Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

قصبے کا ڈاکٹر

فرانز کافکا

قصبے کا ڈاکٹر

فرانز کافکا

MORE BYفرانز کافکا

    میں بڑی الجھن میں تھا۔ دس میل دور کے ایک گاؤں میں ایک بہت بیمار مریض میری راہ دیکھ رہا تھا۔ میرے اور اس کے درمیان کے تمام وسیع خلاؤں کو تیز برفانی طوفان نے پر کر رکھا تھا۔ میرے پاس ایک گھوڑا گاڑی تھی، یہ بڑے پہیوں والی ہلکی گاڑی تھی جو ہماری دیہاتی سڑکوں کے لیے بالکل مناسب تھی۔

    میں پوستین میں لپٹا ہوا، آلات کا بیگ سنبھالے، چلنے کے لیے بالکل تیار صحن میں کھڑا ہوا تھا مگر کوئی گھوڑا نہیں مل رہا تھا، کوئی گھوڑا نہیں۔ میرا اپنا گھوڑا ان برفیلے جاڑوں کی تکان سے نڈھال ہوکر گزشہ رات کو مرگیا تھا۔ میری خادمہ لڑکی اب گاؤں بھر میں بھاگتی پھر رہی تھی کہ کہیں سے کوئی گھوڑا مانگے مل جائے، لیکن محض بے کار، یہ میں جانتا تھا اور بے بسی کے عالم میں کھڑا ہواتھا۔ میرے اوپر برف کی تہوں پر تہیں جمتی چلی جارہی تھیں اور میرا جنبش کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا تھا۔

    لڑکی پھاٹک میں داخل ہوتی دکھائی دی، اکیلی، اور اس نے لالٹین لہرادی، ظاہر ہے ایسے وقت میں ایسے سفر کے لیے کون اپنا گھوڑا دیتا؟ میں ایک بار پھر لپکتا ہوا صحن سے نکلا، مجھے کوئی چارہ کار نظر نہ آتا تھا۔ میں نے بوکھلاہٹ میں سوروں کا باڑا، جو ایک سال سے خالی پڑا تھا، اس کے ٹوٹے پھوٹے دروازے پر ایک ٹھوکر ماری۔ دروازہ دھڑ سے کھل گیا اور اپنے قلابوں پر ادھر اُدھر گھومنے لگا۔ اس میں سے گھوڑے کی بدن کی سی بو کا بھپکا باہر نکلا۔ ا ندر اصطبل کی ٹمٹماتی ہوئی لالٹین ایک رسی میں جھول رہی تھی۔ اس تنگ نیچی جگہ میں گھٹنوں کے بل دبکے ہوئے ایک آدمی کا نیلی آنکھوں والا کشادہ چہرہ نظر آیا۔

    ’’گھوڑے جوت دوں؟‘‘ اس نے رینگ کر باہر آتے ہوئے پوچھا۔

    میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کہوں، میں محض یہ دیکھنے کے لیے جھک گیا کہ باڑے کے ا ندر اور کیا کیا ہے۔ خادمہ لڑکی میرے برابر ہی کھڑی ہوئی تھی۔

    ’’آپ کو تو کبھی پتا نہیں ہوتا کہ آپ کو خود اپنے گھر میں کیا ملنے جارہا ہے۔‘‘ وہ بولی اور ہم دونوں ہنس پڑے۔

    ’’او بھائی صاحب! او بہن جی!‘‘ سائیس نے ہانک لگائی اور دو گھوڑے، مضبوط پٹھے والے زبردست جانور، ٹانگیں جسموں میں بالکل سمٹی ہوئیں، دونوں کے خوب صورت سر اونٹ کے سر کی طرح نیچے کو لٹکے ہوئے، فقط اپنی پچھاڑیوں کے بل پر کھسکتے ہوئے، دروازے کی تنگ جگہ میں بھنچ کر آگے پیچھے باہر نکلے۔ لیکن باہر آتے ہی وہ اٹھ کھڑے ہوئے، ان کی ٹانگیں بڑھ کر سیدھی ہوگئیں اور بدن پھڑکنے لگے۔

    ’’اس کا ہاتھ بٹاؤ۔‘‘ میں نے کہا اور لڑکی مستعدی کے ساتھ گھوڑوں پر ساز چڑھانے میں سائیس کی مدد کرنے کو لپکی، لیکن وہ اس کے پاس پہنچی ہی تھی کہ سائیس نے اسے دبوچ لیا اور اپنا چہرہ اس کے چہرے سے بھڑا دیا۔ وہ چیخ پڑی اور میرے پاس بھاگ آئی۔ اس کے رخسار پر دانتوں کی دوقطاروں کے سرخ نشان ابھرآئے تھے۔

    ’’جنگلی کہیں کا۔‘‘ میں غضبناک ہوکر دہاڑا، ’’کیا چابکیں کھانے کو جی چاہ رہا ہے؟‘‘ لیکن اسی لمحے مجھے خیال آگیا کہ یہ آدمی اجنبی ہے۔ میں جانتا بھی نہیں کہ یہ کہاں سے آگیا ہے اور یہ کہ ایسے وقت میں جب اور سب لوگ جواب دے چکے ہیں، یہ اپنی خوشی سے میری مدد کر رہا ہے۔ اس کو جیسے میرے خیالات کی خبر ہوگئی، اس لیے کہ اس نے میری تہدید کا ذرا بھی برا نہ مانا بلکہ اسی طرح گھوڑے کسنے میں لگا رہا اور بس ایک بار وہ میری طرف مڑا۔

    ’’بیٹھیے۔‘‘ تب اس نے کہا، اور واقعی سب تیار تھا۔ میں نے دیکھا گھوڑوں کی ایسی شاندار جوڑی کبھی میری سواری میں نہیں آئی تھی اور میں خوشی خوشی گاڑی میں بیٹھا۔

    ’’لیکن میں چلاؤں گا، تمہیں راستہ نہیں معلوم۔‘‘ میں نے کہا۔

    ’’بالکل۔‘‘ وہ بولا، ’’میں آپ کے ساتھ چل ہی نہیں رہا ہوں۔ میں روز کے پاس رہوں گا۔‘‘

    ’’نہیں!‘‘ روز اس دھڑکے کے ساتھ کہ اس کی شامت آکر رہے گی، چیختی ہوئی گھر کے اندر بھاگ گئی۔ میں نے اس کے دروازہ بند کرکے کنڈی چڑھانے کی کھڑکھڑاہٹ سنی، میں نے قفل میں کنجی گھومنے کی آواز سنی۔ مزید برآں میں دیکھ رہا تھا کہ کس طرح وہ بھاگتے میں ڈیوڑھی اور دوسرے کمروں کی روشنیاں بجھاتی جارہی تھی تاکہ پکڑے جانے سے بچ سکے۔

    ’’تم میرے ساتھ چل رہے ہو۔‘‘ میں نے سائیس سے کہا، ’’ورنہ میں نہیں جاتا، میرا جانا ضروری ہی سہی، لیکن میں اس کی یہ قیمت تو دینے سے رہا کہ لڑکی کو تمہارے حوالے کردوں۔‘‘

    ’’ہررُر۔۔۔‘‘ اس نے کہا۔ تالی بجائی اور گاڑی ہوا ہوگئی، جیسے باڑھ پر آئے ہوئے دریا میں لکڑی کا لٹھا۔ میں بس سائیس کے دھاوے سے اپنے گھر کا دروازہ چرچراکے ٹوٹنے کی آواز ہی سن پایااور پھر طوفان نے میرے حواس پر گھونسے مار مارکر مجھے بہرا اور اندھا کردیا۔ لیکن یہ صرف ایک لمحے کے لیے، کیوں کہ، یوں جیسے میرے مریض کا باڑا میرے احاطے کے دروازے سے ملحق ہوگیا ہو، میں وہاں پہنچا ہوا تھا۔ گھوڑے چپ چاپ کھڑے تھے، طوفان تھم چکاتھا۔ چاندنی سارے میں پھیلی ہوئی تھی۔ میرے مریض کے ماں باپ لپکتے ہوئے گھر سے باہر نکلے، اس کی بہن ان کے پیچھے پیچھے۔

    مجھ کو گاڑی میں سے قریب قریب اٹھالیا گیا، ان کی بہکی بہکی باتوں کا ایک لفظ بھی میری سمجھ میں نہ آیا۔ بیمار کے کمرے کی ہوا میں سانس لینا مشکل تھا، آتش دان پڑا دھواں دے رہا تھا۔ میں نے چاہا کہ کوئی کھڑکی کھول دوں لیکن پہلے مجھے اپنے مریض کو دیکھنا پڑا۔ سوکھا، سہما، بخار بالکل نہیں، بدن نہ ٹھنڈا نہ گرم، آنکھیں خالی خالی، جسم قمیص سے محروم۔ اس نوجوان نے پروں کی رضائی کے نیچے سے خود کو ابھارا، اپنے بازو میری گردن میں حمائل کردیے اور چپکے سے میرے کان میں کہا،

    ’’ڈاکٹر! مجھے مرجانے دو۔‘‘

    میں نے کمرے میں چاروں طرف دیکھا۔ کسی نے یہ بات سنی نہیں تھی۔ ماں باپ خاموشی سے آگے جھکے ہوئے انتظار کر رہے تھے کہ میں کیا بتاتا ہوں۔ بہن نے میرے ہینڈ بیگ کے لیے ایک کرسی لگادی تھی۔ میں بیگ کھول کر اپنے آلات ٹٹولنے لگا۔ نوجوان اپنی درخواست کی یاددہانی کے لیے اپنے پلنگ پر سے مجھے جکڑے ہوئے تھا۔ میں نے ایک موچنا اٹھایا، شمع کی روشنی میں اس کا جائزہ لیا اور پھر واپس رکھ دیا۔

    ’’ہاں۔‘‘ میں نے کافرانہ انداز میں سوچا، ’’ایسی حالت میں دیوتا کام آتے ہیں، کھویاہوا گھوڑا بھیج دیتے ہیں، عجلت کی وجہ سے اس کے ساتھ ایک کا اضافہ کردیتے ہیں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک عدد سائیس بھی عطا کرتے ہیں۔‘‘ اور اب جاکر مجھے روز کا پھر خیال آیا، میں کیا کروں، میں اسے کیوں کر بچاؤں، ایسے گھوڑے لے کر جو میرے قابو کے نہیں ہیں، میں دس میل کے فاصلے پر اسے اس سائیس کے نیچے سے کس طرح گھسیٹ لوں۔ یہ گھوڑے، کسی طرح اب انہوں نے اپنی باگیں ڈھیلی کرلی تھیں، باہر سے ڈھکیل کر کھڑکیاں کھول دی تھیں، نہیں معلوم کس طرح، دونوں اپنا اپنا سر ایک کھڑکی میں ٹھونسے ہوئے تھے، اور گھروالوں کی تحیر زدہ چیخوں سے بے نیاز کھڑے مریض کو تک رہے تھے۔

    ’’بہتر ہے کہ فوراً واپس چلاجائے۔‘‘ میں نے سوچا، جیسے گھوڑے مجھے واپسی کے سفر کے لیے بلارہے ہوں، تاہم میں نے مریض کی بہن کو، جو سمجھ رہی تھی کہ مجھے گرمی سے چکر آگیا ہے، اپنا سموری کوٹ اتارلینے دیا۔ رم کا ایک گلاس میرے لیے بھرا گیا۔ مریض کے باپ نے میرا کندھا تھپتھپایا، مجھے اپنا خزانہ بخش کر وہ اس بے تکلفی کا مجاز ہوگیا تھا۔ میں نے سرہلاکر انکار کردیا۔ اس بڈھے کے ذہن کی تنگناے میں یہ خیال سما گیا تھا کہ میری طبیعت خراب ہے۔ چنانچہ شراب پینے سے میرے انکار کا یہی ایک سبب تھا، ماں بستر کے پاس کھڑی تھی اور مجھے وہاں آنے کے لیے پرچا رہی تھی۔ مجھے جھکنا پڑا۔

    ایک گھوڑا چھت کی طرف منھ کرکے زور سے ہنہنایا اور میں نے نوجوان کے سینے پر اپنا سر رکھ دیا۔ اس کا سینہ میری گیلی ڈاڑھی کے نیچے زور زور سے ہلنے لگا۔ جو بات مجھے پہلے ہی معلوم تھی، اس کی میں نے تصدیق بھی کرلی، نوجوان بالکل ٹھیک تھا۔ اس کے دورانِ خون میں ایک ذرا سی گڑبڑتھی، فکر کی ماری ماں نے اسے کافی سے بھر رکھاتھا، لیکن وہ بالکل ٹھیک تھا اور سب سے بہتر یہ ہوتا کہ اسے دھکا دے کر بستر کے باہر کردیا جاتا۔ میں مصلح عام نہیں ہوں اس لیے میں نے اسے پڑا رہنے دیا۔

    میں ضلعے کا ڈاکٹر تھا اور امکانی حدتک اپنا فرض بجالاتا تھا، اس حد تک کہ یہ فرض قریب قریب ناقابل برداشت ہوجاتا تھا۔ مجھے بہت کم معاوضہ ملتا تھا، پھر بھی میں مریضوں پر شفقت کرتا اور ان کے کام آتا تھا۔ ابھی تو مجھے روز کی سلامتی کی تدبیر کرنا تھی، پھر نوجوان جس طرح چاہتا، رہ سکتا تھا اور میں بھی مرسکتا تھا۔ میں وہاں اس لامتناہی جاڑے میں کیا کر رہا تھا۔ میرا گھوڑا مرگیا تھا اور گاؤں کا کوئی متنفس مجھے دوسرا گھوڑا مستعار دینے پر تیار نہ تھا۔ مجھے اپنی جوڑی سور باڑے میں سے نکالنا پڑی، اگر کہیں یہ جوڑی گھوڑوں کی نہ نکلی ہوتی تو مجھے خنزیر کی سواری کرنا پڑتی۔ یہ حالت تھی۔ اور میں نے اس کنبے سے ہاں کردی۔ ان لوگوں کو اس بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا، اور اگر معلوم بھی ہوجاتا تو انہیں اعتبار نہ آتا۔

    نسخے لکھنا آسان ہے لیکن لوگوں سے مفاہمت دشوار ہے، خیر، اب مجھے چل دینا چاہیے تھا، ایک بار پھر مجھے بلاضرورت بلوالیا گیا تھا، میں اس کا عادی تھا، ضلعے بھرنے میرے دروازے کی گھنٹی بجابجاکر میرا جینا عذاب کردیا تھا، لیکن یہ کہ اس بار مجھے ساتھ میں روز کو بھی بھینٹ چڑھانا ہوگا۔ وہ حسین لڑکی جو برسوں سے میرے گھر میں رہتی آئی تھی اور میں اس سے قریب قریب بے خبر تھا۔ یہ قربانی بہت زیادہ تھی، اور مجھے کسی بھی طرح اپنے ذہن میں اس کی کوئی نہ کوئی تاویل کرنا تھی تاکہ اچانک میرا غصہ اس خاندان پر نہ اترے جو اپنی بہترین خواہشوں کے باوجود میرے لیے روز کو نہیں لاسکتا تھا۔ لیکن جب میں نے اپنا بیگ بند کیا اور اپنا سموری کوٹ پہننے کے لیے ہاتھ بڑھایا، اس دوران میں خاندان کے سب لوگ ساتھ مل کر کھڑے رہے تھے۔

    باپ اپنے ہاتھ والے رم کے گلاس کو سونگھ رہا تھا، ماں بظاہر مجھ سے مایوس ہوکر۔۔۔ لوگ نہ جانے کیا کیا امیدیں باندھ لیتے ہیں۔۔۔ آنکھوں میں آنسو بھرے اپنے ہونٹ چبارہی تھی۔ عین ایک خون میں تربہ تر رومال کو جھٹک رہی تھی، تب کسی طرح میں مشروط طور پر یہ ماننے کو تیار ہوگیا کہ باایں ہمہ ہوسکتا ہے کہ نوجوان بیمار ہو۔ میں اس کی طرف بڑھا۔ اس نے مسکراتے ہوئے میرا خیرمقدم کیا، گویا میں اس کے لیے نہایت قوت بخش پرہیزی یخنی لا رہا ہوں۔

    اُف، اب دونوں گھوڑے ایک ساتھ ہنہنارہے تھے، یہ آواز میں سمجھتا ہوں کہ مریض کے معائنے میں مدد دینے کے لیے آسمان سے مقدر ہوئی تھی۔ اور اس بار مجھے پتہ چلا کہ نوجوان واقعی بیمار تھا، اس کے داہنے پہلو میں کولہے کے قریب میری ہتھیلی کے برابر کھلا ہوا زخم تھا، مختلف طرح کے ہلکے اور گہرے سرخ رنگ کا، گہرائی میں گہرا سرخ، کناروں پر ہلکا سرخ، کچھ کچھ کھڑانڈ آیا ہوا، خون کے بے ترتیب لختے جمے ہوئے، یوں کھلا ہوا جسے دن کی روشنی میں مسطح کان۔ ایسا تو وہ کچھ فاصلے سے دکھائی دے رہا تھا لیکن قریب سے جائزہ لینے پر ایک او رپیچیدگی نظر آئی۔

    میں حیرت کے مارے آہستہ سے سیٹی بجائے بغیر نہ رہ سکا۔ کیڑے میری چھنگلیاں کے اتنے موٹے اور لمبے، خود گہرے سرخ رنگ کے اور ان پر خون کی چتیاں بھی پڑی ہوئی، چھوٹے چھوٹے سفید سر اور بہت سی منی منی ٹانگیں، زخم کی گہرائی میں بنائے ہوئے اپنے گھر سے نکل نکل کر کلبلاتے ہوئے روشنی کی طرف چلے آرہے تھے۔ بے چارہ نوجوان، اس کا علاج ممکن نہ تھا، اس کے پہلو کا یہ شگوفہ اسے ختم کیے دے رہا تھا۔ گھروالے خوش تھے، انہوں نے مجھے اپنے کام میں لگتے دیکھا، بہن نے ماں کو بتایا، ماں نے باپ کو بتایا، باپ نے اُن ڈھیر بھر مہمانوں کو بتایا جو کھلے ہوئے دردازے پر پڑتی ہوئی چاندنی میں سے ہو ہو کر پنجوں کے بل چلتے ہوئے اور توازن قائم رکھنے کے لیے دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے اندر آرہے تھے۔

    ’’تم مجھے بچالو گے؟‘‘ نوجوان نے سسکی بھر کر سرگوشی کی۔ میرے ضلعے کے لوگ اسی طرح کے ہیں، ڈاکٹر سے ہمیشہ ناممکنات کی توقع کرنے والے۔ وہ اپنے قدیم معتقدات کو ہاتھ سے کھوچکے ہیں، پادری گھر میں بیٹھا رہتا ہے اور ایک ایک کرکے اپنی عبا قبا وغیرہ اتارا کرتا ہے، لیکن ڈاکٹر اور اس کے دست شفا کو قادرِمطلق ٹھہرایا جاتا ہے۔ خیر، جو اُن کی مرضی، میں نے اُن پر کوئی اپنی خدمات مسلط تو کی نہیں ہیں، اگروہ کسی کار خیر کے لیے نیک نیتی کے ساتھ مجھ پر زیادتی کرتے ہیں تو میں بھی اپنے ساتھ یہ سلوک ہونے دیتا ہوں۔ مجھ بوڑھے قصباتی ڈاکٹر کو جس سے اس کی ملازمہ چھین لی گئی ہو، اس سے بڑھ کر اور کیا چاہیے۔ اور اس لیے وہ لوگ آئے، گھروالے اور گاؤں کے بڑے بوڑھے، اور میرے کپڑے اتارنے لگے۔ مکان کے سامنے ایک اسکول کی کورس پارٹی ٹیچر کی سربراہی میں یہ بول نہایت ہی سادہ دھن میں گانے لگی،

    اس کے کپڑے اتار لو، تب ہی یہ ہمارا علاج کرے گا

    اور اگر نہ کرے، اسے مار کے ڈال دو!

    جراح ہی تو ہے، جراح ہی تو ہے۔

    تب میرے کپڑے اترگئے اور میں ان لوگوں کی طرف خاموشی سے دیکھنے لگا۔ میری انگلیاں میری داڑھی میں تھیں اور میرا سر ایک طرف کو ڈھلکا ہوا تھا۔ میرے اوسان بالکل بجا تھے اور میں اس صورت حال کا سامنا کرسکتا تھا اور کرتا رہا۔ بہرحال میرے لیے اور کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ اس لیے کہ اب ان سب نے مجھے سر اور پیروں سے پکڑ لیا تھا اور مجھے بستر کی طرف لیے جارہے تھے۔ انہوں نے مجھ کو بستر پر دیوار سے ملاکر لٹادیا، زخم کی جانب۔ پھر وہ سب کمرے سے نکل گئے اور دروازہ بند کردیا گیا۔ گانا رک گیا، ۔۔۔ بادلوں نے چاند کو ڈھک لیا۔ بستر میرے گرد گرم تھا، کھلی ہوئی کھڑکیوں میں گھوڑوں کے سر پر چھائیوں کی طرح ہل رہے تھے۔

    ’’تمہیں پتا ہے۔‘‘ ایک آواز نے میرے کان میں کہا، ’’مجھے تمہارے اوپر بہت کم بھروسا ہے۔ تمہیں یہاں لاکر پھینک دیا گیا ہے، تم اپنے پیروں سے تھوڑی آئے ہو۔ میرے کام آنے کے بجائے تم مجھے میرے بستر مرگ پر پیسے ڈال رہے ہو۔ میرا جی تو یہی چاہ رہا ہے کہ تمہاری آنکھیں کھرچ کر نکال لوں۔‘‘

    ’’درست!‘‘ میں نے کہا، ’’بات تو بڑے شرم کی ہے۔ اور میں پھر بھی ڈاکٹر ہوں۔ میں کیا کروں؟ یقین کرو، مجھے خود بھی کوئی بہت اچھا نہیں لگ رہا ہے۔‘‘

    ’’کیا مجھے بس اس معذرت پر صبر کرلینا ہے؟ اُف مجھے یہی کرنا ہوگا، اس کے سوا میں کچھ نہیں کرسکتا۔ مجھے ہمیشہ سب کچھ جھیلنا پڑتا ہے۔ لے دے کر ایک عمدہ سازخم ہے جو میں دنیا میں لایا ہوں۔ میرے لیے بس اسی کو مقدر کیا گیا ہے۔‘‘

    ’’میرے دوست!‘‘ میں نے کہا، ’’تمہاری غلطی یہ ہے، تمہاری نگاہ میں وسعت نہیں۔ میں دور و نزدیک کے تمام مریضوں کے یہاں جاچکا ہوں، اور میں تم کو بتاتاہوں تمہارا زخم کوئی ایسا بہت خراب نہیں ہے۔ کسی تنگ گوشے میں تیشے کی دو ضربتوں سے آیا ہے۔ بہت سے لوگ اپنا پہلو پیش کردیتے ہیں اور جنگل میں تیشے کی آواز انہیں بمشکل سنائی پڑتی ہے اور اس کا تو انہیں اور بھی کم احساس ہوتا ہے کہ آواز ان کے قریب تر آتی جارہی ہے۔‘‘

    ’’واقعی ایسا ہی ہے یا تم مجھے بخار میں آکر بہکا رہے ہو؟‘‘

    ’’واقعی ایسا ہی ہے، ایک سرکاری ڈاکٹر کی پوری ذمہ داری سے کہی ہوئی بات مانو۔‘‘

    اور اس نے بات مان لی اور چپکا لیٹ رہا۔ لیکن اب میرے لیے فرار کی سوچنے کا موقع تھا۔ گھوڑے ابھی تک اپنی جگہ پر جمے ہوئے کھڑے تھے۔ میں نے جلدی جلدی اپنے کپڑے، اپنا سموری کوٹ، اپنا بیگ اٹھایا، میں کپڑے پہننے میں وقت ضائع کرنا نہیں چاہتا تھا، گھوڑے جس رفتار سے آئے تھے اگر اسی رفتار سے گھر کو واپس جاتے تو مجھ کو فقط اس بستر سے اپنے بستر پر پھلانگ لگادینا تھی۔ ایک گھوڑا بڑی فرماں برداری کے ساتھ کھڑکی سے پیچھے ہٹ گیا۔ میں نے اپنا بنڈل گاڑی میں پھینک دیا۔ سموری کوٹ کا نشانہ چوک گیا اور وہ ایک آنکڑے میں محض آستین سے اٹک کر رہ گیا۔ یہی بہت تھا۔ میں نے خود ایک گھوڑے پر جست لگادی۔ برف میں باگیں گھسٹتی ہوئی، ایک گھوڑا دوسرے کے ساتھ یوں ہی سا بندھا ہوا، پیچھے پیچھے گاڑی ڈگمگاتی ہوئی، میرا سموری کوٹ سب سے پیچھے۔

    ’’ہررُر۔۔۔‘‘ میں نے کہا، لیکن گھوڑوں نے رفتار نہیں پکڑی۔ دھیرے دھیرے فرتوت بوڑھوں کی طرح ہم برفیلے بنجر میں رینگنے لگے۔ ہمارے پیچھے بچوں کا نیا مگر بے محل ترانہ دیر تک گونجتا رہا،

    خوش ہوجاؤ، سب مریضو!

    ڈاکٹر کو تمہارے ساتھ بستر میں لٹا دیا گیا ہے!

    اس رفتار سے میں کبھی گھر نہیں پہنچ سکتا۔ میرا چلتا ہوا مطب چوپٹ ہوگیا ہے، میرا جانشین میرے ساتھ خیانت کر رہا ہے، لیکن بے سود، کیوں کہ وہ میری جگہ نہیں لے سکتا۔ میرے گھر میں گرمایا ہوا سائیس بپھر رہا ہے، روز اس کا شکار ہے، میں اب اس بارے میں اور کچھ سوچنا نہیں چاہتا۔ ننگا، اس بدترین دور کے پالے میں کھلا ہوا، ارضی گاڑی، غیرارضی گھوڑی کی سواری پر، میں اتنا بو ڑھا آدمی، بھٹکتا پھر رہا ہوں۔ میرا سموری کوٹ گاڑی کی پشت پر لٹک رہا ہے مگر میں اس تک پہنچ نہیں سکتا۔ اور میرے گنے چنے مریضوں میں سے کوئی انگلی تک نہیں ہلاتا۔ دغا! دغا! رات کو گھنٹی کی جھوٹی آواز کا ایک بار جواب دے دیا گیا۔ اب اس کی تلافی نہیں ہوسکتی۔ کبھی نہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے