شام کا وقت ہے۔ انگلش کلب میں آج بہت رونق ہے۔ سڑک پر دوردورتک موٹریں کھڑی ہیں۔ دیواروں پرٹینس کے نیلے پردے کسے ہوئے ہیں جواندر کی کارروائی گندی اور غلیظ ہندوستانی آنکھوں سے چھپائے ہوئے ہیں۔ لیکن پھربھی کسی نہ کسی صاحب یامیم صاحب یا کسی ہندوستانی افسرپرنظر پڑہی جاتی ہے۔ کلب کے سامنے ہاکی کاایک بڑا میدان ہے جس پر اپنے کئی ہندوستانی بھائی جمع ہوگئے ہیں۔ کچھ چل پھررہے ہیں کچھ گھاس پرلیٹے ہیں لیکن منہ سب کے کلب کی طرف ہیں۔ نہ معلوم وہ کیوں جمع ہیں۔ غالباً پردوں اور موٹروں کی چہل پہل نے ان میں ایک خواہش، ایک جستجو پیدا کردی ہے اوروہ تماشہ دیکھنے کے انتظارمیں جمع ہیں۔
’’یاروہ دیکھوبجلی والے صاحب ہیں۔‘‘
’’اورمیم کس کی بغل میں دبائے ہیں؟‘‘
قہقہہ پڑتا ہے۔۔۔
’’اجی یہ لوگ بھی خوب ہیں۔ چاہے کوئی میم ہو۔۔۔‘‘
’’ارے یار اورکیاتیری طرح کہ جوروجب سے لایاہے۔۔۔‘‘
’’کواچلاہنس کی چال۔ اپنی بھی بھول گیا۔‘‘اس پر بہت زورکاقہقہہ پڑا۔
’’اجی وہ دیکھوموٹر سے وہ جج صاحب اترے؟‘‘
’’ارے یاربڑا انصاف کرتے ہیں۔ دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی۔ خدا قسم!ادھرجب میں فتووالی مارپیٹ میں پھنس گیاتھا توجج صاحب نے صاف چھوڑدیا۔‘‘
’’ابے سالے چپ بھی رہ، نہیں تو کھینچ دوں گاایک ہاتھ۔ فتوسے توپوچھ۔ دودھ کادودھ پانی کا پانی۔‘‘
’’چلو یار چھوڑ اس مردود کو یہاں۔ وہ چنٹ صاحب کی لڑکی تو آتی نظر نہیں آتی۔‘‘
آج جج رابن سن صاحب کی الوداعی پارٹی ہے۔ وہ آٹھ مہینے کی چھٹی پر ولایت شادی کرنے جارہے ہیں۔ اپنے زمانے کے صحیح جج ثابت ہوئے ہیں۔ کلب میں بہت ہردل عزیز تھے۔ شہرکے انگریزوں کی تو وہ گویاجان تھے۔ ہندوستانی اعلیٰ افسروں کی پیٹھ پر کافی تھپک دیتے تھے۔ کبھی کبھار ان کوکھانے یا چائے پربلالیتے تھے۔ اس لیے وہ بھی ان کی بہت قدر کرتے تھے۔ باقی ’’نیٹو‘‘آبادی پر صاحب کاکافی رعب داب تھا۔ بعض لوگ کلکٹرصاحب سے اتنا نہ ڈرتے تھے جتنا کہ ان سے۔ ان کی ایمانداری کی شہرمیں بہت دھا ک تھی۔ قانون کوتوایسا سمجھتے تھے کہ صوبے میں کم جج ان کا مقابلہ کرتے تھے۔ بس یہ کہو کہ قانون کی ترجمانی ان کے برابر کوئی نہ کرسکتا تھا۔
کالے آدمیوں سے صاحب لوگ اپنی زندگی کے بارے میں ہزارچھپائیں لیکن پھربھی کچھ نہ کچھ خبرباہر نکل ہی آتی ہے۔ تین سال ہوئے جج رابن سن چھٹی کاکچھ عرصہ شملہ پرگذاررہے تھے کہ وہ ایک مسزبلیک سے ملے۔ مسزسلویا بلیک بیس اکیس سال کی خوبصورت لڑکی تھی۔ چند مہینے پہلے ایک کرنل بلیک سے شادی کرکے ہندوستان آئی تھی۔ ویسے تو وہ ہر ایک کے دل میں جگہ کئے ہوئے تھی۔ کرنل صاحب فیروز پور میں تھے اورجلدی جلدی آتے جاتے رہتے تھے۔ بیوی کی وجہ سے ان کی بھی سوسائٹی میں بہت پوچھ تھی لیکن جب رابن سن صاحب وہاں پہنچے تو دو تین دن ہی بعددونوں میں اتنی بے تکلفی ہوگئی کہ خاصے دوست ہوگئے اوربہت جلد دوستی عشق کی حدتک پہنچ گئی۔ رابن سن ان خوش قسمت انگریزوں میں تھا، جن پرکئی عورتوں کی آنکھ تھی اوررابن سن جہاں جاتا ان کی آنکھوں کا تارا بنارہتاتھا۔
عشق ایک نہیں کئی ہوئے تھے۔ شادی شدہ، غیرشادی شدہ ہرقسم کی عورتوں سے۔ لیکن یہ بھوت ہی کچھ اورتھا اورمسزبلیک توبس دنیا ومافیہا کوبھول چکی تھی۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کا سوسائٹی میں خیال رکھا جاتاہے کہ پردہ فاش نہ ہو۔ اس کو تو یہ کھیل جیسے آتا ہی نہ تھا۔ وہ ایک کھلی ہوئی کتاب تھی۔ جس کا جی چاہے پڑھ لے۔ ہرطرف جیک رابن سن لکھا ہواتھا۔ رابن سن نے اس کوسمجھایا بھی۔ اس کا جواب یہی ملا، ’’مجھے توکوئی ڈرنہیں۔ تمہیں ڈر ہوتو مجھ سے نہ ملو۔‘‘
آخر کو اوربھی عورتیں ہوٹل میں تھیں جن میں سے اکثررابن سن پرریجھی ہوئی تھیں۔ کئی سلویا بلیک کے حسن سے خارکھائے بیٹھی تھیں۔ عشق برابر ہوٹل میں چلاہی کرتے تھے۔ چھیڑچھاڑ، ہنسی مذاق، چھپ کے ملنا، راتیں ساتھ ساتھ گذارنا لیکن ایسا کھلم کھلا عشق، وہ بھی ایک شادی شدہ عورت کے ساتھ، سوسائٹی کیسے برداشت کرلیتی۔ پہلے چہ میگوئیاں ہوئیں۔ پھر باتیں ہوئیں۔ آوازے کسے گئے۔ کرنل صاحب بھی آئے۔ بیوی کا رنگ ہی اوردیکھا۔ بات کوپی گئے۔ لیکن آخر کہاں تک۔ ایک روز مسزبلیک شملہ سے غائب ہوگئیں۔ تین دن سہارن پورجاکررہیں۔ پتہ لگانے والوں نے لگاہی لیا۔ پھرادھر دونوں کا ڈربھی۔
رابن سن ہندوستان میں دس سال سے تھا۔ اونچ نیچ کواچھی طرح سمجھتا تھا۔ لیکن پھرکیا کرتا۔۔۔ مجبورتھا۔ محبت اختیارمیں نہ تھی۔ معاملہ طشت از بام ہوگیا اور آخر کومسز بلیک گھرچھوڑکر نکل کھڑی ہوئی۔ کرنل بلیک کوبھی ضدپڑگئی کہ وہ ضرور رابن سن پراپنی بیوی کوبھگالے جانے کا دعویٰ کرے گابلکہ اس نے وکیلوں وغیرہ سے باتیں بھی شروع کردیں۔ رابن سن بہت چکرایا لیکن کرتا توکیا۔ معاملہ بہت بگڑچکا تھا۔ خود کرنل سے ملا۔ دوستوں سے کہلوایا لیکن کرنل اپنی ضدپراڑا رہا۔ اس طرح دو انگریزوں میں کھلم کھلا مقدمہ بازی کرنا انگریزی رعب داب میں فرق ڈالناتھا۔ لہذا ادھر گورنر تک اورادھرکمانڈر انچیف کے کانوں تک خبرپہنچادی گئی۔ ایک زبردست دباؤ کے بعدکرنل صاحب راضی ہوئے کہ وہ بجائے رابن سن پردفعہ ۴۹۶ کا مقدمہ چلانے کے اپنی بیوی کوطلاق دے دے گا۔ اورمسزبلیک کوفورا ولایت روانہ کیاگیا کہ وہ جب تک طلاق کی کارروائی پوری نہ ہو، وہیں رہیں۔
اس عرصہ میں کہ طلاق کی کاروائی جاری تھی، رابن سن ایک مرتبہ ہوائی جہاز سے اپنی معشوقہ سے مل آئے تھے۔ اب وہ آٹھ ماہ کے لیے جارہے تھے۔ ایک ایک لمحہ ہندوستان میں کاٹنامشکل تھا۔ چلنے سے پہلے سلویا کاایک تار ملاتھا، ’’میں تم کو وینس پرمل جاؤں گی۔‘‘
اس تارنے رابن سن کوبالکل ہلاکررکھ دیا۔ وہ بہت دیرتک سرجھکائے سلویا کے بارے میں سوچتا رہا۔ کیا عورت ہے؟ غضب کی۔ پہاڑوں کی چاندنی راتیں۔ ہوٹل میں چھپ چھپ کرملنا، ہزاروں نگاہوں سے چھپ کرراتوں کواس کے پاس آنا، بلیک کی نگہداشت کے باوجود بھی آنا اورپھر اس کی گود میں سررکھ کرآہستہ سے کہنا، ’’کیا کروں! بہت کوشش کرتی ہوں لیکن جیک تم سے محبت نہیں جاتی۔‘‘اس کا خیال ہی چکرادیتا تھا۔ اورپھر وہ ہاتھ، وہ گردن، وہ جسم!جب وہ پہلی دفعہ اس کے ساتھ آئی تھی توکیا کچھ سین ہوٹل میں نہ ہوا تھا۔ لوگوں نے کیاکیا ناک بھوں نہ چڑھائے تھے لیکن اس نے آکرنہایت سادگی سے صرف اتنا کہا، ’’جیک میں آگئی۔‘‘گورابن سن پارٹی میں گھوم رہاتھا۔ لوگوں سے باتیں کررہا تھا لیکن اس کا دل وہاں نہ تھا۔ اس کوتشویش تھی تو یہ کہ وہ سلویا سی لاجواب عورت کو خو ش بھی رکھ سکے گا یانہیں۔
*
’’بھولا!ٹمہاڑے کھلاپھ مسماٹ گجڑیا کوڈوسری ڈفعہ بھگانے کا جوجرم لگایاگیاہے وہ ثابت ہے۔ ٹم کو ٹین سال سکٹ سزا کا حکم سنایاجاٹا ہے۔‘‘یہ حکم سناکررابن سن صاحب کانسٹبل کی طرف مخاطب ہوئے اورکہا، ’’لے جاؤمولزم کو۔‘‘
ان کایہ کہنا تھا کہ ایک گندمی رنگ، درمیانہ قد کی سولہ سترہ سال کی لڑکی چندمردوں کوچیرتی ہوئی جاکر بھولاسے لپٹ گئی اور زورزوررونے لگی اورچیخنے لگی۔ کچہری میں عورتوں کی چیخ وپکار روزہی سنی جاتی ہے لیکن اس کی تڑپن میں کچھ جادوتھا کہ راہ چلتوں کے پیر روک لیتاتھا۔ کچہری کاکمرہ بھرگیا۔
بھولابیس سال کاایک چھوٹے قد کا دبلاپتلاآدمی تھا۔ کالے چہرے پر کالی آنکھیں ناگ کی طرح چمک رہی تھیں۔ وہ بالکل خاموش تھا۔ گجریا کے بین اور رونے کا، ایسا معلوم ہوتاتھا کہ اس پرکوئی اثرنہ تھا۔ ’’اے بھولا میں توکونہ جانے دوں گی۔۔۔ اے جج صاحب ایسا جلم نہ کرو۔ موکوبھی سنگ ہی بھیج دو۔ اے سپیامیں ہاہا کہاؤں۔ موکو بھی لے چل۔ یاکے سنگ موکوبھی بندکردیجیو۔‘‘
’’ہٹ ہٹ۔ چھوڑتی نہیں سسری۔‘‘
’’مولو۔ پکڑونہ اس۔۔۔ کو۔‘‘
’’نے گجب اٹھارکھا ہے۔‘‘
ادھر سے اس کے بھائی نے اورتین سپاہیوں نے پکڑا۔ ادھرکانسٹبلوں نے بھولا کودھکادیا، ’’چل بے۔۔۔ کھڑا کیادیکھتاہے۔‘‘اس کو گھسیٹ کر کمرے سے لے گئے۔
’’بھولا۔۔۔ اوبھولا۔۔۔ کہاں چھوڑچلا۔‘‘پیچھے بھاگنے کی کوشش کی لیکن وہ چار مردوں کی آہنی گرفت سے کہاں جاسکتی تھی۔ زمین پر مچل گئی۔ ایڑیاں رگڑنے لگی، ’’بھولا۔۔۔ اے بھولا۔۔۔ بھولا۔۔۔ بھولا۔۔۔‘‘
’’کورٹ صاحب اس عورت کوبارنکالو۔ شورنہیں مانگٹا۔‘‘
’’پیشکار! سرکار بنام بنڈوکوآواز لگاؤ۔‘‘
*
بھولاقوم کاگڈریہ تھا۔ کانسرو کے جنگل میں گائے بیل چرایا کرتا تھا۔ چھوٹا پتلاسا مست آدمی تھا۔ اپنے بھائی بھاوج کے ساتھ ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں پھاندو والے میں رہتا تھا۔ بچپن سے اسی جنگل میں پلابڑھا۔ جنگل میں اس کا من لگتا تھا۔ سونگ ندی میں گاؤں کے اور جوانوں کے ساتھ مل کرنہاتا اورپھر اس کی آوازبھی کیاغضب تھی۔ اس کا پتوں کے ڈھیر پر لیٹ کراورلہک لہک کرگانا، ’’۔۔۔ نینوں سے نیناں ملاؤ میری جان۔‘‘گاؤں کی کئی لڑکیوں کی آنکھوں میں چمک پیدا کردیتاتھا۔
کانسرو کا جنگل فروخت ہوا اورکئی بڑھئی درختوں کوکاٹنے اورگرانے پرلگے۔ ان میں سے ایک مٹروبھی تھا۔ وہ مع اپنی جوان گجریا کے وہاں آیا۔ بڑھئی اپنی عورتوں کوکام پرنہیں لے جاتے ہیں لیکن مٹروکاچچا پھاندووالے میں رہتا تھا۔ لہذا وہ گجریا کوبھی ساتھ ہی لے آیا۔ گجریاسولہ سترہ سال کی گندمی رنگ کی بھرے بھرے جسم کی ایک گرماگرم لڑکی تھی۔ گاؤں کی اورعورتوں کے ساتھ ندی پرپانی بھرنے جاتی تھی۔ راستہ بھر ہم عمرلڑکیوں کے ساتھ چہلیں کرتی، بھاگ دوڑمچاتی ہوئی جاتی تھی۔ راستہ ادھر سے نکلتا تھا جہاں گاؤں کا ایک آدھ گڈریا گایوں اوربیلوں کے واسطے پڑارہتاتھا۔ اکثر ان مردوں اور عورتوں میں چھیڑچھاڑ، ہنسی مذاق ہوتاتھا۔ ’’تو بڑا جلمی ہے رہے بھولا۔۔۔‘‘ا س کی بھاوج جوبھولا کے مذاقو ں کوپسند کرتی تھی، بن کرجواب دیتی، کوئی لڑکی کہتی، ’’اے بھولا جراوہ ہولی توسنادے۔‘‘
’’کیا دے گی؟‘‘بھولا آنکھ مارکرپوچھتا۔
لڑکی اٹھاکرپتھرمارتی، ’’دیکھوبھابی یہ بھولا گاری دیتاہے۔‘‘
گجریاکے گاؤں میں آنے سے بھولا کی زندگی میں بہت تبدیلیاں ہونے لگیں۔ اب وہ پہلے سے بھی زیادہ گانے لگا تھا۔ اب اس کے مذاق بھی زیادہ تیکھے ہوگئے تھے۔ وہ گجریا کے انتظار میں بیٹھارہتا تھا۔ ایک آدھ دفعہ گاؤں کی گلی میں گجریا اکیلی اس کوملی بھی لیکن گجریا کودیکھ کر اس کے پیربندھ جاتے تھے اورمنہ توجیسے کسی نے سِل دیاہو۔ جب گجری سامنے نہ ہوتی تو بڑی بڑی باتیں سوچتا لیکن اس کو دیکھ کرسب بھول جاتا۔ ایک دن جب وہ جنگل میں گارہاتھا، گجریا اور عورتوں کے ساتھ ادھرسے گذری۔ اس کودیکھ کربہت عورتیں رکیں۔ وہ اسی طرح لیٹا گاتارہا، پھرگجریا کی طرف دیکھا۔ اس نے نیچی نگاہ کرکے مسکرادیا۔ بھولاگانا وانا سب بھول گیا۔ گجریا اور عورتیں چلی گئیں۔ لیکن اس دن سے گجریا اور وہ آنکھوں اورمسکراہٹ میں باتیں کرنے لگے۔
ایک دوپہر کوگجریا کا پانی جلدی سے ختم ہوگیا اوراس کواکیلے جنگل پانی لینے جاناہوا۔ راستے میں بھولا مل گیا۔ ہمت کرکے بولا، ’’گوری اکیلی اکیلی کہاں؟‘‘ گجریا بگڑگئی۔ یہ ڈرگیا لیکن ہمت کرکے چھیڑتا ہی گیا۔ گجری بھی ہنس دی۔ بھولا نے اٹھ کر اس کی کولی بھرلی۔ وہ گھبراکر الگ کھڑی ہوگئی۔ لیکن وقت اورجگہ مقررہوگئی۔
بھولا کی بے چینی کا عجیب حال تھا۔ تین رات سے اسی جگہ گجریا کا انتظارکررہاتھالیکن وہ آئی نہ تھی۔ آخرکو چوڑیاں بچھوے اتار کردبے پاؤں گاؤں کے باہر لکڑیوں کے ڈھیر کے پیچھے آکرکھڑی ہوئی اورچپکے سے بھولا کوبتایا کہ اس کا میاں مٹروپورے وقت اس کے ساتھ سوتا رہا۔ وہ کوئی بہانہ نہ لگاسکی۔ اب پیٹ میں درد اور جنگل کا بہانہ کرکے آئی ہے اوربہت جلدی جاناہے۔ اب یہی قصہ چلنے لگا کہ بھولارات رات بھر گجریا کے انتظار میں جاگاکرتا اور وہ اگرموقع لگ جاتا توآجاتی۔
بھولا اپنی اورسب آشنا عورتوں کوبھول گیا۔ جہاں سگائی ہوئی تھی، اس کی بھی سدھ بدھ نہ رہی تھی۔ بھائی کے بہت بگڑنے پرکہہ دیتا، ’’ابھی میں ناکرتا۔‘‘پریم کی پینگیں بڑھتی گئیں۔ دونوں انجام سے بے خبرجب ہی زندہ رہتے۔ جب تک ایک دوسرے کی آغوش میں ہوتے۔
گاؤں کے آس پاس لکڑی کے ڈھیر لگے تھے۔ ایک رات کچھ لوگ جارہے تھے۔ حقہ پی رہے تھے کہ گجریا نکلی اور جنگل کی طرف چلی۔
’’کون گئی؟‘‘ایک نے شک کے لہجے میں آہستہ سے پوچھا۔
دوسرے نے کہا، ’’مٹرو کی معلوم پڑتی ہے۔‘‘
’’یاوکھت وہاں اس کاکیاکام ہے؟‘‘کہ اتنے میں آہستہ آہستہ بھولابھی اسی راستے سے جاتا دکھائی دیا۔
’’ہوں! تویہ بات ہے۔۔۔‘‘
’’لو۔۔۔ اوربھی کوئی نہ ملا، یہ گڈریہ ہی رہ گیاتھا؟‘‘
گاؤں میں ایسی بات آگ کی طرح پھیلتی ہے۔ دوسرے روز آہستہ آہستہ ہر طرف اسی کاچرچاتھا لیکن مٹرو کے منہ پرکون رکھے۔ آخرکوکاشی بڑھئی نے حقہ پیتے پیتے مٹرو کی طرف دیکھ کرکہا، ’’مٹروتیری عورت توبڑی سندری۔۔۔‘‘مٹرونے غضب ناک آنکھیں نکال کر کاشی کی طرف دیکھا، ’’تجھ سے کا؟‘‘
’’نابھیا میں توبات کہتا تھا۔ کسی سندری کا قابو میں رکھنا بڑا مشکل کام ہے۔ کیوں ٹھیک بات ہے نابلدیو!‘‘بلدیو نے بھی سرہلادیا۔
مٹرونے بگڑکر پوچھا، ’’کون کا بات ہے؟‘‘
’’کچھ نہ بھیا۔ کل رات تیری عورت ادھر ندی کے جنگل میں جارہی تھی۔ تھوڑی دیر میں بھولا بھی ادھرہی گیا۔۔۔‘‘
’’کون بھولا؟‘‘
’’وہی گڈریا کا۔۔۔‘‘
’’ہوں!‘‘
’’نابھیا کچھ دیکھا ویکھا ناہیں۔ بس جوبات تھی کہہ دی۔‘‘
مٹروکے دل میں توجیسے کسی نے چھری بھونک دی ہو۔ گھر میں آکرگجریا کوخوب پیٹاتودل کچھ ٹھنڈا ہوا لیکن اب ہروقت وہ گجریا کو آنکھوں میں رکھنے لگا اور ادھر اس نے اپنی چاچی سے بھی کہہ دیا، ’’چاچی اس کا دھیان رکھنا۔ ادھر ادھر اکیلی نہ ڈولے۔‘‘
گجریا پراب بہت سختی ہونے لگی۔ مٹروبات بے بات مارنے لگا لیکن اس نے بھولا سے ملنا نہ چھوڑا۔ دوہی منٹ کومل لیتی۔ گلے ہی لگ آتی۔ ہاتھ ہی چھولیتی۔ رفتہ رفتہ چاچی بھی بات کوبھولنے لگی اور مٹروبھی ذراغافل ہوگیا۔
ایک رات مٹرو کی آنکھ کھلی۔ گجریا غائب تھی۔ چپکے چپکے جھونپڑی میں ڈھونڈا۔ کہیں نہ ملی۔ تھوڑی دیر بعد اس نے دیکھا کہ گجریا دبے پاؤں گھرکی طرف جارہی ہے اور کچھ فاصلے پر بھولا بھی ہے۔۔۔ بات صاف۔ گجریاکے پیچھے پیچھے گھرچلا اور اس سے پہلے کہ وہ گھرمیں گھسے اس کاہاتھ پکڑلیا۔ گجریا کا دم ہی تونکل گیا۔ لیکن آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑی رہی۔ چھ مہینے کی متواتر محبت نے اس کوتھوڑا سانڈربھی کردیاتھا۔
’’کہاں گئی تھی؟‘‘
’’جنگل۔‘‘
’’ساتھ کون تھا؟‘‘
گجریاچپ تھی۔
’’بولتی کیوں نہیں۔۔۔؟‘‘ ایک طمانچہ زورکا منہ پرپڑا۔ پھرگھونسہ لات۔۔۔ اورگھونسہ اورلات۔ ویسے جب گجریا پٹتی تھی۔ گاؤں کی اورعورتوں کی طرح واویلا مچاتی تھی لیکن آج رات وہ مارکھاتی رہی اور چپ رہی۔ گھونسوں کی آواز سن کر چچی نکل آئی۔ مٹرو کواندر لے گئی۔ گھر والوں میں صلاح ہوئی کہ اپنی عزت کی بات ہے۔ بات دبادینی چاہئے اوراس کو اس کے باپ کے گھرپہنچادیناچاہئے۔
دوسرے روز سوجی سوجائی گجریا وہاں سے آٹھ میل پربرکوٹ پہنچادی گئی اورساتھ ہی مٹرواس کی ساری بات بھی کھولتا رہا۔ وہاں پرباپ وسوتیلی ماں، بھائی اوربھاوج نے ہروقت چوکیداری شروع کردی۔ لیکن ایک گڈریہ کے لیے آٹھ میل کیاہوتے ہیں۔ تھوڑے ہی دنوں پیچھے پھردونوں آٹھویں دسویں چھپ کرملنے لگے۔ ایک روز بھتیجے نے دیکھ لیا۔ آکرگجریاکے بھائی سے کہا۔ بھائی نے مٹرو سے بھی زیادہ بہن کی مرمت کی اوراب گھروالے رات کواسے کوٹھری میں بندکردیتے تھے۔ جون کا مہینہ، چھوٹی سی کوٹھری۔ گجریا تھی کہ وہاں سے ادھ مری ہوکر نکلتی تھی۔
ایک شام کووہ گھر سے غائب تھی۔ سارا گاؤں جنگل ڈھونڈڈالا۔ پتہ نہ لگا۔ مٹروکے پاس آدمی راتوں رات گیا۔ معلوم ہوا کہ دودن سے بھولا بھی غائب ہے۔ دوسرے دن پولس میں اطلاع ہوئی۔ وارنٹ کٹوایا کہ بھولا نابالغ لڑکی کولے کربھاگ گیاہے۔ آٹھ ر وز کے بعددونوں پکڑے ہوئے لائے گئے۔ عدالت میں گجریا نے گواہی دی۔ اپنی محبت اور خوداپنی مرضی سے بھولا کے ساتھ جانے کااقبال کیا۔ بھولا نے بہت کہا کہ مجھ کواس کی عمرکی کیا خبرتھی۔ کیااس کے ماتھے پرلکھی ہوئی تھی۔ مجھ کو اس سے محبت ہے۔ یہ خودمیرے ساتھ چلی آئی۔ لیکن قانون تو قانون ہی ہے۔ اس میں چوں وچرا کی کیامجال۔
اورپھرجب رابن سن جیسا قابل جج قانون کی ترجمانی کرے توبھولا کوتین سال کی سزا سے کیا کم مل سکتی تھی۔
*
کلب میں آج شام ہرطرف چہل پہل تھی۔ چالیس کے قریب انگریز مرداورعور ت تھے اورتین چار ہندوستانی مع اپنی بیویوں کے رونق افروز تھے۔ آج رابن سن کی بہت قدرتھی۔ ہرطرف ان کی پوچھ تھی۔ ہرانگریز ان کے ’’ہوم‘‘جانے پر رشک کررہاتھا۔ انگریز یہاں خواہ کتنے ہی آرام وآسائش میں رہیں لیکن ’’ہوم‘‘چھٹی پر جاناایسا ہی محسوس کرتے ہیں جیسے کوئی چڑیا پنجرے سے چھٹ کرخوش ہوتی ہے۔ ہندوستان کی قدر تو وہ اکٹھا ہی کرتے ہیں، یعنی جب پنشن پاکر عمر بھر کے لئے ’’ہوم‘‘جاکرہوم بساتے ہیں۔ آج تورابن سن اوربھی غیرمعمولی طورپر خوش تھا کہ اب وہ شادی کرنے جارہا تھا۔ ایک میز پروہ ٹم راجرس، ایک اور انگریز اورمس فوکس بیٹھے باتیں کررہے تھے۔
’’ہاں یہ بات تو ٹھیک ہے۔ یہ لوگ ہوتے تو ’ایموشنل‘ ہیں بالکل جانوروں کی طرح۔‘‘
’’اب دیکھوچھ آنے پرلڑکرکیپٹن مارٹن کے بیرا نے چوکیدار کے چھرابھونک دیا۔ ’’مس فوکس نے تائید کرتے ہوئے کہا۔
’’روگ (ROGE) کہیں کا، مجھ کووہ آدمی بالکل پسند نہیں تھا۔ نہ معلوم مارٹن نے اس کو کیوں رکھا ہواتھا۔‘‘
’’مجھے توبہت خوشی ہے کہ میں جارہا ہوں۔ ورنہ اس کوپھانسی کی سزابھی مجھی کودینی پڑتی۔‘‘رابن سن نے کہا۔
’’پھانسی کی سزا مجھ کوبالکل پسندنہیں۔‘‘ٹم راجرس نے کہا جوابھی تین مہینے پہلے ہندوستان آیاتھا۔ یہاں کی ہرچیز اس کوایک عجوبہ معلوم ہوتی تھی۔
’’پھانسی کی سزاپسند نہیں۔‘‘مس فوکس زورسے چیخیں، ’’اگرپھانسی کا ڈر نہ ہوتو یہاں کے وحشی ’نیٹو‘ہم میں سے کسی کوزندہ نہ چھوڑیں۔‘‘
’’ارے چلئے بھی مس فوکس آپ کتنی عجیب باتیں کرتی ہیں۔‘‘ٹم راجرس نے جس پرابھی تک کیمبرج کا رنگ چڑھا ہوا تھا، ہنس کر مس فوکس کوچھیڑا۔
’’لیکن اس بیرا کو توضرورپھانسی ملنی چاہئے، رات بھراس چوکیدار کی عورت اتنے زورزور سے روئی ہے کہ مارٹن کے کمپونڈاورہمارے کمپونڈمیں کسی کوسونے ہی نہیں دیا۔‘‘
’’توبیرا کے پھانسی لگنے سے کیا چوکیدار کی بیوی کا رونارک جائے گا؟‘‘ٹم نے پھرپوچھا۔
’’سنو راجرس!تم ابھی ابھی ہندوستان آئے ہو۔ تم اپنے جوش میں بہت سی باتیں بھولتے ہولیکن مس فوکس نے جوکچھ کہا ہے، سچ ہے۔ اگرپھانسی کا ڈر نہ ہوتو اس وحشی ملک میں ہروقت قتل وخون ہواکرے۔ ہمارے قانون کی برکت سے اتناہوا ہے کہ امن وامان قائم ہے۔‘‘
’’ہاں چلتے چلو۔۔۔‘‘ٹم راجرس نے کہا۔
’’یہ ہمارا ہی بنایاہوا قانون ہے جس کے سامنے ہرچھوٹا بڑابغیرکسی قوم وملت کے برابر سمجھا جاتاہے اورجبھی ہر ہندوستانی کہتاہے کہ اس انگریزی راج میں شیراوربکری ایک جگہ پانی پی سکتے ہیں۔‘‘
’’سچ مچ تویہاں کا قانون اپنے ’ہوم‘ کے قانون سے فرق ہے؟‘‘ٹم راجرس نے مسکراکر سوال کیا۔ اس پرتینوں انگریز جوکئی سالوں سے ہندوستان میں تھے ہنس پڑے۔ ٹم بالکل سرخ ہوگیا۔ مس فوکس نے کہا، ’’ٹم تمہارا مطلب کیاہے؟ تمہارے خیال میں ہم میں اورنیٹو میں کچھ فرق ہے؟‘‘
’’میرامطلب یہی ہے کہ قانون ہندوستان میں چھوٹا بڑا یا اونچانیچا نہیں دیکھتا۔ میں اپنی طرف سے بلکہ سب انگریزوں کی طرف سے کہہ سکتاہوں کہ ہمارے د ل میں کبھی ایسے خیال نہیں آئے۔ ہم توقانون کوسب کے لیے برابرسمجھتے ہیں۔‘‘رابن سن نے کہا۔
’’اتنے میں سوشیل کمارگپتا ایک ہندوستانی آئی سی ایس بھی اس گروپ کے قریب آنکلے اور ’ہلورابن سن‘ کہہ کرمیز کی طرف بڑھے۔
’’دیکھو گپتا آپ نے مجھے ساتھ لے جانے کاوعدہ کیاتھا اورخود جلدی چلے گئے۔‘‘راجرس نے شکایت کی۔
’’میں بہت سویرے گیاتھا اورپھرمیری فیملی بھی ساتھ تھی۔ افسوس کہ آپ کوساتھ نہ لے جاسکا لیکن مجھ کو دوتین روزبعدپھرجاناہے۔‘‘
’’آپ کہاں گئے تھے؟‘‘رابن سن نے پوچھا۔
’’کانسراؤ کی طرف۔ وہاں ایک گاؤں ہے پھاندووالا۔ وہاں پر کل ایک عجیب واقعہ ہوا۔ (ہنس کر) اوراس کے ذمے دار رابن سن تم بھی ہو۔‘‘
’’میں!‘‘رابن سن نے حیران ہوکر پوچھا۔
’’کیا ہوا؟‘‘مس فوکس نے سوال کیا۔
’’ایک جوان لڑکی نے اپنے شوہر کے گھرکوآگ لگادی اورپھر اپنے کپڑوں پرتیل چھڑک کرآگ میں گھس گئی۔‘‘
’’تومیں کس طرح ذمہ دارہوا؟‘‘رابن سن نے مسکراکرپوچھا۔
’’تم نے دوعاشق ومعشوق کوجداکردیا۔ آدمی کو جیل بھجوادیا۔ لڑکی خود جل مری۔ گھربھی ساتھ پھونک گئی۔‘‘
’’کون ساکیس؟‘‘رابن سن نے دماغ پرزور ڈالتے ہوئے کہا۔
’’کہانی مجھ کو معلوم ہے، کیس کی مجھ کو خبرنہیں۔‘‘گپتا نے کہا۔
’’مسٹرگپتا ضرورساری بات سنائیے۔‘‘مس فوکس نے اشتیاق سے پوچھا۔
گپتا نے کہاکہ، ’’مس فوکس کہانی بہت دلچسپ ہے۔ ایک بڑھئی کی عورت کاایک گڈریے سے عشق تھا۔ جب بڑھئی کوخبرلگی تو اس نے ماراپیٹا۔ کچھ نہ ہوا، دونوں ملتے رہے۔ لوگ توکہہ رہے تھے کہ وہ دونوں نہ چیتے سے ڈرتے تھے نہ شیر سے اورچھپ چھپ کر راتوں کو جنگلوں میں ملتے تھے۔ پھربڑھئی نے اس کواس کے باپ کے ہاں بھیج دیا۔ وہاں اس کے رشتے داروں نے مارا پیٹابندکیا، لیکن پھربھی کوئی اثرنہ ہوا اور وہ برابر چھپ چھپ کر راتوں کوجنگلوں میں ملتے رہے۔ آخرایک وہ اس لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی۔ ہردوارسے دونوں پکڑے آئے۔ نمبرایک مقدمہ قائم ہوا۔ رابن سن صاحب کے ہاں لڑکاضمانت پرچھوڑدیاگیا۔ ان دونوں نے پھر چھپ کر ملناشروع کیااورپھر بھاگ گئے۔ اب کے بمبئی جارہے تھے کہ دہلی میں پکڑے گئے۔ اب دو مقدے قائم ہوگئے۔ ہمارے رابن سن نے لڑکے کوتین سال کی قیدکردی۔‘‘
’’اچھا؟ ہندوستان میں بھی لوگ محبت کرتے ہیں؟‘‘مس فوکس نے نہایت تعجب سے پوچھا۔ گپتا اور ٹم قہقہہ مارکرہنس پڑے۔
’’قانون ہے جناب میں کیاکروں؟‘‘رابن سن نے تھوڑی دیر بعدجواب دیا۔
’’اوہ جیک!‘‘مس فوکس نے تین سال کی ناامیدی کا بدلہ اپنی آوازمیں بھردیا۔
’’میری بات ٹھیک ہے نا رابن سن۔ اگرگپتاکسی عورت کولے کربھاگ جائے توتم یہی سزا دیتے۔‘‘
’’میرا نام کیوں لیتے ہو۔ میری بیوی توقریب ہی بیٹھی ہے۔ اپنا ذکرکرو۔‘‘
’’اچھا میرا ہی سہی۔ اچھا سچ بتاؤرابن سن اگرمیں اس مردکی جگہ ہوتا تو تم یہی سزادیتے (ٹھہرکر) اورجو فرض کروتم اس کی جگہ ہوتے تو کیامیرے سے یہ امید کرتے کہ میں تم کویہی سزا دوں۔‘‘
ٹم راجرس نے جورابن سن کی عشقیہ ہسٹری سے ناواقف تھا، یہ سوال کیا۔
’’تمہیں مذاق کے سواکچھ سوجھتا ہی نہیں۔ چلواب اٹھو گے بھی یارات یہیں گذاردوگے۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.