پتا جی
کہانی کی کہانی
یہ ایک ایسے شخص کی داستان ہے جو اپنے والد کی موت کے بعد اپنی بیوی کو بڑی بہو کہنے لگتا ہے۔ وہ اپنے والد کے کپڑے پہننے لگتا ہے اور کبھی کبھی بڑی بہو کو والد جیسا ہی لگنے لگتا ہے۔ ایک دن وہ کرسی پر بیٹھے ہوئے بڑی بہو کو بیتی زندگی کے کئی واقعات سناتا ہے اور ساتھ ہی بتاتا جاتا ہے کہ اس نے ہی والد کا قتل کیا ہے، کیونکہ اسے بڑی بہو اور اس کے والد کے درمیان رشتہ کو لے کر شک تھا۔
’’نہیں، بڑی بہو۔‘‘ جب سے بڑے بابو کے پتا کا دیہانت ہوا تھا وہ بھی ان کے مانند اپنی بیوی کو بڑی بہو کہہ کربلانے لگا تھا۔ ’’تم سمجھتی کیوں نہیں؟‘‘
’’اس میں سمجھنے کی کیا بات ہے؟‘‘ بڑی بہو سویٹر بنتے ہوئے وہاں سے جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’جا کہاں رہی ہو؟ بیٹھی رہو۔‘‘ بڑی بہو پھر اپنی جگہ بیٹھ گئی۔
’’ہر ایک کی برائی کرتے رہتے ہو، سبھی ایسے ہوتے تو دنیا اب تک ڈھےچکی ہوتی۔‘‘
’’ڈھے چکی ہے، بڑی بہو۔‘‘
’’ڈھے چکی ہے تو پھر میں اور تم یہاں کیوں کر کھڑے ہیں؟‘‘
’’کھڑے کہاں ہیں؟ بیٹھے ہوئے ہیں۔‘‘
بڑی بہو کو ذرا سا احساس ہوا کہ بڑے بابو آج اپنی طرح کیوں نہیں دکھ رہا، مگر پھر وہ اپنا سر جھٹک کر مسکرانے لگی۔۔۔ ہر کوئی اپنی طرح ہی تو دکھتا ہے۔۔۔ اسی اثنا میں اس کی نظر سامنے کی دیوار پر اپنے سسر مرحوم کی تصویر پر جاٹکی۔ جب سے بڑے بابو ساٹھ سے اوپر ہوا تھا، اس میں گویا یہی تصویر چلنے پھرنے لگی تھی۔۔۔ بڑی بہو۔۔۔ ویسی ہی آواز اور وہی چاپ۔۔۔ میرا گرم پانی غسل خانے میں دکھ دیا۔۔۔؟ ہاں، پتاجی۔۔۔ بڑے بابو۔۔۔
’’ارے!‘‘ بڑے بابو اپنی بیوی سے مخاطب تھا۔ ’’میری طرف دیکھتے ہوئے تمہاری نظر کیوں پھٹ گی ہے؟‘‘
بڑی بہو گویا بڑے بابو کے چہرے پر آنکھیں پھیرلینے کی بجائے بدستور اپنے سسر کی تصویر پر ٹکٹکی باندھے ہوئے تھی۔ اس کی موت کے بعد وہ اکثر اکیلے میں پہروں اس کی تصویر پر نظر گاڑے بیٹھی رہتی، یا پھر تصویر سامنے نہ بھی ہو تو وہ اس کےخیال میں گم ہوتی۔
مگر وہ چڑی سی رہتی تھی کہ بڑے بابو ہو بہو پتا جی ہی کیوں معلوم ہونے لگاہے۔ ’’میں نےتم سےکئی بار کہا ہے بڑے بابو، پتاجی کےجیسےکپڑے مت پہناکرو۔‘‘
’’کیوں، اس پہناوے میں کیا برائی ہے؟‘‘
’’برائی تو نہیں، تم نرے پرے پتاجی ہی لگنےلگے ہو۔‘‘
’’تو کیا پھر تمہارا باپ لگوں؟‘‘
بڑی بہو کی آنکھیں بدستور اپنے شوہر کے چہرے کی جھریوں میں الجھی ہوئی تھیں اور وہ بے چین سی ہونےلگی تھی کہ بڑے بابو آج پتاجی کے مانند بھی نہیں دکھ رہا۔
’’میری طرف اس طرح گھور گھور کر کیوں دیکھ رہی ہو؟‘‘ بڑے بابو اپنی بیوی سے پوچھ رہاتھا۔ ’’کیا میں تمہیں کوئی اور لگ رہاہوں؟‘‘
’’نہیں،‘‘ بڑی بہو گھبراکر سویٹر کی طرف متوجہ ہوگئی۔
’’میرے ساتھ کبھی بیٹھ جاتی ہو تو یہی معلوم ہوتا ہے اٹھنے کو بے تاب ہو رہی ہو۔‘‘
’’نہیں تو،‘‘ وہ اور زیادہ گھبراکر سویٹر پر اپنی انگلیاں تیز تیز چلانے لگی۔ ’’تم اپنے ساتھ بیٹھنے کو کہتے ہو تو مجھ میں نئی جان پڑجاتی ہے۔‘‘
’’تو پھر میری باتوں پر ہمیشہ مٹی کیوں جھاڑ دیتی ہو؟‘‘
’’میں تو یہ کہتی ہوں لوگوں کی اچھی باتیں بھی کیا کرو،‘‘ بڑی بہو نے ساری عمر دَم سادھے ہی گزاری تھی مگر چند سال پہلے اس کا منہ جو ایک بار گھل گیا تو اس کےبولوں کے ساتھ اندر ہی اندر تھما ہوا دھواں بھی چھوٹنے لگا، تاہم اس وقت وہ بڑے بابو سے ڈھیلے ڈھیلے بولنا چاہ رہی تھی۔ ’’لوگ بھی اچھے، ہم بھی اچھے۔‘‘
بڑے بابو ہنسنےلگا، ’’مجھے ست نارائن کی کتھانہیں سننا ہوتی، باتیں کرنا ہوتی ہیں۔‘‘
’’تو پھر باتیں ہی کیاکرو نا،‘‘ بڑی بہو نےاپنےدھوئیں کو بہت روکامگر وہ اس کامنہ کھلا پاکر چھوٹ ہی گیا۔ ’’جس کے بارےمیں بھی بات کرتے ہواس میں کیڑے ڈالناکیوں شروع کردیتے ہو؟‘‘
بڑے بابو شاید اپنےغصے پر قابو پانے کے لیے اپنے بستر پر ہاتھ گھماکر سگریٹ اور ماچس ڈھونڈنےلگا۔ ’’یہ ہے!‘‘ سگریٹ نکال کر اسے سلگانےلگاتو بڑی بہو گویا ہوئی۔ ’’ابھی ابھی تو پیا ہے۔ کیوں سینہ جلارہے ہو؟‘‘
’’اپنا ہی جلارہا ہوں،تمہارا تو نہیں،‘‘ بڑے بابو کھانسنے لگا۔ ’’میں تمہیں کئی بار بتاچکاہوں بڑی بہو، میرا سینہ سگریٹ وگرٹ سے نہیں جلتا، میرا سینہ تمہاری باتوں سے جلتا ہے۔‘‘
’’ہے بھگوان، سن رہے ہو؟‘‘ سویٹر پر نظر پڑجانےپر بڑی بہو کو اچانک خیال گزرا کہ پیٹھ زیادہ چوڑی ہوگئی ہے اور وہ سب کچھ بھول کر بڑے بابو کے بستر پر چلی آئی اور سویٹر کی پیٹھ کو بڑے بابو کی پیٹھ پر پھیلا دیا۔ ’’ہلو نہیں بڑے بابو، ذرا سیدھے ہوکے بیٹھو۔۔۔ تم سے ڈیوڑھا چوڑا ہوگیا ہے۔‘‘
بڑے بابو غصے کے باوجود ہنسےبغیر نہ رہ سکا۔ ’’تم نے ساری عمر یہی توکیا ہے، میری برائیوں کو دگنا تگناچوڑا کرکے دکھاتی رہتی ہو۔‘‘
’’تم۔۔۔‘‘
’’چلو چھوڑو سویٹر کو، اور سامنے بیٹھ کر میری بات سنو۔‘‘
’’تم بولتے جاؤ۔ پیچھے بیٹھ کرکان بند تو نہیں ہوجاتے۔‘‘
’’میں تمہیں اسی لیے برالگتاہوں کہ سدا میری پیٹھ پر اپنے کان کھڑے رکھتی ہو۔ میرے سانے بیٹھ کے مجھے سنو تو تمہاری سمجھ میں بھی آؤں۔‘‘
بڑی بہو نے پھر اپنے شوہر کے سامنےکی کرسی سنبھالی اور اس کی طرف سراٹھاکر کہنےلگی، ’’بولو۔۔۔ ‘‘ مگر اس سے پہلے کہ وہ اپنا منہ کھولے، بڑی بہو کی نظر پھسل گئی اور اسے وہاں اس نوجوان کے بے واسطہ سی صورت دکھائی دینے لگی جس سے اس کانیا نیا بیاہ ہوا تھااور جو ان دنوں کسی اور شادی شدہ اوباش عورت کے عشق میں گرفتار تھااور سارا وقت اسی کی رفاقت میں بتایا کرتاتھا۔
’’بڑی بہو،‘‘ اس کی مرحوم ساس نے اسے بتایا تھا۔ ’’ہم تو ہار گئے ہیں، جیسے بھی بنے ہستی سیتا بن کے اب آپ ہی اپنی چیز سنبھال لو۔‘‘ بڑی بہو کو معلوم ہوا تھا کہ اس کے ماں باپ نے شادی کے نام پر اسے بن باس پر دھکیل دیا ہے اور اس کامرد اسے ریچھوں اور بھیڑیوں کی راہ پر سوتےمیں اکیلا چھوڑ کر نہ جانے کہاں غائب ہوگیا ہے۔ اس کے ساتھ وہ جنگلی کانٹوں کو بھی چوم چوم کر گزار دیتی مگر اس کے بغیر وہ اس جنگل میں کہاں ماری ماری پھرے؟ اسے تو اجودھیا کاراستہ بھی معلوم نہیں۔۔۔ بڑی بہو اجودھیا پہنچ تو گئی پر کیا فائدہ؟ یہاں پہنچتے پہنچتے یہاں سے بھی روانگی کاوقت سر پر آکھڑا ہوا تھا۔ بڑے بابو کی آنکھ اس وقت کھلی جب اس کی نظر کمزور پڑچکی تھی۔ کیا پتہ، بوڑھیا کا انتم سنسکار کرتے ہوئے اس کی آتما کو بڑی نیک نیتی سےنرک کی راہ پر ڈال دے۔ اس لیے کچھ بھی ہوجائے، بڑی بہو پوجا پاٹھ سے کبھی نہ چوکتی تھی۔ یہ جنم بگڑا، سو بگڑگیا، کیوں نہ اب بھگوان کے چرنوں میں اپنا سداکاجیون پراپت کرلوں۔
’’ہہ ہا ہہ۔۔۔ ہہ!‘‘ بڑے بابو اس پر ہنستا کرتا۔ ’’سدا کیوں جینا چاہتی ہو، بڑی بہو؟ اپنےمن بھاتا ابلے ہوئے آلو کھائے جانے کے لیے۔۔۔؟ میری خواہش تو بس یہ ہے کہ اب نہ ہونے کے مزے لوٹنے کی نوبت آجائے۔‘‘
بڑی بہو نے اپنے شوہر کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا تھا، ’’کچھ اچھا کرتے نہیں، کم سے کم برا بھی نہ بولو۔‘‘
’’میں نے جب بھی کم سے کم کچھ کیا ہے اس سے مجھے زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔‘‘
بڑی بہو سوچ رہی تھی اسے کیا نقصان پہنچا ہے؟ سارانقصان تو مجھے ہی پہنچا ہے، پر نقصان کیا اور فائدہ کیا؟ جو ہوا وہ بیت گیا اور جو میں چاہتی تھی وہ بھی ہوتا تو بیت جاتا۔۔۔ نہیں۔۔۔ اس نے سرجھٹک کر اپنے آپ کو سمجھایا۔۔۔ میں فائدے میں ہی رہی ہوں۔ جیون نیا ڈگمگ ڈگمگ کنارے پر لگے تو جینا سچ مچ کا معلوم ہوتاہے۔ یقین نہ آئے تو ذراسا سرموڑ کر وہ سب کچھ ایک ہی پل میں پھر سے جی لو جسے جیتے جیتے عمر بیت گئی۔۔۔ تیری مہما اپرم پار ہے بھگوان۔۔۔ بڑی بہو نےسویٹر ایک طرف ڈال کر دوپٹے سے سر ڈھانپ لیا اور دونوں ہاتھ باندھ کر بولی۔۔۔ ’’ہری اوم۔۔۔ ہری اوم۔۔۔‘‘
بڑے بابو ہنسنےلگا۔ ’’ہری اوم کا جاپ کر رہی ہو، بڑی بہو، یا میرے ساتھ باتیں؟ کئی بار کہہ چکا ہوں، یا تو ادھر اپنےبھگوان کی طرف ہوکے بیٹھا کرو،یا پھر پوری کی پوری اِدھر میری طرف۔‘‘
’’میں پوری ہوں کہاں، بڑے بابو؟‘‘ بڑی بہو نے پھر اس کا سویٹر ہاتھ میں لے لیا۔ ’’پوری ہوتی تو ساری زندگی تم مجھ سے کھنچے کھنچے کیوں رہتے؟ میرا بھگوان جانتا ہے۔۔۔‘‘
بڑے بابو نے اسے ٹوک دیا، ’’تمہارا بھگوان۔۔۔ سنو بڑی بہو، تم ہمیشہ اپنے بھگوان کے اور میرے بیچ جگہ بناکے بیٹھتی ہو، اور پھر تمہارا بھگوان تم سے مخاطب ہوتا ہے تو تمہارا منہ میری طرف ہوتاہے اور میں کچھ کہہ رہا ہوتا ہوں تو اس کی طرف۔ اسی لیے میں کہتاہوں، یا تو پوری کی پوری ادھر۔۔۔‘‘
’’ارے بڑے بابو،‘‘ بڑی بہو اپنے خاوند کا میلا میلا چہرہ ممتابھری آنکھوں سے پونچھنے لگی۔ ’’اگر میں پوری کی پوری ادھر کو ہولی تو بولو ادھر میں اپنی ساسومیا کو کیا جواب دوں گی؟ وہ تو بھگوان کے دروازے پر ہی میرے کندھے پکڑ کر پوچھے گی، میرے بیٹے کو چھوڑ آئی ہو؟ میں نے تو تم سے پرن لیا تھا تم اسے سنبھال کے رکھو گی۔۔۔ بولو، بڑے بابو۔۔۔!‘‘
بڑے بابو پگھل سا گیا، ’’میں کون سا ہیرا پنّا ہوں جو مجھے سنبھال کر رکھو گی؟‘‘
’’ایک کوڑی کے بھی ہو،پر میرے اپنےتو ہو۔۔۔ اور ساری زندگی کھوکر اب کہیں ہاتھ آئے ہو۔‘‘
’’دیکھو، بڑی بہو، میں کوئی لوٹ کا مال نہیں جو تمہارے ہاتھ آگیا ہوں۔ کوئی کسی کانہیں ہوتا۔‘‘
’’ارے، برے کام تو چھوڑ ہی چکے ہو،‘‘ بڑی بہو نے ملتجیانہ کہا۔ ’’اب برے بول بھی چھوڑدو۔ بولو، کوئی کسی کانہیں ہوتا تو میں ہردم تمہاری خدمت میں کیوں لگی رہتی ہوں۔‘‘
’’جاؤ اب، بڑی بہو۔ میری طبیعت ٹھیک نہیں، میں آرام کروں گا۔‘‘
’’طبیعت تو تمہاری ہمیشہ خراب رہتی ہے۔‘‘
’’شکر کرو خراب رہتی ہے، ورنہ تمہارے ہاتھ کیوں آتا؟‘‘
بڑی بہو سویٹر کی پیٹھ دونوں ہاتھوں میں لٹکاکر سوچ رہی تھی، ذرا سی اور چھوٹی کرلوں تو پتاجی پر یہ ماپ بالکل فٹ بیٹھتا، پھر وہ اپنے آدمی کی پشت کاجائزہ لینے لگی۔۔۔ ارے بڑے بابو کی بھی ہو بہو وہی پیٹھ نکل آئی ہے۔۔۔ بڑے بابو کی بات کا جواب دینےسے پہلے اس نےایک ٹھنڈی سانس بھری۔ ’’کیا کہہ رہے تھے تم، بڑے بابو۔۔۔؟ میرے ہاتھ تو اب بھی ویسے ہی خالی ہیں۔‘‘ اس نے سویٹر کو گود میں ڈال لیا اور اپنے خالی ہاتھ اس کی طرف بڑھا دیے۔ ’’دیکھو!‘‘ مانو اسے خیال آیا ہو کہ شاید وہ بے چین ہوکر اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لے گا۔
مگر بڑے بابو نےبے خیالی میں اس کی ہتھیلی میں اپنے سگریٹ کی راکھ جھاڑ دی، ’’میری بات تو بیچ میں ہی رہ گئی۔‘‘
’’تو کیا ہوا؟‘‘ بڑی بہو نے پھر سویٹر ہاتھ میں لے لیا۔ ’’کسی بھلے مانس کی برائی ہی تو کر رہے تھے۔‘‘
’’نہیں، سنو۔‘‘
بڑی بہو نےناراضگی جگانےکے لیے اس کی طرف دیکھا تو اسے محسوس ہوا گویا وہ اسے وہاں پالینے کی بجائے اس کی آنکھ، پیشانی یا ناک میں اسے ڈھونڈ رہی ہے۔۔۔ بڑے بابو آج یہ کیا آنکھ مچولی کھیل رہا ہے؟ دیکھتے ہی دیکھتے چہرے سے اچانک کہیں غائب ہوجاتا ہے۔ اس نے ڈھیلی پڑ کر کہا، ’’تھکے ہوئے لگ رہے ہو، سو جاؤ۔‘‘
’’نہیں، میں تھکا ہوا نہیں ہوں،‘‘ وہ اپنی انگلیوں میں جلتا ہواسگریٹ کاٹکڑا ایش ٹرے بجھاکر ایک اور سگریٹ سلگانےلگا۔
بڑی بہو نے اس کے ہونٹوں سے سگریٹ جھپٹ لیا۔ میں تمہیں اور سگریٹ نہیں پینے دوں گی۔ وہ ڈر رہی تھی کہ بڑے بابو غصے سے دیوانہ ہوکر چیخنا شروع نہ کردے، مگر اسے ہنستے ہوئےپاکر اس کا ڈر اور گہرا ہوگیا۔۔۔ بڑے بابو کو ہو کیا گیا ہے۔۔۔؟ اس نے اور ڈھیلی ہوکر سگریٹ اس کی طرف بڑھا دیا، ’’لو، پی لو۔‘‘
بڑے بابو نے بدستور ہنستے ہوئے سگریٹ لے لیا اور اسے سلگاکر کہنے لگا، ’’جس شخص کے بارے میں میں بتا رہاہوں، تمہیں کیا پتہ وہ کتنا خراب، کتنا خطرناک ہے؟‘‘
’’خراب اور خطرناک ہوگا تو اپنے لیے، ہمیں کیا؟‘‘ پھر اس نے آنکھیں جھپک کر خوف آمیز تعجب سے اس سے پوچھا۔ ’’تمہارا رنگ زرد کیوں پڑتا جارہا ہے؟ گرم گرم دودھ لاؤں؟ سگریٹ پہ سگریٹ پھونکے جارہے ہو۔۔۔ لاؤں؟‘‘
’’نہیں!‘‘ اس نے اتنی مانوس سختی سے جواب دیاکہ بڑی بہو کو وہ پھر اپنی آواز سے برآمد ہوکر پھڑپھڑاتے ہونٹوں پر عین بین دکھنےلگا۔
بڑی بہو نے اطمینان سے سانس چھوڑ کر کہا، ’’ہری اوم!‘‘
’’میں اسے پیدائش سے جانتا ہوں۔۔۔‘‘
’’کسے؟‘‘
بڑے بابو چڑ سا گیا مگر اپنے آپ پر قابو پاکر بولا، ’’اسے، جس کی بات کر رہا ہوں، اور کسے؟ مجھے یقین ہے اس شخص کے بیج میں ہی کھوٹ تھا۔۔۔‘‘
’’چھی چھی! ایسے برے بول مت بولو۔ بیج سے سالم شکل پھوٹ آئے تو وہ کھرا ہی ہوتا ہے۔‘‘ بڑی بہو کی گود سدا ویران رہی۔ اس نے سرہلاکر سوچا،اپنا مردوا ہی کبھی میری کوکھ تک نہ اترا تو میرا کیا دوش؟
’’مگرمیں جانتا ہوں وہ نراکھوٹا ہے۔‘‘
بڑے بابو کے ہونٹوں کو نفرت اور ناراضگی سے پھڑکتے پاکر بڑی بہو کو اس پر ترس آنےلگا۔ اس نے اپنی کرسی اس کے قریب گھسیٹ لی اور بولی۔ ’’اوروں سے اتنی نفرت کرکے کیوں اپنی زندگی میں زہر گھولتے رہتے ہو۔‘‘
’’تم ہی بتاؤ، کوئی اتنا بے حس بھی ہوتاہے۔ ماں گھر میں دَم توڑ رہی ہے اور بار بار اسے پکارے جارہی ہے اور وہ باہر کسی چنڈوخانے میں رنگ رلیاں منارہا ہے۔ میں نے اس سے کئی دفعہ کہا، جاؤ تمہاری ماں بیمار ہے۔۔۔ وہ ہردفعہ ہنس کر ٹال جاتا، ماں تو اب ہر وقت بیمار رہتی ہے، میں کیا کروں۔۔۔؟‘‘
’’تم وہاں اس کے ساتھ کیا کر رہے تھے؟‘‘
’’جھک مار رہا تھا۔ تمہیں میری اور اپنی پڑی رہتی ہے۔ بڑی بہو، بات تو کسی اور سسرے کی ہو رہی ہے۔۔۔ ذرا سوچ کربتاؤ، ایسے آدمی کوتم کھرا کہوگی یا کھوٹا؟‘‘
’’لیکن اس کی ماں تو چل بسی، کیا اسے کھوٹا کہہ کر تم اس بےچاری کو واپس لاسکتے ہو؟‘‘ ہوا کاجھونکا اسے اپنے پیچھے اڑالے گیا۔ ’’ہائے، اگر ہم اپنا سب کچھ گنواکر اپنی ماں کو واپس لاسکیں بڑے بابو، تو ایک اسی کو لے آئیں۔‘‘ وہ پلو سے اپنی ڈبڈبائی آنکھیں صاف کرنے لگی۔ ’’میں تو کب کی اسی کے پاس ڈیرے جا ڈالتی، پر کیا کروں؟ وچن بندھت ہوں کہ اس کے بعد تمہیں سنبھال کے رکھوں گی۔‘‘
’’ہاں تم بھی تو میری ماں ہی ہو،‘‘ بڑے بابو کالہجہ ٹیڑھا سا ہوگیا۔ ’’اس قدر بگڑے ہوئے بچے کو گود میں سنبھالے پھرتی ہو، بتاؤ، سنبھال پائی ہو۔۔۔؟ میں نے بھی اس ظالم کو بہت سنبھالنا چاہا، پر کون کسی سے سنبھلتا ہے؟ اس شخص نے ساری عمر میری نہ سنی۔۔۔‘‘
’’وہ ہے کون؟ مرچکا ہے یا ابھی زندہ ہے؟‘‘
’’مرچکا ہے مگر بے خبری میں جیے جارہاہے بڑی بہو۔‘‘
’’تمہاری باتیں میری سمجھ میں نہیں آتیں،‘‘ بڑی بہو اس کی پیٹھ کا جائزہ لے کر سویٹر کو چوڑا کرکے دیکھنے لگی۔
’’اس میں سمجھنے کی کیا بات ہے؟ زندہ ہوتا تو کچھ تو سوچتا۔ اسے تو صرف اپنے عیش و آرام سے غرض تھی۔ اپنی بیوی کے زیورات چراچراکر بازاری عورتوں میں بانٹتا پھرتا تھا۔۔۔ ٹھیک ہے بھائی، جو من میں آئے کرتے رہو، تمہیں کون مائی کا لعل روک سکتا ہے۔۔۔؟ بڑی بہو کوئی گولی وولی ہے؟ میرے سر میں بہت دَرد اٹھنے لگا ہے؟‘‘
بڑی بہو جی ہی جی میں اپنے گم شدہ زیورات کا حساب لگا رہی تھی۔ وہ ہڑبڑاکر اٹھی، ’’ابھی لاتی ہوں۔‘‘
بڑے بابو بستر پر لیٹ گیا اور ابھی پوری طرح سیدھا بھی نہ ہوا تھا کہ بڑی بہو گولی اور پانی لے کر آگئی، ’’یہ لو!‘‘
پانی کے ساتھ گولی حلق سے اتار کر وہ پھر لیٹ گیا۔
بڑی بہو نے بھی کرسی سنبھال کر سویٹر بننا شروع کردیا۔
’’اس شخص کی بیوی بے وقوف تھی،‘‘ بڑے بابو نے پھر اپنی رام کتھا شروع کردی۔ ’’جو اسے قابو میں نہ لاسکی۔۔۔ وہ پرائی عورتوں کے پیچھے بھاگتا تھا نا۔۔۔؟ وہ بھی پرائی بن جاتی تو وہ اس کے بھی پیچھے پیچھے دم ہلاتا پھرتا۔ موٹی سی بات ہے مورکھ کی کھوپڑی میں ہی نہ آئی۔۔۔ پر نہیں، آگے سنو، ایک رات کو کیا ہوا کہ اس نے اچانک اپنی بیوی اور باپ کو سرجوڑے دیکھ لیا۔۔۔ پہلے تو اس نے مسکراکر اپنے وسوسے کو ٹال دینا چاہا مگر پھر ان کی تاک میں لگ گیا۔ اس کی بیوی اتنی ڈھل چکی تھی کہ اب اس کا بوڑھا سسر ہی اس پر ڈورے ڈالتا تو ڈالتا۔۔۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ بڑی بہو کے دل میں تھما ہوا دھواں اس کے منہ کی جانب امنڈا چلا آرہا تھا، مگر بڑے بابو کی طبیعت کی ناسازی کے باعث وہ اسے اندر ہی اندر بجھانے کاجتن کر رہی تھی۔
’’مطلب یہ کہ اس کے نزدیک اس کی بیوی اس کے باپ کی بیوی بن چکی تھی۔ اس کی ماں کو مرے ایک مدت ہوچکی تھی اور وہ اکثر گھر سے باہر رہنے لگا تھا سو اسےیقین ہوگیا دونوں نے موقع کاخوب فائدہ اٹھایا۔‘‘
بڑی بہو نامعلوم اس کی بات پر چونکی یا اس کے چہرے میں اٹھتی ہوئی آندھی سے، ’’ٹھیک تو ہو؟ تمہیں۔۔۔ تمہیں کیا ہو رہا ہے؟‘‘
’’کچھ ہو تو رہا ہے۔ کیا پتہ، کیا؟ لگتا ہےجیسے اپنے آپ کو اپنے وجود سے باہر ڈھو رہاہوں۔‘‘
’’ارے، یہی تو میں کہہ رہی ہوں۔ اتنی سی دیر میں کئی بار مجھے لگا کہ تم بڑے بابو نہیں ہو۔ بڑی بہو کی سلائیاں بڑے بابو کے سویٹر پر تیز تیز چلنے لگیں، ’’ہائے، میں کیا کروں؟ ڈاکٹر کو بلاؤں۔‘‘
’’نہیں، یہیں بیٹھی رہو،‘‘ اس نے بڑی بہو کی طرف پہلو بدل لیا۔ ’’فکر نہ کرو۔‘‘
’’کیسے فکر نہ کروں؟ کیوں ہر کسی پر شک کرکے اپنی صحت اور سکھ برباد کرتے رہتے ہو؟‘‘
بڑے بابو نے بے چینی محسوس کرکے اٹھنا چاہا مگر لیٹے لیٹے بستر کے کنارے کہنی جماکر گال کو ہتھیلی پر ٹکالیا۔
’’ایک اپنی شکی عادت سے نجات حاصل کرلو بڑے بابو، تو مہاتما بن جاؤ۔‘‘
’’اور مہاتما بن کر کے کیا کروں؟‘‘
’’ہری کیرتن، اور کیا؟‘‘
’’ہہ ہا۔۔۔ ہہ۔۔۔‘‘ ہنستے ہنستے بڑے بابو کاچہرہ گویا لال آندھی میں اچھلنے لگا۔
بڑی بہو خوفزدہ ہوکر اس کی طرف دیکھنےلگی۔
’’میں ایک اور سگریٹ پی لوں، بڑی بہو؟‘‘
’’بے چینی محسوس کر رہے ہو تو پی لو۔‘‘
بڑے بابو نے بستر پر سگریٹ اور ماچس ڈھونڈنے کے لیے ہاتھ گھمایا۔۔۔ ’’مل گیا۔۔۔‘‘ سگریٹ سلگاکر وہ پھر بڑی بہو کی طرف متوجہ ہوگیا۔ ’’تم ٹھیک کہتی ہو، مجھے اب صرف ہری کیرتن ہی کرناہے۔۔۔ نہیں، پہلے تم اس شخص کا پورا قصہ تو سن لو۔‘‘ بڑے بابو نے تھکن کے احساس سےاپنا سر تکیے پر رکھ لیا اور سگریٹ کا ایک لمبا کش لیا۔
’’اس نے اپنی بیوی اور باپ کو کچھ نہ جتایا، بس موقع کاانتظار کرتا رہا۔ پھر جب اس کا باپ بیمار پڑگیا تو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس کی تیمارداری میں جٹ گیا۔ باپ کی بیماری روز بروز بڑھتی جارہی تھی مگر بوڑھا بہت خوش تھا کہ اس کے مرنے سے پہلےبیٹا اپنی راہ پر تو آلگا۔ باپ بیٹے کو اٹھتے بیٹھتے دعائیں دیا کرتا مگر بیٹا باپ کو باقاعدگی سے اس کی اصل دوا کی بجائے جھوٹ موٹ کی گولیاں دیتا رہا۔۔۔‘‘
بڑی بہو سکتے میں آگئی۔
بڑے بابو، نالی میں یہ کون سی گولیاں گری پڑی ہیں؟
کون سی؟ دکھاؤ! یہ کوئی پرانی گولیاں ہیں بڑی بہو۔
روؤمت، بڑی بہو۔ آؤ، میرے گلے لگ جاؤ۔۔۔ نہیں، روؤمت! میرے بعد میرا بیٹا تمہیں کبھی دکھی نہیں ہونے دے گا۔
بڑی بہو کی چیخ سے چھت میں شگاف ہوگیا۔
نہیں۔۔۔!نہیں!
وہ نامعلوم کیا کرنے کے لیے چیختی ہوئی کمرے سے باہر دوڑ گئی۔۔۔ نہیں!
بڑے بابو کو تادیر اس کی لگاتار چیخیں سنائی دیتی رہیں اور پھر سناٹا چھاگیا۔
بڑی بہو جب گہری ہوتی ہوئی شام کے وقت بڑے بابو کے کمرے میں لوٹی تو اس کی آنکھیں برسات کے تاروں کے مانند دھیمی دھیمی خنک روشنی خارج کر رہی تھیں۔
’’بڑے بابو!‘‘ نم آلود تارہ ٹمٹمایا۔ بڑے بابو نے کوئی جواب نہ دیا۔
’’بڑے بابو!‘‘ پھر کوئی جواب نہ پاکر بڑی بہو بجلی کے بٹن کی طرف لپکی۔
بڑے بابو کی آنکھیں کمرے کی اندورنی چھت پر پھٹی ہوئی تھیں۔
’’بڑے بابو!‘‘
بڑےبابو نے دھیرے دھیرے اپنی بیوی کی طرف آنکھیں پھیریں اور اس کے ہونٹ ہلنے لگے۔
’’بڑی بہو!‘‘
بڑی بہو نے چونک کر اپنے مرد کے چہرے کو اپنی لرزاں آنکھوں میں اٹھالیا اور چہرے کا پور پور ٹٹولتے ہوئے اس کے من ہی من میں مندر کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔
’’پتا جی!‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.