Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

قومی درد

مہندر ناتھ

قومی درد

مہندر ناتھ

MORE BYمہندر ناتھ

    قومی درد، ایک ایسا درد ہے جو خاص طور سے ہندوستان اور پاکستان میں ہر خاص و عام کو ہوتا ہے۔ چونکہ صدیوں سے یہ درد نسلاً بہ نسلاً چلا آ رہا ہے اس لئے اگر اس درد کو اب سر درد کہا جائے تو بے جا بات نہ ہوگی۔ یوں سر دست سردرد کا علاج ہے مگر قومی درد کا ابھی تک کوئی علاج نہیں نکلا، مجھے تو قومی درد اور کینسر میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا، کیوں کہ یہ دونوں بیماریاں ابھی تک لا علاج ہیں۔ اس درد کے تشخیص کرنے والے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ درد ہندو اور مسلمان کو زیادہ ہوتا ہے، کبھی کبھی سکھ کو بھی ہوتا ہے۔ جب اس قسم کا درد سکھ کو ہوتا ہے تو حملے کی تیزی اور تندی کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا۔۔۔ پرماتما کا شکر ہے کہ اس درد کا حملہ سکھ پر بار بار نہیں ہوتا، ورنہ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کا صفایا ہو جاتا اور اس درد کا اس بر اعظم سے صفایا ہو جاتا۔

    کافی تحقیق کے بعد اس مرض کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس درد کے موجد انگریز تھے مگر اس درد کے تحقیق کرنے والے کوئی آخری فیصلہ صادر نہیں کر سکے، فرنگیوں نے جہاں اس ملک کو دو حصوں میں بانٹ دیا، وہاں اس درد کو بھی دونوں قوموں میں یکساں تقسیم کر کے چلے گئے تاکہ دونوں قومیں حشر تک آپس میں لڑتی رہیں، ایک دوسرے کو قتل کرتی رہیں۔ گو فیملی پلانگ کے ماہرین کو اس طرف متوجہ ہونا چاہیے، کہ اگر دونوں قوموں کی تعداد کو گھٹانا ہے تو اس درد کو قومی پیمانے پر بڑھانا چاہئے، ریڈیو، فلم اور اخباروں کا سہارا لے کر ایک وسیع پیمانے پر ایک عالم گیر تحریک چلائی جائے، جس سے ان دونوں قوموں کے افراد میں کافی کمی ہو سکتی ہے۔

    اعداد و شمار اور سائنسی نقطہ نظر کو سامنے رکھ کر ہمارے لیڈر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ قومی درد پڑھے لکھوں کو زیادہ ہوتا ہے اور ان پڑھوں کو کم۔۔۔ دراصل اس درد کی ابتدا پڑھے لکھوں سے ہوتی ہے اور ان پڑھوں تک پہنچ کر انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔

    اس درد کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ درد خاص کر اس کو ہوتا ہے جسے کبھی درد نہیں ہوتا، یہ درد اکثر دور، دور سے شروع ہوتا ہے، اس درد کو آپ وبائی یا ہوائی بھی کہہ سکتے ہیں، مثلاً اگر کوئی ہندو مشرقی پاکستان یا مغربی پاکستان میں مارا گیا ہو تو مرنے والے کا غم اس کے متعلقین کو نہیں ہوگا، مگر جس مذہب سے مرنے والے کا تعلق ہوتا ہے وہ غم اور غصے سے بیتاب ہو جاتے ہیں، غم سے کم غصے سے زیادہ، مثال کے طور پر اس درد کا دورہ مدھیہ پردیش کے ہندوؤں پر ضرور ہوگا، بجنسہ اگر کوئی مسلمان ہندوستان میں مارا جائے تو اس کے مرنے کا غم اس کے رشتہ داروں کو تو ہوگا مگرسب سے زیادہ غم مغربی پاکستان کے مسلمانوں کو ہوگا۔

    یہ درد ایک فرد سے شروع ہوکے ایک طوفان بدتمیزی اختیار کر لیتا ہے، آخر میں دونوں قومیں صف آرا ہوکے میدان میں نکل جاتی ہیں اور ایک دوسرے کا خون بہا کے گھروں کو واپس لوٹ جاتی ہیں، اس کے بعد اس درد کا تذکرہ روزانہ پرچوں، ہفت روزہ اخباروں اور رسالوں میں خوب زور شور سے کیا جاتا ہے، بڑی بڑی سرخیوں میں اس جنوں کو بےنقاب کیا جاتا ہے، بڑے شاندار اور جاندار جلوس نکالے جاتے ہیں، انہی جلوسوں میں ظالمانہ اور جاہلانہ تقریریں کی جاتی ہیں، یہ تقریریں جاہلانہ زیادہ ہوتی ہیں ظالمانہ کم۔ پھر حکومت کمیشن بٹھاتی ہے۔ جج فیصلہ کرتے ہیں کہ کس قوم کی زیادتی تھی، پھر اس امر پر غور کیا جاتا ہے، مسلمانوں اور ہندوؤں کے کلچر کا تحفظ کیا جائے۔ ہندو اپنے کلچر کے تحفظ کے لئے شور و غل مچاتے ہیں اور مسلمان اپنی بقا کے لئے خون کے آنسو بہاتے ہیں۔ دونوں قومیں اپنے اپنے کلچر کی حفاظت کرنا چاہتی ہیں حالانکہ ان دونوں کا کلچر Agriculture سے زیادہ اہم نہیں ہے۔

    اس درد کو نیست و نابود کرنے کے کئی طریقے سوچے گئے اور آزمائے بھی گئے۔ کچھ عرصے کے بعد پتہ چلا کہ سوچنے اور آزمانے والے تو نیست و نابود ہو گئے، مگر اس درد میں کمی نہ ہوئی، کبھی کبھی یوں بھی سوچا گیا کہ بڑے بڑے پلیٹ فارموں پر ہندوؤں اور مسلمانوں کو اکٹھا کیا گیا اور دونوں سے کہا گیا کہ گلے لگ جاؤ بھائیو، مگر گلے ملنے کی بجائے دونوں کے ہاتھ ایک دوسرے کے گریبان تک پہنچ گئے، یعنی درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔

    عجیب بات یہ ہے کہ یہ درد پیٹ میں نہیں ہوتا، یہ درد پہلے دماغ سے شروع ہوتا ہے، وہاں سے اس کا زہر سارے جسم میں سرایت کرتا ہے، آنکھیں انگاروں کی طرح سر خ ہو جاتی ہیں، منہ سے کف نکلنے لگتی ہے، جسم پر ایک تشنج سی طاری ہو جاتا ہے اور آدمی چھرا یا پستول یا لاٹھی لے کر باہر کی طرف لپکتا ہے، اس وقت اس کی حالت پاگلوں کی طرح ہو جاتی ہے، اپنے آپ پر قابو نہیں رہتا، اس درد کو کم کرنے کے لئے دوسروں کے پیٹ میں چھرا گھونپ دیتا ہے، پھر ہر ہر مہادیو یا اللہ اکبر کا نعرہ لگا کے ناچنے لگتا ہے، بس اسی طرح باقی لوگ بھی اس درد میں مبتلا ہو جاتے ہیں، یہ بھی عجیب بات ہے کہ درد صرف مردوں کو ہوتا ہے، عورتوں کو تو ہوتا ہی نہیں۔

    کئی بار اس قسم کے بیماروں کو قتل کے بعد اس بات کا پتہ چلا کہ مرنے والا اس کا ہم مذہب تھا، غصے سے بپھر کر وہ کئی ایک کو مارتا ہی رہتا ہے اور جب کوئی انسان اسے نہیں ملتا، تو دیواروں سے ٹکریں مار کر خود مر جاتا ہے، اس قسم کے مریضوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے، اگر اس قسم کی تعداد بڑھ جائے تو شاید اس مرض کا علاج نکل جائے۔ دراصل اس مرض کے تحقیق کرنے والوں کو اس قسم کے مریضوں کی طرف متوجہ ہونا چاہئے۔ شاید انہی مریضوں سے کوئی اکسیر نکل آئے، کیوں کہ جن مریضوں میں احساس گناہ ہوتا ہے انہی کے خون سے کوئی کیمیائی مرکب تیار کیا جا سکتا ہے جو آگے جاکر اس درد کی دوا بن جائے۔

    اکثر ہندوؤں سے کہا جاتا ہے کہ اس درد مسلسل کو کم کرو تو وہ فرماتے ہیں کہ یہ مشورہ مسلمانوں کو دو، ان سے کہو کہ وہ اس سر درد کو کم کریں، اگر مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا جائے کہ وہ اس درد سے بچنے کی کوئی راہ نکالیں تو وہ کہتے ہیں کہ اس کا آغاز تو ہندو کرتے ہیں، دراصل دونوں قومیں اتنی معقول اور ساتھ ہی نامعقول ہیں کہ اس درد کو کم کرنے کے لئے تیار نہیں۔

    یہ درد اکثر اکثر یتی کمیونٹی کو اس لئے ہوتا ہے کہ اس کی تعداد اقلیتی کمیونٹی سے زیادہ ہے اور اقلیتی کمیونٹی کو اس لئے ہوتا ہے کہ اس کی تعداد اکثریتی کمیونٹی سے کم ہے، دونوں ہی ایک دوسرے سے خائف نظر آتی ہیں، یوں تو مفکروں نے کہا ہے کہ جس قوم کو قومی درد نہیں ہوتا وہ کبھی ترقی کے زینے پر نہیں چڑھ سکتی، میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جس قوم کو یہ درد ہوتا ہے، وہ قوم بےدرد ہوتی ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے