Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پیرامڈ

MORE BYمشرف عالم ذوقی

    رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی۔ کمرے میں موت جیسا سناٹا پسرا تھا۔ موت جیسا نہیں۔ کمرے میں چپکے سے ایک ’’موت‘‘ آ کر گزر گئی تھی۔ جیسے تیز ہوا چلتی ہے۔۔۔ سائیں سائیں۔۔۔ جیسے لو یا جھکڑ چلتے ہیں۔۔۔ جیسے ریگستانوں میں ریت کی آندھی بہتی ہے۔۔۔ اور اس آندھی کے پاگل کر دینے والی شور وجود میں وحشت اور دہشت کے گھنگھرو باندھ دیتے ہیں اور شروع ہو جاتا ہے تانڈو۔۔۔

    ڈم۔۔۔ ڈرم۔۔۔ ڈم۔۔۔ ڈرم۔۔۔ ڈرم۔۔۔

    باہر کتّے بھی چپ ہیں۔۔۔ رات نے اپنی پر اسرار خاموشی میں، موت کے جان لیوا احساس کو زندہ کر دیا ہے۔۔۔

    وہ ہے۔۔۔

    نہیں۔۔۔ وہ نہیں ہے۔۔۔

    نہیں وہ ہے۔۔۔ ابھی یہیں تھی۔۔۔ پلکوں سے قریب۔۔۔ آنکھوں سے، ذرا سے فاصلے پر، اس کے پاؤں سے پاؤں ملا کر چلی۔۔۔ اور اُس کے ہونٹوں پر چپ سی آ کر بیٹھ گئی۔۔۔

    نہیں۔۔۔ وہ نہیں ہے۔۔۔

    رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی۔۔۔ ’’وہ نہیں ہے‘‘ کا احساس گرمی کی امس سے کہیں زیادہ بڑھ چکا تھا۔۔۔ وہ ہے، اس کمرے میں ہے۔ اس کی آنکھوں کی بے چین پتلیوں کے سامنے۔۔۔

    در، دروازے، کھڑکیاں، سب خاموش۔۔۔

    وہ پاؤں دابے چل رہا ہے۔۔۔ پر اسرار رات کے بدن کو روندتا ہوا۔۔۔ چپ چپ اپنی لائبریری کے کمرے میں آ گیا ہے۔۔۔ اس کمرے میں برسوں سے نہیں آیا۔۔۔ کتابیں در کتابیں۔۔۔ دھول اور گردو غبار میں ڈوبی کتابیں۔۔۔ ریک میں، ایک قطار سے سجی ہوئی کتابیں۔۔۔ المیرا کے کھلے پٹ سے جھانکتی کتابیں۔۔۔ جیسے سلیپ وا کر ہوتے ہیں۔ نیند میں چلنے والے۔۔۔

    وہ سلیپ وا کر بن گیا ہے۔۔۔ چپ چپ ان کتابوں کے درمیان گھوم رہا ہے۔ پھر ایک بڑی سی موٹی سی کتاب کھول کر بیٹھ گیا ہے۔

    گول سی انگریزوں کے زمانے کی میز ہے۔ میز پر برٹش راج کے وقت کی ایک اونچی سی سیاہ کرسی ہے۔۔۔ وہ اس کرسی پر بیٹھ گیا ہے۔ کتاب کھل گئی ہے۔۔۔ آنکھیں وحشت زدہ سی کتاب کے صفحوں پر دوڑ رہی ہیں۔۔۔ پیرامڈ۔۔۔ وقت کی سوئی چلتے چلتے ٹھہر گئی ہے۔ حال، ماضی بن گیا ہے۔۔۔ ماضی حال۔۔۔ وہ وقت کی گردش سے دور نکلنے کی کوشش کر رہا ہے۔۔۔

    پیرا مڈ۔۔۔

    زندگی سو رہی ہے اور اندھیرے میں پیرامڈ جاگ گئے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں پیرامڈ۔۔۔

    اس کی آنکھیں نشہ میں ڈوبی لگ رہی ہیں۔۔۔ ایک عجب سی بےاطمینانی اس کے وجود پر حاوی ہے۔۔۔ کسی بڑے مفکر کی طرح وہ کتاب پر جھک گیا ہے۔۔۔ آنکھیں بند ہیں۔۔۔ ہونٹ آہستہ آہستہ بڑبڑا رہے ہیں۔۔۔ نیل ہے۔۔۔ نیل ہے۔۔۔ نیل کہیں جا ہی نہیں سکتی۔۔۔ نیل ہے۔۔۔ یہیں آس پاس۔۔۔ وہ اسے محسوس کر سکتا ہے۔۔۔ اُسے چھو سکتا ہے۔۔۔ چھو سکتا ہے۔۔۔

    تم کہاں ہو

    کہاں ہو نیل۔۔۔

    کہاں چھپ گئی ہو۔۔۔؟

    پھر جیسے معصوم ہنسی کی ’’جھڑی‘‘لگ گئی۔۔۔

    لو آ گئی۔۔۔

    کہاں تھی نیل؟

    یہیں تو تھی۔۔۔

    یہاں۔۔۔

    ہاں، تمہاری کتابوں میں۔۔۔

    کتابوں سے باہر نکلو۔۔۔ باہر نکلو نیل۔۔۔ میرا ہاتھ تھامو۔۔۔ چلو۔۔۔ چلنے کی پریکٹس کرو۔۔۔ پریکٹس کرو نیل۔۔۔

    پھر وہی معصوم ہنسی۔۔۔ ’’میں ایسے ہی ٹھیک ہوں۔ چلوں گی نہیں۔ پہچانوں گی نہیں۔۔۔ اٹھوں گی نہیں۔ بیٹھوں گی نہیں۔ بس تمہاری آنکھوں میں آنکھیں ڈال دوں گی۔۔۔ آنکھیں نہیں۔۔۔ پوری پوری خود کو ڈال دوں گی۔۔۔ پتلیوں کے جھولے میں جھولہ، جھولوں گی۔۔۔ جھولہ ٹوٹ گیا تو۔۔۔؟‘‘

    کمرے میں اڑتی ہوئی ایک چمگادڑ آ گئی تھی۔۔۔ بلب کی مدھم روشنی۔۔۔ بے رونق دیواریں۔۔۔ دھول سے بھری المیرا۔۔۔

    فادر تھا مسن سر پر کیپ برابر کرتے ہیں۔ سینے پر کراس کے نشان بناتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں۔۔۔ یہ سب کیوں جاننا چاہتے ہو اسلم شیرازی۔۔۔ دنیا ایک دھند ہے۔ جو اس دھند سے باہر نکل گیا، اسے بھول جاؤ۔۔۔

    ایک لمبی سانس۔۔۔ آپ مجھے پیرامڈ کے بارے میں بتا رہے تھے۔۔۔

    ’’قدیم داستانیں۔۔۔ فادر تھامسن کے چہرے پر بل پڑ گئے ہیں۔۔۔ ہاں، کیا بتا رہا تھا۔۔۔ ہاں۔ وہاں گیا تھا میں۔ اسفنک کے جنوب میں۔ ایک چھوٹی سی بستی تھی۔ ۲۰ سے ۲۵ ہزار مزدوروں پر مشتمل۔۔۔ (قہقہہ)۔۔۔ بستی نہیں، مزدوروں کا قبرستان کہو۔ قبرستان۔۔۔

    ’’سب مردے تھے۔۔۔؟‘‘

    ’’نہیں۔ ہاں۔۔۔ مردے۔۔۔ ہم کون سے مردے نہیں ہیں اسلم شیرازی۔۔۔ سب مردے ہیں۔۔۔ وہ مرے ہوؤں کے لیے کام کرتے تھے۔۔۔ جیسے گورکن ہوتے ہیں تمہارے ہاں۔‘‘

    ’’گورکن قبر تیار کرتے ہیں۔‘‘

    ایک ہی بات ہے۔۔۔

    فادر ہنستے ہیں۔۔۔ گورکن زندہ رکھنے کا راز نہیں جانتے۔ قدیم ممیاں۔۔۔ ان ممیوں کو صدیاں دینے والے مزدور جانتے تھے کہ مرنے کے بعد بھی انسان کو زندہ کیسے رکھا جا سکتا ہے۔۔۔ تمہیں یقین نہیں آئےگا اسلم شیزاری مگر میں ایسے کچھ مزدوروں سے ملا ہوں۔ وہ بتاتے ہیں۔ انہوں نے رات کے وقت ایسے کئی ممیوں کی کھلی آنکھیں دیکھی ہیں۔ ان سے گفتگو کی ہے۔ ناقابل یقین مگر سچ۔۔۔

    فادر ایک بار پھر کر اس چومتے ہیں۔۔۔

    ’’نیل‘‘ بن رہی ہے

    نہیں پیارے قارئین، یہ کہانی وہاں سے شروع نہیں ہو سکتی، جہاں سے آپ چاہتے ہیں۔۔۔ اس کہانی کے لیے ۵۷۔ ۵۸ برسوں کا ایک ملک ہے، جہاں مسلسل ایمانداری اور وفاداری کی دہائیاں دینے کے بعد بھی اسلم شیرازی گھٹتا ہی رہتا ہے۔۔۔ گھٹتے گھٹتے ضدی اور چرچرا ہو گیا ہے۔ غصہ ور اور بد دماغ بھی۔۔۔ وہ اپنا تمام تر غصہ، اپنی بیوی فاطمہ پر نکالتا ہے۔۔۔

    ’’جہنم میں جائیں مسلمان۔۔۔‘‘

    کیوں؟

    ’’کیونکہ وہ جہنم میں جانے کے لیے ہی بنے ہیں۔‘‘

    ایسا کیا کر دیا مسلمانوں نے؟

    کیا کر دیا۔۔۔؟ اسلم شیزاری غصے سے چیخ مارتا ہے۔ ’’کیا نہیں کر دیا۔ پاکستان سے افغان تک۔۔۔ بابری مسجد سے لے کر۔۔۔‘‘

    وہ ایک لمحے کو رکتا ہے۔۔۔ ہم چپ کیوں نہیں رہ سکتے۔ اقلیت میں ہیں اس لیے۔۔۔

    فاطمہ اس جملے کو دہراتی ہے۔۔۔ جو اقلیت میں ہیں، انہیں چپ رہنا چاہئے۔ کیوں؟ مر جانا چاہیے۔۔۔‘‘

    ’’نہیں مر جانا نہیں۔ بس چپ رہنا چاہیے۔‘‘

    تب نیل نہیں بنی تھی۔ نیل نہیں آئی تھی۔ نیل کا جنم نہیں ہوا تھا۔۔۔ اسلم شیرازی عمر کی چالیس پائدان پر کھڑا، آزادی کے بعد ہونے والے واقعات کے دھوئیں میں پلا بڑھا صرف اور صرف غصہ کرنے کے لیے پیدا ہوا تھا۔ ایک بے حد حساس اور جذباتی آدمی۔۔۔

    فادر اسمتھ پڑوس میں ہیں۔ کبھی کیتھولک چرچ میں ہوا کرتے تھے۔ اب نہیں۔ چرچ کی آپسی سیاست سے گھبرا کر استعفیٰ دے کر چلے آئے۔ آنکھوں پر خوبصورت سا گولڈن فریم کا چشمہ۔۔۔ بڑی سی داڑھی۔۔۔ گیہواں رنگ۔۔۔ وہ اسلم شیرازی کے غصے پر بار بار ہنس دیتے ہیں۔۔۔

    ’’اقلیتوں نے اس ملک پر بہت ظلم ڈھائے ہیں۔ ناراض کیوں ہوتے ہو۔۔۔‘‘

    ’’میں نے تو نہیں ڈھائے۔۔۔‘‘

    تم نے تم نے ہی نام بدل کر ڈھائے ہیں۔ میں نے بھی۔۔۔‘‘ فادر تھامسن زور زور سے ہنستے ہیں۔۔۔ غلطی یہ ہے کہ یہ اتہاس نہیں بھول سکتے۔ اس لیے اتہاس بدل دینا چاہتے ہیں۔ دیکھو اسلم شیرازی۔ ہم دونوں اسی لیے دوست ہیں کہ ہم دونوں اقلیت میں ہیں۔۔۔‘‘

    ’’اقلیت میں ہونا جرم ہے!‘‘

    ’’ہاں۔ جرم ہے۔۔۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس ملک میں اقلیت میں ہونا سب سے بڑا جرم ہے۔۔۔ انہیں اکثریت میں ہونے کے فائدے نہیں ملیں گے تو وہ یہ جرم کریں گے۔ بار بار کریں گے۔۔۔ کیونکہ بیچارے ایک سرکار تک اپنی نہیں بنا سکتے۔۔۔ بناتے بھی ہیں تو کئی وچار دھاراؤں کا سہیوگ مانگنا پڑتا ہے۔۔۔‘‘

    اسلم شیرازی کو ڈر لگتا ہے۔ وہ مکمل طور پر آ گئے تو۔۔۔؟‘‘

    ’’اتنا کیوں سوچتے ہو۔ تب کیا ہوگا۔۔۔ ہمارا جینا مشکل ہو جائےگا۔ مگر۔۔۔‘‘ فادر ہنستے ہیں۔ اس وقت ہم نہیں ہوں گے۔ ہمارے بچے ہوں گے۔ فکر کیوں کرتے ہو۔۔۔ بچے سمجھیں گے۔۔۔‘‘

    ’’بچے آ تو جائیں پہلے۔۔۔‘‘ اسلم شیرازی نے سر جھکا لیا۔ ’’فاطمہ کہتی ہے کہ۔۔۔‘‘

    ہو۔۔۔ ہولی فادر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔ تمہیں لڑکی ہو گی۔۔۔ دیکھ لینا۔ ایک اقلیت لڑکی۔۔۔ تمہاری، اقلیتوں کی آبا دی میں ایک لڑکی کا اضافہ۔۔۔

    تب نیل نہیں بنی تھی۔۔۔

    ممکن ہے، بہت ساری باتوں کا اس کہانی کے ساتھ کوئی لینا دینا نہ ہو، مگر اسلم شیرازی۔۔۔ ہوش سنبھالنے سے اب تک، یعنی فاطمہ کے زندگی میں آنے اور نیل کے بننے تک، دن اور تاریخ کے حساب سے چھوٹی سے چھوٹی بات کا گواہ رہا ہے۔ مثلاً اُس کے گھر والے بتاتے تھے کہ جب وہ پیدا ہوا، شہر میں کرفیو لگا ہوا تھا۔۔۔ جس دن اُس کا عقیقہ ہوا، اس دن گھر پر مشکل سے چند لوگ آئے تھے۔ کسی کو بھی اس موقع پر نہ آنے کے لیے کوئی سا بھی بہانہ بنانے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس لیے کہ شہر کی فضا اچھی نہیں تھی۔ اور کئی علاقوں سے توڑ پھوڑ کی خبریں بھی موصول ہوتی رہی تھیں۔ جس دن گھر کے پاس والے مدرسہ میں اُس کا نام لکھایا جانا طے ہوا تھا، اس دن نام اس لیے نہیں لکھا جا سکا کہ محلے کی مسجد کے پاس کسی نے سور کے گوشت کی ہڈی ڈال دی تھی۔۔۔ یہاں جان بوجھ کر صرف وہی معاملے درج کیے جا رہے ہیں، جو اسلم شیرازی کے ساتھ گزرے۔۔۔ جب کہ انگلیوں پر گنے جانے والے وہ دن اور تاریخ بھی یاد ہیں کہ بدیع ماموں کے نکاح کے دن کیا ہوا۔ ریشمہ آپی کی شادی کے روز کہاں بم چھوٹا۔۔۔ یوسف بھائی نے جس دن پہلی بار اپنی دکان کھولی، اس دن محلے میں ہوئے ہنگامے میں کافی دکانیں لوٹ لی گئیں اور۔۔۔

    بچپن سے آنکھ مچونی کے اس کھیل میں بڑے ہونے تک، آسمان میں پھیلتے منڈراتے دھوئیں رہ گئے تھے، جس کو سہما سہما سا دیکھتا ہوا اسلم شیرازی اپنی تقدیر کا ماتم کرنے پر مجبور تھا۔

    تب نیل نہیں آئی تھی۔۔۔

    ہاں، چپکے سے، کھلے روشندان سے آتی روشنی کی طرح، فاطمہ نے اس کی زندگی میں دستک دی تھی۔۔۔

    ’’اب اتنا اندھیرا بھی نہیں ہے، جتنا تم سوچتے ہو۔۔۔‘‘

    ’’پتہ نہیں۔۔۔‘‘

    ’’سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا ہے۔ کیا یہ غنیمت نہیں کہ ہم ہنس سکتے ہیں۔ پڑھ سکتے ہیں۔۔۔ خوش ہو سکتے ہیں۔۔۔ اور۔۔۔ پیار کر سکتے ہیں۔۔۔‘‘

    ’’پیار۔۔۔ ایک ڈراؤنے ماحول میں۔۔۔‘‘

    ’’ڈراؤنے ماحول میں۔۔۔؟، فاطمہ نے چونک کر اسکی طرف دیکھا۔۔۔ کہاں ہے، ڈراؤنا ماحول۔۔۔؟ چلو مجھے دکھاؤ۔۔۔ اس کی کانپتی انگلیاں، اس کی ہتھیلیوں پر ناچ رہی تھیں۔ ’’پاگل پن ہے تمہارا۔۔۔ سب جگہ ایسا ہی ہے۔ پڑوسی ملکوں کی بات چھوڑو، یوروپ میں دیکھ لو۔ وہاں کیا ہو رہا ہے۔۔۔

    ’’لیکن جہاں کہیں بھی ہو رہا ہے، ہونے والی ہر دہشت گردی مسلمانوں سے جوڑ دی جاتی ہے۔۔۔‘‘

    ’’جوڑ اس لیے دی جاتی ہے۔۔۔ کہ تم کر رہے ہو۔ میرا مطلب ہے۔۔۔‘‘ فاطمہ نے اس کے ہاتھوں کو مضبوطی سے تھام لیا۔۔۔ ’’مسلمان ایسا کیوں کر رہے ہیں آخر۔ کشمیر میں یا باہری ملکوں میں۔۔۔ جان لینے والوں کو قاتل یا ہتھیارا کہنے کی مہم کیوں شروع نہیں ہوتی۔ ایسے لوگوں کو پکڑو اور شوٹ کر دو۔۔۔ مسلمان کریں گے تو مسلمان ہی بدنام ہوں گے، نا۔۔۔‘‘

    فاطمہ کی آنکھوں کا رنگ یکایک بدلا تھا۔۔۔ ’’زندگی میں جنگ اور خوف سے الگ بھی ایک راستہ ہوتا ہے۔ اس راستہ کو سمجھو۔ ہمیں اسی راستے پر چلنا ہے۔۔۔ دور تک۔۔۔ ایک ساتھ۔۔۔‘‘

    اس نے سر جھکا لیا۔ ہونٹ لرز رہے تھے۔۔۔ پتہ نہیں کیوں۔ ہاں، پتہ نہیں کیوں، بار بار ڈرجاتا ہوں۔ اب تو جیسے ڈر جانے کی عادت پڑ جانی چاہئے تھی۔ ذرا سا آسمان صاف ہوتا ہے، دل میں جمی گرو کے ہٹنے کا خیال آتا ہے کہ پھر وہی دھند۔ اس دھند میں کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ پھر سے وہی خوف کے خیمے۔۔۔‘‘

    ’’اس خوف سے باہر کیوں نہیں نکلتے۔۔۔‘‘

    کیسے نکلوں۔۔۔ نکلنا چاہتا ہوں مگر۔۔۔ ’’مجھے یقین ہے‘‘ اُس کی آواز پھنسی پھنسی اور ڈری ڈری تھی۔۔۔

    ’’نہیں تمہیں نکلنا ہو گا۔ آہ تم اس بات کو بھی بھول گئے کہ۔۔۔ فاطمہ نے آگے بڑھ کر اس کا کانپتا ہوا ہاتھ اپنے پھولے ہوئے پیٹ پر رکھا۔۔۔ یہاں دیکھو۔۔۔ میرے لیے نہیں تو کم از کم۔۔۔ ایک خوش رنگ تتلی تمہارے آنگن میں کھیلنے کے لیے آنے والی ہے۔ سمجھ رہے ہو نا۔۔۔‘‘

    ’’ایک خوش رنگ تتلی‘‘۔۔۔ اسلم شیرازی نے جبراً مسکرانے کی کوشش کی۔ فاطمہ کو پلٹ کر دیکھا۔ وہ جیسے اعتقاد بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ ماں بننے کا ایک مقدس احساس اس کے چہرے سے عیاں تھا۔ اسلم شیرازی کو لگا، وہ پہلے سے کچھ زیادہ مضبوط ہو گئی ہے اور اس مضبوطی میں پیٹ میں تیرنے والے، ہولے ہولے چلنے والے اس نئے انسان کا بھی ہاتھ ہو۔۔۔ جسے وہ محض ’’خوف‘‘ کی شکلوں میں دیکھ رہا تھا۔ آہ اپنے ہی بچے کے لیے یہ احساس کتنا ڈراؤنا تھا۔۔۔ بال۔۔۔ خوف جیسے۔۔۔ ایک دوسرے میں گتھے، الجھے ہوئے۔۔۔ جیسے پتلے دبلے رینگتے ہوئے سانپ ہوتے ہیں۔ آنکھیں خوف زدہ۔۔۔ ہاتھ ٹیڑھے میڑھے۔۔۔ جسے خوف اور وحشت نے مل کر ایک ’’لنج پنج‘‘ سی شکل دے ڈالی ہو۔۔۔ اور جسم۔۔۔ تھرتھراتا، ہلتا ہوا سا۔۔۔ جیسے پارکنسنز ڈیزیز کے مارے ہوئے، عمر دراز لوگ ہوتے ہیں۔ ہلتے ہوئے۔۔۔ مسلسل ہلتے ہوئے۔۔۔ دماغ سے کمزور۔۔۔ دونوں پاؤں پاس پاس دابے، چلنے کی آزمائش سے گزرتے ہوئے۔۔۔ ہونٹ، آنکھیں، چہرہ۔۔۔ جسم۔۔۔ جیسے اندر مسلسل ہلتے ہوئے، خوف نے اس نئے انسان کو خوف کی علامت بنا کر اس دنیا میں بھیج دیا ہو۔۔۔

    جیسے کوئی ڈراؤنا سپنا ہوتا ہے۔۔۔ نیل کے دنیا میں قدم رکھنے تک بار بار اسلم شیرازی اس سپنے سے زخمی ہوتا رہا۔۔۔

    نہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔۔۔

    ’’مائی ڈیر۔۔۔ ایسا ہوتا ہے۔۔۔ ہوتا ہے۔۔۔‘‘ فادر تھامسن اس کے ساتھ صبح کی چائے پی رہے تھے۔ دھوپ چاروں طرف کھلی کھلی لگ رہی تھی۔ کبوتروں کے جھنڈ آسمان پر تیرتے ہوئے ایک طرف سے دوسری جانب پرواز کر رہے تھے۔ اُسے احساس ہوا۔ فادر کی آنکھیں اس کی آنکھوں میں اتر آئی ہیں۔۔۔

    ’’پیرامڈ۔ تم نے پھر کوئی بھیانک سپنا دیکھا کیا۔۔۔؟‘‘

    ’’آہ، نہیں فادر۔۔۔‘‘ اس کے لہجے میں تھرتھراہٹ تھی۔۔۔ آپ تو سب کچھ پڑھ لیتے ہیں۔۔۔‘‘

    ’’ایک اقلیت کا آدمی، اپنے ہی جیسے آدمی کا درد سمجھتا ہے۔۔۔ فادر مسکرائے۔۔۔ پیرا مڈ میں نیا کچھ بھی نہیں مائی ڈیر۔ بس، کچھ لوگ مرنے کے بعد بھی یہ قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے کہ وہ مر چکے ہیں۔ اس لیے وہ اپنی زندگی میں ہی مرنے کے بعد کے جشن کی تیاری کر چکے ہوتے ہیں۔ قیمتی سامان۔ آنکھیں کھلنے کے بعد پتہ نہیں کس چیز کی ضرورت محسوس ہو۔ کچھ لوگ تو اپنے نوکر، کنیزوں کو بھی مرنے کے بعد آس پاس سلائے جانے کی وصیت کر جاتے تھے تاکہ آنکھیں کھلتے ہی وہ اپنے نوکروں کو آواز دے کر جگا سکیں۔۔۔

    ’’تو کیا کبھی کسی کی آنکھیں کھلیں؟ میرا مطلب ہے۔۔۔‘‘

    ’’ارے نہیں۔۔۔‘‘ فادر تھامسن ہنسے۔ ’’مرنے کے بعد کوئی زندہ ہوتا ہے کیا؟ ہنستے ہنستے وہ چپ ہوتے ہیں۔۔۔ تم اسے تہذیب کی اس نہ ختم ہونے والی کہانی سے جوڑ سکتے ہو، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک دن سب کچھ فنا ہو جانا ہے۔ سمجھ رہے ہو نا۔ پتھروں پر لکھی تحریریں انہیں ہم تک پہنچاتی ہیں۔۔۔ اڑتی ہوئی ریت، تیز چلتی ہوئی ہوا، آسمان پر روشن سورج ہر بار ان مٹ گئی تہذیبوں کے لیے ہمارے اندر ایک نہ ختم ہونے والا تجسس پیدا کرتا ہے۔۔۔ یہ موت اور موت کے بعد بھی زندگی کو بچائے رکھنے کا وہ ’’اسرار‘‘ ہے، جسے انسان کھونا نہیں چاہتا۔ اونچی سے اونچی عمارتیں بنانے والا اور دنیا میں حکومت کے خواب دیکھنے والا بھی یہ جانتا ہے کہ ایک دن۔۔۔ ایک دن وہ مر جائے گا۔ مگر آہ۔۔۔ وہ مرنے کے بعد پھر زندہ رہنا چاہتا ہے۔۔۔‘‘ فادر تھامسن مسکرائے۔۔۔ جیسے تمہارے اندر کا خوف۔ تم نے برسوں سے کسی فرعون یا شہنشاہ کی طرح اپنے اندر کے خوف کو، اپنے دل کی ممی میں سلا دیا ہے۔ مگر آہ۔۔۔ یہاں الٹا ہے مائی فرینڈ۔۔۔ وہ خوف جاگ گیا ہے اور دیکھو تو سہی، جیسے جیسے تمہارے یہاں ولادت کا دن قریب آتا جا رہا ہے، وہ خوف مسلسل تمہارے چہرے سے عیاں ہو رہا ہے۔ مگر کیوں مائی ڈیر فرینڈ۔۔۔

    حقیقت یہ ہے کہ اسلم شیرازی اس راز سے خود بھی واقف نہیں تھا۔ اپنے خوف کو وہ الگ الگ شکلوں میں دیکھتا اور محسوس کرتا تھا۔ مثلاً جس بستر پر وہ سو رہا ہے، اس کے ٹھیک اوپر گرمی کے موسم میں اپنی پتلیوں کے ساتھ ناچتا ہوا پنکھا۔۔۔ اُس پر گر سکتا ہے گھر سے باہر نکلتے ہی گھر کا کوئی بھی فرد انجانے حادثے کا شکار ہو سکتا ہے۔۔۔ اگر ٹرین سے کہیں باہر کا سفر ہے تو ممکن ہے آگے ریل کی پٹریاں ٹوٹی ہوئی ہوں اور چیختی چنگھارتی ٹرین کسی حادثے کا شکار ہو سکتی ہو۔۔۔ اسلم شیرازی گھر سے باہر ہوتا تو فاطمہ میں دل الجھا ہوا ہوتا۔ پتہ نہیں گیس کھلا نہ چھوڑ دیا ہو۔۔۔ ٹائلس کی زمین کتنی چکنی ہوتی ہے، کہیں پاؤں نہ پھسل گیا ہو۔۔۔ پھر فادر تھامسن کی آواز اُس پر حاوی ہو جاتی۔۔۔ تم نے اپنے دل کے نہاں خانے میں ایک پیرا مڈ بنا لیا ہے۔ اس میں تمہارا خوف سو رہا ہے مگر افسوس۔۔۔ اس خوف کی آنکھیں بار بار کھل جاتی ہیں۔۔۔

    کبھی کبھی زور زور سے چلانے کی خواہش ہوتی۔۔۔ مجھے اس پیرا مڈ سے مکتی دے دو۔ میں اس خوف سے آزاد ہونا چاہتا ہوں۔

    ’’مگر کیسے۔۔۔؟‘‘

    ’’اگر میں سوچ لوں کہ آسمان پر چمکتا ہوا سورج پہلے سے کہیں زیادہ چمکیلا ہو گیا ہے۔۔۔‘‘

    تم نہیں سوچ سکتے۔۔۔

    ’’اگر میں سوچ لوں کہ۔۔۔ آسمان پر چمکتی تاروں کی بارات، میری اپنی زندگی میں اتر آئی ہے۔۔۔

    وہم ہے تمہارا۔۔۔

    اگر میں سوچ لوں کہ۔۔۔ آہ، تم کچھ بھی نہیں سوچ سکتے۔ اس لیے کہ تم صرف اور صرف خوف کے سائے میں جیتے رہے ہو۔۔۔ شاید آزادی کے ان ۵۸ برسوں میں صرف اور صرف ایک اقلیت ہونے کا احساس تمہارے اندر رہ گیا تھا، جو ہر قدم پر تم کو ڈرانے، دھمکانے کے لیے تیار رہتا تھا۔ نہیں، اس طرف مت جاؤ۔ خطرہ ہے۔ وہ تمہارے کلیگ نہیں ہیں، دوسرے مذہب کے ہیں۔ ترشول دھاری۔۔۔ مذہب کی اپنی راہیں اپنے قانون ہوتے ہیں۔۔۔ ان کے قانون تمہارے قانون، سے اور ان کی راہیں تمہارے راستہ سے مختلف ہیں۔ اسلم شیرازی نہیں جانتا تھا کہ ایسا صرف وہی سوچ رہا ہے یا ایسا وہ دوسرے بھی سوچ رہے تھے جو اُس کی طرح ایک اقلیت گھرانے میں پیدا ہوتے ہیں۔ شاید اسی لیے آتش بازی یا پٹاخہ کی آوازیں اس کے اندر خوف ہی خوف بھرنے کا کام کیا کرتی تھیں۔۔۔

    تو یہ انہی دنوں کا قصہ ہے جب پیرامڈ بار بار اسلم شیرازی کے خوابوں میں آ رہا تھا اور بقول فاطمہ، نیل بن رہی تھی۔۔۔ اور یہ اسی لہو لہو شام کا واقعہ ہے جب شہر سے پانچ کیلو میٹر دور پانچ پیر کی مزار کے پاس ایک مردے کی آخری رسومات کو لے کر دو فرقے کے لوگ آپس میں لڑ گئے تھے۔ اُس دن وہ دفتر میں تھا۔ شام کے پانچ بجے تک جب یہ خبر اس تک پہنچی تو اس نے پہلا کام یہ کیا، بغیر کسی کو بتائے دفتر چھوڑ دیا۔۔۔ باہر آیا، تو سنہرے آسمان کا رنگ مختلف نظر آیا۔۔۔

    شاید ایک فاختہ تھی، جو اس کے باہر آتے ہی آسمان پر دور تک اڑتی چلی گئی تھی۔ نہیں وہ گدھ تھا۔ اور یقیناً یہ اس کی نظروں کا دھوکہ نہیں تھا۔ اسلم شیرازی نے گدھ کی تیز آنکھوں میں ایسی چمک محسوس کر لی تھی، جو کسی مردے کو دیکھ کر پیدا ہوتی ہیں۔۔۔ شہر کی دکانوں پر شٹر گر رہے تھے۔ لوگ جلد بازی میں نظر آ رہے تھے۔۔۔

    یہ وہی لمحہ تھا، جب حواس باختہ، گھر کے اندر داخل ہونے پر اُس کی تیز تیز چلتی ہوئی سانسوں اور چہرے کے اڑے ہوئے رنگ کی پرواہ کیے بغیر فاطمہ نے دو ٹوک انداز میں آج کے دن کے سب سے بڑے واقعہ کی روداد سنائی۔۔۔

    ’’اپنا ڈرا سہما چہرہ واش بیسن کے حوالے کر دو اور ہاں سنو۔ میری طبیعت خراب لگ رہی ہے۔ ممکن ہے۔۔۔ ممکن ہے۔۔۔، اس نے سنبھل کر اس کی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کی۔۔۔

    ’’ممکن ہے، نیل کے آنے کا وقت ہو گیا ہو۔۔۔‘‘

    ’’اوہ یقیناً‘‘

    واش بیسن پر اپنا چہرہ دھوتے ہوئے وہ پرامید تھا۔ یقیناً، نیل نے اپنے لیے ایک ایسے موسم کا انتخاب کیا ہے، جیسا کہ اس نے سوچا تھا۔ ایک جلتی ہوئی شام۔ آسمان پر منڈراتا گدھ۔۔۔ اور شہر کی خطرناک فضا۔

    آدھی رات ہوتے ہوتے شہر کے مختلف علاقوں سے لوٹ پاٹ کی خبریں موصول ہو چکی تھیں اور یہی وہ وقت تھا جب نیل نے اُس کی دنیا میں آنے کے لیے اپنے ننھے منّے ہاتھ پاؤں نکالے تھے۔ مگر کہاں۔ نیل کہاں تھی۔۔۔؟

    اس سے پہلے کہ وہ چیخنے کی کوشش کرتا، ڈاکٹر نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی۔۔۔

    ’’نہیں۔ آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ وہ ہے۔۔۔ مگر بننے کے عمل میں ہے۔۔۔ اور۔۔۔ کیا کیجئے گا۔ کچھ بچے۔۔۔ ہوتے ہی ایسے ہیں۔۔۔ دل چھوٹا مت کیجئے۔ ابھی بچے کو نگرانی کی سخت ضرورت ہے۔

    نیل کے بننے کے بعد

    آرمینیا آرٹ سینٹر بلڈنگ کے دوسرے مالے پر اس کا کمرہ تھا۔ ان جی اوز کی طرف سے چلائی جانے والی اس ایفرو ایشیائی تنظیم کا مقصد تھا، ’’ہم اپنی قدیم تہذیب کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شروع کے بے روزگاری کے دنوں میں جب فاطمہ زندگی میں نہیں آئی تھی، تبھی سے وہ اس تنظیم میں شامل ہو گیا تھا۔ اس وقت کم پیسے ملتے تھے۔ دفتر بھی کسی چھوٹی جگہ کے ایک کمرے میں تھا۔ بہت ممکن ہے، اس وقت تک تہذیب کو بچانے کی مہم نے زور نہیں پکڑا ہو۔ پھر جیسے جیسے ان جی اوز پر گاڈ کی مہربانی ہونے لگی، پیسے برسنے لگے۔ کام بڑھ گئے۔ آرمینیا آرٹ سینٹر بلڈنگ کرائے پر لے لی گئی۔ ’’سیو اور سی لائنزیز یشن‘‘ سے متعلق معلومات حاصل کرنے کا کام اس کے ذمہ تھا۔ انٹرنیٹ، پیلک سروس، ایفرو ایشیائی سروے کے بعد اس کے ساتھ جڑے ہوئے لوگ اپنی اپنی رپورٹ تیار کرتے تھے۔ ان جی اوز کی طرف سے پابندی سے، ہر ماہ ایک میگزین بھی شایع ہوتی تھی۔ اس کا اسٹاف الگ سے تھا۔ یہاں سے بہت چھوٹی چھوٹی معلومات جمع کر کے اس کی رپورٹ ہیڈ کوارٹر بھجوائی جاتی تھیں۔ مثلاً اجودھیا کی مٹی میں پراچین سبھیتا تلاش کرنے کا مسئلہ ہو۔ ایک ایسی مٹی جو زمانۂ قدیم میں راجہ دشرتھ کے وقت کی مٹی سے میل کھا سکتی ہو۔ سینکڑوں فٹ نیچے کی زمین سے، آثار قدیمہ کے طور پر کچھ بھی پا لینے کا تجسس، تہذیبوں پر ریسرچ کرنے والوں کی آنکھوں میں ایک انوکھی چمک بھر دیتا تھا۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نے ایسی چمک کے پیچھے ہر بار اپنے لیے نفرت کے رنگوں کو ہی محسوس کیا تھا۔ جیسے وہ لکھیا سنگھ کا بچہ۔۔۔

    یقینی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ آپ لکھیا سنگھ کو نہیں جانتے۔ اُسے جاننا ایسا کوئی ضروری بھی نہیں ہے۔ مگر لکھیا سنگھ ان لوگوں میں سے ایک ہے، جو ہر بار اسلم شیرازی جیسے لوگوں کے راستہ میں اپنی زہریلی باتوں کا دھواں بچھا دیتے ہیں۔ جیسے اس دن۔۔۔ لکھیا سنگھ کا لہجہ سخت ہو گیا تھا۔

    ’’مان لو۔ کھدائی سے ایسا کچھ برامد ہو جاتا ہے میاں، جو تمہارے لیے تصدیق دے، کہ وہاں ہم ہی ہم تھے تو پھر۔۔۔ بوریا اٹھاؤ گے۔ پاکستان جاؤ گے۔۔۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’نا۔۔۔ تمہیں تو نہ چٹ منظور نہ پٹ۔۔۔‘‘

    اسے احساس تھا، لکھیا جیسے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ لیکن اس ’’تہذیب بچاؤ‘‘ جیسی مہم میں بھی، ایسے لوگوں کی شمولیت بڑھتی جائےگی، اسے اس کا اندازہ نہیں تھا۔ آرمینیا آرٹ سینٹر کے اس کشادہ ایرکنڈیشن کمرے میں اسلم شیرازی پر جو ذمہ داریاں ڈالی گئی تھیں وہ عام طور پر پراچین گرنتھوں، سنسکرتی یا کسی ایسے سروے سے متعلق ہوتیں، جہاں پراچین بھارت کو لے کر کسی نئی معلومات کو دوسروں تک پہنچانا ہوتا تھا۔ عام طور پر کسی نئی رپورٹ کو بناتے ہوئے لکھیا سنگھ ایسے طنز بھرے جملے اس کی طرف ضرور اچھالتے۔۔۔ دیکھا۔ تمہارا اسلام یہاں بھی نہیں ہے، ارے تمہاری پونچھ عرب میں تھی تو یہاں کیسے نظر آئےگی۔۔۔‘‘

    لکھیا سنگھ سنجیدہ ہو جاتا۔۔۔ تمہاری جڑ، تمہاری تہذیبیں یہاں نہیں ملیں گی شیرازی۔ مغلوں کی یادگار بھی کھود ڈالو تو ہماری ہی ہڈیاں اور نشانیاں ملیں گی۔ کیوں؟ ہماری مردہ ہڈیوں پر بھی تم عمارتیں بنانے سے نہیں چوکے۔۔۔

    واپس اپنی میز تک لوٹنے تک لکھیا سنگھ کے زور دار قہقہے اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے تھے۔۔۔

    آتے جاتے وہ ہر بار اپنی زہریلی گفتگو کا ایک تیر چھوڑ ہی دیتا تھا۔۔۔ ’’یار شیرازی کیوں پنگا لے رہے ہو ہم سے۔۔۔ تم لوگ مل کر مندر کیوں نہیں بنوا دیتے۔۔۔‘‘

    ’’ڈرتے ڈرتے اس نے اپنی زبان کھولی تھی۔۔۔ پھر تم اور جگہ بھی اپنا حق مانگو گے۔۔۔‘‘

    ’’تو؟‘‘ لکھیا کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوا تھا۔۔۔ پھر یکایک وہ قہقہہ لگا کر ہنسا۔۔۔ ہم اور مانگیں گے تم اور بنوا دینا۔ ہم مانگتے جائیں گے تم بنواتے جانا۔۔۔ وہ ایک بار پھر خونخوار چہرے کے ساتھ سامنے ہوتا۔۔۔ ’’تم کیا سوچتے ہو۔ تم سالے تو باہر سے آئے تھے۔ اور ہم تھے سیدھے سادے لوگ۔ پانی اور پوترتا کا رشتہ ہی جانتے تھے۔ شدھ بھوجن، شاکاہاری بھوجن، پہننے کو سادا لباس اور اس سے زیادہ کیا تھا ہمارے پاس۔۔۔ نہ لڑنا جانتے تھے نہ تمہاری طرح مکاری اور عیاری جانتے تھے۔ یہ سب تو تم نے سکھایا۔ بار بار حملہ کر کے ہمارے مندروں کو لوٹا۔ ہمیں کمزور بنایا۔۔۔ اب آہستہ آہستہ سیاست ہم نے بھی سیکھ لی تو۔۔۔ ہم وہی کریں گے جو تم نے کیا تھا۔ اہنسا پرمو دھرما یا گاندھی جی کے سدھانتوں کا یگ نہیں ہے۔ یہ یگ ہے بدلا لینے کا۔ دھرم کو سر اٹھا کر جینے کا حق دینا ہے، تو دھرم کو راجنیتی سے جوڑنا ہوگا۔۔۔

    سچ یہ ہے کہ اسلم شیرازی ہر بار ڈر جاتا تھا۔۔۔ ہر بار لکھیا کی آواز اسے خوف میں مبتلا کر دیتی تھی۔ ایک تو پردیس کا معاملہ پھر یہی پردیس جب اپنا دیس بن گیا تو بجائے گھٹنے یا کم ہونے کے اس کے اندر کے خوف میں بھی مزید اضافہ ہوتا رہا۔ کیونکہ پہلے فاطمہ نہیں آئی تھی۔ پہلے زندگی کا کوئی سا بھی خوشگوار احساس اس کے شامل نہیں تھا۔ شاید ایک زندگی میں دوسرے کو شامل کیے جانے کے احساس کے بعد، مکڑیاں کچھ زیادہ ہی تعداد میں خوف کے جالے بننے کا کام کیا کرتی ہیں۔ مثلاً اس کی کسی بھی بات سے فاطمہ پر کوئی اثر نہ ہو۔ اس کے کسی ری ایکشن سے فاطمہ کی زندگی متاثر نہ ہو۔ اور جو کچھ اس کے پرکھوں، پروجوں نے کیا تھا، اس کا صلہ ایک نہ ایک دن تو ملنا ہی تھا۔ صدیوں کی حکومت، تانا شاہی اور غرور میں ڈوبے ہوئے دن۔ مندروں کو توڑنا، ہندوؤں پر جزیے لگانا، یعنی اتہاس آپ سے پیچھا کہاں چھڑاتا ہے۔ آپ جتنا اتہاس یا تواریخ سے ہاتھ جھٹکنا چاہتے ہیں، تاریخ کے میلے، خون میں ڈوبے ہاتھ آپ کو اتنا ہی جکڑ لیتے ہیں ۔۔۔ بھاگو مت۔ یہ سب تمہارا کیا دھرا ہے۔۔۔ اور پھر غلامی کے اندھیرے دن، جس پر مسلم حکمرانوں کی کمزوریوں اور عیاشیوں کی مہر لگی ہوئی تھی۔ ذرا آگے بڑھیے تو وبھاجن یا تقسیم کی دردناک کہانی جیسے چیخ چیخ کر اشارہ کرتی ہے کہ دیکھ یہی مسلمان ہیں، جو بٹوارے کا سبب بنے۔۔۔ آنکھیں کھلنے کے بعد سے ہی اسلم شیرازی ملک میں ہونے والے دنگے فساد کے پیچھے، مسلمانوں کے خوفناک اور خونی اتہاس کی کہانیوں سے گزرتا رہا۔ پھر تو جیسے عادت سی پڑ گئی۔ زندگی کے راستے میں جو بھی ملے، زیادہ تر لکھیا سنگھ جیسے لوگ ہی تھے۔ کچھ لوگ یا تو صاف اور بےباک ہوتے تھے۔ اور کچھ پیٹھ پیچھے اتہاس کی کتابوں پر حامی بھرنے والے۔۔۔ کل ملا کر اس کی سمجھ سے زیادہ تر لوگوں کا یقین یہی تھا، کہ اس ملک میں ہر غلط، ناجائز، توڑ پھوڑ اور دہشت گردی کے پیچھے صرف اور صرف مسلمانوں کا ہی قصور رہا ہے۔

    نیل کی پیدائش کے دوسرے دن دفتر میں مٹھائیاں بانٹتے ہوئے اچانک ہی لکھیا سنگھ نے اس کے راستہ کو روک دیا تھا۔۔۔ کس خوشی میں میاں جی۔۔۔ پانچ پیر کی مزار پر دس ہندوؤں کو ٹھوک دیا تم لوگوں نے اس خوشی میں۔۔۔ یا پھر اپنی جیت کی خوشی میں۔ کہ پولس نے بھی تم لوگوں کا ساتھ دیا۔۔۔‘‘

    ’’مجھے۔۔۔ مجھے بچی ہوئی ہے۔۔۔‘‘

    ’’کیا۔۔۔‘‘لکھیا سنگھ بولا۔ ایک دم سے ٹھہر گیا۔۔۔ اس کے اندر کا کڑوا ’’سینس آفرہیومر‘‘ اس کا مذاق اڑانے کے لیے تیار تھا۔

    ’’کھا لیتا ہوں میاں جی۔ لڑکا ہوتا تو نہیں کھاتا۔ لڑکی ہے۔ اس لیے کھا لے رہا ہوں۔ ممکن ہے، ہمارے دھرم کا کوئی لڑکا ہی لے جائے۔۔۔ ہو ہو ہو، وہ ہنس رہا تھا۔ لیکن سنو شیرازی۔ تمہاری بچی نے آنے کے لیے ٹھیک ٹائم نہیں چنا۔ ارے ہمارے دس جنے مر گئے تھے۔ نہیں مار دیئے گئے تھے۔ تمہارے لوگوں دوارا۔ یہ کوئی شبھ سمئے تھا، پیدا ہونے کے لیے۔۔۔‘‘

    دھیرے دھیرے لگنے لگا تھا، آرمینیا آرٹ سینٹر کا ہر آدمی وہی زبان بولنے لگا ہے، جو لکھیا سنگھ بولتا ہے۔ کئی بار اس کے جی میں آیا کہ باہر ان کی رپورٹ کر کے بھیج دوں۔ صاف صاف لکھ دوں کہ قدیم تہذیب کو بچانے کی صورت میں آپ ہی کے لوگ ہمارے ورتمان اور مشترکہ تہذیبی وراثت کو ختم کرنے میں لگے ہیں۔ پہلے اپنا ورتمان بچا لیجئے۔ قدیم تہذیب کو بچانے کی بات بعد میں سوچئےگا۔ لیکن یہ شکایتیں کس سے کرتا۔ چھ مہینے سال میں باہر سے ڈے لی گیٹ یا ہیڈ کوارٹر سے انکوائری یا دیکھنے کے لیے سی او اور دوسرے ڈائرکٹر وزٹ کیا کرتے۔ وہ بھی یہ دیکھنے کے لیے کہ فنڈ کا غلط استعمال تو نہیں ہو رہا ہے۔۔۔ ان سے کچھ بھی بولنے یا کرسی کو ’’اونچا‘‘ کرنے کی ہمت اس میں نہیں تھی۔۔۔

    پیارے قارئین، یقین کریں، آئندہ صفحات میں زندگی اور فنتاسی کے میل سے جو کہانی آپ پڑھیں گے، شاید آپ کو اس پر بالکل یقین نہ آئے۔ لیکن یہ کہانی اسی لمحے پیدا ہو گئی تھی جب لکھیا سنگھ نے اس کا یعنی اسلم شیرازی کا مذاق اڑایا تھا۔ اپنی کرسی پر واپس لوٹنے تک جیسے ہزاروں کی تعداد میں خونی منقار والے گدھ اس کے چاروں طرف چھاچکے تھے۔ جسم میں لرزش تھی۔۔۔ پاؤں کانپ رہے تھے۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا رہا تھا۔ لکھیا سنگھ کے زہریلے لفظ اسے ڈس رہے تھے۔۔۔ ’’لڑکا ہوتا تو نہیں کھاتا۔۔۔ لڑکی ہے اس لیے۔۔۔ تمہاری بچی نے آنے کے لیے شبھ سمئے نہیں چنا۔۔۔ یہ کوئی سمئے تھا، پیدا ہونے کا۔۔۔، اور یہ سچ تھا، فاطمہ کے گھر آ جانے کے بعد بھی اُس نے نیل کو پلٹ کر نہیں دیکھا تھا۔ یا اس کے اندر اتنی ہمت ہی نہیں تھی کہ نیل کو دیکھ پانے کی کوشش کرتا۔ کیونکہ ولادت کے وقت اسے دیکھے جانے پر ہی اس پر غشی طاری ہو گئی تھی اور جیسا کہ داستان کے شروع میں، بتایا جا چکا ہے کہ اس نے کہا تھا۔ نیل تو ہے ہی نہیں اور ڈاکٹر نے کہا تھا۔ وہ ہے۔ آپ ذرا دیکھیے تو سہی، وہ بن رہی ہے۔۔۔ اور قصہ کوتاہ بات یہ تھی کہ وہ سچ مچ بن رہی تھی۔ یعنی جو گوشت پوست کا لوتھڑا نیل کی شکل میں اس کے سامنے تھا، وہ آدھا ادھورا تھا۔ عام پیدا ہونے والے بچے سے اس کا سر کہیں زیادہ چھوٹا تھا۔ منہ کا حصہ ابھی بنا ہی نہیں تھا۔۔۔ ایک لمحے کو اس کی نگاہ نیل کی طرف چلی گئی اور بڑی مشکل سے وہ اپنی چیخ دبا پانے میں کامیاب ہوا تھا۔ لیکن دوسرے ہی لمحے وہ کانپ گیا تھا۔ جو کچھ ہوا تھا، وہ ایک دم اچانک ہوا تھا۔ ننھی نیل کی بند آنکھیں اس سے ٹکرائی تھیں۔۔۔ اور آپ یقین کریں۔۔۔ وہ آواز، یقینی طور پر۔۔۔ وہ آواز بالکل صاف تھی۔۔۔ اور وہ آواز یقیناً اس کے لیے تھی۔۔۔ ’’ڈرو مت۔۔۔‘‘

    وہ ادھر ادھر دیکھنے لگا۔۔۔

    ’’ادھر ادھر مت دیکھو پاپا۔ یہ میں ہوں۔ ابھی تم سے بہت باتیں کرنی ہیں۔ مگر خدارا، پہلے یہاں سے مجھے گھر لے چلو۔ اور خدا کے واسطے یہاں ابھی بہت سے لوگ کھڑے ہیں۔ ایسے، حیرانی کے عالم میں چونک چونک کر اپنا مذاق مت اڑواؤ پاپا۔ بس مجھے یہاں سے لے چلنے کی پہل کرو۔۔۔‘‘

    وہ پسینے پسینے تھا۔

    ڈاکٹر کچھ حیرانی کچھ شک سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔

    ’’کیا ہوا؟‘‘

    ’’نہیں کچھ نہیں۔۔۔‘‘

    ’’آپ کانپ رہے ہیں، آپ کا چہرہ پسینے میں ڈوب گیا ہے۔‘‘

    ’’نہیں، بس یونہی۔۔۔‘‘

    کھڑکی کے اس پار سورج غروب ہو رہا تھا۔

    نیل اور پیرامڈ کی تاریک دنیا

    اس درمیان صرف اتنا ہوا کہ نیل گھر آ گئی۔ فاطمہ جب نیل کو لے کر پہلی بار اپنے بیڈ روم میں داخل ہوئی تو اچانک وہ زور سے چلا پڑی۔ نیل فاطمہ کی گود میں، کپڑوں سے لپٹی ہوئی، ایک چھوٹی موٹی گٹھری کی شکل میں تھی۔ کمرے میں اڑتی ہوئی ایک چمگادڑ تیزی سے فاطمہ کے کان کے پاس سے اڑتی ہوئی سامنے والی دیوار کے پاس چلی گئی۔ مارے خوف کے فاطمہ نے نیل کو بستر میں ڈال دیا۔۔۔ دونوں کان بند کر لیے۔۔۔ چمگادڑ کو کمرے سے باہر جانے کا راستہ نہیں مل رہا تھا۔

    وہ زور سے چیخا۔۔۔ کھڑکی کھول دو۔

    فاطمہ ابھی تک اپنی آنکھیں اور دونوں کان بند کیے کھڑی تھی۔ بچپن سے چمگادڑ کو لے کر ایک خوف اندر اندر بیٹھ گیا تھا۔ چمگادڑ کان میں داخل ہو جاتے ہیں۔ بچپن میں سنے ہوئے ایسے ہزاروں قصہ تھے۔۔۔ مگر چمگادڑ کا یہ رقص جلد ہی تھم گیا۔ کھلی کھڑکی سے چمگادڑ کو باہر نکلنے کا موقع مل گیا۔۔۔ فاطمہ نے اپنی سانسیں برابر کیں۔ پیار سے نیل پر جھک گئی۔۔۔ نیل سوگئی تھی۔۔۔ گورا رنگ، سر پر بالوں کا جمگھٹ تھا۔ مگر منہ کا حصہ خالی تھا۔ فاطمہ آہستہ آہستہ اس کے بالوں کو سہلا رہی تھی۔

    ’’تم نے سنا۔۔۔ ڈاکٹر نے کہا ہے۔ پلاسٹک سرجری ہو جائے گی۔ پھر سب کچھ ٹھیک ہو جائےگا۔۔۔

    اس نے پلٹ کر پیار بھری نظروں سے اُس کی طرف دیکھا۔۔۔ سب کچھ ٹھیک ہو جائےگا نا۔۔۔؟

    ’’اس کی آواز میں درد کا اک ایسا راگ چھپا تھا کہ وہ اندر تک لہو لہان ہو گیا۔۔۔

    اپنے کمرے میں واپس آنے تک اسلم شیرازی بس اسی خیال سے دوچار رہا کہ کیا اسپتال سے گھر آتے ہوئے سچ مچ اُس نے نیل کی آواز سنی تھی۔ یا اس کا وہم تھا۔۔۔ نہیں یقیناً اس کے کان بج رہے ہوں گے۔ اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ممکن ہے، خوف کے مسلسل حملے میں، اسے اپنی ہی بات سنائی دی ہو۔۔۔ اُس دن کئی بار ایسا ہوا جب فاطمہ کسی نہ کسی کام سے اندر باہر کرتی رہی اور وہ تا دیر نیل کے پاس رہا۔ یا تو وہ سوتی رہی۔ یا پھر چیخ چیخ کر رونا شروع کر دیتی۔ لیکن ایک بار بھی اس نے اس کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھا۔۔۔

    وقت تیزی سے گزرنے لگا تھا۔ ڈاکٹر کی پیشن گوئی صحیح ثابت ہوئی تھی۔ نیل کو سیزریا جھٹکے شروع ہو گئے تھے۔ جھٹکے کے دوران اس کا چہرہ بالکل پیلا پڑ جاتا اور اچانک وہ تیز تیز سر کو جھٹکا دینے لگتی۔ ڈاکٹر کے مطابق چھوٹے دماغ والے ایسے بچے، ایب نارمل ہوتے ہیں اور یہ جھٹکے معمولی بات ہیں۔ اور یہ سچ ہے کہ ڈاکٹر نے پہلے دن سے ہی اس بات کا احساس کرا دیا تھا کہ نیل زیادہ دنوں تک تمہاری دنیا میں رہنے کے لیے نہیں آئی ہے۔۔۔

    فادر کی نظروں میں نیل کی موجودگی کا مقصد صاف تھا۔

    ’’وہ تمہارے خوف کا چہرہ ہے۔۔۔‘‘ فادر اسمتھ سنجیدہ تھے۔ اس سے زیادہ دل مت لگاؤ۔ بس سمجھ لو۔ وہ چند دن کی مہمان ہے، تمہیں اس مہمان کی قدر کرنی ہے۔۔۔

    ’’وہ مہمان نہیں میری بیٹی ہے فادر۔۔۔، اس کے آنسو سارے باندھ توڑ گئے تھے۔۔۔ ایک بیٹی جس کے بارے میں اُٹھتے بیٹھے، سوتے جاگتے سپنے دیکھتا تھا۔ ایک بیٹی، جس کے لیے میں سب کچھ بھول گیا تھا۔۔۔‘‘

    ’’بھولے نہیں تھے۔ تم ایک انجانے خوف کی پرورش کر رہے تھے۔۔۔ افسوس! ہم اقلیت کے لوگ اس انجانے خوف سے باہر نکل ہی نہیں سکتے۔‘‘

    ارمینیا آرٹ بلڈنگ کی عمارت میں اس دن ایک بار پھر لکھیا سنگھ نے اس کا نام لے کر پکارا تھا۔۔۔

    قریب جانے پر لکھیا سنجیدہ چہرے کے ساتھ اس سے مخاطب تھا۔

    ’’کبھی تم نے ایک بات غور کی اسلم شیرازی‘‘

    ’’کون سی بات؟‘‘

    ’’میں نے سمجھا تھا، شاید نہیں پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ تم خود ہی سمجھ جاؤ گے۔‘‘

    میں ابھی بھی نہیں سمجھا۔۔۔

    لکھیا نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ اچھا بتاؤ، یہاں تمہاری ذات کے کتنے لوگ ہیں؟

    ’’اکیلا میں ہوں۔‘‘

    ’’یہی تو پوچھ رہا ہوں۔‘‘ لکھیا ہنس رہا تھا۔۔۔ اکیلے کیوں ہو یہاں۔ یہاں سے چلے کیوں نہیں جاتے۔ ذرا سوچو اگر یہاں تم نہیں ہوتے، تو یہاں ہمارا ایک آدمی ہوتا۔۔۔ ہمارا یعنی ہمارے دھرم کا۔۔۔ ایک تم نے ہماری پوری کیمسٹری بگاڑ دی ہے۔‘‘ اسے گہرے سناٹے میں چھوڑ کر لکھیا تو چلا گیا لیکن اسلم شیرازی کو اس گہری دھند یا سناٹے سے باہر نکلنے میں کافی اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ اُس کے جی میں آیا، لکھیا سے کہے۔ اپنے دھرم کے آدمی ہونے پر بھی تمہارا جی نہیں بھرے گا لکھیا سنگھ۔ پھر تم جات برادری لے آؤگے۔ گوتر کی باتیں کروگے۔ اس پر بھی بس نہیں چلےگا تو چھیتریتا اور ونش واد کی دہائیاں دوگے۔ بات یہ ہے کہ تم لوگوں کا ہاضمہ خراب ہے۔۔۔ لیکن اسلم شیرازی کی اپنی کمزوریاں اس پر حاوی تھیں۔ وہی کمزوریاں، جس کے ساتھ وہ بڑا ہوا تھا۔ جس کے ساتھ اُس نے پاؤں پاؤں چلنا شروع کیا تھا۔ اسکول سے کالج اور کالج سے اپنی ذمہ داریوں کی دنیا میں آنے تک انہی کمزوریوں نے اس کی پوری زندگی کو ایک ڈراؤنے خواب میں تبدیل کر دیا تھا۔

    اور اب اس ڈراؤنے خواب کی شکل میں نیل سامنے تھی۔۔۔

    وہ چاہتا تھا کہ نیل آسمان میں اڑتی۔ اس کے چھوٹے چھوٹے ڈینے ہوتے۔۔۔ مگر۔۔۔ نیل کے ڈینے ٹوٹے ہوئے تھے۔۔۔

    نیل کی سب کچھ اس کی آنکھیں تھیں۔ چھوٹی چھوٹی آنکھیں، جن آنکھوں میں وہ کوئی بھی سپنا نہیں رکھ سکتا تھا۔

    چھوٹے چھوٹے ہاتھ، جن کی انگلیاں مضبوطی سے تھام کر وہ انہیں چلنا نہیں سکھا سکتا تھا۔۔۔

    اور ایک آدھا ادھورا منہ، ایک آدھی ادھوری سی نیل۔۔۔ اور بڑھتا ہوا وقت کا قافلہ جیسے ہر لمحہ اسے وارننگ دینے کے لیے موجود ہوتا۔۔۔ نیل جا رہی ہے۔ نیل کی زندگی سے ایک دن اور کم ہو گیا۔ بدنصیبی کی کوئی بھی کہانی، شاید اس سے زیادہ اذیت ناک نہیں ہو سکتی کہ وہ ہر لمحہ نیل کو خود سے دور جاتا ہوا دیکھ رہا تھا اور بے بس تھا۔

    حقیقت یہ ہے، کہ وہ نیل کو کسی پیرامڈ میں لے جا کر چھوڑ دینا چاہتا تھا۔ عین ممکن ہے، آپ اسے کوری فنتاسی، ایک بچکانہ خیال، ایک واہیات اور محض جذباتی ہونے کی دلیل کے ساتھ خارج کر دیں۔۔۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ اُنہی دنوں اُسے خواب میں پیرامڈ نظر آنے لگے تھے۔۔۔ ہزاروں کی تعداد میں۔۔۔ اسلم شیرازی کو اس بات کا احساس تھا کہ ایک دن سونے چاندی اور زندگی کی تمام تر آسائشوں کے ساتھ دفن، پیرامڈ میں آرام کرتے یہ مردے ضرور جاگتے ہوں گے۔۔۔ یا ضرور جاگیں۔ پھر آواز دیں گے۔۔۔ جیسے اس کی نیل۔۔۔ وہ اسے چپکے سے کسی پیرامڈ میں رکھ آئے۔۔۔ کیا خبر، چپکے سے نیل جاگ جائے۔۔۔ چپکے سے اُسے آواز لگائے۔۔۔ چپکے سے اٹھ کر چلنے کی تیاری کرے۔۔۔ چپکے سے اٹھ کر ہوا میں تیرتی ہوئی گود میں آ جائے۔۔۔ اس کی بانہوں میں سما جائے۔۔۔

    پیارے قارئین۔۔۔ یہاں آپ کو ذرا سا ٹھہرنا پڑےگا۔ کیونکہ جیسا آپ کو شروع میں بتایا گیا۔ یہ کہانی وہاں سے شروع نہیں ہو سکتی، جہاں سے آپ چاہتے ہیں۔ اور یہ انہی دنوں کا واقعہ ہے جب عالمی نقشہ پر دہشت پسندی کے ایک کے بعد ایک کئی حادثے نے مسلمانوں کو دہشت پسند قرار دے دیا کر دیا تھا۔ کشمیر سے کنیا کماری اور امریکہ سے برطانیہ ہر جگہ داڑھی والا مسلمان شک کے دائرے میں تھا۔ اور یہاں ڈاکٹروں کے مطابق نیل کے سیزر اس قدر بڑھ چکے تھے کہ اب اس کی زندگی کے سارے راستے مسدود ہو گئے تھے۔ فاطمہ کی آنکھیں ایک ایسی جھیل بن چکی تھیں، جس کا سارا پانی سوکھ چکا ہو۔۔۔ نیل کی چیخیں اب اتنی زیادہ دہشت میں مبتلا کرنے والی ہوتیں کہ ربّ سے مانگی جانے والی دعاؤں میں اب اس کے لیے موت کی آرزو ہوتی۔۔۔ اور یقیناً وہ ایک سرد ترین رات تھی، جب سرد کہاسے نے پورے شہر پر اپنا سایہ ڈال رکھا تھا۔ کمرے میں مرکری روشنی تھی۔ مسلسل کرب کی کیفیت سے گزرتے ہوئے یکایک اسلم شیرازی کی نظر نیل پر چلی گئی۔ اور وہ یکایک چونک پڑا۔

    نیل کی روشن چمکتی آنکھیں اس کی آنکھوں میں جھانک رہی تھیں۔۔۔ اور یقیناً وہ اس کی آواز سن سکتا تھا، محسوس کر سکتا تھا۔

    ’’تم اتنا ڈرتے کیوں ہو۔۔۔ ہاں تمہی سے پوچھ رہا ہوں پاپا۔۔۔ کیوں ڈرتے ہو۔۔۔‘‘

    ’’میں۔۔۔‘‘

    ’’یہاں اور کون ہے۔ تمہارے اور ممی کے سوا۔۔۔ مجھے تمہارا ڈرنا پسند نہیں ہے۔۔۔‘‘

    پسند نہیں ہے؟

    ’’اور کیا۔۔۔ تم ڈر ڈر کر بڑے ہوئے۔ ڈر ڈر کر زندگی شروع کی۔۔۔ ڈر ڈر کر مجھے پیدا کیا۔۔۔ اور دیکھو تو۔۔۔‘‘

    ’’کیا دیکھوں۔۔۔‘‘

    ’’مجھے اور کسے۔ تم نے اپنا ڈر ممّی کو دے دیا۔ ممّی میرے روپ میں اس ڈر کی پرورش کرتی رہیں۔ اور دیکھو تو۔۔۔ میں تمہاری زندگی میں آئی بھی اور نہیں بھی آئی۔ کیا ملا تمہیں ڈرنے سے۔۔۔ اور اب میں جارہی ہوں لیکن میں تمہیں خوفزدہ نہیں دیکھ سکتی پاپا۔ سمجھ لو، میں تمہاری خوف کی شکل ہوں۔ اور اب میں جارہی ہوں، تو تمہیں خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے۔۔۔‘‘

    نیل کی آنکھوں میں چمک تھی۔۔۔ ایسی چمک جو اسلم شیرازی نے اپنی اب تک کی زندگی میں شاید ہی کبھی دیکھی یا محسوس کی ہو۔۔۔

    ’’اور جان لو پاپا۔۔۔ میں جا رہی ہوں۔۔۔ میں کبھی لوٹ کر تمہاری دنیا میں واپس نہیں آؤں گی۔ مگر مجھے یاد کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے پاپا۔۔۔ تم ڈرو گے نہیں۔ کیوں کہ ڈرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے تمہارے پاس۔۔۔‘‘

    نیل نے مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھا اور پلٹ کر آنکھیں بند کر لیں ۔۔۔ جیسے اب اس کی ضرورت نہیں رہ گئی ہو۔۔۔

    جیسے اس نے اپنا کام مکمل کر لیا ہو۔۔۔

    اور آخر میں

    کہتے ہیں، دنیا کے آٹھ عجوبوں میں سے ایک پیرامڈ تک پہنچا کوئی سہل کام نہیں۔ جہاں روشنی اور ہوا کا گزر نہیں۔ ایک نہ ختم ہونے والی اندھیری سرنگ۔۔۔ نہ ختم ہونے والی سیڑھیوں کی قطار اور بھول بھلّیاں۔۔۔ ایک پر اسرار دنیا اور پتھروں سے پھوٹتی ہوئی خاموشی۔۔۔ ایک بھیانک فنتاسی اور خوف کے گہرے کہرے سے باہر نکلنے تک، گو یہ کافی مشکل اور دشوار کن مرحلہ تھا، لیکن اسلم شیرازی نے اس دھند اور تاریکی میں زندگی کی ایک موہوم سی کرن ڈھونڈھ لی تھی۔

    نیل جا چکی تھی۔۔۔

    نیل کے جانے کا بھیانک سنّاٹا زندگی کے راستہ میں حائل ضرور تھا، تاہم اسی سنّاٹے سے اسلم شیرازی اپنی زندگی کا نیا باب شروع کرنا چاہتا تھا اور جیسا کہ اس دن آرمینیا آرٹ سینٹر کی بلڈنگ کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اچانک ہی اس نے لکھیا سنگھ کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ اور اس سے پہلے کہ لکھیا سنگھ حیرانی سے اس کی طرف دیکھتا، اسلم شیرازی نے برسوں سے اندر دبے ہوئے لاوے کو ایک ہی جھٹکے میں نکال دیا۔

    ’’سنو لکھیا سنگھ۔ برسوں سے تم کہتے رہے۔ میں سنتا رہا۔ لیکن کچھ باتیں ایسی ہیں جو تمہیں بتانا ضروری ہے۔‘‘

    مثلاً؟ لکھیا سنگھ کی آنکھوں کا رنگ بدلا تھا۔

    ’’مثلاً یہ کہ اب مجھے اپنے آپ کو اور تمہیں یہ بتانا ضروری ہے کہ جن لوگوں نے ملک کا بٹوارہ کرایا۔ وہ میں نہیں تھا۔ اس لیے اس حادثے کی سزا تم کم از کم مجھے نہیں دے سکتے۔ جس نے بابری مسجد بنایا، وہ بھی میں نہیں تھا، جس نے گودھرا کیا، وہ بھی میں نہیں تھا۔۔۔ دنیا کے ایسے کسی بھی حادثے میں میری شرکت نہیں رہی ہے لکھیا سنگھ، تمہاری رہی ہو تو میں نہیں جانتا۔۔۔ اس لیے جو کام میں نے کیے ہی نہیں، تم بار بار اس کام کے لیے مجھے ذلیل کرنا چاہوگے تو میں برداشت نہیں کروں گا۔ اور ہاں، کیمسٹری میری موجودگی سے نہیں تمہاری موجودگی سے خراب ہوئی ہے۔۔۔ اگر اس سینٹر سے کسی ایک آدمی کو جانا ہوگا تو وہ تم ہوگے لکھیا سنگھ۔۔۔‘‘

    گھر واپس آنے پر آج پہلی بار وہ محلے کے سونا حلوائی کی دکان سے چھنی ہوئی تازہ جلیبیاں لے کر گھر پہنچا تھا۔ یقینی طور پر یہ فاطمہ کے لیے چونکنے کی بات تھی۔۔۔

    ’’تمہیں تو آج تک کوئی بھی اچھی بری چیز گھر لانے کی توفیق نہیں ہوئی۔۔۔ یہ جلیبی لے کر کیسے آ گئے۔۔۔‘‘

    ’’پتہ نہیں‘‘

    اس کی آواز جیسے پراسرار پیرامڈ کی تنگ و تاریک دنیا میں گم ہو گئی تھی۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے