Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

قاصد

MORE BYجی اے کلکرنی

    شہر کی جانب آنے والی شاہراہ پر ایک رتھ برق رفتاری سے چلا آ رہا تھا۔ رتھ پر سمراٹ کا مخصوص نیلا پرچم لہرا رہا تھا۔ جس پر بڑے سے راج ہنس کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ دوارپال نے دور سے رتھ کو آتے ہوئے دیکھ لیا اور جلدی سے دروازے کا بڑا ساارگل ہٹا دیا۔ ارگل کے ہٹاتے ہی شہر پناہ کے اس عظیم الشان دروازے کے دونوں پھاٹک لوہے کے بھاری پنکھوں کی مانند دھیرے دھیرے پیچھے کی جانب کھلتے چلے گئے۔ شہر پناہ میں داخل ہوتے ہوئے بھی رتھ کی تیز رفتاری میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ گھوڑے ہوا سے باتیں کررہے تھے اور سنگی پختہ سڑک پر سفید گھوڑوں کے ٹاپوں سے چنگاریاں سی پھوٹ رہی تھیں۔ سڑک پر چلنے والے لوگ پہلے تو چونکے پھر پلٹ کر رتھ کو دیکھا اور خوف سے دائیں بائیں سمٹ گئے۔ جوں ہی رتھ آگے بڑھا لوگوں کا ہجوم رتھ کے پیچھے دوڑنے لگا۔ ٹھیک شہر کے وسط میں بڑے چوک پر جب رتھ پہنچا سارتھی نے یک بیک پوری قوت سے لگام کھینچ لی۔ لگام کھینچتے ہی پارے کی مانند بےقرارکشادہ آنکھوں والے سفید گھوڑے ہنہناتے ہوئے اپنے پیروں پر کھڑے ہو گئے۔ ان کی گھنی ایالوں والی گردنیں سمندر کی بے چین موجوں کی مانند لمحہ بھر کو اوپر اٹھ گئیں۔ برق آسا گھوڑے رک تو گئے مگر ان کی صبا رفتاری کا جوش ہنوز تمام نہیں ہوا تھا۔ پسینے سے شرابور ان کے جسم ابھی تک کانپ رہے تھے۔

    چوک کے اطراف ہجوم بڑھتا جا رہا تھا۔ ہر شخص رتھ سے قاصد کے اترنے کا بے چینی سے انتظار کرنے لگا۔ چوک کی ایک جانب راج کما ر کا سات پھاٹکوں والا عظیم الشان محل تھا۔ داخلے کے بڑے دروازے پر دونوں جانب سنہرے النکاروں سے سجے چوڑے مستکوں پر سوا ستک کے نشان والے کوہ تن ہاتھی مستی میں ڈول رہے تھے۔ ان کے گلوں میں بندھی گھنٹیاں ایک خاص لے کے ساتھ ٹن ٹن بج رہی تھیں۔ چاروں طرف ایسا زبردست سناٹا تھا کہ اس سناٹے میں ان گھنٹیوں کی آواز کے سوا کوئی دوسری آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ راج کمار کے محل کے سامنے راج پروہت کا مٹھ تھا جس کا دروازہ اتنا بلند تھا کہ آٹھ آدمی ایک دوسرے کے کاندھے پر سوار ہوکر اس سے آسانی کے ساتھ گذر سکتے تھے۔ سفید سنگ مرمر کی سیڑھیوں کا طویل سلسلہ اوپر تک چلا گیا تھا جہاں منقش ستونوں کے پاس دو بھکشو کیسری رنگ کے لباس میں مورتیوں کی مانند ساکت کھڑے تھے۔ ان کی پشت پر مٹھ کا بڑا گول چبوترا خاموشی میں غرق تھا۔ جس کی چھت کے نیچے ایک بھکشو پتے کی مانند آہستہ آہستہ ایک طرف کو جاتا دکھائی دے رہا تھا۔ شاہی قاصد اپنے معمول کے برخلاف بڑی ہڑبڑی میں رتھ سے اترا۔ تبھی اس کے خادموں نے زور زور سے قرنا پھونکنا شروع کر دیا۔ اس آواز سے جیسے خفتہ محل اچانک بیدار ہو گیا اور چاروں طرف سے انسانی شور سنائی دینے لگا۔ اس شور میں ہاتھیوں کو گھنٹیوں کی مدھر آواز دب کر رہ گئی۔ اس کے وسیع و عریض آنگن میں سرخ پوش سپاہی دورویہ قطاروں میں چاق و چوبند گردن جھکائے کھڑے ہو گئے۔ راج کمار سنہرے رنگ کے زرق برق لباس میں انتہائی باوقار اور پرتمکنت انداز میں سیڑھیاں اترنے لگا اور محل کے بڑے دروازے کے پاس آکر رک گیا۔ مٹھ میں بھی کیسری رنگ کی چادریں لپیٹے بھکشو اکٹھا ہونے لگے۔ جنہیں دیکھ کر لگتا تھا زرد رنگ کے پھولوں کی بکھری ہوئی پنکھڑیاں سمٹ کر پھولوں کی ایک مالا میں تبدیل ہو رہی ہیں۔

    راج پروہٹ دبیز ریشمی چادر اوڑھے آہستہ آہستہ سیڑھیاں اترنے لگے۔ ان کی ایک جانب ایک بھکشو جس کے سینے پر مقدس یگیہ کے شعلوں کا نشان تھا اپنے ہاتھ میں ایک عصا لئے چل رہا تھا جس کا اوپری سرا کنول کے پھول سے مشابہ تھا۔ یہ عصا راج پروہت کے وسیع اختیارات کی نشاندہی کرتا تھا۔ دوسرا بھکشو ان کے سر پر ریشمی کیسری رنگ کی چھتری کھولے ان سے دو قدم پیچھے ادب سے چل رہا تھا۔ شاہی قاصد کو یہ دیکھ کر اندر سے فخر کا احساس ہوا کہ وہ اس ہجوم میں ہر خاص و عام کی نگاہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس کے معمر چہرے پر مسرت کی جھلک صاف دکھائی دے رہی تھی۔ وہ ایک شان استغناء کے ساتھ ذرا سا آگے بڑھا اور اس نے راج کمار اور راج پروہت کے سامنے رسماً تھوڑا سا جھک کر انہیں پرنام کیا۔ پھر ادب سے بولا، ’’راجن! آج میں سمراٹ دھرم بھوشن کے خصوصی ایلچی کی حیثیت سے یہاں حاضر ہوا ہوں۔ سمراٹ شکار میں مصروف تھے کہ کنول جھیل کے کنارے سیلیشور مندر کے پاس انہیں ایک عجیب و غریب بشارت ہوئی اور انہوں نے بہ عجلت اس خادم کو روانگی کا حکم دیا ساتھ ہی مجھے خصوصی ہدایت دی گئی ہے کہ سمراٹ کا پیغام بہ نفس نفیس رعایا کے روبرو پیش کروں۔ سمراٹ شکار سے دستبردار ہوکر غور و فکر کی خاطر کسی نامعلوم گوشے میں روپوش ہو گئے ہیں۔ سمراٹ اس قدر عجلت میں تھے کہ انہوں نے شاہی پروانہ لکھنے اور اس پر اپنی مہر ثبت کرنے کی رسمی کارروائی میں وقت ضائع کرنے کی بجائے مجھے زبانی پیغام دے کر روانہ کر دیا اور یہ خادم متواتر دو روز سے سفر کرتا ہوا بغیر خواب و خور کے حاضر خدمت ہوا ہے۔ سمراٹ کا حکم ہے کہ پیغام براہ راست رعایا کے روبرو پیش کیا جائے۔ ہر باعزت شہری کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ ممکن ہو تو اس پیغام کو عملی جامہ پہنانے میں حکومت کی اعانت کرے۔ ملک و قوم کی سلامتی کا دار ومدار اسی بات پر ہے کہ اس شاہی فرمان پر فوری طور پر عمل کیا جائے سمراٹ کا حکم ہے کہ۔۔۔چاروں طرف ایک اذیت ناک خاموشی چھا گئی غیرارادی طور پر راج کمار ایک قدم آگے بڑھا۔ مقدس پروہت نے ایک دوسرے میں پھنسی اپنی انگلیوں کو آزاد کیا اور دوبارہ ایک دوسرے میں پھنسا دیں۔ ہاتھیوں کے گلے کی گھنٹیوں کی آواز دوبارہ گھونجنے لگی۔ دوسپاہیوں نے ان پر ہاتھ رکھ کر انہیں شانت کر دیا۔‘‘

    ’’سمراٹ کا حکم ہے کہ۔۔۔ حکم ہے کہ۔۔۔‘‘ قاصد نے دوبارہ کچھ کہنے کی کوشش کی مگر یک بیک اس کاگلا رندھ گیا اور الفاظ جیسے اس کے حلق میں پھنس کر رہ گئے۔ اس کی آنکھوں کے سامنے دھند چھا گئی اور وہ بےحس و حرکت سامنے خلامیں گھورتا کھڑا رہ گیا۔ کچھ پل اسی طرح گذر گئے۔ رعایا میں بےچینی کی لہر دوڑ گئی اور راج کمار کی پیشانی پر اضطراب کی ایک مہین سی سلوٹ ابھر آئی۔ ریشمی لباس کے اندر پروہت کے ہاتھوں کی انگلیاں غیر ارادی طور پر اضطرابی کیفیت کے ساتھ اوپر نیچے حرکت کرنے لگیں۔ قاصد کے ہونٹ بےمقصد لرز رہے تھے۔ اس کے معمر چہرے پر اندرونی کرب اور بےچارگی کی جھلک دکھائی دے رہی تھی۔ راج کمار کے قریب کھڑے منتری نے دبے لہجے میں قاصد کو ہشکارا۔۔۔ یکایک راجکمار قاصد کے قریب آیا اور مسکراتا ہوا بولا۔

    ’’شری پاد! لگتا ہے لگاتار سفر نے آپ کو کافی تھکا دیا ہے۔ پھر فرض کی ادائیگی کی بھاری ذمہ داری نے بھی آپ کے اعصاب کو متاثر کیا ہوگا۔ لیکن آپ تردد نہ کریں۔ میں سمجھ گیا ہوں شاہی پیغام کیا ہو سکتا ہے؟ مہاراج مدت مدید سے ولی عہد کے مسئلے کو لے کر کافی فکر مند تھے۔ غالباً انہوں نے اس عظیم ذمہ داری کے لئے مجھے منتخب کیا ہوگا۔‘‘

    معاًراج پروہت عصا بردار خادم کے ساتھ دو بھکشوؤں کی معیت میں آگے بڑھے۔ ان کے چہرے پر گہرے تفکر کے آثار تھے اور ہونٹ سختی سے بھنچے ہوئے تھے۔ اس لئے ان کا چہرہ معمول سے زیادہ ستا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔

    ’’راجن!‘‘ وہ راج کمار سے مخاطب ہوئے، ’’ممکن ہے آپ کا اندازہ درست ہو مگر ہمیں یہ نہ بھولنا چاہئے کہ مہاراج ایک خدا ترس انسان ہیں۔ وہ ملک میں ایک ایسی حکومت چاہتے تھے جو مذہبی اصولوں پر قائم ہو۔ ایک ہفتہ قبل ہی مجھے ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تھا۔ اس وقت وہ اسی فکر میں مبتلا تھے۔ میں نے انہیں یقین دلایا تھا کہ اگر ایسا موقع آ گیا تو میں دھرم شاسن کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار ہوں۔ تب ان کے چہرے پر نہ صرف قلبی اطمینان کی جھلک دکھائی دی بلکہ ان کی آنکھوں سے احسان مندی بھی ظاہر ہو رہی تھی۔ لگتا ہے سمراٹ کو دھرم شاسن کی بشارت ہو گئی ہے۔ مجھے یقین کامل ہے کہ قاصد کے ذریعے انہوں نے یہی پیغام بھیجا ہوگا۔‘‘

    راج کمار نے نہایت ادب سے راج پروہت کی دلیل کو رد کرتے ہوئے کہا۔

    ’’راج گرو اس میں شبہ کی شمہ برابر گنجائش نہیں کہ دھرم شاسن ایک مقدس اور اہم فریضہ ہے مگر یہ فریضہ اسی وقت قابل عمل ہو سکتا ہے جب ریاست کا ولی عہد بھی منتخب ہو جائے۔ ایک مضبوط حکومت کے بغیر آپ دھرم شاسن کا تصور کیسے کر سکتے ہیں؟‘‘

    پروہت کے چوڑے ماتھے پر خفگی کی ایک ہلکی سی شکن ابھری اور ڈوب گئی۔ ہونٹ کچھ زیادہ ہی سختی سے ایک دوسرے پر جم گئے مگر دوسرے ہی لمحے انہوں نے اپنے اندرونی ابال پر قابو پا لیا اور نہایت عیاری سے لہجے کو ملائم بناتے ہوئے بولے۔

    ’’کس میں جرأت ہے کہ آپ کی بات کو رد کرے۔ مگر سمراٹ ابھی برسر اقتدار ہیں۔ ایشور انہیں سلامت رکھے۔ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ وراثت کا تصفیہ ہم ان کی مرضی پر چھوڑ دیں۔‘‘

    قاصد پتھر کی مورت کی طرح بے حرکت کھڑا تھا۔ دفعتاً اس کے ہونٹ ہلے۔ وہ بھرائے ہوئے لہجے میں کہنے لگا۔

    ’’خادم معافی چاہتا ہے۔ میری یاد داشت یک لخت منجمد ہو گئی ہے۔ سمراٹ کا پیغام مجھے یکسر بھول گیا ہے۔ مگر میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ان کا پیغام ولی عہد سے متعلق قطعی نہیں تھا۔ اس صورت میں فرمان نامہ شاہی مہر کے ساتھ جاری ہوتا اور سفید سفارتی پر چم پر تلوار کا نشا ن ہوتا۔‘‘

    قاصد کے ان الفاظ کے ساتھ ہی راج کمار کے چہرے پر مردنی چھا گئی او ر پروہت کے ہونٹ مزید بھنچ گئے۔ قاصد آگے کہہ رہا تھا۔

    ’’اور سمراٹ کا پیغام، دھرم شاسن سے متعلق بھی نہیں ہے۔ سب جانتے ہیں کے دھرم شاسن کا پیغام لانے والے سفیر کے پرچم پر ’کمنڈل‘ کا نشان ہوتاہے۔ یہ دونوں سفیر سمراٹ کے ہمرکاب تھے۔ اس کے باوجود سمراٹ نے اس پیعام کے لئے انتخاب کیا تھا۔‘‘

    ’’راج دوت! ممکن ہے اس طویل سفر نے آپ کو ہلکان کر دیا ہو۔ تھکن دور ہو جانے پر آپ کی یادداشت روشن ہو جائےگی۔ لہٰذاہماری مودبانہ التماس ہے کہ آپ ہماری میزبانی قبول فرمائیں اور راج محل میں چل کر قدرے سستا لیں۔ ہم آپ کے شکر گذار ہوں گے۔‘‘

    منتری نے راج کمار کی طرف نگاہ کرتے ہوئے تجویز رکھی۔ راج کمار منتری کی اس حاضر دماغی پر دل ہی دل میں عش عش کرنے لگا۔ پھر اس نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر دو سپاہیوں کو اشارہ کیا اور بولا۔

    ’’منتری جی کی یہ تجویز انتہائی معقول ہے۔ اس پر فوراً عمل کیا جائے۔‘‘ مجبوراً مقدس پروہت کو بھی بولنا پڑا۔

    ’’ہم بھی انتہائی انکساری کے ساتھ اس تجویز کی تائید کرتے ہیں۔‘‘ پھر وہ ایک چوڑے سپاٹ چہرے والے بھکشوں کی طرف مڑے اور بولے، ’’بھدرانند! ہم پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ تم راج کمار کے شاہی مہمان خانے میں قاصد کے ساتھ جاؤ۔ شب و روز ان کی خدمت میں رہ کر شاہی خدمت گاروں کی مدد کرو۔‘‘

    بھدرا نند پروہت کے پہلو سے یوں نکلا جیسے ان کا سایہ ان سے جدا ہورہا ہو۔ وہ نپے تلے قدم اٹھاتا ایلچی کے قریب جاکر کھڑا ہو گیا۔ راج کمار کا چہرہ پروہت کی اس چال پر غصے اور شکست سے سرخ ہو گیا اور اس سے قبل کہ اس کی زبان سے کوئی ایسی ویسی بات نکلے منتری نے ہلکے سے اس کا ہاتھ دبا دیا۔ راج کمار کو مجبوراً پھر ضبط کرنا پڑا۔ قاصد اب بھی سکتے کے عالم میں کھڑا تھا۔ ایک خدمت گار نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ تھام لیا اور اسے لیے ہوئے محل کی طرف بڑھا۔ بھدرانند پر چھائیں کی طرح انکے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔

    محل میں ایلچی کو ایک نرم آرام دہ گدی پر بٹھا یا گیا۔ بھدرانند سامنے ایک گوشے میں اپنی چادر بچھا کر اس طرح بیٹھ گیا جیسے محل کی دیواروں پر کندہ مورتیوں میں سے ایک مورتی ہو۔ قاصد کے حمام کے لئے معطر گرم پانی تیار کیا گیا۔ غسل کے بعد ایک حسین دوشیزہ نے اس کے لئے ایک ملائم بستر تیار کیا اور دست بستہ اسکی خدمت میں کھڑی ہو گئی۔ پھر قاصد کے سامنے انواع و اقسام کے پرتکلف کھانے چنے گئے۔ راج کمار کے سخت احکامات تھے کہ قاصد کی خاطر مدارات میں کوئی کسر نہ رہنے پائے مگر ایسا لگ رہا تھا کسی نامعلوم صدمے سے ایلچی کی ساری حسیات مردہ ہو گئی ہیں۔ شام ہوئی۔ تاریکی پھیلی۔ جواہرات سے مزین چراغ روشن ہوئے۔ پھر ان چراغوں کی روشنی صبح کے اجالوں میں تحلیل ہو گئی۔ مگر قاصد کی آنکھ تک نہ جھپکی۔ بھدرا نند بھی برابر جاگ رہا تھا۔ ادھر راج کمار رات بھر اپنی خواب گاہ میں اضطراب کے عالم میں ٹہلتا رہا۔ وقفہ وقفہ سے خدمت گار قاصد کی کیفیت معلوم کرتے اور راج کمار کو پل پل کی خبر دیتے رہے۔ جب صبح تک ایلچی کی حالت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تو راج کمار کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ بالآخر صبح کی پہلی کرن کے ساتھ ہی راج کمار اپنے منتری اور خدمت گاروں کے ساتھ قاصد کے سامنے آوارد ہوا۔

    ’’اگر چند لمحوں کے اندر تجھے وہ شاہی پیغام یاد نہیں آیا تو میں خود اپنے ہاتھوں سے تیری گرد ن ماردوں گا۔‘‘ راج کمار غصے سے کانپتا ہوا بولا۔ ان الفاظ کے ساتھ ادھر بھدرا نند سنبھل کر بیٹھ گیا۔ منتری موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے راج کمار سے مخاطب ہوا۔

    ’’راجن! برسرعام اپنے غضب کا اظہار کرنا شاہوں کو زیب نہیں دیتا۔ ناچیز کی درخواست ہے کہ ولی عہد سلطنت اپنے روایتی تحمل کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔‘‘

    ’’لیکن منتری یہ ہمارا محل ہے اور یہاں کی ہر شئے پر ہمارا اختیار ہے۔‘‘

    ’’آپ بجا فرماتے ہیں۔ محل آپ کا ہے مگر موقع کی نزاکت کا لحاظ بھی واجب ہے۔‘‘

    منتری نے بھدرانند کی طرف دیکھتے ہوئے معنی خیز انداز میں کہا، ’’غالباً وہ قول تو آپ کو یاد ہی ہوگا کہ غیر کے وجود سے خواب گاہ، طوائف گھر میں بدل جاتی ہے اور اجنبی لمس زندہ کو مردہ کر دیتا ہے۔ میرا حقیر مشورہ ہے کہ اب قاصد سے صحیح بات اگلوانے کے لئے ہمیں کوئی دوسری ترکیب اختیار کرنی پڑےگی۔ جو مسئلہ صبر سے حل نہ ہوتا ہو وہ بعض اوقات جبر سے حل ہو جاتا ہے۔ آپ مجھے اپنی ترکیب استعمال کرنے کی اجازت دیجئے۔‘‘

    راج کمار نے اثبات میں گردن ہلا دی اور منتری نے فوراً ایک خدمت گار کو اشارہ کیا۔ تھوڑی ہی دیر میں سپاہی ایک طویل قامت قوی الجثہ شخص کے ساتھ محل میں داخل ہوا۔ وہ شخص سر سے پاؤں تک سیاہ لباس میں ملبوس تھا اور اس کے ہاتھ میں تین مختلف قسم کے چمکدار اوزار تھے۔ سیاہ پوش کی آمد سے اس وسیع و عریض کمرے میں ایک مہیب سایہ سا پھیل گیا۔ بھدرا نند بھی ایک جھٹکے سے اپنی جگہ پر کھڑا ہو گیا۔

    ’’راج دوت! شاہی پیغام یقیناً ولی عہد کے بارے میں ہے۔ مگر اتفاق سے اس وقت آپ کی یاد داشت آپ کا ساتھ نہیں دے رہی ہے۔‘‘

    منتری کا لہجہ سرداور سفاک تھا۔ ’’آپ کی کھوئی ہوئی یادداشت کی بازیابی کے لئے بندہ آپ کی مدد کرنا چاہتا ہے۔ اسی مقصد کے تحت اس شخص کو یہا ں طلب کیا گیا ہے۔ یہ اپنے ہنر میں یکتا ہے۔ یہ انسان کے جسم سے اس کی کھال ایسے اتارتا ہے جیسے موز سے چھلکا اتارا جاتا ہے۔ ہم نے اسے حکم دیا ہے کہ یہ آپ کو اپنے ہنر کا ادنیٰ سا نمونہ دکھائے۔‘‘

    چاروں طرف خوف کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔ لیکن قاصد ا س طرح بے حس و حرکت بیٹھا رہا جیسے ان سارے معاملات سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو۔ منتری نے لمحہ بھر توقف کیا کہ شاید قاصد کی جانب سے کوئی رد عمل ہو پھر سیاہ پوش کی طرف مڑا اور اسے کچھ اشارہ کیا۔ سیاہ پوش آہستہ آہستہ چلتا ہوا قاصد کے قریب پہنچا اور ایک جھٹکے کے ساتھ اس کی پشت پر سے اس کا پیرہن چاک کر دیا۔ قاصد کی پشت بےلباس ہو گئی۔ پھر اس نے ایک تیز اوزار سے اس کی پیٹھ پر ایک مہین سی خونی لکیر کھینچی۔ راج دوت نے سسکاری سی لی۔ پھر دوسرے ہی لمحے سیاہ پوش نے چٹکی سے پکڑ کر اس کی پیٹھ سے ہتھیلی کے برابر کھال کھینچ لی۔ قاصد پہلے تو ناقابل برداشت درد سے زخمی سانپ کی مانند بل کھانے لگا۔ پھر فرش پر گر کر تڑپنے لگا۔ راج کمار کے چہرے پر مایوسی کی جھلک کے ساتھ برہمی کے آثار بھی تھے۔ تبھی قاصد تڑپ کر دوبارہ اٹھ بیٹھا اور کراہتا ہوا بولا۔

    ’’مجھے یوں تڑپاتڑپاکر مارنے کی بجائے میری گردن اڑادو۔ میں آپ کا احسان مند ہوں گا۔ یہ سچ ہے کہ مجھے سمراٹ کا پیغام بھول گیا ہے مگر میں قسم کھاتا ہوں کہ وہ پیغام ولی عہد سے متعلق قطعی نہیں تھا۔‘‘

    راج کمار غصے سے بھپر گیا۔ اس نے آگے بڑھ کر پوری قوت سے قاصد کے ایک ٹھوکر لگائی۔ قاصد دوہرا ہوکر ایک طرف کو لڑھک گیا۔

    ’’اسے محل کے باہر کتوں کے آگے پھینکوا دو۔‘‘ راج کمار نے طیش میں آکر حکم دیا اور منتری کے ساتھ محل میں ایک طرف کو چلا گیا۔

    سیاہ پوش نے قاصد کو کسی غلیظ کپڑے کی طرح گردن سے پکڑ کر اٹھایا اور باہر سڑک پر ڈال دیا۔ اس کے دھار دار ہتھیاروں پر قاصد کے خون کے نشانات تھے اس نے قاصد کے کپڑوں سے انہیں صاف کیا اور ایک سمت کو چل دیا۔ بھدرا نند قاصد کے قریب آیا۔ وہ بے حس و حرکت پڑا تھا مگر ابھی اس کی سانس چل رہی تھی۔ اس نے دو بھکشوؤں کو بلایا۔ انہوں نے قاصد کو اپنے ہاتھوں پر اٹھا لیا اور بڑی مشکل سے زینے چڑھتے ہوئے راج پروہت کے سامنے حاضر ہوئے۔ بھدرانند نے شروع سے آخر تک ساری روداد سنا دی اور گویا ہوا۔

    ’’ہو سکتا ہے۔ مٹھ کی شانت ور پاکیزہ فضا میں اس کی یاد داشت واپس لوٹ آئے مگر میرا طریقۂ کار جداگانہ ہے۔ محل کا عیش و آرام اس سے جو بات اگلوا نہیں سکی بھوک اور فاقہ اس سے اگلوا سکتے ہیں۔‘‘

    راج پروہت کی اجازت پاتے ہی بھدرا نند نے قاصد کو بھکشوؤں کی ایک تنگ و تاریک کوٹھری میں قید کر دیا اور نرم سپاٹ لہجے میں بولا۔

    ’’میں سمجھتا ہوں آپ کے حق میں یہ بہتر ہوگا کہ آپ سمراٹ کے پیغام کو یاد کریں اور بتائیں کہ وہ ہمارے راج پروہت کے متعلق ہی تھا جب تک آپ کو پیغام یاد نہیں آتا آپ خورد ونوش سے محروم رہیں گے۔ اگر آپکی یاد داشت بازیاب ہو گئی تو آپ کی خدمت میں ایسے ایسے کھانے پیش کئے جائیں گے کہ شاہی دستر خوان بھی اس کے سامنے ہیچ نظر آئےگا۔ ذرا ادھر نظر کیجئے۔ اس سنگی کبوتر کے پروں پر دھوپ موجود ہے۔ نیچے کنول کا پھول ہے۔ اگر آپ اپنی جان کی سلامتی چاہتے ہیں تو اس سے قبل کہ دھوپ کنول کی پتیوں کو چھونے لگے سمراٹ کا پیغام یاد کر لیجئے۔‘‘ بھکشوؤں کی اس تنگ و تار یک کوٹھری میں قاصد اسی طرح بےحس و حرکت پڑا رہا۔ اب اس کی آنکھوں میں ایسا خالی پن تھا کہ ان میں اس کی پیٹھ کے دہکتے زخم کا احساس تک فنا ہو گیا تھا۔ دھوپ سنگی کبوتر کے پروں پر سے رینگتی ہاتھی کے مجسمے کو چومتی ہزار پنکھڑیوں والے کنول کے پھول پر اتر آئی۔ کنول کے نیچے جھیل کا پانی لمحے بھر کو جھلملایا۔ کنارے کے درختوں کے پتے پل بھر کو سنہری ہو گئے اور دوسرے ہی لمحے دھندلا گئے۔ یہ سب ہوا مگر قاصد کے چہرے کی بےتعلقی جوں کی توں قائم رہی۔ اس کے ہونٹوں سے ایک لفظ تک ادا نہیں ہوا۔ بھدرا نند کے غیرجذباتی چہرے پر بی اب اضطراب اور غیض کے آثار دکھایئ دینے لگے۔ وہ بولا۔

    ’’اب اسے نیچے تہہ خانے میں ایذارسانی والے کمرے میں لے چلو۔‘‘

    بھکشوؤں نے جب قاصد کو اس تنگ کوٹھری سے باہر نکالا تب اس کا جسم بےحد لاغر ہو چکا تھا۔ چہرے کی ہڈیاں ابھر آئی تھیں۔ وہ اسے مٹھ کے نچلے وسیع تہہ خانے میں لے آئے اور تہہ خانے کے وسط میں ایک چبوترے پر اسے لٹا دیا۔ پھر دونوں بھکشوؤں نے اسی چبوترے میں لگی زنجیروں سے اس کے ہاتھ پاؤں کس کر باندھ دئے۔ قاصد نے دھیمے سے سانس لے کر آنکھیں کھول دیں اور دھیرے دھیرے چاروں طرف نظریں گھمائیں۔ دیواروں پر جگہ جگہ تیل میں بھیگی پرچھائیاں کالی چڑیلوں کی مانند رقص کر رہی تھیں۔ چبوترے کے عین اوپر تانبے کا ایک سرخ ہنڈولا آویزاں تھا۔ ہنڈولے کے گرد ایک دائرہ نما آہنی چکری میں آگ کی ننھی ننھی زبانیں لپلپا رہی تھیں۔ یہ منظر دیکھتے ہی قاصد اپنی پشت کے زخم کی تکلیف بھی بھول گیا اور ڈوبتے لہجے میں بولا۔

    ’’دھرم گرو! میں نہیں جانتا کہ آپ میرے ساتھ اب کیا سلوک کرنے والے ہیں لیکن میری درخواست ہے کہ میرے لئے ایسی سزا تجویز کریں کہ فی الفور میری موت واقع ہو جائے۔ اب مزید اذیت جھیلنے کی میرے جسم میں سکت نہیں ہے۔‘‘

    بھدرا نند خاموش رہا۔ تھوڑی دیر میں وہ بھکشو واپس آ گیا جسے کچھ دیر قبل بھدرانند نے کسی کو بلانے بھیجا تھا۔ بھکشو کے پیچھے پیچھے سیاہ لباس میں ملبوس وہی سیاہ پوش چبوترے کے پاس آکر کھڑا ہو گیا۔

    ’’دیکھو! راج دوت کو سب سے پہلے اس ’روغنی چراغ‘ کے تجربے سے آشنا کراؤ۔ کبھی سفاکی سے پہنچائی جانے والی شدید ضرب سے زیادہ ہلکی نرم چوٹ زیادہ کارگر ہوتی ہے۔ اس روغنی ہنڈولے کو اس وقت تک روشن رکھا جائے جب تک راج دوت کی یاد داشت واپس نہیں آ جاتی۔‘‘

    اس کے اشارے پر سیاہ پوش زینہ چڑھ کر اوپر پہنچا اور اس نے آہنی چکری میں روشن لوؤں کو تیز کر دیا۔ آگ کی لپلپاتی زبانیں بلند ہوئیں اور تانبے کے ہنڈولے کو چاٹنے لگیں۔ نیچے ایذا رسانی کے اس وسیع کمرے میں کیسری چادر یں اوڑھے بھکشو اکٹھا ہونے لگے اور اپنی اپنی سانسیں روکے اس منظر کو دیکھنے لگے۔ تھوڑی ہی دیر میں تانبے کا ہنڈولا تپ کر لہو رنگ ہو گیا۔ تب سیاہ پوش نے اس ہنڈولے کے پیندے میں بنے باریک سوراخ پر لگے ننھے سے ڈھکن کو ہٹا دیا۔ کھولتے تیل کا ایک گول موٹا سا شفاف قطرہ تیزی سے نیچے ٹپکا اور قاصد کے ننگے بند پر گرا۔ جوں ہی قطرہ جلد سے مس ہوا اس کے بدن پر اندر سے بلبلے کی مانند ایک موٹا سے آبلہ نمودار ہو گیا اور ارد گرد کی جلد جھلس کر سیاہ پڑ گئی۔ ناقابل بیان درد سے قاصد سر سے پاؤں تک اینٹھ کر رہ گیا اور ایک دلدوز چیخ اس کے پھٹے ہوئے گلے سے برآمد ہوئی۔

    ’’اسی طرح وقفہ وقفہ سے ایک ایک قطرہ پٹکاتے رہو۔‘‘ بھدرا نند نے سرد لہجے میں سیاہ پوش کو ہدایت دی۔

    ’’نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ میری گردن مار دو۔ ایشور کے لیے مجھ پر اتنی دیا کرو۔‘‘ قاصد گڑگڑایا۔

    وقفہ وقفہ سے مزید دو چار قطرے قاصد کے بدن پر ٹپکے اور وہ ہر قطرے پر زخمی سانپ کی طرح بل کھاکر رہ گیا۔

    ’’بولو! سمراٹ کا پیغام دھرم گرو کے متعلق ہی تھانا؟‘‘ بھدرانند نے بےحدملائم لہجے میں پوچھا۔

    ’’نہیں مجھے اس وقت بھی کچھ یاد نہیں آ رہا ہے۔‘‘ قاصد نے ڈوبتی شکستہ آواز میں کہا، ’’مگر وہ پیغام دھرم شاسن کے بارے میں نہیں تھا۔‘‘

    خود راج پروہت آہستہ آہستہ چلتے ہوئے قریب آکر کھڑے پورا ماجرا دیکھ رہے تھے۔ ان کی آمد کی کسی کو خبر نہیں ہوئی۔ انہوں نے مایوسی سے گردن ہلائی اور بولے۔

    ’’بھدرانند! اس غلیظ سور کو شمشان میں پھینکوا دو، ورنہ خوامخواہ اس کی ہتیا کا پاپ ہمارے سر آئےگا۔‘‘

    بھدرانند نے اثبات میں گردن ہلائی۔ راج پروہت واپس لوٹ گئے۔

    بھدرانند نے پروہت کی ہدایت کو خاموشی سے مان تو لیا مگر اس کا چہرہ کرخت ہو گیا تھا۔ اسے وہ ذلیل طوائف یاد آئی جسے یہ معلوم تھا کہ راج پروہت کا ایک ناجائز بیٹا کہاں پرورش پا رہا ہے۔ اس کی بوٹی بوٹی الگ کر دی گئی مگر اس نے اپنی زبان نہیں کھولی تھی۔ اسکے بعد بھدرانند کی یہ دوسری بڑی ناکامی تھی۔ اس کے مطابق ابھی ایسی ایذائیں باقی تھیں کہ اس کمینے قاصد کو زبان کھولنے پر مجبور کیا جا سکتا تھا۔ یہ سیاہ پوش بڑی صفائی سے گرم سلاخ کو حلق میں گھسیڑنے کا فن جانتا تھا یا پھر ایک ہاتھ کو باندھ کر اس پر خون چوسنے والی جونکیں چھوڑی جا سکتی تھیں۔ یہ ترکیب بعض اوقات بڑی کارآمد ثابت ہوئی تھی۔ یا ضرورت پڑنے پر اس کے جسم کے پرگوشت حصوں میں کھوکھلی میخیں ٹھونک کر ان میں سوزش پیدا کرنے والا ترش زہریلا مادہ بھرا جا سکتا تھا۔ سچ پوچھئے تو اسے اس وقت پروہت کا آنا اور ان کااس طرح قاصد کو شمشان میں پھینکوانے کا حکم دینا اچھا نہیں لگا تھا۔ اس نے دیکھا کہ راج پروہت کی آمد کی خبر دینے کا کام جس بھکشو کے سپرد تھا وہ خوف کے مارے ایک کونے میں کھڑا کانپ رہا تھا۔ اس پر نظر پڑتے ہی بھدرانند کے غصے کی انتہانہ رہی۔ اس نے اسی وقت حکم دیا کہ اپنے فرض سے لاپرواہی برتنے کے جرم میں اس بھکشو کو تین پہر سانپ گھر میں قید رکھا جائے اور ساتھ ہی کرخت آواز میں گرجا، ’’اور اسے شمشان میں پھینک دو۔‘‘ اور غصے سے مڑ کر باہر نکل گیا۔

    سانپ گھر کانام سنتے ہی دوسرے بھکشو بےاختیار ہنسنے لگے۔ کسی نووارد بھکشو کو اسکی کسی خطا پر سانپ گھر میں بند کر دیا جاتا تھا۔ سارے سانپ غیر زہریلے ہوتے تھے مگر نووارد بھکشو اس بات پر سے لاعلم ہوتا اور جب سانپ اس اسکے جسم پر رینگتے تو خوف اور دہشت سے اس کی مضحکہ خیز حرکتیں دیکھ دیکھ کر باقی بھکشو ہنسی سے بےحال ہو جاتے۔ پھر وہ ایک دوسرے کو بتاتے کہ کس طرح صرف خوف اور دہشت سے دو بھکشوؤں کی موت واقع ہو گئی تھی اور ان کے مردہ جسموں کے نیچے تین سبز رنگ کے بے ضرر سانپ کچلے گئے تھے۔

    بھدرا نند کے جاتے ہی وہ سارے بھکشو استہزائیہ انداز میں ہنستے کلکارتے اس خوف زدہ بھکشوکے گرد جمع ہو گئے۔ دو بھکشوؤں نے بڑی بے دردی سے قاصد کو اٹھایا اور اسے شمشان میں لے جاکر پھینک دیا۔ پھر پیچھے پلٹ کر دیکھے بغیر مٹھ میں واپس آ گئے کہ مبادا ’سانپ گھر‘ میں ہونے والے دلچسپ تماشے سے محروم نہ رہ جائیں۔

    قاصد کا جسم تقریباً سرد ہو چکا تھا۔ شمشان کے ننگے فرش کے سخت لمس کی وجہ سے اس کے ہونٹوں سے ہلکی کراہ نکلی۔ مگر بعد میں وہ دیر تک بے حس و حرکت پڑا رہا۔ شمشان کے چاروں طرف گھنے درخت تھے اور پورے شمشان میں لمبی لمبی گھاس اگی ہوئی تھی۔ شمشان پر گہری خاموشی طارہی تھی۔ کبھی کبھی کسی کیڑے کی کریا کسی پرندے کی چہکار سے اس گہری خاموشی کی چادر پر جیسے چھنٹے سے پڑ جاتے۔ تھوری دیر بعد قاصد نے آنکھیں کھولیں۔ اسے محسوس ہو رہا تھا وہ شکستہ جسم اس کا اپنا نہیں ہے بلکہ وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ بہت گہرے کہیں دبکا سہما سا بیٹھا ہے۔ اس کے ننگے پیروں پر کچھ کیڑے مکوڑے رینگنے لگے۔ مگر اپنے پیروں کو ہلانے تک کی اس میں سکت باقی نہیں تھی۔ تھوڑی دیر بعد گھاس پر کسی کے چلنے کی آواز سنائی دی۔ پھر کوئی اس پر جھکا، اسے گردن کے نیچے سے سہارا دے کر اٹھایا اور اس کے ہونٹوں سے ایک پیالہ لگا دیا۔ پیالے میں کسی قسم کا گرم مشروب تھا۔ اس گرم مشروب کا ایک گھونٹ حلق سے نیچے اترتے ہی اسے اپنے مردہ بدن میں کچھ جان سی پڑتی محسوس ہوئی۔ مگر دوسرے ہی لمحے درد کا احساس بھی شدید ہو گیا۔ اس نے ضبط کرتے ہوئے رک رک کر کہا۔

    ’’اب۔۔۔ تم۔۔۔ مجھے کون سی۔۔۔ اذیت دینا چاہتے ہو؟‘‘

    اس شخص نے کوئی جواب نہیں دیا بلکہ نہایت احتیاط سے اسے اٹھاکر بٹھا دیا اور اس کے زخموں سے چور جسم پر ایک دبیز ملائم چادر ڈال دی۔

    ’’میں تمہیں کوئی اذیت دینا نہیں چاہتا۔‘‘ اس نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔

    ’’اس شمشان کی بغل میں میری کٹیا ہے۔ میں تمہیں وہیں لے جانے کے لئے آیا ہوں۔ وہیں تم بے خوف ہوکر آرام کر سکتے ہو۔ وہاں محل اور مٹھ کا سا آرام تو میسر نہیں ہے۔ مگر وہاں روٹی کی خاطر کسی کو اذیت بھی جھیلنی نہیں پڑتی۔‘‘

    محل اور مٹھ کا نام سنتے ہی دوت کے جسم پر لرزہ طاری ہو گیا۔ وہ بولا۔

    ’’تم کوئی بےحد رحم دل انسان معلوم ہوتے ہو۔ مگر اب کافی دیر ہو چکی ہے۔ تمہاری رحم دلی اب مجھے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ اگر تم مجھے اپنے گھر لے بھی گئے تو تھوڑی دیر بعد دوبارہ یہیں لانا پڑےگا۔ ۰ اس لئے کیا میرا یہیں پڑا رہنا مناسب نہیں؟ اب میرا جسم ہلنے ڈلنے سے بھی قاصر ہے۔ میرے جسم کو غور سے دیکھو۔ پشت پر جہاں سے کھال ادھیڑی گئی ہے اگر ہوا کا معمولی جھونکا بھی چھو جاتا ہے تو پورے جسم میں درد کی ٹیسیں اٹھنے لگتی ہیں اور ادھر دیکھو جسم پر جو آبلے ہیں ان میں تو جیسے انگارے بھرے ہوئے ہیں۔‘‘

    ’’راج دوت! میں معافی چاہتا ہوں۔ مجھے تمام باتوں کا علم ہے۔‘‘

    اس لمبے تڑنگے گنوار شخص نے کہا، ’’شاید تم نے مجھے پہچانا نہیں۔ میں وہی سیاہ پوش ہوں جس نے تمہاری پیٹھ کی کھال ادھیڑی تھی۔ تمہارے جسم پر کھولتے تیل کے قطرے ٹپکائے تھے۔ میں ڈوم ہوں اور یہ سب میرے فرائض میں شامل ہے مگر اب میں اپنا سیاہ لباس اتار چکا ہوں اب میں آزاد ہوں لہٰذا مجھ پر اعتماد کرو اور میرے ساتھ چلو۔‘‘ اس کے الفاظ سے قاصد کو ایسا لگا جیسے اس پر بجلی گری ہو۔ رگ وپے میں چھائی ہوئی بےحسی اچانک پگھلنے لگی اور دل ودماغ پر مسلط غبار چھٹنے لگا بہت اندر کہیں جو زندگی کی ایک ننھی سی رمق رہ گئی تھی وہ تیز ہونے لگی اور یکا یک اندر سے جیسے اس کا پورا وجود روشن ہو گیا۔ قاصد نے مضطر بانہ انداز میں اس کا ہاتھ تھام لیا اور بے تابی سے بولا۔

    ’’ڈوم! سمراٹ کا پیغام اب سورج کی روشنی کی طرح میرے ذہن میں صاف ہو گیا ہے۔ اب اس پیغام کو تیرے سامنے بیان کرنا میرے لئے ناگزیر ہو گیا ہے۔ کیوں کہ اب میں اپنے چہرے پر موت کی سرد سانسیں محسوس کر رہا ہوں۔ شاید قدرت کو یہی منظور تھا کہ سمراٹ کا وہ پیغام تیرے سامنے بیان کیا جائے۔‘‘

    ’’یہ میرے لئے انتہائی خوش قسمتی کی بات ہے۔ تم اطمینان سے مجھے وہ پیغام سنا سکتے ہو۔‘‘ ڈوم نے انکساری سے کہا۔

    ’’مجھے نہیں معلوم یہ پیغام تمہارے لئے کتنا خوش کن ہو سکتا ہے۔ مگر اس پیغام کے الفاظ بہت اہم اور ہولناک ہیں۔ میر ی بات کو دھیان سے سنو!‘‘

    قاصد کی بےچینی بڑھتی جا رہی تھی۔ ’’اگر تم اس پیغام پر عمل کرنے سے قاصر رہے تو تمہیں موت کی سزا دی جا سکتی ہے۔ سمراٹ اپنے علم غیب سے ہر بات کو جان جاتا ہے۔ اگر یہ سوچ کر کہ کوئی اور اس پیغام سے واقف نہیں تم نے بےتوجہی برتی یا اس پیغام میں ایک لفظ کا بھی رد و بدل کیا تو شدید اذیتیں جھیلوگے اگر اس عظیم ذمہ داری کو نبھانے کا حوصلہ ہو تو پیغام سنو۔ ورنہ کسی اور کو بلا لاؤ جسے میں یہ پیغام سنا سکوں۔ مگر جو بھی کرنا ہے جلدی کرو۔ میرا ٓخری وقت نکلا جا رہا ہے۔‘‘

    ’’تم بےفکر رہو۔ میں عظیم کالیکا کی سوگند کھاکر اقرار کرتا ہوں کہ جب تک میری جان میں جان ہے میں سمراٹ کے مقدس پیغام پر لفظ بہ لفظ عمل کروں گا۔‘‘

    ’’تو پھر غور سے سنو! سمراٹ کا پیغام ایک ’ڈوم‘ کے بارے میں ہی ہے۔ اس ڈوم کا نام ’کال مکھ‘ ہے۔ سمراٹ کو شیلشور مندر میں بشارت ہوئی تھی کہ ’کال مکھ‘ کو تین دن کے اندر اندر موت کی سزا نہ دی گئی تو پورے ملک پر زبردست آفتیں نازل ہوں گی۔ ملک پر غنیم کا حملہ ہوگا۔ بےگناہوں کا قتل عام ہوگا اور خون کی ندیاں بہیں گی۔ یہاں تک کہ خود سمراٹ بھی موت کے گھاٹ اتار دیئے جائیں گے۔ سمراٹ نے فی الفور مجھے یہ پیغام دے کر روانہ کیا تھا کہ ’کال مکھ‘ کی کھال کھینچ کر تمام رعایا کے سامنے اسے کھولتے تیل کے کڑھاؤ میں ڈال دیا جائے۔ آج سورج غروب ہونے سے قبل اس پر عمل ہونا لازم ہے کیوں کہ بشارت کے مطابق آج تیسرا اور آخری دن ہے۔ اب یہ پیغام جوں کا توں رعایا تک پہنچانا تمہارا فرض ہے۔ یا د رکھو اگر اس میں رتی بھر کوتاہی ہوگی تو خود تمہاری کھال کھینچی جائےگی اور تم کھولتے تیل کے کڑھاؤ میں ڈبو کر مار ڈالے جاؤگے ’کال مکھ‘ کا نام اچھی طرح ذہن نشین کر لو۔‘‘

    ڈوم ایک جھٹکے سے پیچھے ہٹ گیا۔ جیسے بچھونے ڈنک مار دیا ہو۔ وہ آنکھیں پھاڑے قاصد کے لمحہ لمحہ سرد ہوتے جسم کی طرف دیکھ رہا تھا۔ قاصد اپنی ساری قوت کو آنکھوں میں سمیٹے پوچھ رہا تھا۔

    ’’بولو! کال مکھ کا نام تم بھول تو نہیں جاؤگے؟‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ میں اس نام کو کیسے بھول سکتا ہوں راج دوت! کیوں کہ میں ہی اس بستی کا اکیلا ڈوم ہوں اور میرا نام کال مکھ ہے‘‘ ڈوم نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ قاصد نے بےیقینی سے اس کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں کی پتلیوں میں بہت گہرے کہیں جگنو سے چمکے۔ لمحے بھر کو چراغوں کی لویں تھرتھرائیں اور دوسرے ہی لمحے اس کی آنکھیں ویران ہو گئیں۔ چہرہ تاریک ہو گیا۔ اس کی کھوپڑی اور چہرے کی ہڈیاں دھیرے دھیرے اس طرح نمایاں ہونے لگیں جیسے زمین سے آہستہ آہستہ کوئی کونپل پھوٹ رہی ہو۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے