دفتر میں داخل ہوتے ہی میں لمحہ بھر کے لیے ٹھٹکا۔ اروپ چٹرجی سامنے کرسی پر آنکھیں موندے بیٹھے تھے۔ جب میں ان کے قریب سے گزرا تو انھوں نے آنکھیں کھول دیں۔ ہڑبڑاکر کھڑے ہوتے ہوئے زور سے کہا، ”نمسکار، سر!“
مجھے ان کی یہ حرکت خلاف معمول لگی۔ تجسس بھرے لہجے میں پوچھا، ”ارے اروپ بابو، آج آپ یہاں؟“
”یہ تو تنخواہ کے دن آیا کرتے ہیں، مہینے کی آخری تاریخ کو۔ آج تو سات اکتوبر ہے۔ آج یہ کیسے وارد ہو گئے؟“ میں دل ہی دل سوچنے لگا۔
”ہاں سر، بس یوں ہی۔۔۔“ وہ کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن پتہ نہیں کیوں الفاظ ان کے لبوں پر آکر منجمد ہو گئے۔۔۔
میں کرسی پر بیٹھ گیا۔ ابھی ٹھیک سے سستایا بھی نہ تھاکہ اروپ بابو کی آواز آئی، ”مے آئی کم ان، سر!“
دیکھا اروپ بابو دروازے پر کھڑے میری اجازت کے منتظر ہیں۔ میرے گردن ہلاتے ہی وہ جلدی سے اندر آئے اور 'بیٹھوں' کہہ کر سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئے۔
”سر، آپ کیسے ہیں؟“ انھوں نے مجھ پر ایک شفقت بھری نگاہ ڈالی۔
”ٹھیک ہوں۔ آپ کیسے ہیں؟“
”ٹھیک ہی ہوں، سر۔ آج ندیا جانے کو دل نہیں چاہا۔ اس لیے یہاں چلا آیا۔ کل سے درگا پوجا کی چھٹی شروع ہو رہی ہے۔ سوچا اسی بہانے آپ سے مل لوں گا۔ اس لیے چلا آیا۔ کل سے آپ لوگوں کا بھی رمضان شروع ہو گیا ہے۔ سر، جیسی آپ کی عید ویسی ہماری درگا پوجا۔ تمام دھرم تو ایک جیسے ہیں۔ انسانیت کا پاٹھ پڑھاتے ہیں۔ بھائی چارگی سکھاتے ہیں۔“
میں نے کہا، ”آپ پرتیما درشن کرنے کہاں کہاں جاتے ہیں؟“
وہ شاید میرا اشارہ تاڑ گئے۔ کہنے لگے، ”سر، ایشور تو ایک ہی ہے۔ وہ نر آکار۔ ہم اسے ٹھاکر یا بھگوان کہتے ہیں، آپ اسے اللہ یا خدا۔ لوگوں نے اپنی اپنی سبیدھا انوسار اس نر آکار کو آکار دے دیا ہے۔“
میں نے بات بدلتے ہوئے کہا، ”تو اروپ بابو درگا پوجا کی تمام تیاریاں ہو چکیں؟“
”نہیں، سر۔ میں درگا پوجا نہیں مناتا! اس لیے نہیں کہ میں دھرم نہیں مانتا۔ میں روزانہ صبح سویرے گیتا پاٹھ کرتا ہوں۔ جوگ آسن میں بیٹھ کر اس نِر آکار کا دھیان گیان کرتا ہوں۔۔۔“
ابھی وہ اپنی باتیں پوری بھی نہ کر پائے تھے کہ بڑے بابو ایک فائل لے کر کمرے میں داخل ہوئے۔ فائل میز پر رکھتے ہوئے کہا، ”کچھ سگنیچرز چھوٹ گئے ہیں۔“
بڑے بابو نے اروپ بابو کا چہرہ دیکھا اور بھوئیں جوڑ کر دیوار گھڑی کی طرف دیکھنے لگے۔ اروپ بابو اٹھ کر باہر چلے گئے۔
(دو)
سات مہینے پہلے اروپ بابو ندیا ضلع سے ٹرانسفر ہوکر ہمارے دفتر میں بحیثیت اپر ڈیوژن کلرک آئے تھے۔ دو چار دنوں ہی میں دفتر کے ہر کام سے اچھی طرح واقف ہو گئے تھے بڑی تن دہی سے اپنا کام کیا کرتے تھے۔ لوگ کہتے تھے کہ وہ بڑے گم صم رہتے ہیں۔ لیکن میں نے انھیں کبھی گم صم نہیں دیکھا۔ وہ وقت بے وقت اکثر میری کیبن میں چلے آتے تھے۔ سچ پوچھئے تو کبھی کبھی مجھے اکتاہٹ ہونے لگتی تھی۔ لیکن میں نے ان سے کبھی کچھ نہیں کہا۔ وہ جب بھی میری کیبن میں داخل ہوتے تو ان کے چہرے سے شگفتگی جھلکتی تھی۔ ایک دن ہاتھ میں دو کچے ناریل لے کر آئے اور کہنے لگے، ”سر، آج صبح میں نے گاچھ سے ڈاب کٹوائے تھے۔ دوپیس آپ کے لیے لایا ہوں۔ میرے گاچھ کے ڈاب کا پانی بڑا میٹھا ہوتا ہے اوریہ صحت کے لیے مفید بھی ہے، سر۔ میں ابھی اس کا پانی نکال کر لاتا ہوں۔“
میرے لاکھ انکار کرنے کے باوجود اروپ بابو گلاس بھر ناریل کا پانی لے آئے۔ جب تک میں نے وہ پانی پی نہیں لیا وہ میری کیبن سے باہر نہیں گئے۔
لیکن ایک مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ انھیں ڈیپوٹیشن پر دوبارہ ندیا ضلع بھیج دیا گیا۔ شمالی چوبیس پرگنہ کے بعد ہی ندیا ضلع شروع ہو جاتا ہے۔ ٹرین سے محض چالیس منٹ لگتے ہیں۔
اب وہ ہمارے یہاں صرف ہر ماہ کے اخیر میں تنخواہ لینے آتے ہیں۔ لیکن جب بھی آتے ہیں، میرے لیے کچھ نہ کچھ لاتے ضرور ہیں۔ کبھی کبھی مجھے ان کی یہ حرکت بےتکی بھی لگتی ہے۔ ابھی ایک ہفتہ پہلے کی بات ہے۔ سندیش سے بھرا ڈبہ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہہ رہے تھے، ”کھجور کے گڑ کا سندیش۔ سر، کھا کر دیکھئے نا۔ کتنا سوندھا ہے۔ سروپ کو بہت پسند تھا۔“
(تین)
بڑے بابو کے جاتے ہی اروپ بابو پھر چلے آئے۔ اس بار میں نے ہی انہیں کریدا، ”ہاں تو بتایئے، اروپ بابو، اس بار پوجا کے لیے آپ نے کیا کیا خریدا ہے اور مہا اشٹمی کی رات کہاں کہاں پرتیما درشن کو جائیں گے؟“
وہ پھیکی سی ہنسی ہنس کر تھوڑی دیر خاموش بیٹھے رہے۔ پھر ایک سرد آہ بھر کر بولے، ”سر، سروپ اسی پوجا کے وقت مرا تھا۔ ماں (درگا) سے میری کوئی شکایت نہیں۔ بس یوں ہی اس کے درشن کو جی نہیں چاہتا۔“
میں نے کہا، ”اروپ بابو، آخر کب تک آپ اس طرح سوگ منائیں گے؟“
”سر، اب زیادہ دن نہیں !“
”زیادہ دن نہیں!“ میں نے چونک کر پوچھا۔
”ہاں سر، زیادہ دن نہیں۔ وہ جلد ہی جنم لے گا۔ ابھی 'ادھولوک' میں ہے۔ وہاں کی آتماؤں کو پنر جنم لینے میں سمے لگتا ہے۔ دو سال ہوگئے ہیں۔ اب وہ کسی گھڑی بھی جنم لے سکتا ہے۔“
ان کی بات کاٹ کر ڈرتے ڈرتے آخر میں نے پوچھ ہی لیا، ”سروپ کو کیا ہوا تھا؟“
انھوں نے دونوں کہنیاں میز پر رکھیں اور سر بکف ہو گئے۔ اداس لہجے میں بولے، ”سر، اس سمے وہ بی ایس سی سیکنڈ ایئر میں تھا۔ ایک روز جب وہ فٹ بال کھیل کر لوٹا تو میں نے اس کے دائیں جانگھ پر ایک لال نشان دیکھا، جو گھاؤ کی شکل اختیار کر رہا تھا۔ میرے پوچھنے پر پہلے تواس نے ٹالنے کی کوشش کی، لیکن جب میں نے کئی بار پوچھا تو اس نے بتایا کہ کچھ دن پہلے بال سے چوٹ لگ گئی تھی۔ میں فوراً اسے ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ ڈاکٹر اسے ایک ہفتے تک انجکشن لگاتے رہے۔ لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ تب انھوں نے کہا کہ اس کا آپریشن کرنا پڑےگا۔ تورنت!
سر کیا بتاؤں، آپریشن کے چھ مہینے بعد گھاؤ ایک دم اچھا ہو گیا تھا۔ مگر وہ تو فٹ بال کا دیوانہ تھا۔ ڈاکٹر کے منع کرنے پر بھی فٹ بال کھیلنے سے باز نہ آیا۔ چھپ چھپا کر کھیلتا رہا۔۔۔“
اروپ بابو چند لمحوں کے لیے خاموش رہے۔ بائیں ہاتھ سے چشمہ کھولا اور دائیں ہاتھ سے رومال نکال کر شیشہ صاف کرنے لگے۔
میں نے کرسی پر پہلو بدلتے ہوئے پوچھا، ”پھر کیا ہوا، اروپ بابو؟“
اروپ بابو چشمہ پہنتے ہوئے بولے، ”سر، پانتا بھات (باسی بھات) اور ہلسا مچھلی کا شوقین تھا۔ مچھلی ماتھے سے بنے گھنٹو (مختلف قسم کی سبزیوں کی ایک مخلوط ترکاری جو بنگالی بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ ) پر تو وہ جان دیتا تھا۔ سسٹی کا دن (پوجا کا چھٹا دن) تھا۔ اس نے تلی ہوئی ہلسا مچھلی کے چار پانچ ٹکڑے کھا لیے تھے۔ گھنٹو کے ساتھ تھالی بھر پانتا بھات بھی کھا لیا تھا۔ اس کے بعد وہ ٹیوشن پڑھنے چلا گیا۔ ٹیوشن سے جب لوٹا تو میں اس سمئے گھر پر تھا۔ آتے ہی وہ نل کے پاس دوڑا اور قے کرنے لگا۔ قے کی آواز سن کر اس کی ماں دوڑتی ہوئی گئی۔ چلا کر کہنے لگی، ”اگو، سنتے ہو، دیکھو نا، بابا بومی کر رہا ہے۔ دیپالی کی دکھ بھری آوازسن کر میرا دل دھک سے ہو گیا۔ میں دوڑا۔ آنکھوں میں آنسو لیے دیپالی اس کی پیٹھ سہلا رہی تھی۔
میں نے دیکھا اس کے گھاؤ والے حصے سے خون رس رہا ہے۔ ہاتھ پیر کے ناخن نیلے پڑتے جا رہے ہیں۔“
اتنا کہہ کر اروپ بابو نے ایک گہری سانس لی۔ میں نے ان کی آنکھوں میں ترچھی نگاہوں سے جھانکنا چاہا۔ انھوں نے نظریں جھکا لیں۔ لمحہ بھر کے لیے خاموشی چھائی رہی۔ خود کو سنبھالتے ہوئے اروپ بابو پھر گویا ہوئے،
”اور کیا بتاؤں سر، میں سمجھ گیا۔ اس کے بدن میں زہر پھیل رہا ہے۔ میرے پاس والے مکان میں سوبھن بابو رہتے ہیں۔ ان کا بڑا بیٹا بیل ویو نرسنگ ہوم میں لیب اسٹینٹ ہے۔ میں سروپ کو جلدی سے بیل ویو لے جانا چاہتا تھا۔ لیکن شہر میں زیادہ تر سڑکوں پر پوجا پنڈال بنائے جانے کی وجہ سے گاڑیوں کی آمد و رفت میں رکاوٹ ہو رہی تھی۔ زیادہ تر راستے بری طرح بلاک کر دیئے گئے تھے۔ میں کسی طرح سروپ کو بیل و یو لے گیا۔ کس طرح، سر یہ میں نہیں بتا سکتا۔ وہاں اسے اسٹریچر پر لٹایا۔ دیپالی کو اس کے پاس چھوڑ کر میں سوبھن بابو کے بیٹے کو بلانے دوڑا۔ اس نیک لڑکے نے، سر، میری بہت مدد کی۔ ڈاکٹروں نے بھی کم کوشش نہیں کی۔ لیکن بالآخر سوبھن بابو کے بیٹے نے مجھے ایک کونے میں لے جاکر کہا، ”کاکا، یہاں سروپ کے علاج میں بہت پیسے لگیں گے۔“
میں نے کہا، ”میں دوں گا۔ پچیس ہزار، پچاس ہزار، ایک لاکھ، دو لاکھ!“
اس نے کہا، ”کاکا، اس سے بھی زیادہ!“
(چار)
اروپ بابو نے ایک لمبی گہری سانس لی اور برص زدہ دودھ جیسی سفید ہتھیلیاں میز پرسیدھے پھیلاتے ہوئے کہا، ”سر، اس سے زیادہ بولی لگانے کی میری طاقت نہیں تھی۔ دیپالی کو دلاسہ دیتے سمے میری پلکیں بھیگ گئیں۔ سسکیاں نگلتی ہوئی اس نے اپنے کان کے دونوں رِنگ کھول کر بڑھا دیئے، ”یہ لو، گھر میں ایک جوڑی چوڑی ہے، ایک ہار بھی ہے، ساری چیزیں بیچ دو۔ بیس ہزار روپے جمع کئے ہیں۔ وہ بھی لے لو۔ مجھے صرف میرا سروپ دے دو۔“
اس پاگل کو کیا معلوم کہ میں نے جو دو لاکھ کی بولی لگائی تھی، اس میں اپنے سیونگ اکاؤنٹ، اور پی، ایف، کے ساتھ ساتھ ان چیزوں کو بھی شامل کر لیا تھا۔ ادھر سروپ نڈھال، بےسدھ پڑا تھا۔ آنکھیں موندے باربار، 'بابا، اوبابا۔۔۔' بکتا جا رہا تھا۔ سر، وہ مجھ سے بڑا مانوس تھا۔ جب وہ چپ چاپ رہنے لگا تو میں نے ایک دن اس سے پوچھا، ”سروپ، تو آج کل اتنا بجھا بجھا سا کیوں رہتا ہے؟“ میں نے اس سے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگرپیار ویار کا کوئی چکر ہے، تجھے کوئی لڑکی پسند ہے، تو بتا۔
سر، مجھے کیا خبر تھی کہ اس کی چپی کی وجہ اس کا روگ ہے۔ ہم پریشان نہ ہوں اس لیے اس نے ہم سے اپنا گھاؤ چھپائے رکھا۔ سر، اسے ہماری بہت چینتا تھی۔ شاید وہ مجھے اپنی ماں سے بھی زیادہ چاہتا تھا۔ مرتے وقت بھی وہ 'بابا، بابا' کہہ رہا تھا۔ اسی لیے تو سر، اسے پنر جنم لینے میں اتنی دیر لگ رہی ہے۔“
میں نے اروپ بابو کامن ہلکا کرنے کی غرض سے موضوع بدلنا چاہا، ”لیکن اروپ بابو، پنر جنم والی بات میرے پلے نہیں پڑی!“
”سر، شاستر میں لکھا ہے کہ مرتے سمے اگر کسی کی زبان پر 'اوم' شبد رہے تو اس کی آتما ادھولوک میں چلی جاتی ہے۔ وہاں وہ مہان آتماؤں سے ملتی رہتی ہے۔ اس لیے اسے واپس مرتولوک آ نے میں دیر لگتی ہے۔ مرتے سمے سروپ کی زمان پر 'بابا، بابا' تھا۔ بچوں کے لیے ماں باپ بھی تو بھگوان کی طرح ہیں۔ اس لیے مجھے پورا بھروسہ ہے کہ سروپ اس سمئے ادھولوک میں ہے۔ لیکن اب وہ جلد ہی آ جائےگا۔“
”مگر اسے آنے میں اتنی دیر کیوں ہو رہی ہے؟“ ان کی فلسفیانہ باتوں پرمیری دلچسپی بڑھنے لگی۔
”سر، پچھلے جنم میں شاید میں نے اس کا دل دکھایا ہوگا۔ اسی لیے وہ مجھے اس طرح تڑپا رہا ہے۔ لیکن وہ آئےگا۔ میرا دل کہتا ہے، سر، وہ بہت جلد آئےگا اور تب میں اس سے معافی مانگ لوں گا۔ جب تک میں اس سے معافی نہ مانگ لوں، مجھے اس جنم میں مکتی نہیں ملنے والی۔ اسی لیے تو میں اس کے آنے کی راہ تاک رہا ہوں۔ سر، وہ۔۔۔“
اسی درمیان ٹیلی فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ میں نے ریسیور اٹھایا اوروہ پلکیں پونچھتے ہوئے اٹھ کر باہر چلے گئے۔
ریسیور رکھ کر میں فائلوں پرجلدی جلدی نگاہیں پھیرنے لگا۔ ابھی دو تین فائل بھی نہیں دیکھ پایا تھا کہ اروپ بابو پھرسے وارد ہو گئے۔ ہاتھ میں پولتھین کا ایک پیکٹ لیے۔ پیکٹ میرے بیگ کے پاس رکھتے ہوئے بولے، ”سر، اس میں ہلسا مچھلی کے دو ٹکڑے ہیں۔ تھوڑا سا پٹالی گڑ بھی ہے۔“
لیکن میرا تو روزہ ہے۔“
”تو کیا ہوا، سر۔ شام کو روزہ کھولنے کے بعد کھا لیجئےگا۔“
میں نے دبے لہجے میں کہا، ”ہونہہ، تو سروپ کو پٹالی گڑ بھی پسند تھا؟“
”ہاں سر، بہت۔ لیکن آپ کو کیسے۔۔۔!“ وہ غور سے میری طرف دیکھنے لگے۔
میں نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔ یایوں کہئے کہ گھبراہٹ میں میری زبان سے نکل گیا، ”پھر آپ سروپ کو بیلویو سے کہاں لے گئے؟“
وہ سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئے اور کہنے لگے، ”آر جی کار اسپتال۔ لوگ کہتے ہیں کہ سرکاری اسپتال میں روگیوں کی ٹھیک سے دیکھ بھال نہیں کی جاتی۔ لیکن سر، وہاں بھی کسی ڈاکٹر نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ بائیس بائیس سو کے پانچ انجکشن لگائے۔“ لرزتے ہاتھوں سے اپنی گردن کے دونوں جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا، ”سر یہاں، یہاں سے“
(پانچ)
اسی درمیان مادھوی مکھرجی اور کرشنا گنگولی میری کیبن میں داخل ہوئیں۔ کہنے لگیں، ”سر، کل سے پوجا ہے، کچھ مارکیٹنگ کرنی ہے اگر۔۔۔“
میں سمجھ گیا کہ آج وہ جلدی جانا چاہتی ہیں۔ تہوار کا معاملہ تھا۔ لہٰذا میں نے مسکراتے ہوئے سر ہلا دیا۔ ان کے جاتے ہی اروپ بابو پھر گویا ہوئے،
”کیا بتاؤں سر، آئی سی یوکے باہر دیپالی اور میں رات بھر پرارتھنا کرتے رہے۔ صبح کو نرس کی خوشامد کی تو اس نے کچھ دیر کے لیے مجھے اندر جانے کی اجازت دے دی۔ مجھے دیکھ کر سروپ مسکرایا۔“ بابا آپ ساری رات یہیں تھے؟ ماں بھی یہیں ہے؟“
”کیسا لگ رہا ہے، بیٹا؟“ میں نے اس کا سر سہلاتے ہوئے پوچھا۔
”ٹھیک ہوں، بابا۔ لیکن!“ اس نے دھیرے سے کہا۔
”لیکن کیا!“ میں نے گھبرا کر پوچھا۔
اس نے تل پیٹ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا، ”یہاں، سخت ہوگیا ہے۔ رات سے پیشاب نہیں اترا ہے۔“
”فکر نہ کر۔ سب ٹھیک ہو جائےگا۔“ میں نے دلاسہ دیتے ہوئے کہا اور بھاگتا ہوا ڈاکٹر کے پاس پہنچا۔ میری بات سنتے ہی ڈاکٹر سروپ کی بیڈ کو لپکے۔ پیچھے پیچھے نرس اور وارڈ بوئے بھی دوڑے۔ سروپ کو ڈائی لیسس روم میں لے جایا گیا۔ ہم بےچینی سے باہر انتظار کرتے رہے۔ تھوڑی دیر بعد جب اسے باہر نکالا گیا تو سروپ کے چہرے پر عجیب سی ایک طنزیہ ہنسی تھی۔ جیسے وہ کہہ رہا ہو۔ 'ساری کوششیں بےکار ہیں۔ میں اور نہیں رکنے والا۔'
”اور پھر ڈاکٹر نے بارہ گھنٹے کا ٹائم دیا۔۔۔“
باہر پوجا پنڈالوں سے اب بھی مائیک کی آوازیں آ رہی تھیں۔ رہ رہ کر سنکھ اور 'الو' (بنگالی عورتیں شادی بیاہ، پوجا وغیرہ کے موقعوں پر ہونٹوں اور زبان کی مدد سے ایک طرح کی آواز نکالتی ہیں۔) دھونی بھی سنائی دے رہی تھی۔ اگر بتی اور لوبان کی سوگندھ دکھنی کھڑکیوں سے داخل ہو کر اسپتال کی بدبودار فضا کو مہکا رہی تھی۔
رات کے ساڑھے آٹھ بج رہے تھے۔ بارہ گھنٹے پورے ہونے میں اب صرف چند منٹ ہی بچے تھے۔ دیپالی گھڑی پر نظریں جمائے جمائے پتھرا گئی تھی۔ جیسے جیسے منٹ کی سوئی بارہ پر پہنچ رہی تھی میری نظروں کے سامنے ٹنگی گھڑی دھندلانے لگی تھی۔ نو کا گھنٹہ سنتے ہی میری آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے۔ دیپالی کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر اس کے پاس بیٹھا ہی تھا کہ ایک نرس نے آکر کہا، 'اروپ بابو، اندر آیئے۔'
”ہم جلدی سے سروپ کی بیڈ کی طرف لپکے۔ سر، ہمیں دیکھتے ہی اس نے اپنی بانہیں میری طرف پھیلا دیں۔ دیپالی اس کے پیروں سے لپٹ گئی۔ میرا داہنا ہاتھ پوری طرح سروپ کی انگلیوں کی پکڑ میں تھا۔ سروپ نے کہا، ”بابا، اپنا خیال رکھنا!“ اچانک میرے ہاتھ پر اس کی پکڑ اور بھی سخت ہو گئی۔ پھر ہلکی سی ایک ہچکی۔۔۔
اور اس کے ساتھ میرا ہاتھ اس کی انگلیوں کی پکڑ سے آزاد ہو گیا۔ سروپ کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں، سر۔ لیکن ہونٹ مسکرا رہے تھے۔۔۔“
(چھ)
اس وقت اروپ بابو کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ کے ہلکے ہلکے آثار نمایاں ہونے لگے تھے۔ شاید وہ سروپ کی اس مسکراہٹ کی نقل اتارنا چاہتے تھے۔ میں نے کہا، ”آپ جو درگا پوجا نہیں مناتے اس سے سروپ کی آتما کو تکلیف نہیں ہوگی؟“ میرا مقصد ان کا غم غلط کرنا تھا۔
”سر، آپ شاید ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ لیکن جب تک اس کا پنر جنم نہیں ہو جائے اور میں اس سے معافی نہ مانگ لوں، میں کوئی تہوار کیسے منا سکتا ہوں؟“
اروپ بابو بڑے جذباتی ہو گئے تھے۔ میں نے ان کا ذہن بٹانے کے لیے بات گھمانے کی کوشش کی۔ کہا، ”اروپ بابو پانتا بھات آپ کو کیسا لگتا ہے۔ میں نے پچھلے ہفتے کھایا تھا۔ مجھے تو بڑا اچھا لگا۔ بار بار کھانے کو جی کرتا ہے۔ اس سے پیٹ بھی ٹھنڈا رہتا ہے۔ ہے نا؟“
وہ دم سادھے مجھے دیکھنے لگے۔ اور تب میری زبان سے غیر ارادی طورپر نکل گیا، ”اچھا، بتایئے گڑ کا سندیش کب کھلا رہے ہیں۔ پچھلی بار آپ نے کھجور کے گڑ کا جو سندیش کھلایا تھا اس کی سوندھی سوندھی خوشبو آج بھی میری سانسوں میں بسی ہے۔“
اروپ بابو نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ٹکٹکی باندھے تھوڑی دیر مجھے دیکھتے رہے۔
باہر بجلی کڑک رہی تھی۔ آسمان پر سیاہ بادل چھانے لگا تھا۔ میں نے پھر بات بدلنی چاہی۔ کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے کہا، ”بادل گھِر آیا ہے۔ لگتا ہے موسلادھار بارش ہوگی۔“
اور تب اروپ بابو کرسی سے اٹھے اور ہاتھ جوڑ کر کچھ کہا۔ مگر ان کی آواز میری سماعت تک نہیں پہنچ سکی۔ بجلی کی ایک زوردار کڑک میں گم ہو گئی۔۔۔
(سات)
ہمارے آفس میں ایک ریکریشن کلب ہے۔ درگا پوجا کی چھٹیوں کے بعد جب دفتر کھلتا ہے تو کلب کی جانب سے وجو یا سمیلنی منائی جاتی ہے۔ لوگ گلے ملتے ہیں۔ ہاتھ جوڑ کر ایک دوسرے کو پرنام کرتے ہیں، 'شبھ وجویا' کہہ کر بدھائی دیتے ہیں۔ (چوں کہ یہ فتح ماں درگا کی ہے اس لیے وجویا یعنی وجے کی تانیث لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔)
اس دن بھی لوگ ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے کہ یکایک میری نظر اروپ بابو پر جا ٹکی۔ میں دنگ رہ گیا۔ اروپ بابو ہلکے سنہرے رنگ کے ریشمی کرتے اور ادھی کی سفید دھوتی میں کھِل رہے تھے۔ ڈوری سے بندھا مٹی کا ایک بڑا بھانڈا ان کے دائیں ہاتھ میں جھول رہا تھا۔ وہ میرے پاس آئے اور بھانڈا میر ی طرف بڑھاتے ہوئے چہک کر بولے، ”سر، سروپ کا پنر جنم ہو گیا ہے!“
میں تجسس سے ان کا منہ تکنے لگا۔ انھوں نے لپٹ کر مجھے زور سے بھینچا، 'شبھ وجویا' کہہ کر بدھائی دی اور مسکراتے ہوئے پھر سے کہا، ”سروپ کا جنم ہو گیا ہے، سر!“
ہربار کی طرح اس بار بھی وجویا سمیلنی میں زیادہ تر اسٹاف اپنے گھر والوں کو ساتھ لائے تھے۔ بڑے دھوم دھام سے وجویا سمیلنی منائی گئی۔ کرشنا گنگولی نے نذرل گیت گائے۔ بڑے بابو کی بیٹی نے ہاتھ میں ایک تارا لے کر جھوم جھوم کر باؤل گیت سنائے۔ دلہن کے لباس میں سجی سنوری مادھوی مکھرجی کی دونوں بیٹیوں نے شاندار نرتے پیش کیا۔۔۔
کچھ دوری پر ایک خاتون بیٹھی ہوئی تھی۔ بہت دیر سے مجھے گھور رہی تھی۔ میری نگاہ بھی اس پر ٹکی جا رہی تھی۔ ہلکے فیروزے رنگ کی جامدانی ساری میں ملبوس، گوری چٹی وہ خاتون کون ہے؟ باربار میرے دل میں یہ سوال پیدا ہو رہا تھا۔
پیڈسٹرل فین کی تیز تند ہواؤں میں اس کی لمبی گھنیری زلفیں ساون کی گھٹاؤں کو شرما دینے پر آمادہ تھیں۔ کلائیوں پر دودھیا رنگ کے سنکھ کی موٹی موٹی چوڑیاں اور گلے میں سونے کا ہار اور ہار سے لٹکتا ہوا سواستک کا لاکٹ، اس کے حسن میں چار چاند لگا رہے تھے۔ میری نظریں اس پر ٹکی ہوئی تھیں اور اس کی مجھ پر! اب اس کے لبوں پر ہلکی ہلکی مسکراہٹیں نمایاں ہونے لگی تھیں۔ تبھی نقیب کی آواز فضا میں گونجی، ”اب میں دیپالی دی سے انورودھ کروں گا کہ وہ اسٹیج پر آئیں اور اپنی سندر آواز میں ہمیں ایک ربندر سنگیت سنائیں۔“
میری نگاہیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ میں نے مڑکر دیکھا اروپ بابو ایک کونے میں بیٹھے کھلکھلا رہے تھے۔
اور جب 'دیپالی دی' ربندر سنگیت گانے لگیں تو اروپ بابو ہتھیلیاں اچھال اچھال کر تال دینے لگے۔ دھیمے دھیمے سُر میں ربندر سنگیت کی مدھر لے میرے کانوں میں رس گھولنے لگی،
بچہ پوچھتا ہے ماں میری یہ بتا،
تونے جنم دیا ہے یا لائی ہے مجھ کو کہیں سے اٹھا؟
چھاتی سے لگاکر ماں ہنستی ہے
پھر آنسو بہاکر بچے سے کہتی ہے،
آرزو بن کر میرے دل میں چھپا ہوا تھا تو۔۔۔
کھو نہ جائے تو کہیں پھر سے،
آجا چھاتی میں چھپا لوں تجھ کو۔۔۔ (نظم، جنم کتھا ربندر ناتھ ٹیگور ترجمہ)
(آٹھ)
تنخواہ والے دن جب شام ہونے کو آئی اور اروپ بابو میرے کمرے میں نہیں آئے تو میں نے بڑے بابو کو بلا کر پوچھا، ”کیوں؟ آج اروپ بابو تنخواہ لینے نہیں آئے؟“
”آئے تھے، چلے گئے۔ ریلیز آرڈر بھی لے گئے ہیں۔“
”ریلیز آرڈر!“ میں نے حیرت سے پوچھا۔
”ہاں، ان کا ٹرانسفر ہو گیا ہے۔“
بڑے بابو کے لہجے میں نرمی کچھ زیادہ تھی۔
”ٹرانسفر!“ میں چونک پڑا۔
ہاں، ان کا کوچ بہار ٹرانسفر ہو گیا ہے۔“
”کوچ بہار، لیکن کوچ بہار تو یہاں سے بہت دور، اتر بنگال میں ہے!“
”ہمیں بھی تعجب ہے، سر۔“ بڑے بابو نظریں جھکا کر بولے۔ اور پھر ایک لفافہ بڑھاتے ہوئے کہا، ”یہ آپ کو دینے کے لیے کہہ گئے ہیں۔“
میں دیر تک بڑے بابو کا منہ تکتا رہا اور جب وہ میرے کمرے سے باہر چلے گئے تو میں نے جھٹ سے وہ لفافہ کھولا۔
اس میں کچھ تصویریں تھیں!
میں گھبرا کر کھڑا ہو گیا! غور سے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا! اور دم بخود تھپ سے کرسی پر بیٹھ گیا!
(آجکل، نئی دہلی، جولائی ٢٠٠٧)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.