مداری نے لکڑی کے فریم پر سے ملگجی سفید چادر اتار کر تہ کرنا شروع کر دیا۔ شام کا دھندلکا پھیل رہا تھا۔ تھکا ہوا سورج بھی اپنی سفیداوڑھنی اتار کر سیاہی کا لبادہ اوڑھ رہا تھا۔ زیادہ تر تماش بین جا چکے تھے۔ کچھ بچے اب بھی دل چسپی سے اسے سامان بٹورتا دیکھ رہے تھے، گویا یہ بھی تماشے کا ایک حصہ ہو۔ ساحل پر کچھ ٹوٹی ہوئی سیپیاں، خالی تھیلیوں اور جوس کے خالی ڈبوں کے ساتھ بکھری ہوئی تھیں۔ سڑک سے ساحل کو علاحدہ کرنے کے لیے تقریباً تین فٹ اونچی دیوار حدِ نظر تک چلتی گئی تھی۔ اسی منڈیر پر پچھلے بیس سال سے مداری اپنی کٹھ پتلیوں کا تماشا دکھا رہا تھا۔ ہر روز تین بجے سے سورج ڈھلنے تک اور چھٹی کے دن صبح نو بجے سے شام کے جھٹ پٹے تک۔ اس کا کھوکھا بھی ریت، پانی، سڑک اور دیوار کے ساتھ اسی منظر کا ایک حصہ بن چکا تھا۔
تماشا کرنے والے نے چادر اتار کر تہ کی اور سائیکل کے پیچھے لگی صندوقچی میں رکھی۔ ڈوریاں ایک ریل پر لپیٹیں۔ یہ رِیل پہلے کبھی مانجھا لپیٹنے کے کام آتی تھی۔ کوئی منچلا ساحل سمندر پر چھوڑ گیا تھا۔ مداری کے ہاتھ لگی تو اس کا روز روز کا ڈوری الجھنے کا مسئلہ حل ہوا۔ ڈوریاں لپیٹ کر اس نے کٹھ پتلیوں کو سنوارا۔ پیلی ملکہ اس کی خاص دلاری تھی۔ اس پر کالے دھاگے سے بال بنائے گئے تھے، انھیں سنوار کے ٹھیک کیا۔
‘’چلو اب لیٹ جاؤ، تھک گئی ہوں گی، سارا دن ناچ ناچ کے۔’’ مداری ساتھ ساتھ اپنی کٹھ پتلیوں سے باتیں کرتا رہتا۔ پیلی ملکہ کے بعد اس نے دلآرام، چاندنی، دلربا اور بوا کو بھی لٹایا لیکن کسی کے حصے میں پیلی ملکہ جیسا پیار اور محبت نہیں آئی۔ پیلی ملکہ کے سبھاؤ اور رچاؤ کی بات بھی کچھ اور تھی۔ ستاروں سے ٹکا پیلا لہنگا، اس پر شوخ سرخ بلاؤز۔
لکڑی کے فریم کے پیچھے کھڑا مداری، کٹھ پتلیاں ایسی نچاتا کہ مانو خود سے ناچ رہی ہیں۔ اس کے دائیں ہاتھ کی انگلی کا اشارہ کٹھ پتلی کے جسم میں گویا حرارت بھر دیتا۔ انگوٹھے کی جنبش سے کٹھ پتلی کا سر مٹکنے لگتا۔ درمیانی انگلیوں سے کٹھ پتلیوں کے نچلے دھڑ ہلتے تھے۔ ساتھ ساتھ مداری کا نیم نثری نیم نظم بیانیہ بھی چلتا رہتا۔
‘’آج دربار ہمارا خالی ہے، بادشاہ سب کا والی ہے۔’’
ساتھ ساتھ مجمع کنٹرول بھی ہوتا رہتا۔
‘’شاباش بچو پیچھے ہو جاؤ۔ دو دو قدم پیچھے کی جانب، صاحبان دو قدم‘‘
‘’پیلی ملکہ رانی ہے، دلآرام اس کی باندی ہے۔‘‘
’’بادشاہ جب بھی آتا ہے، دلآرام کو نچاتا ہے۔’’
ہر ایک گھنٹے بعد مداری نیا تماشا شروع کرتا جو تقریباً چالیس منٹ جاری رہتا۔ دن ڈھلنے تک اس کی انگلیاں دکھنے لگتیں۔ پوریں اس کے اشارے پر چلنے سے انکار کر دیتیں اور وہ زور لگاتا تو کبھی کوئی پتلی ہاتھ سے چھوٹ جاتی اور وہ اپنے بیان میں اس حادثے کو بھی شامل کر دیتا۔ جس دن سارے تماشے بغیر کسی غلطی کے ختم ہوتے، اس دن مداری پھولے نہ سماتا۔ کٹھ پتلیوں کو پیار سے سنوارتا، اٹھانے میں احتیاط، رکھنے میں پیار، جیسے کپڑے کی نہیں کانچ کی بنی ہوں۔ آج بھی ایسا ہی ایک دن تھا۔ اس نے بہت فخر سے تماشائیوں کو کٹھ پتلیاں پیش کی تھیں۔ بنی سجی کٹھ پتلیوں کو لوگ داد دیتے تو اسے اپنی ملکیت پر غرور ہونے لگتا۔
سامان بٹور کے وہ سائیکل پر بیٹھا اور تیزی سے پیر مارتا جھگی کی طرف چل پڑا۔ ساحل سے تقریباً دو میل کے فاصلے پر مچھیروں کی بستی تھی۔ اس میں منت سماجت کر کے اس نے بھی ایک کمرے کی جھگی حاصل کر لی تھی۔ سائیکل کو کونے میں کھڑا کر کے رو مال میں بندھے پکوڑے آلتی پالتی مار کے باسی روٹی سے کھانے بیٹھ گیا۔ لقمہ منہ میں ڈال کر کچھ خیال آیا تو پہلی ملکہ کو صندوق سے نکال لایا اور ساتھ بٹھا لیا۔
‘’آج تو خوب ناچی ہے، واہ بھئی واہ۔ اسی خوشی میں اب تیرے گلے میں ایک سیپیوں کا ہار بھی ڈالوں گا۔ بہت سندر لگے گی۔’’ مداری نوالوں کے درمیان اپنی کٹھ پتلی سے والہانہ گفتگو کسی کے حصے میں پیلی ملکہ جیسا پیار اور محبت نہیں آئی۔ پیلی ملکہ کے سبھاؤ اور رچاؤ کی بات بھی کچھ اور تھی۔ ستاروں سے ٹکا پیلا لہنگا، اس پر شوخ سرخ بلاؤز۔
لکڑی کے فریم کے پیچھے کھڑا مداری، کٹھ پتلیاں ایسی نچاتا کہ مانو خود سے ناچ رہی ہیں۔ اس کے دائیں ہاتھ کی انگلی کا اشارہ کٹھ پتلی کے جسم میں گویا حرارت بھر دیتا۔ انگوٹھے کی جنبش سے کٹھ پتلی کا سر مٹکنے لگتا۔ درمیانی انگلیوں سے کٹھ پتلیوں کے نچلے دھڑ ہلتے تھے۔ ساتھ ساتھ مداری کی نیم نثری نیم نظم بیانیہ بھی چلتا رہتا۔
‘’آج دربار ہمارا خالی ہے، بادشاہ سب کا والی ہے۔’’
ساتھ ساتھ مجمع کنٹرول بھی ہوتا رہتا۔
‘’شاباش بچو پیچھے ہو جاؤ۔ دو دو قدم پیچھے کی جانب، صاحبان دو قدم‘‘
‘’پیلی ملکہ رانی ہے، دلآرام اس کی باندی ہے۔
بادشاہ جب بھی آتا ہے، دلآرام کو نچاتا ہے۔’’
ہر ایک گھنٹے بعد مداری نیا تماشا شروع کرتا جو تقریباً چالیس منٹ جاری رہتا۔ دن ڈھلنے تک اس کی انگلیاں دکھنے لگتیں۔ پوریں اس کے اشارے پر چلنے سے انکار کر دیتیں اور وہ زور لگاتا تو کبھی کوئی پتلی ہاتھ سے چھوٹ جاتی اور وہ اپنے بیان میں اس حادثے کو بھی شامل کر دیتا۔ جس دن سارے تماشے بغیر کسی غلطی کے ختم ہوتے، اس دن مداری پھولے نہ سماتا۔ کٹھ پتلیوں کو پیار سے سنوارتا، اٹھانے میں احتیاط، رکھنے میں پیار، جیسے کپڑے کی نہیں کانچ کی بنی ہوں۔ آج بھی ایسا ہی ایک دن تھا۔ اس نے بہت فخر سے تماشائیوں کو کٹھ پتلیاں پیش کی تھیں۔ بنی سجی کٹھ پتلیوں کو لوگ داد دیتے تو اسے اپنی ملکیت پر غرور ہونے لگتا۔
سامان بٹور کے وہ سائیکل پر بیٹھا اور تیزی سے پیر مارتا جھگی کی طرف چل پڑا۔ ساحل سے تقریباً دو میل کے فاصلے پر مچھیروں کی بستی تھی۔ اس میں منت سماجت کر کے اس نے بھی ایک کمرے کی جھگی حاصل کر لی تھی۔ سائیکل کو کونے میں کھڑا کرکے رو مال میں بندھے پکوڑے آلتی پالتی مار کے باسی روٹی سے کھانے بیٹھ گیا۔ لقمہ منہ میں ڈال کر کچھ خیال آیا تو پہلی ملکہ کو صندوق سے نکال لایا اور ساتھ بٹھا لیا۔
‘’آج تو خوب ناچی ہے، واہ بھئی واہ۔ اسی خوشی میں اب تیرے گلے میں ایک سیپیوں کا ہار بھی ڈالوں گا۔ بہت سندر لگےگی۔’’ مداری نوالوں کے درمیان اپنی کٹھ پتلی سے والہانہ گفتگو میں مشغول تھا۔
‘’نہ بھئی یہ دلآرام، چاندنی وغیرہ کو میں یہاں نہیں بٹھاتا۔ ان کی سفارش نہ کر۔ ان کا بھی وقت تھا۔ اب ان میں تجھ جیسی بات نہیں رہی۔’’ مداری نے گویا پیلی ملکہ کا منہ بند کر دیا۔
کھانا کھا کے جھگی سے باہر نکل گیا۔ اکثر سونے سے پہلے ایک دو گھنٹے مچھیروں کے ساتھ مل کر بیڑی یا حقے کا دور چلتا۔ کبھی کوئی دیسی ٹھرّا بھی لے آتا تو سمجھو وہ رات اور لمبی ہو جاتی۔ اسی حقے اور ٹھرّے کے درمیان بستی کے معاملات طے ہوتے، ایک دوسرے کے دکھ سکھ کا احوال پوچھا جاتا۔ پولیس اور بدمعاشوں کے بھتوں کا ذکر ہوتا۔ ان دو گروہوں کے تذکرے اکثر اتنے ملتے جلتے ہوتے تھے کہ دونوں میں تمیز مشکل ہو جاتی۔ ساحل پر سیر کے لیے آنے والوں کے لطیفے اور چٹکلے بیان ہوتے۔ غرض خوب محفل جمتی۔ آج بھی مداری اس میں شامل رہا۔ کوئی رات نو بجے کے بعد جھگی واپس آیا۔ پلنگ پر کھیس بچھا کر لیٹ گیا۔ کچھ دیر کروٹیں بدلنے کے باوجود نیند نہیں آئی تو اٹھ کر پیلی ملکہ کو بستر پر ساتھ لٹا لیا۔
دوسرا دن بھی ویسا ہی تھا۔۔۔ روزانہ جیسا۔ لیکن آج ہوا کل کے مقابلے میں زیادہ تیز چل رہی تھی۔ فریم پر کپڑا چڑھانے میں خاصی دشواری ہوئی۔ آج اس کی کہانی بھی اتنی روانی سے نہیں چل رہی تھی۔ کٹھ پتلیاں اس کے اشاروں پر غلط سلط ناچ رہی تھیں۔ ایک دفعہ جب دلآرام کو پیلی ملکہ کو سلام کرنا تھا تو غلطی سے دلآرام کے ہاتھ کی جگہ پیر اٹھ گیا۔ اس پر کچھ تماش بین ہنس پڑے۔ مداری کا منہ سرخ ہو گیا۔ وہ تو شکر ہے کہ پردے کے پیچھے کھڑے ہونے کی وجہ سے تماش بین اسے دیکھ نہیں سکتے تھے۔ آج کا دن ہی کچھ ایسا تھا۔ ہر کھیل میں کچھ نہ کچھ غلطی ہوتی گئی۔ سہ پہر کو تو حد ہو گئی۔ ہوا کے زور سے پیلی ملکہ کا بلاؤز اُتر گیا۔ بس پھر کیا تھا۔ کچھ منچلوں نے سیٹیاں مارنی شروع کر دیں۔ کچھ نے خوب تالیاں بجا بجاکر آوازے کسے۔ مداری کو پردے کے سامنے آکر اس کا بلاؤز ٹھیک کرنا پڑا۔ جیسے تیسے کر کے دن تمام ہوا۔ مداری نے چادر تہ کرکے صندوق میں رکھی۔ کٹھ پتلیوں کو غصے سے پھینک پھانک کے صندوق میں بھرا اور سائیکل پر سوار یہ جا وہ جا۔ اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے لوگ ابھی تک اس کی ہنسی اڑا رہے ہوں۔ سائیکل پر پیر اتنی تیزی سے چل رہے تھے کہ عام حالت میں کوشش بھی کرتا تو اتنی تیزی نہ آتی۔ جھگی میں گھستے گھستے سائیکل زمین پر گڑ پڑی۔ اسے اُٹھانے کی بھی کوشش نہیں کی۔ کٹھ پتلیوں کو صندوق سے نکال کر ادھر ادھر پھینکا اور پیلی ملکہ کو دھنکنا شروع کر دیا۔
‘’تو جان بوجھ کر میرا کھیل خراب کرتی ہے تاکہ میری ہنسی اڑے۔ کم بخت کے گویا جسم میں جان نہیں ہے۔ جہاں ہاتھ اٹھاتا ہوں، وہاں پاؤں اُٹھ رہے ہیں۔ کسی اور کا بلاؤز اترتا تو وہ چلو بھر پانی میں ڈوب مرتی۔ پر تیرے چہرے پر شرم یا ملال کا کوئی نام نہیں۔’’
مداری نے پیلی ملکہ کا ہاتھ اس زور سے کھینچا کہ دھاگے ادھڑ گئے اور ہاتھ بقیہ جسم سے علاحدہ ہو گیا۔ وہ ایک لمحے کے لیے ٹھٹک گیا۔ گویا سکتے میں آ گیا ہو۔ مگر پھر ایسی لات ماری کہ کٹھپتلی حجرے کے دوسرے کونے میں جا گری۔ غصے سے بستر پر لیٹ گیا۔ آج کھانا بھی نہیں کھایا۔ باہر چوپال پر جانے کا سوال ہی نہیں تھا۔ حالاں کہ باہر سے رامو نے آواز بھی دی مگر یہ سوتا بن گیا۔
صبح ہونے تک مداری کا غصہ کچھ ٹھنڈا ہو چلا تھا۔ آج اس نے چاندنی پر زیادہ توجہ دی اور بنا سنوار کے اسے تیار کیا۔ دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر اسے قریب اور دور سے دو چار دفعہ دیکھا۔ اہتمام سے مطمئن ہوا تو چوم کر صندوق میں رکھ لیا۔ پیلی ملکہ رات سے اسی کونے میں پڑی تھی۔ مداری نے اس کی طرف توجہ بھی نہیں کی۔ صندوق سائیکل پر رکھ کر چل پڑا۔ آج کا دن خوب تھا۔ ایک تو یہ کہ روز نئے تماش بین ہوتے ہیں۔۔۔ جنھیں کل کے حادثوں کی خبر نہیں تھی۔ سب کھیل ایک ایک کر کے اطمینان سے تکمیل کو پہنچے۔ مداری پھر موج میں تھا۔ شام ہونے پر پیسے سمیٹے۔ سفید چادر تہ کر کے رکھی اور چاندنی کو بہت پیار سے صندوق میں اتارا۔
‘’پیلی ملکہ کا دماغ خراب ہو گیا تھا۔ سمجھتی تھی اب اس کے بغیر کھیل چل نہیں سکے گا۔ پر تجھے بھول گئی تھی وہ۔ تو نے تو آج کمال ہی کر دیا۔ واہ بھئی واہ۔’’
مداری اب چاندنی سے خوش تھا اور خوب باتیں کرتا جاتا۔ حجرے میں پہنچ کے سائیکل قرینے سے کھڑی کی۔ راستے سے دال، پیاز اور روٹی لے لی تھی، انھیں ایک رکابی میں رکھا اور
چاندنی کو ساتھ بٹھا کے کھانے میں مشغول ہو گیا۔ کھانا کھا کے اس کی نظر پیلی ملکہ پر پڑی۔ اسے اٹھا کر جھاڑا۔ پیلی ملکہ کا بازو بھی تلاش کیا اور پٹاری سے سوئی دھاگا لےکر بازو شانے سے جوڑنے کے ارادے سے پیلی ملکہ کو اٹھایا تو اس کی ٹانگ بھی زمین پر گر پڑی۔ اب مداری کو کچھ افسوس ہوا۔ الٹ پلٹ کے دیکھا، بہت کوشش کی کہ بازو اور ٹانگ دوبارہ لگ جائیں مگر وہ کچھ اس انداز سے ادھڑے تھے کہ اب دوبارہ لگنا ممکن نہیں تھا۔ اسی تگ و دو میں تقریباً دو گھنٹے لگ گئے۔ اب مداری بے چین تھا کہ کسی طرح اپنی دلاری کو واپس صحیح حالت میں لا سکے مگر کل کے غصے میں وہ کچھ زیادہ ہی آگے نکل گیا تھا۔ تھک ہار کے اُٹھا اور پیلی ملکہ کو اس کے بازو اور ٹانگ کے ساتھ لے کر جھگی سے باہر نکل آیا۔ بستی کیا تھی، ایک خالی پلاٹ پر تقریباً بیس جھگیاں بکھری پڑی تھیں۔ کونے میں ایک نیم کا درخت سر اٹھائے کھڑا رہتا تھا۔ مداری نے اس کے نیچے تھوڑی سی زمین کھودی اور پیلی ملکہ کا دھڑ، بازو اور ٹانگ اس میں دباکے مٹی برابر کر دی۔ مرے مرے قدموں سے جھگی میں واپس آیا۔ بستر ٹھیک کرنے کا بھی حوصلہ نہ تھا۔ چاندنی کو اٹھا کے ایسے سینے سے لگایا گویا کٹھ پتلی کے بھاگ جانے کا اندیشہ ہو۔ اسی حالت میں بستر پر لیٹ گیا اور آپ ہی آپ رونے لگا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.