Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

راج محل

شہناز رحمن

راج محل

شہناز رحمن

MORE BYشہناز رحمن

    وقت کی گردش پوری ہو چکی!!!

    اوم: بھور، بھوا سھا، تت سوترور’ینِیَم’، بھر گو دوسدھیمھی دھیو یونہہ پر چو دیا۔۔۔

    ابھی منتر مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ للت کمار نے کہا! مہارانی کی طرف سے بلاو ا آیا ہے۔ انہوں نے ترنت راج محل پہنچنے کے لیے کہا ہے۔

    پرارڑنی دیوی اصول و ضابطے کی پابندتھیں۔ وہ صبح کی پوجا ختم کئے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتی تھیں۔

    لہذا انہوں نے جواب دیا۔ ایک آدھ گھنٹے میں آجاؤں گی۔ ابھی ذرا مشغول ہوں۔

    پراڑنی دیوی گیتوں اور منتروں کی لے اور سارے سروں سے واقف تھیں ۔انھیں راج محل میں راجکماری کو سنگیت کی مشق کروانے کے لیے طلب کیا گیا تھا۔ شادی کا وقت قریب آ چکا تھا اس لیے ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر راجکماری خود کو تیار کرنا چاہتی تھی۔

    کماگھنی راجکماری سا: پرارڑنی دیوی پدھار چکی ہیں آپ جلدی سے تیار ہوکر آ جائیے۔

    پرنام۔ ( پرارڑنی دیوی سے)

    جگ جگ جیو آپ کی پر شرم سفل ہو۔

    پرارڑنی دیوی کے ہاتھوں میں پیتل کے گنگن اور گلے میں کنٹھ مالا، ساڑی ٹخنوں کے اوپر، بودھ مذہب کی مداح، بات بات میں مغل بادشاہوں کا ذکر، ہر کام میں لکھنؤ کی نزاکت اور نیپالی سر کی عاشق۔

    ان کی یہ رنگا رنگ شخصیت سر کے اوپر سے گزرتی تھی۔

    راجکماری جی! پہلے آپ کو چھند کاگیان دینا پڑےگا۔ تھوڑی بہت مشق گانے کی بھی کراتی رہوں گی۔

    پراڑنی دیوی کو ہندی اور اردو کے علاوہ فارسی زبان کی بھی شدھ بد تھی۔ رسالہ شاہین میں تواتر کے ساتھ ظلم و تشدد کے خلاف فارسی آمیز اردو میں مضامین بھی لکھتی تھیں۔

    برسوں پہلے ان کی قابلیت کو دیکھتے ہوئے راج محل میں شاہی سنگیت کار کے طور پر بلایا گیا تھامگر انہوں نے پیشکش رد کر دی تھی۔ راجاؤں کی تعیش پسندی اور استحصالی رجحان سے وہ ہمیشہ نالاں رہتی تھیں۔

    لیکن جب انھوں نے سنا کہ راجکماری چارومتی سین، سرسوتی نگر کے یواراج سے شادی کے لیے بضد ہیں اور راجکمار تیار تو ہیں مگر انہوں نے شرط رکھی ہے کہ ان کی ہونے والی یورانی کو ہر کلا میں ماہر ہونا چاہیے تو نہ چاہتے ہو ئے بھی مہارانی کے حکم کی تعمیل کرنی پڑی۔

    یہ طے ہوا کہ روز صبح میں پر ارڑنی دیوی سنگیت کی مشق کرائیں گی۔

    جبکہ شام میں ڈانس اور تیر اندازی سکھانے کے لیے شبانہ نکہت قنبر نامی ایک ماہر لیڈی کو رکھا گیا۔

    نکہت قنبر غضب کی خوبصورت تھیں چوڑی پیشانی، خم دار بھنویں غزال آنکھیں، لبوں پہ گاڑھی لپ اسٹک، نئے انداز کے کٹے ہوئے بال، لبھاتی ہوئی چال، کھڈر کاٹن کا چست پائجامہ سلیو لیس لمبا کرتا زیب تن کئے پوری فلم ایکڑ س معلوم ہوتی تھیں۔

    جب یہ معلوم ہواکہ سر سوتی نگر کی مہارانی کو سارے فنون شبانہ نکہت نے سکھائے تھے تو ان کی اہمیت اور بڑھ گئی اورمحل میں ہی ان کی رہائش کا انتظام کیا جانے لگا۔ مگر انھوں نے جھجکتے کہا ’’مجھے سر سوتی نگر کے ہر ہائنس سے اجازت لینی پڑےگی۔‘‘

    اسی دن وہ سرسوتی نگر گئیں اور محل میں رہنے کی منظوری لے آئیں۔

    نکہت قنبر کو محل میں رہتے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ راجکمار کلدیپ شاہ کی نظریں ان کے حسن کا طواف کرنے لگیں لیکن وہ سوائے اپنے کام کے کسی اور چیز پر توجہ نہ دیتیں۔ بہت ہی کم عرصے میں انھوں نے مختلف انداز کے ڈانس راجکماری کو سکھا دیے۔

    کلدیپ شاہ ہر وقت موقع کی تلاش میں رہتا۔ ایک دن وہ بیلی ڈانس دیکھنے میں محو تھیں کہ اس نے آکر پیچھے سے ان کے بلاؤز کی ڈوری کھول دی اور قریب کرتے ہوئے کہاکہ:

    ’’آپ اتنی محنت کیوں کر رہی ہیں، آپ تو میری مہارانی ہیں، بس ایک نظر کرم کی ضرورت ہے۔ کلدیپ شاہ آپ کے لئے حاضر ہے۔‘‘

    نکہت قنبر نے خود کو اس کے چنگل سے چھڑاتے ہوئے سخت لہجے میں جواب دیا ‘رجواڑوں کی اسی گھٹیا اور وحشیانہ حرکت کی وجہ سے ان کا زوال ہوا، راج پاٹ چھن گیا، چہارردانگ میں در در کی ٹھوکر یں کھائیں۔‘‘

    پرنس کلدیپ!!! شایدآپ بھول گئے ہیں کہ راج تنتر ختم ہو چکا ہے۔ نکہت قنبر کی سانسیں زیروزبر ہونے لگیں، آنکھیں لال ہو گئیں اور وہ غصے پر قابو نہ کر سکیں۔

    شبانہ نکہت کو اس گستاخی کے طفیل میں راج محل سے نکال دیا گیا۔

    ’’راج محل سے خارج کیے جانے پر نکہت قنبر کو کوئی دکھ نہیں ہوا کیوں کہ دنیا کی کشاکش کو وہ پہلے ہی دیکھ چکی تھیں، موج حوادث سے ٹکراتے ٹکراتے چٹان ہو گئی تھیں۔ بچپن کہاں گزرا؟ کچھ پتہ نہیں، یتیم خانے میں رہ کر تعلیم حاصل کی، وہیں سے ڈانس کا شوق ہو، دوستوں اور دوسرے نیاز مندوں کی عنایت سے نیویارک گئیں اور اعزاز ی ڈگری حاصل کرکے رام کمار ایلن‘‘ کالج میں ڈانس سکھاتی رہیں۔ زندگی کے تاریک سفر کو مقدر سمجھ کر مطمئن تھیں اور اسی اطمینان نے انھیں آگے بڑھنے کی روشنی عطا کر دی تھی۔

    ایک دن پراڑنی دیوی نے ڈانس کلاسیز کے بارے پوچھا؟؟ تب راجکماری نے ساری تفصیل بہت افسوس سے بتائی۔ انھوں نے تاسف بھرے لہجے میں کہا۔

    نکہت قنبر کو دیکھنے کی خواہش تو ادھوری ہی رہ گئی۔ شومئی قسمت کہ اتنے عرصے میں کبھی سامنا بھی نہیں ہوا۔ اب وہ نہ جانے کہاں ہوگی؟

    شبانہ نکہت کے جانے کے بعد پراڑنی دیوی شام تک رکنے لگیں۔ لیکن روز کا معمول ہو گیا تھاکہ راجکماری سیکھنے سے زیادہ باتوں میں وقت گزار دیتی۔

    پر ارڑنی دیوی بھی کبھی اپنے پسندیدہ ڈرامے ’’جولئس سیزر‘‘ کے کردار Brutus کی شرافت کی تعریف کرتیں کبھی اوتھیلو کی نادانی پرافسوس کرتے وقت گزار دیتیں۔

    ایک دن راجکماری نے متجسس ہوکر پوچھا ’’آپ کو ہر چیز کا ایکسپیرنس ہے، کوئی بھی فیلڈ ایسی نہیں جو آپ کے نالج سے باہر ہو، ساتھ ساتھ آپ کو رجواڑوں اور نوابوں کے سارے رسم و رواج اور شاہانہ انداز بھی معلوم ہیں۔ آخر کیسے؟؟؟‘‘

    انہوں نے سکو ت اختیار کی اور اپنی ڈائری نکال کر لکھنے لگیں ،قسمت نے بہت حماقتیں کی ہیں، آسودگی کی دعائیں مانگیں مگر سب افق پر معلق ہوکر رہ گئیں۔ خواب دیکھا تھا زندگی سنور جائیگی جو نتیجے کی صورت میں سامنے ہے۔

    ***

    ’’تج بن جگ سونا سونا ہے آ مل رے پیا‘‘ کی لے سیکھنے کے بعد راجکماری اتنی خوش تھی کہ گویا سارا جہاں پا لیا ہو۔ لیکن پراڑنی دیوی کو اس سے کہیں زیادہ خوشی اس بات کی تھی کہ روزانہ محل کے چکر لگانے سے انھیں جلد ہی فرصت ملنے والی ہے۔

    اسی دن جب وہ راج محل سے نکل رہی تھیں، مہاراجہ شیو کمار پریمی نے روک کر کہا کہ ‘‘گروار کو ہم سرسوتی نگر کے یوراج کے ساتھ پوجا کے لئے پشو پتی ناتھ مندر جا رہے ہیں مہارانی کی آگیا ہے کہ آپ بھی ساتھ چلیں۔‘‘

    پشوپتی ناتھ ؟ ؟؟؟؟پشو پتی ناتھ؟ ؟؟؟

    ’’نیرنگ زمانہ نے تاراج کرنے کی اب کون سی سازش رچی ہے‘‘ چند لمحے کے لیے وہ بالکل ساکت ہو گئیں۔ پھر انہوں نے کہا ’’ٹھیک ہے جیسی آپ کی آ گیا۔‘‘

    انھوں نے اس سفر میں بہت سے مذہبی مقامات کی زیارت کی۔ جب لمبنی پہنچے تو سوچا گوتم بدھ کے بھی درشن کرتے چلیں۔ لمبنی کی عوام راجستھان کے مہاراجہ کو دیکھ کر کافی خوش ہوئی۔

    لیکن گاڑی سے اترے ہی تھے کہ ایک پاگل شخص ’’اوم بھور بھوا سھا۔۔۔ ایک خا ص لے میں گاتے ہوئے آیا اور پھر چلانے لگا۔۔۔ راجہ کو ہٹاؤ دیش بچاؤ‘‘

    اس لفظ کی تکرار سے پوری فضا گونج اٹھی ۔۔۔پرارڑنی دیوی پیچھے مڑیں تو پیروں تلے زمین نکل گئی۔

    بہل مان سنگھ!!!

    لمبنی میں؟ ؟؟؟

    وہ بھی گوتم بدھ کی مندر میں؟ ؟؟؟

    لمحہ بھر توقف کے بعد خیال آیا کہ شاید اپنے کئے کی سزا بھگت رہا ہے۔

    اس کے ہاتھ میں ایک تصویر تھی جس پر لکھا تھا نکی بھوانی سنگھ۔ تصویر دیکھ کر پرارڑنی دیوی بے چین ہو گئیں اور ان کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں۔

    سیکیورٹی نے اسے قابو میں کرنے کی کوشش کی پھر بھی وہ یہی کہتا رہا ’’راجہ کو ہٹاؤ دیش بچاؤ۔۔۔‘‘

    پوچھنے پر پتہ چلا کہ یہ کئی برس سے اسی مندر میں رہ رہا ہے۔ ایک بار جب راجہ گیا نندر شاہ آئے تھے تب بھی یہ شخص یہی جملے کہہ رہا تھا۔ شروع میں تو گایتری منتر ہر وقت گاتا رہتا تھا اور کہتا تھا پرارڑنی لوٹ آؤ۔

    یا خدا زمانے نے کتنے رنگ بدلے ان آنکھوں نے کتنے تماشے دیکھے، رنج وغم کا شکوہ کسی سے نہیں کیا، مدت گزرگئی لیکن زخم ابھی بھی ہرا ہے۔ اپنی ڈائری نکال کر پرارڑنی دیوی نے یہ جملے لکھے۔

    اس پاگل شخص کو دیکھ کر سب ایک دوسرے سے زیرلب کہہ رہے تھے کہ شاید یہ آدمی رجواڑوں کے ہاتھوں ستایا ہوا ہے اسی لیے ڈر رہا ہوگا کہ راج تنترکہیں پھر سے نہ لوٹ آئے۔ راجہ کو دیکھ کر اسے راج تنتر یاد آ گیا ہوگا۔

    پشو پتی ناتھ مندر کی پوجا کے بعد وہ لوگ پروہتوں کے ساتھ’’نارائن ہیٹی‘‘ محل میں گئے۔ پہنچتے ہی راجکماری نے پوچھا! راج پروہت جی یہ محل اتنا خالی اور ویران کیوں ہے؟

    پنچائیت ویوستھا ختم ہو گئی ہے۔

    اچھا یہ فوٹوز کس کے ہیں۔

    پراڑنی دیوی نے بتانا شروع کیا۔ یہ راجہ ’’بھکتا من‘‘ ہیں جو متھرا کے گوپال خاندان سے تھے۔ اس خاندان کے راجاؤں نے پانچ سو اکیس سال تک یہاں راج کی ہے۔

    اس کے بعد یہ کرانت خاندان کے راجہ ہیں یہ چین سے آکر آباد ہوئے تھے۔ ان کے آنے کے بعد وسطی ایشیاء، تبت، سکم اور منی پور وغیرہ سے عقیدت مندوں کی ایک بڑی تعداد آئی اور یہ کرانتی کہلائے۔ انہوں نے 1225 برس تک حکومت کی۔ لچھوی شاہ ہندوستانی نثراد تھے انہوں نے تہذیب وثقافت قائم کرنے کے ساتھ ساتھ علوم وفنون کو بھی ترقی دی اس خاندان کے راجاؤں نے 630 سال حکومت کی۔

    یہ ہیں راجہ بیر بکرم شاہ ان کو دلی کے سلطان نے آرٹ، کلچر، صنعت و حرفت اور دوسرے فنون کو ترقی دینے کی وجہ سے شمشیر جنگ کے خطاب سے نوازا تھا۔

    تربھون شاہ بھی تو کوئی راجہ تھے۔ راجکماری نے پوچھا

    ہاں! وہ تو بہت نامور تھے۔ انھیں کے نام پر تربھون یونیورسٹی اور تربھون ائیر پورٹ بھی بنایا گیا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم نے انھیں بڑے اعزاز واحترام سے نوازا تھا انہوں نے ہی یہاں پر پنچائتی شاسن قائم کیا تھا۔

    بیر بکرم شاہ کے زمانے میں جمہوریت کی تحریک شروع ہو گئی تھی۔ راجہ نے پرجاکے مزاج کا احترام کرتے ہوئے پنچائتی راجیہ کو ختم کر کے جمہوریت کا اعلان کیا تھا اور یہ راجستھان سے یہاں آئے تھے۔

    راجکماری سین نے کہا اچھا؟ 2001 میں انہیں کے ساتھ Accident ہوا تھا محل کے اندر ہی پوری فیملی ختم ہو گئی تھی Oh My God یہ تو بہت بڑا Accident تھا ہمارے یہاں بھی راجواڑوں میں ان کا سوگ منایا گیا تھا۔

    جی ہاں۔ اسی حادثہ کے بعد یہ شاہی محل کھنڈر بن گیا۔

    سب کا تعارف کرانے کے بعد جب آگے بڑھے تو ایک کمرے میں دو خواتین کی تصویر یں بڑے ہی نزاکت سے چاندی کے پھول دار رفریموں میں سجا کر دیوار پر آویزاں کی گئی تھیں۔

    راجکماری نے تجسس سے پوچھا یہLady کون ہیں؟

    یہ عزت مآب حضرت محل ہیں 1857 میں لکھنؤ سے ہجرت کر کے یہاں آئی تھیں اور تاحیات یہیں مقیم رہیں۔

    دوسری Lady کون ہیں؟

    حضرت محل کے ساتھ ان کے چند فدائی بھی ساتھ آئے تھے انہیں میں سے ایک یہ بھی ہیں پرارڑنی دیوی ضبط نہ کر سکیں اور فرط محبت سے اس پر ہاتھ پھیرنے لگیں۔ دونوں کے ہاتھوں میں پیتل کے گنگن کسی انجانے رشتے کا اشارہ کر رہے تھے۔ لیکن وہ لوگ اس اشارہ کے بجائے راجاؤں سے متعلق ان کی معلومات پر حیران تھے۔

    اس پورے سفر میں یوراج نے پہلی بار زبان کھولی بھی تو حضرت محل کے مقبرے کو دیکھنے کی خواہش کی۔ حضرت محل کے مقبرے پر کندہ اشعار میں سے یہ شعر اسے بہت پسند آیا ۔

    لکھا ہوگا حضرت محل کی لحد پر

    نصیبوں جلی تھی فلک کی ستائی

    محل سے باہر نکلے تو دیکھا کہ شاہی پارک میں راجاؤں کے مجسمے توڑے جا رہے ہیں۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ یہاں پر سرکاری عمارت تعمیر کی جائےگی۔

    پوجا سے لوٹنے کے بعد کچھ دنوں تک سفر میں ہونے والے واقعا ت کے چرچے ہوتے رہے۔ جس میں ایک واقعہ اس پاگل شخص کا بھی ہوتا۔۔۔ جس نے لمبنی میں راجہ کو خوف زدہ کر دیا تھا۔۔۔

    اس کے بعد راج محل میں شادی کی تیاریاں ہونے لگیں۔ پراڑنی دیوی نہ چاہتے ہوئے بھی گھر کے ایک فرد کی طرح تمام رسموں میں شریک ہوتی رہیں۔

    ***

    پورا محل شہنائیوں سے گونج رہا تھا سفید اور نیلے رنگ کے کے پھولوں سے اس طرح سجا ہوا تھا گویا نیلگوں عرش نے اپنا حسن اسی سے مستعار لیا ہو۔

    پولیس نکہت قنبر کا فوٹو لئے ہوئے محل میں داخل ہوئی ’’ہمیں خبر ملی ہے کہ کچھ دن پہلے یہ lady راج محل میں ڈانس سکھانے آتی تھی۔‘‘

    ’’کلدیپ شاہ نے دھاک جماتے ہوئے کہا’’ کیا بکواس کرتے ہو؟؟

    مگر کمشنر پیچھے نہیں ہٹا اور فائل نکال کر سب کے سامنے پیش کر دی۔

    ’’سدھی آشرم میں ان کا پچپن گزرا تھا اور وہیں سے ہمیں یہ جنم درتا ملاہے۔ جس میں یہ نام لکھا ہے نکی بھوانی سنگھ پتری بہل مان سنگھ۔ ماتا شری پرارڑنی دیوی۔‘‘

    حیران و ششدر۔۔۔ سب کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔۔۔

    راجکماری سین نے ہکلاتے ہوئے پوچھا۔۔۔ کیا یہ پراڑنی دیوی کی بیٹی ہیں؟ ؟؟؟؟؟

    سورج کے لہو میں ڈوبی ہوئی شام آہستہ آہستہ سلگتی ہوئی رات میں ڈھلنے لگی تھی، سہمی سہمی فضاؤں نے چپ چاپ آنکھیں بند کر لی تھیں پورا محل خاموش تھا، نیلا آسمان، چمکتے ہنستے اور مسکراتے، چاند ستارے اور کائنات کی ہر چیز خاموش تھی۔ پراڑنی دیوی شادی کا کارڈ دکھا کر محل میں داخل ہوئیں تو چونک اٹھیں کہ شاید غلط جگہ آ گئی ہیں۔ یہاں تو کوئی شہنائی اور کوئی رقص نہیں ہے۔

    للت کمار اندر آیا اور راج ماتا سے کہا! ’’میم ساب یہ ڈائری باہر گاڑی کے پاس گری ہوئی تھی‘‘۔

    سنہرے الفاظ میں اس پر لکھا تھا پراڑنی دیوی۔ پہلا صفحہ۔ میں پرارڑنی دیوی، بہل مان، سنگھ کی دھرم پتنی نکی بھوانی سنگھ کی بدنصیب ماں۔ دادی جان کی قسمت میں ہی لکھا تھا کہ حضرت محل کے ساتھ ہجرت کریں۔ دادی کی محبت نے مجھے ماں سے الگ کر دیا۔ مگر دادی بھی تنہا چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے سو گئیں۔ دادی کے بعد میں ٹوٹ کر ریزوں میں بکھر گئی۔ اجنبی آشنا بنے، رحمان چھوڑ کر رام کی پچاری بنی۔

    دوسرا صفحہ۔ مجھ لاوارث کو نہ جانے کس کرم فرمانے للتاسندری کے ہاتھوں بیچ دیا اور انہوں نے بہل مان سنگھ سے شادی کر دی۔ اس کے بعد میرا دین و دنیا سب کچھ بدل گیا، پھر بھی چرخ نے چین نہیں لینے دیا، بیمار نکی کو گایتری منتر کا دھن سنا رہی تھی کہ بہل نشے میں آیا اور مجھے گھر سے نکال۔ پھر یہاں (ہندوستان) کی سرزمین نے مجھے قبول کر لیا۔اس طرح ہر رشتہ ایک ایک کرکے مجھ سے بچھڑ تا چلا گیا۔ ڈائری کا یہ صفحہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ کمشنرکے فون کی گھنٹی بجی۔۔۔ اس نے Speekar On کر دیا۔

    ’’کمشنر صاحب !Investigation کے بعد معلوم ہوا کہ راج کمار ایلن کالج کی ٹیچر شبانہ نکہت قنبر ہی نکی بھوانی سنگھ ہیں انہیں اپنا یہ اصل نام خود نہیں معلوم تھا۔ ایک آشرم کے مالک نے انہیں پال پوس کر بڑا کیا تھا اور اسی سے یہ خبر ملی ہے کہ نکی اس وقت .I. C. U میں ہیں۔‘‘

    اس طرح اچانک بجلی گرنے پرپرارڑنی دیو ی نے کان بند کرلئے اور بےخود ہوکر گر گئیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے