Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پزّا بوائے

توصیف بریلوی

پزّا بوائے

توصیف بریلوی

MORE BYتوصیف بریلوی

    پزا بوائے نے اپنی بائیک پارکنگ میں کھڑی کی، وارمر (Warmer) سے پزا نکالا اور لفٹ میں سوار ہوگیا۔ اب وہ ایک ڈور بیل بجا رہا تھا، کچھ ہی دیر میں دروازہ کھلا۔ ایک گورا، خوبصورت اور لمبی انگلیوں کے ناخنوں پر نیل پینٹ والا ہاتھ باہر آیا۔ اس نے پزا بوائے کا گریبان پکڑا اور اندر کھینچ لیا، دروازہ بند، دھڑاک۔۔۔

    یہ معاملہ اس ایک دروازے کا نہیں تھا بلکہ بلڈنگ میں جتنے فلیٹ تھے، ان میں سے زیادہ تر کا تھا۔ یہ بات الگ ہے کہ کوئی پزا کھاتا ہے اورکوئی۔۔۔

    انڈرگارمینٹس کے اوپر گاؤن پہننے کے بعد ٹینا نے ایک ہزار کا نوٹ پزا بوائے کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ ہر بار اتنے روپئے دوں گی، جس دن کوئی فرینڈ آگئی تو اس دن ڈبل ملیں گے اور اگر کم لگیں تو بول دینا۔ جب فون کروں گی تب آنا ہوگا اور خالی ہاتھ کبھی نہ آنا پزا ہمیشہ لانا۔ میرا بوائے فرینڈ بننے کی کوشش کبھی مت کرنا، پزابوائے ہو پزا بوائے ہی رہنا۔ یہ رہا تمہارا پزا کا بل اب تم جاسکتے ہو۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے روپئے اپنی جیب میں رکھے پھر اپنا پی کیپ لگاتے ہوئے باہر نکل گیا۔ یوں تو بلڈنگ میں کئی پزا بوائے آتے تھے لیکن ٹینا صرف اسی سے خوش تھی کیونکہ وہ کوئی سوال کیے بغیر چپ چاپ اپنا کام کرتا تھا۔ سب آرام سے چل رہا تھا کہ ایک روز۔۔۔ آج اتنی دیر کیوں لگائی۔۔۔؟ ٹینا نے سخت آواز میں پوچھا، جی میڈم۔۔۔ وہ۔۔۔ ابھی وہ کچھ کہہ پاتا اس سے پہلے ہی ٹینا بول پڑی۔۔۔ ابے سالے تیرا پزا کھانے کے لیے تجھے نہیں بلاتی ہوں سارا موڈ خراب کرکے رکھ دیا۔ چل جا یہاں سے اب میرا موڈ نہیں ہے، ٹینا نے لاپرواہی سے کہا۔ وہ ابھی بھی خاموش کھڑا تھا۔ واش روم سے ٹاول لپیٹے ہوئے ٹینا کی فرینڈ رنکی باہر آئی، اب بس بھی کرو ٹینا! تم نے مجھے انوائٹ کیا ہے تو مجھے ہی انجوائے کرنے دو، رنکی نے ٹینا کو سمجھاتے ہوئے کہا۔ ہے پزا بوائے! ادھر آؤ کہتے ہوئے رنکی نے وہسکی کا ایک پیگ اس کی طرف بڑھایا۔ میں شراب نہیں پیتا میڈم۔۔۔ اس نے آہستہ سے کہا۔ دیکھ ہم جیسا کہتے ہیں ویسا کر زیادہ ڈرامہ دکھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ سیکس (Sex) کسی بھی لڑکی کے ساتھ کرلے گا اور شریف بنتا ہے۔ یہاں فری میں مل رہی ہے پی لے ویسے بھی تیرے بجٹ میں یہ نہیں ہوگی کہتے ہوئے رنکی نے ٹینا کی طرف دیکھا اور دونوں قہقہہ لگاکر ہنسنے لگیں۔

    طوفان بے تمیز گزر چکا تھا اور میز پر رکھا ہوا پزا ٹھنڈا ہوگیا تھا۔ ہر دوسرے چوتھے روز ٹھنڈا پزا ڈسٹ بن (Dust Bin) کی رونق بڑھارہا تھا اور سلسلہ یوں ہی دراز ہورہا تھا۔

    ڈور بیل بجی، دروازہ کھلا او رپزا بوائے اندر۔۔۔

    ٹینا ٹوپیس میں بیڈ پر پہنچی اور اس کے ہونٹوں کو چوسنا شروع ہی کیا تھا کہ اسے پزا بوائے کے جسم سے تپش محسوس ہوئی۔ پھر اس سے الگ ہوتے ہوئے کہا۔۔۔ تیرا بدن تپ رہا ہے اورتو کانپ بھی رہا ہے، تو مجھے بھی بیمار کردے گا کیا؟ وہ کچھ کہتا کہ ٹینا پھر بولی تیری طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو کیوں آگیا؟ جی میڈم ہلکا سا بخار ہے۔۔۔ اگر نہیں آتا تو آپ ناراض ہوجاتیں اور کہیں غصہ میں مجھ سے پزا منگانا بند کردیتیں۔۔۔ تو۔۔۔ اس لیے میں۔۔۔

    چل ٹھیک ہے اب تو کچھ دیر آرام کرلے ٹینا نے اے. سی. بند کرتے ہوئے کہا۔

    لیکن میڈم۔۔۔ وہ۔۔۔ پزا بوائے کچھ کہنا چاہتا تھا مگر کہہ نہ سکا۔

    تو پریشان نہ ہو تجھے آج کے روپئے بھی ملیں گے۔ یہ سنتے ہی اس کے چہرے پر قدرے اطمینان دکھائی دینے لگا۔ تو کچھ پئے گا۔۔۔ وہسکی وغیرہ؟ ٹینا نے مہمان نوازی کے انداز میں پوچھا۔ نہیں میڈم۔۔۔ میری طبیعت بگڑ جائے گی، اس نے ملتجی ہوکر کہا۔ ٹھیک ہے میں کافی بناکر لاتی ہوں اس سے تجھے اچھا محسوس ہوگا۔ آپ کیوں تکلیف کرتی ہیں میڈم، وہ آہستہ سے بولا۔

    تکلیف کی کوئی بات نہیں میں اپنے لیے بھی بنارہی ہوں، کافی پینے کے بعد ٹینا نے اس کے ماتھے پر اپنی خوبصورت اور لمبی انگلیاں رکھ کر یہ محسوس کرنے کی کوشش کی کہ درجہ حرارت بڑھا یا کم ہوا۔ مجھے لگتا ہے تجھے اب ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے، کہتے ہوئے ٹینا نے ایک ہزار کے دو نوٹ اس کی طرف بڑھادئیے۔ میڈم یہ تو زیادہ ہیں، اس نے نوٹوں کو گھورتے ہوئے کہا۔ تیری طبیعت ٹھیک نہیں ہے تب بھی تو آیا، اس لیے۔۔۔ اب جا اور کسی اچھے ڈاکٹر سے دوائی لے۔ دو تین دن میں جب تیرا بخار ٹھیک ہوجائے گا تو مجھے بتا دینا۔

    ڈور بیل بجی اور پزا بوائے اندر۔۔۔ کہاں تھا اتنے دنوں سے؟ تیرا فون بھی آف آرہا تھا۔ ایک دن تجھے میں نے لفٹ میں اوپر جاتے بھی دیکھا تھا۔ میرے پاس کیوں نہیں آیا، کیا بات ہے؟ ٹینا نے سوالوں کی بوچھار کردی اور وہ غریب ابھی بھی خاموش تھا۔ وہ۔۔۔ میڈم بات یہ ہے کہ مجھے زیادہ روپئے چاہیے، اس نے ہمت کرکے کہا۔

    میں نے تو تجھے پہلے ہی دن کہا تھا کہ اگر کم لگیں توبول دینا، ٹینا نے یاد دلایا۔ جب بغیر مانگے ہی کہیں زیادہ ملے تو۔۔۔ وہ رخ پھیرتے ہوئے سپاٹ لہجے میں بولا۔ اب میں سمجھی۔۔۔ تونے دوسری پارٹی دیکھ لی ہے۔مجھے تجھ سے ہمدردی ہوگئی تھی، لیکن تو بہت پروفیشنل نکلا، اگر تجھے زیادہ روپئے چاہئے تھے۔۔۔ ویل۔۔۔! میرا موڈ آف ہورہا ہے تو جا یہاں سے ٹینا نے اپنا سر پکڑتے ہوئے کہا۔

    ٹھیک ہے جاتا ہوں آئندہ بغیر کام کے نہ بلانا۔ بھاڑ میں جاؤ تم اب کبھی نہیں بلاؤں گی۔ ٹینا نے غصہ سے چیختے ہوئے کہا۔ لائیے پزا کابل دیجئے میں جارہا ہوں۔ وہ جاچکا تھا اورٹیبل پر رکھا پزا ٹھنڈا ہورہا تھا۔

    کئی دنوں تک ٹینا نے اس سے کوئی رابطہ نہیں کیا، ایک دن وہ اسے اپنی ہی بلڈنگ میں پھر نظر آیا اور اس بار ٹینا چپکے چپکے اس کا پیچھا کرنے لگی۔ وہ یہ جاننا چاہتی تھی کہ آخر پزا بوائے کس کے فلیٹ پر جاتا ہے۔ اس کے دل پر گھونسا سا لگا جب اس نے پزا بوائے کو اپنی ماں کے فلیٹ کی ڈور بیل بجاتے ہوئے دیکھا کیونکہ اس کی ماں کو پزا پسند نہیں تھا اس لیے وہ سب سمجھ گئی۔ وہ کاریڈور (Corridor) میں تذبذب کی حالت میں کھڑی تھی اور پزا بوائے اندر جاچکا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ غصہ سے آگ بگولہ ہوگئی اور ڈور بیل کا سوئچ بار بار دبانے لگی اور ساتھ ہی زور زور سے دروازہ بھی تھپ تھپارہی تھی۔ جب دروازہ کھلا تو ٹینا کی ماں سٹپٹائی ہوئی تھی۔ ٹینا کی آنکھوں میں دہکتے ہوئے شعلے دیکھ کر پہلے توگھبرائی لیکن پھر آنکھ ملاتے اور مسکراتے ہوئے بولی، کیوں شور مچارہی ہو ڈارلنگ؟ ٹینا نے پہلے اپنی ماں کو نیچے سے اوپر تک دیکھا وہ میکسی (Maxi) میں تھی اور بال بکھرے ہوئے تھے۔ ابھی پتہ چل جائے گا کہتے ہوئے ٹینا تیز قدموں سے اندر گھس گئی اور اس کی ماں کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ ٹینا سیدھے بیڈروم میں جاگھسی، اس کی ماں نے پہلے تو احتیاطاً فرش پر پڑی ہوئی Lingerieپیر سے ایک طرف کی اور پھر ٹینا کے پیچھے بیڈ روم میں جاپہنچی۔

    کیا ہوا ٹینا۔۔۔؟ کیا ڈھونڈ رہی ہو؟ اس نے پیار سے پوچھا۔

    وہ پزا بوائے کہاں ہے؟ میں نے اس کو اندر آتے دیکھا ہے، ٹینا Cupboardکا دروازہ کھول کر بند کرتے ہوئے بولی۔

    ک۔۔۔ ک۔۔۔ کون پزا بوائے؟ یہاں کوئی پزا بوائے نہیں ہے، وہ انجان بنتے ہوئے بولی۔

    موم آپ جھوٹ بول رہی ہیں، میں نے اس کو اندر آتے ہوئے دیکھا ہے، کہتے ہوئے وہ ماں کو گھور رہی تھی، اور اس کی ماں ہکلاتے ہوئے کچھ کہنا چاہ رہی تھی۔ آخر کار ٹینا نے پزابوائے کو واش روم سے باہر نکال ہی لیا۔

    پزا بوائے کو دیکھ کر ٹینا کی ماں حواس باختہ ہوگئی اور طرح طرح کے Excuse دینے لگی۔ بس کیجئے موم! آپ کو موم کہتے ہوئے بھی شرم آرہی ہے۔ آپ رنگ رلیاں منارہی ہیں، میری موم اتنی Characterless ہوسکتی ہے میں نے سوچا نہیں تھا۔ اب ساری باتیں میرے سامنے شیشے کی طرح صاف ہیں۔ آپ کا وہ رات رات بھر Kitty Party میں رہنا، کھنّہ انکل کے گھر اس وقت جانا جبکہ آنٹی گھر پر نہ ہوں، ڈیڈ سے کہہ کر میرے لیے دوسرا فلیٹ خریدنا، آپ نے مجھے اسی لیے الگ کیا تاکہ آپ آرام سے اپنی Lust کا انجوائے کرسکیں۔۔۔ You are a Lusty وہ اب چیخ رہی تھی۔

    آپ ڈیڈ کو دھوکا دے رہی ہو۔۔۔ کہتے ہوئے ٹینا فرش پر ہی بیٹھ گئی اور زور زور سے ہانپ رہی تھی۔ اس کی سانسوں کی بازگشت سے سینے پر نمودار ہوا Delta اور بھی گہرا دکھائی دے رہا تھا۔ اس دوران پزابوائے وہاں سے کھسک چکا تھا۔

    اگر غصہ ٹھنڈا ہوگیا ہو تو پلیز! میری بات سنو ٹینا۔۔۔!

    مجھے آپ کی کوئی بات نہیں سننی ہے، آپ ڈیڈ کو دھوکا دے رہی ہیں، مجھے دھوکا دے رہی ہیں، ٹینا مزید کچھ کہتی اس سے پہلے اس کی ماں سخت ہوتے ہوئے بولی۔۔۔ دھوکا! کس دھوکے کی بات کررہی ہو تم؟ دھوکا میں دے رہی ہوں؟ دھوکا تو تمہارے ڈیڈ مجھے دے رہے ہیں، پچھلے سات سال سے آسٹریلیا میں ہیں، کیا ان کے وہ بڑے بڑے پروجیکٹ مجھ سے بھی زیادہ بڑے ہوگئے؟ ذمہ داریوں کے نام پر صرف ڈھیر ساری دولت بھیجتے ہیں خود کیوں نہیں آتے؟ مجھے نہیں چاہیے دولت، نہ ہی فلیٹ، کار اور Status۔ اس سب کے علاوہ بھی انسان کی ضرورتیں ہوتی ہیں۔ کیا تمہارے ڈیڈ نے ان سات سالوں میں میرے بارے میں سوچا۔۔۔؟

    تمہیں تو یہ بھی نہیں معلوم ہے اتنے سالوں میں انھوں نے صرف دو بار Wedding anniversery wish کی ہے۔ میری اپنی بھی کوئی لائف ہے۔۔۔

    My darling! there are all naked, you too

    مجھے تمہاری عیاشیوں کے بارے میں بھی سب پتہ ہے، ٹینا شوکڈ تھی اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنی ماں کو دیکھ رہی تھی جو کہ اب مسکرارہی تھی۔ آگے بولوں یا تم سمجھ گئیں ڈارلنگ۔۔۔! اس کی ماں نے اٹھلاتے ہوئے کہا۔ ٹینا کچھ بھی سننے کے موڈ میں نہیں تھی اور وہاں سے چپ چاپ چلی گئی۔

    یار ٹینا Try to Understand جب ہم لوگ پزا بوائے کو بلاکر مستی کرسکتے ہیں تو تیری موم کیوں نہیں؟ تو خود سوچ، انکل کب سے گھر نہیں آئے ہیں، آخر آنٹی کو بھی Amusement کا حق ہے۔ Be Practical dear رنکی نے سمجھاتے ہوئے کہا۔

    اگر تیری موم نے ایسا کچھ کیا ہوتا تب تو سمجھتی۔۔۔ ٹینا آہستہ سے بولی۔

    اچھا۔۔۔! تجھے کیا لگتا ہے میری موم مساج پارلر میں مساج کرانے جاتی ہیں۔۔۔؟ رنکی ٹھنڈی آنہیں بھرتے ہوئے بولی، لیکن میں ٹینشن نہیں لیتی جو ٹھیک لگتا ہے وہی کرتی ہوں اور دوسروں کی لائف میں Interfere کرنا اپنا کام نہیں۔ مجھے دال میں کچھ کالا لگ رہا ہے۔۔۔ رنکی نے ٹینا کو چھیڑتے ہوئے کہا۔

    What your mean دال میں کالا۔۔۔؟ ٹینا نے رنکی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا۔ پھر کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولی، ہاں۔۔۔ وہ مجھے پسند ہے۔ موم کے ساتھ اس کو دیکھ کر میں جل بھن گئی تھی۔

    ہم م م م۔۔۔! تو اب آئی نہ دل کی بات زباں پر رنکی نے ٹینا کو کہنی مارتے ہوئے کہا۔ لیکن میری جان! اس پزا بوائے اور تمہارے Statusمیں زمین آسمان کا فرق ہے، رنکی کہے جارہی تھی اور ٹینا کہیں خلاء میں گم تھی۔

    رنکی جاچکی تھی اور ٹینا بستر پر دراز ہوگئی، اب اس کا خود سے ہی Question Session شروع ہوگیا۔

    کیا واقعی میں ایک پزا بوائے کو چاہنے لگی ہوں؟

    نہیں نہیں۔۔۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟

    اگر یہ سچ نہیں ہے تو میں نے اس کا پیچھا کیوں کیا؟

    کیونکہ وہ میری ضرورت کو پورا کرتا ہے۔

    اچھا۔۔۔! ٹھیک ہے تو موم سے الجھنے کی کیا ضرورت تھی؟

    ہاں میں اسے چاہنے لگی ہوں، پسند کرتی ہوں اس کو، موم کی وجہ سے اس نے میرے پاس آنا بند کردیا تھا اور اسی لیے میں۔۔۔ مجھے کسی کی پرواہ نہیں، وہ میرا ہے، صرف میرا۔

    ایک شام ٹینا نے پزا بوائے کو اپنے فلیٹ پر بلایا۔۔۔ ”تمہاری ڈیمانڈ اتنی بڑھ گئی ہے کہ تم نے مجھے بھلاہی دیا۔“ ٹینا نے پزا بوائے کے سینے کے بالوں پر مخروطی انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔ آج میں نے تمہیں بہت خاص بات کرنے کے لیے بلایا ہے۔ کیا بات ہے میڈم۔۔۔؟ اس نے تجسس سے پوچھا۔

    ٹینا نے اس کے گال کوآہستہ سے چومتے ہوئے کہا، اب تمہیں اس طرح کا کوئی کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے، میں تمہیں ڈیڈ کی کسی فرم کا منیجر بنوادوں گی اور یہ فلیٹ بھی تمہارے نام کردوں گی۔ تم بس۔۔۔ بس مجھ سے شادی کرلو۔ تم مجھے بہت اچھے لگتے ہو۔ اتناسنتے ہی وہ اٹھ کھڑا ہوا اور بولا۔۔۔ یہ نہیں ہوسکتا میڈم۔۔۔!

    کیوں نہیں ہوسکتا۔۔۔؟ میں تمہیں اتنا کچھ تو دے رہی ہوں اور کیا چاہیے؟

    میڈم! یہ سب مجھے نہیں چاہیے، مجھے معاف کیجئے میں آپ سے شادی نہیں کرسکتا۔ ٹینا کی تیوری چڑھ چکی تھی اس نے پزا بوائے کا کالر پکڑتے ہوئے کہا۔۔۔ سالے، کتے موم کے ساتھ Bed shareکرسکتا ہے، مجھ سے شادی نہیں کرسکتا۔۔۔؟ آخر مجھ میں کمی کیا ہے؟ جوان نہیں ہوں، Slimنہیں ہوں، خوبصورت نہیں ہوں۔۔۔ بول کیا کمی ہے؟

    وہ اپنا کالر چھڑاتے ہوئے سکون سے بولا، میں پیسوں کے لیے کسی بھی عورت کے ساتھ۔۔۔

    لیکن کیوں۔۔۔؟ جب میں تجھے سب کچھ دینے کو تیار ہوں۔۔۔ ٹینا کی آواز پھٹ رہی تھی۔ کیونکہ میں شادی شدہ ہوں۔۔۔ یہ سن کر ٹینا کا دل دھک سے ہوگیا اور وہ روہانسی ہوگئی۔ پھر کچھ دیر بعد بولی۔۔۔ تم مجھ سے شادی کرلو میں تمہیں اپنا سارا Account balance دے دوں گی اورمجھے تمہاری شادی سے کوئی پرابلم نہیں۔

    آپ سمجھتی کیوں نہیں، میں شادی شدہ ہوں۔۔۔ میرے بیوی بچے ہیں، اس بار وہ چیخا تھا۔ ٹھیک ہے تجھے ابھی بتاتی ہوں کہتے ہوئے اس نے پھلوں میں رکھا ہوا چاقو اٹھالیا، Don't move ٹینا نے فوراً دروازہ لاک کردیا اور چابی کھڑکی سے نیچے پھینک دی۔ پزا بوائے کے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار نظر آنے لگے اور وہ گڑگڑانے لگا، میڈم! مجھے جانے دو، گاؤں میں میری بیوی ہے، دو بچے ہیں میرے علاوہ ان کا کوئی نہیں ہے۔

    چپ۔۔۔ سوَر کی اولاد آج تجھے مزہ چکھاکر ہی رہوں گی، چل اپنی شرٹ اتار۔۔۔ جلدی اتار نہیں تو تیرا خون میرے ہی ہاتھوں ہوگا کہتے ہوئے ٹینا اپنے Smart Phone کی اسکرین پر جلدی جلدی انگلی پھیرنے لگی۔

    ہاں۔۔۔ تو اب بول کتے میری موم تجھے زیادہ روپئے دیتی تھی، اس لیے تو ان کے پاس جاتا تھا، میں تجھے اور بھی زیادہ دیتی تو ایک بار۔۔۔ میں تو تجھ پر اپنا سب کچھ لٹانے کو تیار ہوگئی تھی لیکن کتے کو گھی ہضم کہاں ہوتا ہے۔اب تو دیکھ تیرا تماشہ بننے والا ہے میں نے کمپلین کردی ہے، کچھ ہی دیر میں پولیس پہنچنے والی ہے۔ پزا بوائے کی آنکھوں میں آنسو آگئے، وہ ٹینا کی طرف لاچاری سے دیکھتے ہوئے گڑگڑارہا تھا، پلیز میڈم مجھے جانے دو۔۔۔ پلیز! جانے دو، اب تو اس نے ہاتھ بھی جوڑ لیے تھے اور بری طرح کانپ رہا تھا۔

    ٹینا ہاتھ میں چمچماتا ہوا چاقو لیے کھڑی تھی، اسی چاقوسے اس نے اپنے مختصر لباس کی ایک اسٹیپ بھی کاٹ دی۔ وہ متواتر گڑگڑاتے ہوئے ٹینا سے رحم کی بھیک مانگ رہا تھا۔ کچھ ہی دیر میں جیسے ہی ڈور بیل بجی، اچانک اس کے جسم میں بلا کی فرتی آگئی، وہ کسی بھی طرح بچ کر نکل جانا چاہتا تھا۔ کبھی دوڑ کر بڑی سی کھڑکی کی طرف جاتا، تو کبھی واپس آکر ٹینا کے سامنے گڑگڑاتا اور ٹینا تو جیسے پتھر دل ہوچکی تھی۔ ڈور بیل بجنا بند ہوچکی تھی، اب دروازہ توڑے جانے کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ دروازے سے آنے والی ایک ایک آواز اس کو بے چین کررہی تھی۔ مانو اس کے دماغ میں Bomb پھوٹ رہے ہوں۔ دھاڑ دھاڑ کی آوازوں سے وہ دہشت زدہ ہواجاتا تھا اور پورا جسم پسینے سے شرابور تھا، جیسے ہی دروازہ ٹوٹا۔۔۔ پولیس اندر داخل ہوئی۔۔۔ اور پزا بوائے کا جسم کھڑکی کا شیشہ توڑتے ہوئے ہوا میں لہراتا چلا گیا۔ چھلانگ لگانے سے پہلے اس کے علم میں شاید یہ بھی نہیں رہا کہ وہ بلڈنگ کی دسویں منزل پر تھا۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے