قیدی
رات گھاتک ہے اندھیری اور ویران راہوں پر چلتے راہرو اس کے تیروں سے نہیں بچ سکتے لیکن نہیں۔۔۔ سوال اندھیری اور ویران راہوں کا نہیں اِس کے انتخاب کا ہے اب اسے نصیب کہا جائے یا کچھ اور لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے طلسماتی تیر ہر ایک کو کھوج نکالتے ہیں وہ اپنے کاندھے پر دھرے ترکش سے کوئی ایک تیر نکال کر کمان پر چڑھاتی ہے اور شکار سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر خود کو نشانے پر لا کھڑا کرتا ہے اس رات بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔
وہ میرے سامنے تھی۔ آتشدان میں بھڑکتی آگ اس کے رخساروں پردہک رہی تھی اس نے گرم چادر کو اچھی طرح اپنے گرد لپیٹااور ہاتھ میں پکڑے مگ سے ایک بڑا گھونٹ لیا رخساروں میں پڑنے والا گڑھا نمایاں ہو گیا۔ آتشدان کے قریب رَگ پر بیٹھا چھوٹا سا پوڈل اچھل کر اُس کی گودمیں جا چڑھا اور اپنی پتلی سرخ زبان سے اس کے رخسار چاٹنے لگا اُس نے کپ میز پر رکھا اور پوڈل سے کھیلنے لگی۔
’’یہ بھی تمہارا دیوانہ ہے’’
میری نظریں اس پر گڑی ہوئی تھیں
’’اور تم اس کے رقیب’’
وہ کھل کھلا کر ہنس پڑی گالوں کے گڑھے مزید نمایاں ہو گئے ۔بے اختیار میرا دل چاہا ان پر اپنے ہونٹ رکھ دوں
باہر ہوتی بر ف باری اور اور کمرے میں رچی پرسکون تمازت کچھ عجب سا سماں باندھ رہی تھی
’’ کافی دیر ہو گئی ہے مجھے چلنا چاہئے ماں انتظار کر رہی ہوگی’’
وہ اٹھ کھڑی ہوئی
’’سالاجہ آؤ’’
اس نے اپنی چھوٹی بہن کو آواز دی
’’نیلا تم جاؤ میں آج رات یہیں رکوں گی’’
’’کیا مطلب؟’’ اس کی آواز میں ہلکا سا غصہ تھا
’’نیلا میں اس روک رہی ہوںآنٹی سے بات کر لی ہے’’
یہ میرو تھی میری بہن جس کی کچھ دنوں میں شادی ہونے والی تھی
نیلا سے میرا روح کا رشتہ تھا، مجھے لگتا تھا خالقِ کائنات نے جب کائنات تخلیق کی اور روحیں کن کی آواز پر جاگی تھیں اسی وقت مجھے نیلا سے عشق ہو گیا تھا۔ ورنہ زمینی عشق کب ایسا ہوتا ہے۔ اتنا مکمل اور گہرا کہ کسی ایک ہی میں کائنات نظر آنے لگے۔۔۔ اوّل تا آخر وہی مقصود نظر
ٹھہرے یہ یقیناً زمین سے ماوراء کوئی اور ہی احساس تھا۔ جس نے ہماری روحوں کو جکڑ رکھا تھا کوئی الگ ہی فریکوئینسی تھی جس کی تال پر ہماری روحیں رقصاں تھیں۔
وہ پہلی بارمجھے پھولوں کے تہوار پر ملی تھی۔ اس کی گہری نیلی آنکھوں میں بلا کی کشش تھی میں بے اختیار کھینچتا چلا گیا سب نوجوان لڑکے لڑکیاں حلقہ بنائے محو رقص تھے۔ تیسرے چکر میں وہ میرے سامنے تھی میں نے ہولے سے اس کا ہاتھ تھاما اور اپنے ساتھ لپٹا لیا ہمارے قدم موسیقی کی تال پر اٹھنے لگے ایک عجیب سی کیفیت تھی میں اس کا ہاتھ تھامے دائرے میں رقص کر رہا تھا یکایک موسیقی کی لے بدلی تو روشنیاں لمحے بھر کو بجھ گئیں دور کہیں سے پھوٹنے والی مدھم نیلی روشنی نے ہمیں اپنے حصار میں لے لیا۔
ایک نشہ تھا جو روح سے روح تک بہتا ہوا مدہوش کئے دے رہا تھا ۔ہم شاید کسی اور کائنات میں تھے کسی اور جہاں میں۔۔۔ جہاں ہمارے علاوہ کوئی نہیں تھا ارد گرد پھیلی ہوئی بیکراں خاموشی ہمیں سن رہی تھی۔۔۔ وہ ساری ان کہی باتیں۔۔۔ وہ سارے ان سنے گیت۔۔۔ کسی ان دیکھے ساز پر بجتے ہوئے نرم کومل سر روحوں میں اتر رہے تھے کہ اچانک تالیوں کی گونج نے سارا طلسم توڑ دیا رقص تھم چکا تھا۔ سب لوگ دم سادھے ہوئے ہمیں دیکھ رہے تھے۔ وہ ایک دم گھبرا کر مجھ سے الگ ہو گئی لیکن محبت کا وہ سیال احساس قطرہ قطرہ دونوں طرف گرتا رہا۔
محبت کیا ہے؟روحوں میں اترتا ہوا ایک الہامی احساس جو تن من بھگو دیتا ہے محبت آپ کو منتخب کر لے تو دنیا بہت خوبصورت نظر آنے لگتی ہے۔ ہمارے ماتھے پر بھی جب سے محبت نے اپنی مُہر ثبت کی تھی سب کچھ بدل گیا تھا۔ پھول، برکھا ،چاندنی، خوشبو، ہوا اور تتلیاں۔۔۔ میں نیلا کو دیکھتا تو میرے اندر ایک طمانیت بھرا احساس جاگنے لگتا اس کی نیلگوں سمندروں جیسی آنکھیں، سرخ یاقوتی لب۔۔۔ وہ سرتا پا میری تھی ہر گزرتا لمحہ ہماری محبت کا امین تھا ہم بنے ہی ایک دوسرے کے لئے تھے۔
سنا کرتے تھے کہ روحیں ابتدا میں ایک تھیں مؤنث اور مذکر حصے پر مشتمل ایک وجود( اگر ان کا کوئی وجود تھا تو) پھر دیوتا نے کاٹ کر انھیں الگ کیا اور زمین پر بھیج دیا اس وقت سے دونوں حصے مکمل ہونے کے لئے ایک دوسرے کو کھوج رہے ہیں شاید یہی وہ بنیادی کشش ہے جو اِن دونوں کا مستقل ایک دوسرے کی طرف کھینچتی رہتی ہے
کیا اِسے محبت کا نام دیا جا سکتا ہے؟
آف کورس۔۔۔ یہ محبت نہیں تو اورکیا ہے۔۔۔
مجھے دیوانہ مت سمجھئے۔۔۔ میں تو بس۔۔۔
محبت کرو اور خود جان لو......... محبت کے آسرار صرف محبت کرنے والوں پر کھلتے ہیں
اوہ۔۔۔ میں نہ جانے کہاں آ نکلا۔ اصل میں محبت کا سرور ہی ایسا ہے کہ کوئی بھی موضوع ہو
انسا ن اس میں لاشعوری طور پر محبت کو لے ہی آتا ہے۔۔۔ چلیں اصل موضوع کی طرف آتے ہیں تو بات ہو رہی تھی رات کے گھاتک ہونے کی۔
وہ ایک سرد رات تھی پورا ماحول برف کی سفید چادر اوڑھے اداسی میں ڈوبا ہوا تھا نیلا نے جب چلنے کی بات کی تو رات کا ایک تہائی حصہ گزر چکا تھا میں نے اسے روکنے کی کوشش کی لیکن وہ جانے پر بضد تھی اُس نے اپنی گاڑی کی چابی اٹھائی اور اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’نیلو تم آئمین کے ساتھ چلی جاؤ نا مجھے صبح گاڑی چاہیے ہوگی’’ یہ سالاجہ تھی
’’کیوں تم نے کہا ں جانا ہے؟’’
’’مجھے یونیورسٹی سے کچھ پیپر زلینے ہیں بس سے بہت دیر ہو جائےگی’’
اس نے خاموشی سے چابی سالاجہ کی طرف بڑھا دی اور مجھے دیکھنے لگی
’’چلو’’ میں نے تقریباََ رکوع میں جاتے ہوئے اس سے کہا
کچھ عجیب سی جگہ تھی دھند میں لپٹی ہوئی، کوئی منظر بھی صاف نہیں تھا ٹکڑوں میں بٹا ہوا نامکمل اور بےرنگ، تیز چنگھاڑ تا ہوا شور اور برمے کی طرح آنکھوں کو چیر کر دماغ میں اترتی ہوئی بے ہنگم روشنی ناقابل بیان درد کا احساس۔۔۔ میں کسی گہرے خلامیں گرنے لگا اچانک مجھے لگا میرے پاؤں نے زمین چھو لی ہے بس لمحہ بھرکو میں سنبھل نہیں پا رہا تھا۔۔۔ کسی ہیولے کی طرح اِدھر سے ادھر ڈولتے ہوئے۔
مجھے لگا میری روح میرا جسم چھوڑ رہی ہے۔۔۔ مجھے اپنا جسم محسوس نہیں ہو رہا تھا۔۔۔کیا میں مر رہا تھا؟۔۔۔ ہر طرف سے اترتی تاریکی روشنی پینے لگی۔۔۔ منظرمزید دھندلا گیا آوازیں تھم رہی تھیں۔۔۔ گہرا سکوت پھیل گیا۔۔۔ میں یقیناً مر چکا تھا.
میں شاید بہت دیر تک وہاں پڑا رہا تھا۔۔۔گہری تاریکی اور جان لیوا سکوت۔۔۔ وقت کا کوئی اندازہ نہیں تھا مجھے اپنا جسم اب بھی محسوس نہیں ہو رہا رتھا لیکن اتنا احساس تھا کہ میں زندہ ہوں۔۔۔ بمشکل ٹٹول کر میں نے اٹھنے کی کوشش کی وہ عجیب سی جگہ شاید کوئی سرنگ تھی بہت طویل اور تاریک۔۔۔ دور کہیں ایک سرے پر ہلکی روشنی کا گمان ہو رہا تھا میں نے اس طرف چلنے کی کوشش کی لیکن میرے پاؤں اٹھنے سے انکاری ہو گئے تھے میرا اپنا جسم میرے قابو میں نہیں تھا میرے قدموں میں بری طرح لڑکھڑاہٹ تھی در و دیوار سے اترتا ہو ا درد میری رگ رگ میں آگ بھرنے لگا دیواریں دھڑ دھڑ گر رہی تھیں ایک چنگھاڑ کے ساتھ تیز روشنی نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا سر میں دھماکے ہونے لگے میں بری طرح چیخ رہا تھا۔
گہرے اندھیرے میں اچانک کہیں سے سفید دھبے سے نمودار ہوئے۔۔۔ روشن اور متحرک۔۔۔ تیزی سے جگہ اور قامت بدلتے ہوئے۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ وہ دھبے نہیں تھے۔۔۔ کچھ اور تھا۔۔۔
کیا تھا؟ میں یہ سمجھنے سے قاصر تھا۔۔۔ میرے ساتھ کیا ہو رہا تھا۔۔۔ میں کہاں تھا۔۔۔
یہ تاریکی۔۔۔ ایسے بہت سارے سوال مجھے الجھائے رکھتے۔۔۔ اچانک جیسے جھماکا سا ہوا۔۔۔ یہ تو میری طرح کے انسان تھے۔۔۔
ان کے سفید لباس، مشفق و مہربان چہرے اور دھیمے لہجے، اتنے دھیمے کہ مجھے سننا مشکل ہو جا تا۔۔۔
میں جب بھی قدم اٹھانے کی کوشش کرتا وہ میرے گرد حصا ر بنا لیتے میرے کانوں میں وہی شہد بھرا لہجہ اترنے لگتا۔۔۔
میں ان سے بہت کچھ پوچھنا چاہتا تھا۔۔۔
وہ کون تھے؟ یہاں کیا کر رہے تھے؟ میں کہاں تھا؟۔۔۔
میں نے بارہا یہ سب پوچھنے کی کوشش بھی کی۔۔۔ وہ شاید کوئی جواب بھی دیتے تھے لیکن جانے کونسی زبان تھی جو میں سمجھ نہیں پاتا تھا۔۔۔ ایسا کیوں تھا؟۔۔۔ مجھے کوئی کیوں نہیں بتاتا۔۔۔ میرے ذہن میں جھکڑ چلنے لگتے۔
مجھے اس سرنگ سے باہر نکلنا تھا۔۔۔ دوسرے سرے پر ہلکی ہلکی روشنی کا گمان مجھے بے قرارکئے رکھتا۔۔۔ میں تو نیلا کو چھوڑنے جا رہا تھا۔۔۔ وہ انتظار میں ہوگی۔۔۔ میرو کی شادی ہے۔۔۔ میرو کی شادی۔۔۔ مجھے گھر جانا ہے۔۔۔
میری مدد کرو پلیز۔۔۔ گھر جانا ہے مجھے۔۔۔ مجھے یہاں نہیں رہنا۔۔۔
مجھے نکالو یہاں سے۔۔۔ میں چلا رہا تھا۔۔۔ مجھے نیلا کے پاس جانا ہے۔۔۔
مجھے وہاں جا نا ہے۔۔۔
تم لوگ جواب کیوں نہیں دیتے۔۔۔ بولو۔۔۔جواب دو۔۔۔
مجھے یہاں نہیں رہنا۔۔۔
فون۔۔۔ ہاں میرا فون۔۔۔ میں تیزی سے ساری جیبیں ٹٹولنی شروع کیں۔۔۔
کہاں گیا میرا فون۔۔۔ کہا ں جا سکتا ہے۔۔۔ میں اندھیرے میں ادھر ادھر ہاتھ مار رہا تھا۔۔۔
لیب ٹاپ۔۔۔ میرا لیب ٹاپ بھی موجود نہیں تھا۔۔۔ میرے خدا۔۔۔ میرا دم گھٹ جائےگا۔۔۔
میرے اندر بے چینی بھرنے لگی۔۔۔ سر میں پھر سے دھماکے ہو رہے تھے۔۔۔ میں نے اٹھنے کی کوشش کی۔۔۔
لیکن میری ٹانگوں نے میرا وزن سہارنے سے انکار کر دیا۔۔۔ سرنگ کا روشنی والا سِرا دور ہٹتا ہو ا محسوس ہوا۔۔۔ یا شاید چھت گر رہی تھی۔۔۔ پھر وہی روشنی اور تیز چنگھاڑ۔۔۔ میں نے اپنا سر گھٹنوں میں چھپا لیا۔۔۔ سیاہ مہیب انجن والی ریل گاڑی دندناتی ہوئی مجھے روند کر گزرنے لگی۔۔۔ میں نے اپنے بدن پر چپچپا سیال محسوس کیا۔۔۔ اندھیرا سب نگلنے لگا۔۔۔ میں چیخ رہا تھا۔
میجر پینیٹریٹنگ ٹراؤما، سیوئیر ٹی بی آئی، کئی آپریشنز اور ایک لمبے صبر آزما علاج کے بعد وہ ہمارے پاس اس ری ہیب سینٹر میں آیا تو اس کی حالت اب بھی بہت ابتر تھی ایک برفانی رات کو وہ اپنی منگیتر کو اُس کے گھر چھوڑنے جا رہا تھا راستے میں پڑنے والے ریلوے کراسنگ پر محض، سٹاپ، کی شیلڈ تھی اور دور سے آتی ریل گاڑی بھی دکھائی دے رہی تھی اس نے تیزی سے پٹڑی عبور کرنے کی کوشش کی لیکن شاید گھاتک رات کے تیر اُس کے نام کی فال نکال چکے تھے شدید برفباری کی وجہ سے کار پھنس گئی۔۔۔ بس چند لمحوں کا کھیل تھا۔۔۔ پوری رفتار سے آتی ہوئی گاڑی کار کو دور تک ساتھ گھسیٹتے گئی گھسٹتے گھسٹتے کار قدرے ترچھی ہوئی اور ریلوے لائن کے ساتھ لگے بجلی کے بڑے بڑے کھمبوں میں جا گھسی اور پچک کر رہ گئی۔۔۔
یہ ایک مہلک حادثہ تھا۔۔۔ اس میں آئیمن کی منگیتر حیرت انگیز طور پر محفوظ رہی لیکن سویئر ٹی بی آئی ( ٹرامیٹک برین انجری) نے آئیمن کو محض ایک زندہ لاش میں تبدیل کر دیا تھا۔۔۔ دماغ کے ایک حصے پر گہری چوٹ کی وجہ سے وہ اپنے جسم کی مڈل لائن کھو بیٹھا تھا اس کے لئے سیدھا چلنا تقریباََ نا ممکن تھا اُسے کوآرڈینیشن اور شارٹ ٹرم میموری کے علاوہ بیشمار مسائل تھے و ہ جیسے ایک لمحے میں قید ہو کر رہ گیا تھا۔
اسے سپیچ تھراپی کے ساتھ ساتھ کریئیشن، وژن اور آکو پیشنل تھراپیز دی جا رہی تھیں نتائج حوصلہ افزا تھے جسم اور دماغ کا ٹوٹا ہوا تعلق بحال ہوتا نظر آ رہا تھا بالکل بجلی کی اکھڑی ہوئی تاروں کی طرح جو لمحہ بھر کو ملتی ہیں تو بلب روشن ہو جاتا ہے، اس کی صحت کی رفتار بہت آہستہ تھی لیکن اطمینان یہ تھا کہ وہ رکی نہیں آوازوں پر اس کا ردعمل کچھ بولنے کی کوشش گو کہ وہ ناقابل فہم بڑبڑاہٹ تک ہی محدود تھی یہ اِس بات کا ثبوت تھا کہ بہتری کی امید رکھی جا سکتی ہے تین ماہ بعد پہلی بار اس نے اپنے بھائی اور ماں کو پہچانا۔۔۔ اس کے خاندان کے لئے یہ خوشی کا لمحہ تو تھا ہی ہم سب بھی اس کی اِس پروگریس سے بہت خوش تھے وہ دن بدن بہتر ہونے لگا، اس کی ماں ڈاکٹرز کے کہنے پر کچھ تصاویر لائی تھی جن میں سے وہ بیشتر لوگوں کو پہچان رہا تھا یہ بہت خوش آئیند بات تھی۔
’’ڈاکٹر رات اسے ریزرو میڈیکیشن دینی پڑی وہ کسی بھی طرح کنٹرول نہیں ہو رہا تھا’’
نرس کی اطلاع کافی تشویش ناک تھی
’’ایسی کیا وجہ بنی؟’’ا
’’رات اچانک اسے اپنے فون اور لیب ٹاپ کا خیال آ گیا وہ تصویریں دیکھنا چاہتا تھا بہت ڈسٹرب رہا اگریسسو اور لاؤڈ۔۔۔’’
’’مساج تھراپی کے ساتھ ساتھ اسے اینگزائیٹی کے لئے سپیشل چائے بھی دی گئی لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔۔۔ تین بجے کے قریب اسے ریزرو میڈیکیشنز دینی پڑیں’’
نرس نے تفصیل بتائی۔
’’ہاؤ از ہی ناؤ؟‘’ ڈاکٹر نے ایک نظر فائل پر ڈالتے ہوئے پوچھا۔
’’ابھی تو سو رہا ہے۔۔۔ ڈاکٹر پلیز ایک بات اور’’
’’یس پلیز۔۔۔’’
’’کیا اسے لیب ٹاپ دیا جا سکتا ہے؟ میرا مطلب ہے اس کے گھر والوں سے کہہ کر اس کا اپنا لیب ٹاپ منگوایا جا سکتا ہے؟’’
’’یس وائی ناٹ مجھے نہیں لگتا اِ س میں کو ئی حرج ہوگا’’
ڈاکٹر نے فائل نرس کے ہاتھ میں تھما دی۔
اگلے ویک اینڈ پر اُس کی ماں نے اُسے ایک دن کے لیے گھر لے جانے کی اجازت چاہی۔۔۔
’’ٹھیک ہے آپ اسے لے جا سکتی ہیں یہ رہیں ٹیک ہوم میڈیکیشنز’’
انچارج نرس نے دوائیں انھیں پکڑا دیں
’’اس کا رڈ پر چند ایمرجنسی نمبرز ہیں کسی بھی مشکل میں یہاں کال کر سکتی ہیں تجربہ کار لوگ فوراََ مدد کو پہنچ جائیں گے’’
اور ساتھ ہی اِس نے وارڈ بوائے کو وہیل چیئر لانے کو کہا
’’آئیمن ایک دلچسپ کیس ہے’’ ڈاکٹر آئزن برگ کا لیکچر جاری تھا
’’اب دیکھیں’’
انھوں نے ساتھ کھڑے سٹوڈنٹس کو مخاطب کیا
’’اسے دیکھیں’’
ان کا اشارہ آئیمن کی طرف تھا جس کی انگلیاں کی بورڈ پر نہایت مشّاقی سے چل رہی تھیں
’’کیا کہنا چاہیں گے آپ اِس بارے میں؟ یس مسٹر رومن’’
’’سر۔۔۔ وہ۔۔۔‘’رومن ایک دم گڑ بڑا گیا
’’کیا آپ کو انٹرسٹنگ نہیں لگتا جو بندہ چل نہیں سکتا ڈھنگ سے بات نہیں کر سکتا اس کے ہاتھ اِس طرح کی بورڈ پر پھسل رہے ہیں؟
’’یہ الگ با ت کہ وہ کچھ لکھ پا رہا ہے یا نہیں میرا مطلب ہے کچھ مینیگ فل’’
’’یس ڈاکٹر’’
’’میں نے اِسے کل چِس کھیلتے دیکھا۔۔۔ آ ئی واز سو سرپرائزڈ۔۔۔ وہ لاؤڈ تھا۔۔ ڈس اورینٹیٹڈ لیکن گیم کے تمام اصول فالو کر رہاتھا’’ یہ ہینک تھا
’’ہیئر یو آر ہینک’’
’’تربیت اور کبھی کبھی پسند جبلت بن جاتی ہے پسند سے میری مراد مشاغل ہو سکتے ہیں انسان، کتابیں، میوزک، جگہیں اور بہت کچھ انسانی دماغ بہت کامپلیکیٹیڈ ہے یہ شخص اپنی زندگی کا ایک بہت بڑا حصہ کھو چکا ہے ایکسیڈینٹ سے پہلے کی زندگی کا ایک مخصوص ٹریک اس کی میموری میں زندہ رہ سکا ہے سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ٹریک سے جڑی چند خاص باتیں اسے یاد ہیں پورا ٹریک نہیں۔۔۔ دس از ویری نارمل۔۔۔ عام زندگی میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے جو باتیں ہمارے لئے اہم ہوتیں ہیں دماغ انھیں سیو کر لیتا ہے اور غیر اہم باتیں سب کونشس میں دھکیل دیتا ہے’’
’’کوئی بھی یاد کبھی مرتی نہیں بس کہیں دب جاتی ہے یوں اسے کھوج نکالنا ہمارے لیے مشکل ہوتا ہے اس وقت اِس پیشنٹ کا سب کونشس بہت ایکٹیو ہے وہ چیزوں کو گھنگال کر کام کی چیزیں کونشس پر اچھال رہا ہے، لیکن کونشس اتنا مضبوط نہیں کہ انھیں سنبھال سکے۔۔۔’’
’’اب یہاں شارٹ ٹرم میموری اِن ہوتی ہے۔۔۔ دماغ کی یہ آن اینڈ آف کنڈیشن پیشنٹ کو ڈسٹرب کرتی ہے۔۔۔ مسئلہ یا الجھن یہیں سے شروع ہوتی ہے۔۔۔ وہ سمجھ نہیں پاتا اور الجھ جاتا ہے۔۔۔ اس کے لاؤڈ اور ایگریسیو ہونے کی یہی وجہ ہے’’
ڈاکٹر آئزن برگ بولتے جا رہے تھے
پھر ایک دن میں نے خود کو سرنگ کے دھانے پر کھڑا پایا۔۔۔ نرمی سے چلنے والی ہوا مجھے چھو کر گزر رہی تھی۔۔۔ کچھ عجیب سا احساس تھا۔۔۔ شاید یہ زندگی کی خوشبو تھی۔۔۔ لیکن چاروں طرف اتنی گہری دھند تھی کہ دیکھنا محال تھا۔۔۔میں اس پار دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔ کہ اچانک دھند کے گہرے پردے کو چیرتا ہوا ایک چہرہ میرے سامنے تھا۔۔۔
ماما۔۔۔ میرا دل دھڑک اٹھا۔۔۔ وہی مہربان آنکھیں اور مسکراتے لب ان کے ساتھ اور بھی لوگ تھے۔۔۔ میرے اپنے۔۔۔ میری آنکھوں کے گوشے بھیگنے لگے۔۔۔ ماما۔۔۔ میرو۔۔۔ شادی۔۔۔میں۔۔۔ مجھے خود پر غصہ آ رہا تھا۔۔۔ میرے جسم کی طرح الفاظ بھی باغی ہو گئے تھے۔۔۔ میں ماں سے بہت کچھ کہنا چاہتا تھا۔۔۔
لیکن الفاظ۔۔۔ میں نے خود کو ایک بار پھر سرنگ کے دھانے پر کھڑا پایا۔۔۔ وہی گہرا اندھیرا۔۔۔ دنددناتی ہوئی ریل گاڑی اور یزہ ریزہ ہوتا میرا وجود۔۔۔ کسی کے چیخنے کی آواز آئی۔۔۔ کون تھا۔۔۔ لیکن آواز تومیری تھی۔۔۔
ہاں میں چیخ رہا تھا۔۔۔ لیکن کیوں؟
میرے اللہ میرے ساتھ کیا ہو رہا تھا۔۔۔ لیکن میں خود کو روک نہیں پا رہا تھا۔۔۔
پھر میں نے اسے دیکھا۔۔۔ وہ نیلا تھی... چھوٹے سے بچے کی انگلی پکڑے ہوئے۔۔۔ میں بے چین ہو گیا۔۔۔
’’تم کہاں کھو گئی تھی؟ میں نے تمہیں بہت ڈھونڈا۔۔۔ میں پریشان تھا۔۔۔ یہ بچہ۔۔۔ کون ہے یہ بچہ۔۔۔‘’
’’یہ میرا بیٹا ہے’’
نیلا کی آواز آئی
’’تمہارا بیٹا؟۔۔۔ ہمارا بیٹا؟۔۔۔کب ہوا ہمارا بچہ؟
لیکن شادی۔۔۔ تم کہاں تھیں۔۔۔ مجھے کیوں نہیں پتہ چلا۔۔۔؟
یہ بچہ۔۔۔ نیلا۔۔۔ میں بری طرح الجھنے لگا
ماما نیلا پر چلا رہی تھیں۔۔۔ اسے با ہر دھکیل رہی تھیں۔۔۔ کیوں؟
مجھے بہت برا لگا۔۔۔ ماما۔۔۔ میں ماما کو روکنا چاہتا تھا۔۔۔
’’تم یہاں کیوں آئی ہو۔۔۔؟
تماشا دیکھنے میرے بیٹے کا۔۔۔
جاؤ....جاؤ یہاں سے۔۔۔‘’
بہت شور تھا۔۔۔ میرے چاروں طرف شور تھا۔۔۔
’’خود تو شادی رچا لی۔۔۔ اور میرا بیٹا۔۔۔ ماما رو رہی تھیں
’’تو کیا اس پاگل کی راہ دیکھتی رہتی۔۔۔ نیلا کی انگلی اٹھی۔۔۔
میں تھا اس انگلی کے سرے پر۔۔۔ میں۔۔۔ پاگل۔۔۔
نیلا۔۔۔ شادی۔۔۔ ماما۔۔۔
اور دیواریں دھڑ دھڑ گرنے لگیں۔۔۔
مجھے ناک سے کچھ ٹپکتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔ چپچپا اور سیال۔۔۔
سر میں اٹھنے والا درد ناقابلِ برداشت ہونے لگا۔۔۔ وہی منحوس تاریکی مجھے پھر سے نگلنے کو تھی۔۔۔
میں نے آنکھیں بند کیں اور خود کو خاموشی سے تاریکی کے حوالے کر دیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.