میرے حلق میں تمبوں کی کڑواہٹ اتری ہوئی ہے۔ دیکھ پرچھائیں۔۔۔ میری حیاتی میں سنھ لگاکر تو یہ کیوں چاہتی کہ میں تیری چاپلوسی کروں تجھے مکھن لگاٶں اور تو بھونگوں کی طرح میرے قدموں کی مٹی تلے کھڈیں نکال لے؟
دیکھ میں نے پہلے بھی تیری کسی ہم شکل کے سامنے اپنا من مارا تھا تو ہربار بھیس بدل کے کیوں آ جاتی ہے۔ یا شاید میری نِیہہ کی مٹی زیادہ کولی ہے۔ پر اگر مٹی کولی ہے تو یہ نا مراد ’’میں کیوں نہیں مرتی۔۔۔ آخر کیوں نہیں۔۔۔۔؟ کئی بار اسے سولی چڑھایا، بھانبڑوں میں راکھ کیا، دھول مٹی میں رول چھوڑا مگر یہ پھر بھی سانس لیتی ہے۔ اب مجھے لگتا ہے کہ یہ‘‘ میں اتنی فالتو بھی نہیں تھی۔ کہیں نہ کہیں اس کا مان رکھ کر میں اپنا اور۔۔۔۔ شاید کسی اور کا بھی بھلا کر سکتی تھی۔۔۔۔ شاید ابھی بھی کر سکتی ہوں۔
میں نے اپنے من کے اندر جھانک کر دیکھا تو ایک طرف بڑی خیر تھی خیر ہی خیر۔۔۔ نرمی نیکی بھلائی جو موتیوں جیسی سچل تھی۔۔۔ مگر وہیں پاس ہی بند ڈھکن کے ایک مرتبان میں اتنا شر بھرا پڑا تھا جسے کسی دوسرے خناس کی ضرورت نہیں۔
دیکھ وہ ڈھکن پڑا رہنے دے۔
اگر اسے اٹھائے گی تو نرا فساد مچےگا، مجھے اس مرتبان سے بڑا ڈر لگتا ہے۔
دریا کنارے ریت پر بیٹھی وہ عورت خود کلامی کے انداز میں مسلسل بڑبڑا رہی تھی کہیں اس کے الفاظ بے ربط تھے تو کہیں مربوط۔ چودھویں کا چاند وادیوں صحراٶں اور مرغزاروں میں ہر سو اپنی نرم نیلگوں چاندنی بکھیرے ہوئے تھا۔ اَسوج کی نیم خنک رات تھی اور خشک ٹہنیاں شوں شوں کرتی ہوا کے ساتھ نقارے بجارہی تھیں۔ دور کھیتوں سے گیڈروں کی مدھم آوازیں اور وقفے وقفے سے بھونکتے کتوں کی بھاری صدائیں ماحول پر وحشت طاری کیے ہوئے تھیں۔ پتن کے قریب ہی کچا گھڑا پڑا تھا۔ جانے کتنی مدتیں بیت چکی تھیں مگر یہ کچا گھڑا کسی نے نہ ہٹایا نہ بھٹی میں پکایا وہ چاندنی راتوں میں چمکتا اور اماوس کی گھور اندھیری راتوں میں ڈراٶنا ہو جاتا۔
ہاں کئی بار سنا ہے کہ چاندنی رات میں ذی شعور لوگوں پر بھی دیوانگی طاری ہو جاتی ہے۔ سمندر میں جوار بھاٹا اٹھتا ہے تنکے کہرے کے ساتھ لپٹے انجانی منزلوں کے راہی بن جاتے ہیں اور رات کی رانی کے مہکتے پودوں میں دومونہے سانپ بسیرا کر لیتے ہیں۔ میں نے اس کے بالمقابل بیٹھتے ہوئے کہا۔
اندیشے اندھیرے اور وسوسے عفریت ہوتے ہیں لڑکی اور خواہشیں وہ سنپولیے جنہیں چُلیاں بھر بھر دودھ پلاٶ تو بھی ڈستی ہی ہیں۔ اس نے کھوئے ہوئے لہجے میں کہا۔
کیا تم سوہنی ہو؟
نہیں
تو پھر کون ہو؟
وہ کمہارن جسے محبتوں نے ڈبویا، حسرتوں نے ڈسا اور انا نے زندہ رکھا ہے۔
بھلا کبھی محبتیں بھی ڈبوتی ہیں؟ میں نے حیرت سے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا۔
ہاں یک طرفہ محبت کچے گھڑے اور بہتی لہروں پر بنے آشیانوں نے ایک نہ ایک ڈوبنا ہی ہوتا ہے۔
کمہارنیں بہت خوبصورت ہوتی ہیں۔۔۔ یونہی تو مہینوال اپنا دیس تیاگ کر چناب کنارے بسیرا نہیں کر بیٹھا تھا۔
پتا نہیں ان کی مٹی میں کون سا فسوں ہوتا ہے کہ کئی حسن کوزہ گر زمانے بھر کی خاک چھانتے ایسی خاص مٹی کی تلاش میں گرد و غبار بن کر رہ گئے۔
شاید اس کمہارن کی بھی کوئی ایسی ہی داستان ہوگی۔
ہاں۔۔۔ شاید۔۔۔
مگر شاہدہ کوئی جہاں زاد نہ تھی وہ تو کمہاروں کی معمولی بیٹی تھی اس کے آباٶ اجداد نے چند پشتوں سے برتن بنانے کا کام چھوڑ کر کھیتی باڑی شروع کر دی تھی۔ دس بیگھے زمین دو بھوریاں اور دو نیلی راوی نسل کی بھینسیں بھی تھیں،گھر میں کھلا رزق تھا اور کھیتوں کی مٹی میں خوش حالی بسی تھی۔ مگر محض اچھی صورت کسی کمہارن کی ہستی کو معمولی کے درجے سے اوپر تو نہیں اٹھا دیتی۔ مگر پھر بھی اس کے اندر کچھ تو خاص تھا۔ جب چار کوس دور دوسرے گاٶں کے ہائی سکول میں پڑھنے جاتی تھی تو اس کی گلابی رنگت صبیح چہرے اور ہلکی شربتی آنکھوں کے سامنے صبح کی کرنیں، سبز کھیت ،بھرے کھلیان، کیا ربیع کیا خریف سبھی مانند پڑتے دکھائی دیتے۔ لامبا قد، بھرا بھرا گداز جسم، گندم کی بالیوں جیسے چمکیلے بال، نرم اور ہر وقت گرم رہنے والی ہتھیلیاں اکثر پسینے سے بھری رہتیں اور سڈول کلائیاں کبھی چوڑیوں سے محروم نہ ہوتیں۔
وہ اتنی دلیر تھی کہ گاٶں کے بہت سے لڑکے بالے بھی ایسے دلیر نہ تھے سکول جاتے کھیتوں کے بیچ پگڈنڈیوں پر چلتے دو تین بار اڑنے والا ہرا کچور سانپ اور ایک بار سنگچور بھی مار چکی تھی۔ کبھی کماد میں سے گزرتے جنگلی سٶروں کی آوازیں آتیں تو بھی اپنی راہ نہ بدلتی۔ سارے گاٶں میں ڈھاڈھی کے نام سے مشہور تھی۔ غصہ ناک پر دھرا رہتا۔ لیکن پھر بھی ایک مقام ایسا تھا جہاں اس کا سب غصہ کافور ہو کر حسرت و رنج میں ڈھل جاتا۔
اس کا بہت دل چاہتا کہ شہر میں رہے میٹرک کے بعد آگے کالج تک پڑھے جیسے اس کے ماموں کے بیٹے بیٹیاں پڑھتے ہیں۔ ہمیشہ کپڑے استری لگا کر پہنے مگر گاٶں میں اکثر بجلی بند رہتی۔ پھر بھی ایک آدھ جوڑا استری کر کے تہہ لگا کر بکسے میِں ضرور رکھا ہوتا۔۔۔ اسے باقی گھر والوں کے برعکس ساگ کھانے سے چڑ تھی اور مرغی کا بھنا گوشت پسند تھا۔ وہ جانے کب سے سے اپنے من کے صنم خانے میں ایک شہری بت کی مورت سجاکر اس کی پرستش کرنے لگی تھی۔ ایسا بت جس کا تن تو ماس کا تھا مگر من اس کے لیے محض ایک پتھر تھاـ شاہدہ جو ہمیشہ سے دلیر تھی بغیر جھجھکے اپنے دل کا حال اس ماموں زاد سے کہہ گئی۔ جانے کس آس میں مالٹے کی پھانک کی بجائے اس نے جنگلی تمبے کا ٹکڑا منہ میں ڈال لیا تھا۔۔۔ کمتر سمجھے گئے لوگوں کو یہ دنیا نہ محبت کا حق دیتی ہے نہ ہی پسندیدگی کا۔ اس نے شاہدہ کا وہ مذاق اڑایا کہ اس کے روئیں روئیں میں سدا کے لیے کڑواہٹ اتر گئی۔ معمولی کا لفظ کھرچ کھرچ کر روح پر لکھ دیا گیا۔
بےاختیاری میں محبت نا پسندیدہ شخصیت سے ہو جائے تو کیسی کڑی آزمائش ہے۔ اندر ہی اندر سیلی لکڑی کی مانند محبت سلگ سلگ کر عشق میں ڈھلی تو من کی اوکوں میں مشک بھرنے لگی۔ عشق کی مہک اس کے روئیں روئیں سے پھوٹی تو اس کی ماں کو بھی خبر ہوئی تب اس نے فیصلہ کیا کہ اپنے بھائی بھاوج سے بیٹی کی خوشیوں کے لیے دامن پھیلائے گی۔ شاہدہ نے ماں کا ارادہ جان کر اسے سختی سے سوالی بننے سے منع کیا کیونکہ جواب کا ادراک بہت پہلے ہی ہو چکا تھا۔ مگر وہ اپنے آپ سے سوال کرتی آخر انسان آسمانوں سے وسیع محبتوں کو پیمانوں میں ڈال کر کیوں ماپتا ہے۔ مال و زر، ذات پات اور رتبے کے باٹوں میں کیوں تولتا ہے۔ اگر وہ شہر والوں کے مطابق واقعی معمولی ہے تو پھر اس کے اندر غیر معمولی ہونے کا احساس کیوں ہے؟ وہ کیوں اپنے اردگرد موجود دوسرے لوگوں سے مختلف سوچتی مختلف چاہتی ہے؟
اکثر اسے آدھے سر کا درد اٹھتا تو نڈھال ہو جاتی۔ ماں باپ کو فکر ہوتی آخر سارے گاٶں سے زیادہ خوش شکل تھی تو کہیں اس کی موہنی صورت کو کسی کی نظر نہ لگ گئی ہو۔ کسی ویران راہگزر میں جن بھوت کا سایہ نہ پڑ گیا ہو۔ وہ ان کے اس خیال کو جھٹلاتے ہوئے کہتی، باشعور لڑکیوں کو جن بھوت نہیں چمٹتے بس سوچیں کھوکھلا کر دیتی ہیں۔ ’’کئی بار اس سر درد کے ساتھ کانوں میں بھی اتنا شدید درد اٹھتا کہ شدت کرب سے دہری ہوئی جاتی۔‘‘
میٹرک پاس کرنے کے بعد کالج جانے کا کوئی وسیلہ نہ بنا۔ تانگوں ریڑھوں کے پیچھے بھاگتے دھول اڑاتے گاٶں کے بچوں سے بیزار اس کی کوشش ہوتی کہ شہر اپنے ننھیال میں کسی دوسرے ماموں یا خالہ کے گھر وقت گزار آئے۔ اس قیام کے دوران دبے دبے طنز کے نشتر اس کی ذات پر برستے رہتے اور اس سنگ دل کی خصوصی تضحیک کا نشانہ الگ سے بنتی۔
پرانے وقتوں میں ہر چودھویں کے چاند کچھ لوگ دو موہنے سانپوں سے خود کو ڈسوایا کرتے تھے کیونکہ اس کے زہر میں انہیں ایک زود نشہ اور درد میں بےخودی کی عجیب لذت ملتی تھی۔ اِسی طرح وہ اپنی انا کو اس شخص کی تضحیک سے بار بار مجروح ہوتے چپ چاپ دیکھتی۔ شاید اس درد اور زہر میں کوئی نشاط تھا یا کوئی اور جاں فزا احساس؟ پھر اس کے بعد آدھے سر کے درد سے نڈھال سیلی چھال کی مانند سوں سوں سلگتی سرخ اور خشک آنکھیں ایک ہی منظر تکتی رہتیں۔
یہ انا بھی بڑی نا مراد ہے رونے بھی نہیں دیتی وار بھی سہتی ہے ختم بھی نہیں ہوتی۔ اور یک طرفہ محبت اس بھی بڑھ کر تکلیف دہ نہ یہ محبت جان چھوڑتی ہے نہ انا۔ میں کہاں جاٶں؟
دیکھ۔۔۔ مت روندو اسے کسی کے قدموں تلے۔ تم اتنی بھی معمولی نہیں۔
معمولی۔۔۔ اس لفظ سے تیز گھنٹیاں کان پھاڑنے لگتیں، ہاتھی چھنگھاڑنے لگتے ہواٶں کا شور آندھیوں میں بدل جاتا۔
تم بےوقعت کیوں ہو؟ مت تضحیک کرواٶ اپنی یہاں شہر میں بیٹھ کر۔جاؤ اپنوں میں لوٹ جاؤ ساگ روٹی کھاؤ۔ کھیتوں کے سبزے میں گھومو۔ یہ بے مراد محبت اس قابل نہیں کہ اس کی کی خاطر یوں رسوا ہوا جائے۔ وہ اکثر سوچتے ہوئے خود سے باتیں کرتی۔
ماموں زاد کی شادی اس کی کسی دوست سے طے ہو چکی تھی۔ تصویریں دیکھیں تو ایک نئی تلخی رگ رگ میں سرایت کر گئی۔معمولی نقوش اور پھیکی رنگت مگر تھی ورکنگ لیڈی۔۔۔ اسے بہت حسد ہوا پھریہ احساس شدت سے ابھرا کہ کوئی نقوش معمولی نہیں ہوتے۔ لیکن انسان کی قدر، اس کی محبت ہر عہد کے پیمانوں میں الگ طرز سے ماپی جاتی ہے۔ کاش وہ بھی کالج میں پڑھتی شہر میں رہتی۔ اپنے اس دور کے پیمانوں میں سے کسی پیمانے پر پوری اترتی۔
الجھے افکار اسے کسی بے آب و گیاہ دشت میں بھٹکاتے رہتے جہاں دریا کا کوئی کنارہ نہ ملتا۔ اگر کنارہ مل بھی جاتا تو دوسری جانب اس کا منتظر بھی تو کوئی نہیں تھا۔ بھلے کوئی منتظر نہ ہوتا مگر یوں معمولی ہونے کا طنز بھی تو نہ کرتا۔
شدید محبت اور شدید نا پسندیدگی کی دو انتہاٶں کے بیچ وہ ہچکولے کھاتی رہتی۔کبھی کوشش کرتی کہ اپنے رکھ رکھاٶ اور سلیقے سے خود کو مہذب و برتر ثابت کرے اور کبھی سوچتی کہ وہ اپنی زندگی کو کس دھارے پر متعین کرے؟ شہر جہاں اس کی شدید خواہش کے باوجود زمین تنگ تھی یا وہ گاٶں جس کی نرم مٹی میں اس کے لیے محبت و پزیرائی تھی مگر اسے گاٶں کی اس لگی بندھی زندگی کی چاہت تھی نہ ہی گاٶں میں بسنے والے ان کئی گھبرو جوانوں کی پروا جو اس پر مرتے تھے۔
ماں باپ نے خوب دیکھ بھال کر ان میں سے ہی کسی گھبرو سے اس کی نسبت طے کر دی تھی۔ اس لڑکے کے پاٶں خوشی سے زمین پر نہ ٹکتے مگر شاہدہ اس سے بے نیاز ہی رہی۔ ماں نے تنکا تنکا جوڑ کر اکلوتی بیٹی کا داج اکٹھا کیا تھا۔ وہ چشم تصور میں اپنی گوری چٹی سرخ رنگت والی بیٹی کو دلہن بنی سب کی آنکھوں کو خیرہ کرتے دیکھتی۔ لیکن اسے باقی سب لڑکیوں کی طرح شادی گھر داری اور کھونٹے سے بندھی بے زار زندگی گزارنے سے الجھن ہوتی۔ وہ سوچتی کسی طرح سہی وہ بھی اپنی زندگی بدلنے پر قادر ہوتی۔
انسان کی شخصیت اور صورت سب کے سامنے عیاں ہوتی ہے لڑکی۔۔۔ کوئی انسان کو خرید سکتا ہے بیچ سکتا ہے غلام بنا سکتا ہے، جنس بے مایہ سمجھ کر دھتکار سکتا ہے۔ مگر سوچوں اور خوابوں پر کسی کا اختیار نہیں خود خواب دیکھنے والوں کا بھی نہیں۔ نہ تو انہیں کوئی نوچ کر پھینک سکتا ہے نہ ہی ان کی تہہ تک پہنچ پاتا ہے۔
اس کے خواب اس کی سوچیں بھی ایک سربمہر راز تھیں جن تک کسی کی بھی رسائی نہ تھی۔ انہیں سوچوں سے اس کی رنگت کچھ زیادہ ہی سرخ ہونے لگی تھی سر کا درد بھی بار بار اٹھتا اور کانوں میں ڈھول بجنے لگتے۔ لوگ دیکھ کر کہتے شادی قریب ہے بہت روپ چڑھ رہا ہے رنگت کیسی سرخ و سفید نکھر رہی ہے۔
شدید سردی کا دن تھا۔ کہرے نے سبزے کو ڈھانپ رکھا تھا۔ وہ کئی دن سے سر کے درد سے نڈھال تو تھی ہی مگر اس دن آنکھوں کے آگے اندھیرا بھی چھانے لگا۔ سرخ اور خشک آنکھیں جو کبھی نہ روئیں تھیں بند ہوتی جا رہی تھی۔ بھاوج نے تلوٶں کی زور زور سے مالش کی گھر میں دہائی پڑی تو اس کا بھائی جلدی سے ٹریکٹر ٹرالی لے آیا کہ اس میں ڈال کر شہر علاج کے لیے لے جائیں۔
شاہدہ نے اپنی بھاوج کو اشارے سے کہا کہ ٹرنک سے استری شدہ جوڑا نکال کر لے آئے۔ معمولی حلیے میں وہ ڈاکٹر سے دوا لینے بھی کبھی نہ گئی تھی۔ بھاوج نے نیا جوڑا پہنایا اور ٹرالی میں پرالی کے اوپر چادر بچھا کر اس پر لٹا دیا۔
جب ٹرالی دریا کے پل پر پہنچی تو اس معمولی لڑکی نے جسے ہمیشہ غیر معمولی ہونے کا احساس ہوتا رہا، کی سانس اکھڑنے لگی۔ بھائی بھاوج گھبرا گئے ٹرالی روکی شور کم ہوا تو اکھڑی سانسوں میں اس نے شادی سے انکار کر دیا۔
وہ کیوں مرے کیوں جان گنوائے؟ کیوں نہ وہ اپنی زندگی کو الگ طرز سے جی کر دیکھے اپنے لیے جئے اپنے لیے مرے، خود سے بھی محبت کر کے دیکھے۔ اور اس کا بھائی خاموشی سے مان گیا۔
وہ اپنے گاؤں کے پرائمری سکول میں بچوں کو پڑھانے لگی۔ ہمیشہ کپڑے استری لگا کر پہنتی، بال سلیقے سے بنا کر رکھتی کتابوں اور خوشبوؤں سے محبت کرتی رہی۔
مگر وقت کسی کا لحاظ نہیں کرتا حسین سے حسین صورتیں ہوں یا تخت و تاج سب مٹی میں ملا دیتا ہے پس اس کے صبیح چہرے پر بھی جھریوں کا جال بچھ گیا۔ تنا ہوا سر جھکنے لگا اور کمر خمیدہ ہونے لگی۔
اب بھی چاندنی راتوں میں وہ دریا کے پتن پر جاتی ہے جہاں مدتوں سے ایک کچا گھڑا دھرا ہے۔ مگر دوسری پار شہر سے کبھی بلاوا نہیں آیا نہ کچے گھڑے کے ساتھ وہ اپنی میں کی بازی لگانے موجوں میں اتری۔ ابھی بھی رات کی رانی کے پھولوں میں دو مونہے سانپ سرسراتے ہیں ابھی بھی وہ محبت کے پرانے ذخموں میں اترے زہر کی تلخی محسوس کرتی ہے۔
میں پتن کے قریب دم بخود بیٹھی اس کی کہانی سنتی رہی اسی دوران بادل گھر گھر آنے لگے اور اسوج کا چاند بدلیوں میں چھپ گیا۔۔۔ شاید دور کہیں بارش بھی ہوئی تھی جو دریا میں پانی کی سطح بڑھ رہی تھی۔۔۔ ہر طرف گھور اندھیرا پھیلا ہوا تھا گیڈر اور جھینگر بھی خاموش ہو گئے تھے۔۔۔ میں نے گھڑے کی جانب دیکھا وہ وہیں پڑا تھا مگر اس کے قریب بیٹھی بوڑھی کمہارن اندھیرے میں کہیں گم ہو چکی تھی۔ میں نے بھی خاموشی سے اپنا گھڑا وہیں دھرا اور دریا کی مخالف سمت کو چل دی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.