھے شاور کی ضرورت ہے۔ اس بدن کو ہٹاؤ۔ انجلی کے بدن کو ہٹاؤ۔
میں دونوں ہاتھوں سے سر تھامتا ہوں۔ باتھ روم کی طرف تیزی سے بھاگتا ہوں۔ دروازہ کھولتا ہوں اور۔
باتھ روم کا دروازہ کے کھلتے ہی۔۔۔ ہینگر پر لپٹے ہوئے سانپ، جیسے زور سے اچھل کر مجھے ڈس لیتے ہیں۔۔۔ چیخنا چاہتا ہوں۔۔۔ مگر چیخ جیسے اندر گھٹ کر رہ گئی ہے۔ میرا جسم تھر تھر کانپ رہا ہے۔ باتھ روم کی ہر ایک شئے میری نگاہوں کے سامنے ہے۔ سرخ ٹائلس۔۔۔ ان کے درمیان اسی کلر سے میچ کرتا باتھ ٹب۔ ہلکا ہلکا کھلا ہوا شاور۔ شاور کے چھید سے ٹپکتے ہوئے قطرہ قطرہ پانی کی بوندیں اور ادھر شاور کے داہنی طرف بے ڈھنگے پن سے ہینگر کے سرخ ’’رڈ‘‘ میں ’’کھوسی‘‘ گئی انجلی کی برا اور پینٹی۔۔۔
شاور کے چھید سے پانی کی بوندیں ٹپک رہی ہیں۔ ٹپ۔ ٹپ۔
میری آنکھیں سہم گئی ہے۔
بدن لرز رہا ہے۔
گلہ سوکھ گیا ہے۔
جسم کے اندر بھونچال آ گیا ہے۔
ریزہ ریزہ کانپ رہا ہے۔
کیمرہ باتھ روم میں نہ اب کہیں Pan ہو رہا ہے۔۔۔ نہ ٹلٹ اَپ۔۔۔ نہ ہی ٹلٹ ڈاؤن۔ وہ جیسے اسی منظر پر Freeze ہو گیا ہے۔ انجلی کے کپڑے اور۔
شاور کے چھید سے ٹپکتی ہوئی پانی کی بوندیں
انجلی!
جیسے بجلی کا کرنٹ لگتا ہے۔
میرے منہ سے ایک زور کی چیخ نکلتی ہے۔ تھر تھر کانپتا ہوا کمرے میں آتا ہوں۔ بستر پر رکھا ہوا کمبل اٹھاتا ہوں۔ نہیں، مجھے ایک شکار کرنا ہے۔ باتھ روم میں سانپ آ گیا ہے۔ یہ کمبل نہیں ہے، شکاری کا پند ہ ہے۔
پھر وہی باتھ روم۔ سرخ ٹائلس اور میرا شکار ہے۔ آنکھیں خوفزدہ ہو کر دوسری طرف کرتا ہوں۔ کمبل ایک جھٹکے سے انجلی کے اندر پہنے جانے والے لباس پر پھینکتا ہوں۔ پکڑ لیا چور۔ ہاتھ لرز رہا ہے۔ بدن میں خون کی گردش بڑھ گئی ہے۔ پاؤں کانپ رہے ہیں۔ ہاتھ میں چوہے دانی ہے۔۔۔ اور اندر حرکت کرا ہوا چوہا۔ لو پکڑ لیا۔ انجلی کا کمرہ ہے۔ اس کا وارڈ روب۔ آنکھ بند کر کے کمبل کھولتا ہوں اور یہ گیا چوہا۔ کمبل وہیں پھینک کر باتھ روم کی طرف دوڑتا ہوں۔ شاور چلاتا ہوں۔ آنکھیں بند کر لیتا ہوں۔ پانی کی تیز بوند سرپر پڑتی ہے۔ ایک ذرا سا، خیالوں کی برہنہ گپھاؤں سے باہر نکلا ہوں۔
یہ مجھے کیا ہو گیا تھا۔
میں انجلی کی آواز سن رہا ہوں۔ پاپا۔ پاپا۔
انجلی آ گئی ہے۔
پانی میں ارتعاش پیدا ہوا ہے۔ میں اپنے جسم کو نارمل ٹمپریچر پر لانے کی کوشش کر رہا ہوں۔
پاپا۔ پاپا۔
انجلی بیٹی ہے۔ بیٹی۔ میری پیاری بیٹی۔ دو ایکم دو۔ دو دونی چار۔ بیٹی ہے۔ بیٹی ہے۔
’’پاپا چیخ کیوں رہے تھے؟‘‘
’’تم گئی کہاں تھی؟‘‘
’’جاؤں گی کہاں۔ مینو سے نوٹس مانگنے گئی تھی۔‘‘
’’مینو؟‘‘
’’ہاں۔ وہ پڑوس والے شرما انکل کی بیٹی۔ لیکن تم چیخ کیوں رہے تھے۔ پتہ ہے۔ دروازہ کھلا رہ گیا تھا، اس لئے۔۔۔ ساری پاپا۔ مجھے خیال نہیں رہا۔
’’کوئی بات نہیں،
میں مسکرانے کی کوشش کرتا ہوں۔ انجلی بیٹی ہے۔ دو دونی چار۔ دو ایکم دو۔
’’ایسے کیا دیکھ رہے ہو پاپا‘‘
’’کچھ نہی‘‘
’’نہیں۔ کچھ تو ہے۔‘‘
’’دیکھ رہا ہوں کہ اب میری بیٹا بڑی ہو گئی ہے۔‘‘
’’تو؟ اب میری شادی کروگے؟‘‘ انجلی مسکرا رہی ہے۔ یہ ایک دم سے باپ کیوں بن جاتے ہو۔۔۔ اولڈ فیشنڈ۔‘‘ آگے بڑھ کر اس نے میرے گلے میں پیار سے اپنی بانہیں ڈال دی ہیں۔ ’’تم ایک دوست ہو پاپا۔ میرے لئے۔ پاپا سے زیادہ دوست۔‘‘
’’ہاں بیٹا‘‘ میں تمہارا دوست ہی ہوں۔‘‘
انجلی کے ماتھے پر Kiss کرتا ہوں۔ ’’دوست ہوں۔ لیکن تمہیں اچانک اتنا بڑا نہیں ہو جانا چاہئے تھا۔‘‘
مسز ڈھلن کے لفظ چاروں طرف سے مجھے گھیر رہے ہیں۔ ایک خاص طرح کا ساؤنڈ ایفیکٹ ECHO۔ انجلی کو دیکھ کر میں مسکرانا چاہتا ہوں مگر وہی۔
۔ ہر زور ظلم کی ٹکر میں انصاف ہمارا نعرہ ہے۔
سرخ سرخ انقلاب۔
مسز ڈھلن کے بجتے ہوئے لفظ۔ ’’اس عمر میں ایک خوبصورت حادثہ لڑکی کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ خوبصورت اور نہیں سمجھ میں آنے والا۔ پھر دھماکہ ہوتا ہے۔ پیریڈ۔ تیز دھماکہ۔ جیسے ایک ملک نے دوسرے پر بمباری شروع کر دی ہو۔ دھائیں دھائی۔
اپنی دنیا میں واپس آنے تک، ایک اٹ پٹا سا سوال کر دیتا ہوں۔
’’تم ٹھیک تو ہو بیٹی۔ میرا مطلب ہے رات میں؟‘‘
’’رات میں۔‘‘
’’ر۔ ا۔ ت۔۔۔‘‘ رات میرے ہونٹوں پر آ کر۔۔۔ طلسم ہوش رُبا کی پتھر بنانے والی ساحرہ بن گئی ہے۔ ہاں، رات میں۔ ٹھیک ہو، نا۔ میرا مطلب ہے۔‘‘
’’میں بالکل ٹھیک ہوں۔ مجھے رات وات میں کچھ نہیں ہوتا ہے۔۔۔ دیکھو۔ میں بالکل فٹ ہوں۔‘‘
انجلی میرے سامنے تن گئی ہے۔
میں مسکرانے کی کوشش کرتا ہوں۔ اندھیرے میں، آسمان پر چمکتے ایک پیارے سے تارے کو ’’ہولے‘‘ سے چھو لیتا ہوں۔ نہیں۔ میں بالکل ٹھیک ہوں اور صحتمند۔
(5)
کیا میں ’’پرورٹیڈ ہوں؟
نہیں۔ مجھے یقین ہے۔۔۔ میں پرورٹیڈ نہیں ہوں۔ میں گندے ذہن کا آدمی نہیں ہوں۔ ویسا آدمی، جیسا ہمارے ماحول میں عام طور پر 40 کے بعد کے مرد ہو جاتے ہیں۔ انہیں کہیں بھی دیکھ لیجئے۔ بس اسٹاپ سے کلب اور اپنے خوبصورت دفتر کے ’’رعب دار‘‘ کمرے میں اپنی حسین سکریٹری کو ڈکٹیشن دیتے ہوئے۔ وہ اس بات پر دل کھول کر ہنستے ہیں کہ بغیر کرسیوں والے باس کے کمرے میں، باس کے ’’بیٹھ جاؤ‘‘ کہنے پر نئی نئی آئی ہوئی سکریٹری نے اِدھر اُدھر کرسیاں تلاش کرنے کے بعد پوچھا تھا۔۔۔ کہاں بیٹھوں سر، یہاں تو کرسیاں ہی نہیں ہیں۔‘‘
وہ بہت کچھ گھر سے اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں۔ پرانی بیوی کا اداس بستر۔ اس کے ڈھلتے جسم کی ’’سدا بہار‘‘ جوانی۔۔۔ اور پہلے جن پتھ Kiss کے نان ویج لطیفے۔ جانتا تھا، یہ سب اندر کا فرسٹریشن ہے اور کچھ نہیں۔ ان ڈھلتی ہوئی عمر کی پائیدان پر کھڑے مردوں کے لئے جوانی کا اشتہار، بن جانے کی روایت کوئی نئی نہیں ہے۔ جسم سونے لگتا ہے تو ہونٹ بولنے لگتے ہیں اور آنکھیں زہریلی ہونے لگتی ہیں۔
لیکن۔
انجلی کی ماں کے مرنے کے بعد سے لے کر اب تک، کسی Psychiatrist یا Sexologist کے پاس جانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ میں کبھی بھی گندی ذہنیت کا قائل، کبھی نہیں رہا۔ ’’ڈھلان‘‘ پر کی ڈھلان باتیں۔۔۔ نان ویج لطیفے۔ میں ان لطائف میں انجلی کی ماں کا مذاق نہیں اڑا سکتا تھا۔ عورت میرے لئے دیوی یا تقدس کی مورتی نہ سہی، لیکن لائق احترام شئے ضرور رہی، اس لئے مجھے ہمیشہ خود پر ناز رہا۔ میں ان ڈھلتی عمر کے بوڑھوں میں سے نہیں ہوں۔ جو اندر کچھ باہر کچھ ہوتے ہیں۔
لیکن یہ سب اچانک۔
یہ میرے لئے عمر کا ایک نیا موڑ ہے۔۔۔ یار، یہ بیٹیوں میں ایک دم اچانک سے، لڑکیاں کیوں آ جاتی ہیں۔
’’چلئے۔ مان لیا میں پرورٹیڈ نہیں تھا۔ پھر انجلی کے اندر گارمنٹس کو دیکھ کر ڈر کیوں گیا تھا؟ حواس باختہ۔ میری چیخ کیوں نکل گئی تھی۔۔۔؟
بیٹی مقدس شئے ہے تو اس کے کپڑے بھی مقدس ہوئے۔ پھر؟ میں ڈر کیوں گیا تھا؟ چوہے کو جال میں چھپانے جیسا، کمبل ڈالنے کا واقعہ کیوں پیش آیا۔۔۔ شاید، انسانی سائیکی ابھی بھی اپنے اندر کا بہت کچھ سراغ لگا پانے میں ناکام ہے۔
مگر۔ سرخ انقلاب اور
’’انجلی بڑی ہو رہی ہے۔‘‘
’’کتنے کی۔ چودہ۔ چودہ کی ہو گئی نا انجلی۔‘‘ مسز ڈھلن میری آنکھوں میں جھانک رہی ہیں۔ ان کی آنکھوں میں شرارت ہے۔
’’آپ کو۔ آپ کو ہشیار رہنا چاہئے سر۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’بس‘‘ کہہ دیا نا۔۔۔ ’’یہ عمر ہی ایسی ہے۔‘‘
’’یعنی 14۔ 14 کی عمر۔‘‘
’’سب سے سنسنی خیز۔۔۔ لڑکیوں کے لئے سب سے سنسنی خیز عمر یہی ہوتی ہے۔ اس عمر میں لڑکیاں Love Letter بھیجنا شروع کر دیتی ہیں۔
’’لو۔ لیٹر۔۔۔‘‘ میری سانس رک رہی ہے۔ انجلی کا چہرہ ایک پل کو، آنکھوں کے آگے دوڑ جاتا ہے۔ یہ معصوم سی بچی۔ آنکھوں کے پردے پر چھوٹے چھوٹے انجلی کے ہاتھ ہیں۔ نہیں، یہ ہاتھ محبت بھرے خط نہیں لکھ سکتے۔‘‘
’’کیا سوچ رہے ہیں سر؟ مسز ڈھلن مسکراتی ہیں۔ لیکن آپ کے لئے۔ آپ کے لئے کیا غلط ہے سر۔ آپ تو اس معاملے میں بہت لبرل ہیں۔ یعنی۔ مجھے لگتا ہے، آپ اس معاملے میں بھی انجلی سے شیئر کریں گے۔ کیوں سر۔ زمانہ بدل رہا ہے۔ بس انجلی کو پھسلنا نہیں چاہئے۔ سمجھ رہے ہیں نا سر۔ بس اسی جگہ تھوڑا سا ہشیار رہنے کی ضرورت ہے۔‘‘
لیکن کیوں ضرورت ہے مجھے۔۔۔؟ بڑے ہوتے ہی ہم اپنا زمانہ کیوں بھول جاتے ہیں۔ انجلی کی جگہ لڑکا ہوتا تو؟ تب تو چلا چلا کر اس کی پہلی پہلی محبت کی خوشی میں فائیو اسٹار میں ڈنر دیتا۔ لوگ پوچھتے معاملہ کیا ہے؟ تو چلا کر کہتا۔ میرے بیٹے کو پہلی بار کسی سے محبت ہوئی ہے۔ میرے۔ بیٹے کو۔
انجلی کی محبت پر پارٹی کیوں نہیں دے سکتا؟
نہیں۔ انجلی لڑکی ہے۔ انجلی کو محبت نہیں کرنا چاہئے۔ لڑکیوں کے معاملے الگ ہوتے ہیں۔ مسز ڈھلن بتاتی ہیں۔ جب ان کی بیٹی سات سال کی ہوئی تھی اور مسٹر ڈھلن بہت پیار کرنے والی اپنی بیٹی کو باتھ روم سے نہلا کر۔۔۔ ٹاول باندھ کر باہر لائے تھے۔۔۔ تو ان کی ممی نے اسے سمجھایا تھا۔
Not, not again
اب بیٹی کو تم ہی نہلایا کرو۔
’’لیکن کیوں ممی۔ وہ باپ ہے۔‘‘
’’باپ ہے تو کیا ہوا۔ ہے تو مرد‘‘
مرد؟ باپ کو مرد نہیں ہونا چاہئے۔ بیٹی۔ سگی بیٹی۔ باپ کتنی کتنی باتوں سے محروم ہو جاتا ہے یا کر دیا جاتا ہے۔
مسز ڈھلن نے پوچھا تھا۔
’’آپ۔ آپ کیا کرتے ہیں سر۔‘‘
’’میں انجلی کو سات آٹھ سال کی عمر تک خود ہی۔‘‘
مسز ڈھلن نے قہقہہ لگایا تھا۔ وہی۔ آپ نے کہا تھا، نا سر۔۔۔ یہ بیٹیوں میں لڑکیاں کیوں آ جاتی ہیں۔۔۔ ماں غسل دیتی ہے تو بیٹیوں میں لڑکیاں نہیں آتیں۔۔۔ بیٹیوں میں بیٹیاں ہی رہتی ہیں مگر۔‘‘
مسز ڈھلن نے کتنی آسانی سے یہ سچ اگل دیا تھا۔ اور حقیقت تھی کہ انجلی کے پھیلتے جسم کے ساتھ ہی، تقدس کے رشتے نے، قدم قدم پر اپنی Limitations کی دیوار اٹھانی شروع کر دی تھی۔ یہ جوان ہوتی لڑکیوں کا جسم اچانک لاؤڈاسپیکر کی طرح چیخنے کیوں لگتا ہے!
اور یہ چیخ میرے اندر اتر رہی تھی۔ ایک کمزور باپ کی آتما میں۔ کیا انجلی کسی کو لیٹر لکھ سکتی ہے۔
’’نہیں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’بس نہیں لکھ سکتی‘‘
’’کیوں نہیں لکھ سکتی؟‘‘
’’اس لئے کہ میری بیٹی ہے۔‘‘
لیکن اس نے اگر لکھنا شروع کر دیا تو۔۔۔؟ کالج ہے۔ سارا دن اکیلے رہتی ہے۔ اس نے کبھی اس بارے میں پوچھا نہیں۔۔۔ وہ اپنی تنہائیاں کس کے ساتھ شیئر کرتی ہے۔ سارا دن کس طرح اپنا دل بہلاتی ہے۔ کالج میں کیا کرتی ہے۔ کالج سے کتنے بجے گھر واپس آتی ہے۔
سوچ کی رفتار رک نہیں پا رہی تھی۔
اور اس دن گھر میں داخل ہوتے ہی ایک بار پھر وہ نازیبا واقعہ رونما ہو گیا تھا۔۔۔
(6)
وہ اپنے کمرے میں تھی۔۔۔ وارڈ روب کے، ہینگر میں لپٹے کپڑے اس کے بستر پر پھیلے تھے۔۔۔ مجھے سامنے دیکھ کر وہ ڈر گئی تھی۔۔۔ اس نے اپنے ہاتھوں کو اچانک پیچھے کر لیا تھا۔ چھپا کر۔ مسز ڈھلن کے لفظ میرے اندر چیخ رہے تھے۔
’’کیا۔ کیا بات ہے پاپا۔‘‘
وہ چوکنّا تھی۔۔۔ اس کی نظریں مجھ سے پیچھا چھڑانا چاہتی تھیں۔‘‘ یہ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘
’’کچھ نہیں کچھ۔ لاؤ دکھاؤ۔‘‘
’’نہیں پاپا۔‘‘
’’دکھاؤ۔‘‘
’’میں نے کہہ دیا نا، کچھ نہیں ہے پاپا۔‘‘
’’پھر چھپا کیوں رہی ہو۔‘‘
بس ایسے ہی۔
’’لاؤ دکھاؤ، میں غصّے کا مظاہرہ کرتا ہوں۔ وہ بستر سے چھلانگ لگاتی ہے۔ یقیناً لو لیٹر۔ اشارہ سے دکھانے کو کہتا ہوں۔ وہ پیچھے دیوار کی طرف، میری طرف منہ کئے ہٹتی ہے۔
’’نو۔ نو پاپا۔ کچھ نہیں ہے۔ آپ جاؤ۔‘‘
’’نہیں۔ لاؤ۔‘‘
اور اب دیوار ہے۔ وہ پیچھے نہیں جا سکتی۔ وہ دیوار کے پار نہیں ہو سکتی۔ میں چیختا ہوں۔۔۔ اور وہ چور خط میرے سامنے کھول دیتی ہے۔ انجلی کی آنکھیں بند ہیں۔ بدن تھر تھر کانپ رہا ہے۔ کھلے ہوئے ہاتھوں پر اس کی ’’برا‘‘ اچانک سانپ کے پھن کی طرح میرے سامنے تن جاتی ہے۔
’’نہانے جا رہی تھی۔‘‘
’’کیا؟‘‘
وہ اچھلی۔ باپ کے سامنے جوان ہوتی عمر کے چغلی کھانے کا احساس اُسے اچھا نہیں لگا تھا۔۔۔ انجلی نے برا کو پھر سے مٹھیوں میں جکڑ لیا تھا اور باتھ روم بھاگ گئی تھی۔
میں سرتا پا لرز رہا تھا۔
اس کی کھلی مٹھی میں جگنو نہیں تھے۔۔۔ تارے نہیں تھے۔۔۔ محبت بھرے خط نہیں تھے۔ دھماکہ تھا۔ اشتعال تھا۔ سنسنی خیزی تھی۔ وہ شئے تھی، جس کے احساس سے ذہن، بدن کے خطوط ناپنے لگتا ہے۔
انجلی کی کھلی مٹھیاں۔ انجلی کی بند آنکھیں۔ پھر انجلی کا اچھل کر بھاگنا۔
یہ۔ یہ کیا ہو گیا۔ کیا سمجھا ہو گا انجلی نے۔ کتنا Guilt محسوس کیا ہو گا۔ اس کا ذہن تناؤ کا شکار ہے۔ رگیں پھٹ رہی ہیں۔
میزائلیں مسلسل چھوٹ رہی ہیں۔
بدن۔ بارش۔ شاور۔ اور کھلی ہوئی ہتھیلیاں۔۔۔ اور کھلی ہتھیلیوں کا چور۔۔۔ مجھے کچھ کرنا ہوگا۔ اپنے آپ کو شانت کرنے کے لئے مجھے کچھ کرنا ہوگا۔ لیکن کیا کرنا ہوگا۔
انجلی۔ بدن۔ بارش۔ شاور اور کھلی ہتھیلیوں کا چور۔ مجھے کچھ کرنا ہوگا۔
واتسائن اور انجلی
انجلی اور وانسیائن۔
مجھے کچھ کرنا ہوگا۔۔۔
ٹہلتا ہوں۔ تیز تیز سانسوں کو دل کے کبوتر خانے میں جکڑنے کی کوشش کرتا ہوں۔ سانسوں کی لہروں کو سمجھاتا ہوں۔ اتنا تیز مت بہو۔
کیوں۔
مت بہو اتنا تیز۔
انجلی بیٹی ہے۔ دو ایکم دو۔ دو دونی۔ انجلی بیٹی ہے۔ ٹہلتے ہوئے انجلی کی میز تک آ گیا ہوں۔ کتنی گندی ہو رہی ہے یہ میز۔ کتابیں بکھری پڑی ہیں۔ یہ آنکھیں۔۔۔ ان کتابوں پر جمانے کی کوشش کرتا ہوں۔
فزکس۔ کیمسٹری۔ الجبرا۔
موٹی موٹی کتاب کے صفحات میرے ہاتھوں کا لمس جذب کرتے ہیں۔ کتنی مدت ہو گئی۔ انجلی کو ساتھ پڑھانے بھی نہیں بیٹھا۔ کبھی پوچھا بھی نہیں۔ دسویں پاس کرنے کے بعد کیا لیا۔ سائنس یا آرٹس۔۔۔ بس کالج اور ٹیوشن کے پیسے دیتا ہوں۔ اور یہ کتابیں۔۔۔ فزکس۔ کیمسٹری۔ الجبرا۔ میز کتنی گندی ہو رہی ہے۔ روشنائی بھی گر گئی ہے۔ میز صاف کر رہا ہوں۔۔۔ فزکس، کیمسٹری۔ الجبرا۔
انجلی کی کھلی ہتھیلیاں اور بند آنکھیں ذہن کی Retina پر Freeze ہو جاتی ہیں۔ انڈر گارمنٹس۔ پینٹی، برا اور فزکس۔ کیمسٹری۔
پینٹی برا۔
فزکس، کیمسٹری۔
کتابوں کو قرینے سے سجا رہا ہوں۔
یہ انجلی کی کتابیں ہیں اور وہ۔ انجلی کے انڈر گارمنٹس۔
فزکس، کیمسٹری، الجبرا۔
پینٹی اور برا۔
میں وہیں کرسی پر بیٹھ گیا ہوں۔۔۔ ان میں فرق کیا ہے۔ کتابوں میں اور کپڑوں میں۔ دونوں انجلی کے ہیں۔
انجلی میری بیٹی ہے۔
کتابیں میز پر سجا سکتا ہوں تو بیٹی کے انڈر گارمنٹس چھوتے ہوئے بدن میں زلزلہ کیوں آ جاتا ہے۔
مقدس باپ کے ذہن میں کہیں کوئی ایک چور دروازہ بھی ہوتا ہے کیا؟
اس چور دروازے سے ہو کر بیٹی لڑکی کیوں بن جاتی ہے۔
فزکس۔ کیمسٹری۔
کیمرہ پین ہوتا ہے۔۔۔ سرخ ٹائلس۔ باتھ روم۔ باتھ روم کی دیواریں۔ سرخ بیسن۔ باتھ ٹب۔ ایک بار پھر شاور کے پاس ہی ہینگر سے جھولتے انجلی کے انڈر گارمنٹس۔ پینٹی اور برا۔ فزکس، کیمسٹری۔ الجبرا۔
مڈ شاٹ۔۔۔ کلوز میں، میں ہوں۔ میں نے ہاتھ بڑھا دیا ہے اور یہ کیا۔۔۔ میرے ہاتھوں سے سانپ کے پھن غائب ہو گئے ہیں۔ کلوز میں میرا ہنستا ہوا چہرہ۔ ڈیزالو۔
انجلی کپڑے بدل کر کمرے میں آ جاتی ہے۔ سجی ہوئی میز کو پسندیدہ نظروں سے دیکھتے ہوئے مسکراتی ہے۔
I am proud of you, my papa
تم نے میری میز صاف کر دی۔
’’کیوں؟‘‘ اس میں Proud کی بات کیا ہے؟‘‘
’’ہے کیسے نہیں؟‘‘
’’کیسے۔۔۔؟‘‘
’’میری سہیلیوں کے پاپا ایسا نہیں کر سکتے۔‘‘
’’کیوں نہیں کر سکتے۔‘‘
’’بس نہیں کر سکتے۔ اس لئے کہ وہ میرے پاپا نہیں ہیں۔
وہ اچھل کر اپنی بانہیں میرے گلے میں حمائل کرتی ہے۔ I love you papa
’’فزکس، کیمسٹری۔ الجبرا۔‘‘
میں مسکراتا ہوا، اس کو اپنی بانہوں میں لیتا ہوں۔۔۔
انجلی میری بیٹی، تم اپنی ماں سے کتنی ملنے لگی ہو۔‘‘
’’ماں سے؟‘‘ وہ ہنستی ہے۔۔۔ ’’مسکراتی ہے۔ اسی لئے پیار ہو رہا ہے۔ کیونکہ مجھ میں ماں آ گئی ہے۔‘‘
انجلی پیار بھری نظروں سے مجھے دیکھ رہی ہے۔ وقت نے یہ منظر یہیں فریز کر دیا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.