Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پوسٹ کارڈ

انور قمر

پوسٹ کارڈ

انور قمر

MORE BYانور قمر

    ریل کی سیٹی سن کر لڑکا ہڑبڑاکر جاگا۔ کمرے میں مغربی کھڑکی سے چاند جھانک رہاتھا۔ رات کا آخری پہر تھا، سناٹے میں جھینگر کی سیٹی اور اس کے پس منظر میں پٹریوں پر ریل کے دوڑنے کی آواز گونج رہی تھی۔ اس نے سرہانے رکھی ہوئی تپائی سے ٹارچ اٹھائی، سینے پر سے بلینکٹ سرکایا، بستر سے اٹھا، سلیپر پہنے، کرسی کی پشت پر پھیلی ہوئی شال اٹھاکر کاندھوں پر ڈالی، پھر ٹارچ کی روشنی میں دروازے کی کنڈی سرکائی اور کمرے سے باہر چلاآیا۔

    اس کے کمرے کادروازہ ایک وسیع ہال میں کھلتا تھا۔ ہال میں پرانے طرز کافرنیچر قرینے سے رکھا ہوا تھا۔ کیبنٹ، صوفہ سیٹ، سینٹر ٹیبل، تپائیاں، کرسیاں، بک ریکس، گل دان، سگریٹ کیس، ایش ٹریز۔۔۔ ان کے علاوہ دیواروں پر پینٹیگس آویزاں تھیں۔ ہال کی مشرقی یوار سے لگاہوا ایک چھوٹا سا ٹیبل تھا، جس پر ریڈیو رکھا ہوا تھا۔ لڑکا اس ریڈیو کے قریب رکھی ہوئی کرسی پر بیٹھ گیا۔ اسے مکان کے ہر ہر فرنیچر سے لگاؤ تھا۔ ہال کی اسی مشرقی دیوار پر ایک مصنوعی انسانی سرآویزاں تھا، اسے اس سر سے بھی لگاؤ تھا۔

    وہ اکثر کمرے میں بیٹھا اس سر کے متعلق سوچا کرتا تھا۔ دراصل اس کی سوچ کا محرک، اس کے سرپرستوں کا، اس سر سے وابستہ جذبہ عقیدت تھا۔ وہ سال میں دوبار، اس سر کی نسبت، چند ایسی رسمیں انجام دیتے، جن کو دیکھ کر اس کے ذہن میں، اس سر سے ان کی عقیدت کارازمعلوم کرنے کا اشتیاق جاگتا، ساتھ ہی دل ہی دل میں اب اسے محسوس ہو رہا تھا کہ اس سر سے اس کی عقیدت بڑھتی چلی جارہی ہے۔ اس نے کئی بار ارادہ کیا کہ وہ اپنے سرپرستوں سے اس سر کے متعلق پوچھے، لیکن ہر بار الفاظ اس کی نوک زبان پر آکر لوٹ گئے۔

    اپنے معمول کے مطابق لڑکے نے ریڈیو آن کردیا۔ ڈایل کی سوئی ادھر اُدھر گھمائی۔ اسے کوئی اسٹیشن نہ ملا۔ البتہ ریڈیو سٹ سے اسے متعدد سگنل سنائی دیے۔ وہ بڑی دیر تک ان سگنلوں کی پراسرار اشاریت کو اپنے معصوم ذہن سے سمجھنے میں کوشاں رہا۔

    ایک دن ڈاکیہ اسے پارسل دے گیا۔ گتے کے ڈبے میں بڑی نفاست سے کوئی چیز پیک تھی۔ اس نے ڈبا کھولا۔ وہ ایک کتاب تھی، جو دور دراز واقع کسی قدیم شہر سے آئی تھی۔ اسے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اس کتاب کے رخ پر اسی مصنوعی انسانی سر کی شبیہ بنی ہوئی ہے۔ اس نے کتاب کے اوراق الٹے، اس توقع سے کہ کتاب میں مزید ایسی تصویریں ہوں گی، جن سے اس سر کے اسرار اس پر کھلیں گے۔ چند صفحات پر تصویریں ضرور تھیں، لیکن وہ ان سے اس سرکا کوئی تعلق نہ جوڑ پایا، کیونکہ چند تصویریں سکوں کی تھیں جن پر بنے ہوئے نقش الگ سے بھی واضح کیے گئے تھے۔ چند صفحات پر عجب وضع کے جانوروں کے عکس تھے۔ چار چھ صفحوں پر ایسی کشتیوں کے خاکے تھے جو زمانہ قدیم میں ماہی گیری کے کام آتی ہوں گی۔ کشتیوں کے عکس بھی تھے، جن پر کسی ناقابل فہم زبان میں تاریخیں اور واقعات درج تھے۔

    اس نے وہ کتاب اپنے سرپرستوں کے حوالے نہ کی، بلکہ اس کتاب کو اس نے اپنی متعدد کتابوں کے ساتھ رکھ دیا۔ اپنے سرپرستوں کی نظر سے بچائے رکھنے کی خاطر اس نے اس کتاب پر اخبار کا گردپوش چڑھادیا۔ اب وہ کتاب اس کی دیگر کتابوں میں بظاہر روپوش تھی۔

    وہ اپنے فرصت کے اوقات میں اس کی ورق گردانی کرتا، تو کبھی اسے چھپا کر اپنے ساتھ باہر بھی لے جاتا۔ خاص طور پر سینی ٹوریم پارک میں! سینی ٹوریم پارک اسے بے حد پسند تھا۔ پارک بہت وسیع اور کشادہ تھا، جس میں دیودار، نیم، برگد، پیپل اور چیڑ کے بیسیوں درخت اگے ہوئے تھے اور ان کی چھانو میں بینچیں رکھی ہوئی تھیں۔ سہ پہر سے شام تک سینی ٹوریم کے مریض اور ان کے ملاقاتی بینچوں پر بیٹھ کر مطالعہ کرتے، چائے پیتے، خوش گپیاں کرتے۔ خلوت پسند عورتیں، سویٹر بناکرتیں یا کشیدہ کاری کرتی ہوئی ماحول کا لطف لیتیں۔

    وہ دور بینچ پربیٹھا بیٹھا اس کتاب کے ورق الٹتا پلٹتا رہتا۔ اس کاجی چاہتا کہ وہ مطالعہ میں مصروف کسی مریض کے پاس جائے اور اس مریض سے اس کتاب کااحوال معلوم کرے۔ لیکن کسی کے انہماک میں خلل ڈالنے کی اسے ہمت نہ ہوتی۔ وہ اپنے دل میں اضطراب دبائے بیٹھارہتا۔

    ایک روز، اس کے دوسرپرستوں میں سے ایک کو کسی چیز کی تلاش میں اس کے کمرے میں جانے اور اس کی کتابوں کاجائزہ لینے کا اتفاق ہوا۔ اس کتاب پر جوں ہی ان کی نظر پڑی، توں ہی انہوں نے اسے اپنی تحویل میں لے لیا۔

    شام کو جب وہ گھر لوٹا تو ان دونوں نے اس پر الزامات کا طورمار باندھ دیا اور اسے سزا دینے پر آمادہ ہوگئے۔ لیکن جب اس نے انہیں اطمینان دلایا کہ اس نے وہ کتاب کسی اور کو نہیں دکھلائی ہے، نہ ہی اس کتاب کا اس نے کسی سے ذکر کیا ہے، تب کہیں جاکر وہ اپنے ارادے سے باز آئے۔

    اب اس کے لیے رات کی نیند اس قدر پرسکون نہ رہی تھی، جتنی پہلے تھی۔ وہ ریل کی کوک پر اٹھ بیٹھتا، ٹارچ ہاتھ میں لیتا، شال کندھوں پر ڈالتا اور دبے پانو مکان سے باہر چلا آتا۔ مکان کے پاس باغ میں نیم کادرخت تھا، جس پر رات کے پرندے کا مستقل بسیرا تھا۔ اس نے دن میں بارہا نیم کی ہر ہر شاخ کا جائزہ لیا تھا، لیکن رات کا پرندہ اسے دن میں کبھی نظر نہ آیا تھا۔ البتہ رات کے وقت پرندہ نیم کی سب سے نچلی شاخ پر موجود ہوتا اور گردن جھکاکر مراقبہ کیا کرتا۔

    کھیتوں کے اس پار چمکیلی پٹریوں پر سیٹی بجاتی تیز رفتار سے گزرتی ہوئی ریل لڑکے کی روح میں ہنگامہ بپا کردیتی۔ اسے محسوس ہوتا کہ اس کے اندر ایک نامعلوم ساہ جہاں آباد ہے، جس کے کئی گوشے گنجان آباد شہروں کے سمان ہیں اور کئی علاقے گھنے جنگلوں کی طرح اَن بوجھے ہیں۔ اسے اپنے اس خیال پر حیرت ہوتی کہ ایک روزاسی ریل سے کوئی مسافر اترے گا جس کی آمد کی اطلاع اسے ہوگی اور وہ مسافر اس مصنوعی انسانی سر سے مشابہ ہوگا۔

    غیرارادی طور پر اب وہ ڈاکیے کا منتظر رہنے لگا۔ سائیکل سوار ڈاکیہ اپنی آمد کی اطلاع گھنٹی بجاکر دیتا تو وہ دوڑ کر اپنے کمرے سے برآمدے میں آپہنچتا اور اس کے دیے ہوئے خطوں میں اپنے نام کا خط تلاش کرتا۔ اس کے سرپرستوں نے اس کے عادات و اطوار میں تبدیلی دیکھی۔ یوں بھی وہ ان سے کم بولا کرتاتھا، اور بھی کم بولنے لگا۔ تینوں وقت کم کھانے لگا۔ کھیل کود یا کسی اور تفریح میں اس کا دل نہ لگتا۔ رات رات بھر اس کے کمرے کی بتی جلتی رہتی۔ وہ سحر خیزی کاعادی تھا، اب دیر سے جاگنے لگا۔ اس نے اپنے کمرے کی دیوار پر دونوں سمتوں سے آنے والی گاڑیوں کاٹائم ٹیبل لگا لیا۔

    ایک روز ڈاک سے اسے ایک پوسٹ کارڈ موصول ہوا۔ پوسٹ کارڈپر کسی نے اپنی آمد کی اطلاع یقیناً دی تھی مگر مکتوب نگار نے اپنی آمدکی تاریخ سے اسے آگاہ نہیں کیا تھا۔ البتہ آمد کی تاریخ سے مستقبل قریب میں مطلع کرنے کا وعدہ تھا۔

    اب وہ سہ پہر کو سینی ٹوریم پارک کے بجائے اسٹیشن جانے لگا۔ اسٹیشن چھوٹا تھا۔ جس کے محض دو پلیٹ فارم تھے۔ وہ خالی پلیٹ فارم پر ایک سرے سے دوسرے سرے تک چہل قدمی کرتا۔ کبھی رک کر ویران ویٹنگ روم کا جائزہ لیتا۔ ویٹنگ روم میں پڑی ہوئی لمبی لمبی آرام کرسیوں کو دیکھ کر اسے اپنے چھوٹے سے وجود کا شدید احساس ہوتا۔ اسے ویٹنگ روم سے اٹھتی ہوئی بو سے اسپتال کے اطراف پھیلی ہوئی کراہت آمیز بو کااحساس ہوتا اور جب اس کی نظر ہیٹ اسٹینڈ پر پڑتی تو ہیٹ اسٹینڈ کی کھونٹیوں پر اسے مڑی ہوئی انسانی انگلیوں کا گمان ہوتا۔

    ریلوے سگنل بالخصوص اس کی توجہ کاباعث ہوتے۔ یہ ان کے قیام سے رکوع اور رکوع سے قیام کی حالت میں دوبارہ لوٹ آنے کے عمل کے متعلق سوچاکرتا۔ اسے اسٹیشن نے سگنل کا میکنزم سمجھا دیا تھا۔ وہ پلیٹ فارم کے آخری سرے پر جاکر کھڑا ہوجاتااور وہاں سے دور واقع سگنل روم میں کام کرتے ہوئے آدمی کو دیکھا کرتا۔ اسے وہ شخص بڑا پراسرار معلوم ہوتا، اتنا ہی پراسرار جتنا کہ مکان میں آویزاں اسے وہ سرلگتا۔

    اس کی موجودگی میں کبھی کبھار کوئی ریل تیزی سے گزرنے لگتی تو اس کے اندر ہیجان سا مچ اٹھتا۔ ریل میں بیٹھے ہوئے لوگوں کی ہیئت اسے بالکل مختلف معلوم ہوتی۔ وہ سمجھتا کہ وہ مومی پتلے ہیں، جنہیں انسانی لباس پہناکر ایک نامعلوم اسٹیشن سے سوار کرادیا گیا ہے او رایک اَن جانے مقام پر وہ اتارلیے جائیں گے۔ اس کاجی چاہتا کہ اسٹیشن کے پورٹر کے ہاتھ میں سے سبز جھنڈی لے لے اور اس کے بجائے پورٹر کو سرخ جھنڈی لہرانے کو کہے۔ وہ جانتاتھا کہ سرخ جھنڈی کے دکھاتے ہی ریل رک جائے گی۔ ریل کے رکتے ہی وہ اس کی جانب دوڑے گا۔ ڈبوں میں بیٹھے ہوئے مسافروں سے تعارف حاصل کرے گا اور ان سے ان کااحوال معلوم کرے گا۔ لیکن یہ ناممکن امر تھا۔ اسے بتایا گیا تھا کہ یہ چھوٹا اسٹیشن ہے جس پر چوبیس گھنٹوں میں صرف دو ہی گاڑیاں رکتی ہیں اور وہ بھی رات گئے!

    اسے ایک واقعہ اچھی طرح یاد تھا۔ وہ اپنے کسی عزیز سے رات ہی میں بچھڑا تھا۔ اس شخص سے، جس کا سراپا اب اس کے ذہن سے محو تھا۔ اس کا کیا رشتہ تھا اسے یاد نہیں تھا۔ اسے بس یہی یاد تھا کہ اس کے معصوم سے چہرے پر پیلی پیلی آنکھیں تھیں، وہ سدا مسکرایا کرتا تھا۔ وہ اسے جنگلوں اور بیابانوں کی سیر کراتا، ندی کنارے کہانیاں سناتا۔ ان دونوں نے دن کے کئی کئی گھنٹے بلامقصد ایک دوسرے کی سنگت میں گزارے تھے، جن کی خوشبو سے اس کا ذہن مہکا کرتا تھا۔ وہ شخص رات ہی کو جدا ہوا تھا۔ اس کے ان ہی سرپرستوں نے اسے اگلی صبح بتایا تھا کہ وہ رات کی ٹرین سے جاچکاہے۔ وہ ایسا صدمہ تھا جسے آج تک اس نے اپنی جان سے لگائے رکھا تھا۔

    عرصہ بیت گیا، پھر اس کے نام کوئی دوسرا پوسٹ کارڈ نہیں آیا۔ اب وہ سہ پہر کے بجائے رات کے وقت اسٹیشن جانے لگا۔ اپنے معمول کے مطابق رات کو ریل آتی، پلیٹ فارم پررکتی، وہ ایک سرے سے دوسرے تک ریل کے ہر ہر ڈبے کا جائزہ لیتا۔ اسے محسوس ہوتا کہ ریل کا ہر ڈبہ مہربند ہے۔ شاذونادر ہی اسے کوئی ڈبہ کھلا ہوا ملتا۔ ڈبہ عموماً تاریک ہوتا۔ وہ اندر جھانکتا تو اسے سیٹوں پر سوئے ہوئے مسافروں کا گمان ہوتا۔ وہ ڈرتے جھجکتے ڈبے کے اندر ٹارچ کی روشنی پھینکتا تو اسے اس ڈبے کو خالی پاکر انتہائی دکھ ہوتا۔ ریل کے گزرجانے کے بعد، وہ تھکا تھکا سا گھر کو لوٹتا۔ پائیں باغ میں پہنچ کر حسب عادت وہ نیم کی ایک مخصوص شاخ پر نظر ڈالتا۔ رات کا پرندہ نیم کی اس شاخ پر گردن جھکائے مراقبے میں بیٹھا ہوتا۔

    کچھ روز کے بعد اس کے سرپرستوں میں ایک ایسا بیمار ہوا کہ اس کی پیٹھ بستر سے جالگی۔ دوسرا دن رات تیمارداری میں مصروف رہنے لگا۔ کبھی کبھار اس کے کمرے سے گریہ سنائی دیتا، بیمار کے حق میں گڑگڑاکر جب دوسرا دعائیں مانگتا تو اسے بھی اپنا دل پگھلتا محسوس ہوتا۔ غیر دانستہ طور پر اس کی نگاہیں دیوار پہ آویزاں اس سر کی جانب اٹھ جاتیں، وہ آنکھیں جھپکائے بنا ٹکٹکی باندھے اسے گھورتا ہوا محسوس ہوتا۔ اس کا جی چاہتا کہ کسی سیاہ عینک سے اس کی آنکھیں ڈھک دے۔

    ایک رات اس نے خواب دیکھا کہ ریل گاڑی اس کے مکان کے سامنے رکی ہوئی ہے۔ ایک شخص اس ریل میں سے اترکر ان کے مکان میں داخل ہوتا ہے اور یکے بعد دیگرے گھر کا تمام مال و اسباب ریل میں رکھتا جاتا۔ آنِ واحد میں مکان خالی ہوجاتا ہے۔ ریل گاڑی چلی جاتی ہے۔ وہ ہال کے ٹھنڈے فرش پر بیٹھا ہے۔ ہر سوخاموشی ہے۔ خاموشی میں اسے سسکی سنائی دیتی ہے۔ وہ چوطرفہ نظریں دوڑاتا ہے۔ اس کی نگاہیں اوپر کو اٹھ جاتی ہیں۔ وہ سرجوں کاتوں قائم ہے۔ محض اس کی آنکھیں پرنم ہیں۔

    صبح ہوتے ہوتے وہ بیمار سرپرست چل بسا۔ اس کی میت ایک بوسیدہ سے ٹرک پر رکھی گئی۔ پاس پڑوس کے لوگوں نے متوفی کو اس کی آخری آرام گاہ تک پہنچادیا۔ اس ساری کارروائی کو دیکھ کر اس کا دل بیٹھ گیا۔ وہ ایسا افسردہ ہوا کہ ریل اور اسٹیشن سے اس کی رہی سہی دلچسپی بھی ختم ہوگئی۔ اب وہ کمرے میں بیٹھا اس سر کی بابت سوچا کرتایا اس کتاب کے اوراق الٹا کرتا۔ اس کی نگاہیں ان صفحوں پر ٹک جاتیں جن پر عجب وضع کے جانوروں، عہد پارینہ کی کشتیوں، پر اسرار کتبوں اور سکوں کے عکس تھے۔ اسے محسوس ہوتا کہ وہ کسی اندھے غار میں قید ہے۔ اس کے ساتھی بچھڑچکے ہیں۔ کوئی پرسان حال نہیں۔ اسے یاد نہیں کہ وہ کب سے قید ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ اسے کس نے قید کر رکھا ہے۔ بس کبھی کبھار اسے کسی کتے کا نوحہ سنائی دیتا ہے، جس کو سن کر اسے احساس ہوتا کہ کتا بھی اس کے ساتھ قید ہے اور جس اذیت سے وہ دوچار ہے، کتا بھی اسی اذیت کاشکار ہے۔

    کچھ عرصے کے بعد اس کا دوسرا سرپرست بھی بستر سے جالگا۔ اب وہ اس کے سرہانے بیٹھا اس کی تیمارداری کرتا۔ کبھی کبھار اس پر ہذیان کا دورہ پڑتا۔ وہ بے معنی سی گفتگو کرتا،

    ’’خالی مکان۔۔۔ آرام گاہ۔۔۔ کتاب۔۔۔‘‘

    اس کیفیت میں وہ سر کی بندگی سے متعلق اسے ہدایات دیتا یا رسومات ادا کرنے کی تاکید کرتا۔

    ایک روز اس کادوسرا سرپرست بھی نیند سے نہ جاگا۔ وہی لوگ، وہی گاڑی بلوائی گئی۔ اسی احترام سے اسے گاڑی پر رکھا گیا اور حسب دستور بستی سے بہت دور اسی آرام گاہ میں لے جاکر انہوں نے متوفی کو لٹا دیا۔۔۔

    چند روز بعد پھر اسے ایک پوسٹ کارڈ موصول ہوا۔ لکھا تھا،

    افسوس ہے کہ مراسلت میں دیر ہوئی۔۔۔ مکتوب نگار نے آمد۔۔۔ کی تاریخ لکھ دی تھی!

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے