Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پورٹریٹ

طارق چھتاری

پورٹریٹ

طارق چھتاری

MORE BYطارق چھتاری

    ’’آج وہ اس پہاڑ کی سب سے اونچی چوٹی پرجاکر تصویر بنائےگا۔ وہ برسوںسے بھٹک رہا ہے۔ کبھی نالندہ کے کھنڈروں میں اور کبھی بودھوں کے پرانے مندر کے اردگرد۔ اس نے راجگیر کے برھما کنڈ میں اشنان کرتی دوشیزائوں کی تصویریں بنائی ہیں تو کبھی کشمیر کی پہاڑیوں سے گرتے جھرنوں کی۔ اس کا برش اجنتا کی خوبصورت وادیوں سے بھی آشنا ہے اور وہ ایلورا کی پتھریلی زندگیوں میں بھی رنگ بھر چکا ہے۔‘‘

    اس نے تھیلے میں سامان رکھا، ڈرائنگ بورڈ ہاتھ میں لیا اور گھر سے نکل کر پہاڑ کی چوٹی کی طرف نظر اٹھاکر دیکھنے لگا۔

    ’’چوٹی پرجمی برف کو دیکھنے بہت سے لوگ اوپر چڑھ رہے ہیں۔ راستے میں جگہ جگہ پکوڑوں کے خوانچے اور چائے کی دکانیں ہیں۔ اوپر ایک چھوٹا سا میلا لگتا ہے، جہاں چیزیں بہت مہنگی ملتی ہیں لیکن لوگ سستی چیزیں زیادہ داموں میں خریدکر خوش ہوتے ہیں۔‘‘

    اب وہ چوٹی پر پہنچ گیا تھا۔ اس نے دیکھا کہ جہاں لوگ اپنا اپنا قیمتی سامان بیچ رہے ہیں اس سے ذرا پہلے ایک بوڑھا فقیر پرانا اوورکوٹ پہنے، جو جگہ جگہ سے پھٹ کر گدڑی کی شکل اختیار کر چکا ہے، ایک پیڑکے نیچے بیٹھا ہاتھ پھیلائے بھیک مانگ رہا ہے۔

    ’’بابو کچھ دیتا جا۔‘‘

    فقیر ہر ایک سے سوال کر رہا ہے مگر لوگ اس کو دیکھے بغیر ہی برابر سے گزر جاتے ہیں اور وہ ان کے چہروں کو اس طرح تکتا ہے، جیسے کہنا چاہتا ہو۔

    ’’بابو۔ اے بابو ادھر دیکھ تولے۔‘‘

    اس نے اپنی جیب کو ٹٹولا۔ حالانکہ اسے یقین تھا کہ جیب خالی ہے۔ جیب خالی تھی۔ یہ اس کے لیے کوئی نئی بات نہیں لیکن آج فقیر کو کچھ دینے کی خواہش دل میں رہ ر ہ کر اٹھ رہی تھی۔

    لمبی داڑھی اور سفید گھنی بھنویں۔ لمبی لمبی انگلیاں اور ان پر ابھری نیلی نسیں۔ ’’یہ کتنی آرٹسٹک لگ رہی ہیں۔ آرٹسٹک ! نہیں۔۔۔ مجھے یہ نہیں سوچنا چاہیے۔ آخر کتنی مصیبتیں جھیلی ہوں گی اور کتنے فاقے کیے ہوں گے اس بوڑھے فقیر نے، تب اس کی یہ حالت یعنی آرٹسٹک حالت بنی ہوگی۔ کاش اسے کچھ دے سکتا۔ جن کی جیب میں بہت کچھ ہے وہی کون سادے رہے ہیں۔ پھر یہ دردمیرے ہی دل میں کیوں۔ میری جیب خالی ہے شاید اس لیے۔‘‘

    وہ بازارسے گزرتے ہوئے اکثر سوچتا کہ جب اس کی جیب میں پیسے ہوں گے تویہ ڈرائنگ بورڈ خریدےگا۔ وہ برش، گھنے بالوں والا برش بھی لےگا۔ اب اس کے سینڈل بھی پرانے ہو گئے ہیں اور یہ پینٹ کا کپڑا کتنا خوبصورت ہے۔ لیکن جب کوئی پینٹنگ بکتی اور جیب بھری ہوتی تو پرانے ڈرائنگ بورڈ اور گھسے ہوئے برش سے ہی کام چل جاتا۔ ’’سینڈل اور یہ پینٹ، سب تو ٹھیک ہے ابھی۔ ‘‘وہ دل میں کہتا اور سینہ چوڑا کیے دکانوں کی طرف بغیر دیکھے ہی بازار سے گزر جاتا۔

    ’’تو کیا آج بوڑھے فقیر کو کچھ دینے کی خواہش بھی۔۔۔؟ نہیں۔۔۔‘‘ اس کے دل میں چبھن سی ہوئی شاید کوئی وار ہوا تھا۔ اس کے قدم اچانک رُ ک گئے اور وہ بوڑھے فقیر کے سامنے سڑک کے اس پار ایک بڑے پتھر پر بیٹھ گیا۔

    ’’یہ تو کچھ اچھے لوگ معلوم ہوتے ہیں۔ کچھ نہ کچھ اس فقیر کو ضرور دیں گے۔‘‘

    ان کے ساتھ ایک سولہ سترہ سال کی معصوم سی لڑکی بھی تھی۔

    ’’کسی انگریزی اسکول کی اسٹوڈنٹ معلوم ہوتی ہے۔ کتنا درد ہے اس کی آنکھوں میں اور کتنے غور سے بوڑھے فقیر کو دیکھ رہی ہے۔ ہاں ہاں دیکھو، وہ فقیر کے قریب سے گزرنا چاہتی ہے۔ ضرور کچھ دےگی۔‘‘لیکن جب وہ اس کے قریب سے گزری تو ناک پر رومال رکھتے ہوئے کانوینٹیئن انداز میں بولی۔

    ’’اف ڈیڈی، انڈیا سے یہ بھک منگے کب ختم ہوں گے۔‘‘

    ڈیڈی نے فقیرپر حقارت بھری نظر ڈالی اور کہا، ’’چلو بیٹی یہ سب ڈھونگی ہوتے ہیں۔‘‘

    فقیر کی داڑھی اور مونچھوں میں چھپے ہونٹوں میں جنبش ہوئی۔ شاید بوڑھے نے مسکرانے کی کوشش کی تھی۔

    اس نے بورڈ پر ڈرائنگ شیٹ لگائی اور ایک کٹوری میں بوتل سے پانی نکال کر برش صاف کرنے لگا۔ پھر اس نے پوری شیٹ کو نیلا رنگ دیا۔ ’’میں نے شیٹ کو نیلا کیوں رنگا؟‘‘ وہ سوچنے لگا۔

    ’’کیا اس لیے کہ نیلا رنگ آسمان کی وسعت اور سمندر کی گہرائی کی علامت ہے؟ نہیں۔۔۔ تو پھر؟ زہر۔۔۔‘‘

    اس نے نظریں اٹھاکر سامنے بیٹھے فقیر کی جانب دیکھا تو لگا کہ بوڑھے کا چہرہ نیلا پڑ چکا ہے۔ شیٹ پر نیلا رنگ کچھ خشک ہوا تو اس نے سب سے پہلے بوڑھے فقیر کے چہرے میں دھنسی آنکھیں بنائیں۔

    ’’کتنی گہرائی ہے ان آنکھوں میں۔‘‘

    اس نے فقیر کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا تو کتنے ہی مفکر، فلسفی اور دانشور نظر آئے جو اس کی گہری آنکھوں کی تہ میں کچھ تلاش کر رہے تھے۔

    ’’آنکھوں سے سب کچھ کھرچا جا چکا ہے اور اب وہ دھندلی ہو گئی ہیں۔‘‘

    بوڑھی پیشانی پر ابھری بےجان شکنیں کسی بلندی پر لے جانے والی سیڑھیاں معلوم ہو رہی تھیں۔

    ’’سینکڑوں آرٹسٹ ان سیڑھیوں پر بیٹھے تصویریں بنا رہے ہیں اور زمانہ ان کے فن پر داد لٹا رہا ہے۔‘‘

    ’’بابوک چھ دیتا جا۔۔۔‘‘ فقیر نے جاتے ہوئے ایک شخص کی طرف دونوں ہاتھ بڑھائے ۔بڑھے ہوئے موٹے موٹے ناخنوں میں بھرا میل، سفید رونگٹے، ابھری ہوئی نیلی نسیں اور چھپکلی کے پیٹ کی طرح ہتھیلی کی زرد کھال۔ محسوس ہواکہ فقیر کے دونوں ہاتھ کسی خوبصورت سفید شاہی عمارت کے نقش ونگار بنانے میں مصروف ہیں۔

    ’’کتنی کاریگری ہے ان بوڑھے اور لاغر ہاتھوں میں۔‘‘

    اسے لگاکہ بوڑھے فقیرکے دونوں ہاتھ کاٹ لیے جائیں گے۔

    ’’نہیں۔۔۔‘‘

    اور اس نے جلدی سے بوڑھے کے دونوں ہاتھوں کو مٹیالے رنگ سے ڈرائنگ شیٹ پر بنا دیا۔

    ’’چہرہ مکمل ہونے بھی نہ پایاکہ ہاتھ بنا بیٹھا!‘‘

    احساس ہواکہ وہ بوڑھے فقیر کی تصویر بڑی بے ترتیبی سے بنا رہا ہے۔ بوڑھے کی گردن میں اودے رنگ کے پتھروں کی مالا پڑی تھی۔ اس کا برش اودے رنگ میں سن چکا ہے، مگر اب پتھر اپنا رنگ بدل رہے تھے۔ اس نے غور سے دیکھا۔ ’’پتھر پھول بنتے جا رہے ہیں اور کوئی شخص پھولوں سے لدا بوڑھے کے نزدیک کھڑا ہے اور بار بار بوڑھے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ مجمع پھولوں سے لدے شخص کی جے جے کار بولتا ہے اور جب لوگ اسے اپنے کندھوں پر بٹھا لیتے ہیں تو وہ شخص اس بوڑھے فقیر کی جانب ایک نظر بھی نہیں ڈالتا۔‘‘ اس کا گدڑی نمااووَرکوٹ عین ناف کے اوپر سے پھٹا ہوا تھا۔ کھال سوکھ کر چمڑا ہو گئی تھی اور پیٹ کنویں کی طرح اندر دھنس گیا تھا۔ اس نے سوچا، دھنسے ہوئے کنویں کو رنگوں سے اٹا دے مگر لگا کہ اگر رنگوں کے گودام بھی خالی ہو جائیں تو بھی یہ کنواں نہیں اٹ سکتا۔

    ’’بابو کچھ دیتا جا۔۔۔‘‘

    تصویر بناتے بناتے اس نے آنکھیں موند لیں۔ اپنی ہی آواز گونجی۔ ’’پیسا۔۔۔ پیسا۔۔۔ ایک پیسا۔۔۔‘‘ اسے یاد آیا پچپن میں جب وہ آنکھیں میچ کر پیسے مانگنے والا کھیل کھیلتا تو ہمیشہ کوئی بچہ اس کے ہاتھ پر تھوک دیتا۔ اس نے دیکھا کہ بوڑھے فقیر کے پاس سے کوئی بچہ گزر رہا ہے ۔نہ جانے کیوں لگا کہ بچہ ضرور بوڑھے کے ہاتھ پر تھوک دےگا۔ دل دھڑکنے لگا اور رگوں میں دوڑتے خون کی رفتار تیز ہو گئی۔ ’’خون۔۔۔ سرخ خون۔۔۔‘‘ اب اس نے شیٹ پرچاروں طرف سرخ رنگ پوت دیا تھا۔ رنگ کچھ اس طرح بکھرا کہ شیٹ پر بےشمار لال جھنڈے لہراتے نظر آئے۔ اسے لگا کہ بوڑھے فقیر کے دکھ درد کا حل ڈھونڈ لیا گیا ہے۔ تصویر کو غورسے دیکھا۔ تصویر، بوڑھے لاغر اور بےبس فقیر کی تصویر سرخ رنگ کے دائرے میں کچھ سہم سی گئی تھی۔ آرٹسٹ کی رگوں میں دوڑتے خون کی رفتار دھیمی پڑ گئی اوراب اس کے برش کا سرخ رنگ زرد پڑ چکا تھا۔ بوڑھے نے پیچھے ہٹ کر درخت کے تنے سے کمر ٹکا لی۔ درخت پر پھل لٹک رہے تھے۔ اس نے ڈرائنگ شیٹ پر درخت بنایا اور پھلوں کی جگہ بےشمار سکے لٹکا دیے۔ ایک سکہ درخت سے ٹوٹا، لیکن جب وہ بوڑھے کے پاس آکر زمین پر گرا، تو سکہ نہیں کسی پرندے کا کترا ہوا کچا پھل تھا۔

    اب تصویر مکمل ہو چکی تھی۔۔۔

    ’’کتنی خوبصورت پورٹریٹ ہے۔‘‘ کسی نے کہا۔

    ’’۔۔۔۔‘‘

    ’’جی ہاں آرٹسٹ نے کلر کمبینیشن پر بہت زور دیا ہے۔‘‘ دوسرا بولا۔

    ’’یہ آپ کے نئے بنگلے کے ڈرائنگ روم میں۔۔۔‘‘

    ’’ہاں ہاں، میں بھی یہی سوچ رہا تھا۔ مگر آئل پینٹنگ ہوتی تو زیادہ اچھا تھا۔‘‘

    ’’لیکن صاحب آئیڈیا دیکھیے ۔وہ دیکھیے وہاں سے کچھ نیچے آکر پیڑسے ٹوٹا ہوا سکہ کسی پھل کی سی شکل اختیار کرنے لگا ہے اور زمین پر آتے آتے۔۔۔‘‘

    ’’ہاں بھئی پینٹنگ توبہت اچھی ہے ۔کتنے کی ہے یہ پورٹریٹ؟‘‘

    ’’کتنے بتائوں۔۔۔ جو مانگوں گا وہی ملےگا آج تو۔‘‘

    وہ ذہن میں جودام مقرر کرتا وہ کبھی زیادہ لگتے کبھی کم۔ دونوں شخص سامنے کھڑے اس کے جواب کا انتظار کر رہے تھے کہ اچانک اس نے کچھ کہا۔ کیا کہا؟ یہ وہ خود نہیں سن سکا لیکن جب سامنے والے شخص نے اطمینان کی سانس لیتے ہوئے اس کی بتائی ہوئی رقم دہرائی تو اس نے سوچا۔۔۔

    ’’ایں یہ کیا! میں نے صرف اتنے ہی مانگے! اس سے زیادہ میں سوچ بھی تونہیں سکتا تھا۔ خیراتنے ہی کافی ہیں۔ یہ سب پیسے بوڑھے فقیر کودے دوں گا۔ اسے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا نہیں پڑےگا۔ ان پیسوں سے وہ کوئی چھوٹا موٹا دھندا کر سکتا ہے۔ کچھ نہیں تو پتھر کی مورتیاں اور مورتیوں کی مالائیں بیچنے لگےگا۔‘‘

    ’’یہ لو۔۔۔‘‘ اس سے زیادہ نہیں۔ ابھی تو فریم بھی بنوانا ہے۔‘‘

    ’’نہیں صاحب اس سے کم نہیں۔‘‘ اس نے کہنا چاہا مگر منہ سے کچھ نہ نکلا اور چپ چاپ دی ہوئی رقم ہاتھ میں تھامے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔

    ’’کتنا خوش ہوگا بوڑھا فقیر۔ اتنی بڑی خوشی زندگی میں پہلی بار ملےگی۔‘‘

    جب وہ بوڑھے کے پاس پہنچا تو اس نے ہاتھ پھیلاکر سوال کیا۔

    ’’بابو کچھ دیتا جا۔۔۔ کچھ دیتا جا بابو۔۔۔۔‘‘

    چاہا کہ جھک کر اس کے ہاتھ پر سارے روپیے رکھ دے مگر اس نے دیکھا کہ کچھ لوگ قریب سے گزر رہے ہیں۔

    اس نے ہاتھ روک لیا۔

    ’’کیا سوچیں گے یہ لوگ۔ سمجھیں گے میں کوئی پاگل ہوں۔‘‘

    وہ وہیں کھڑا لوگوں کے گزر جانے کا انتظار کرتا رہا۔

    ’’میں یہاں کھڑا ہوں۔ لوگ دیکھ رہے ہیں۔ میں اس طرح کیوں کھڑا ہوں شاید وہ سوچ رہے ہوں گے۔‘‘

    وہ دو چار قدم ٹہلتا ہوا آگے بڑھا اور پھرپیچھے لوٹ آیا۔ بوڑھا حیرت زدہ نظروںسے دیکھنے لگا۔

    ’’بوڑھا حیرت زدہ ہے، شاید میں نے فقیرکے ہاتھ پر نوٹوں کی موٹی گڈی رکھ دی ہے۔‘‘

    اس نے مسکرانے کی کوشش کی اور فقیرکی طرف دیکھا۔ فقیر بھی مسکرا رہا تھا گویا وہ فقیر نہ ہو قد آدم آئینہ ہو۔

    آئینے میں کسی احمق کا چہرہ دکھائی دیا۔

    ’’فقیر پھر مسکرا رہا ہے، دل ہی دل میں ہنس رہا ہے گویا سوچ رہا ہو کہ عجب سرپھرا شخص ہے۔‘‘

    اب آرٹسٹ کا حلق خشک ہو گیا تھا۔ بوڑھے نے کھنکارا توا سے لگا کہ بوڑھا فقیر قہقہہ مارکر ہنس پڑا ہے۔

    ’’بابو کچھ دیتا جا۔۔۔‘‘

    فقیر نے ہاتھ بڑھایا۔ ہاتھ خالی تھا۔ آرٹسٹ نے اپنے ہاتھ پر نظر ڈالی، اس کے اپنے ہاتھ میں نوٹوں کی موٹی گڈی تھی۔ اسے محسوس ہوا کہ بوڑھے نے اس کی ذہنی حالت پر ترس کھاکر پیسے لوٹا دیے ہیں۔ پل بھر کے لیے لگا کہ وہ خود فقیر کی جگہ بیٹھا بھیک مانگ رہاہے۔ ہاتھ خودبخود پیٹ پرپہنچ گیا۔

    ’’بھوک لگ رہی ہے۔‘‘

    بھوک تو اس وقت بھی لگ رہی تھی جب وہ گھر سے نکلا تھا۔

    ’’پہلے چل کر کچھ کھا لیا جائے۔‘‘ اس نے سوچا اور سامنے چائے کے ہوٹل میں گھس گیا۔

    ہوٹل کابل چکانے کے بعدباقی روپیوں کو ہاتھ میں تھامے ٹہلتا ہوا پھر بوڑھے فقیر کے قریب آن پہنچا۔ فقیر نے کنکھیوں سے دیکھا اور تار تار اوورکوٹ کی جیب کو گھٹنوں میں دباکر محفوظ کر لیا۔

    ’’کمبخت سوچ رہا ہے میں کچھ چھین کر بھاگ جائوں گا۔‘‘

    اس نے نفرت سے فقیرکی طرف دیکھا۔ ’’وہ اوندھے منہ پڑا تھا اور بہت سارے چاندی کے سکے فرش پر بکھرے ہوئے تھے۔ پولیس والوں نے تلاشی لی تو گدڑی سے نوٹوں کی گڈیاں نکلنے لگیں۔ اخبار والوں نے فوٹو کھینچے۔ پلیٹ فارم پر بھیک مانگتا تھا۔ نحیف ونزار فقیر۔۔۔ اس بوڑھے سے بھی بدتر حالت تھی اس کی۔‘‘

    اب آرٹسٹ کے ہاتھ میں چند روپیے تھے۔ باقی ڈرائنگ شیٹ اور رنگ خریدنے کے لیے جیب میں رکھ لیے تھے اور گھوم کر فقیر کے پیچھے آ گیا تھا۔ بوڑھا پہلو بدلنے لگا اور بیساکھی بھی کھسکاکر قریب کر لی۔

    ’’نہ جانے کیا سمجھ رہا ہے۔ مگر مجھے اس سے کیا غرض ۔مجھے تواس کی مدد کرنی ہے۔ اگر مجبوری نہ ہوتی تو پورے پیسے ہی دے دیتا۔ خیر اتنے بھی اس کے لیے کافی ہیں۔‘‘

    بوڑھا کھانسا تو لگا کہ بوڑھا پھر زور سے قہقہہ مارکر ہنس پڑا ہے۔ اس کا وہ ہاتھ جس میں روپیے تھے لرز گیا۔ یاد آیا کہ جب اس نے دو دن سے کھانا نہیں کھایا تھا اور اپنے ایک امیر دوست سے کچھ پیسے ادھار مانگنے گیا تھا تو کتنی دیر تک یوں ہی بیٹھا رہا۔ کئی بار مانگنے کی کوشش کی مگر کوئی سہاراہی نہیں مل پایا کہ کس طرح بات شروع کرے۔ کسی امیر سے کچھ مانگنا کتنا مشکل ہے۔ کیسی عجیب کیفیت تھی وہ۔ مگر آج کسی غریب کو اتنے روپیے دینا، ٹوٹے سینڈل اور پھٹی پتلون پہن کر اتنے روپیے دینا اس مانگنے سے کہیں زیادہ مشکل ہو گیا تھا۔ ایک بار پھر فقیر کو پیسے دینے کی کوشش کی مگر لگا کہ اس کے چاروں طرف بھیڑ جمع ہے اور سر پر راجا ہریش چندر کا مکٹ باندھے اسٹیج پر کھڑا کوئی کرتب دکھا رہا ہے۔ وہ اپنے آپ سے کشتی لڑ رہا تھا کہ اسے ادی پہلوان یاد آ گیا۔

    ’’ادی پہلوان نے اس رکشے والے کو، جس سے ایک لالا چند پیسوں پر جھگڑا کر رہا تھا، کس شان سے ایک بڑا نوٹ دیا تھا۔’’ ’’کیوں جھگڑ رہا ہے بے۔ یہ لے ۔ یہ عزت دار لوگ کیا دیں گے۔ انہیں تو غریبوں کو دیتے ہوئے شرم آتی ہے۔ بےعزتی ہوتی ہے ان کی۔ دینے کے لیے ادی کا دل چاہیے۔ ‘‘سچ ہی کہا تھا ادی نے۔ دینے کے لیے ادی کا دل چاہیے۔ علاقے کے بدمعاش ادی کا۔۔۔‘‘

    ادّی پہلوان نے راجا ہریش چندر کو اٹھاکر زمین پر پٹخ دیا تھا۔ چاروں خانے چت۔ اس نے گھبراکر اپنے چاروں طرف دیکھا۔ سامنے سے کچھ لوگ آ رہے تھے۔

    ’’ارے یہ تو وہی لڑکی ہے۔۔۔‘‘

    لڑکی نے اسے فقیر کے قریب کھڑا دیکھا تو مسکرا دی۔

    ’’یہ کیوں مسکرا رہی ہے۔ کیا اسے معلوم ہے کہ میں فقیر کو اتنے پیسے۔۔۔ کیا میں شکل سے احمق معلوم ہوتا ہوں؟‘‘

    آرٹسٹ نے نہ چاہتے ہوئے بھی مسکرانے کی کوشش کی، پھر بھنویں سکوڑیں اور بولا۔

    ’’نہ جانے انڈیا سے یہ بھک منگے کب ختم ہوں گے۔‘‘

    اب اس کانوینٹیئن لڑکی کے رومال کی خوشبو آرٹسٹ کے جسم میں اتر گئی تھی۔ اس نے اپنی مٹھی کے سارے نوٹ جیب میں رکھے اور ایک سکہ نکال کر بوڑھے فقیر کے ہاتھ پر اس طرح ڈال دیا جیسے سکہ نہ ڈالا ہو بلکہ تھوک دیا ہو۔ فقیر کا ہاتھ سکے کے بوجھ سے کپکپانے لگا۔۔۔

    ’’بابو تیرا بھلا ہو۔۔۔‘‘

    اس نے دیکھاکہ لڑکی کے ڈیڈی اب بھی اس کی طرف دیکھ کر مسکرا رہے ہیں۔ وہ اس طرح چونکا جیسے ابھی کچھ اور کہنا باقی ہے اور بول پڑا۔

    ’’صاحب یہ لوگ کیسا ڈھونگ رچائے رہتے ہیں۔۔۔‘‘

    اور یہ کہتا ہوا تیز تیز قدموں سے آگے بڑھ گیا۔۔۔

    کچھ دور جانے کے بعد اس نے مڑکر دیکھ۔ وہ دونوں شخص، جنہوں نے اس کی پورٹریٹ خریدی تھی، بوڑھے فقیر کے وجودسے بے خبر، ہنستے ہوئے اس کے سامنے سے گزر رہے تھے اور بوڑھا ہاتھ پھیلائے بھیک مانگ رہا تھا۔

    ’’بابو کچھ دیتا جا۔۔۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے