Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

قرض کا بوجھ

تاج الدین محمد

قرض کا بوجھ

تاج الدین محمد

MORE BYتاج الدین محمد

    پردہ نشیں عالیہ نے بڑی معصومیت سے پوچھا بابا میرے جہیز کی خاطر اس طرح پریشان ہوتے ہو؟ میرے بیاہ کے انتظامات میں اس قدر مصروف ہو؟ کبھی کوئی سامان خرید کر لاتے ہو کبھی گھر کا کوئی سامان بیچتے ہو یہ کیسی مصروفیت ہے؟ کہاں سے لاؤ گے اتنے پیسے؟ کون دے گا تمہیں اتنا قرض؟ تم نے ناحق کیوں ایک ایسا بوجھ اپنے سر لے لیا جسے تم سہار نہ سکو؟

    یہ سن کر چندو کی آنکھوں میں آنسو امنڈ آئے، عمر ڈھل رہی تھی بلکہ کافی ڈھل چکی تھی چندو نے روہانسی صورت بنا کر کہا اب کتنا رہے گی اپنے باپ کے گھر پر، تیس پار کر چکی ہے، تیری ماں زندہ ہوتی تو تجھے دیکھ دیکھ کر صبح و شام روتی رہتی میں اب اس کی روح کو مزید صدمہ نہیں پہنچا سکتا۔ دعا ہے تیری عمر دراز ہو اور تو خوش و خرم اپنی باقی زندگی اپنے شوہر کے ساتھ گزارے۔ تیری زندگی کا ایک لمبا حسین پل اس بڈھے کی مفلسی و ناداری کی نذر ہو گیا میں تیرا گنہگار ہوں بیٹی! عالیہ نے آنسوؤں کو ضبط کرتے ہوئے کہا، تم نہیں بابا بلکہ یہ پورا معاشرہ اس کا گنہگار ہے تم کیوں گنہگار ہونے لگے؟ تم نے کوئی جرم تھوڑے ہی کیا ہے؟

    چندو چند لمحے کو کہیں کھو سا گیا پھر دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر بولا اللہ کوئی راستہ ضرور نکالے گا کہتے ہوئے اس پر کھانسی کا دورہ پڑا وہ اپنا سینہ پکڑ کر زمین پر بیٹھ گیا پانی کے چند گھونٹ اس نے اپنے خشک گلے میں اتارے پھر بلغم کو دیوار پر تھوکتے ہوئے کہنے لگا آج میں اپنے ایک جگری دوست کے پاس جاؤں گا خدا کی ذات سے امید ہے وہ میری حاجت روائی ضرور کرے گا۔ آمین کی صدا کے ساتھ ہی مسجد سے ظہر کی آذان بلند ہوئی چندو وضو کر کے مسجد جانے کی تیاری میں لگ گیا۔

    عالیہ نے افسردگی کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ کہا اب تو چند دن ہی باقی رہ گئے ہیں بابا، اتنی جلدی یہ سب کیوں کر ممکن ہے؟ تمہاری حالت مجھ سے دیکھی نہیں جاتی تاریخ رکھتے ہوئے کچھ سوچا بھی نہیں؟ مجھ سے کوئی مشورہ بھی نہیں کیا؟ اماں نہیں رہی تو اس نگوڑی سے ہی کچھ پوچھ لیتے؟ چندو خاموشی سے بیٹی کی بات سنتا رہا۔ عالیہ سے باپ کی حالت چھپی ہوئی نہیں تھی اس نے تکیے میں سر ڈال کر روتے ہوئے اور آہیں بھرتے ہوئے کہا لڑکیوں کا باپ ہونا سچ مچ بڑی بدقسمتی ہے۔

    چندو مسجد کو جاتے ہوئے راستے میں سوچ رہا تھا ایک غریب باپ کرے بھی تو کیا کرے؟ بیٹی کو گھر پر رکھے تو معاشرہ قدم قدم پر سوال کرتا ہے یونہی چھوڑ دے تو نکمے اور اپاہج کا طعنہ سننا پڑتا ہے اور ہر آن کسی چیل کوئے کے جھپٹ لے جانے کا خطرہ بنا رہتا ہے۔ جوانی کے دنوں میں اس دکھ درد کا اندازہ اگر ہو جائے تو بہت سے نوجوان شادی ہی نہ کریں لیکن قدرت کے بنائے ہوئے نظام اور فطرت انسانی سے مجبور ہو کر ہی اولاد آدم کی یہ نسل یہاں تک پہنچی ہے۔

    میرے ابا کہتے تھے جب صور پھونکا جائے گا تب ساری قبریں اپنے اپنے مردے اگل دیں گی اور روحیں اپنے اپنے اجسام میں داخل ہو جائیں گی اپنے معبود کی جانب رواں دواں پھر حساب و کتاب ہوگا اور خالق کائنات کے حضور حاضری ہوگی سارا کیا دھرا نیکی و بدی ایک دفتر کی شکل میں ہو بہو حاضر کر دیا جائیگا۔ اف! بڑا ہی سخت دن ہوگا وہ؟ میں تو دنیا میں ہی قبر کا اگلا ہوا مردہ ہوں، بے یارو مددگار چہار جانب بھٹکتا ہوا مدد کی بھیک مانگتا ہوا۔ بعد نماز ظہر یہ سوچتے سوچتے چندو اپنے دوست کے گھر روانہ ہو گیا۔

    گھر پر پہنچ کر چندو نے دروازے کی کنڈی کھٹکھٹائی۔ احمد ایک کتاب پڑھنے میں منہمک تھا، کون ہے؟ لیکن دوسری جانب سے کوئی جواب نہ پاکر اسے گمان گزرا کوئی مانگنے والا ہوگا تھوڑے سے انتظار کے بعد خود ہی چلا جائے گا۔ تھوڑی دیر بعد کنڈی میں ہلکی سی لرزش پھر ہوئی احمد کی طبیعت میں اکتاہٹ سی پیدا ہونے لگی اس نے باہر جا کر دیکھا تو چندو سامنے کھڑا تھا۔

    احمد نے خوش ہو کر کہا آؤ اندر آ جاؤ بیٹھو کیسے تشریف لائے؟ بہت دنوں بعد ملاقات ہوئی۔ وہ تھکا تھکا سا خیر و عافیت دریافت کرتا ہوا لکڑی کی ایک پرانی سی کرسی میں ڈوب کر بیٹھ گیا اس کے چہرے پر تھکن کے آثار نمایاں تھے سچ یہی ہے کہ چہرہ نام کی کوئی چیز اب اس کے چہرے پر نہیں تھی اس کے گھنے بھنوؤں کے اندر سے لمبے لمبے سفید بال آنکھ کی پتلیوں پر جھول رہے تھے۔ مونچھ داڈھی شاید اس نے مہینوں سے نہیں بنائی تھی کوئی ڈھنگ کا کپڑا اس کے بدن پر نہیں تھا۔ اس کے پھٹے پرانے خستہ حال جوتے کے اندر سے اس کا انگوٹھا جھانک رہا تھا۔ کسی آڑی ترچھی بگڈنڈی کی مانند جھریاں ڈوبتی ابھرتی ہوئی اسکی ٹھڈی پر آکر ختم ہو رہی تھیں، الجھے سے بال، پریشان آنکھیں، کانپتے ہاتھ، لڑکھڑاتے قدم، لرزتے ہونٹ احمد اسے بغور دیکھتا رہا اسے دیکھ کر اس کے ذہن میں کسی پر خطر اور مخدوش حویلی کی یاد تازہ ہو گئی۔

    تھوڑا دم لینے کے بعد چندو کھانستے ہوئے کہنے لگا بہت دنوں سے ملاقات کی خواہش تھی پچھلی بار تم آئے تھے لیکن میں اسپتال میں بھرتی تھا، دمے کا مریض ہو گیا ہوں اب مجھ سے کوئی کام بھی نہیں ہوتا، کوئی اس بوڑھے کو کام پر رکھتا بھی نہیں۔ چند دنوں قبل پتہ چلا تم عید میں آنے والے ہو، آج بھائی کی معرفت معلوم ہوا تم آئے ہوئے ہو، بس فورآ ہی ملنے چلا آیا۔ عید کی نماز میں نظر نہیں آئے؟ میں نے سوچا ظہر میں مسجد آؤ گے؟ تمہارا پتہ نہیں چلتا کب آتے ہو کب چلے جاتے ہو؟ اس لیے نماز بعد ادھر ہی آ گیا تکلیف کے لیے معافی چاہتا ہوں اس نے سلسلہ وار بول کر اپنی بات ختم کی، اسکول کے زمانے سے ہی یہ اس کی پرانی عادت تھی۔

    تھوڑی دیر وہ خاموش رہا، تب تک چائے آ چکی تھی چائے کی چسکی لے کر پہلو بدلتے ہوئے کہنے لگا خدا نے تمہیں بہت دیا ہے اس لیے ایک حاجت لے کر تمہارے پاس حاضر ہوا ہوں کہتے کہتے کھانسی پھر اٹھی وہ قدرے رک سا گیا۔ کوئی بات نہیں بلا جھجھک کہو اور گھر کی خیر خیریت بھی بتاؤ اور سب کیسی گزر رہی ہے کیا چل رہا ہے؟ اس نے ایک لمحے کا توقف کیا پھر رک رک کر کہنے لگا سب ٹھیک ہی ہے غربت و افلاس کی زندگی کے کیا حال احوال سنائیں سانس چلتی رہتی ہے ہم بھی اس کا ساتھ نبھاتے رہتے ہیں اور زندگی کے ساتھ بھاگتے رہتے ہیں کہتے کہتے اسکی سانس پھول گئی پھر کھانستے ہوئے پانی کے دو چار گھونٹ پی کر کہنے لگا بیٹی کا رشتہ پکا ہو گیا ہے جہیز کا کچھ سامان جوڑنا تھا گاؤں میں بڑے ہاتھ پیر مارے لیکن کچھ حاصل نہ ہوا مسجدوں میں پانچ وقت حاضری لگانے والے خدا کو بار بار سجدہ کرنے والے، اسے حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنے والوں نے بھی ایک نہ سنی، الا ماشاء اللہ۔

    اگر تم پچاس ہزار قرض مجھے دے دو تو امانت کا یہ بار اتار پھینکوں تمہیں بڑا ثواب ملے گا۔ یہ مت سوچنا کہ اتنی بڑی رقم میں ادا نہیں کر پاؤں گا۔ عالیہ کی شادی کے بعد مکان بیچ دوں گا اس کے بعد گھر کا کرنا بھی کیا ہے جسے بیچوں گا اس سے بس اتنی سی اجازت طلب کر لوں گا کہ دالان کے ایک کونے میں ایک چارپائی ڈال دے اور رات گزارنے کا سہارا مل جائے کسی رات کھانستے کھانستے زندگی کو الوداع کہہ دوں گا کفن دفن کا انتظام تو گاؤں والے کر ہی دیں گے؟ مردے کو کون بھلا اپنے گھر پر رکھتا ہے؟ مرنے والے کو کیا خبر اس کے ساتھ کیا ہوا؟ اس کے ہر جملے تیر و نشتر کی مانند دل پر چبھتے جا رہے تھے مفلسی و محتاجی کو اس نے پہلی بار بہت قریب سے دیکھا تھا۔ پچاس ہزار کیا چیز تھی چندو کی بے بسی تنگ دستی غربت و افلاس اور اسکی شرافت نفسی کے آگے اس وقت وہ اپنا دل بھی نکال کر اسے دے دیتا اس کے لہجے میں اعلی نسبی کی بو تھی۔ اس راست بیانیہ کی منظر نگاری قابل تعریف تھی جس کا اختتام ہر قسم کے تجسس سے پاک تھا اس وقت وہ اس کی نظر میں ایک حقیقی افسانہ نگار تھا۔

    وقت گزرتا رہا احمد کو دہلی میں چھوٹے بھائی کی معرفت پتہ چلا عالیہ کی شادی ہو گئی ہے وہ اپنے سسرال جا چکی ہے۔ چندو اب کوئی چھوٹا موٹا کام دھندا کر لیتا ہے اب اس کے چہرے کی جھریاں بھر رہی ہیں جھکی ہوئی کمر تن گئی ہے اس کے لڑکھڑاتے قدم میں پہلے کی بنسبت استقامت پیدا ہو گئی ہے اس کا حلیہ بھی قدرے درست ہو گیا ہے اب اس کا چہرہ پہلے کی طرح ہی اس کا چہرہ لگنے لگا ہے اس کی مرجھائی ہوئی شکل پر بشاشت کے آثار نمودار ہونے لگے ہیں۔

    احمد بے خبر اپنے کام میں لگا رہا۔ آج ایک سال بعد وہ گاؤں آیا تھا عید میں چندو نے پیسہ واپس کرنے کی بات کی تھی چندو کیا پیسہ واپس کریگا؟ لیکن اس بہانے وہ اس سے ملاقات کا متمنی تھا۔ بھائی نے اسے بتایا کہ وہ آج کل بہت زیادہ بیمار ہے اس کی بیٹی اپنے سسرال سے کئی بار مار پیٹ کر واپس بھیج دی گئی ہے۔ یہ سن کر اس کے دل کی حالت اس ناؤ کی طرح ہو گئی جس کا مانجھی بھنور میں اپنا پتوار گنوا بیٹھا ہو، ناشتہ سے فارغ ہو کر وہ جانے کی تیاری میں بیٹھا ہی تھا کہ کسی نے آکر خبر دی چندو چاچا نہیں رہے۔ وہ بھاگا ہوا اس کے گھر گیا تجہیز و تکفین کا انتظام کرنے کے بعد رنجیدہ طبیعت لیے ہوئے گھر آ کر لیٹ گیا۔

    بعد نماز عصر احمد مسجد کے دروازے پر مغموم چہرہ لیے ہوئے کھڑا تھا تبھی چند آدمی میت کو لے کر گلی کے نکڑ سے نکلے۔ لوگ جنازے کو باری باری کاندھا دے رہے تھے کسی نے اس کے کان میں آہستہ سے کہا سنتے ہیں قرض لے کر بغیر ادا کئے مر جانے والے کی میت بھاری ہو جاتی ہے احمد نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھا اور اس کی آنکھوں میں جھانکا۔ اس نے سرگوشی کرتے ہوئے کہا ایسا میں نہیں کہتا ہوں مولانا صاحب کہہ رہے تھے۔ کون مولانا صاحب؟ اس نے تجسس بھرے لہجے میں پوچھا۔ مسجد کے امام صاحب اور کون؟ جمعہ کے خطبہ میں بول رہے تھے۔

    مجھے بھی کاندھا دینا تھا اس نے چند قدم آگے بڑھ کر چارپائی کا اگلا سرا پکڑ لیا جنازہ کاندھے پر رکھتے ہی میت کے بوجھ سے وہ یک لخت جھکا اس کے قدم لڑکھڑانے لگے اس کے دوست نے پیچھے سے فوراً ہی لکڑی کا کندا پکڑ کر سنبھالتے ہوئے کہا تم اکہرے بدن کے آدمی اور کہاں یہ بھاری لاش؟ میں کہہ نا رہا تھا کہ جنازہ بھاری ہے؟ اس کا سارا علم اور پوری ذہانت بیک وقت کند ذہنی کی چپیٹ میں آ گئی۔ کیا واقعی قرضدار کی میت بھاری ہو جاتی ہے؟ اس نے دل میں سوچا اور ذہن پر زور ڈالتے ہوئے آن کی آن میں کئی سو اوراق کی ورق گردانی کر ڈالی لیکن کچھ پلے نہ پڑا، پھر من ہی من کہنے لگا ہاں میت بھاری تو ہوگی ہی معاشرے کا ظلم سہتے سہتے قرض داروں کی دھمکیاں سنتے سنتے ظالموں کی تیکھی اور تلخ باتوں کو پیتے پیتے، غریب بیٹی کا باپ جو ٹھہرا؟

    میت قبرستان میں رکھی جا چکی تھی قبر بالکل تیار تھی ایک لحیم شحیم آدمی قبر میں اترا دوسرے کا انتظار تھا۔ چندو کی شخصیت اس کی صاف گوئی اور محبت میں بڑی کشش تھی وہ اس کا بڑا ہی قریبی اور عزیز دوست تھا وہ جلدی سے قبر میں اتر گیا۔ اس کے دوست نے اسے روکنے کی کوشش کی جس نے جنازہ کو کاندھا دیتے وقت اسے سنبھالا تھا اس نے اسے نظر انداز کر دیا۔ دو لوگ کفن کے ایک ٹکڑے کو پیٹھ میں لگا کر آگے پیچھے سے میت کو نیچے اتارنے میں ان دونوں کی مدد کر رہے تھے میت کا منھ احمد کی طرف تھا اچانک لاش سرک کر اس کے سینے سے لگ گئی وہ یک لخت پیچھے کو ہٹا اور قبر کی دیوار سے چمٹ گیا۔

    یکایک ایک غنودگی نے اسے اپنی آغوش میں دبوچ لیا چندو کے چہرے کی جانب سے کفن کا ایک سرا اچانک کھل گیا چندو نے آنکھیں کھول دی تھیں اس نے احمد کو غور سے دیکھا اور کہا مجھے معاف کر دینا میں تمہارا قرض ادا نہ کر پایا وعدہ خلافی ہو گئی موت نے بالکل ہی کچھ کہنے سننے کی فرصت نہ دی اپنا حساب بروز حشر کے لیے نہ رکھنا میں نے مکان رہن کر دیا تھا کہ تمہارا اور گاؤں والوں کا قرض موت کے پہلے اتار دوں گا پتہ نہیں اب وہ تمہیں پیسہ دیں گے یا نہیں؟

    میں بیٹی پیدا کرنے کا گنہگار تھا اس قرض کو میں نے کئی بار چکایا تمہیں کچھ پتہ بھی ہے عالیہ کئی بار اپنے سسرال سے واپس آئی مار کھانا گالی سننا تکلیف سہنا جہیز اور غربت کے طعنے ہی اس کی سوغات تھے بڑا کم ظرف داماد ملا پھر اس کی ماں اور بہنیں؟ میں ہر بار گھر کا کوئی نہ کوئی اثاثہ بیچ کر اور منت سماجت کر کے بیٹی کو اس کے گھر چھوڑ آتا لیکن اس بار اس کا شوہر یہ کہتے ہوئے اسے میرے گھر چھوڑ گیا کہ اب وہ یہیں رہیگی۔ میں نے گھر میں بہت تلاش کیا بیچنے لائق کوئی سامان بچا ہی نہیں تھا جسے فروخت کر کے دوبارہ اسے اس کے گھر بھیج دیتا۔ میں بہت زیادہ صدمات اٹھا چکا تھا عمر زیادہ ہو گئی تھی اس لیے جلد بازی میں اس کی شادی کر دی، جلدی میں کیے ہوئے اکثر کام غلط ہو جاتے ہیں۔ رہن سے ملا ہوا تھوڑا پیسہ میری بیماری پر خرچ ہو گیا کچھ شدید تقاضہ کرنے والوں کے قرض بھی چکائے جو روز ڈانٹ ڈپٹ کرتے تھے میری بیٹی کا گھر اجڑ گیا ساتھ ساتھ میرا آشیانہ بھی بک گیا بس یہی سوچتے سوچتے سانس اکھڑ گئی۔ سب اپنا اپنا قرض بروز حشر مجھ سے وصول کریں گے لیکن تم تو مالدار ہو مجھے جیتے جی معاف کر دینا زکوۃ کی رقم سمجھ کر ہی سہی، کیوں کہ میں اس کا سب سے زیادہ حقدار تھا تاکہ میری میت کا بوجھ کچھ کم ہو جائے تم نے لوگوں کی گفتگو سنی ہی ہوگی؟

    وہ ایک ساعت ہزار ساعتوں کی مانند تھی جب اس کی آنکھ کھلی لوگ اسے قبر کے اندر سے اوپر کو کھینچ رہے تھے اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا کہ اچانک یہ سب کیا ہوا اس نے اپنا ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہا رکو رکو اور سنو۔ میت واقعی بھاری تھی بھاری بھرکم لاش کی مانند؟ وہ اسے سنبھال نہیں پایا اپنے سینے پر میت کو روکے ہوئے رو پڑا اور قبر میں کھڑے کھڑے اعلان کیا چندو نے جس کسی سے قرض لیا ہے وہ اس کا پورا ذمہ دار ہے بعد تدفین میرے گھر آکر ایمانداری سے اپنا اپنا پیسہ وصول کر لینا اور ہاں رہن میں رکھے ہوئے چندو کے گھر کا پیسہ بھی مجھ سے لے لینا عالیہ کو کوئی اس کے باپ کے گھر سے نہ نکالے۔

    اتنا کہتے ہی لاش اچانک ہلکی ہو گئی اس نے آگے پیچھے کفن کا کپڑا کمر کے نیچے لگائے ہوئے دونوں لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا کپڑا ذرا ڈھیلا کرو ان میں سے ایک بوڑھے شخص نے اسے حیرت سے دیکھا اور کہا ابھی ابھی چند ساعت قبل تم پر بے ہوشی کا غلبہ طاری ہو گیا تھا ہم سب ایک لمحے کو انتہائی غمگین ہو گئے اب خوش ہیں کہ تم چندو کا قرض ادا کروگے خدا تمہیں سلامت رکھے۔

    احمد کے اس دوست نے قبر کی لکڑی کا ایک تختہ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا میں نے اس وقت قبر میں اترتے ہی تم سے کہا تھا کہ میت بھاری ہے اور تم اکہرے بدن کے آدمی ہو لیکن تم زبردستی قبر میں اتر آئے۔ احمد نے دل ہی دل میں کہا ہم سب اکہرے بدن کے لوگ کمزوروں کی مدد نہ کر کے اور اس پر مزید بوجھ ڈال کر اسے دہرا بنا ڈالتے ہیں یہ کہتے ہوئے وہ قبر سے نکل آیا۔ چندو اپنے قرض کا بوجھ دنیا میں ہی اتار کر اپنے آخری سفر پر روانہ ہو چکا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے