Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

قربان

MORE BYمحمد علیم اسماعیل

    ننھی ننھی معصوم آنکھوں میں آنسو لیے رانی دروازے کو تکے جا رہی تھی اس کو معلوم تھا کہ چاہے وہ کتنی ہی منت کرے مگر دادی کے ڈر سے کوئی بھی اسے اسپتال لے کر نہیں جائےگا۔ وہ بڑی بے صبری سے ہر اُس شخص کا انتظار کرتی جو اسپتال سے آنے والا ہوتا۔ سہیل سے رانی بہت ہی پیار کرتی تھی حالانکہ سہیل اسے ذرا بھی اہمیت نہیں دیتا تھا مگر سہیل کا تلخ مزاج کبھی اس کے پیار میں کمی نہ کرتا۔ سہیل اُس کا اکلوتا بھائی تھا اور تین دن سے اسپتال میں بےہوش پڑا تھا۔ اس کی حالت دیکھ کرہر کوئی فکر مند تھا، بات بھی ایسی تھی سہیل حالانکہ ۱۶ برس کا تھا مگر کبھی اتنا بیمار نہ پڑا تھا کہ اسے اسپتال لے جایا جاتا۔ تین دن پہلے کھیلتے کھیلتے اچانک بے ہوش ہو گیا اور ابھی تک اس کی حالت میں کوئی خاص فرق نہ تھا۔ بیماری کا پتا لگانے کے لیے ڈاکٹر نے کئی چیک اپ کرواے مگر کسی سے کچھ حاصل نہ ہوا۔ دادی سہیل پر جان نچھاور کرتی تھیں اور کیوں نہ کرتی ایک ہی تو چراغ تھا گھر کا، رانی کو تو وہ کسی گنتی میں نہ لاتی تھیں۔ جس طرح داستانوں میں جادوگر کی جان طوطے میں ہوا کرتی ہے ٹھیک دادی کی جان بھی سہیل میں تھی۔ رانی عمر میں سہیل سے چھوٹی ضرور تھی مگر اس سے کہیں زیادہ سمجھدار اور فرمانبردار تھی۔ ایک لڑکی ہونے کی وجہ سے اس کی یہ خوبیاں سوائے اس کی ماں شبنم کے علاوہ کسی کو نظر نہ آتیں۔ دادی تو رانی سے حد سے زیادہ بد دل تھیں۔ اصل میں دادی لڑکوں کو لڑکیوں پر زیادہ فوقیت دیتی تھیں۔

    جس دن رانی نے ان کے گھر میں جنم لیا اس دن سے شبنم کی بھی اہمیت اس گھر میں کم ہو گئی تھی اب شبنم کا وہ رتبہ نہ رہا جو پہلے تھا۔

    دس برس کی رانی کو دادی ایسے ایسے طنزیہ جملوں اور فقروں سے نوازتیں جن کا مطلب بھی رانی کو سمجھ میں نہ آتا۔ اس معصوم کو یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ دادی اسے منحوس کیوں کہتی ہیں، اگر اس کی پیدائش کے بعد اس کے والد کا انتقال ہو گیا تو اس میں رانی کا کیا قصور تھا، اس نے تو اپنے والد کا چہرہ تک نہیں دیکھا۔ دادی جب سہیل کو پیار کرتیں، رانی دور کھڑی ترستی نگاہوں سے ان کو دیکھتی مگر دادی کو نہ کبھی رانی پر ترس آتا۔

    جس روز رانی پانچویں کلاس میں اوّل آئی تو بڑی امید کے ساتھ اس نے اپنا رپورٹ کارڈ دادی کو دکھایا اور کہا۔۔۔ دادی یہ دیکھئے میں کلاس میں اول آئی ہوں۔ آج تو مجھے آپ انعام بطور اپنی گود میں بٹھا لیجیے۔ شبنم دور سے سب دیکھ رہی تھی اور دعا کر رہی تھی کہ آج دادی اس کی تمنا پوری کر دیں۔ لیکن دادی نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا بس اب اور کچھ نہ کہنا اول آئی ہو تو مجھ پر احسان کیا ہے۔ یہ سنتے ہی شبنم باورچی خانے سے آئی اور رانی کا بازو پکڑ کر اوپر کمرے میں لے گئی۔ دادی کی چارپائی باورچی خانے کے ٹھیک سامنے پڑی رہتی تھی جہاں سے دادی بیٹھی بیٹھی حکم چلایا کرتی تھیں۔ ان کی باتیں رانی کے دادا کو بھی پسند نہ تھیں لیکن اپنی اہلیہ سے کچھ کہتے ہوئے ڈرتے تھے۔

    سہیل اور رانی میں اکثر لڑائی ہوتی تو دادی پورا ماجرا سننے سے پہلے ہی فیصلہ کر دیتیں کہ غلطی کس کی ہے اور سزا دینے کا ان کا ایک ہی طریقہ تھا کہ رانی کا کھانا بند کر دیتیں۔ اس وجہ سے رانی کی صحت اپنی ہم عمر بچوں کے مقابل ٹھیک نہ تھی۔ شبنم کبھی اپنی ساس سے چھپ کر اسے کھانا کھلا دیتی مگر ایسے موقعے کم ہی نصیب ہوتے اور رانی کو ہفتے میں ایسے موقعوں کا سامنا کئی بار کرنا پڑتا۔ بچی ہونے کے ناطے رانی دادی کے سب ظلم تھوڑی ہی دیر بعد بھول جاتی، رانی کو دادی سے بے حد لگاؤ اور محبت تھی۔

    آج جب دادی اسپتال سے گھر آئیں تو رانی دور سے دیکھ کر بھاگتی ہوئی آئی۔ دادی سہیل بھائی کی طبیعت کسی ہے؟ اب تو وہ ہوش میں ہے نا؟ ڈاکٹر صاحب کب انھیں گھر آنے کی اجازت دیں گے؟

    دادی نے آنکھیں نکالتے ہوئے کہا۔۔۔ دور ہٹ منحوس گھر میں آتے ہی ٹے ٹے سننی پڑتی ہے، تجھے کوئی ملال نہیں سارا دن کھیلتی رہتی ہے، چل ہٹ یہاں سے۔۔۔ روتی ہوئی رانی باورچی خانے کی طرف دوڑی۔ شبنم کے گلے لگ کرروتے روتے بولی۔۔۔ امی ہم دادی کا گھر چھوڑ کر چلے کیوں نہیں جاتے۔ شبنم نے کہا، کہاں جائیں گے بیٹا!

    ماموں کے گھر۔۔۔ ماموں مجھے پیار کرتے ہیں وہ غصہ بھی نہیں کرتے مجھ پر۔

    مگر وہ ہمارا گھر نہیں ہے رانی وہ تو ماموں کا ہے۔ شبنم نے رانی کے آنسو پوچھتے ہوئے کہا۔

    وہ ماموں کا گھر اور یہ دادی کا۔ ہمارا کوئی گھر کیوں نہیں ہے امی۔۔۔ شبنم کی آنکھیں بھر آئیں اور کچھ کہہ نہ سکی۔

    شبنم خود ان سوالوں کے جواب تلاش نہ کر سکی تھی! پھر رانی کو کیا جواب دیتی۔

    شبنم سہیل کو لے کر پہلے ہی فکر مند تھی، دن رات اسپتال میں رہتی اور اگر دو گھڑی کے لیے گھر میں آتی تو دادی کے طنزیہ تیر سیدھے اس کے دل کو چھلنی کر دیتے۔ لاکھ سمجھانے کے بعد بھی دادی کی سوچ نہیں بدلی گھر کی تمام پریشانیوں کی ذمہ دار رانی کو ہی ٹھہراتی اور رہی سہی کسر اب یہ کہ سہیل اس روز رانی کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ اچانک بےہوش ہو گیا۔

    کئی چیک اپ ہونے کے بعداب اس کے دل کا چیک اپ ہونے والا تھا اس لیے گھر میں ایک مایوسی کا طوفان برپا تھا۔ دادی رانی کا بُرا سایہ سہیل پر نہیں پڑنے دینا چاہتی تھیں اس لیے لاکھ فریاد و التجا کرنے کے بعد بھی اسے کوئی اسپتال نہیں لے گیا۔ گھر میں جب بھی کوئی آتا رانی اس سے سوالوں کی برسات کر دیتی۔ سہیل نے رانی کو کبھی ایک بہن کی طرح سمجھا ہی نہیں، دادی کے لاڈ پیار نے اس کا دماغ آسمان پر چڑھا دیا تھا مگر رانی کی ان باتوں سے صاف ظاہر تھا کہ وہ سہیل سے کس قدر محبت کرتی ہے۔

    رات سبھی سے کاٹے نہیں کٹ رہی تھی چونکہ شبنم کئی روز سے اسپتال میں تھی۔ اس لیے آج رات دادی سہیل کے پاس تھیں اور شبنم گھر آئی تو تھی آرام کرنے مگر اسے کسی طرح سکون نہیں مل رہا تھا۔ نیند کا تو دور دور تک پتہ نہ تھا، گھڑی دیکھتی رہی اور اسی طرح صبح بھی ہو گئی۔ شبنم جلدی جلدی گھر کا کام کر کے سہیل کے پاس جانا چاہتی تھی اور ایک مشین کی طرح کام میں مصروف تھی رانی جلدی سے ناشتہ کرو۔ مجھے اسپتال جانا ہے آج مجھے بھی لے کر چلیے امی رانی نے معصوم سا چہرہ بناتے ہوئے کہا!

    نہیں بیٹا۔۔۔ تم پھر چلی جانا آج بھائی کی رپورٹ آنی ہے نا۔ آج ضد نہ کرو۔ شبنم نے شفقت سے رانی کے سر پر ہاتھ رکھا۔ اب چلو ناشتہ کرلو۔ اتنے ہی دیر میں دادی اسپتال سے آئی ان کے چہرے پر اداسی چھائی تھی لگ رہا تھا کہ دادی آج زندگی کی بازی ہار گئی ہیں۔ دادی کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں بہہ رہی تھیں، شبنم سمجھ گئی کہ بُری خبر ہے۔

    سہیل ٹھیک ہے؟ آپ کیوں رو رہی ہیں؟ رپورٹ آ گئی؟ شبنم جتنے سوال کرتی دادی اتنا ہی پھوٹ پھوٹ کر روتیں۔ سہیل کے دل میں سوراخ ہے شبنم اس کی حالت بہت خراب ہے۔ دادی نے لرزتی آواز میں کہا۔

    شبنم کے پیروں تلے زمین کھسک گئی۔ نہ چپل کا خیال رہا اور نہ ہی سر پر دوپٹہ کا،بس بھاگتی چلی گئی اسپتال کی طرف۔دادی سہیل بھائی کو کیا ہوا ہے؟ آپ کیوں رو رہی ہیں؟ بولیے نا بھائی کب آئیں گے؟ رانی سوالوں پر سوال کیے جا رہی تھی مگر دادی اس معصوم کوہی برا بھلا کہنے لگیں۔ منحوس سب تیری وجہ سے ہو رہا ہے کھا کر ہی دم لےگی میرے بچے کو دور ہٹ۔ دفع ہو جا۔ نہ میرا بچہ تیرے ساتھ کھیلتا اور نہ ہی اسے یہ سب ہوتا۔

    رانی بولی میں۔۔۔ میں نے کیا کیا ہے؟ دادی بولی تیرا منحوس سایہ ہمارے گھر پر نہ پڑتا تو یہ سب کچھ نہ ہوتا۔ جب تیرا سایہ اس گھر سے دور ہوگا تب تو سہیل آئےگا۔

    رانی روتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی اسے رہ رہ کر دادی کے الفاظ یاد آ رہے تھے کہ تو منحوس ہے تیری وجہ سے سہیل بیمار ہوا تو چلی جائےگی تو سہیل آ جائےگا۔ رانی کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ اگر وہ اس گھر سے چلی جائےگی تو سب کچھ ٹھیک ہو جائےگا۔

    سہیل سے رانی بےحد محبت کرتی تھی۔ لیکن اس حد تک یہ تو کسی کو علم ہی نہ تھا۔ وہ روتے ہوئے چھت کی منڈیر پر کھڑی ہو گئی اور آنکھیں بند کر کے چھت سے چھلانگ لگا دی۔ اس کے ہاتھ میں وہ کاغذ، جس پر اُس نے لکھا تھا میرا دل بھائی کو دے دینا خون سے لت پت ہو گیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے