Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پیاسی ممتا

ذاکرہ شبنم

پیاسی ممتا

ذاکرہ شبنم

MORE BYذاکرہ شبنم

    رات بھر کافی زوروں کی بارش ہوئی تھی، اس وجہ سے صبح بھی موسم کافی ٹھنڈا سا تھا، ہلکی ہلکی ہوائیں چل رہی تھیں، صبح کے سات بجے تھے، دودھ والے نے جب دروازہ پر دستک دی تو میری آنکھیں کھلیں، میں نے جیسے ہی دودھ لینے کی غرض سے دروازہ کھولا تو باہر ٹھنڈ سے ٹھٹھرتی ہوئی کوئی عمر رسیدہ عورت کو اپنی دہلیز پر بیٹھے دیکھ کر حیرانی ہوئی کیونکہ وہ کافی بھیگی ہوئی تھیں اس سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ ساری رات وہ بارش میں بھیگتے اور ٹھنڈ میں ٹھٹھر تے ہو ئے گذاری ہوں گی اور ہو سکتا ہے رات بھر ہماری ہی دہلیز پر ہوں، ان کی حالت دیکھ کر مجھے کچھ عجیب سی کوفت ہو نے لگی اور وہ مجھے دیکھتے ہی اٹھ کر کھڑی ہو گئیں، شاید اس خوف سے کہ میں انہیں اپنی دہلیز پر بیٹھے دیکھ کرنا راض نہ ہو جاؤں۔ مجھے نہ جانے کیوں ان سے ایک ہمدردی سی ہو نے لگی۔ ایک تو عمر رسیدہ عورت، اس پر رات بھر بارش میں بھیگتی رہیں، وہ ہمارے دروازے پر دستک بھی تو دے سکتی تھیں، میں یہی سو چتے ہو ئے کھڑا رہا، وہ شاید جا نے کے لیے مڑیں، میں نے جلدی سے انہیں آواز دی، سنئے۔۔۔ کیا آپ رات بھر اس تیز بارش میں یہیں پر بیٹھی رہیں۔ انہوں نے اثبات میں اپنا سر ہلایا۔ ان کی خاموشی اور جھجھک سے مجھے یقین ہو گیا کہ وہ بیچاری دکھیاری اور بےسہارا ہیں۔ میں نے انہیں رکنے کے لیے کہا اور اندر آکر بیگم کو ساری بات بتائی اور کہا کہ جاکر انہیں اندر بلاؤ اور کچھ کپڑے وغیرہ دو، کوئی حالات کی ماری بےسہارا لگتی ہیں۔ بیگم انہیں اندر لے آ ئیں وہ کافی جھجھک رہی تھیں، ان کی آنکھوں میں ایک مایوسی اور انجانہ سا خوف نظر آ رہا تھا۔ کپڑے لینے سے بھی وہ صاف منع کر رہی تھیں، پھر ہم میاں بیوی کے بےحد اصرار پر کہ رات بھر بھیگنے کی وجہ سے طبیعت خراب ہو سکتی ہے۔ انہوں نے مشکل سے کپڑے بدلے اور ہماری ضد پر ناشتہ کیا پھر میری بیگم ان سے پوچھنے لگیں، آپ تو کسی اچھے گھر کی لگتی ہیں، پھر یوں رات کے اندھیرے اور تیز بارش میں تن تنہا کہاں سے آئیں تھیں؟ کیا اس شہر میں آپ کا کوئی نہیں ہے۔ آپ نے ہمارے دروازے پر دستک دے کر ہم سے مدد کیوں نہیں مانگی۔۔۔؟

    ان سوالات سے ان کی آنکھیں بےاختیار چھلک پڑیں جیسے ان کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔۔۔ وہ کہنے لگیں، بیٹی کچھ عرصہ پہلے تک میرا سب کچھ تھا۔ اس شہر میں میرا اپنا گھر بیٹا بہو ایک خوشحال زندگی تھی مگر آج سب کچھ ہو تے ہوئے بھی میر ے پاس کچھ بھی نہیں ہے میں بالکل تہی داماں ہوں۔۔۔ ہمیں ایک ہی اولاد ہو نے کی وجہ سے ہم نے بڑے نازوں سے اس کی پرورش کی اسے پڑھا لکھا کر ایک قابل انسان بنایا، پھر ہم میاں بیوی اپنے لاڈلے کے لیے ایک چاندسی بہو لے آئے۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا، ایک دن موت نے ہمارے دروازے پر دستک دی اور میرے شوہر کو مجھ سے ہمیشہ کے لیے جدا کر دیا۔۔۔ گھر کے بڑے سر پرست کا سایہ جیسے اٹھا سب کچھ تبدیل ہوتا گیا۔ نہ وہ اپنا پن رہا نہ وہ پیار اور نہ ہی رشتوں میں وہ شدت، سب کچھ ختم ہو گیا میں خود کو بہت تنہا محسوس کر نے لگی اپنے ہی گھر میں مجھے اجنی ہو نے کا احساس ہو نے لگا۔ مجھے لگتا کہ میں اپنی ہی اولاد کو میں ایک بوجھ لگنے لگی ہوں۔۔۔ پھر ایک دن میر ے بیٹے نے یہ فیصلہ سنایا کہ وہ اس گھر کو بیچ کر کسی اچھی جگہ اپنا نیا گھر بنوانا چاہتے ہیں، تب تک وہ لوگ بہو کے میکے میں رہیں گے۔ میر ے لیے حکم نامہ صادر ہوا کہ میں اپنے گاؤں جا کر اپنے کسی رشتہ دار کے پاس رہ لوں جب گھر کا انتظام ہو جائےگا مجھے بلا لیا جائےگا۔

    میں سو چنے لگی اپنے گاؤں جاکر اپنے رشتہ داروں کو کیا بتاؤں گی اور وہاں پر کیسے رہ پاؤں گی۔۔۔ وقت اور حالات کی ماری آخر کر تی بھی کیا، مجبوراً کسی طرح دل پر پتھر رکھ کر گاؤں پہنچ گئی اور وہیں پر رہنے لگی، مجھے گاؤں میں رہتے ہو ئے پورے چار سال کا عرصہ گذر گیا، میں شرمندہ سی زندگی کے دن کاٹ رہی تھی، ہمیشہ میری آنکھیں اپنے بیٹے کی منتظر رہتی مگر اس درمیان میر ے بیٹے نے ایک بار بھی آکر مجھ سے ملنا تو درکنار میری خیر خبر تک لینے کی کوشش نہیں کی۔۔۔ لیکن میں ماں تھی، ممتا کی تڑپ اور کسک نے مجھے بےچین کر رکھا تھا۔ راتوں کی نیند میری آنکھوں سے چھن چکی تھی، نہ جانے کیا کیا خیالات میر ے ذہن میں آکر مجھے منتشر کر جاتے ایک مدت سے اپنی اولاد کی کچھ بھی خبر نہ پاکر میں بے چین ہو اٹھی۔ پتہ نہیں میرا بیٹا کس حال میں ہوگا۔ خدا نہ کرے کسی مصیبت یا پریشانی میں نہ گھر گیا ہو، میں نے ٹھان لی کہ میں خود شہر آکر دریافت کروں گی اور کل میں اپنے گاؤں سے شہر چلی آئی۔ یہاں آنے کے بعد میرے قدم سیدھا اپنی رہائش گاہ کی طرف چل پڑے وہاں جاکر دریافت کر نے پر پتہ چلا میرا بیٹا اور بہو کبھی کے اس گھر کو فروخت کر کے نئے گھر میں منتقل ہو چکے ہیں اور بڑی آسودہ زندگی گزار رہے ہیں۔ پڑوسیوں سے اپنی اولاد کی آسو دہ اور خوشحال زندگی کے بارے میں جان کر میرا چہرہ ضرور کھل گیا مگر سینے میں کچھ ٹوٹ کر بکھر بکھر گیا، رہی سہی امید بھی ریزہ ریزہ ہو گئی میری آنکھوں کے آ گے اندھیرا چھانے لگا، میں سوچنے لگی کہ پھر سے گاؤں جاؤں گی تو رشتوں میں کئی سوال اٹھیں گے جن کا میرے پا س کوئی جواب نہیں تھا۔ انہیں سوچوں میں بھٹکتے ہو ئے نہ جانے کب رات ہو چلی، زور دار بارش کی وجہ سے مجھے آپ کے گھر کی دہلیز کا سہارا لینا پڑا۔۔۔ ان کی باتوں کو سن کر میں سوچنے لگا، ماں باپ تو بچوں پر اپنا سب کچھ نچھاور کر دیتے ہیں اپنے آپ کو لٹاکر ان کا دامن خوشیوں سے بھر دیتے ہیں مگر والدین کو جو امید یں اپنی اولاد سے وابستہ ہو تی ہیں وقت پڑنے پر اولاد اس پر کھری کیوں نہیں اترتی؟ ان کی امیدوں پر پانی پھیر کر انہیں بےسہارا کیوں کر دیا جاتا ہے، کیا ان کا ضمیر بھی انہیں ملامت نہیں کرتا ہوگا؟ خون کے رشتوں میں اتنا کھوکھلاپن کیوں آ گیا ہے؟ ایک ماں جو اپنی اولاد کو نو ماہ اپنی کوکھ میں رکھ کر ہر طرح سے اس کا جتن کرتی ہے چاہے کتنی بھی تکلیف سے کیوں نہ گذرنا پڑے وہ اپنے من میں ایک لمحے کے لیے بھی اپنی اولاد کو بوجھ نہیں تصور کرتی، مسکراتے ہو ئے ہر درد کا سامنا کرتی ہے، اس ننھی سی جان کو دنیا میں آتے دیکھ کر پھو لے نہیں سماتی، اپنا خونِ جگر دے کر اس کی پرورش کرتی ہے، اسے انگلی پکڑ کر اپنے پیروں پر چلنا سکھا تی ہے، قدم قدم پر اپنی خوشیوں کی قربانی دے کر پال پوس کر اسے کسی قا بل بنایا جاتا ہے۔ پھر جب اولاد کی باری آتی ہے تو ماں باپ کے لیے گھر کے ایک کونے میں بھی جگہ کیوں تنگ ہو نے لگتی ہے، یہ کیسی اولاد ہے جو ماں باپ کو بوجھ سمجھ کر کنارہ کشی اختیار کر لیتی ہے۔ اچھا اب میں چلتی ہوں، آپ لوگوں کا بہت بہت شکریہ۔

    میں سوچوں میں ڈوبا ان کی آواز پر جیسے چونک پڑا میں اور میری بیگم دونوں ایک سا تھ بول پڑے، آپ کہاں جائیں گی۔ آپ چاہیں تو ہمارے گھر میں رہ سکتی ہیں۔ وہ کہنے لگیں، آپ نے مجھ سے اتنی ہمدردی کی یہی بہت ہے۔ میری اولاد تو مجھے بوجھ سمجھ کر اپنے گھر سے نکال دیا۔ اب میں آپ لوگوں پر بوجھ نہیں بننا چاہتی۔۔۔ میں نے کہا آپ یہ کیسی باتیں کر رہی ہیں کوئی کسی پر بو جھ نہیں بنتا ایسا تو کم ظرف سو چتے ہیں، اللہ نے جب انسان کو اس دنیا میں بھیجا ہے تو اپنے بندوں کے لیے جینے کی راہیں بھی وہی ہموار کرتا ہے، آپ ہماری ماں کی طرح ہیں اس دنیا میں ہمارا کوئی بڑا بزرگوار نہیں ہے، آپ ہمارے ساتھ رہیں گی تو ہمیں خوشی ہوگی اور ہم پر ماں کی ممتا کا سایہ بھی بنا رہےگا، ہماری بات مان جایئے، ہمدردی کی دو باتوں سے ہی ان کی آنکھیں بےاختیار آنسوؤں سے چھلک پڑیں، شاید یہ دل میں چھپے بےانتہا کرب کا بوجھ تھا جو آنسوؤں کا روپ دھارے بہنے لگا، ہمارے اصرار پر وہ انکار نہیں کر سکیں اور ہمیں خوش رہنے کی دعا ئیں دیتے ہوئے اس دن سے ہمارے ہی گھر کی بن کر رہ گئیں۔ ہماری ماں جی اور ہمارے چھوٹے سے بیٹے شکیل کی دادی ماں، میرا بیٹا شکیل چار سال کا تھا، دو چار دنوں میں ہی وہ انہیں دادی ماں دادی ماں کہتے ہو ئے ان سے کافی گھل مل گیا تھا دن ہو یا رات انہیں سے چمٹا رہتا۔ انہیں کے ہاتھوں سے کھانا کھاتا، انہیں کے ساتھ کھیلتا اور انہیں کے پاس سوتا وہ بھی تو اسے بےانتہا پیار کرتیں، اس کا ہر طرح سے خیا ل رکھتیں۔۔۔ وہ جب سے آئی تھیں باوجود منع کر نے کے بیکار ہی نہیں بیٹھتی تھیں۔ گھر کے کاموں میں میری بیگم کی مدد کرتیں اور خاص اپنے ہاتھوں سے اچھے اچھے پکوان بناکر کھلاتیں۔۔۔ ان کی بےمقصد چاہت اور شکیل سے ان کا لگاؤ دیکھتے ہو ئے مجھے لگتا یہ ماں کا دل تو ممتا کا اتھاہ سمندر ہے جتنا بھی لٹائے ممتا کی شدت کم نہیں ہوتی، ہمارے گھر میں ان کی آمد سے ہمیں ایک انمول سی راحت اور خوشی مل گئی تھی۔ شکیل کااسکول گھر سے قریب ہو نے کی وجہ سے بیگم دوپہر میں کھا نالے جاکر کھلا دیا کرتیں، ماں جی بھی بیگم کے ساتھ اسکول چلی جایا کرتیں اور پھر شام میں بھی دونوں مل کر شکیل کو اسکول سے گھر لے آتیں بیگم بھی ماں جی کا ساتھ پا کر بہت خوش تھیں۔

    اس طرح دن مہینوں میں اور مہینے سالوں میں تبدیل ہوتے گئے۔ ماں جی کو ہمارے ساتھ رہتے ہوئے تین سال کا عر صہ گذر گیا، پتہ ہی نہیں چلا، وہ ہمارے گھر میں مطمئن ضرور تھیں مگر نہ جانے کیوں میں جب بھی انہیں اپنے بیٹے شکیل کو پیار کرتے اسے نہارتے ہو ئے دیکھتا تو مجھے ان کی آنکھوں میں ایک عجیب سی پیاس نظر آ تی، ایسا لگتا کہ ان کی پیاسی ممتا کو اب بھی کسی کی تلا ش اور انتظار ہے۔۔۔ بیگم سے اکثر سناکر تاکہ ماں جی بچوں سے بےحد پیار کرتی ہیں، شکیل کے اسکول میں اس کے سارے دوستوں سے بہت پیار سے پیش آ تی ہیں سب کو باتیں کراتی ہیں اور خوش ہو تی ہیں۔ ایک دن بیگم نے مجھ سے کہا کہ شکیل کا ایک دوست ہے سلیم اسے تو دیکھتے ہی ماں جی کا چہرہ دمکنے لگتا ہے اور اسے دیکھتے ہی اپنے سینے سے لگاکر پیار سے چومنے لگتی ہیں۔۔۔ میں ان کی اس شدت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی اور ان سے یہ سوال کر بیٹھی، ماں جی آپ کو اس بچے سے اتنا لگاؤ کیوں ہے جب بھی اسے دیکھتی ہیں اپنے آپ پر قابو ہی نہیں رکھ پاتیں، میر ے سوال پر ان کی آ نکھیں بھر آئیں اور وہ کہنے لگیں بیٹی میرا بیٹا بھی بچپن میں بالکل ایسا ہی تھا مجھے اس میں اپنے بیٹے کی جھلک دکھائی دیتی ہے مجھے اس کا بچپن یاد آتا ہے۔ ماں جی کی باتیں بتاتے ہو ئے بیگم بھی جذباتی ہو گئیں، کہنے لگیں، باوجود اپنی اولاد کی بےرخی کے وہ اسے بھلا نہیں پائیں، شاید اسی پیاسی ممتا کا نام ماں ہے جس کی روح ہر حال میں اپنی اولاد کے لیے بھٹکتی رہتی ہے

    آج سکیند ساٹرڈے ہو نے کی وجہ سے میری چھٹی تھی، میں دیر تک سوتا رہا اور پھر اٹھنے کے بعد ناشتے وغیرہ سے فارغ ہوکر میں گھر میں ہی بیٹھے ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ بیگم اور ماں جی جلدی سے گھر کا کام نپٹا کر شکیل کو اسکول سے لانے کے لیے چلی گئی، بس اس کے لوٹنے کا وقت ہوا ہی جا رہا تھا، فون کی گھنٹی بجی میں نے ریسیور اٹھایا، دوسری طرف سے بیگم کی گھبرائی ہوئی آواز سنائی دی وہ رو تی ہو ئی کہہ رہی تھیں آپ جلدی سے اسکول کے قریب آ جایئے ماں جی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ میرے تو جیسے ہو ش ہی اڑ گئے۔ پتہ نہیں کیسے میں لمحوں میں وہاں پہنچ گیا، پہنچتے ہی میں بیگم سے پو چھنے لگا، یہ سب کیسے ہوا اور تم کہاں تھیں تم اور ماں جی ساتھ ہی تھے نا۔۔۔ بیگم پریشانی کے عالم میں روئے جا رہی تھیں اور کہے جا رہی تھی، ہم ساتھ ہی تھے جیسے ہی شکیل کو لے کر اسکول سے نکلے ہمارے ساتھ ہی شکیل کا دوست سلیم بھی تھا، سلیم کو اپنے گھر کی راہ لینے کے لیے روڈ کراس کرنا تھا وہ جیسے ہی روڈ کراس کرنے لگا تیزی سے ایک بس چلی آئی، اس سے پہلے کہ سلیم اس کی زد میں آتا ماں جی اسے بچانے کے لیے دوڑ پڑیں اور حادثے کا شکار ہو گئیں۔ میں نے دیکھا ماں جی شدید زخمی ہو گئی تھیں، کافی خون بھی ان کے جسم سے بہہ رہا تھا لوگوں کی مدد سے ہم انہیں لے کر اسپتال پہنچے۔ سلیم کو تو بس ہلکی سی ہاتھ اور پیر میں چوٹ آئی تھی۔ اس کی مرہم پٹی کروا کر میں نے اسے گھر بھیج دیا، ماں جی نے اپنی جان پر کھیل کر اس بچے کو بچا لیا تھا وہ ابھی بےہوش پڑی ہوئی تھیں ڈاکٹر اپنی کوشش میں لگے ہو ئے تھے، علا ج جاری تھا، ہم بہت بے چین ان کے ہوش میں آ نے کا انتظار کر رہے تھے مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا، باوجود کو شش کے ڈاکڑ انہیں بچا نہیں پائے۔ آخری بار چند لمحوں کے لیے وہ ہوش میں ضرور آئی تھیں، آنکھیں کھول کر بڑی مشکل سے لب ہلائے اور پوچھنے لگیں وہ بچہ تو ٹھیک ہے نا۔۔۔ ہم نے انہیں تسلی دی کہ اسے کچھ نہیں ہوا بلکہ آپ نے اپنی جان خطرہ میں ڈال کر اس معصوم کر بچا لیا۔ یہ بات سن کر ان کے ہونٹوں پر ایک مشفقا نہ سی مسکراہٹ رینگ گئی اور ان کی ممتا بھری آنکھیں میر ے شکیل کو تکنے لگیں جیسے اس سے رخصتی کی اجازت مانگ رہی ہوں۔۔۔ پھر وہ پیاسی متلا شی آنکھیں کھلی کی کھلی رہے گئی۔ نہ چاہتے ہو ئے بھی مجھے ان کھلی پلکوں کو اپنے ہاتھوں سے بند کرنا پڑا۔ ماں جی ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئیں۔۔۔ اسپتال کے سارے کام انجام پانے کے بعد ہم انہیں گھر لے آئے پھر ان کے آخری سفر کی تیاری ہو نے لگی، سبھی کی آنکھیں اشکبار تھیں، ماں جی کا جذبہئ ایثار ہر ایک کی زبان پر عیاں تھا، میرا بیٹا شکیل مجھ سے لپٹ کر بار بار ایک ہی سوال کر رہا تھا۔

    دادی ماں کو آپ کہاں لے جا رہے ہیں اس معصوم کے سوالوں کا میں کیا جواب دیتا، اسے روتا چھوڑ ہم ماں جی کے جنازے کو کاندھا دیے منزل مقصود کی طرف نکل پڑے مسجد میں نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد ہم قبرستان پہنچے جنازے کو ایک طرف رکھتے ہو ئے ماں جی کو لحد میں اتانے کی تیاری کر نے لگے۔۔۔ مجھے کچھ عجیب سا لگ رہا تھا، ماں جی کی اس طرح اچانک جدائی سے میں خود کو بہت شکستہ سا محسوس کر نے لگا، انہوں نے اتنی کم مدت میں ہمارے گھر میں ہی نہیں بلکہ دلوں میں بھی ایک خاص جگہ بنا لی تھی۔۔۔ نہ جانے کیوں مجھے اس وقت رہ رہ کر ان کے بیٹے کا خیال آ رہا تھا۔ پھر جیسے ہی جنازے میں سے انہیں اٹھانے کے لیے ہم آگے بڑھے کوئی جماعت کو چیرتے ہوئے میرے قریب چلا آیا اور کہنے لگا میں قدیر ہوں سلیم میرا بیٹا ہے۔ میں شہر سے با ہر گیا ہوا تھا آتے ہی پتہ چلا کہ آج اسکول کے پاس میرے بچے کا بہت بڑا حادثہ ہو تے ہوتے بچا عین وقت پر آپ کی ماں نے دوڑ کر میری ننھی سی جان کو بچاتے ہو ئے خود حادثے کا شکار ہو گئیں اور چل بسیں۔۔۔ مجھے اس کا بےحد افسوس ہے۔۔۔ میں ان کے آخری دیدار کے لیے آپ کے گھر پہنچا تو آپ لوگ نکل چکے تھے، مسجد پہنچنے میں بھی مجھے دیر ہو گئی بڑی مشکل سے یہاں تک پہنچ پایا ہوں مجھے اس عظیم ہستی کا دیدار کرنا ہے جنہوں نے میرے جگر کے ٹکڑے کی حفاظت اپنی جان دے کر کی ہے۔ میرے گھر کے چراغ کو بجھنے سے بچا لیا۔۔۔ ماں جی کے چہرے سے میں نے کپڑا ہٹایا، قدیر میاں انہیں دیکھتے ہی ششدر سے ہو گئے۔ جیسے ان کی آنکھیں جھپکنا بھول گئے ہوں۔۔۔ پھر میں ساتھیوں کی مدد سے ماں جی کو لحد میں اتارنے لگا، قدیر میاں کے منہ سے ایک درد بھر ی چیخ نکلی، ماں محو حیرت میں ہکا بکا رہ گیا سبھی حیرت سے قدیر میاں کو دیکھنے لگے وہ دونوں ہاتھوں میں اپنا چہرہ چھپائے سسکیاں بھر رہے تھے، تدفین تو وقت پر کرنی ہی تھی بعد تدفین کے سبھی واپس ہو رہے تھے مگر قدیر میاں وہیں قبر کے پاس بیٹھے آنسو بہا رہے تھے انہیں دیکھ کر مجھے غصہ بھی آ رہا تھا کہ اتنی مدت سے یہ انسان اپنی دنیا میں مگن کتنا لاپرواہ رہا۔ اس نے اپنی ماں کی خیر خبر تک لینا ضروری نہیں سمجھا اور ان کی بدنصیبی پر افسوس بھی ہو رہا تھا کہ کیسا بدقسمت بیٹا ہے جسے اپنی ماں کے جنازے کو کاندھا تک دینا نصیب نہیں ہوا۔۔۔

    مجھ سے رہا نہیں گیا، میں نے اپنا ہاتھ ان کے کاندھے پر رکھتے ہو ئے کہا، اب آنسو بہانے سے کیا فائدہ، جب انہیں تمہارے سہارے کی ضرورت تھی تب تو تم نے انہیں ٹھکرا دیا تھا۔ ان کی ممتا لمحہ بھر کے لیے بھی تمہیں فراموش نہیں کر پائی، یہ سچی ممتا کی ڈور ہی تھی جو جانے انجانے میں تمہارے بیٹے تک انہیں کھینچ لے گئی وہ ہمیشہ تمہارے بیٹے میں تمہیں دیکھا کرتیں اور آخر جاتے جاتے بھی اپنی ممتا کے آنچل کو پھیلاکر تمہاری اولاد کو زندگی دے گئی اپنی آخری سانس تک تمہارے ہی نام کر گئی۔۔۔ زندگی میں کبھی تم نے ان کی قدر نہیں کی اب مر نے کے بعد رو نے سے کیا فا ئدہ، اس دنیا میں تم نے انہیں دربدر بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا تھا، اب تو انہیں چین سے سونے دو خدا کے لیے ان کی روح کو بےقرار مت کرو۔۔۔ پھر میں وہاں سے کبھی نہ مٹنے والی دل میں ایک کسک لیے بو جھل قدموں کے ساتھ نکل پڑا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے